وکی لیکس۔ عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

Urdu translation of WikiLeaks Exposes the Secret Dealings of the Empire, Washington Hits Back (December 9, 2010)

مائیک پیلاسیک ۔ ترجمہ :اسدپتافی

چنگاری ڈاٹ کام،25,12,2010

پچھلے سال سے دنیا بھر کی حکومتیں وکی لیکس ویب سائٹس کی جانب سے کئے جانے والے متعدد انکشافات کی وجہ سے لرزرہی ہیں۔پہلے پہل تو افغانستان میں ہزاروں فوجیوں کے حوالے سے انکشافات ریلیز ہوئے پھر عراق کے بارے اور پھر تو چل سو چل ،سفارتکاری کی ایسی ویسی داستانیں سامنے آتی گئیں اور آرہی ہیں کہ ہوش اڑگئے ۔اب جبکہ وہ اس وقت شہرت کی بلندی پر پہنچ چکاہے، ویب سائٹ کے ترجمان اور ایڈیٹر انچیف جولیان اسانجے کو گرفتار کرلیاگیا ہے۔جولیان کو اب امریکی حکومت نے ہر قانونی اور غیرقانونی ہتھکنڈے سے اپنے نشانے پر رکھ لیاہواہے ۔لاکھوں کروڑوں آنکھیں اب اپنی اپنی حکومتوں کے بارے تلخ حقائق کو دیکھ رہی ہیں ۔اور یہ بات کسی طور خارج از امکان نہیں ہے کہ جولیان کی زندگی اب داؤ پر لگ چکی ہے ۔ داستانیں ہیں لب عالم پر وکی لیکس نے چار سال قبل اپنی ابتدا کی تھی ،اور تب سے یہ ایک گھریلو چیز کی حیثیت اختیار کرتے ہوئے ایک جاناپہچانا نام بن گیا۔ایک غیر منافع بخش آرگنائزیشن کے طورپر اس سائٹ نے کئی اہم ایوارڈ جیتے جن میں ’’اکانومسٹ‘‘میگزین کا ’’نیو میڈیا ایوارڈ‘‘ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کا ’’برطانوی میڈیا ایوارڈ‘‘قابل ذکر ہیں ۔اس ویب سائٹ کی حدود کھلی ڈلی ہیں اور آپ بآسانی اس تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں ۔اگر آپ کو کارپوریشنوں یا حکومتوں سے متعلق دستاویزات درکار ہیں جو کہ عوام سے خفیہ یا پوشیدہ ہوتی ہیں تو وکی لیکس انہیں بلا توقف شائع کردیتی ہے ۔ اپنے اجرا کے پہلے سال ہی وکی لیکس نے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس بارہ لاکھ ’’افشا شدہ‘‘ دستاویزات کا ذخیرہ جمع ہو چکاہے ۔دسمبر2007ء میں وکی لیکس اس وقت شہ سرخیوں کی زینت بنی جب اس نے گوانتاناموبے کے زنداں نامے کے بارے میں انکشافات دنیا پر کھول دیئے۔ معلومات میں بتایاگیا کہ امریکی فوجیوں کو کہا گیا کہ وہ ’’ریڈ کراس‘‘ کو، ایک باری میں،قیدیوں سے ملنے کیلئے ، چار ہفتوں تک کیلئے روک سکتے ہیں ۔دستاویز نے قیدیوں کی حالت زار بارے اور ان کی منظم طریقے سے ہتک وہزیمت پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی تھی۔یہ قید خانہ پہلے سے ہی اپنے قانونی ہونے کے بارے شکوک وشبہات کی زدمیں آیاہواتھا ۔اطلاعات اور معلومات کی اس عوامی رسائی نے اس قیدخانے کے منتظمین کے ماتھے پر پسینے ابھاردیے تھے اور یہ محض وکی لیکس کی ابتدا تھی۔ اگلے دوسالوں کے درمیان وکی لیکس نے سارا پالن کی ای میلز ،برٹش نیشنل پارٹی کی ممبر شپ،افریقہ میں مضر صحت مواد کے ضیاع کے حوالے سے منٹن رپورٹ،ماحولیاتی تحقیق کے یونٹ کی ای میل تفصیلات اور بے شمار دیگر حساس دستاویزات کو عام کیا۔خاص اور حساس معاملات کے عام ہونے نے اپنے اثرات مرتب کرنے شروع کر دیئے ۔انہوں نے ساراپالن کو پکڑااور یہ عیاں کردیاکہ وہ اپنے ذاتی ای میل کو سرکاری کام کاج کیلئے کام میں لاتی ہے اور یوں وہ پبلک سروس قانون کی دھجیاں اڑارہی ہے۔ وکی لیکس نے ہی یہ راز طشت از بام کیا کہ بے شمار پولیس افسران اور فوجی افسران فار رائٹ متعصب نسل پرست تنظیمBNPکے باقاعدہ ارکان تھے ۔وکی لیکس نے گیارہ ستمبر2001ء کی صبح کو نیویارک کے اردگرد بھیجے جانے والے لگ بھگ پانچ لاکھ پیجر پیغامات بھی شائع کردیے ۔ مارچ2010ء میں وکی لیکس نے واضح طورپر امریکی حکومت کو اپنے نشانے پر لینے اور رکھنے کا سلسلہ شروع کردیا۔اس نے امریکی حکومت کے کاؤنٹر انٹیلی جنس ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ کی ایک تجزیاتی رپورٹ لیک کی ۔یہ32صفحات پر مبنی ایک دھمکی آمیز دستاویز تھی جو کہ وکی لیکس کے بارے میں تھی۔اپریل2010ء میں تو وکی لیکس نے ایک بم گرادیا۔یہ ایک ویڈیو فلم تھی جو کہ عراق میں امریکی حملہ آور ہیلی کاپٹروں کے بارے تھی جسے’’ دوستانہ بمباری ‘‘کا نام دیاگیاہواتھا ۔اس میں دکھایاگیاتھا کہ امریکی ہیلی کاپٹر نہتے اور بے بس صحافیوں پر فائرنگ کررہے ہیں جس کی زدمیں آکر پندرہ صحافی ہلاک ہوگئے ،ان میں عالمی خبررساں ادارے’’رپورٹرز‘‘کے بھی دو نمائندے شامل تھے ۔اس ویڈیو نے امریکہ کی معاملات بارے طرزواسلوب کو سوالیہ نشان بنا دیا اور ایک بحث چھڑ گئی۔پنٹاگان نے ہیلی کاپٹر کے عملے کے خلاف کوئی تفتیش یا کاروائی کرنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیاکہ انہیں یہ اطلاع دی گئی تھی کہ یہ ہلاک شدگان اور ان کے ساتھی امریکیوں پر حملے کرنے والے ہیں۔وکی لیکس نے اپنی کرنیاں جاری رکھیں ۔کچھ ہی مہینے کے بعد انہوں نے افغان جنگ کے بارے میں ہزاروں دستاویزات شائع کر دیں ۔ان دستاویزات میں بہت سے واقعات کو تذکرہ تھا ۔ جن میں سے کئی ایک تو سویلین اوربے گناہ افغانوں کی ہلاکت سے متعلق تھے اور جن کے منظر عام پر آنے سے اتحادی افواج کے جنگی جرائم کے بارے میں بحث مباحثے عام ہونے لگ گئے۔ انہی دستاویزات میں ہی’’ ٹاسک فورس 373‘‘ کا ’’راز‘‘ بھی افشاکردیاگیا کہ جس کے ذمے طالبان قیادت کو تلاش کرنے اور انہیں کیفرکردار تک پہنچانے کا فریضہ سونپاگیاہواتھا۔جنگ کیسے کی اور برتی جارہی ہے ان دستاویزات نے اس حوالے سے کئی ایسے شواہد عام لوگوں تک پہنچادیئے کہ جو پہلے ان کی معلومات میں نہیں تھے ۔اور اس کے بعدتو معلومات افشانی کا یہ سلسلہ کسی وقفے کے بغیر جاری ہوگیا۔اکتوبرمیں اس سائٹ نے عراق جنگ کے بارے میں ذخیرہ عوام کے سامنے لا کے رکھ دیا ۔یہ چار لاکھ امریکی فوجی دستاویزات تھیں ،جن میں کئی براہ راست دستاویزات بھی شامل تھیں۔ پینٹاگون نے اسے ’’مخصوص دستاویزات کی سب سے زیادہ مقدار میں تاریخ کی سب سے بڑی ‘‘ لیک قراردے دیا۔ لیکن پھر یہ وکی لیکس کی جانب سے ابھی مشق سخن اور مشق ستم ہی تھی۔حالیہ نومبر میں وکی لیکس نے اپنی سب سے جانداراور دشمن دار لیکیں جاری کرنی شروع کردیں ۔ دنیا بھر کے سفارتخانوں کی کتھاؤں کا کچاچٹھا کھول دیا۔ہر چند کہ یہ دستاویزات جو کہ ابھی تازہ تازہ سامنے لائی گئی ہیں ،دنیا بھر کے بارے امریکی سفارتکاروں کے خیالات و افکار کو بیان کرتی ہیں جو وہ دنیا کے بارے میں رکھتے آرہے /رہی ہیں۔جن کی مددسے عام لوگوں کو یہ جاننے کا موقع مل رہاہے کہ بند کمروں میں کیا کیا کچھ کیا اور کہا جاتا رہاہے ۔جولیان اسانجے نے اعلان کیا ہے کہ اب کی بار وہ جو سب سے بڑی دستاویزات منظر عام پر لائے گا ،وہ UFO,sکے بارے میں ہوں گی ۔اس کے بعد توسازش کے نظریہ سازوں کیلئے مطالعے اور مشغلے کیلئے کافی سامان میسر آجائے گا۔ ریاست کے رازایک سرمایہ دارانہ ضرورت 1917ء میں بالشویکوں کے اقتدار میں آنے کے بعد لیون ٹراٹسکی کو امورخارجہ کاعوامی کمیسار بنایاگیاتھا ۔اس نے سب سے اولین کام جو کیا ، وہ یہ تھاکہ اقتدار کے تین مراکز Triple Entente کے مابین طے پانے والے معاہدوں کو عوام کے سامنے لایاگیا۔ اسی طرح یہ انکشافات کہ برطانیہ روس اورفرانس دنیابھر میں اپنی اپنی نوآبادیوں کی بندر بانٹ کرتے چلے آرہے تھے اور ان کا جب بھی دل کرتاتھا،وہ یورپ کے نقشے کو باہمی مرضی سے تبدیل کیاکرتے تھے ۔یورپی طاقتوں کی غارت گر ہوس اور سامراجیت کاکھلواڑ ہر کس وناکس پرعیاں ہوگیاتھا ۔یہی نہیں بلکہ ان پوشیدہ معاہدوں سے یہ راز بھی سامنے آگیاتھا کہ کیسے یہ حکمران اپنے اپنے ملکوں کے غریب مزدوروں کو اپنے سامراجی عزائم کیلئے موت کے منہ میں دھکیلنے کا اہتمام کیاکرتے تھے ۔ سرمایہ داری جن جن ملکوں میں بھی اپنے پنجے گاڑے چلے آرہی ہے وہاں وہاں اس کا بطورخاص اہتمام کیاجاتاہے۔ اور اس کیلئے جواز بالکل سیدھا سادہ ہے کہ ایسی ریاستوں اورحکومتوں کوفطری طورپر ایک اقلیت کی حکمرانی کو اکثریت پر مسلط اور قائم ودائم رکھنا ہوتاہے ۔اور اس کیلئے سرمایہ دارانہ ریاست کو ہمہ وقت ہمہ قسم ایسے ہتھکنڈے کرنے پڑتے ہیں جن کی مددسے وہ اقتدار کو سلامت رکھ سکے۔یہ ایک معاشی نظام کا ناگزیر خاصا ہے جس کی بنیاد استحصال اور مسلسل استحصال پر قائم ہوں۔جو ایک اقلیت ایک بھاری اکثریت کا کرتی ہے اور کرتی چلی آرہی ہے ۔لیکن چونکہ ہر حکومت یا ریاست کو اپنی کارگزاری لوگوں کے سامنے بھی رکھنی ہوتی ہے ،اس لئے وہ ایک لوگ دوست اسلوب اپنانے اور جتلانے پر مجبور بھی ہوتی ہے ۔اور یہی ایک بنیادی تضاد ہے۔سرمایہ داری کی دلالی کیلئے جو اقدامات اور لوازمات درکار ہوتے ہیں انہیں کسی طور عام لوگوں کے سامنے نہیں لایاجاتا۔خاص طورپر خارجہ امور کے سلسلے میں یہ احتیاط برتی جاتی ہے۔چنانچہ اس حوالے سے وکی لیکس کے سبھی انکشافات ’’ریاست ‘‘کے وجودکیلئے ہی ایک خطرہ بن کر سامنے آچکے ہیں۔کیونکہ ان کی وجہ سے اندر کے تضادات پھٹ کر باہر آچکے ہیں ۔ یہاں ہم ایک نئی صورتحال کا مشاہدہ بھی کررہے ہیں کہ یہ سارا مذاق جو سرمایہ دارانہ ریاست کیلئے وبال جان بن کر سامنے آچکاہے ،خود سرمائے کی اپنی ہی ایجادکردہ تکنیک کی کرامات سے ممکن ہواہے ۔ابلاغ کے ذرائع اس قدر ترقی کر چکے ہیں کہ یہ سرمائے کی ہی حدود کو ہی چیر پھاڑکر نے پر تل آئے ہیں۔انسانی تاریخ میں پہلی بار ایسا ممکن ہواہے کہ کسی بھی جگہ کی کوئی بھی معلومات کسی بھی جگہ دی یا لے جائی یا پہنچائی جاسکتی ہے ۔اگر یہ سب کچھ ایک منصوبہ بند معیشت کے تحت اور زیر انصرام ہوتو یہ جدت اور سہولت انتہائی مفید ثابت ہوسکتی ہے اورہوگی۔جبکہ سرمایہ دارانہ نظام کے زیراثر یہ مختلف حکمرانوں کے مابین تضادات اور تصادم کا باعث بنتے ہیں ۔اور اس وقت انٹرنیٹ پر جو کچھ بھی ہورہاہے اس کے عالمگیر اثرات سب پر عیاں ہورہے ہیں۔ سفارتی کیبلوں کا اس تواتر اور شدومد سے اجراتو ابھی ماردھاڑکی ابتدا ہے ۔جرمنی نے اپنے ایک افسرکو نکال باہر کیاہے جس کے بارے انکشاف ہواکہ وہ امریکہ کیلئے جاسوسی کرتاآرہاتھا۔یہ بھی خبر عام ہوئی کہ بحرین اور سعودی عرب دونوں ایران پر حملہ کرنے کیلئے دباؤ ڈالتے آرہے ہیں۔یہ ایسا انکشاف ہے جس نے بلاشبہ ان ملکوں میں تھرتھلی مچادینی ہے۔ شاید یہ بات اور بھی اہم ہے کہ امریکہ ایران پر نیوکلیئر ہتھیارسازی کے جرم میں اس پر حملہ نہیں کرناچاہتا۔یہ کیبلیں پاکستان میں موجود حکومت کی ڈانواڈول کیفیت کو بھی منظر عام پر لائی ہیں ۔اور یہ بھی کہ پاکستان کے نیوکلیائی ہتھیارکا محفوظ ہونا بھی قابل تشویش قراردیاجاچکاہے۔یہ اور اس جیسے بے شمار راز امریکہ کی کئی ملکوں کے معاملات میں مداخلت اور سازشوں کو عام کرچکے ہیں ۔اس وقت جبکہ یہ مضمون لکھاجارہاہے ،سفارتی کیبلوں کی ابھی کچھ ہی تعداد سامنے آئی ہے ۔پچھلے ہفتہ بھرسے وکی لیکس شدید ترین حملوں کی زدمیں آئی ہوئی ہے ۔ اور اسے روکا جارہاہے کہ وہ مزید کیبلز جاری نہ کرے یا کرپائے ۔ہم تو صرف حیران ہی ہو سکتے ہیں کہ پٹاری میں ابھی کیا چھپاہے اور کیا کیاباہر آتاہے! ہمیں پتہ چلنا چاہئے کہ ہنڈراس میں زلایاکی جبری سبکدوشی میں امریکی سفارتکاری کا کتنا عمل دخل ہے؟امریکی وینزیلا کے حوالے سے کیا کرتے آئے ہیں اور کیا کررہے ہیں؟مختلف سیاسی پارٹیاں جو کہ آپس میں باہم برسرپیکارہوتی ہیں ،ان کے مابین امریکی سفارتکار کب کب اور کس کس قسم کی مداخلت کرتے اور ان کے مابین مصالحانہ مذاکرات کراتے ہیں؟ مختصر یہ کہا جاسکتاہے کہ اگر آگے نئے انکشافات سامنے آتے ہیں تو اس سے بہت اتھل پتھل ہوگی۔ ’’ریاست ‘‘کا جوابی حملہ 30نومبر کو پروفیسر ٹام فلنگن نے جو کینیڈین وزیراعظم سٹیفن ہارپر کا ایک بااعتماد ساتھی شمارکیاجاتاہے ،اور جو ٹوری پارٹی کی قیادت کے اگلے مرحلوں کیلئے کوششیں کررہاہے ،ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں کھلے عام کہا ہے کہ جولیان اسانجے کو موت کے گھاٹ اتار دیاجاناچاہئے ۔اس نے امریکی صدر اوبامہ کو مشورہ دیاہے کہ وہ کسی کو اس کارخیر کیلئے یاتو ٹھیکہ دے دے یا پھر اس پر ایک ڈرون حملہ کرواکے اس کا قصہ ختم کر دیا جائے ۔فلنگن کے منہ سے کھلے بندوں نکلنے والی یہ دردناک چیخ بلاشبہ صرف اسی کی ہی نہیں بلکہ دنیا کی ہر حکومت کے ڈرائنگ روموں میں بیٹھے حکمرانوں کے دل کی آوازہے ۔امریکہ بہادر کی حکومت نے بھی فرمادیاہے کہ وکی لیکس کے خلاف اس سے جو کچھ بھی بن سکا وہ دریغ نہیں کرے گی۔اس کے بعد جولیان اسانجے کے خلاف سب سے پہلا شدید حملہ سویڈن کی حکومت کی طرف سے کیاگیااورجولیان پر جنسی تشدد کا مقدمہ قائم کردیاگیا۔اس کے بعد عالمی میڈیاپر واویلا شروع ہوگیاکہ جولیان کو گرفتار کیاجائے گا اور اسے انصاف کے کٹہرے میں لانے کیلئے اسے سویڈن لایاجائے گا۔ ہمیں واضح جان لیناچاہئے کہ جولیان کو پابند سلاسل ڈالنے کا امکان موجودہے ۔اس پر مزید الزامات بھی سامنے آسکتے ہیں ۔اور شاید وہ جلد ہی یہ اپیل دائر کر رہاہوکہ اسے امریکہ سے بے دخل کیاجائے ۔کوئی بھی صورت بنے ،یہ کہنا محال ہے کہ ان حالات میں اس کے ساتھ کتنی قانونی شفافیت سے نمٹا جائے گا۔یہ بات البتہ واضح ہوتی جارہی ہے کہ ’’ریاست ‘‘وکی لیکس سے نمٹنے کیلئے اب ہر ممکن رستہ اور طریقہ استعمال کرنے پر تل آئی ہوئی ہے ۔اس سلسلے میں جو اولین حربہ کیاگیاوہ یہ ہے کہ وکی لیکس پر ایک انتہائی طاقتورDDosحملہ کیاگیاہے ۔حملہ آوروں نے اس قدر درخواستیں سائٹ پر داخل کردیں کہ وہ ’’اوورلوڈ‘‘ہوکے بیٹھ گئی۔اور یو ں اس کا ’’سرور‘‘کسی کام جوگا نہ رہا۔یہ اطلاعاتی جنگ کا پہلا محاذتھا ۔اور یہ جنگ مستقبل میں انٹرنیٹ کے کردار پر دور رس اثرات مرتب کرے گی۔وکی لیکس کے ساتھ اب چوہے بلی کا کھیل شروع کردیاگیاہے ۔ مذکورہDDosحملے کے بعد ریاست نے وکی لیکس سے منسلک اور وابستہ ہر ایک پر دباؤ ڈالناشروع کردیاہواہے تاکہ لیکس کو بندکرایاجاسکے۔پچھلے ہفتے امازون ڈاٹ کام نے لیکس کی میزبانی کرنے سے انکار کردیا۔ہر DNSنے وکی لیکس کواپنی سلطنت میں سے داخلے سے ر وک دیاہے اور PayPalنے ان کیلئے کسی بھی قسم کی رقم جمع کرنے سے معذرت کرلی ہے۔لیکن اس قدر شدیداور رقیق حملوں کے باوجود بھی امریکہ اپنی تمام ترسطوت ورعونت کو وکی لیکس کا قلع قمع کرنے میں ناکام ثابت ہواہے۔وکی لیکس والوں نے اور کئی اپنی جیسی سائٹس قائم کرڈالی ہوئی ہیں ۔ان میں سے کچھ تو ایسی بھی ہیں کہ جن تک امریکیوں کی رسائی بھی نہیں ہوسکتی۔ البتہ یہاں ’’انشورنس فائل‘‘کا سوال ضرور پیدا ہوتا ہے۔وکی لیکس نے اپنی سائٹ پرکوئی1.4GBتک کا مواد انشورنس فائل کے نام سے ڈالا۔فائل Encrypt (تالابند)ہے اور اس تک رسائی نہیں ہو سکتی۔اس کے بارے عام تصور یہی ہے کہ یہ کسی مردہ آدمی کا بٹن ہے ۔اگر جولیان اسانجے کو کچھ ہوتا ہے تو ایک کوڈ ،خود بخوداس تالے کو کھول دے گا۔ہم صرف اندازہ ہی لگاسکتے ہیں کہ اس میں ضرور ایسی خطرناک اور ہولناک دستاویزات موجودہیں کہ جو کرہ ارض پر اس وقت موجود تاریخ کی سب سے بڑی سلطنت کی جان نکال سکتی ہے ۔ وکی لیکس اب اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے ۔اس کا وجود اب ، طاقت کے عالمی سرچشموں کیلئے خطرے کا سرچشمہ بن چکی ہے ۔آخری تجزیے میں ہرایک ریاست انسانوں کا ہی کھیل ہواکرتی ہے۔ریاست ایسے لوگوں کا اظہارہواکرتی ہے جو بلند وبالامقام ومرتبوں پر رہتے چلے آرہے ہوتے ہیں۔جن کے اچھے اور برے ،بے شمار پہلو اور جذبے ہواکرتے ہیں۔اور جن کا ایک مفاد بھی ہواکرتاہے کہ مراعات یافتہ اطلاعات کو عام تام کردیاجائے۔وکی لیکس کی کامیابی کے پیچھے یہی راز پوشیدہ ہے کہ اس نے اس عظیم کمزوری کوسب پر عیاں کردیاہے۔اور اپنے اس جرم کیلئے انہیں کبھی اور کہیں معافی نہیں ملے گی۔

Translation: Chingaree.com