کوبانی کی صورتحال پر عالمی مارکسی رجحان کا اعلامیہ - سامراجیت کے خلاف لڑو! کُردوں کا دفاع کرو!

داعش کے جنگجو ترکی اور شام کی سرحد پر محصور قصبے کوبانی کے قریب ہو تے جارہے ہیں۔ ہزاروں خوفزدہ کُرد کمک اور رسد لانے کے لیے ترکی چلے گئے ہیں لیکن انہیں ترک فوج کی رکاوٹ کا سامنا ہے جو انہیں کمک، رسد اور ہتھیار سرحد پار لے جانے سے روک رہی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب دنیا تماشائی بنی ہوئی ہے، کوبانی کے عوام ایک ناقابل بیان قتل عام کے خطرے سے دوچار ہیں۔

کُرد مظاہرین پورے یورپ میں احتجاج اور گھیراؤ کر رہے ہیں۔ خود ترکی میں شدید احتجاج اور پولیس سے خونی جھڑپیں ہوئی ہیں۔ دیاربکیر میں دو آدمی اس وقت قتل کردیئے گئے جب اسلامی گروپوں نے مظاہرین پر گولی چلا دی، جبکہ استنبول میں پولیس کی جانب سے آنسو گیس کے شیل سے ایک شخص ہلاک ہوا۔ اب تک بیس افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ کُرد مطالبہ کر رہے ہیں کہ امریکی سربراہی میں اتحاد ی افواج داعش کے ٹھکانوں پر ہوائی حملے تیز کریں اور ترک فوج سرحد کھول دے تاکہ شام میں موجود ان کے ساتھیوں کو کوبانی کے ذریعے کمک، رسد اور جنگی ساز و سامان پہنچ سکے۔ لیکن یہ توقع رکھنا فضول ہے۔

ترک فوج نے اس کے جواب میں بے رحمانہ انداز میں سرحد کو بند کر کے شام کے اندر داخل ہونے والے ترک کُردوں اور ترکی کے اندر داخل ہونے کی کوشش کرنے والے شامی پناہ گزینوں پر آنسو گیس اور ربڑ کی گولیا ں برسائیں۔ ترک حکومت کے عزائم سے باخبر کسی بھی شخص کے لئے یہ حیرت کی بات نہیں۔ داعش کے ساتھ ترک حکومت کے یارانے روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ اردگان کو بہت خوشی ہوگی کہ YPG (عوامی حفاظتی یونٹ) کو داعش کچل دے اور اگر اس دوران کوبانی کے عوام کا قتل عام ہوتا ہے تو اسے تو روکا نہیں جا سکتا۔ یہ ان تمام کُردوں کے لیے ایک سبق ہوگا جو ترکی کو اپنا آقا اور مالک ماننے سے انکار کرتے ہیں۔

ترک حکومت (ماضی کی سلطنت عثمانیہ کی منافقت کے سردار) احتجاج کر تی ہے کہ وہ خوشی سے سرحد کو کھول دے گی اگر شامی کُرد سلجھے ہوئے ہوں اور انقرہ کی اس شرط کو مان لیں کہ اپنے خود مختار علاقوں سے دستبردار ہو جائیں، آزاد شامی فوج (FSA) میں شامل ہو جائیں اور شمالی شام (مغربی کردستان) میں ترکی کو ’’بفر زون‘‘ بنانے دیا جائے۔ ان منافقت آمیز شرائط سے ترکی کے اصل عزائم کا پتہ چلتا ہے۔ اردگان کی یہ خواہش ہے کہ مغربی کردستان میں کُردوں کی خودمختاری کو کچل دے جو جولائی 2012 ء میں بشارالاسد کی فوج کے نکلنے کے بعد قائم ہوئی تھی۔

شامی کُردوں کو بچانے کے لیے ترکی سے مداخلت کی اپیل کرنا ایسا ہی ہے جیسے لومڑی سے یہ کہا جائے کہ وہ مرغی خانے میں جاکر مرغیوں کی حفاظت کرے۔ اردگان کوبانی میں موجود YPG ملیشیا کی کبھی بھی مدد نہیں کر ے گا کیونکہ وہ بائیں بازو سے تعلق رکھتے ہیں اور ترک PKK کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اس نے یہ بات واضح طور پر کہی ہے کہ وہ ایک مجتمع کردستان پر داعش کی حکمرانی کو ترجیح دے گا۔ ترک صد ر نے کہا ہے کہ وہ داعش اور PKK (کردستان ورکرز پارٹی) کو بنیادی طور پر ایک ہی سمجھتے ہیں۔ اس لئے ترک پارلیمنٹ کا ترک فوج کو شام میں ’’دہشت گردو ں‘‘ پر حملہ کرنے کی اجازت دینے کامبہم فیصلہ اتنا داعش کے خلاف نہیں جتنا شامی کُردوں کے خلاف ہے۔

کُردوں کی مدد کرنے کے لیے ترکی اور اس کے سامراجی پشت پناہوں سے اپیل کرنے کی بجائے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ کُردوں کو وہ ضروری ذرائع فراہم کئے جائیں تاکہ وہ اپنی مدد خود کر سکیں۔ کیونکہ آخری تجزیے میں کُرد کاز کے لیے لڑنے والے حقیقی لوگ خود کُرد ہی ہیں۔

رد انقلابی داعش کا ٹولہ صرف کُردوں کا دشمن نہیں ہے۔ وہ محنت کش طبقے اور تمام ترقی پسند عناصر کا بھی دشمن ہے۔ رجعت کے سیاہ پرچم تلے وہ جمہوریت، تعلیم اور ثقافت کے تمام نقو ش مٹانے پر تلے ہوئے ہیں۔ عالمی محنت کش طبقے کا یہ فرض ہے کہ وہ ان رد انقلابی عفریتوں کے خلاف لڑنے والی قوتوں کا ساتھ دیں۔

لیکن اس کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ ہم سامراجیوں اور نیٹو کے اقدامات کی حمایت کریں۔ سامراجیوں کے رویوں سے منافقت کی بو آتی ہے۔ وہ خوداسد کی حکومت کو گرانے کے لیے رجعتی جہادی گروہوں کو مسلح کرنے، ان کی حوصلہ افزائی اور مالی امداد فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ اس قابل نفرت سازش کا الٹا نتیجہ نکلا جو ناگزیر تھا۔ سامراجیوں نے ایسی خوفناک قوتوں کو پیدا کیا ہے جو ان کے قابو میں نہیں ہیں۔ اب انہیں گو مگو کی کیفیت کا سامنا ہے۔

ایک پاگل کتا اپنے کھلانے والے ہاتھ کو کاٹ سکتا ہے۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہو رہا۔ ہمیں یاد ہے کہ افغانستان میں ’’کمیونزم ‘‘ کے خلاف جنگ میں سی آئی اے نے القاعدہ اور اسامہ بن لادن کو مسلح کیا، ان کی حمایت کی اور مالی امداد دی۔ جب تک وہ روسیوں کو قتل کر رہے تھے تو ان کو ’مجاہد‘ کے طور پر پیش کیا جا تا تھا لیکن جب انہوں نے امریکیوں کو قتل کرنا شروع کیا تو وہ ’دہشت گرد‘ بن گئے۔ اب واشنگٹن میں موجود لوگوں کو داعش کو شکست دینے کا راستہ تلاش کرنا ہے لیکن وہ نہیں جانتے کہ کیسے۔ امریکہ اور برطانیہ میں لوگ بیرونی فوجی مہم جوئیوں سے تنگ آچکے ہیں اور سیاست دانوں کو رائے عامہ کی کیفیت پر مسلسل نظر رکھنا پڑتی ہے۔

ان سب کا اصرار ہے کہ ’’ میدان میں کوئی فوجی نہیں اتاریں گے ‘‘ (یعنی امریکی یا برطانوی فوجی )۔ یہ کام ’’ نشانہ وار فضائی حملوں ‘‘ کے ذریعے ہوگا جس میں، ان کے مطابق، کوئی معصوم شہری نہیں مریں گے۔ لیکن ہر کسی کو پتہ ہے کہ اس جنگ کو یا کسی بھی جنگ کو صرف فضائی حملوں سے نہیں جیتا جاسکتا۔لازمی چیز زمین پر موجود فوج ہی ہے۔واحد سوال یہی ہے کہ ’’کس کے فوجی ؟‘‘ YPG اور PKK کے جنگجوؤں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ داعش کے خلاف منظم ہیں اور بہادر سے لڑ رہے ہیں۔ لیکن ایک مسئلہ ہے۔ وہ بائیں بازو سے تعلق رکھتے ہیں اور ترکی میں موجود PKK سے گہرے مراسم رکھتے ہیں جسے انقرہ (واشنگٹن اور یورپی یونین بھی ) ’’دہشت گرد‘‘ تنظیم گردانتی ہے۔

امریکی اور یورپی حکمرانوں کو YPG/PKK کو داعش کے خلاف اپنی جنگ میں مہروں کے طور پر استعمال کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ لیکن کوبانی میں چند ہزار کردوں کے لیے وہ نیٹو کے ممبر ترکی کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ اسی دوران، اردگان نے داعش کے ساتھ دوستانہ مراسم رکھے ہوئے ہیں جن کو سعودی عرب اور دوسری امیر خلیجی ریاستوں سے ہتھیاروں اور پیسوں کی بیش بہا کمک مل رہی ہے۔ اگرچہ وہ زبانی طور پر داعش کے خلاف امریکی سربراہی میں اتحاد کا حصہ ہیں۔

ایک اندھے کو بھی پتہ ہے کہ ترک حکومت کوبانی کے عوام کی مدد کی کسی بھی کوشش کو سبوتاژ کر رہی ہے۔ جبکہ نام نہاد ’’عالمی برادری‘‘ ترکی، سعودی عرب اور دوسرے ’’اتحادیوں‘‘ کی جانب سے داعش کومدد فراہم کرنے کے کردار کو نظر انداز کر رہی ہے۔ شام میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ترکی کی مبینہ رضامندی کا اصل مطلب شامی علاقوں پر قبضے کی تیاری اور YPG کو کچلنا ہے۔

پی کے کے (PKK) کی قیادت نے نام نہاد ترک کرد امن معاہدہ کے ذریعے اپنے آپ کو دھوکہ دیا جو اپنے آغاز سے ہی ایک مذاق تھا۔ 2013ء میں چند جھوٹے وعدوں کے بدلے PKK نے یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا اور ترکی سے اپنے بیشتر جنگجوؤں کو نکال لیا۔ PKK کا رہنما عبداللہ اوجالان ترکی میں ابھی تک قید ہے اور چند کاغذی اصلاحات، جن سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔

یہ اوجالان اور PKK کے رہنماؤں کی شدید نادانی تھی کہ انہوں نے اس بات پر یقین کر لیا کہ اردگان صدق دل سے کچھ کرے گا۔ اس منافق بورژوا سیاست دان نے عراق میں کُرد رہنماؤں سے اچھے تعلقات بنائے ہیں تاکہ وہاں کے تیل تک رسائی حاصل کر سکے اور شمالی عراق میں ترک علاقے کو ترکی کی گماشتہ ریاست میں تبدیل کر سکے۔ لیکن شام اور ترکی کے کُردوں کی طرف اس کا رویہ تبدیل نہیں ہوا۔

اب اردگان کا مسکراتا ہوا نقاب اتر گیا ہے اور ترک مطلق العنانیت کا ظالم چہرہ سامنے آگیا۔ امن مذاکرات کے خاتمے سے نا گزیر طور پر PKK کی طرف سے حملوں کا دوبارہ آغاز ہوگا۔ اوجالان نے خبر دار کیا ہے کہ امن مذاکرات کا انحصار کوبانی میں ہونے والے واقعات پر ہے۔ اس نے ترکی سے کہا ہے کہ وہ شہر کے سقوط کو روکے۔ لیکن اردگان پر اعتبار کرنا حماقت ہے۔

اس کے برعکس، ترک رہنما کی شدید خواہش ہے کہ کوبانی کا سقوط ہو اور اس کے حقیقی اتحادی داعش کی فتح ہو۔ شہریوں کے قتل عام اوراس کے نتیجے میں مغربی دارالحکومتوں کی طرف سے ہونے والی منافقانہ واویلوں سے اسے اُس کام کے لیے بھر پور بہانہ ملے گا جو وہ لمبے عرصے سے کرنا چا ہ رہا ہے یعنی ترک فوج کو بھیج کر کوبانی اور گردونواح پر قبضہ کرنا اور ترک کنٹرول میں بفر زون کا قیام۔ یہ شام پر ترک حملے کے مترادف ہوگا۔

واشنگٹن، لندن، پیرس اور برلن میں موجود ڈھیٹ منافق لوگ اس بات پر زیادہ واویلا نہیں کریں گے۔ وہ پہلے سے ہی یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’بفر زون‘‘ کے خیال پر غور کیا جا سکتا ہے۔ یقیناًیہ شام کی قومی سلامتی کی خلاف ورزی ہوگی۔ لیکن اس طرح کے چھوٹے چھوٹے مسئلے انہیں عراق یا افغانستان پر حملے سے نہ روک سکے اور نہ اب روکیں گے۔ ترکی کی طرف وہ ایک ہڈی پھینکیں گے اور اپنا کام نکلوا لیں گے یعنی شام کے اندر ’’زمین پر ترک فوج ‘‘۔ لیکن یہ فوج شامیوں یا کُردوں کو آزاد کرنے کے لیے نہیں بلکہ کُرد خودمختاری کے تمام نقوش کو مٹا نے کے لیے ہو گی۔ وہ شام کے لوگوں کو کچلیں گے اور وہ ایک نئے ظالم کے رحم و کر م پر ہوں گے۔

اردگان اور اس کے شامی ٹولے کی جارحانہ پالیسی نہ صرف شام بلکہ ترک عوام کے لیے بھی نئی تباہیوں کا پیش خیمہ ہوگی۔ ترکی میں ہونے والے پر تشدد مظاہرے مستقبل کے واقعات کی خبر دے رہے ہیں۔ اردگان کے سامراجی عزائم اور شام میں مداخلت کے براہ راست نتیجے میں وہاں ہونے والی خونی خانہ جنگی آسانی سے ترکی میں اُمڈ آسکتی ہے۔ ’’امن عمل ‘‘ کے انہدام اور شام میں کردوں کے قتل عام پر کُردوں کا غم و غصہ نئے اور خونی واقعات میں اپنا اظہار کرے گا۔

ان سطروں کی تحریر کے وقت کوبانی کی قسمت ڈانواں ڈول ہے۔ آخری وقت میں جب داعش کی قوتیں شہر میں داخل ہوچکی تھیں، اور عالمی رائے عامہ کے دباؤ میں جو یہ نہیں سمجھ رہے تھے کہ کردوں کو بچانے کے لیے کیوں کچھ نہیں کیا جا رہا، نیٹو نے کچھ غیر مؤ ثر فضائی حملے کیے۔ یہ داعش کی پیش قدمی کو نہ روک سکی ہے اور درحقیقت ان کا کردار خالصتاً کاغذی ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ نے وہ اعلان کیا جو سب کو پہلے سے پتا تھا کہ ’’ صرف فضائی حملوں سے کوبانی کے سقوط کو نہیں روکا جا سکتا۔ ‘‘ وہ کہتے ہیں کہ صرف زمینی فوج ہی داعش کو شکست دے سکتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ یہ زمینی فوج کہاں سے آئے گی ؟ تر ک ٹینکوں کو سرحد پر کھڑا کیا گیا ہے لیکن وہ داعش کے خلاف لڑنے کے لیے، جس کا انہوں نے وعدہ کیا ہے، آگے نہیں بڑھ رہے۔ ترک حکومت لمبے عرصے سے شام میں اپنے مکروہ مقاصد کے لیے داعش کی مدد کر رہی ہے۔ وہ صرف اپنی قصداً بے عملی کے ذریعے ہی داعش کی مدد نہیں کر رہے۔ وہ سرگرم انداز میں کوبانی کے محصور محافظوں کو جنگی سازوسامان اورکمک کو روک رہے ہیں جبکہ داعشی جہادیوں کو شام جانے کی مکمل آزادی دی جاتی ہے۔

جس طرح بھوکے گدھ اپنے شکار کے مرنے کا انتظار کرتے ہیں اسی طرح ترک رہنما شہر کے سقوط کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ وہ آگے بڑھ سکیں۔ ترک حکومت کی خود غرضانہ ملی بھگت اور نیٹو کی قصداً بے عملی کے ذریعے شہر میں رجعت کا سیاہ پرچم پہلے ہی لگ چکا ہے۔ اگر داعش کے وحشی کُرد جنگجوؤں کی جوانمردانہ مزاحمت کو شکست دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ لوگوں سے ایک خونی بدلہ لیں گے اور اس کی تمام تر ذمہ داری واضح طور پر انقرہ میں بیٹھے ہوئے غنڈوں اور نام نہاد ’’ عالمی برادری ‘‘ میں موجود ان کے حمایتیوں پر عائد ہوگی۔

YPG کے جنگجوؤں نے بہادری سے لڑائی لڑی ہے لیکن ان کے پاس جنگی سازوسامان ختم ہو رہا ہے جبکہ داعش کے پاس بہتر امریکی ساختہ ہتھیار، بشمول ٹینک اور توپیں ہیں جو انہوں نے عراقی فوج سے قبضے میں لی تھیں۔ اس دوران، ترک حکومت اور امریکی سربراہی میں اتحاد تماشائی بنے ہوئے ہیں اور داعش کے جلادوں کو شہر میں خون خرابے کی چھوٹ دی ہوئی ہے۔

درحقیقت، امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے واضح طور پر کہا ہے کہ کوبانی پر داعش کے قبضے کو روکنا امریکی اسٹریٹیجک مقاصد میں شامل نہیں ہے۔ کیری نے برطانوی وزیر خارجہ کے ساتھ پریس کانفرنس میں کہا کہ ’’جو کچھ کوبانی میں ہو رہا ہے وہ یقیناًخوفناک ہے۔ (مگر بعض اوقات) اسٹریٹیجک مقاصد کو سمجھتے ہوئے پیچھے بھی ہٹنا پڑتا ہے ۔ ۔ ۔ کوبانی کے بحران کے باوجود، ہماری کوششوں کا اصل مقصد کمانڈ اور کنٹرول کے مراکز اور انفراسٹرکچر ہیں۔ ہم داعش کو نہ صرف کوبانی بلکہ شام اور عراق میں اس طرح کی کاروائی کی صلاحیت سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

آنے والی تباہ کاری کو مد نظر رکھتے ہوئے، کُرد عوام کو ضروری نتائج اخذ کر نا ہونگے۔ یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ سامراجی کُرد قومی جدوجہد کی مدد کریں گے جنہوں نے ہمیشہ اپنے خود غرضانہ مقاصد کے لیے کُردوں کو استعمال کیا ہے اور استعمال کرنے کے بعد گندے کپڑے کی طرح پھینک دیا ہے۔ ان پر کسی طرح بھی اعتبار نہیں کر نا چاہئے۔

اسی طرح جرائم پیشہ ترک حکمران ٹولے (جو قتل، تشدد اور محنت کش طبقے اور کُردوں پر جبر کے ماہر ہیں) کے ساتھ مذاکرات پر بھی اعتبار نہیں کرنا چاہئے۔کُرد عوام کو اپنے حقوق اور قومی آزادی کی جدوجہد میں اپنے زورِ بازو پر انحصار کرنا ہو گا۔ اور اس جنگ میں ان کا واحد حقیقی اتحادی استحصال زدہ ترک اور عالمی محنت کش طبقہ ہے۔

کُردوں کے جائز قومی اور جمہوری مطالبات کو پورا کرنے کی پہلی شرط مشترکہ دشمن کے خلاف ترک محنت کش طبقے کے ساتھ جد وجہد کے لیے متحدہ محاذ بنا نا ہے۔ اردگان اور اس کے ٹولے کے جبر اور استحصال کا شکار صرف کُرد نہیں ہیں۔ گزشتہ موسم گرما میں ہونے والے عظیم مظاہروں، جس نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا اور جو وقفے وقفے سے ہو تے رہتے ہیں، نے دکھا دیا کہ محنت کش طبقہ بد عنوان اور حریص حکمران ٹولے کو اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ آخری تجزیے میں، ترکی میں قومی سوال کا حل سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکنے کے تناظر سے براہ راست جڑا ہوا ہے۔

عالمی مزدور تحریک کو شامی کردوں کے دفاع کے لیے نکلنا ہو گا جن کو قتل عام کا سامنا ہے۔ کردوں کی حمایت میں مظاہروں اور ریلیوں کا اہتمام کرنا چاہئے۔ اس لمحے امریکی سربراہی میں اتحاد کو کسی بھی طرح کی حمایت، باالواسطہ یا بلاواسطہ، نہیں دینی چاہئے۔ داعش اور دوسرے جہادی عفریتوں کی تخلیق کا ذمہ دار سامراج ہے۔ ان کے خلاف سنجیدہ جد وجہد میں ان پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا اور وہ کردوں، شامی عوام، فلسطینیوں یا مشرق وسطیٰ میں کسی کے بھی خیر خواہ نہیں ہیں۔

ہمیں منظم طریقے سے ترک حکمران ٹولے کی مجرمانہ اور جارحانہ پالیسیوں کو بے نقاب کرنا چاہئے جو نیٹو سامراجیوں کی حمایت اور اسی لمحے داعش کے ساتھ سازش کے ذریعے شام میں اپنے خود غرضانہ مفادات کی تکمیل کے لئے دوغلی پالیسی پر چل رہے ہیں۔ ترک حکومت پر بھرپور دباؤ ڈالنا چاہئے کہ وہ سرحد کو کھول دے تاکہ محصور شہر تک ہتھیار اور کمک پہنچ سکے۔ لیکن ہمیں ہر طرح سے ’’بفر زون‘‘ کی تجویز کی مخالفت کر نی ہوگی، جو حقیقت میں شام پر ترکی کے حملے کے مترادف ہے۔

دنیا بھر کے محنت کشو! کُردوں کے قتل عام کے خلاف اپنی آواز بلند کرو !

ترکی اور اس کے نیٹو حمایتیوں کے مجرمانہ اقدامات کے خلاف جنگ لڑو!

مزدور تحریک شام میں کُرد مزاحمت کی مدد کے لیے چندہ اکٹھا کرے !

روجاوا (شام میں کرد علاقہ) میں کرد جنگجوؤں کو رد انقلابی جہادیوں، ترک جارحیت اور سامراج کے خلاف لڑنے کے لیے مسلح کیا جائے!

یورپی یونین اور امریکہ میں کردستان ورکرز پارٹی کو دہشت گردتنظیموں کی فہرست سے نکالا جائے !

کرد قومی مسئلے کے ایک منصفانہ اور جمہوری حل کے لئے !

شام اور عراق میں مداخلت بند کرو!

سامراجیت مردہ باد !

دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ !

Translation