ایران: اساتذہ کے ملک گیر احتجاج؛ آگ سے کھیلتی ایرانی ریاست

پچھلے دسمبر کے دوران ایران بھر میں 230 ہڑتالیں اور احتجاج ہوئے ہیں۔ اساتذہ کا 10 سے 13 دسمبر تک کی تین روزہ ملک گیر ہڑتال، جو ٹیچرز کوآرڈینیٹنگ کونسل کے تحت منعقد ہوئی، کے بعد بھی ایران بھر میں ان کے احتجاج جاری ہیں۔ خوزستان کے اندر شعبہ تیل کے محنت کشوں کی ہڑتالیں وقفے وقفے سے جاری ہیں، جبکہ اطلاعات کے مطابق تقریباً روزانہ بڑے بڑے کارخانوں کے محنت کش غیر معینہ مدت تک ہڑتال کا آغاز کر رہے ہیں۔

[Source]

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

یہ احتجاجوں اور ہڑتالوں کی اس دیوہیکل لہر کا تسلسل ہی ہے جو 2018ء میں ابھری تھی۔ ایرانی ریاست کو تاریخی بحران کا سامنا ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق، حالیہ ایرانی شمسی سال (جو 20 مارچ کو ختم ہوگا) میں اب تک ملک بھر میں 2 ہزار 410 ہڑتالیں اور احتجاج دیکھنے کو ملے ہیں۔ محنت کش طبقے کی کوئی ایسی پرت نہیں بچی جو ہڑتال یا احتجاج میں شریک نہ ہوئی ہو۔ ریاست اپنے لیے درپیش خطرے سے پوری طرح واقف ہے۔ سابقہ ممبر پارلیمنٹ اور تشخیصِ مصلحتِ نظام کونسل کے موجودہ رکن احمد توکّلی کا کہنا تھا: ”ہمیں دھوکے میں نہیں رہنا چاہیے۔ پچھلے 40 سالوں میں، ہماری حکومت پر عوامی عدم اعتماد اس سے زیادہ کبھی نہیں رہا۔“

ٹیچرز کوآرڈینیٹنگ کونسل کی مسلسل جدوجہد

11-13 دسمبر کی ہڑتال ٹیچرز کوآرڈینیٹنگ کونسل کی قیادت میں ہوئی تھی، جو نام نہاد اسلامک کونسلوں یعنی ریاستی آشیرباد پر چلنے والی یونینز سے الگ تھلگ ایک آزادانہ تنظیم ہے۔ یہ ہڑتال ملک بھر کے ہر کونے میں پھیلی ہوئی طبقاتی جدوجہد کی تازہ لہر میں نظم و ضبط کا اب تک کا سب سے بہترین نمونہ تھا۔ جس کا جواب ریاست نے احتجاج منتشر کرنے والی پولیس بھیج کر اور 250 سے زیادہ گرفتاریاں کر کے دیا۔ محنت کشوں نے جبر کا مقابلہ کرتے ہوئے ہڑتال کو دوسرے دن تک طوالت دے دی، جس میں پورے ایران کے اندر ہزاروں اساتذہ نے پہلے سے بھی زیادہ بڑے پیمانے پر جلسے نکالے۔ ریاست اس ہڑتال تک کوآرڈینیٹنگ کونسل کو بطورِ ایک آزادانہ اور غیر سرکاری یونین کے برداشت کر رہی تھی۔ البتہ، ملک گیر ہڑتال نے ثابت کر دیا کہ اساتذہ کی اکثریت پر سرکاری یونینز کا در حقیقت کتنا اثر و رسوخ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ذیلی دباؤ کا سامنا ہوتے ہوئے کئی علاقائی سرکاری مزدور تنظیموں نے ہڑتالوں اور احتجاجوں میں کوآرڈینیٹنگ کونسل کی حمایت کا اعلان کیا۔

کھلے عام جبر کے علاوہ، ریاست نے بعض پرتوں کو دیگر سرکاری محنت کشوں سے زیادہ اجرت دے کر اساتذہ کو تقسیم کرنے کی کوشش کی۔ مگر اجرتوں میں یہ خصوصی اضافہ اساتذہ کو انفرادی طور پر دیا گیا، ان کی ”عمومی، خصوصی اور پیشہ ورانہ قابلیت“ کی بنیاد پر، جس کے تعیین کا اختیار انفرادی طور پر ان کے مالکان کو حاصل تھا۔ اس اقدام کا کوآرڈینیٹنگ کونسل کے مطالبے سے کوئی تعلق نہیں تھا جو سب اساتذہ کے لیے گزارے لائق اجرت کا مطالبہ کر رہے تھے، یہ دراصل کھوکھلے وعدے تھے جس کا مقصد شاطرانہ چال کے ذریعے محنت کشوں کو بری طرح تقسیم کرنا تھا۔

مزید برآں، یہ اضافہ اس سے کئی گنا کم ہے جو اساتذہ کو ایک باوقار زندگی گزارنے کے لیے درکار ہے۔ ایک استاد نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس اضافے پر عمل درآمد کر بھی لیا جائے، یہ کافی نہیں ہوگا:

”مجھے تقریباً پانچ سال کا تجربہ ہے جبکہ میری حالیہ تنخواہ 60 لاکھ تومان ہے۔ اگر نئے اقدامات نافذ کر دیے جائیں تو میری تنخواہ تقریباً 80 لاکھ تومان ہو جائے گی، جو پھر بھی خطِ غربت سے نیچے ہے۔“ کوآرڈینیٹنگ کونسل نے ریاستی منصوبے کو صاف طور پر مسترد کیا، اور اپنے مطالبات کے گرد احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا، جو مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ اساتذہ کی اجرتوں میں کم از کم یونیورسٹی فیکلٹی سٹاف کی تنخواہ کا 80 فیصد تک اضافہ۔

2۔ یکم اکتوبر کے سول سروس منیجمنٹ لاء کے مطابق پنشن کا مکمل نفاذ۔

3۔ نظامِ تعلیم میں ملازمت کی ضمانت اور باقاعدہ روزگار۔

4۔ تمام مقید اساتذہ اور یونین کارکنان کی رہائی، اور ان پر چلنے والے تمام مقدمات اور تحقیقات کو روکنا۔

5۔ ریاستی پنشن سے لوٹے گئے سارے فنڈ کو واپس کر کے معیشت میں سرمایہ کاری۔

تسلسل کے ساتھ جاری ملک گیر احتجاجوں کے خلاف ڈرانے دھمکانے، گرفتاریوں اور جلسوں میں پولیس کی بھاری نفری کی تعیناتی کی مہم شروع کی جا چکی ہے۔ اس کے باوجود، ایران بھر میں احتجاج جاری ہیں۔ 19 دسمبر کو اساتذہ نے 60 سے ذائد شہروں میں احتجاج کیا، 28 دسمبر کو 40 سے ذائد شہروں میں، اور کچھ ہی دن پہلے، 13 جنوری کو 100 سے ذائد شہروں میں۔ ان جلسوں میں تعداد ہڑتال والے دنوں سے کم ہے، مگر کوآرڈینیٹنگ کونسل کی حمایت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جو اساتذہ سے اپنی تنظیمیں قائم کر کے کونسل میں شریک ہونے، اور ٹیلیگرام ایپ کے ذریعے مطالبات اور مختلف شعبوں کی خبریں پھیلانے کی اپیل کر رہے ہیں۔

13 جنوری کے حالیہ احتجاج میں تعداد اگرچہ ہڑتال والے دنوں سے کم تھی مگر شرکاء کا مزاج کافی لڑاکا تھا۔ شیراز کے اندر احتجاج میں شامل ایک مقرر نے کہا:

”آج جبکہ ہم سب یہاں موجود ہیں، یہ ہمارا کمرہ جماعت ہے۔ آج احتجاج کے ذریعے ہم اپنی آوازیں بلند کر رہے ہیں تاکہ دنیا کے آزادی پسند لوگ جان سکیں کہ ہم ایرانی تاریخ کے بے شرم حرام خوروں کی غلامی میں زندگی گزار رہے ہیں۔ میری آواز قوم کی آواز ہے۔ میری آواز ایران کے مظلوم لوگوں کی آواز ہے۔ میری آواز انصاف اور سچائی کی آواز ہے۔ استاد کے مسائل سارے سماج کے مسائل ہیں۔ ہمارے تمام مسائل کی جڑ غربت ہے جو ایران بھر کے سماج میں پائی جاتی ہے، ایسی غربت جس کے ذمہ دار حکمران، جاہل اور دھوکے باز سیاستدان ہیں۔ ہم یہاں اس لیے آئے ہیں کیونکہ یہی ہمارا حقیقی کمرہ جماعت ہے۔ استاد کا کام سبق سکھانا ہوتا ہے۔ ہمیں فراڈیوں کو تلخ اور واضح سبق سکھانا ہوگا، اور ہمیں سفید پوش چوروں (یعنی ملّا اشرافیہ) کو سخت سبق سکھانا ہوگا۔ ہمیں ان چوروں کو سخت سبق سکھانا ہوگا جو اپنے جھوٹے تقدس، عہدوں اور مذہبی بھیس کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں۔ او سفید پوش چورو! کیا تمہارا کام نماز کی دعوت دینا ہے یا لوٹ مار کی دعوت؟ تم کیسے منبر کے سائے تلے اپنی لوٹ مار کے مزے لے رہے ہو؟ او متقی چورو! او بے شرم فراڈیو! ایرانی تاریخ کے بے شرم حرام خورو! خدا کی قسم تمہارا تختہ جلد الٹا جائے گا! (۔۔۔)“

پولیس کے بے رحمانہ جبر کی وجہ سے مظاہرین اور پولیس کے بیچ کھلے عام جھڑپیں بھی سامنے آئیں، خصوصاً خوزستان، بوشہر، مشہد اور شیراز کے اندر۔ کوآرڈینیٹنگ کونسل نے ریاستی تشدد کی مذمّت کرتے ہوئے اپنا بیانیہ جاری کیا، اور وضاحت کی: ”(حکومت کے) حالیہ اقدامات، بشمول گرفتاریاں، مار پیٹ، بے عزتی اور اساتذہ کے قانونی اور جائز مطالبات سے روگردانی، اس ملک کی منافقت اور مطلق العنانیت آشکار کرتے ہیں۔“ شیراز ٹیچرز یونین، جو کوآرڈی نیٹنگ کونسل سے ملحق ہے، نے بھی اپنا بیانیہ جاری کرتے ہوئے نئے احتجاجوں کی اپیل کی، اور اس بات کا ثبوت دیا کہ ریاستی جبر محض اساتذہ کی ہمت میں اضافہ کر رہا ہے:

”ہم یقیناً سڑکوں پر دوبارہ نکلیں گے۔ چاہے اس دفعہ تم نے سڑکوں کی دونوں جانب 21 ملی میٹر طیارہ شکن توپ ہی کیوں نہ نصب کیے ہوں؛ چاہے تم نے احتجاج منتشر کرنے کے لیے اتنی پولیس کیوں نہ بھیجی ہو جو ٹڈّیوں کا غول دکھائی دے، مگر ہم دوبارہ نکلیں گے۔ اس دفعہ ہم لاکھوں کی تعداد میں نکلیں گے۔ خدائے عظیم کی قسم ہم مزید نہ تمہاری دھمکیوں سے خوف کھاتے ہیں، اور نہ ہی تمہاری رائفل کی گولیوں سے، جنہیں شاید تم ہم پر چلاؤ گے۔“

پہلے سے ہی، 13 جنوری کو، کوآرڈینیٹنگ کونسل نے حتمی اعلامیہ جاری کر کے کہا ہے: ”ریٹائرڈ اور بر سرِ روزگار اساتذہ کے مطالبات کو نظر انداز کرنا اور ان پر عمل درآمد نہ کرنا احتجاجوں کے پھیلنے کا باعث بنے گا۔ (حکومت کو) احتجاجوں کی نئی اور کافی وسیع لہر اور غیر معینہ مدت کی ہڑتالوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔“

ملک گیر سطح پر اساتذہ کی غیر معینہ مدت کی ہڑتال کو عوام کی جانب سے دیوہیکل حمایت ملے گی۔ کامیابی یقینی بنانے کے لیے، انہیں اس حمایت کا فائدہ اٹھانا ہوگا، اور سماج کی دیگر استحصال زدہ پرتوں سے جدوجہد میں شامل ہونے کی اپیل کرنی ہوگی، کیونکہ بنیادی طور پر اساتذہ اور ایران کے تمام محنت کشوں کی جدوجہد ایک ہی ہے۔

ملک گیر مزدور تحریک کی جانب بڑھو!

منظم جدوجہد کے یہ طریقے پورے ایرانی محنت کش طبقے کے لیے ایک مثال ہے۔ یہ اس عمل کے سب سے ترقی پسند عناصر کا اظہار ہے جو ایرانی محنت کش طبقے میں وقوع پذیر ہے، اس سے پہلے کی جدوجہد زیادہ تر خود رو اور کسی تنظیم کے بغیر تھی۔

اساتذہ کی تحریک 2018ء سے تسلسل کے ساتھ جاری خود رو احتجاجوں اور ہڑتالوں میں سے پروان چڑھی ہے۔ مگر اس عرصے کے تجربات کی بنیاد پر ٹیچرز کوآرڈینیٹنگ کونسل ان احتجاجوں کو مشترکہ پروگرام کے تحت متحد کرنے کی طرف گئی ہے، اور اساتذہ کی ریاستی تنظیموں کو پیچھے دھکیل کر ان پر غلبہ حاصل کیا ہے۔ پچھلے 8 مہینوں سے کوآرڈی نیٹنگ کونسل اساتذہ کے احتجاجوں میں غالب قوت کے طور پر ابھری ہے، جو تقریباً ہفتہ وار بنیادوں پر ملک گیر جلسے منعقد کرتی رہی ہے۔

پیٹرو کیمیکل کے محنت کشوں میں یہی عمل دیکھنے کو ملا ہے، جن کی 2018ء سے جاری خود رو ہڑتالوں کا نتیجہ 2020ء میں خود رو ملک گیر ہڑتال کی صورت نکلا ہے۔ حکومت کی جانب سے فریب اور جبر کے ذریعے اس ہڑتال کو دبانے کی کوشش مزید خود رو احتجاجوں اور ہڑتالوں کا باعث بنا ہے، جس کے دوران تیل کے محنت کشوں نے اپنی کمیٹیاں بھی قائم کیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ واقعات کے اثرات اور طبقاتی جدوجہد کے تجربات کی بدولت ایرانی محنت کش طبقہ دوبارہ جاگ رہا ہے اور اپنی جدوجہد والی روایات کو دوبارہ اپنانے لگا ہے۔ اساتذہ اور تیل کے محنت کش اس عمل کے سب سے ترقی پسند عناصر ہیں۔ ملک بھر میں عوام ان کو دیکھ رہے ہیں اور ان کے تجربات سے سبق سیکھ رہے ہیں۔ آزادانہ مزدور تنظیموں کا قیام آگے کی جانب ایک بڑا قدم ہے، جو کام کی ایک جگہ سے معیشت کے پورے شعبے تک جدوجہد کو پھیلا کر طبقاتی شعور بلند کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔ ان تنظیموں کے ٹیلیگرام چینلوں میں ملک بھر سے محنت کش حالاتِ کار، مطالبات، ہڑتالوں اور احتجاجوں سے متعلق اطلاعات پھیلاتے ہیں، اور محنت کشوں کو ملکی سطح پر متحد کرتے ہیں۔

یہ یقیناً ٹیچرز کوآرڈینیٹنگ کونسل کی طاقت کی نشانی ہے۔ محنت کشوں کی کامیابی کے لیے، نہ صرف منظم جدوجہد کے ان طریقوں کو محنت کش طبقے کی ہر پرت تک پھیلانا ہوگا، بلکہ ہر پرت کو تمام محنت کش طبقے کی متحدہ جدوجہد کے ساتھ خود کو منسلک بھی کرنا پڑے گا۔

مثال کے طور پر، محض اساتذہ ہی گزارے لائق اجرت، فنڈنگ اور قومیانے کا مطالبہ نہیں کر رہے۔ طبی عملہ، یونیورسٹی کا عملہ، ٹیلی کمیونیکیشن اور دیگر کئی شعبوں کے محنت کش بھی مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ مختلف مزدور تنظیمیں پہلے سے ہی ایک دوسرے کی مختلف جدوجہد کی حمایت میں اعلامیے جاری کر رہی ہیں۔ ان کے مسائل کی جڑ ایک ہے؛ ایرانی سرمایہ داری۔ چنانچہ محض اعلامیے جاری کرنے سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ جس چیز کی ضرورت ہے وہ اس پورے نظام کے خلاف محنت کش طبقے اور مظلوم عوام کی متحدہ جدوجہد ہے۔

جلتی پر تیل چھڑکتی ایرانی ریاست

جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا، ریاست خود کو درپیش بحران کی شدت سے پوری طرح واقف ہے۔ وہ تسلیم کرتی ہے کہ 72 فیصد آبادی غربت میں زندگی گزار رہی ہے، اور اوسط اجرتیں گزارے لائق رقم یعنی 1 کروڑ 20 لاکھ تومان سے کئی گنا کم ہیں، جو 50 اور 80 لاکھ تومان کے بیچ ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق خوراک کی افراطِ زر 43.5 فیصد ہے؛ مگر در حقیقت یہ اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ وزیر برائے محنت و سماجی بہبود کے مطابق یہ 83 فیصد ہے۔ عوام نے اپنی خوراک میں گوشت کا استعمال پہلے سے ہی بند کر دیا ہے، 2021ء میں اوسطاً ایک ایرانی نے 6 سے 7 کلو گوشت استعمال کیا، جو 2017ء کی نسبت چھے گنا کمی ہے۔ غریب ترین خطوں میں تو لوگ روٹی کو بھی قرضوں پر لے رہے ہیں۔ عوام کو محض غربت کا سامنا نہیں بلکہ وہ فاقہ کشی کے دہانے پر ہیں۔

امریکہ کی معاشی پابندیوں کے باعث تنہا ہو کر، ایرانی سرمایہ داری کی سب سے خونخوار شکل سامنے آئی ہے۔ بڑھتی ہوئی بیروزگاری کے ہوتے ہوئے ریاست محنت کشوں سے وحشیانہ طریقوں پر کام کرواتی ہے، جہاں کام کرنے والوں کے دو تہائی عارضی معاہدوں پر کام کر رہے ہیں، جبکہ اجرتیں اور پنشن کئی کئی مہینوں تک ادا نہیں کی جا رہیں۔ پنشن کی یا تو ادائیگی نہیں کی جاتی یا اگر کی بھی جاتی ہے تو پوری نہیں۔ سوشل سیکورٹی فنڈ، جس سے پنشن، بیروزگاری، معذوری کی امداد اور علاج کی انشورنس ادا کی جاتی ہے، در حقیقت دیوالیہ ہو چکا ہے، جبکہ حکومت پر 4 لاکھ ارب تومان کا قرض ہے، جو ریاستی بجٹ کی ایک تہائی سے بھی زیادہ ہے۔ بیروزگاری میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے، جبکہ دہائیوں کی سرمایہ دارانہ بد نظمی انفراسٹرکچر کے انہدام کا باعث بنی ہے، اور شدید ہوتی لوڈ شیڈنگ کا نتیجہ برطرفیوں میں اضافے کی صورت سامنے آ رہا ہے۔ ماحولیاتی سرمایہ کاری کے فقدان کے باعث شدید خشک سالی بھی سامنے آئی ہے، جسے ماحولیاتی تبدیلی نے مزید بد تر کیا ہے، جو کسانوں کو بیروزگاری میں دھکیل رہی ہے۔

عوام اگرچہ اذیتوں کا شکار ہیں، ملک میں امیروں کی دولت میں اضافہ ہوا ہے، جبکہ ایران امریکی ڈالر کے لکھ پتیوں کی تعداد کے حساب سے چودھویں نمبر پر ہے۔ عوام کی تکالیف کے ذریعے سرمایہ داروں کی دولت میں اضافہ جاری رکھنے کے لیے، اور ریاست کو معاشی انہدام سے بچانے کے لیے، عوام کو اس سے بھی بد تر حالات میں دھکیلا جائے گا۔

آنے والے ایرانی شمسی سال کے لیے حالیہ منظور شدہ بجٹ میں رئیسی حکومت نے 20 فیصد کٹوتی کی ہے۔ بنیادی ضروری درآمدات، بشمول چاول، گوشت، آٹا، چائے، کھجور، ڈبل روٹی اور دودھ پر سبسڈی ہٹا دی جائے گی۔ ان اشیاء پر 9 فیصد جی ایس ٹی متعارف کروایا جائے گا۔ اس سے بڑھتا ہوا افراطِ زر مزید بد تر ہوگا۔ حکومتی قرضے کم کرنے کے لیے پنشن کو کم اور ریٹائرمنٹ کی عمر کو بڑھا دیا جائے گا۔ ٹیکس آمدنی کو 63 فیصد بڑھایا جائے گا، سرمایہ داروں پر نہیں بلکہ عوام کے اوپر ٹیکس لگا کر! ان کٹوتیوں اور ٹیکسوں کے باوجود، متوقع خسارہ دیوہیکل پیمانے پر رہے گا، یعنی 5 لاکھ ارب تومان، جبکہ نجکاری اور پیسوں کا چھاپنا جاری رہے گا۔

پہلے سے ہی، 2018ء سے ابھی تک تین بغاوتیں ابھر چکی ہیں، اور ریاست اس بربادی سے پوری طرح واقف ہے جو وہ اپنے اوپر لا رہی ہے۔ ساری شہر سے ممبر پارلیمنٹ علی بابایی نے بجٹ کے خلاف ووٹ ڈالا اور وضاحت کی: ”یہ احتجاج کو اشتعال دے گا“، مگر تسلیم کیا کہ ”حکومت کچھ نہیں کر سکتی“۔ ایک دوسرے ممبر پارلیمنٹ روح اللّٰہ ایزدخواہ نے سبسڈی کے خاتمے پر بات کرتے ہوئے ”قزاقستان جیسے واقعات“ پر بات رکھی۔ حقیقت یہ ہے کہ ایرانی ریاست میں کسی کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں، انہیں پرواہ ہے تو بس اپنی جیبیں بھرنے کی۔

ریاست نے سیکورٹی فورسز اور پراپیگنڈے کو مضبوط کر کے آنے والے عرصے کے لیے خود کو تیار کیا ہے۔ افراطِ زر کی مناسبت سے ایرانی سپاہِ پاسدارانِ انقلاب (درحقیقت ردّ انقلاب) کے فنڈ میں 240 فیصد اضافہ کیا جائے گا۔ سویلین پولیس کو ترتیبِ نو دے کر ان میں سپاہِ پاسداران اور بسیج (پیراملٹری فورس) کو ضم کیا جائے گا۔ ریاست اپنے پراپیگنڈے کو بھی مضبوط کر رہی ہے۔ ریاستی براڈکاسٹنگ سروس آئی آر آئی بی کو 56 فیصد مزید امداد دی گئی ہے اور مدرسوں کی امداد میں 133 فیصد اضافہ کیا جائے گا۔

عوام ان اقدامات کو شدید نفرت کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں، جبکہ سماجی غم و غصّہ ابلنے کے قریب ہے۔ ابھی سے ہی، 30 مزدور تنظیموں نے بجٹ کے جواب میں ”ہڑتالیں اور احتجاجوں کو وسعت دینے“ کی دھمکی دی ہے۔ ٹیچرز کوآرڈینیٹنگ کونسل کے ٹیلیگرام چینل پر ایک بندے کا کمنٹ سماج میں موجود غم و غصّے کی مثال ہے: ”تمہارے پاس پنشن میں برابری لانے کے لیے پیسے نہیں ہیں؟ کرونا کی امداد کے پیسے نہیں ہیں؟ ویکسین خریدنے کے پیسے نہیں ہیں، طبی عملے اور محنت کشوں کی اجرتوں کو ادا کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں؟ تعطل کر شکار منصوبے مکمل کرنے کے پیسے نہیں ہیں؟ شہری اور دیہاتی انفراسٹرکچر کے لیے پیسے نہیں ہیں؟ مگر تمہارے پاس اسلامی پراپیگنڈے کے لیے 151 ارب تومان موجود ہیں، جو روزانہ کے حساب سے 45 کروڑ تومان بنتے ہیں!“

انقلابی قوت؛ ایران کے محنت کشو، متحد ہو جاؤ!

طبقاتی جدوجہد اسی طرح کام کی جگہوں کو یکجا کرتی رہے گی، جبکہ مستقبل قریب میں ملک گیر ہڑتالیں متوقع ہیں۔ ہڑتالیں اور احتجاج جاری رہنے کے باوجود 2021ء میں گرفتاریوں کی تعداد 2020ء کی نسبت کم رہی۔ ریاست ہر ایک ہڑتال اور احتجاج کو دبانے سے قاصر ہے، جسے ایسا کرنے کے ردعمل اور مغلوب ہونے سے ڈر ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ملک گیر ہڑتالوں کے دباؤ میں آ کر حکومت کچھ رعایتیں فراہم کرے۔ ایسی رعایتیں ریاست کے وجود کو معاشی اور سیاسی دونوں طرح سے خطرہ لاحق کر سکتی ہیں، کیونکہ وہ مزید ہڑتالوں کا باعث بنیں گی۔ نا گزیر طور پر، جدوجہد سے گزرتے ہوئے ایرانی مزدور تحریک ایک طاقتور سیاسی قوت بن کر ابھرے گی۔

دوسری جانب، ملک بھر میں عدم اطمینان بھی پھیل رہا ہے، جو عوامی ذرائع معاش پر ریاستی حملوں کے نتیجے میں شدید ہوا ہے۔ ملک گیر ہڑتالوں کے علاوہ، ریاست مستقبل قریب میں مزید بغاوتوں کے لیے خود کو تیار کر رہی ہے۔ 2018ء سے لے کر اب تک ہونے والی تین ملک گیر بغاوتیں اس لیے ناکام ہوئیں کیونکہ اس میں منظم محنت کش طبقہ شریک نہیں تھا۔ آزادانہ ٹریڈ یونینز نے اپنی شرکت بیانیوں تک محدود کی ہوئی ہے، جن میں حمایتی بیانات سے لے کر نعروں اور مطالبات تک اور ریاستی تشدد کی مذمت شامل ہوتی ہے۔ ماضی میں تنہا رہ جانے کے باعث تمام بغاوتوں کو مکمل طور پر کچلا گیا تھا۔

ٹیچرز کوآرڈینیٹنگ کونسل جیسی ملک گیر تنظیمیں قائم کرنے کا عظیم قدم لینے کے باوجود، موجودہ صورتحال تمام محنت کش طبقے کی متحدہ جدوجہد کی طلب گار ہے۔ ایرانی ریاست کا خاتمہ کر کے ہی عوامی مطالبات کو پورا کیا جا سکے گا۔ جبر کا سامنا ہوتے ہوئے مزدور تنظیموں میں پہلے سے ہی سیاسی رجحان بڑھتا جا رہا ہے؛ یہ محض شروعات ہے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ پروان چڑھتی مزدور تنظیموں کو اپنا آپ مستقبل کی بغاوتوں میں بطورِ منظم قوت مداخلت کرنے کے لیے تیار کرنا ہوگا۔ اگر ان تنظیموں نے 2021ء کی خوزستان بغاوت میں عام ہڑتال کی کال دی ہوتی تو تمام محنت کش طبقہ ضرور میدان میں کود پڑتا۔ یہ بات پہلے سے زیادہ واضح ہو چکی ہے کہ ریاست محض انقلابی قیادت کی عدم موجودگی کے باعث ابھی تک اقتدار میں ہے۔

سیاسی جدوجہد کی جانب بڑھو! ایرانی حکمران طبقہ مردہ باد!

40 سالہ جابرانہ آمریت کے باعث ملک گیر مزدور تحریک کی عدم موجودگی ناگزیر تھی، مگر ایرانی ریاست کا تختہ الٹنے کے لیے صورتحال اس سے پہلے اتنی زیادہ سازگار نہیں ہوئی جتنی آج ہے۔ 2018ء سے ہونے والی تین بغاوتیں، مسلسل ہڑتالیں اور احتجاج، اور پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کا بائیکاٹ سماج میں موجود انقلابی رجحان کا عکاس ہے۔ محض ایسی انقلابی قیادت کا فقدان ہے جو الگ تھلگ احتجاجوں اور ہڑتالوں کو متحدہ عوامی تحریک میں یکجا کرنے کی اہل ہو۔ تسلسل کے ساتھ جاری طبقاتی جدوجہد ناگزیر طور پر ایسی قیادت جنم دینے کا باعث بنے گی؛ سوال محض یہ ہے کہ کب؟

موجودہ مزدور تنظیموں کے پاس متحدہ جدوجہد کے لیے مہم چلا کر ایسی قیادت تخلیق کرنے کا موقع موجود ہے، جو ریاست کے خلاف مستقبل کی عوامی تحریک کے لیے راہ ہموار کرے گی۔ مختلف مزدور تنظیموں نے پہلے سے ہی ایک ہی طرح کے معاشی اور سیاسی مطالبات رکھے ہیں، جنہیں پورے سماج میں مقبولیت حاصل ہے۔ اب، انہیں محض محنت کش طبقے کی وسیع تر پرتوں اور غریبوں کو متحدہ جدوجہد کی اپیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ان میں معاشی مطالبات کو شامل کرنا ہوگا، جیسا کہ: تمام عوام دشمن اقدامات کی واپسی؛ افراطِ زر کی مناسبت سے بڑھتی ہوئی گزارے لائق پنشن اور اجرتیں؛ ملک کی منہدم ہوتی انفراسٹرکچر کی مرمت اور ترقی کے لیے وسیع پیمانے پر سرکاری منصوبے؛ نجکاری شدہ تمام کمپنیوں کو محنت کشوں کے اختیارات کے تحت دوبارہ قومیانا؛ اور پوری ریاستی معیشت میں محنت کشوں کے اختیارات متعارف کروانا۔

انہیں سیاسی مطالبات کو بھی شامل کرنا ہوگا، جیسا کہ ہڑتال، احتجاج اور اکٹھ کرنے کا حق؛ آزادانہ ٹریڈ یونینز قائم کرنے کا حق؛ اور نسلی و مذہبی اقلیتوں سمیت خواتین کے لیے مساوی حقوق۔ مگر ملا اشرافیہ کے اقتدار کے خاتمے اور قانون ساز اسمبلی کے قیام کا مطالبہ بھی اہمیت کا حامل ہے۔ البتہ مُلّا اشرافیہ کا تختہ الٹنا ایرانی سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد میں محض پہلا قدم ہوگا؛ مہذب اور با وقار زندگی کے عوامی مطالبات کو پورا کرنے کا پہلا قدم۔