افغانستان :اسامہ سے اوبامہ تک

Urdu translation of Obama, Afghanistan and general McChrystal (June 23, 2010)

چنگاری ڈاٹ کام،05.07.2010۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ افغانستان میں امریکہ کے ٹاپ جرنیل اور امریکی صدر کے مابین حالیہ تنازعے نے امریکی سامراج کی مشکلات کو عیاں کردیاہے جو اسے ایک کبھی نہ جیت سکنے والی جنگ کے حوالے سے درپیش چلی آرہی ہیں۔امریکی جنرل نے کچھ ایسی باتیں برسرعام کہہ ڈالیں جو کہ اسے نجی محفل میں کہنی چاہئیں تھیں۔ لیکن پھر یہ سب کچھ کب تک اندر خانے رہتا؟ بات منہ سے نکل ہی جایاکرتی ہے اور نکل ہی گئی۔امریکی جریدے USRolling Stoneمیں چھپنے والے ایک مضمون نے امریکی ریاست میں ایک سیاسی اتھل پتھل پیداکردی ۔ یہ ایک عمومی روایت ہے کہ دنیا بھر کے جرنیل حضرات اپنی عام گفتگومیں سیاست پر تنقید نہیں کیاکرتے ۔ یہ جرنیل تو انتہائی سادہ لوگ ہوتے ہیں کہ جن کے اعلی ٰ و ارفع دماغوں میں بس ایک ہی بات سمائی ہوئی ہوتی ہے کہ اگر کچھ برا وقت آبھی گیاتو ان کے پاس بارش کی طرح برسنے والے راکٹ اور تیزترین فائرنگ کرنے والی مشین گنیں موجودہیں۔ یوں سیاست کے بارے ان کا نقطہ نظر وہی ہوتاہے جو کہ ان کا جنگ کے بارے ہوتا ہے ۔ عسکری دماغوں کا سیاسی شخصیات کے بارے توہین آمیز رویہ دراصل اس رویے ہی کا دوسرا رخ ہے جو کہ سیاستدان ان عسکری صاحبان کے بارے روارکھتے ہیں اور وہ انہیں کند ذہن کے سوا کچھ نہیں سمجھتے ۔ کلیمن کائیونے کہاتھا کہ ’’جنگ کسی طور ایسا معاملہ نہیں ہے کہ جسے صرف فوج کے رحم وکرم پر چھوڑدیاجائے‘‘۔ اور اگر میں بھول نہیں رہاتو یہ امریکی صدر ٹرومین تھا جسے اس بات پر کامل یقین تھا کہ اس کے جرنیل بیک وقت ، نہ تو چیونگم چباسکتے ہیں، نہ ہی مارچ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ تاہم اس سب کے باوجود ایک حاضر سروس جرنیل کیلئے یہ ایک بات ہوتی ہے کہ وہ اپنے سیاسی ناخداؤں کے بارے کوئی بھی تنقیدوتبصرہ نجی محفل میں ہی کیا کرے ۔ اور دوسری بات یہ کہ وہ اپنے ان نجی خیالات کو کھلے بندوں کہے اور وہ بھی ایک جریدے میں ۔ اور پھر یہی نہیں بلکہ ان خیالات کو ملکی و عالمی میڈیا میں باربار ’’مذکور‘‘بھی کیاگیا۔ امریکہ کے صدر بارک اوبامہ اور افغانستان کے اندرموجود سبھی امریکی وغیر امریکی افواج کے مشترکہ کمانڈر جنرل سٹینلے میکرسٹل کے مابین شروع ہونے والا تنازعہ امریکی انتظامیہ اور امریکی جرنیلوں کے درمیان تعلقات کی سنجیدہ رنجیدگی کی واضح نشاندہی کرتاہے ۔ اور اس کیفیت کے مستقبل میں اثرات سامنے آئیں گے۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے‘‘ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ دنیابھر میں ایک بہت ہی مشہورومعروف کتاب پائی اور پڑھی جاتی ہے ’’دوست جیتنے اور دوسروں کو متاثر کرنے کا آسان طریقہ‘‘۔ ہمیں نہیں معلوم کہ جنرل موصوف نے اس کتاب کو شرف مطالعہ بخشاکہ نہیں تاہم اگر انہوں نے نہیں پڑھی تو کاش وہ فرانس جانے سے پہلے جہاں انہوں نے اپنے ناٹو اتحادیوں کو اپنی نئی عسکری حکمت عملیوں بارے خطاب سے نوازنا تھا، مذکورہ کتاب پڑھ کے ہی جاتے ۔ یاپھر جیسا کہ جریدے ’’رولنگ سٹون ‘‘ نے لکھاہے کہ کم از کم جنرل صاحب الفاظ کو خوشنمابناتے ہوئے ہی یہ تاثر دے دیتے کہ ’’ہم سب واقعتاً ہی اتحادی ہیں‘‘۔ ہر کس وناکس کو خبرہے کہ امریکہ اوراتحادیوں کی جنگ میں بہت بری حالت ہوچکی ہے۔ اب تک اتحادی افواج کے لگ بھگ دوہزار سپاہی دارِفانی سے کوچ کر چکے ہیں ۔ اور ان دو میں سے ایک ہزار سے زائد امریکی فوجی ہیں۔ جناب جنرل میکرسٹل کا حالیہ دورہ فرانس اپنے اس عظیم اتحادی کو اتحاد میں موجود رہنے کا درس دینے کے لیے تھا، کہ جس کے اس جنگ میں اب تک صرف چالیس فوجی مارے گئے ہیں۔ جریدہ لکھتاہے کہ۔ ’’جنرل میکرسٹل نے ایک سال قبل اپنا عہدہ سنبھالاتھا۔ تب سے لے کر اب تک افغان جنگ ریاست ہائے امریکہ کی انتہائی مہنگی جائداد بن چکی ہے ۔ جنگ کی اپوزیشن کے سوال پر پہلے ڈنمارک کی حکومت کا دھڑن تختہ ہوچکا،جرمنی کے صدر کو مجبوراً استعفیٰ دیناپڑا، جبکہ کینیڈا اور ہالینڈکی حکومتوں کو مشتعل ہوکر اپنے چار ہزار پانچ سو فوجی واپس بلالینے کا اعلان کرناپڑگیا‘‘۔ جنرل میکرسٹل منہ پھٹ آدمی ہے ۔ اور اپنی طر زکے دیگر لوگوں کی طرح وہ سفارتی ادب آداب اور رکھ رکھاؤکا عادی نہیں ہے ۔ اور پھر اگر یہ سب کچھ فرانس میں ہوا ہو جو کہ ادب آداب اور سفارتی تہذیب وتمدن کا گڑھ سمجھا جاتاہے ،وہاں یہ لازمی تھا کہ آپ ایک فورسٹار سوٹ پہنے اور شیمپین تھامے ، پیرس کے ویسٹ منسٹر ہوٹل میں مہذب انداز میں خودکو پیش کئے رکھتے ۔ جریدہ ’’رولنگ سٹون ‘‘اپنے مضمون میں اس سارے ڈرامے کو کچھ یوں بیاں کرتاہے جو وہاں رچایاگیا۔ ’’جنرل ، اس سوٹ پر نظر ڈالتاہے جسے اس کے دس رکنی سٹاف نے ایک مکمل فوجی آپریشن سنٹر میں بدل دیاتھا۔ کمرے میں موجود سبھی میزوں پر پیناسونک ٹف بکس رکھی ہوئی تھیں۔ جبکہ نیلے رنگ کی موٹی موٹی کیبلیں ، کمرے میں بچھے قالین پر پھیلی ہوئی تھیں تاکہ ٹیلیفون اور ای میلز وغیرہ کی رسائی ممکن ہوسکے ۔ عام سادہ لباس میں نیلی ٹائی ،کھلے بٹن والی شرٹ پہنے میکرسٹل اپنے ’’کمفرٹ زون ‘‘سے باہر آتاہے ۔ میکرسٹل کے ایک مشیر کے مطابق،پیرس جتنا میکرسٹل مخالف شہر ہے ،آپ اس کا اندازہ ہی نہیں لگا سکتے ہیں ۔ جنرل کو رنگ برنگے ریستوران سخت ناپسند ہیں اوروہ میزوں پر لگی موم بتیوں کو بیہودگی قراردیتاہے ۔ وہ ’’Bud Light Lime‘‘کو جو کہ اس کی پسندیدہ بیر ہے ،’’Bordeaux‘‘پر ترجیح دیتاہے ‘‘ ۔ چونکہ جنرل صاحب عمومی طورپر برگر اور فرنچ فرائز کے زیادہ شوقین ہیں ، اس لئے جس قسم کے اعلیٰ کھانے اس ہائی کلاس ہوٹل میں پیش کئے گئے ، وسط اپریل کی جمعرات کی شب ، جنرل اپنے چیف آف سٹاف کرنل چارلی فن کے ساتھ بیٹھاہواتھا ۔ اس نے اپنا منہ پھیر کر چارلی سے ایک انتہائی غیر مہذبانہ سوال پوچھا’’آخر کیوں مجھے اس ڈنر میں گھسیٹ کر لایاگیاہے ؟‘‘ جواب ملتاہے ’’سر یہ سار ا اہتمام آپ کے مرتبے کو مدنظر رکھتے ہوئے کیاگیا ہے ‘‘۔ اس پر جنرل میکرسٹل اپنی کرسی کو چارلی کے قریب کھینچ کر لے گیا ۔ اور اپنی درمیانی انگلی کھڑی کر کے اسے دکھاتے ہوئے کہا ’’ہائے چارلی کیا یہ بھی پوزیشن سے ملتا ہے ؟‘‘یہ طرزِ تکلم نیویارک کے ٹیکسی ڈرائیوروں کے ساتھ تو معمول ہو سکتاہے لیکن جب معاملہ دو بڑی طاقتوں کے مابین سفارتی آداب کا ہو تو یہ کچھ مناسب نہیں لگتا۔ جنرل نے اپنی بے تکلفی کے اور بھی شگوفے چھوڑے ’’بہتر تھا کہ اس قسم کے ڈنر میں سے لوگ مجھے دھکے دے کر باہر نکال دیتے لیکن افسوس کہ اس ڈنر میں موجود کوئی بھی اس کا تصور نہیں کرسکتا‘‘۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ اوبامہ اور جرنیل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ اپنے بارہ مہینوں کے دوران میکرسٹل افغان جنگ کا انچارج رہااور اس دوران وہ اپنے ہر ملنے جلنے والے سے ایک شانِ بے نیازی کے ساتھ پیش آتارہا۔ شومئی قسمت کہ جنرل موصوف ، بہ نسبت پیرس کے ہوٹلوں میں تہذیب وتمدن کے ساتھ قیام کرنے کے، میدان جنگ میں انسانوں کو قتل کرنے میں زیادہ مہارت رکھتاہے۔ افغان جنگ میں اسے ذمہ داری ملنے سے پہلے جنرل موصوف پنٹاگان میں پانچ سال تک بدنام زمانہ ’’بلیک آپریشنز‘‘ کا انچارج رہا، جس میں جنرل نے قتل، عقوبت ، اغواسمیت کئی معمول کے مگر غیر معمولی کارہائے خفیہ سرانجام دیئے۔ اور ایسے کاموں کیلئے دماغ کو زیادہ کام میں بھی نہیں لانا پڑتا۔ چنانچہ میکرسٹل نے، وقت کی شاندار بچت کرتے ہوئے، شاندار نتائج دیئے ۔ اپنی الیکشن مہم کے دوران اوبامہ نے بہت سے امید افزاوعدے کیے تھے جن میں سے ایک سفارتکاری کے حوالے سے تھا اور وہ یہ کہ افغان معاملے کو کامیابی اور خوش اسلوبی کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچایاجائے گا۔ مارچ دو ہزار نو میں اس نے اعلان کیا تھا کہ ’’میری خواہش ہے کہ امریکی عوام یہ سمجھ لیں کہ ہمارا ایک واضح اور صاف ستھرا ہدف ہے کہ ہم پاکستان اور افغانستان میں القاعدہ کو تباہ وبرباد کردینا چاہتے ہیں تاکہ وہ ہمیشہ کیلئے نیست ونابودہوجائیں‘‘۔ بیان بازی اور شعلہ بیانی کی حد تک تو یہ کہنا بہت آسان اور عمدہ لگتاہے لیکن اس پر عملدرآمدقطعی اور بات ہے ۔ اپنے اس بیان کے بعد اوبامہ نے مزید اکیس ہزار فوجی کابل بھیجنے کا فیصلہ کیا ۔یہ دو ہزار ایک میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے سب سے بڑی کمک تھی ۔ جنرل میکرسٹل کی اپنے صدر کے ساتھ پہلی ملاقات نئی ذمہ داری سنبھالنے کے کوئی ایک ہفتے بعدپینٹاگان کے ایک مخصوص کمرے میں ہوئی جسے’’ٹینک‘‘ کہا جاتاہے ۔ اس ملاقات میں صدر کی ایک درجن سینئر فوجیوں کے ساتھ میٹنگ ہوئی ۔ میٹنگ میں شریک کچھ ذرائع کے مطابق، میکرسٹل کو اوبامہ ایک آنکھ بھی نہیں بھایا اور اس کے خیال میں اوبامہ اس عظیم کمرے کے قطعی شایانِ شان نہیں تھا۔ یہ مشاہدہ اور تبصرہ واضح طورپرسیاستدانوں اور جرنیلوں کے مابین اعتماد اور احترام کو ظاہرکرتاہے اوروہ بھی خاص طورپر سوشل ڈیموکریٹک اور ترقی پسند سیاستدانوں کے حوالے سے۔ پینٹاگان اورجوائنٹ چیف آف سٹاف سے صلاح مشورے کے بعد اوبامہ نے افغانستان میں امریکی و اتحادی افواج کے کمانڈر جنرل ڈیوڈ میکرنین کو برطرف کردیااور اس کی جگہ جنرل میکرسٹل کو متعین کردیا۔ سوائے ٹرومین کی جانب سے پچاس سال پہلے جنرل ڈگلس میکارتھر کو ، کوریائی جنگ کے عین عروج کے دوران برخاست کرنے کے ، کسی سپہ سالارکو جنگ کے دوران برطرف کرنا مناسب نہیں سمجھا جاتا۔ نہ ہی کیا گیا۔ اوبامہ کو کسی طوریہ معلوم نہیں تھا کہ یہ نیا آدمی جسے وہ سپہ سالار بنا کے بھیج رہاہے ، ہے کون؟ تعیناتی کے چار مہینے کے بعداوول آفس میں ان دونوں کی بالمشافہ ملاقات ہوئی ۔ میکرسٹل کے ایک مشیر کے مطابق ، جنرل نے اسے محض دس منٹ کا فوٹوسیشن قراردیا۔ اوبامہ کو جنرل کے آگے پیچھے کا کوئی اتاپتہ ہی نہ تھا۔’’یہ وہ بیکارآدمی ہے جو ہماری جنگ کو چلائے گا۔ اسے تو کچھ آتا واتابھی نہیں ہے ۔ مجھے تو اس سے مل کر سخت مایوسی ہوئی ہے ‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میکرسٹل کون ہے ؟ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ جنرل میکرسٹل کے اباحضور بھی ایک جنرل تھے ۔ موصوف نے انیس سو بہتر میں ویسٹ پوائنٹ میں واقع ایک معروف ملٹری اکیڈمی میں تعلیم حاصل کی تھی اور وہ کل آٹھ سو پچپن کی کلاس میں سے دو سو آٹھانویں ویں نمبر پر پاس آؤٹ ہواتھا۔ اگرچہ یہ کسی طور ایک اچھا نتیجہ نہیں تھا لیکن البتہ میکرسٹل کو اپنے ادارے میں اور اپنے ہم جماعتوں میں ایک خاصی مقبولیت حاصل ہو چکی تھی۔ موصوف پینے پلانے اور پارٹی بازی میں کافی نام کماچکے تھے ۔ اس دوران میکرسٹل نے افسانے بھی لکھے جو کہ ’’Brinkman,s Notes‘‘ کے نام سے چھپے ۔ یہ ایک ایسے دہشت گرد کے بارے میں تھے جو کہ ایک سیکرٹ ایجنٹ بھی تھا اور جو وائٹ ہاؤس میں گھسنے اور امریکی صدر کو ہلاک کرنے کا منصوبہ بناتاہے ۔ اس کہانی میں لگتا کچھ ایسے ہے کہ یہ کردار مصنف نے خود کیلئے منتخب کیاتھا ۔ عراق جنگ کے دوران ، جبکہ میکرسٹل ، پنٹاگان کے ترجمان کے فرائض سرانجام دے رہاتھا ، تب اس نے رمزفیلڈ کی جانب سے دیئے گئے ایک بدنام زمانہ بیان کی تائید کی تھی جس میں اس نے بغدادکی لوٹ مار کرنے کا کہاتھا ۔ جب افغان جنگ کے دوران اپریل دو ہزار چار میں ایک امریکی سپاہی ٹل مین ، اتفاق سے ، اپنے ہی ایک ساتھی کے ہاتھوں مارا گیا ۔ تو میکرسٹل نے اس کو چھپانے کیلئے اپنا سارا زور صرف کردیاکہ یہ قتل اپنے سپاہی کے ہاتھوں نہیں بلکہ کسی دشمن نے کیا ہے ۔ اسی میکرسٹل نے ہی ایک غلط رپورٹ تیار کی جس میں ٹل مین کو ایک طالبان کے ہاتھوں مارے جانے پر سلورسٹار دینے کی سفارش کی تھی۔ بعدازاں جنرل موصوف نے اپنی فوجی ہائی کمان کو ایک یاد داشت بھیجی جس میں صدر بش کو متنبہ کیاگیاتھا کہ وہ سپاہی ٹل مین کی ہلاکت کی اصل وجہ کو کسی طور اور کبھی بھی آشکار نہ کرے ۔ اس یادداشت میں کہا گیا ’’اگر سپاہی ٹل مین کی ہلاکت کے واقعے کو عام کیا جاتاہے تواس سے رائے عامہ بھڑک اٹھے گی اور جس کا نقصان صدر مملکت کوہوگا‘‘۔ ٹل مین کی ہلاکت کے نو دن بعد میکرسٹل کو ترقی دے کر میجر جنرل بنادیاگیا۔ جوائنٹ سپیشل آپریشنز کمانڈ، امریکی فوج کا اعلیٰ ترین ادارہ جس کی سربراہی میکرسٹل کرتاتھا ، سب سے بھیانک فیصلے اور اقدامات کیا کرتا ہے ۔ عراق جنگ کے دوران اس ادارے نے ہزاروں عراقی مزاحمت کاروں کو پکڑا اور ان کو تہہِ تیغ کیا ۔ ان میں ابو مصعب الزرقاوی بھی تھا جو کہ عراقی القاعدہ کا رہنماتھا۔ دو ہزار چھ میں میکرسٹل عراق میں نامہ نام کے ایک عقوبت خانے میں بدترین تشدد کئے جانے کے ایک سکینڈل میں بھی شریک رہا۔ اس عقوبت خانے میں قیدیوں کو ننگاکرکے ،ان کو گیلی مٹی میں دھنساکر ان پر تشدد کیاجاتارہا۔تاہم اس پر جو تحقیقات کرائی گئیں ان میں میکرسٹل کو بری الذمہ قراردیاگیا۔ مئی دو ہزار نو میں میکرسٹل کو عراق کے اس عقوبت خانے کے حوالے سے تحقیقات کیلئے پیش ہونے کو کہا گیا اور اس کے سٹاف نے اس کیلئے اس کوسخت سوالات کا جواب دینے کی بھی تیاری کروائی تاکہ اس عقوبت خانے اور ٹل مین کی ہلاکت کے معاملے کو دبایا جاسکے ۔ لیکن پھر ان معاملات کو دبا دیا ہی گیااور میکرسٹل کو افغانستان میں سپہ سالاری کے فرائض سرانجام دینے کیلئے بھیج دیاگیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ کوائن کیاہے ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میکرسٹل کا کسی بھی جنگ کو جیتنے کا اپنا ہی نقطہ نظر اور وطیرہ ہے ۔ اور جو ایک عسکری حکمتِ عملی کی بنیادوں پر مرتب دیا ہواہے جسے ’’مزاحمت کا مقابلہ‘‘COINکہا جاتا ہے ۔ اور یہ حکمت عملی پنٹاگان کی اعلیٰ عسکری اشرافیہ کی تشکیل کردہ ہے ۔ کسی بھی پیچیدہ مسئلے کو نمٹنے کیلئے یہ فوجی اشرافیہ بدترین تشددکوبالکل جائز اور درست طریقہ سمجھتی ہے ۔ کوائن نے ہی جنگ شروع ہونے سے قبل یہ فیصلہ کیا تھا کہ جنگ کا کھلواڑ کرنے کیلئے زمینی فوج بھیجی جائے گی ۔ جدیدترین اور نفیس ترین لیکن مہلک ترین ہتھیاروں کی مددو معاونت سے ،مثال کے طور پر ’’ غیر انسانی‘‘ڈرون طیارے جو بم پھینک کر لاتعدادانسانوں کو ہلاک کر تے ہیں اور کر چکے ہیں ۔ میجر جنرل مے ولی ، جو کہ میکرسٹل کا چیف آپریشن افسر تھا، کے الفاظ میں’’JSOC‘‘کہلانے والی یہ ایک ’’قاتل ‘‘مشین ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہ قاتل مشین بے شمار بے گناہ افغانیوں کا بھی بلاجواز قتل کر چکی ہے ۔ اور جب بھی ایک بے گناہ کو ناجائز قتل کر دیتے ہیں تو آپ اس کے نتیجے میں درجنوں نئے دشمن پیداکرلیتے ہیں ۔ اس سال کے پہلے چار مہینوں میں اتحادی فوج نے نوئے افغان شہریوں کو ہلاک کیاہے جبکہ اس سے پچھلے سال اسی عرصے میں چھہتر بے گناہ ہلاک کئے گئے تھے ۔کوائن کے نظریے اور فلسفے کے مطابق کہ یہ جنگ جیتنے کی کامیاب حکمت عملی ہے ، اس قسم کے واقعات اس فلسفے اور نظریے کو غلط ہی نہیں، ناکام بھی ثابت کر رہے ہیں ۔ اس سال فروری میں ایک آپریشن کے دوران دو افغان حاملہ خواتین ہلاک ہو گئیں جبکہ اپریل میں قندھار میں اس وقت احتجاج بھڑک اٹھا جب اتحادی افواج نے ایک بس کو بھون ڈالاجس میں پانچ بے گناہ شہری مارے گئے ۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی جنرل میکرسٹل نے بیان داغا تھا کہ ’’ہم بہت بڑی تعداد میں دشمنوں کو مارنے میں کامیاب رہے ہیں ‘‘ ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ میکرسٹل نے باغیوں کی بڑھوتری میں انتہائی اہم کردار اداکیاہے ۔ جنگ کے حوالے سے انتہائی خوش گمان عناصر اور ماہرین بھی یہ قراردے رہے ہیں کہ اس جنگ کا حتمی فیصلہ ،اگر دہائیوں میں نہیں تو سالوں میں ہونا ممکن ہے ۔ افغانستان جو کہ ایک مشہورِ زمانہ ناکام ریاست ہے اورامریکی حکومت یہ چاہے گی کہ اس جنگ میں ایسی ریاست کے لوگ ہی اس کے سپاہی کے طورپر کام میں لائے جائیں اور وہی زیادہ سے زیادہ ہلاک ہوں نہ کہ اس کے فوجی ۔جبکہ اسی دوران یہ بھی کہا اور کیا جارہاہے کہ افغانستان کے سماج اور ریاست کو ترقی بھی دی جائے ۔ لیکن یہ حکمتِ عملی ڈرون طیاروں کے ذریعے لوگوں کو ہلاک کرنے کی حکمتِ عملی سے کہیں زیادہ مشکل اور پر پیچ ہے ۔ اس کا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ جرنیلوں کو صرف لوگوں کو ہلاک کرنے میں ہی مہارت نہیں حاصل ہونی چاہئے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انہیں سفارت اور سیاست کے امور میں بھی ماہر ہونا چاہئے ۔ اور جو مشہور جنگجو جرنیل کلازوٹ کے مطابق ،ایک دوسرے طریقے سے جنگ ہی کا تسلسل ہواکرتی ہے ۔ راتوں رات ہی گرین بیرٹ کو’’مسلح امن فوج ‘‘کاچارج سونپ دیاگیا۔جبکہ جان وین کو کھڈے لائن لگا دیاگیا۔ اس دلیل اور حکمتِ عملی میں بدقسمتی سے ایک بہت شدید جھول ہے ۔ بہت عرصہ پہلے رابس پیری کی جانب سے ایک مفروضہ پیش کیا گیاتھا کہ دنیا میں کسی بھی جگہ مسلح وردی والی بدیسی مخلوق کو پسند نہیں کیاجاتا۔ یہ بات کسی اور ملک میں اتنی درست نہیں ہے جتنی کہ افغانستان کے اندر ہے ۔ سکندرِاعظم سے لے کر موجودہ جارحیت کرنے والوں تک نے اس کا خمیازہ بھگتا ہے ۔ اس حوالے سے ’’کوائن ‘‘کی تھیوری ، سوائے پاگل پن کے کچھ بھی نہیں ہے ۔ ’’کاؤنٹر سرجنسی ‘‘ کے ایک بہت بڑے نقاد اور ایک سابق امریکی کرنل ڈگلس میک گریگر نے کہا ہے کہ کوائن حکمتِ عملی امریکی عوام کو بیوقوف بنانے کی ایک مذموم کوشش ہے اور بس۔ اس نے یہ تبصرہ جنرل میکرسٹل کی جانب سے کوائن بارے لیکچر سننے کے بعد کیا ۔ کرنل کے الفاظ میں ’’یہ سوچنا ہی انتہائی بیہودگی ہے کہ ہم اسلامی کلچر کو نئی شکل وصورت دینے کیلئے ایک کھرب ڈالر خرچ کر رہے ہیں‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ صدرکو بلیک میلنگ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ میکرسٹل کو عراق کے اندر بھی اپنی عسکری تھیوری پر عملدرآمد کے کئی مواقع میسر آئے۔ اور یہ اس کیلئے بہت سادہ و آسان بھی تھا، اپنے دشمن پر نگاہ رکھو کہ وہ کیااور کیسے کرتاہے اور بس، اس کے بعد آپ اس پر ٹوٹ پڑواور اس کی ایسی کی تیسی پھیردو۔ اور انہیں صفحہ ہستی سے ہی مٹادو۔پچھلے سال جون میں وہ جونہی افغانستان پہنچا،جنرل نے ایک رپورٹ تیار کی جو بدقسمتی سے اخبارات میں ’’لیک ‘‘ہوگئی۔ اس میں صورتحال کا عمومی نقشہ مرتب کیاگیاتھا ، کہ اگر اسے مزید چالیس ہزار فوجی نہ مہیاکیے گئے ،، خاص طورپر اگر افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد دوگنی نہ کی گئی ،، تومشن کے ناکام ہونے کا شدید خطرہ تھا۔ یہ صاف طورپر امریکی صدر کے ہاتھ باندھنے کی ایک کوشش تھی ،بجائے صدر کے احکامات کی پرواہ کی جاتی، الٹا، صدرکو پابند کیاگیاکہ وہ اپنے جنرل کی فرمانبرداری کرے۔ یا پھر یہ اوبامہ کو کمزورکرنے کی ایک کوشش تھی۔ یہ ایک مقدمہ تھا ۔ پنٹاگان بنام وائٹ ہاؤس ۔ اورپنٹاگان اس مقدمے کو ہر حال میں جیتنا چاہتاتھا ۔ اس کے جواب میں اوبامہ نے افغانستان بارے امریکی حکمتِ عملی کے ازسرِنو جائزے کیلئے ایک سہ ماہی منصوبے کا اعلان کردیا۔امریکی نائب صدر جو بیڈن نے اعلان کیا کہ ’’مزاحمت کشی ‘‘کے اس عمل کو طول دینے سے امریکہ کے عالمی دہشت گردی کو ختم کرنے کے ارادے کو سخت نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ۔اور اس سے وہ اپنے مطلوبہ اہداف بھی حاصل نہیں کر سکے گا۔ یکم دسمبر کو ویسٹ پوائنٹ کی ملٹری اکیڈمی میں اپنے خطاب کے دوران صدر اوبامہ نے اس پر روشنی ڈالی کہ کیونکر افغانستان میں جنگ کرنا ایک برا آئیڈیا تھا۔یہ بہت ہی مہنگا تھا ،ہم ایک معاشی بحران کی زد میں تھے،یہ ایک ایسا طویل المعیاد منصوبہ تھا جسے سوچے سمجھے بغیر امریکی شان وشوکت کو داؤپرلگادیاگیا۔القاعدہ اپنے مراکز پاکستان میں منتقل کر چکی ہے ،ا س کے بعد اوبامہ نے افغان جنگ سے باہر نکلنے کے اپنے مدعاکو ایک طرف رکھتے ہوئے افغان جنگ میں مزید تیس ہزار فوجی بھیجنے کا اعلان کر دیا۔یوں میکرسٹل نے وہ سب کچھ حاصل کرلیا جووہ چاہتاتھااور یوں پنٹاگان اوروائٹ ہاؤس کے مابین جنگ میں جیت پنٹاگان کی ہوئی۔ایسا لگتا ہے کہ جنرل موصوف چوبیس گھنٹے میں صرف چارگھنٹے سوتا ہے ،روزانہ صبح دس میل کی دوڑ لگاتاہے اور دن میں بس ایک بار ہی کھانا کھاتاہے ۔ لیکن یہ بات ناقابل فہم ہے کہ اتنا کم سونے اور اس قدر کم کھانے کی تدبیر کسی طوربھی کسی جنگ کی کامیابی کا نسخہ ثابت ہوسکتی ہے ۔ مذکورہ بالا جریدہ رولنگ سٹون امریکی جنرل سٹاف بارے دلچسپ باتیں سامنے لاتے ہوئے لکھتا ہے ’’امریکی جنرل سٹاف قاتلوں، جاسوسوں، فطین، محب الوطن، سیاسی عمل سرانجام دینے والوں، اورسرپھروں پر مشتمل ایک مخصوص ٹولہ ہے۔ جنرل میکرسٹل نے انٹرویو لینے والے کو بتایا کہ’’ یہ اتنے اعلیٰ اور مہان لوگ ہیں کہ میں ان کیلئے اپنی جان دے سکتاہوں اور یہ میرے لئے اپنی جان دے سکتے ہیں‘‘۔ مقامِ شکر ہے کہ جنرل اور اس کے ممدوح سٹاف کو اس قسم کے ناخوشگوار جذبے کے سچے ہونے کا موقع نہیں مل سکا۔بجائے ایک دوسرے پرخواہ مخواہ جانیں نچھاورکرنے کے، امیدہے کہ یہ حضرات آخر عمر تک اپنی عمر عزیز کے مزے لیں گے۔ ہاں البتہ ان کی بدقسمتی کا روناکون روئے کہ جو نیویارک اور مشی گن سے فوج میں بھرتی ہوئے تاکہ اپنی غربت کا مداواکر سکیں۔ اور بیروزگاری کے اس عفریت سے بچ سکیں جس نے ان کے گھروں میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ عام فوجیوں کا موڈ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ٓآس سارے کھیل اور اس ساری مساوات میں سب سے فیصلہ کن عنصر، فوجیوں کا مورال ہے۔ وہ انتہائی پریشان ہیں کہ جہاں وہ لڑ رہے ہیں وہاں کوئی کامیابی دوردور تک نظر نہیں آرہی ہے اور دوسری طرف ان کے وطنِ عزیز میں بھی جنگ بارے رائے جنگ کے خلاف ہوتی جارہی ہے۔میکرسٹل کی جانب سے عوام کی تشکیک اورتذبذب کو مطمئن کرنے کی ہر کوشش ناکام ہوئی ۔جیسا کہ مندرجہ ذیل لکھاگیاہے؛ ’’ایک خیمے کے اندر جنرل نے اپنے دو درجن کے قریب سپاہیوں کے ساتھ گفتگو کی، خیمے کے اندرماحول انتہائی تناؤ کا ساتھا۔جنرل نے کہا میں تم سے یہ پوچھنا چاہ رہاہوں کہ تم لوگوں کی دنیا کیسی ہے ؟اور میری یہ خواہش ہوگی کہ آپ مجھے بڑے دل اور سوچ کے ساتھ میرے سوال کا جواب دیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور کس طرح؟کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ آپ لوگ خود سے شرمندہ اور اپنے کام کے حوالے سے پچھتاوے کا شکار ہوں؟کوئی بھی؟آپ میں سے کوئی بھی یہ تو نہیں سوچ رہاہے کہ ہم ہار رہے ہیں؟ایک سپاہی ہکس بول پڑتا ہے ۔ سر! یہاں ہم میں موجود کچھ ساتھیوں کا یہی خیال ہے کہ ہم ہار رہے ہیں ۔ سوال اور جواب کے اس دورانیے میں اضطراب اور بے چینی ابل کر سامنے آنے لگی۔ سپاہیوں نے شکایت کی کہ انہیں بوقت ضرورت مہلک طاقت استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔جن مزاحمت کاروں کو ہم پکڑتے ہیں انہیں بعدازاں عدم ثبوت کی بنیاد پر آزاد کردیاجاتاہے ۔ ہم لڑنا چاہتے ہیں ، جیسا کہ عراق میں کیاگیااور جیسا کہ جنرل میکرسٹل کے افغانستان آنے سے پہلے ہم کررہے تھے۔ہم طالبان کو خوفزدہ کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ اس گفتگو کے آخر میں جنرل میکرسٹل کو جب یہ محسوس ہواکہ وہ اپنے سپاہیوں کا غم وغصہ اور اضطراب کم کرنے میں ناکام رہاہے تو اس نے موڈ کو بدلنے کیلئے حتمی کوشش کے طورپر اپنے ایک ہلاک ہونے والے سپاہی انگرام کا ذکر چھیڑ دیا۔اورکہا کہ میرے پاس ایسا کوئی راستہ نہیں کہ میں اس قسم کی مشکل کو آسانی میں بدل سکوں اور نہ ہی میں یہ کر سکتاہوں کہ آپ کو اس قسم کے صدمے سے کوئی تکلیف نہ ہو ،نہ ہی میں آپ سے کہوں گا کہ اس تکلیف کو بھول جائیں ۔ البتہ میں یہ بات آپ سے کہنا چاہوں گا کہ آپ ایک بہت ہی عظیم فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ چنانچہ آپ کو خود کو کسی قسم کے تذبذب میں نہیں ڈالنا چاہئے۔ اس گفتگو کا خاتمہ کسی تالی اور گرمجوشی کے بغیرہوا۔ میکرسٹل نے ،ممکن ہے اپنے صدر کو مزاحمت کشی کے نام پر بیچ کھایاہو لیکن وہ کسی طور بھی اپنے سپاہیوں کو خریدنے میں ناکام رہاہے‘‘۔ پنٹاگان اس موسم گرما میں قندھار میں ایک بڑے عسکری آپریشن کی تیاری کر رہاہے ۔ اور یہ تصور کرلیاگیاہے کہ یہ ایک فیصلہ کن اور سب کچھ بدل دینے والا اقدام ثابت ہوگا۔ اور جنرل میکرسٹل کی جانب سے مزید کمک بھیجنے کی بڑی وجہ بھی یہی سمجھا جارہاہے جو اس نے پچھلے سال صدر اوبامہ سے مانگی تھی اور جو اسے مل بھی گئی۔ لیکن دس جون کو جنرل نے اعلان کردیاکہ اس آپریشن کو موسمِ خزاں تک کیلئے موخر کیاجارہاہے ۔ اب آئیڈیاسامنے لایاگیاہے کہ افغان فوج اور پولیس کو قندھار آپریشن کیلئے کام میں لایا جائے ۔ جبکہ امریکہ قندھارکے شہریوں کا دل جیتنے کیلئے امداد کے نام پر نوئے ملین ڈالرزکی خطیر رقم شہر کی ترقی کے نام پر دے گا۔ لیکن پھر اس نئے مجوزہ منصوبے کو کسی طرف سے پذیرائی نہیں مل رہی ہے ۔ ’’طالبان کا شہر پر سایہ ہے‘‘یہ بیان ایک امریکی جنرل نے دیاہے اورکہا ہے کہ ہمیں ان کا خاتمہ کرناپڑے گا لیکن کچھ اس طرح کہ ہمیں شہریوں کو ان سے الگ تھلگ کرناہوگا۔ ہمارے لیے دروازے کو کک مارکر اندرجانا آسان نہیں ہوگا،جبکہ کچھ دوسرے امریکی فوجی افسروں کا کہنا ہے کہ ہمیں دروازوں کو کک مارکر اندر جانا ہو گا۔ لیکن ہمیں کچھ نرمی اور مہربانی کے ساتھ یہ حملہ کرناہوگا اور اس طرح نہیں کرناجیسا کہ مرجا میں کیاگیاتھا‘‘۔ یہاں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مزاحمت کشی کے نام پر لاگوکی جانے والی اس پالیسی میں کتنے بے رحمانہ جھول موجود ہیں ۔ نوسالوں کی طویل جنگ کے بعد اور باوجود بھی طالبان اتنے مضبوط ہیں کہ امریکی فوج کو اب براہ راست قندھار شہر ہی حملہ کرنے پر مجبورہوناپڑگیاہے۔وہ اس گرم آلو کو جسے وہ خود نہیں کھا سکتے اب افغان پولیس اور فوج کے منہ میں ڈالنا چاہ رہے ہیں ۔ لیکن کوئی بھی اس پر یقین کرنے کیلئے تیار نہیں ہے کہ ایسا کرنا ممکن بھی ہوگا۔ امریکی فوج کوہی قندھار شہر میں جاناہوگا اوردروازے توڑنے ہوں گے۔لیکن دروازے توڑتے ہوئے نرمی اور مہربانی کے جذبات کو ساتھ یا قائم رکھنا پھر اپنی جگہ ایک سوال ہے ۔ہاں البتہ یہ بات قابلِ فہم ہے کہ یہ سوال ہی کس قدر بیہودہ اور لغوہے! اصلی اور مرکزی مسئلہ اپنی جگہ پر موجودا ور سب پر عیاں ہے ۔ افغانستان کے عوام غیر ملکی فوج کی اپنے ملک میں موجودگی کو پسندہی نہیں کرتے ۔ ترقی کے نام پر دی جانے والی بھاری امداد سوائے بدعنوانی کو فروغ دینے کے اور کوئی معنی نہیں رکھتی ۔ اور نہ ہی یہ کسی کام آسکتی ہے ۔یہ امداد الٹا سرکشی اورمزاحمت کو بھڑکانے کا باعث بن رہی ہے ۔ اس سے عوام کے اندر غم وغصہ مزید گہراہورہاہے ۔ وہ دیکھ رہے ہیں اور دیکھتے چلے آرہے ہیں کہ ترقی کے نام پر امدا دکی بھاری رقم سماج میں تو کہیں اپنااظہار نہیں کر رہی ہے البتہ اس سے حامد کرزئی اور اس جیسوں کے بینک اکاوئنٹوں کے پیٹ بھر رہے ہوں تو الگ بات ہے ۔ مزاحمت کو کچلنے کے نام پرشروع کی جانے والی یہ پالیسی مزاحمت کو تو کیا کچلے گی البتہ اس سے جنگ کے مزید خونریز ہونے کے امکانات موجودہیں ۔اوبامہ نے کبھی بھی افغانستان میں امریکی کامیابی کا دعویٰ نہیں کیا،اور یہاں کامیابی ممکن ہے ہی نہیں۔ایک سو سال پہلے برطانوی بھی یہ سبق حاصل کر چکے ہیں ۔جلدیابدیر امریکیوں کو افغانستان سے اپنا بوریا بستر لپیٹناہوگا ۔لیکن جب تک ایساہوگا تب تک یہ المناک جنگ امریکہ سمیت دنیابھر میں اپنے سیاسی مضمرات پھیلا چکی ہوگی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ناقابلِ فتح جنگ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امریکی انتظامیہ کے اندر شکست وریخت کا اظہار جنرل میکرسٹل اور افغانستان میں امریکی سفیرکارل ایکن بری کے درمیان ہونے والے جھگڑے کی شکل میں سامنے آچکاہے ۔ جنوری میں ایکن بری نے ایک تحریر بھیجی جو کسی طرح نیویارک ٹائمز کے ہتھے چڑھ گئی ۔اور جس میں اس نے میکرسٹل کی حکمتِ عملی پر سخت تنقید کی تھی۔سفیرنے افغان صدر کرزئی کو ایک ناقابل اعتمادپارٹنر قراردیا۔اور اس تشویش کا بھی اظہار کیاگیاتھا کہ مزاحمت کشی کی یہ حکمت عملی کسی طور بھی القاعدہ سے نمٹنے کا وسیلہ بن سکے گی۔اس کی بجائے البتہ ہم لڑائی میں اس طرح برے پھنس سکتے ہیں کہ جس سے ہمارا بچ نکلنا بھی مشکل ہو سکتاہے۔ایکن بری نے متنبہ کیا تھاکہ اس سے ہم ملک کو انتشار اور بدترین لاقانونیت میں دھکیل دیں گے۔ لیکن ایکن بری کے خیالات کے برعکس ،رچرڈہالبروک اور میکرسٹل کے نزدیک حامد کرزئی نہایت شاندار اور قابل بھروسہ دوست ہے ۔جو اپنے ملک میں بدعنوان اور بدنام شخص کے طورپر جانا اور گرداناجاتاہے ۔اس میں حیران ہونے کی کوئی بات نہیں کہ کرزئی نے اپنے عزیز دوست کی حمایت میں فوری بیان دیاہے اور یہ دلیل دی ہے کہ’’ میکرسٹل امریکہ کی طرف سے افغانستان بھیجے جانے والے جرنیلوں میں سب سے بہتر جنرل ہے ‘‘۔ یہی نہیں بلکہ وہ ایک انتہائی بااعتماد پارٹنر بھی ہے ۔ چنانچہ میں اس کی برطرفی کی مخالفت کرتاہوں۔سب سے اہم یہ کہ اسے پنٹاگان اور(مبینہ طورپر)امریکی افواج میں بھرپور حمایت حاصل ہے ۔لیکن یہ کچھ طاقتور ناعاقبت اندیش عناصر ہیں جو کہ جنرل کی برطرفی کے درپے ہیں۔ اس جھگڑے کی بنیاد میں امریکی حکومت اور پنٹاگان کے مابین کچھ پیچیدہ معاملات ہیں۔میکرسٹل امریکی فوجی ایلیٹ کے ایک ایسے نیٹ ورک کا حصہ ہے جو کہ امریکہ کی افغانستان میں جنگ کی پالیسی کو طے کرتاہے،اور اس کے آدمی امریکی عسکری شعبوں میں کمانڈنگ پوزیشنوں پر موجودہیں ۔کئی مبصروں نے کہا ہے کہ اسے برطرف نہیں کیا جاسکتا ۔یہ بات سچ ہو یا شایدنہ بھی ہو۔بہرحال ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے پاس دیوہیکل اختیارات ہیں ،لیکن اس کے باوجودبھی امریکی حکمران طبقات کسی طور یہ اجازت نہیں دیں گے کہ وہ اپنے جرنیلوں کو جنگ کے حوالے سے کھل کھیلنے کی مادرپدر آزادی سے لطف اندوزہوں۔اور اگر کوئی بھی سرپھرا جرنیل اپنی حکمت عملی سے اتنا آگے چلاجائے کہ اس کی وجہ سے امریکی حکمران طبقات کے مفادات ہی داؤ پر لگنے کا احتمال ہوتو پھر ایسے جرنیل کیلئے سکون کرنے اور باعزت ریٹائرمنٹ کے سواکوئی راستہ نہیں رہتا۔ افغان جنگ ایک ناقابلِ فتح جنگ ہے ۔اس سال فروری میں جنوب کے شہر مرجا کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کیلئے ایک بڑاحملہ کیاگیالیکن امریکی فوج کی تمام تر تباہ کن فائرنگ پاور کے باوجودلڑائی ختم نہ کی جاسکی ۔میکرسٹل نے خود بھی اسے ایک خونی السر قراردیاہے۔یہاں تک میکرسٹل اگرچہ خود جنوبی افغانستان میں ایک معرکے کی بات کررہاہے لیکن اس کے باوجود بھی اس میں کامیابی کا دوردورتک کوئی امکان نظرنہیں آرہاہے ۔اس دوران امریکی سپاہ کی شرح اموات میں بھی بہت اضافہ ہوتا جارہاہے ۔لاکھوں کروڑوں ڈالر ایک ایسی جنگ میں جھونکے جا چکے ہیں جس کا ابھی تک کوئی نتیجہ ہی سامنے نہیں آسکاہے ۔ جبکہ مقامی شہریوں کے دلوں اور دماغوں کو جیتنے کی کوشش بھی بری طرح ناکام ہو چکی ہے ۔ڈرون حملوں میں ہونے والی ہر بے گناہ ہلاکت افغان شہریوں میں اتحادیوں کے خلاف نفرت کوکئی گنا بڑھارہی ہے ۔اوبامہ ممکن ہے کہ خود کو ایک طاقتور صدر کے طورپر منوانے کیلئے جنرل میکرسٹل کو برطرف بھی کردے کیونکہ وہ سمندرمیں تیل کی لیکیج کے معاملے میں ایک کمزور صدر کے طورپر مشہورہواہے ۔اور اس پر کافی لے دے بھی کی گئی ہے ۔یہ بھی ہوسکتاہے کہ میکرسٹل کو عہدے سے نہ ہٹایا جائے لیکن اگر اس کی حکمت عملی کارگر ثابت نہیں ہوتی اور یہ کارگر ثابت ہوگی بھی نہیں ،جس سے امریکہ مزید و شدید مشکلات میں گھرجائے گا۔امریکہ اور اس کا صدر ایک گھمبیرتا میں دھنس چکے ہیں ۔لیکن اوبامہ کیلئے ایک آسانی ہے کہ وہ شکست کی ذمہ داری اپنے جرنیلوں پر ڈال سکتاہے ۔ شدیدمالیاتی بحران کے باوجود عسکری اخراجات ابھی بھی انتہائی بلندیوں کو چھورہے ہیں ۔امریکی وزارت دفاع ہرسال چھ سو ارب ڈالرز کے بجٹ سے لطف اندوزہورہی ہے ۔افغانستان میں سامراجی ایک نہ جیت سکنے والی جنگ میں پھنس اور دھنس چکے ہیں ۔اب امریکہ وہاں عراق سے کہیں زیادہ رقم خرچ کر رہاہے۔لیکن دوسری طرف مزاحمت کار بھی افیون کے کاروبارسے چار سو ملین ڈالر سالانہ کمائی کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں پاکستان میں سے بھی بے شمار مالیاتی،اورمسلح افرادی قوت کی امداد میسر چلی آرہی ہے ۔اس جون میں امریکی فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعدادایک ہزار سے تجاوز کر گئی ۔افغانستان کی جنگ نے ویتنام کی طویل جنگ کو بھی پیچھے دھکیل دیاہے جو کہ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ تھی ۔اوبامہ نے چپکے سے اگلے سال جولائی تک افغانستان میں سے امریکی فوج کے انخلا کی تاریخ دے دی ہے ۔عراق اور افغانستان کی جنگیں ،ایک شدیدتر ہوتے معاشی بحران کے ساتھ مل کرامریکہ اوریورپ میں عدم استحکام کو اور بھی مستحکم کریں گی۔نہ صرف معیشت کے سوتے خشک ہوتے چلے جائیں گے بلکہ ایک کے بعد دوسرے شدید جھٹکے بھی سامنے آئیں گے۔

Source: Chingaree