سوڈان: وزیراعظم کی بحالی دھوکہ ہے؛ لڑائی جاری رکھنا ہوگی!

سوڈانی انقلاب میں ایک نیا موڑ آیا ہے۔ ’کُو‘ کے ذریعے اقتدار سے ہٹائے گئے عبداللہ حمدوک کو 28 دنوں بعد فوجی حکومت نے بطورِ وزیراعظم دوبارہ بحال کر دیا ہے۔ سڑکوں کے اوپر موجود عوام، جو ایک مہینے تک سویلین حکومت کی خاطر لڑتے ہوئے اپنا خون بہاتے رہے، نے اس خبر کا خیر مقدم نہیں کیا بلکہ ان میں اس حوالے سے غم و غصّہ پایا جا رہا ہے۔

[Source]

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

حمدوک نے فوجی نمائندگان کے ساتھ مل کر ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک نیا معاہدہ طے پایا ہے جو ”خونریزی ختم کرنے“ کا باعث بنے گا۔ یہ ستم ظریفی ہے، کیونکہ جرنیلوں کا ابھی بھی یہ کہنا ہے کہ ’کو‘ سے لے کر اب تک انہوں نے کوئی ایک آدمی نہیں مارا، اور اپنے نئے عہدے کے تحت اب حمدوک ان کی دلالی ہی کرے گا۔

نئے دستخط شدہ معاہدے کے تحت حمدوک ”ٹیکنوکریٹک“ حکومت کی قیادت کرے گا، جس کا ہدف آئینی اجلاس طلب کر کے جون 2023ء تک انتخابات منعقد کرانا ہوگا تاکہ ”جمہوریت تک منتقلی اور اس سے وابستہ فرائض“ کو مکمل کیا جا سکے۔

اس اعلان کے ممکنہ منفی ردعمل کے پیشِ نظر حمدوک کا کہنا تھا: ”میں نے فیصلہ کر کے اس سیاسی معاہدے پر دستخط کر لیا ہے، اگرچہ مجھے معلوم ہے کہ کئی افراد اس سے متفق نہیں ہوں گے، اس پر اعتراض کریں گے یا اسے مکمل طور پر مسترد کریں گے کیونکہ لوگوں کی امنگیں اور جوش و جذبہ کافی زیادہ تھا۔“

زبردستی کی حکومت

عبوری حکومت نئی خودمختار کونسل کے زیرِ نگرانی چلے گی، جس میں ردّ انقلاب کے دو مرکزی قائدین جنرل برہان اور جنرل حمیدتی اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہو کر حکومتی ممبران کو منتخب کریں گے۔ عبوری حکومت کا اصلی کام محض جرنیلوں کے لیے کیے گئے فیصلوں پر مہر ثبت کرنا ہوگا۔

یہ دوسرے لفظوں میں فوجی آمریت ہی ہے۔ حمیدتی نے ٹویٹر پر سوڈانی عوام کو ”تاریخی واقعے“ کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا ”ایک ایسا معاہدہ طے پایا ہے جو سوڈان کا جمہوریت اور عوامی مرضی کے راستے پر چلنا یقینی بنائے گا۔“ قتلِ عام میں ملوث اس درندے کی جانب سے نئے معاہدے کا خیر مقدم اس کی حقیقت آشکار کرنے کے لیے کافی ہے۔

جرنیلوں کی ان یقین دہانیوں کو کوئی نہیں مان رہا کہ وہ مستقبل میں سویلین حکومت کے انتخابات منعقد کرانے کی اجازت دیں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ جبر تب بھی جاری تھا جب اس نئے ”سمجھوتے“ کا اعلان کیا جا رہا تھا، جس کے نتیجے میں 16 سالہ یوسف عبدالحمید سر میں گولی لگنے سے مارا گیا۔

اس کے علاوہ دیگر وعدے بھی کیے گئے ہیں جن کے پورا ہونے پر عوام کا اعتماد بالکل نہیں ہے۔ مثال کے طور پر، پرانے آمر بشیر کی نیشنل کانگریس پارٹی کے اوپر کہنے کی حد تک نئی عبوری حکومت کا حصّہ بننے کی پابندی ہے۔ مگر برہان نے پچھلے کچھ ہفتوں کے دوران بشیر کے وفاداروں کو اہم ریاستی عہدوں سے نوازا ہے، جس کے باعث یہ ایک کھوکھلا وعدہ بن چکا ہے۔

تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کا اعلان بھی کیا گیا تھا، مگر ابھی تک محض مٹھی بھر قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے؛ پچھلے مہینے میں ہونے والے تشدد کے حوالے سے ”آزادانہ تحقیقات“ کا وعدہ کیا گیا ہے، البتہ ظالموں کا اقتدار میں ہوتے ہوئے یہ ایک مضحکہ خیز وعدہ ہے۔

علاوہ ازیں، کرپشن کی تحقیقات کے لیے پچھلی عبوری حکومت کی بنائی گئی کمیٹی، جسے دہائیوں سے سوڈان کی دولت اور وسائل کی لوٹ مار کرنے والوں یعنی ’کُو‘ کرنے والوں نے معطل کر دیا تھا، کو دوبارہ بحال کر کے ترتیب دیا جائے گا، جو در حقیقت محض برائے نام کمیٹی ہوگی۔

ہوش و حواس رکھنے والے کسی بھی شخص کے سامنے یہ واضح ہے کہ مسلح افواج کی نگرانی کے تحت نام نہاد عبوری حکومت کے سربراہ کے طور پر حمدوک کی بحالی ردّ انقلابی فوجی حکومت کو پردہ مہیا کرنے کی ایک چال ہے۔

’کُو‘ کے بعد 18 نومبر سب سے خونریز دن تھا جب سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں 15 مظاہرین مارے گئے، جس کے کچھ دنوں بعد ہی 21 نومبر کو چوتھی دفعہ ملک گیر سطح کے مظاہرے دیکھنے کو ملے۔ تصدیق شدہ اموات کی مجموعی تعداد 41 ہے جبکہ سوڈان کے بھرے ہوئے ہسپتالوں میں سینکڑوں افراد زخمی یا مرنے کے لیے پڑے ہوئے ہیں، جو مسلسل ردّ انقلاب کے حملوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔

عوام پیچھے ہٹنے کی بجائے 21 نومبر کو پچھلے مظاہروں کی نسبت بڑی تعداد میں نکلے، جس میں کم از کم 19 شہروں اور قصبوں نے حصّہ لیا اور سڑکوں پر کم از کم 10 لاکھ لوگ نکل آئے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ 19 نومبر کو فوج نے ملکی سطح پر منقطع کیے گئے ذرائع مواصلات کو بحال کر دیا۔ مظاہروں کو متحرک کرنے کے علاوہ اس کا ایک اور فائدہ یہ ہوا کہ ملک بھر میں لوگ بالآخر فوج کے جبر کو بھرپور طریقے سے سوشل میڈیا پر دیکھنے کے اہل ہوئے۔

ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف، حمیدتی کے احکامات پر چلنے والی قبائلی پیراملٹری) کی تصاویر اور ویڈیوز اور غیر مسلح مظاہرین کے اوپر پولیس کا براہِ راست گولیاں چلانا، جن کو قتل کرنے کے ارادے سے سر اور دھڑ پر مارا جا رہا تھا، نے عوامی غصّے کو مزید اشتعال دیا۔

انقلاب کی ثابت قدمی

فوج ابھی تک اپنی بنیادیں قائم نہیں کر سکی ہے، جو سیکورٹی فورسز کے انتہائی رجعتی عناصر پر انحصار کر رہی ہے۔ اسے سماج میں کوئی حقیقی حمایت حاصل نہیں۔

اگرچہ فوج نے جبر کا طریقہ بھرپور استعمال کرتے ہوئے انقلاب کے اوپر شدید حملے کیے ہیں مگر ہر دفعہ عوام مزید ثابت قدمی کے ساتھ نکلے ہیں۔

اس سارے عرصے میں فوج کا مقصد خونریزی کے ذریعے عوام کو تھکاوٹ کا شکار کرنا رہا ہے۔ مگر دوسری طرف انقلاب کے قائدین جدوجہد کو منطقی انجام تک پہنچانے کی غرض سے کسی واضح منصوبے یا اہداف سے محروم نظر آئے ہیں۔

مسلسل حملوں کے باوجود عوام ایک مہینہ گزر جانے کے بعد بھی ثابت قدم ہیں۔ جرنیل اس کی توقع نہیں کر رہے تھے کہ یہ عمل اتنی طوالت اختیار کر جائے گا۔ چنانچہ وہ اپنے حربے تبدیل کرنے پر مجبور ہو گئے۔ وہ امید کر رہے ہیں کہ حمدوک کی مدد سے وہ اپنی حکمرانی کو سویلین شکل دے کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک سکیں گے، اور یوں انقلاب کو دبا پائیں گے۔

نام نہاد عالمی برادری کے قائدین اس مقصد میں ان کا ساتھ دے رہے ہیں، خصوصاً امریکہ اور اقوامِ متحدہ کے سامراجی نمائندے، جو منظرِ عام سے ہٹ کر فوج، حمدوک اور پرانی عبوری حکومت کے سویلین دھڑے کی باقیات کے بیچ نیا معاہدہ ترتیب دینے میں سرگرم رہے ہیں۔

سیکرٹری آف سٹیٹ اینتونی بلنکن کا کہنا تھا کہ امریکہ کے نزدیک نیا معاہدہ ”حوصلہ افزاء“ ہے، جبکہ اقوامِ متحدہ نے بیانیہ جاری کرتے ہوئے حمدوک اور برہان کو ”ملکی استحکام کو درپیش آئینی اور سیاسی بحران کو حل کرنے کے لیے اتفاق“ پر مبارکباد پیش کی۔

استحکام سے بھلا ان کی کیا مراد ہے؟ سامراجی ہر گز نہیں چاہتے کہ عوام کی انقلابی جدوجہد کے ہاتھوں فوج کا تختہ الٹا جائے، جو خطے کے دیگر ممالک میں انقلابی تحریکوں کو جنم دینے کا باعث بن سکتا ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ اب فوج اور عبوری حکومت زبردستی کے معاہدے کے تحت ’مل کر کام کریں‘، اور سڑکوں کو پُر امن بناتے ہوئے استحکام کو بحال کریں۔

مگر عوام کے سامنے سب کچھ واضح ہے۔ یہ ایک اہم پیشرفت ہے کہ نام نہاد عالمی برادری کا ردّ انقلابی کردار ننگا ہو چکا ہے؛ وہ سوڈانی عوام کے اتحادی نہیں بلکہ دشمن ہیں۔

سویلین حکومت اور جمہوری حقوق کی خاطر کٹھن جدوجہد کرتے ہوئے عوام نے جس طرح سے اموات اور مشکلات کا سامنا کیا ہے، وہ اس صورتحال سے بالکل مطمئن نہیں جو پیچھے کی جانب ایک بڑا دھکا ہے۔

جب نئی حکومت کا اعلان کیا گیا تو سڑکوں کے اوپر حمدوک کے بارے میں خصوصی غم و غصّہ دیکھنے کو ملا۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بتایا ہے، لبرل وزیراعظم، جو اقوامِ متحدہ کا سابقہ معیشت دان ہے، ’کُو‘ سے پہلے عوام کے بیچ مقبول نہیں تھا۔

2019ء کے انقلابی دھرنوں کو خون میں نہلا دینے والے قاتل جرنیلوں کے ساتھ حکومت میں شراکت اختیار کرنے کے علاوہ حمدوک نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے سامراجی اداروں، جو ”ساختی تبدیلیوں“ (یعنی کٹوتیوں) کی شرط پر سوڈان کو امداد دیتے رہے، کے احکامات پر ظالمانہ آسٹیریٹی پروگرام بھی لاگو کیا۔

در حقیقت، ’کُو‘ سے پہلے تیل کی سبسڈی میں کٹوتی کی گئی تھی، جس نے خرطوم کے اندر حکومت مخالف اور فوج کے حق میں دھرنوں کو اشتعال دیا۔ یہ مظاہرے سماج کی نسبتاً چھوٹی اور پسماندہ پرتوں پر مشتمل تھے، جنہیں فوج کی حمایت حاصل تھی، اور جس کے مقابلے میں جمہوریت کے حق میں کافی بڑے مظاہرے نکالے گئے۔ مگر پھر بھی، حمدوک کی رجعتی پالیسیوں کی وجہ سے اسے سوڈانی عوام کے بیچ محض محدود حمایت میسر تھی۔

اس کے علاوہ، 2019ء کے بعد آر ایس ایف اور پولیس کی جانب سے عوام کے اوپر جاری رہنے والے مظالم سے اس نے مکمل منہ پھیر لیا تھا، جن کے ہاتھوں خاص کر مزاحمتی کمیٹیوں کے نمایاں ممبران کو نشانہ بنایا گیا۔

حمدوک سے وابستہ غلط فہمیوں کی دوری

البتہ، جب برہان نے ’کُو‘ کیا اور حمدوک کو ہٹا کر خودمختار کونسل تحلیل کر دی تو عوام 2019ء کے انقلاب کی حاصلات کا دفاع کرنے کے لیے نکل پڑے۔ اس عمل کے دوران بعض سوڈانی پرتوں (خاص کر بیرونِ ملک مقیم) کے اندر حمدوک کے بارے میں غلط فہمیاں پروان چڑھنے لگیں، جس کو وہ ملک کے ’جائز‘ سویلین سیاسی قائد کے طور پر دیکھنے لگے۔

21 نومبر کے واقعات نے ان غلط فہمیوں کو دور کر دیا، جب سڑکوں پر عوام نے یک آواز ہو کر نئے معاہدے کو مسترد کر دیا اور حمدوک کو انقلاب کا غدار قرار دیا۔

انقلاب کی تمام لیڈنگ باڈیز بشمول سوڈانی پروفیشنل ایسوسی ایشن (ایس پی اے)، محلّوں کی مزاحمتی کمیٹیوں، حتیٰ کہ نسبتاً قدامت پرست فورسز فار فریڈم اینڈ چینج نے بھی نئی عبوری حکومت کو ڈرامہ بازی قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ ایس پی اے نے انقلاب کے تین بنیادی نعروں کو دوبارہ بلند کیا ہے؛ فوج کے ساتھ مذاکرات، سمجھوتہ اور شراکت داری نا منظور۔

21 نومبر کے احتجاجوں میں مزاحمتی کمیٹیوں نے اپنے جذبات کا اظہار کیا، جب خرطوم میں عوامی ہجوم نے اعلان کیا:

”حمدوک پر اعتماد کرنے والے سن لیں، حمدوک مر چکا ہے؛ اور سڑکوں پر موجود عوام کے اوپر اعتماد کرنے والے بھی دیکھ لیں، عوام نعرے بلند کر رہے ہیں اور وہ کبھی نہیں مریں گے۔“

دی گارڈین نے 21 نومبر کو احتجاج میں شریک اوم درمان سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کا انٹرویو لیا، جس کا کہنا تھا: ”مجھے اس معاہدے سے سخت مایوسی ہوئی ہے۔ ان کا کیا جو مارے جا چکے ہیں؟“ احتجاج میں شریک ایک اور شخص نے کہا: ”میں مظاہروں میں جانا جاری رکھوں گا کیونکہ فوج نے اپنے معاہدے پورا کرنے کی کوئی ضمانت نہیں دی ہے۔ وہ ہمیشہ دھوکہ کر جاتے ہیں۔“

انقلابی عوام نے سڑکوں پر موجود رہنے کا عزم کیا، اور 25 نومبر کو پانچویں ملک گیر مظاہرے کی کال دی۔ اگر اس معاہدے کا مقصد انقلاب کو دبانا تھا تو نتیجہ اس کے الٹ نکلتا نظر آ رہا ہے۔

حمدوک کو مسترد کرنا آگے کی جانب قدم ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام انقلاب کے تلخ تجربات سے سیکھ رہے ہیں۔ ایک اہم سبق یہ ہے کہ لبرلز پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے طبقاتی مفادات اور سرمایہ داری کی وفاداری کا مطلب یہ ہے کہ وہ حقیقی جمہوریت اور با عزت زندگی سے متعلق سوڈانی عوام کی تمناؤں کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔

اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ فوج کتنی کمینگی کا مظاہرہ کرے، لبرل قائدین عوام کی انقلابی فتح کی بجائے ہمیشہ سمجھوتہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ حتمی تجزیے میں، برہان اور حمدوک دونوں سرمایہ داری کے تسلسل کی حمایت کرتے ہیں، جو سوڈانی سماج پر چھائی ہوئی غربت اور پسماندگی کی بنیادی وجہ ہے۔

عوام فوج کو شکست دینے کی ضرورت پوری طرح سمجھتے ہیں، مگر ہمیشہ کی طرح اصل سوال یہ ہے کہ ایسا کیسے ممکن ہے؟ ایس پی اے جرنیلوں کی گرفتاری اور فوری طور پر سویلین حکومت کی جانب منتقلی کی بات کرتی ہے، مگر جرنیلوں کے پاس ہتھیار ہیں، جسے وہ اپنے اقتدار اور مراعات کا دفاع کرنے کی خاطر استعمال کرنے سے نہیں کتراتے، جبکہ انقلابیوں کے پاس ہتھیار نہیں ہیں!

جیسا کہ ہم کئی دفعہ کہہ چکے ہیں، سوڈانی انقلاب کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس کی قیادت فوج کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی حامی نہیں ہے۔ اس کی بجائے وہ مسلسل عوام کا غم و غصّہ پُر امن طریقوں سے نکالتے ہیں، اور اس بات کی کبھی وضاحت نہیں کر پاتے کہ ان طریقوں سے ردّ انقلاب کے اقتدار کا خاتمہ کیسے ہوگا۔

ایس پی اے ہمیشہ یہ متنبہ کرتی رہتی ہے کہ اگر عوام نے ہتھیار اٹھا لیے تو خونریز خانہ جنگی کا جنم ہوگا، مگر ابھی جو کچھ ہو رہا ہے کیا یہ خونریزی نہیں؟ یہ یک طرفہ خانہ جنگی ہے، جس میں روزانہ ردّ انقلاب مرد و خواتین اور بچوں کے گلے کاٹ رہا ہے!

اور کیا پچھلے سالوں کے دوران فوجی آمریت کے تحت زندگی غربت اور تکالیف سے بھرپور نہیں تھی؟ اس انقلاب نے بارہا ثابت کیا ہے کہ سماج کو تبدیل کرنے کی خاطر عوام بڑی قربانیاں دینے کے لیے تیار ہیں۔ ڈرنے اور بھاگنے والے نام نہاد لبرل قائدین ہیں، جنہوں نے انقلاب کو فوج ہٹانے، جرنیلوں کو گرفتار کرنے اور نئی سویلین حکومت قائم کرنے سے مسلسل روکے رکھا ہے، جس کے لیے انقلاب کی وفادار مسلح افواج ترتیب دینا ضروری ہے!

خونریزی اور انتشار سے بچنے کا واحد راستہ ردّ انقلاب اور سڑکوں پر موجود اس کے دستوں کے خلاف عوام کی بھرپور مسلح مداخلت ہے۔ قائدین جتنا زیادہ ہچکچائیں گے، اتنا ہی زیادہ وہ آگے کا راستہ دکھائے بغیر میدان چھوڑ کر بھاگ جائیں گے، اتنا ہی زیادہ ردّ انقلاب کے اعتماد میں اضافہ ہوگا اور عوام کی بڑی تعداد مایوس ہوگی، نتیجتاً مزید انتشار اور مزید خونریزی کی راہ ہموار ہوگی۔

چنانچہ انقلاب کے قائدین کو مسلح جدوجہد کی ضرورت واضح کرنی چاہیے، اور مزاحمتی کمیٹیوں کے ذریعے دفاعی دستے منظم کرنے چاہئیں، جس کے علاوہ مسلح افواج کے عام سپاہیوں سے برہان اور حمیدتی کے خلاف بغاوت کر کے اپنے طبقاتی بہن بھائیوں کا ساتھ دینے کی اپیل بھی کرنی چاہیے۔

سمجھوتہ، مذاکرات اور شراکت داری نا منظور؛ انقلاب کی تکمیل کرو!

سوڈانی انقلاب کے تجربے سے ایک دور اندیش انقلابی پارٹی کی ضرورت ظاہر ہوتی ہے۔ اگر ایسی پارٹی شروع سے موجود ہوتی، چاہے کم تعداد میں، اور عوامی مطالبات کے ساتھ جڑ جاتی تو پوری صورتحال تبدیل ہو سکتی تھی۔

ایسی پارٹی کے پاس ملک بھر میں مقامی و ملکی سطح پر منسلک مسلح دفاعی کمیٹیوں کا ایک واضح پروگرام ہوتا، جو عام سپاہیوں سے انقلاب کا ساتھ دینے کی اپیل کرنے کے ساتھ ساتھ محنت کشوں سے غیر معینہ مدت تک عام ہڑتال، بغاوت کرنے، اقتدار پر قبضہ کرنے اور ردّ انقلاب کے قائدین کو گرفتار کر کے ان کے افواج کو غیر مسلح کرنے کی اپیل بھی کرتی، اور یوں عوام کو آگے کا راستہ فراہم کرتی۔

اس کے علاوہ مزاحمتی کمیٹیوں کو قومی سطح پر یکجا کرتے ہوئے آئین ساز اسمبلی قائم کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ عوام اپنے نمائندوں کا خود انتخاب کر سکیں۔

اکتوبر میں ہونے والے ’کُو‘ کے بعد ابھرنے والی صورتحال میں کروڑوں افراد اس قسم کے پروگرام کی حمایت کریں گے، جو انقلاب کے ایک نئے مرحلے کا آغاز ہوگا۔ ایسی قوت کی عدم موجودگی میں انقلاب آئندہ بھی تلخ اسباق کے راستے سے گزرتا رہے گا۔

سوڈانی انقلاب، جو اپنی ثابت قدمی کے باعث دنیا بھر کے محنت کشوں کے لیے مثال بن چکا ہے، کی فتح کو یقینی بنانے کا یہی واحد راستہ ہے۔

عوام نے اپنے ارادے ظاہر کر دیے ہیں؛ ’کُو‘ مردہ باد! معاہدے اور شراکت داری نا منظور! سوڈان کے اندر جمہوری حقوق اور با وقار زندگی کی لڑائی جاری رہے گی!

حتمی تجزیے میں، انقلاب کے اہداف سوڈان میں سوشلزم تعمیر کر کے ہی پورے اور برقرار رکھے جا سکتے ہیں، جو افریقہ، عرب ممالک اور دیگر دنیا کے تمام استحصال زدہ اور مظلوم عوام کے لیے روشنی کی کرن ثابت ہوگی۔