مہنگائی، عدم استحکام اور بغاوتیں: عالمی سرمایہ داری کا ’نیا معمول‘

کرونا وباء نے پہلے سے موجود سرمایہ دارانہ بحران کو مزید تیز اور گہرا کر دیا ہے۔ آج ہمیں دہائیوں کے سب سے گہرے سماجی، معاشی اور سیاسی بحران کا سامنا ہے۔ کچھ حد تک معاشی بحالی کے باوجود، پچھلے عرصے میں سرمایہ داروں کی جانب سے مجبوری میں لیے جانے والے اقدامات (یعنی دیوہیکل پیمانے پر ریاستی اخراجات) کا نتیجہ اب افراطِ زر میں اضافے کی صورت نکل رہا ہے، جس کے باعث بڑھتی ہوئی مہنگائی دنیا بھر میں غم و غصّے اور عدم استحکام کو اشتعال دے رہی ہے۔

[Source]

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

عوام غصّے میں ہیں، اور بوسیدہ حکومتیں ہر سطح پر غیر مقبول ہوتی جا رہی ہیں۔ ہر سمت طبقاتی جدوجہد اور لڑاکا رجحان میں بڑھوتری کا معمول ہے۔

ہم واقعتاً ایک دلچسپ عہد میں زندہ ہیں۔ ایک ایسی دنیا جو ہنگاموں سے بھرپور ہے۔ یہ پُر انتشار معلوم ہوتی ہے۔ لوگ ارد گرد نظر دوڑا کر سوال کرتے ہیں: اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ آپ چاہے جس سے بھی بات کریں، آنے والے واقعات کے لیے گہری پریشانی نمایاں ہوتی ہے۔ بعض لوگوں کے مطابق یہ ہلچل اس جانب اشارہ ہے کہ دنیا کا خاتمہ ہونے جا رہا ہے۔ مگر سچ یہ ہے کہ یہ دنیا ختم نہیں ہونے جا رہی بلکہ سماج کی موجودہ شکل کا خاتمہ ہونے جا رہا ہے۔ یہ بہت ہی ہنگامہ خیز خاتمہ ہوگا، جو طویل عرصے پر محیط ہوگا۔

آج کے دلچسپ عہد میں مارکس وادی ہونا سعادت کی بات ہے۔ البتہ یہ عہد فقط دلچسپ ہی نہیں ہے۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ ہمارا وقت آ رہا ہے۔ یہ تاریخ کا وہ دور ہے جب پچھلی دہائیوں کے دوران جن نظریات کے دفاع کے لیے ہم نے زمانے کے خلاف جدوجہد کی تھی، وہ سب سے منطقی نظریات بن جائیں گے۔ جہاں کہیں بھی آپ دیکھیں، آپ کو سماج کی ہر سطح پر، تمام ممالک کے اندر سرمایہ دارانہ بحران کے اثرات نظر آئیں گے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے پاس مارکسزم کا شاندار طریقہ کار ہے، جو ہمیں موجودہ صورتحال کو سمجھنے اور دوسرے لوگوں کو اس کی وضاحت کرنے کا اہل بناتا ہے۔

ہمیں اپنی بات کا آغاز اس بات سے کرنا ہوگا کہ اس نظام کا بحران وباء کی وجہ سے شروع نہیں ہوا۔ وباء سے پہلے ہی، اپنے مضامین میں ہم تجزیہ کر رہے تھے کہ اس نظام کا سنجیدہ بحران شروع ہو رہا ہے۔ وباء نے محض سماج کے بنیادی تضادات کو مزید تیز، گہرا اور شدید کر دیا، جس سے شدید معاشی گراوٹ نے جنم لیا۔ یقیناً، ہر بحران کے بعد بحالی کا دور بھی ہمیشہ آتا ہے۔ مستقل کساد بازاری جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ بہرحال، بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بحالی کے عرصے میں ہمیں بحیثیت مجموعی نظام کی عمومی صحت کو دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ناگزیر طور پر، جب لاک ڈاؤن کی پابندیاں مکمل طور پر ہٹائی گئیں تو معیشت میں ایک حد تک بحالی دیکھنے کو ملنی ہی تھی۔ اٹلی میں پچھلے سال شرحِ نمو میں 6 فیصد اضافہ ہوا، جو چین کی سطح کی بڑھوتری ہے! آپ کو تو پھر یوں لگا ہوگا کہ شاید اٹلی نے اب تک اپنے تمام مسائل حل کر دیے ہوں گے۔ مگر ہوا اس کے بالکل الٹ ہے، اور اطالوی معیشت بڑھوتری کی بجائے گہرے بحران میں ہے۔

اوپر جانے والی چیز کو ہمیشہ نیچے آنا پڑتا ہے، اور معاشی اعتبار سے، نیچے جانے والی چیز کو ہمیشہ اوپر آنا پڑتا ہے۔ یہ معمول کی اور متوقع بات ہے۔ مگر حالیہ بحالی اپنے ساتھ کیا لا رہی ہے؟ اگر اس حقیقت کو نظر انداز بھی کر دیا جائے کہ ابھی سے یہ دوبارہ سست روی کا شکار ہے، جس کا اظہار تمام اعداد و شمار سے ہو رہا ہے، تو پھر بھی ہمیں ایک ایسا نیا عنصر دیکھنے کو مل رہا ہے جس سے نئی نسل نا واقف ہے، یعنی ہر جگہ پر افراطِ زر میں اضافہ، جس کے ساتھ معاشی پالیسی تبدیل کر کے شرحِ سود میں اضافہ کیا جا رہا ہے، اور قرض کا بحران بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے ممالک اگرچہ بظاہر بحالی حاصل کر چکے ہیں، مگر یہ بحران سے پہلی والی سطح پر نہیں ہے۔

پچھلے 20 سالوں سے، عالمی جی ڈی پی کے مقابلے میں عالمی قرض دگنی رفتار سے بڑھتا رہا ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ عالمی قرض عالمی جی ڈی پی کا 355 فیصد ہے۔ محض پچھلے سال قرضوں کے سود کی مد میں 11 ٹریلین ڈالر ادا کیے گئے، جو اٹلی جیسے ملک کی جی ڈی پی سے چار یا پانچ گنا بڑی رقم بنتی ہے۔ یہ سب کچھ انتہائی سستے قرضوں کی وجہ سے ممکن ہوا۔ در حقیقت، سرمایہ داری پچھلی دو دہائیوں سے ذائد عرصے سے بسترِ مرگ پر پڑی ہے۔ معاشی ترقی کے پیچھے سستے قرضوں کا ہاتھ رہا ہے۔ اب سستے قرضوں کا دور ختم ہونے جا رہا ہے۔ اور سرمایہ دار بہت بڑی الجھن کا شکار ہیں۔

ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی تمام پیش گوئیاں اس جانب اشارہ کر رہی ہیں کہ اگلے دو سے تین سالوں میں، اگرچہ بڑھوتری ہوگی، مگر شرحِ نمو ہر سال گرتی جائے گی۔ یعنی بالکل ایسے عرصے میں جب شرحِ نمو میں اضافے کی پالیسیاں درکار ہیں، افراطِ زر میں اضافے کے باعث، پچھلے عرصے میں کیے جانے والے اقدامات کے باعث، وہ ایسی پالیسی اپنانے پر مجبور ہیں جو معیشت کو مزید سست روی کا شکار کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پر چین کی متوقع شرحِ نمو 5 فیصد ہے، جو چینی حکومت کے لیے بری خبر ہے۔ عالمی معیشت کی عمومی حالت پر جنوری میں شائع ہونے والی ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق ”وباء کے باعث بڑھنے والی نا برابری کے نتیجے میں سماجی تناؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔“

’بحالی‘، مگر کس قیمت پر؟

اس نام نہاد بحالی کے ساتھ کئی ممالک میں بیروزگاری کم ہونے کی طرف گئی ہے۔ مگر، ان نوکریوں کی اکثریت عارضی ہے یا قلیل مدتی معاہدوں پر مشتمل ہے، مثلاً اٹلی میں۔ بہرحال، اہم بات یہ ہے کہ جب محنت کشوں کو نوکریاں مل رہی ہوں، جب روزگار کے مواقعوں میں اضافہ ہو رہا ہو، جیسا کہ امریکہ میں دیکھنے کو ملا، تو ضروری نہیں کہ یہ عمل طبقاتی جدوجہد کے نقطہ نظر سے ایک منفی چیز ہو۔ ٹراٹسکی نے اس کی وضاحت کی تھی، اور یہ آنے والے عرصے میں محنت کشوں کے جدوجہد میں شامل ہونے کی تیاری پر اثر انداز ہوتا ہے۔ جب مہنگائی اجرتوں کی قوتِ خرید پر دباؤ ڈال رہی ہو، خصوصاً محنت کشوں پر، تو طبقاتی تصادم شدت کے ساتھ اُبھرتا ہے۔

جیسا کہ لینن نے وضاحت کی تھی، سرمایہ داری ہمیشہ بحران سے نکلنے کے لیے راستہ ڈھونڈ لیتی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کس قیمت پر؟ سرمایہ دارانہ نظام وباء کے بحران سے نکل رہا ہے، مگر اس کے ساتھ دیوہیکل پیمانے پر قرضوں میں بھی اضافہ ہوا ہے، خاص کر حکومتی قرضے جن میں ہر جگہ پر دیوہیکل اضافہ ہوا ہے، اور افراطِ زر میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ جس بحران میں وہ تھے اس کے ’حل‘ کے یہی نتائج نکلے ہیں۔

جب میں اپنی یہ تقریر تیار کر رہا تھا، ترکی کا افراطِ زر 36 فیصد تھا۔ آج فنانشل ٹائمز کے مطابق یہ تقریباً 50 فیصد تک پہنچ چکا ہے؛ جو روس میں 9 فیصد؛ ہسپانیہ میں 7 فیصد ہے۔ برطانیہ میں یہ 5 فیصد ہے جو 30 سالوں میں بلند ترین سطح ہے۔ اگر ہم ترقی یافتہ ممالک سے ہٹ کر دیکھیں تو نائیجیریا میں یہ تقریباً 16 فیصد، اور پاکستان میں 13 فیصد ہے۔ اور افراطِ زر کی یہ سطح کم از کم اگلے دو سالوں تک اسی طرح بلند رہنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ در حقیقت، انہیں کچھ پتہ نہیں کہ یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔

حکمران طبقہ بارود کے ڈھیر پر بیٹھا ہوا ہے۔ میں مختصراً قزاقستان کے واقعات پر بات رکھوں گا۔ قزاقستان کے واقعات سال کے شروع میں تنبیہہ کی صورت میں نمودار ہوئے۔ تمام ممالک میں، آپ محنت کش گھرانوں کے انٹرویوز دیکھ سکتے ہیں جو وضاحت کرتے ہیں کہ مہینے کے آخر تک گزر بسر کتنا مشکل ہوتا ہے۔ اور یہ محض غریب ترین، یا سب سے نچلی پرتیں نہیں ہیں بلکہ سارا محنت کش طبقہ ان مشکلات کا شکار ہے۔ برطانیہ میں اندازوں کے مطابق افراطِ زر میں اضافے کے باعث اوسط گھرانے کی قوتِ خرید میں 1200 پاؤنڈز کمی آئے گی۔ تمام ممالک میں اسی طرح کی صورتحال ہے۔

اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں بھی خاص کر شدید اضافہ ہو رہا ہے۔ یاد رہے کہ 2011ء کی عرب بہار تحریک میں ایک اہم عنصر اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ تھا۔ اور 2019ء میں دوبارہ اسی حوالے سے کئی ممالک میں احتجاجوں کی لہر دیکھنے کو ملی۔

عمومی معاشی صورتحال پر اپنی بات سمیٹتے ہوئے، میں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر گائی رائیڈر کی بات نقل کروں گا، جس کا کہنا تھا: ”کرونا وباء کے بحران کے باعث نا برابری میں ہونے والے اضافے سے غربت میں بڑھوتری، اور ایسے معاشی و سماجی عدم استحکام کا خطرہ ہے جو تباہ کُن ثابت ہوگا۔“ آنے والے عرصے میں یہی کچھ ہونے جا رہا ہے!

اسی تناظر میں ہمیں قزاقستان کے واقعات کو دیکھنا ہوگا۔ (ان واقعات پر ہم نے شاندار مضامین لکھے ہیں، چنانچہ ان کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے)۔ گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ تحریک کے لیے چنگاری ثابت ہوئی۔ اس سے پہلے افراطِ زر میں 9 فیصد اور اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں 13-18 فیصد اضافہ ہو چکا تھا۔

قزاقستان کی تحریک کو اشتعال دینے والے عناصر دنیا کے ہر ملک میں موجود ہیں۔ ذرا دیکھئے کیا ہوا! اس کا آغاز ایک خطے سے ہوا اور پورے ملک میں پھیل کر یہ طاقتور تحریک بن گئی، جس میں سڑکوں کے اوپر پولیس اور فوج کے ساتھ جھڑپیں دیکھنے کو ملیں۔ یہ محنت کش عوام کی حقیقی تحریک تھی۔ اس میں تیل اور گیس کے شعبوں سے لے کر کان کنی اور سٹیل مل تک کے محنت کش شامل تھے۔ تیل کے محنت کش اجرتوں میں 100 فیصد اضافے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ تحریک میں محنت کش طبقے کے روایتی مطالبات سامنے آئے۔ مانغیستاؤ کے خطے میں عام ہڑتال کی گئی۔

قزاقستان میں جو کچھ دیکھنے کو ملا، وہ محنت کش طبقے کی قوت تھی۔ جو ریاست کے لیے خطرہ بن کر سامنے آئی۔ اس میں بغاوت کے عناصر شامل تھے، جیسا کہ ائیرپورٹوں اور پولیس سٹیشنوں پر قبضے کیے گئے۔ مگر قیادت موجود نہیں تھی اور قیادت کی عدم موجودگی میں وہی کچھ ہوتا ہے جو دیکھنے کو ملا۔ ریاست نے ابتدائی طور پر کچھ رعایتیں دیں اور اس کے بعد شدید حملہ کیا۔ انہوں نے تحریک دبانے کے لیے روس کی مدد بھی طلب کر لی۔ مگر تحریک کو اشتعال دلانے والے مسائل اب بھی حل طلب ہیں۔ ان واقعات کو مثال بنا کر دو اہم نکات کی نشاندہی کی جا سکتی ہے؛ ایک یہ کہ محنت کش طبقے میں قوت موجود ہے، اور دوسرا یہ کہ قیادت کی عدم موجودگی میں یہ قوت ضائع ہو جاتی ہے۔ ان واقعات کو دیکھ کر سنجیدہ بورژوا تجزیہ کار بہت پریشان تھے کیونکہ انہیں بھی ان چیزوں کی سمجھ ہے جو ہم مارکس وادی سمجھتے ہیں، مگر وہ ان کو اپنے طبقاتی مفادات کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔

طبقاتی جدوجہد اور تصادم

بہرحال، ہر جگہ محض شدید ہوتی طبقاتی جدوجہد ہی نہیں بلکہ مختلف سرمایہ دارانہ قوتوں کے بیچ بڑھتے ہوئے تصادم بھی نظر آ رہے ہیں۔ یہ ایک منطقی بات ہے؛ ہر سرمایہ دارانہ قوت اپنے بحران کو حل کرنے کی خاطر اپنے مسائل بیرونِ ملک منتقل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ بڑھتی ہوئی تحفظاتی پالیسیوں کے رجحان کا مطلب یہ ہے کہ ہر قومی سرمایہ دار طبقہ غیر ملکی روزگار کو قربان کر کے اپنے ملک کے روزگار کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے، اور اہم بات یہ کہ، دیگر منڈیوں میں اپنی برآمدات بڑھا کر اپنی منڈیوں کو بچا رہے ہیں۔

موجودہ صورتحال کو دیکھنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ تمام قوتیں کیوں زیادہ جارحانہ خارجہ پالیسیاں اپنا رہی ہیں۔ جس کے باعث دنیا کے مختلف علاقوں میں ان کے بیچ تصادم کا سامنے آنا لازمی ہوتا ہے۔ یوکرائن کا بحران اس بات کی نشاندہی کرتا ہے۔ ہمیں نظر آتا ہے کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد سے نیٹو روس کے تاریخی حلقہ اثر کی جانب دھیرے دھیرے پیش قدمی کرتا جا رہا ہے، جو روسی سرحدوں کے قریب سے قریب تر ہو رہا ہے۔ اگر یوکرائن نیٹو میں شامل ہو جاتا ہے، تو نیٹو روس کے مغربی کنارے تک پہنچ جائے گا۔

یہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب روس دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑا ہو گیا ہے اور دوبارہ توازن حاصل کر چکا ہے۔ میں ایک رپورٹ پڑھ رہا تھا جس میں نشاندہی کی گئی ہے کہ کس طرح روسی فوج میں بڑے پیمانے پر جدت لائی گئی ہے، جو حالیہ برسوں میں کئی گنا زیادہ با اثر ہو گئی ہے۔ پیوٹن اپنی اس طاقت کو اب استعمال کرنے لگا ہے جو اس نے جمع کی ہے۔ مغرب میں یہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ نیٹو جمہوریت پھیلاتا ہے اور انسانی حقوق فراہم کرتا ہے۔ بورژوازی، جو ہمیشہ دوسروں پر الزام لگاتے رہتے ہیں، کے پروپیگنڈے پر مارکس وادی بیوقوف نہیں بنتے۔ روس کے نقطہ نظر سے، نیٹو کا دیوہیکل اتحاد اس کے لیے گھر کے پڑوس میں ہی خطرہ بن رہا ہے۔ ’قصور کس کا ہے؟‘ ایک احمقانہ سوال ہے جس میں ہماری کوئی دلچسپی نہیں۔

سب سے زیادہ امکانات اس کے ہیں کہ پیوٹن، جو دھمکیاں دے کر آخری حدوں تک جا رہا ہے، مذاکرات کرنے کے لیے ایسا کر رہا ہے۔ البتہ، یہ بھی خارج از امکان نہیں ہے کہ وہ مختصر اور محدود مداخلت کی جانب جا سکتا ہے۔ اس کے امکانات زیادہ نہیں ہیں، مگر ایسا ہو سکتا ہے۔ بہرحال، پیوٹن کے پاس استعمال کرنے کو دیگر حربے بھی ہیں۔ یورپی یونین کی 40 فیصد گیس روس مہیا کرتا ہے۔ یہ بالخصوص جرمنی کے لیے اہم بات ہے، جس سے وضاحت ہوتی ہے کہ جرمنی کیوں یورپ میں امریکی خارجہ پالیسی کا زیادہ حامی نہیں ہے۔

پیوٹن یورپ کے اندر ٹوٹ پھوٹ کو دیکھ رہا ہے۔ بورس جانسن کو بھی ملکی مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے کچھ چاہیے، لہٰذا وہ یوکرائن اڑ کر چلا گیا اور اپنی بھرپور حمایت کا اعلان کیا، جبکہ اطالوی وزیراعظم دراغی نے فون کال کر کے پیوٹن سے یقین دہانی طلب کی کہ اٹلی کی گیس کی سپلائی میں رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔ میرے خیال میں ایک بینکار اور مسخرے کے دماغ میں یہی فرق ہے۔ بہرحال، یہ ایک سنجیدہ تصادم ہے۔ مگر براہِ راست جنگ کے نتائج عالمی معیشت کے لیے مکمل تباہی ثابت ہوگی۔ بورژوا پریس میں اس قسم کی جنگ کے معاشی نتائج کے حوالے سے ایسے کئی مضامین ہیں جو آپ پڑھ سکتے ہیں۔

امریکہ جن سخت پابندیوں کی دھمکیاں دے رہا ہے، ان کے عالمی معیشت پر شدید اثرات پڑیں گے، جو عالمی معیشت کو سست روی کا شکار کرنے والے عناصر میں اضافہ کرے گا۔ یوکرائن کا بحران سرمایہ داری کے عالمی بحران کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ قوتوں کے بیچ بڑھتے ہوئے تناؤ کا اظہار ہے۔ اس سے یورپی یونین کے اندر بڑھتی ہوئی ٹوٹ پھوٹ ظاہر ہوتی ہے۔ یہ امریکہ اور یورپ کے بیچ بڑھتے ہوئے اختلافات کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ عالمی سطح پر امریکی سامراجیت کی نسبتاً کمزوری کا بھی اظہار ہے۔ مگر یہ روس کے اندر پیوٹن کے اندرونی بحران کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ اس کی مقبولیت کی شرح گر رہی ہے۔ روس کے اندر مہنگائی بڑھی ہے اور غربت بھی بڑھ رہی ہے۔

طویل وباء اور پولرائزیشن

میں کرونا وباء پر تفصیل میں نہیں جانا چاہتا، اگرچہ یہ موجودہ حالات میں ایک اہم عنصر ہے۔ کئی ممالک پابندیاں ہٹا رہے ہیں، مگر عالمی ادارہ صحت نے تنبیہہ جاری کی ہے کہ وباء کا ”خاتمہ ابھی دور ہے۔“ محض ایک ہفتے میں، اومیکرون نے عالمی سطح پر 1 کروڑ 80 لاکھ لوگوں کو متاثر کیا۔ امید کی جا رہی ہے کہ اومیکرون، جو کم جارحانہ معلوم ہوتا ہے، زیادہ مسئلہ کھڑا نہیں کرے گا۔ مگر اس کی پھیلنے کی رفتار زیادہ ہے، اور اب تو اومیکرون 2 کی قسم آ چکی ہے جو پہلے سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔

شاید وائرس میں تبدیلی رونما ہو رہی ہے، اور وباء ایک مستقل بیماری کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے، لوگ امید کر رہے ہیں کہ یہ فلو کی ایک نئی قسم بن جائے گی۔ بہرحال، ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا اور سرمایہ داری کے ہوتے ہوئے اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتا کہ دنیا نے پچھلے دو سالوں میں جو کچھ جھیلا ہے وہ دوبارہ نہیں ہو سکتا۔

کرونا کے اثرات لوگوں کی صحت کو براہِ راست متاثر کرنے سے بڑھ کر ہیں۔ اس نے نظام کے لیے وہ مسائل پیدا کر دیے ہیں جن میں محض معاشی دھچکے ہی شامل نہیں۔ اس نے عوام کے سامنے نظام کو بے نقاب کر دیا ہے۔ حکومت اور اشرافیہ، اور ان کے اقدامات پر عوام کی بڑی پرتیں اب اعتماد نہیں کرتیں۔

مثال کے طور پر، برطانوی حکومت کے موجودہ بحران کی بنیادی وجہ لاک ڈاؤن کے دوران اعلیٰ عہدیداران کا برتاؤ ہے۔ ایک جانب لوگ گھروں میں مقیم یا ہسپتالوں میں داخل اپنے معمّر رشتہ داروں کی تیمارداری کرنے نہیں جا سکتے تھے، جبکہ دوسری جانب بورس جانسن ڈاؤننگ سٹریٹ میں پارٹیاں کر رہا تھا۔ وقفے وقفے سے کوئی نہ کوئی ٹوری اس طرح کی ویڈیو ضرور بناتا ہے، جس کا واضح مقصد اندرونی دھڑا بندی کے سلسلے میں بورس جانسن کو غیر مقبول بنانا ہوتا ہے۔ اب لوگوں کے ذہن میں حکومت کی یہ تصویر بن چکی ہے کہ وہ خود عیاشیوں میں مگن ہو کر ہمیں گھر رہنے کی تاکید کر رہی تھی، کیونکہ اسے عام لوگوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ عوام اس سے یہی مراد لے رہے ہیں۔

اس کے علاوہ یہ اضافی مسئلہ بھی موجود ہے کہ وباء کے معاشی نتائج کی قیمت کون چکائے گا۔ حکومتی قرضوں میں دیوہیکل اضافہ ہوا ہے اور کسی نہ کسی پر اس کا بوجھ ڈالا جائے گا، جو بلاشبہ محنت کش طبقہ ہی ہوگا۔ جیسا کہ نرسز کے احتجاجوں میں نظر آتا ہے۔ نرسز کا کہنا ہے کہ، ”وباء کے دوران وہ ہمیں سراہ رہے تھے، مگر جب اجرتوں میں اضافے کی بات آئی تو حکومت طبی محنت کشوں کی اجرتوں میں حقیر اضافے کی پیشکش کر رہی ہے۔“ یہ ایک ایسا عنصر ہے جو بڑھتے ہوئے تصادم میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔

یہاں دنیا کے تمام ممالک پر بات رکھنے کی گنجائش نہیں ہے، مگر چند ایک کو دیکھتے ہوئے رونما ہونے والے عمومی عمل کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ امریکہ میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا؛ وباء کے بعد متعدد شعبوں میں اجرتوں کے اضافے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ نجی صنعت کے شعبے میں پچھلے سال اجرتوں میں 4 فیصد اضافہ کیا گیا، جو 20 سالوں کا بلند ترین اضافہ تھا۔ مسئلہ دراصل یہ ہے کہ امریکہ میں افراطِ زر کی شرح 4 نہیں بلکہ 7 فیصد ہے۔ افراطِ زر کی شرح پچھلے 40 سالوں میں بلند ترین سطح پر ہے۔ یہ طبقاتی جدوجہد کے محرکات ہیں۔ جو پچھلے سال امریکہ میں ہڑتالوں کی لہر کے پیچھے کارفرما تھے۔

یکے بعد دیگرے ہر ملک میں یہی ہو رہا ہے؛ برطانیہ میں بھی یہی کچھ دیکھنے کو ملے گا۔ یہ قابلِ غور بات ہے کہ امریکہ کے اندر محنت کشوں کا محض 11 فیصد یونین کا حصہ ہے۔ میں نے برطانوی ٹریڈ یونینز کی صورتحال پر فنانشل ٹائمز کا ایک مضمون پڑھا۔ مضمون میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ چونکہ ٹریڈ یونین کی ممبرشپ 1970ء کی دہائی کی نسبت تقریباً آدھی ہے، اس لیے 70ء کی دہائی کی سطح پر ہڑتالیں دیکھنے کو نہیں ملیں گی۔ انہیں یاد کرنے کی ضرورت ہے کہ فرانس میں ٹریڈ یونین کی ممبرشپ اس سے بھی کم تھی جب مئی 68ء کی تحریک اُبھری تھی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یونین میں کتنے لوگ ہیں۔ تحریک کے ابھار کا انحصار محنت کش طبقے کے غم و غصّے اور اس کی لڑاکا تیاری پر ہوتا ہے۔ میں نے ایک رائے شماری میں دیکھا کہ 65 فیصد امریکی ٹریڈ یونینز کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ اس حوالے سے 1965ء کے بعد سب سے بڑی تعداد ہے۔ حتیٰ کہ نوجوان اس سلسلے میں زیادہ لڑاکا ہیں۔ امریکہ میں 18 سے لے کر 29 تک کی عمر رکھنے والے افراد میں سے 78 فیصد ٹریڈ یونین کی حمایت کرتے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ محنت کش طبقے کے بیچ کیا جنم لے رہا ہے۔

میں امریکہ پر اپنی بات ایک دلچسپ تجزیے کے ساتھ ختم کرنا چاہوں گا۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی پروفیسر، باربرا والٹر نے ایک کتاب لکھی ہے کہ خانہ جنگیاں کیسے شروع ہوتی ہیں۔ وہ برما، شمالی آئرلینڈ، روانڈا، سری لنکا، شام اور یوگوسلاویہ کے تجربات پر تجزیہ کرتے ہوئے مشترکہ عناصر دریافت کرتی ہے۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے مطابق یہ عناصر آج امریکہ میں بھی موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کے پاس اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔ مگر وہ درحقیقت امریکہ کے اندر شدید ہوتے طبقاتی جدوجہد پر بات کر رہی ہے۔

امریکہ کے بعد دوسری قوت چین ہے، جہاں متوقع 5 فیصد شرحِ نمو ماضی کی نسبت کافی کم ہے۔ جسے دیکھتے ہوئے سنجیدہ تجزیہ کار چین کے اندر بڑھتے ہوئے عدم استحکام کے خطرے پر بات کر رہے ہیں۔ چین کے اندرونی مسائل سے فکرمند ہو کر شی جن پنگ نے اپنے اختیارات بڑھا دیے ہیں، اور ساتھ میں کافی زیادہ جارحانہ خارجہ پالیسی اپنانے کی طرف بھی گیا ہے۔ چین کا آسٹریلیا کے ساتھ تصادم رہا ہے، اور بحیرہ جنوبی چین کی ملکیت کے دعوے کیے ہیں۔ اس کی جاپان، اور ہمالیہ میں بھارت کے ساتھ جھڑپیں ہوئی ہیں۔ وہ تائیوان کو مسلسل دھمکیاں دے رہا ہے اور ہانگ کانگ کے حوالے سے انتہائی جارحانہ مؤقف اپنایا ہے، جس کو وہ چین کے ساتھ ملحق کر رہا ہے۔

یہ چین کے اندر دہائیوں سے جاری دیوہیکل معاشی ترقی ہی ہے جس نے چین کو عالمی سطح پر امریکہ کے مدمقابل لا کھڑا کر دیا۔ شی جن پنگ عالمی مسائل کے بارے میں فکرمند ہے ہی مگر وہ اندرونی مسائل کے حوالے سے بھی پریشان ہے۔ چین کے اندر غربت اور امارت کے بیچ بڑھتی ہوئی خلیج عالمی سطح پر انتہائی شدید ہے۔ شی جن پنگ اس سے اچھی طرح واقف ہے۔ وہ چین کے اندر سماجی پولرائزیشن (مخالف رجحانات میں اضافہ) کے نتائج کے حوالے سے کافی پریشان ہے۔ اور اسے شدید مالیاتی بحران کا بھی سامنا ہے، جیسا کہ ایور گرینڈ کمپنی کی صورت میں دیکھنے کو ملا۔ چین میں ہاؤسنگ کی صنعت جی ڈی پی کا 30 فیصد بنتا ہے۔ ایور گرینڈ دنیا کے سب سے بڑے پراپرٹی ڈیویلپرز میں سے ایک ہے۔ اور اس کا قرض 300 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے، جو چینی معیشت اور نتیجتاً عالمی معیشت کے لیے ایک خطرہ ہے۔

میں اٹلانٹک کونسل کی ایک رپورٹ، جو دسمبر میں لکھی گئی، کے الفاظ نقل کرنا چاہوں گا۔ اس میں چین کے حوالے سے لکھا گیا تھا:

”اسے زبردست سماجی ہلچل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس کے باعث اقتدار پر حکومت کی گرفت کمزور ہو جائے گی۔ چین کا ان مسائل سے نمٹنے کا طریقہ اس پر بھی اثر انداز ہوگا کہ وہ دنیا سے کیا برتاؤ کرے گا اور یہ کہ اس کی معیشت مستقبل کی عالمی شرحِ نمو میں معاون ثابت ہوگی یا رکاوٹ۔“

چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ چین عالمی معیشت کے انجن کا کردار نبھانے کی بجائے ان عناصر میں سے ایک بن چکا ہے جو اس کی ترقی میں رکاوٹ ثابت ہو سکتے ہیں۔

ہم اور وہ

آئیے پیوٹن کو درپیش مسائل اور روس پر دوبارہ نظر دوڑاتے ہیں۔ روس کے اندر بیروزگاری بڑھ رہی ہے، جو 8 سالوں کی بلند ترین سطح پر ہے۔ حقیقی آمدنی گر رہی ہے، افراطِ زر کی شرح 9 فیصد ہے، اور پیوٹن کی مقبولیت کی شرح 2012ء کے بعد سے کم ترین سطح پر ہے۔ جیسا کہ ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں، مقبولیت میں کمی پیوٹن کی خارجہ پالیسی کو سمجھنے میں ایک اہم عنصر ہے۔ چنانچہ، روس اور چین دونوں، جو بڑی قوتیں ہیں، کے باعث دیوہیکل پیمانے پر عدم استحکام آنے کے امکانات ہیں۔ وہ عالمی سطح پر استحکام لانے میں کردار ادا نہیں کر سکتے۔ یہ دونوں ممالک عالمی بحالی کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔

یوکرائن کے معاملے میں امریکہ روس پر دباؤ ڈال رہا ہے جبکہ چین روس کی حمایت کر رہا ہے۔ کیونکہ دونوں کا مشترکہ دشمن امریکہ ہے۔ بحر الکاہل میں چین کا امریکہ کے ساتھ تصادم ہے۔ اس نے تائیوان کے بارے میں جارحانہ مؤقف اپنایا ہے، اور اسی لیے اس قسم کے معاملے میں روس کے ساتھ مشترکہ مفادات رکھتا ہے۔

یورپ کے اندر، ہم ہمیشہ کہتے آئے ہیں کہ یورپی یونین کی کمزور ترین کڑی اٹلی ہے۔ وہ جرمنی اور فرانس کے بعد یوروزون (یورو کرنسی کا استعمال کرنے والے ممالک) کی تیسری بڑی معیشت ہے۔ جب میں نے حالیہ عرصے میں اٹلی کا دورہ کیا تو وہاں طنزیہ طور پر یہ بات مشہور تھی کہ ”اب ہمیں جو کہا جائے وہی کرنا پڑے گا“، کیونکہ ”یورپیوں“، یعنی جرمن اور فرانسیسیوں، نے ہمیں اربوں یوروز دیے ہیں، وہی ہمارے ملک کے فیصلے کریں گے۔ یورپی یونین کے نام نہاد بحالی منصوبے کے تحت، جو یورپی معیشت میں اربوں انڈیل رہا ہے، اٹلی کو بھی تقریباً 200 ارب یوروز دیے جا رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اٹلی کا وزیراعظم، جو یورپی مرکزی بینک کا گورنر رہ چکا ہے، ان پالیسیوں پر عمل درآمد یقینی بنا رہا ہے۔ مسئلہ دراصل یہ ہے کہ سیاست کی دنیا اور کروڑوں لوگوں کے حالاتِ زندگی میں بڑھتی ہوئی دیوہیکل خلیج موجود ہے۔

اٹلی کے اندر مخلوط حکومت ہے۔ ساری پارٹیاں حکومت کا حصہ ہیں، سوائے انتہائی دائیں بازو کی پارٹی ’برادرز آف اٹلی‘ کے۔ حالیہ صدارتی انتخابات کی بد نظمی عمومی صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔ پارلیمنٹ اور سینیٹ کے اراکین نے ہفتہ بھر کے لیے ہر روز خود کو ووٹ ڈالنے سے روکے رکھا۔ یہ دراصل بہت بڑا سیاسی بحران تھا کیونکہ انہیں ایک مقبول آدمی کی ضرورت ہے، جو حالات کو اپنے قابو میں رکھے جبکہ اٹلی پر یورپی یونین کا پروگرام لاگو کیا جا رہا ہو۔ یہ واقعات ان تمام سیاستدانوں کی مقبولیت میں اضافہ کرنے کا باعث نہیں بنے ہیں۔

یہ کئی ممالک میں پایا جانے والا مشترکہ عنصر ہے؛ یہ سوچ کہ ’اوپر بیٹھے‘ لوگ ہماری نمائندگی نہیں کر رہے۔ سوال یہ ہے کہ اٹلی جیسے ملک پر آپ کیسے حکومت کریں گے، یعنی عوام دشمن پالیسیاں لاگو کر کے طبقاتی جدوجہد کو کیسے روکیں گے؟ میں نے قزاقستان کے حالیہ واقعات میں اس طرح کے تجزیے سنے کہ ”انہیں لڑائی کرنا آتا ہے!“ میں نے فرانس کی پیلی واسکٹ تحریک میں بھی ایسے تجزیے سنے تھے، ”فرانسیسیوں کو واقعی میں لڑائی کرنا آتا ہے!“ قزاقستان کی تحریک جن حالات میں پھٹ کر سامنے آئی، اٹلی میں بھی اسی طرح کے حالات ہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے اٹلی شدید متاثر ہوگا۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ جب دراغی نے پیوٹن کو کال کی تو وہ یوکرائن سے زیادہ گیس کی سپلائی کے بارے میں فکرمند تھا۔

فنانشل ٹائمز کے مطابق، جرمنی یورپ کا معاشی انجن ہونے کی بجائے یورپ کی بریک ثابت ہو سکتا ہے۔ جرمنی کو گھریلو اخراجات میں کمی کا سامنا ہے، اور صنعتی پیداوار اب بھی بحران سے پہلے والے دور کی نسبت کئی گنا کم ہے۔ جرمنی امریکہ کے بعد سب سے زیادہ برآمدات چین کو کرتا ہے اور چین میں سست روی آنے کی صورت جرمنی شدید متاثر ہوگا۔ اور جرمنی کی سست روی پورے یورپ کے لیے خطرناک ثابت ہوگی۔ چنانچہ دیکھا جا سکتا ہے کہ اس ساری صورتحال کا نتیجہ عمومی بحران کی صورت نکلے گا۔

برطانیہ کی صورتحال دیگر تمام ممالک میں وقوع پذیر عمل کی نشاندہی کرتی ہے۔ یہاں 300 سالوں کی بدترین معاشی گراوٹ دیکھنے کو ملی، جس کو بریگزٹ نے شدید تر کیا، جس کے باعث ٹرک ڈرائیوروں سے لے کر طبی محنت کشوں کی قلت، اور دکانوں میں اشیائے خورد و نوش تک کی قلت واقع ہوئی۔ اس کے علاوہ شمالی آئرلینڈ کا مسئلہ ابھی تک حل طلب ہے۔ شمالی آئرلینڈ کے ایک وزیر نے برطانیہ سے ہونے والی زرعی درآمدات کی جانچ پڑتال روکنے کی تجویز پیش کی ہے، جو یورپی یونین سے کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔ (بریگزٹ سے پہلے، جب شمالی آئرلینڈ اور جمہوریہ آئرلینڈ دونوں یورپی یونین کا حصہ تھے، ان کے بیچ تجارت کی کوئی جانچ پڑتال نہیں ہوتی تھی۔ بریگزٹ کے بعد یہ طے پایا تھا کہ برطانیہ سے جمہوریہ آئرلینڈ کی جانے والی برآمدات کی جانچ پڑتال شمالی آئرلینڈ میں ہوا کرے گی۔) چنانچہ برطانیہ کی حکومت بحران کا شکار ہے۔

بورس جانسن ایک کام میں واقعی مہارت رکھتا ہے، جو ہے کروڑوں کے سامنے سفید جھوٹ بولنا۔ اسے یہ بھی نہیں یاد کہ اس نے اپنے ہی فلیٹ میں پارٹی کی تھی۔ برطانیہ میں کروڑوں لوگ اس کی ان حرکتوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔ لوگ غصّہ ہیں اور کروڑوں سوچ رہے ہیں ”جب کروڑوں افراد کو سنجیدہ مسائل درپیش ہوتے ہیں تب ان کا برتاؤ یہ ہوتا ہے۔“

اس کے دور کا خاتمہ ہو چکا ہے اور اس کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ لیبر پارٹی ریاست کی وفادار اپوزیشن بنی ہوئی ہے۔ جب ٹوری پارٹی کا ایک رکن اٹھ کر چند قدم لینے سے لیبر پارٹی کا رکن بن جاتا ہے، اور سٹارمر اس کا خیر مقدم کرتا ہے، تو یہ اس بات کا اظہار ہے کہ سٹارمر نے کس حد تک پارٹی کو دائیں جانب جھکا دیا ہے۔

اوپری سطح پر اگرچہ یہ سب ہو رہا ہے، مگر ہمیں برطانوی محنت کش طبقے پر بھی نظر دوڑانے کی ضرورت ہے۔ ’یونائیٹ‘ ٹریڈ یونین کی ایک نئی جنرل سیکرٹری منتخب ہوئی ہے، جس کا نام شیرن گراہم ہے۔ اس نے ٹرائبیون میں 30 دسمبر کو مضمون شائع کروایا، جس میں اس نے لکھا تھا: ”ہمیں محنت کش طبقے پر مبنی ایک عوامی قوت تعمیر کرنی ہوگی۔“ کیا عموماً ایک ٹریڈ یونین لیڈر اس قسم کی باتیں کرتا ہے؟ کیا کسی اور ملک کے اندر آپ نے حالیہ عرصے میں کسی ٹریڈ یونین لیڈر کو یہ بات کہتے ہوئے سنا ہے؟ یہ نچلی سطح پر محنت کش طبقے میں موجود غم و غصّے کا اظہار ہے۔ مذکورہ یونین تاریخ میں پہلے کبھی اتنی زیادہ سرگرم نہیں ہوئی۔ شیرن کا کہنا تھا ”ہمیں بچانے کے لیے ویسٹ منسٹر سے کوئی ہیرو نہیں آئے گا“، میرے خیال میں اس کا مطلب یہ ہے کہ کاربن مزید متحرک نہیں رہا، پھر وہ مزید کہتی ہے، ”ہمیں خود ہی قدم اٹھانا پڑے گا۔“

آگے بڑھتے محنت کش

ہمیں محنت کش طبقہ سیاسی محاذ سے ٹریڈ یونین کے محاذ کی جانب منتقل ہوتا نظر آ رہا ہے۔ پچھلے عرصے میں برطانوی محنت کش طبقے نے لیبر پارٹی اور کاربن کے ذریعے اپنی آواز بلند کرنے کی کوشش کی۔ 5 لاکھ افراد لیبر پارٹی کا حصہ بنے، جن میں سے کئی اب چھوڑ چکے ہیں۔ مگر وہ کہیں غائب نہیں ہوئے! کاربن کے ذریعے جس غصّے اور لڑاکا رجحان کا اظہار ہوا تھا، وہ اب صنعتی محاذ پر ہو رہا ہے۔

ایک فنانشل میگزین ’منی ویک‘ نے جنوری میں ایک مزاحیہ مضمون شائع کیا۔ جس کا عنوان تھا ”اجرتوں میں اضافے کا مطالبہ کرو؛ ہر کوئی یہی کر رہا ہے!“ اس کے ساتھ محنت کشوں کے ایک مظاہرے کی تصویر شائع کی گئی تھی، جس میں انہوں نے ایک بینر پکڑا ہوا تھا جس پر لکھا تھا ”ہم ہڑتال کے نتائج نہیں بھگت سکتے“ اور اس کے ساتھ یہ بھی لکھا تھا ”ہم ہڑتال نہ کرنے کے نتائج نہیں بھگت سکتے“۔ سارے مضمون میں یونین میں شمولیت، اور پروان چڑھتے لڑاکا پن پر بات کی گئی تھی۔ اس کا اظہار برطانیہ کے کئی شعبوں میں ہڑتال کی حمایت میں اضافے سے ہو رہا ہے، جو ایک مرحلے پر جا کر ہڑتالوں کی لہر میں تبدیل ہوگی۔

موجودہ وقت میں یہ بحث کرنا بیکار ہوگا کہ بایاں بازو کون سی بڑی پارٹی کے ذریعے سامنے آئے گا۔ ہم نے ماضی میں پوڈیموس کو دیکھا، سائریزا کو دیکھا، میلنشون کو دیکھا جنہوں نے کروڑوں محنت کشوں اور نوجوانوں کے بیچ بائیں بازو کے لڑاکا رجحان میں اضافے کو کچھ حد تک نمائندگی فراہم کی۔ مگر چونکہ ان ساروں کا بنیادی مقصد نظام کی اصلاح کرنا، اور سرمایہ دارانہ نظام کے لیے سازگار پالیسیوں کو لاگو کرنا تھا، اس لیے وہ سب پیچھے ہٹنے اور اپنی لڑاکا بیان بازی ترک کرنے پر مجبور ہوئے۔ ان تجربات کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے عرصے میں محنت کشوں اور نوجوانوں کا غصّہ ہڑتالوں، مظاہروں اور احتجاجوں وغیرہ میں اپنا اظہار کرے گا۔

بہرحال، بورژوا معمول کی جانب واپس لوٹنا پسند کریں گے۔ مگر کس قسم کا معمول ان کا منتظر ہے؟ یہ افراطِ زر کی شرح میں اضافے کا معمول ہوگا، جو ہر جگہ پر دھیرے دھیرے شرحِ سود بڑھنے کا باعث بنے گا، نتیجتاً شرحِ نمو گرتی جائے گی۔ عالمی سطح پر اس کے علاوہ دیگر عناصر بھی ہیں جو معاشی بڑھوتری کی راہ میں مزید رکاوٹیں کھڑی کر سکتے ہیں، جیسا کہ چین کی معاشی سست روی سے لے کر ممکنہ طور پر روس کے اوپر لگنے والی پابندیاں، وغیرہ۔

ہر جگہ پر گہرے ہوتے معاشی بحران سے ریاستوں کا بحران بھی جنم لے رہا ہے۔ ہر ملک میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ اٹلی میں اس کا اظہار صدر منتخب کرنے کے سلسلے میں پارلیمنٹ کے بحران کی صورت نظر آیا۔ وہ کسی بات پر اتفاق نہیں کر پا رہے تھے، جس کے باعث ریاستی ادارے عوام کے سامنے ننگے ہو چکے ہیں۔ برطانیہ میں شاہی خاندان کا بحران ہے جہاں پرنس اینڈریو پر (امریکہ میں جنسی ہراسانی کا) مقدمہ چل رہا ہے، جبکہ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب پرنس ہیری ملک چھوڑ کر امریکہ چلا گیا تھا اور اپنے خاندان پر نسل پرستی کا الزام لگا رہا تھا۔ برطانوی پولیس ایک کے بعد دوسرے سکینڈل میں ملوث رہی ہے۔ امریکہ میں ٹرمپ کی بھڑکیلی تقریریں دیکھنے کو ملیں، جس کا کہنا تھا کہ وہ پچھلے سال واشنگٹن ڈی سی میں پارلیمان کی عمارت پر دھاوا بولنے والے افراد کو معاف کرے گا، جس سے وہاں پر جاری بحران کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔

کرونا کی پابندیاں ہٹانا پریشر کوکر کا ڈھکن ہٹانے کے مترادف ہوگا۔ محنت کش طبقہ میدانِ عمل میں داخل ہوگا، جن کی قیادت نوجوان کریں گے۔ اٹلی میں سکول کے طلبہ کی تحریک جاری ہے، جس پر روم اور تورن کے اندر ظالمانہ لاٹھی چارج کیا گیا ہے اور یہ عوام میں انقلابی رجحان میں اضافہ کرنے کا باعث بنے گا۔ نوجوانوں کی یہ تحریک دراصل محنت کشوں کی بڑی تحریک کا پیش خیمہ ہے۔

کامریڈز! ہمارا تناظر رجائیت سے بھرپور ہے، کیونکہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ سماج کی گہرائیوں میں کیا پنپ رہا ہے۔ اگر باقی بایاں بازو، اصلاح پسندوں وغیرہ کو دیکھا جائے، تو نظر آتا ہے کہ وہ کیوں قنوطیت کا شکار ہیں۔ ان کے پاس آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نہیں اور یہ اس لیے کہ وہ رونما ہونے والے تمام عوامل سے کٹے ہوئے ہیں۔ ہم قنوطیت پسند نہیں ہیں کیونکہ ہم صورتحال کو دیکھنے کے اہل ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ یہ کس جانب جا رہی ہے، یعنی عالمی سطح پر محنت کشوں اور نوجوانوں کی ایک ایسی تحریک کی جانب جو کئی دہائیوں میں نہیں دیکھی گئی۔

ہمارا تناظر واضح ہے۔ مگر واضح اور درست تناظر سے مارکسی رجحان کی تعمیر کا سوال خود بخود حل نہیں ہو جاتا۔ تناظر عمل کرنے کا ہدایت نامہ ہوتا ہے، ایک قطب نما جو حالات کا رُخ سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ مگر ہمیں موجودہ دور میں اپنے فرائض کی نشاندہی بھی کرنی ہوگی۔

ہر جگہ آپ انقلابی رجحان میں شدید اضافے کو محسوس کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اٹلی میں نوجوانوں کی ایک پرت ہے جنہوں نے انقلاب برپا کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور انقلابی تنظیم کی تلاش میں ہے۔ اپنے نظریے کی مدد سے ہم ان نوجوانوں کی اکثریت کو جیت سکتے ہیں، اور انہیں منظم کر کے اُن کا رُخ بحیثیت مجموعی محنت کش طبقے کی جانب موڑ سکتے ہیں۔ اگر ہم اپنا کام درست طور پر کریں اور اپنی قوتوں کی مناسب تعمیر کریں،تو ہم موجودہ دور کو واقعتاً دلچسپ بنا سکیں گے۔ ہمیں ہر کامریڈ کو احساسِ عجلت اپنانے کی جانب مائل کرنا ہوگا، اور یہ سمجھانا ہوگا کہ اگر ہم اپنی قوتیں تعمیر کرتے ہوئے آنے والے بڑے واقعات کی تیاری کریں تو تاریخ میں مارکس وادی کتنا بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں۔