ننھے چراغوں میں لَو کی لگن

پاکستان جیسے تیسری دنیا کے معاشروں میں مبالغہ آرائی سے ابھارا جانے والا فرد کا کردار نہ صرف سیاسی اور شعوری پسماندگی کو جنم دیتا ہے بلکہ بعض اوقات متعلقہ شخصیات کے لئے بھی وبال جان بن جاتا ہے۔ ملالہ یوسفزئی اس مظہر کی تازہ مثال ہے۔ اس بچی کو چھوٹی سی عمر میں سر پر گولی مار کر موت سے تقریباً ہمکنار کر دیا۔ پھر انتہائی زخمی حالت میں وہ پردیس جا پہنچی جہاں اس کو اور اس کے والدین کو شائبہ بھی نہیں تھا کہ سامراجی حکمرانوں کے پیار محبت میں کیا کیا مقاصد لپٹے ہوں گے۔

پاکستان میں ملالہ کے خلاف ملاؤں اور دائیں بازو کی جانب سے چلائی جانے والی زہریلی مہم سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ رجعت کس طرح سے معاشرے کو گھٹن میں مبتلا کئے ہوئے ہے اور خواتین کی طرف رویے کس حد تک تعفن زدہ ہوچکے ہیں۔ نہ صرف مذہبی جماعتوں بلکہ تحریک انصاف نے بھی پختونخواہ اسمبلی میں ملالہ کو نوبل انعام ملنے پر مبارکباد کی قرارداد کے راستے میں رکاوٹ ڈالی۔ پشاور یونیورسٹی میں اس کی کتاب کی تقریب رونمائی تک منعقد نہیں ہونے دی گئی۔

دوسری طرف گارڈن براؤن جیسے سامراجی رہنما جس تعلیم کے فروغ کے نام پر ملالہ کو استعمال کرنے کی کوشش کررہے ہیں، پاکستان کے بچوں کی رسائی اس تک ختم ہوتی چلی جارہی ہے۔ نوبل انعام دینے کے سیاسی، معاشی اور نظریاتی مقاصد کچھ اور ہی ہوتے ہیں۔ ان اعزازوں کی دلدادہ ’’سول سوسائٹی‘‘ اس حقیقت سے ناواقف ہے کہ تعلیم، ’’انسانی حقوق‘‘ اور ’’امن‘‘ کی علمبردار سامراجی قوتیں دنیا بھر کی طرح پاکستان میں سرمایہ دارانہ استحصال اور لوٹ مار کا جو بازار گرم کئے ہوئے ہیں اسی کا نتیجہ ہے کہ آبادی کی اکثریت ناخواندہ ہونے کے ساتھ ساتھ اتھاہ غربت میں غرق ہو چکی ہے۔ مغرب زدہ اصلاح پسند سول سوسائٹی اگر بے صبرے درمیانے طبقے کا ایک حصہ ہے تو اسی طبقے کی قدامت پرست پرتیں مذہب کے نام پر جو ’’نظام‘‘ مسلط کرنا چاہتے ہیں آج کے عہد میں اس کی معیشت بھی صرف سرمایہ داری پر مبنی ہوسکتی ہے۔ لہٰذا لبرل ازم اور قدامت پرستی کے تضادات سراسر جعلی، سطحی اور فروعی ہیں۔ ملالہ کو سامراجی ایجنٹ قرار دینا اگر ناانصافی ہے تو اس کو دئیے جانے والے اعزازات کو جواز بنا کر سامراجی وحشت کی طرف معذرت خواہانہ رویہ اپنانا بھی منافقت اور دھوکہ دہی ہے۔

ملالہ کے دیس میں بچوں، خصوصاً بچیوں کی حالت زار بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ ایم ایم اے ہو یا اے این پی، یا پھر تحریک انصاف کی حکومت، پختونخواہ کے باسیوں کی زندگی ہر عہد میں تنزلی کا شکار رہی ہے۔ یہی حالات نہ صرف پورے پاکستان بلکہ افغانستان سے لے کر برما تک، پورے جنوب ایشیا میں ہیں۔ پاکستان کی صورت حال بہر حال بدترین ہے۔ تعلیم کا مسئلہ ’’ملالہ فنڈ‘‘ کے نام پر ملنے والے خیرات سے تو حل ہونے سے رہا۔ ’’ مخیر حضرات‘‘ اور این جی اوز کی بھرمار ہے لیکن تعلیم کا حصول اور معیار مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔

اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے تحت اسلام آباد میں ہونے والی ایک کانفرنس میں یہ ہولناک انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچے سرے سے سکول ہی نہیں جاتے۔ جو بچے سکول میں داخل ہوتے بھی ہیں ان کی ایک چوتھائی تعداد ہی میٹرک تک پہنچ پاتی ہے، آدھے سے زیادہ بچے پرائمری سے پہلے ہی تعلیم ترک کردیتے ہیں۔ سکولوں کی حالت زار یہ ہے کہ پانی، بیت الخلا اور کلاس روم ہی موجود نہیں ہیں۔ نصاب تعلیم کی بات کی جائے تو فائیو سٹار تعلیمی اداروں، سرکاری اسکولوں اور مدارس میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

تحریک انصاف کی مخلوط حکومت کی روح رواں جماعت اسلامی نے پختونخواہ میں بہت سے موضوعات اور ابواب نصاب سے حذف کر دئیے ہیں اور سرکاری سکولوں میں ’’جہادی نصاب‘‘ رفتہ رفتہ ٹھونسا جارہا ہے۔ درست تاریخ اور ترقی پسند نظریات پہلے بھی نہیں پڑھائے جاتے تھے لیکن نصاب تعلیم اب مزید رجعتی بنایا جارہا ہے۔ ’’نئے پاکستان‘‘والے عمران خان کی پختونخواہ حکومت کی تعلیمی شعبے میں کارکردگی یہ ہے کہ تعلیمی بجٹ کا صرف 5 فیصد ترقیاتی کاموں پر صرف ہورہا ہے۔ 23 اکتوبر کو پشاور میں منعقد ہ ایک سیمینار میں پختونخواہ کے وزیر تعلیم کی موجودگی میں انکشاف کیا گیا کہ ’’ضلع نوشہرہ میں لڑکیوں کے 92 اور لڑکوں کے 90 سکولوں میں پانی دستیاب نہیں، اسی طرح لڑکیوں کے 111 اور لڑکوں کے 83 سکولوں میں بیت الخلا موجود نہیں ہیں۔ چارسدہ کے 316 سکولوں میں بجلی ہی نہیں ہے۔‘‘

لیون ٹراٹسکی نے اپنی شہرہ آفاق خود نوشت ’’میری زندگی‘‘ کا آغاز اس سوال سے کرتا ہے کہ ’’زندگی ہمیشہ کمزور کو نشانہ بناتی ہے اور ایک بچے سے زیادہ کمزور کون ہوسکتا ہے؟‘‘پاکستان میں 44 فیصد بچے شدید غذائی قلت کی وجہ سے نامکمل افزائش کا شکار ہیں یعنی ایک کروڑ دس لاکھ بچوں کی ذہنی اور جسمانی تکمیل نہیں ہو پائے گی۔ حکومت کے اپنے نیوٹریشن سروے کے مطابق 60 فیصد آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق 15 فیصد آبادی شدید قحط کی کیفیت کی دوچار ہے۔ تھرپارکر میں بھوک سے بچوں کی اموات بڑھتی ہی چلی جارہی ہیں۔ اس بھوک کی وجہ غذائی اجناس کی کمی نہیں ہے بلکہ لوگوں کے پاس غذا خریدنے کے پیسے نہیں ہیں۔ پانی کا بحران بھی شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق سندھ اور بلوچستان کے وسیع علاقے ایک دہائی کے اندر پانی سے مکمل طور پر محروم ہو جائیں گے۔

پولیو کا مسئلہ بھی گھمبیر ہوتا جارہا ہے۔ 26 اکتوبر کو جنیوا سے جاری ہونے والی WHO کی رپورٹ کے مطابق ’’پاکستان کا پولیو پروگرام ایک مکمل ناکامی ہے۔ اس سال پاکستان میں پولیو کے 217 کیس سامنے آئے ہیں جو عالمی سطح پر رپورٹ ہونے والے کیسز کا 85 فیصد ہیں۔‘‘ ملالہ کو نشانہ بنانے والے وحشی ملاؤں کے ہاتھوں اب تک پولیو کے قطرے پلانے والے 64 کارکنان ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ قاتل اور ان کے سرپرست امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور دوسرے مغربی ممالک کی پروردہ حکومت میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ ملالہ کو اعزاز پر اعزاز دینے والے سامراجیوں کو اس بات سے کوئی غرض ہے نہ اعتراز۔ اس حکومت نے تو جان پر کھیل کر پولیو کے قطرے پلانے والے محنت کشوں کو دو ماہ سے تنخواہ ہی نہیں دی ہے۔ پولیو کے جراثیم پاکستان سے بیرون ملک منتقل ہورہے ہیں جس کی وجہ سے پاکستانی شہریوں کا بیرونی سفر اور بھی مشکل ہو گیا ہے۔ بی بی سی کے سروے کے مطابق پاکستان ان دو ممالک میں سے ایک ہے جن سے دنیا میں سب سے زیادہ نفرت کی جاتی ہے۔

اس سماج کا ہر پہلو گراوٹ کا شکار ہے۔ بزرگ قابل علاج بیماریوں سے مر رہے ہیں، بچے تعلیم اور خوراک سے محروم ہیں، بیروزگاری بڑھتی چلی جارہی ہے لیکن حکمرانوں کو دیکھیں تو کسی اور ہی سیارے کی مخلوق لگتے ہیں۔ بنیادی انسانی ضروریات پر حکمران طبقے کا کوئی سیاست دان،تجزیہ نگار یا ’’دانشور‘‘ بات کرنے کو تیار نظر نہیں آتا۔ زندہ رہ کر بھی محرومی اور ذلت کے ہاتھوں ہر روز مرنے والے عوام کو حکمرانوں کی آپسی لڑائیوں ، آئینی اور قانونی پیچیدگیوں میں الجھانا میڈیا کا بنیادی کردار بن چکا ہے۔ زندگی سے بیزار ان کروڑوں زندہ لاشوں کو اس نظام کی اطاعت کا درس مغرب زدہ سول سوسائٹی بھی دیتی ہے اور ملاؤں کا بھی یہی اصرار ہے۔ کسی کے لئے ’’آزاد منڈی کے قوانین‘‘ مقدس ہیں تو کوئی ’’تقدیر‘‘ اور ’’صبر و شکر‘‘ کا درس دے رہا ہے۔ محنت کش عوام ہیں کہ زندگی کی تلخیاں جنہیں بچپن سے سیدھا بڑھاپے میں دھکیل دیتی ہیں۔ غریب کا بچہ غربت میں پیدا ہوتا ہے تمام عمر اسی غربت سے لڑتے ہوئے جان دے دیتا ہے۔ زیور تعلیم سے آراستہ ہوکر تکمیلِ ذات کے مواقع اس نظام نے بالادست طبقے کے لئے مختص کر دئیے ہیں۔ محنت کشوں کے بچوں سے ان کا بچپن ہی چھین لیا گیا ہے۔ فیض نے انہی کروڑوں بچوں کا ذکر اپنے ’’انتساب‘‘ میں یوں کیا تھا

پڑھنے والوں کے نام

و جو اصحاب طبل و علم

کے دروں پر کتاب اور قلم

کا تقاضا لئے، ہاتھ پھیلائے

پہنچے مگر لوٹ کر گھر نہ آئے

جو مفہوم جو بھولپن میں

وہاں اپنے ننھے چراغوں میں لو کی لگن

لے کے پہنچے جہاں

بٹ رہے تھے، گھٹا ٹوپ ، بے انت راتوں کے سائے

یہ اندھریرے نسل انسان کا مقدر نہیں ہیں۔ محنت کشوں کو اپنی تقدیر خود لکھنے کی فیصلہ کن جنگ لڑنا اور جیتنا ہو گی!

Source