وینزویلا۔ انقلاب کی پیش قدمی

Urdu translation of Venezuela: Parliament passes Enabling Law, Chávez begins offensive against landlords and speculators (December 22, 2010)

تحریر: پیٹرک لارسن ۔ ترجمہ ، اسدپتافی

چنگاری ڈاٹ کام،06.01.2010 سترہ دسمبر کو وینزویلاکی پارلیمنٹ نے صدر شاویز کو اختیارات تفویض کرنے کی منظوری دے دی ہے ۔اس کی وجہ سے شاویزکو یہ اختیار دے دیاگیاہے کہ وہ اگلے اٹھارہ مہینوں کے دوران اہم اموربارے فیصلے کرسکے ۔شاویز جن شعبوں میں یہ فیصلے کر سکتاہے ان میں طوفانی بارشوں سے پیدا ہونے والی انسانی ضرورتیں، انفراسٹرکچر، ٹرانسپورٹ، پبلک سروسز، ہاؤسنگ ، فنانسز ،ٹیکسز،علاقائی مسائل،باہمی ترقی اور شہری و دیہی اراضی کا استعمال،شہریوں کی جانوں کا تحفظ،ملکی دفاع، بین الاقوامی تعاون اور سماجی و معاشی نظام شامل ہیں۔صدر شاویز نے کہا ہے کہ یہ اقدام نہ صرف طوفانی بارشوں کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کیلئے ضروری تھا بلکہ اس نے یہ بھی کہا کہ یہ انقلاب کی بڑھوتری کیلئے بھی اہمیت کا حامل ہے ۔اپنے ہفتہ وار کالم ’’صدر شاویز کی سطریں‘‘ میں اس نے لکھا کہ ’’ اس صوابدیدی قانون کو لازمی طورپر کئی چیلنجز کا سامنا ہے اور اس نے ہم پر کئی اہم ذمہ داریاں بھی عائد کردی ہیں۔ہمیں نہ صرف طوفانی بارشوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی تباہ کاریوں سے نمٹنا ہے بلکہ اس کا تعلق سٹرکچرل مسائل سے بھی ہے جو سرمایہ دارانہ ماڈل سے وابستہ ہیں اور جو موجودہ بحران کواوربھی بدترین کرتے جارہے ہیں‘‘۔ (19دسمبر2010 ء ) یقینی طورپر وینزویلاکی اشرافیہ کا ردِ عمل دیدنی ہے ۔ان کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں ۔بدنامِ زمانہ اخبار Tal Cualنے سرخی لگائی کہ ’’آمریت مسلط کر دی گئی‘‘۔جبکہ ’’ایل یونیورسل‘‘ نے شاویز کو ہٹلر اور مسولینی قراردے دیا۔امریکی حکمران بھی تشویش میں مبتلا ہوچکے ہیں ۔سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان فلپ کراؤلے نے کہاہے کہ امریکہ کو اس صوابدیدی قانون کی منظوری پر شدید تحفظات ہیں کیونکہ یہ وینزویلا کے عام لوگوں کی تمناؤں کے بالکل بر عکس ہے ۔جبکہ عالمی خبر رساں ادارے ’رپورٹرز‘ نے قراردیاہے کہ وینزویلا کے بینکاروں اور صنعتکاروں کو یہ خوف لا حق ہوچکاہے کہ نیشنلائزیشن کی ایک نئی لہر چلنے والی ہے۔ جاگیرداری کے خلاف اقدامات یہ واضح ہو گیاہے کہ بورژوازی خوفزدہ ہو چکی ہے کہ ان کی جائیدادیں ضبط کر لی جائیں گی اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی سبھی مراعات اور تعیشات کا بھی خاتمہ ہو جائے گا جن سے وہ اب تک مستفید اور لطف اندوز ہوتے چلے آرہے ہیں اور ان کے یہ خدشات بے بنیاد بھی نہیں ہیں ۔شاویز پہلے ہی تعمیرات اور ہاؤسنگ کے شعبے کے جواریوں کے خلاف سخت اقدامات کر چکا ہے ۔وہ تعمیراتی فرموں کو قومی تحویل میں لے چکا ہے جو درحقیقت لوگو ں کو قرضوں کے نام پر لوٹتی چلی آرہی تھیں اور انہیں مستقبل میں گھروں کی فراہمی کے جھوٹے وعدوں پر بیوقوف بنارہی تھیں۔ شاویز نے47بڑے جاگیرداروں کے خلاف بھی ایکشن لیاجن کی جنوب مغربی وینزویلا کے علاقے مارا کائبومیں بڑی جاگیریں تھیں۔وینزویلا میں جاری زرعی اصلاحات کے ضمن میں لئے گئے اس اقدام کے تحت ابھی تک تیس لاکھ ایکڑ زمین کی ازسرِنو تقسیم کر دی گئی ہے۔کسانوں کی بڑی تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ جاگیرداری کے خلاف ایکشن میں تیزی لائی جائے تاکہ وینزویلاکے لوگوں کے غذائی برآمدات پر انحصار کو کم اورختم کیا جاسکے۔اس نئے اقدام کو جاگیرداروں کی جانب سے سخت ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سنتاباربرا کے علاقے میں انہوں نے سڑکیں بلاک کر رکھی ہیں اور ہنگامے ،دنگے، فسادات کو ابھارا جارہاہے جسے اپوزیشن کے ممبر پارلیمنٹ ایبیلارڈوڈیازکی بھرپور تائید وسرپرستی حاصل ہے جس کا تعلق سوشل کرسچن پارٹیCOPEIسے ہے۔یہ پارٹی لوگوں کو اکسا رہی ہے کہ وہ پان امریکن موٹروے کواس طرح بلاک کریں کہ صدر شاویز کو’’ سمجھ‘‘ آجائے۔ جبکہ ہرمن اسکارا نے ایک غیر معینہ ہڑتال کی کال دے دی ہے ۔اس نے لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ سڑکوں پر نکل آئیں اور ’’سول وملٹری مزاحمت‘‘ کا اہتمام کریں۔جبکہ ایک اور اپوزیشن ممبر پارلیمنٹ میگوئل روڈریگیز نے عوام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملکیتوں سے بے دخلی کے خلاف سرکشی کر یں۔ ابھی تک ان جاگیرداروں اور ان کے پالتوغنڈوں کی نیشنل گارڈز اور فوج کے ساتھ چھوٹی چھوٹی جھڑپیں بھی ہو چکی ہیں جنہیں شاویز ان علاقوں میں بھیج چکاہے تا کہ کیے گئے اقدامات اور اصلاحات کا تحفظ اور ان پر عملدرآمد کیا جاسکے۔ لیکن اپوزیشن کا یہ سارا شوروغوغا آگے جا کر نئے معاشی سبوتاژ،سماجی فسادات کوبھڑکاسکتاہے۔لیکن ایسے سبوتاژ کو 2003ء میں شکست بھی ہو چکی ہے ۔ اپوزیشن نے 23جنوری کو ملکیت اورجائیدادوں کے حق کے دفاع میں مارچ کرنے کا اعلان کر دیاہے ۔وہ ہر ممکن کوشش کریں گے کہ تمام تر وسائل ذرائع اور طریق ہائے کاراپنے اس ردِانقلابی اور رجعتی اقدام کیلئے بروئے کار لائیں کہ جس کے ذریعے سماج کے ہر حصے میں انتشار ،بے یقینی اور عدم تحفظ کی کیفیت کو ابھاردیا جائے۔نئی منتخب پارلیمنٹ کا اجلاس پانچ جنوری کو ہو گا اور یقینی طورپر یہ اس ساری صورتحال میں مرکزو محور بن جائے گی۔ اس کیلئے قانونی ،پارلیمانی اور بلاشبہ غیرقانونی،ماورائے پارلیمان ہتھکنڈے بھی کام میں لائے جائیں گے۔ سینی ٹوریاس ماراکائے زولیا کے علاقے کے 47جاگیرداروں کی جاگیریں ضبط کرنے کے ساتھ ہی ساتھ صدر شاویز نے سینی ٹوریاس ماراکوئے اور ایلون کو بھی قومی تحویل میں لے لیا ہے ۔یہ دو کارخانے ہیں جو کہ آرگوا صوبے میں واقع ہیں ۔یہ بلاشبہ محنت کشوں کیلئے ایک بہت بڑی کامیابی ہے ۔سینی ٹوریاس فیکٹری پر 2006ء میں اس وقت مزدوروں نے اپنا قبضہ کرلیا تھا کہ جب وہاں علاج اوررہائشی سکیورٹی کے تنازعے پر جھگڑا ہواتھا جس پر مالک نے پیداوارکو سبوتاژ کرنا شروع کردیاتھا ۔اس کے بعد مزدوروں نے خود ہی فیکٹری کا ساراکنٹرول اور انتظام اپنے ہاتھوں میں لے لیاتھا۔ ایلون کارخانے میں بھی 16نومبر سے مزدوروں نے اپنی اجرتوں میں معقول اضافے کیلئے جدوجہد شروع کی ہوئی تھی اور انہوں نے فیکٹری کے دروازے بند کر دیئے تھے۔مالکان عرصے سے لیبر قوانین کی دھجیاں اڑاتے آرہے تھے جن کے خلاف او راپنے حقوق کے دفاع کیلئے مزدور یہ سب کچھ کرنے پر مجبورکردیئے گئے تھے ۔اس دوران ریاست نے کوشش کی کہ وہ بیچ میں پڑ کر معاملات کو درست کروائے مگر کچھ نہ بن سکا تو بالآخر ریاست کو فیکٹری کو قومی تحویل میں لینا پڑا۔شاویز نے اعلان کیا کہ ان دونوں فیکٹریوں کو سرمایہ داری نے دیوالیہ کر دیاتھا ۔ان کو ازسرِنو چلانااور پھر قومی بہتری کیلئے کام میں لایا جانا ضروری ہوگیاتھا تاکہ ان کی کارکردگی اور پیداوار سے عوام کو درکار گھروں کی ایمرجنسی تعمیر کے منصوبوں کیلئے استفادہ کیاجاسکے۔مذکورہ دونوں کارخانے گھروں کی تعمیر کیلئے درکار سامان تیار کرتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ وینزویلا میں آنے والی حالیہ تباہی میں بارشوں سے کہیں زیادہ سرمایہ داری کا عمل دخل تھا۔اسی کی بدولت ہی لاکھوں انسانوں کو کچی خستہ حال رہائشوں میں زندہ رہناپڑرہاتھااور جو غیرمحفوظ علاقوں میں تعمیر ہوئی تھیں ۔اس کسمپرسی اور زبوں حالی کا ایک ہی حل اور مداواتھا کہ ریاست مداخلت کرے اور معیشت کو منصوبہ بندی کے ما تحت لے کر آئے۔گھروں کی تعمیر سے منسلک سبھی پیداواری ادارے قومی تحویل میں لے کر مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دے دیئے جائیں۔ان میں سے کچھ پہلے ہی نیشنلائز کیے جا چکے ہیں جن میں SIDORاورSIDETURشامل ہیں جو فولاد اور لوہے کی اشیا پیداکرتے ہیں۔اس کے ساتھ سیمنٹ اور پلمبنگ کی صنعتیں بھی قومی تحویل میں لی جاچکی ہیں اور اب یہ دو اور ادارے۔تاہم ابھی تک بڑی تعمیراتی کمپنیاں نجی ملکیت میں ہیں جو کہ اپنی مافیائی پریکٹس اور بدعنوانی کے ذریعے مال بٹور رہی ہیں۔ان سب کو بھی نیشنلائز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ضرورتمند انسانوں اور خاندانوں کو گھروں کی فراہمی ممکن بنائی جاسکے اور وہ بھی بغیر کسی ذاتی منافع کے ۔افسرشاہی اور معاشی سبوتاژ کی کاوشوں اور سازشوں سے پیداہونے والی ہولناک کیفیت کو سامنے رکھتے ہوئے ،حال ہی میں قومیائے جانے والے سیمنٹ کے اداروں کو مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دیاجاناضروری ہے اور یہ اہتمام پیداواراور تقسیم کے سارے سلسلے پرمحیط ہونا چاہئے ۔ہر فیکٹری میں سے مزدوروں کے نمائندے منتخب کیے جائیں اور پھر صنعتی مزدوروں کی ایک کونسل قائم کی جائے کہ جن کے کسانوں کی تنظیموں ،علاقائی کونسلوں اور طوفان سے تباہ حال لوگوں کے ساتھ روابط استوار کیے جائیں۔تاکہ بحالی اور گھروں کی تعمیر کی ضرورت کے کام کو ممکن العمل بنایاجاسکے۔اس ضمن میں درکار مالیاتی فراہمی کیلئے بینکوں اور انشورنس کمپنیوں کو بھی نیشنلائز کیا جانا چاہئے اور یہ سارا کچھ اس نئے صوابدیدی تفویضی قانون کی مدد سے کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں محنت کش طبقے سے اپیل بھی کی جائے کہ وہ ان سب معاملات میں شرکت و معاونت کیلئے خود کو ہر جگہ متحرک اور تیار کرے اور رکھے ۔ انقلاب کی پیش قدمی ایک مارکسی نقطہ نظر سے موجودہ صورتحال میں مذکورہ صوابدیدی و تفویضی قانون ایک انتہائی موثر اور فیصلہ کن قدم ہے ۔ہم کئی بار اپنے مضامین میں یہ کہہ چکے ہیں کہ یہ ایک ٹھوس طریقہ ہوگا جس کی مدد سے ایک انقلابی تبدیلی کو ممکن العمل کیا جاسکتا ہے ۔انقلاب کو ممکن اور مکمل کرنے کیلئے ٹھوس اور جراتمندانہ اقدامات کی ضرورت ہے ۔یہ صوابدیدی ،تفویضی قانون ا ن سبھی قانونی رکاوٹوں کو یکسر ایک طرف اکھاڑ پھینک سکتاہے کہ جو انقلاب کو آگے بڑھنے میں مانع چلی آرہی تھیں۔ اور جو کہ نام نہاد اصلاح پسند وں کیلئے سب سے بڑی دلیل بنی آرہی تھیں۔یہی وجہ ہے کہ وینزویلا کے عوام اس کی بھرپور تائید وحمایت کر رہے ہیں کیونکہ وہ اسے طبقاتی جدوجہد کیلئے ایک کارآمد ہتھیار سمجھتے ہیں ۔ کسانوں کے ایک فرنٹ نے واضح طورپراس قانون کی بھرپور حمایت کا اعلان کر دیاہے ۔لیکن یہاں ہم یہ بھی واضح کہہ دینا چاہتے ہیں کہ یہ قانون اپنے اندر اور باہر انقلاب کی تکمیل کیلئے کافی نہیں ہے ۔2007 ء کا سال اس قانون کیلئے سب سے سازگار اور موافق سال تھا لیکن ایسا نہیں کیا جاسکا۔جس کے کچھ ہی عرصہ بعدردِانقلابی اپوزیشن کو ریفرنڈم میں آئینی ترامیم کے معاملے پر کامیابی مل گئی۔اگر اب بھی اس قانون کو سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کیلئے استعمال نہیں کیا جاتا تو اس سے محنت کشوں ،کسانوں سب کو ایک اتھاہ مایوسی اور بیزاری اپنی لپیٹ میں لے لے گی ۔شاویز نے بالکل بجاکہا کہ بات صرف اتنی نہیں کہ طوفان کی تباہیوں سے نمٹنے کا ہی معاملہ ہے بلکہ اس نظام سے نمٹنے اور اسے بدلنے کا معاملہ ہے جس نے اس تباہی کے اثرات کو اور بھی بھیانک بنا دیاہے ۔یہ ایک تاریخی اور تلخ حقیقت ہے کہ اس قسم کے بحران اور تباہیاں ہمیشہ سے سرمایہ داروں کے منافعوں کیلئے باعثِ برکت چلی آرہی ہیں ۔وہ تباہیوں سے بھی اپنی خوشحالی کماتے ہیں۔وہ اپنا مال زیادہ تعداد میں تعمیرِ نوکیلئے بیچتے ہیں اور زیادہ کماتے ہیں۔یہ واضح ہے کہ نیچے عوام کی طرف سے شدید دباؤ نے شاویز کو مجبور کیا ہے کہ وہ اپنی ذہن سازی کرے۔ اس نے بتایا ہے کہ اس نے مصیبت زدگان کے کیمپوں میں لوگوں کے زندہ دکھوں اور ذلتوں کو کس شدت اور گہرائی سے دیکھا اور سمجھاہے ۔ایک اور اہم عنصر حالیہ دنوں میں مزدوروں اور کسانوں کی طرف سے کیے جانے والے مسلسل مظاہرے ہیں کہ جن میں وہ انقلاب کو زیادہ تیزاور موثر کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔چنانچہ اس صوابدیدی قانون کو کام میں لایا جاناچاہئے اور بینکوں ، صنعتوں، خوراک پیداکرنے والے اداروں اور جاگیروں کونیشنلائز کیا جانا چاہئے تاکہ اس کے ذریعے ایک منصوبہ بند معیشت کے خدوخال ممکن بنائے جاسکیں۔اور جس کی مددومعاونت سے انفراسٹرکچر اور گھروں کی تعمیر کا چیلنج پوراکیاجاسکے ۔غیر ملکی تجارت کو ایک ریاستی اجارہ داری کے ماتحت لایا جائے تاکہ سرمائے کی باہمی جنگ وجدل سے بچاجاسکے ۔ایک قانون جاری اور نافذ کیاجائے جس کے ذریعے فیکٹری کمیٹیوں کو قانونی حیثیت دے دی جائے اور ورکروں کے کنٹرول کو وسعت اور تقویت دے دی جائے تاکہ ان میں شراکت اوراپنائیت کا جذبہ اوراحساس پیداہوجائے اور جوانہیں نہ صرف فیکٹریوں کو چلانے بلکہ مالکوں کی طرف سے سبوتاژ کی کوششوں کو روکنے میں بھی جوش و جذبے سے شریک کر دے گا۔

Source: Chingaree.com