برطانیہ: حکومت کی تمام چالوں کے باوجود ہڑتالی لہر کا سونامی آگے بڑھ رہا ہے

برطانیہ میں عدم استحکام کی سردی شروع ہو گئی ہے۔ نرس، ایمبولینس عملہ اور سرحدی سیکورٹی، سب ہڑتال میں شریک ہو رہے ہیں جبکہ ملک دہائیوں کی سب سے بڑی ہڑتالوں کی جانب بڑھ رہا ہے۔ جدوجہد میں شدت آتی جا رہی ہے، جبکہ ٹوری حکومت جبر کی دھمکیاں دے رہی ہے۔

[Source] کئی سالوں، حتیٰ کہ دہائیوں تک صنعتی محاذ پر خاموشی چھائی ہوئی تھی، مگر اب برطانیہ کا محنت کش طبقہ ایک دفعہ پھر بڑے پیمانے پر متحرک ہو رہا ہے۔ ہر دن محنت کشوں کے مزید نئے گروہوں اور پرتوں کی جدوجہد میں شامل ہونے کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ یہ واضح ہے کہ عدم استحکام کی سردی بھرپور انداز میں جاری ہے۔ نومبر کے اختتام میں برطانوی یونیورسٹیاں بند کر دی گئی تھیں۔ طویل عرصے سے شروع ریل اور ڈاک کے محنت کشوں کی جدوجہد کرسمس کے قریب آتے وقت بھی جاری رہی۔ برطانوی سرحد کے عملے نے 23 سے 26 اور 28 سے 31 دسمبر تک چھے ایئر پورٹس میں ہڑتال کا اعلان کیا۔ 1 لاکھ نرسز نے 15 سے 20 دسمبر کو ہڑتال کرنے کا اعلان کیا۔ ان کے بعد 21 سے 28 دسمبر تک ہزاروں کے ایمبولینس عملے نے ہڑتال کی۔ ان میں سے بعض ہڑتالوں کے اندر محنت کشوں کے بیچ روایتی لڑاکا پن اور منظم انداز دیکھنے میں آیا۔ مثال کے طور پر ریل، سمندر اور ٹرانسپورٹ کے محنت کشوں کی یونین ’آر ایم ٹی‘ اور کمیونی کیشن ورکرز یونین ’سی ڈبلیو یو‘ دونوں کی رکنیت ان صنعتوں میں ہے جہاں یونین کے اندر شمولیت کی شرح کافی زیادہ ہے۔ دیگر محنت کش اور یونینز، جیسا کہ ’پی سی ایس‘ کے سرکاری ملازمین، یا ’این ای یو‘ کے اساتذہ، کئی سالوں کی نسبتاً خاموشی کے بعد ملک گیر ہڑتال کی جانب لوٹ رہے ہیں۔ البتہ ہڑتال میں شامل ہونے والے کئی محنت کش مکمل طور پر جدوجہد کے میدان میں نئے ہیں، جن کو سرمایہ دارانہ بحران لڑنے پر مجبور کر رہا ہے۔ بیرسٹروں سے لے کر ٹیکنالوجی کے شعبوں کے محنت کشوں تک زیادہ سے زیادہ محنت کش، خصوصاً نوجوان، ہڑتال کو راہِ نجات کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

آگ سے کھلواڑ

صنعتی لڑاکا پن کی اس بڑھتی ہوئی لہر سے گھبرا کر، ٹوری پارٹی کے ممبرانِ پارلیمنٹ سخت تر یونین مخالف قوانین کے مطالبات زیادہ زور و شور سے کر رہے ہیں۔ 11 دسمبر کو پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے رشی سونک نے ”غیر معقول“ ہڑتالوں کے اثرات کو محدود کرنے کے لیے ”نئے سخت قوانین“ کا وعدہ کیا۔ اس کا مطلب ایسی قانون سازی ہو سکتی ہے جو نہ صرف ٹرانسپورٹ کے محنت کشوں، بلکہ فائر فائٹرز، شعبہ صحت اور ایمبولینس کے محنت کشوں کی کام پر موجودگی یقینی بنائے۔ نتیجتاً، اس کا مطلب ان کلیدی شعبوں کے محنت کشوں سے ہڑتال کا بنیادی حق چھیننا ہوگا۔ ایسا کرنے کے خواہشمند ٹوری آگ سے کھلواڑ کر رہے ہیں۔ اگر حکومت ہڑتال کے ان قوانین میں مزید سختی کرے جو پہلے سے ہی محدود ہیں تو اس کا نتیجہ مزید بڑے ردعمل کو اشتعال دے سکتا ہے۔ پہلے ہی، جارحانہ وزراء کے ہاتھوں مجبور کرنے کی صورت، مِک لِنچ اور شیرن گراہم جیسے یونین قائدین نے بجا طور پر غیر قانونی ہڑتالوں کی دھمکی دی ہے۔ محنت کشوں کے حقوق پر کھلے عام حملے کا جواب پوری مزدور تحریک کی جانب سے مل سکتا ہے۔ ”ہم ٹریڈ یونین مخالف قوانین کے حملوں سے مرعوب نہیں ہوں گے“، یونائیٹ یونین کی جنرل سیکرٹری گراہم نے سونک کے بیان کا جواب دیتے ہوئے کہا۔ ”اگر وہ ہمارے راستے میں مزید رکاوٹیں ڈالیں گے تو ہم ان کے اوپر چھلانگ لگا کر آگے بڑھیں گے۔“ ٹوری پارٹی واضح طور پر محنت کشوں کو متحرک ہونے سے ڈرانے کی کوشش کر رہی ہے؛ جو عوام کو ہڑتال کرنے والوں کا مخالف بنانے کی کوشش میں ہے۔ مگر وہ ناکام ہو رہی ہے۔ ملک بھر میں صنعتی ہڑتالوں کی عوامی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک حالیہ رائے شماری کے مطابق، تقریباً ہر پیشے اور شعبے کے حوالے سے برطانوی آبادی کی اکثریت محنت کشوں کے ہڑتال کے حق کی حمایت کرتی ہے۔ محنت کشوں کو ہر جگہ پر اجرتوں، روزگار اور کام کے حالات کے اوپر ایک جیسے حملوں کا سامنا ہے، جبکہ لڑاکا جدوجہد پورے محنت کش طبقے کے بیچ اعتماد کو پروان چڑھا رہی ہے۔

ہڑتال کے دن

اس دوران، ٹریڈ یونین تحریک کے اندر موجود دائیں بازو کے قائدین واضح طور پر پریشان ہیں کہ یہ ہڑتالی لہر ان کے قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔ ٹی یو سی (ٹریڈز یونین کانگریس، برطانوی ٹریڈ یونینز کی فیڈریشن) کی حالیہ کانگریس میں باہمی تعاون سے تحریک چلانے کی قراردادیں منظور ہونے کے بعد قیادت کے اوپر اپنا وعدہ نبھانے کا دباؤ ہے۔ نتیجتاً، 2023ء کے آغاز میں ملک گیر ایکشن ڈے منانے کی افواہیں ہیں، جب تمام یونینز ہڑتال کرنے کے حوالے سے ریفرنڈم کرتے ہوئے اپنے اراکین کو ہڑتال پر نکلنے کا کہیں گی۔ ایسا عمل آگے کی جانب ایک بہت بڑا قدم ہوگا، جو نئی پرتوں کو میدان میں اترنے کا حوصلہ دے گا، اور محنت کشوں کو مزید بھی آگے بڑھنے کی جرأت عطا کرے گا۔ مگر یہی وہ ممکنات ہیں جو دائیں بازو کے یونین قائدین کی راتوں کی نیند حرام کر رہی ہیں۔ کئی سالوں سے، ان قائدین نے ہڑتالوں کی شرکت اور یونین کی رکنیت تاریخی کم ترین سطح پر ہونے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اپنے جمود اور کاہلی کو جواز فراہم کیا ہے۔ اس کی بجائے، وہ ٹوری پارٹی اور مالکان کے ساتھ ’مذاکرات‘ اور ’سمجھوتہ‘ کرنے کا قدامت پرست راستہ اپناتے رہے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ، 1970ء کی دہائی میں طبقاتی جدوجہد کے عروج کے دور کے موازنے میں، 2022ء کی ہڑتالیں نسبتاً کم رہی ہیں۔ مگر اس حقیقت کو الگ کر کے دیکھنے سے پوری تصویر نظر نہیں آتی۔ 2002ء سے 2022ء تک کے عرصے کے لیے او این ایس (قومی ادارہ شماریات) کا جمع کردہ ڈیٹا ایک دلچسپ تصویر کشی کرتا ہے۔ اس ڈیٹا میں شدید تحرک والے مہینوں کو اگر مدنظر رکھا جائے (جیسا کہ 2011ء، سرکاری پنشن کے تنازعے کا سال)، زیادہ تر مہینوں میں ہڑتال کے باعث 80 ہزار سے لے کر 2 لاکھ 50 ہزار تک ورکنگ ڈے ضائع ہوئے ہیں (اگر ایک محنت کش ایک دن کام پر نہیں جاتا تو ایک ورکنگ ڈے ضائع ہوتا ہے)، جبکہ بہت کم مٹھی بھر سالوں میں یہ تعداد اس سے زیادہ رہی ہے۔ او این ایس کے گراف پر ریکارڈ کیے گئے حالیہ مہینوں میں اس حوالے سے واضح فرق نظر آتا ہے۔ ان مہینوں میں کم ترین نکتہ جولائی 2022ء ہے جو 86 ہزار دنوں کی اچھی خاصی تعداد ہے؛ جبکہ بلند ترین اگست ہے، جو 3 لاکھ 56 ہزار کی قابلِ غور تعداد ہے۔ اس دوران، فنانشل ٹائمز نے دسمبر میں ہڑتال کے باعث ضائع ہونے والے ورکنگ ڈیز کا 10 لاکھ سے زائد ہونے کا اندازہ لگایا۔ اور سٹرائیک میپ ویب سائٹ کے جمع کردہ ڈیٹا کے مطابق اس موسمِ سرما میں صنعتی تحرک کے باعث 1989ء کے موسمِ گرما کے بعد کی سب سے بڑی ہلچل دیکھنے کو ملے گی۔ بہ الفاظِ دیگر، کام چھوڑ ہڑتالوں کا رجحان واضح طور پر ابھر رہا ہے۔ اور اساتذہ، جونئیر ڈاکٹروں اور سرکاری ملازمین کی ملک گیر ممکنہ تحریک سمیت پہلے سے جاری ریل اور ڈاک کے محنت کشوں، نرسوں اور لیکچرارز کی جدوجہد کے باعث اس تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جائے گا۔

تنازعات

یقینا، حتیٰ کہ یہ ڈیٹا بھی پوری کہانی نہیں سناتا۔ اگر ہم موجودہ تنازعات (یعنی کام روک دینے کے واقعات) کے بارے میں بھی او این ایس کے گراف کا مشاہدہ کریں تو ہمارے سامنے صورتحال مزید واضح ہو جائے گی۔ مذکورہ بالا عرصے (2002ء-2022ء) کے دوران، یہ واضح ہے کہ پچھلے چار مہینوں میں جاری انفرادی تنازعات میں ڈرامائی جست دیکھنے کو ملی ہے۔ پچھلے نکتہ عروج (اگست 2006ء میں کام روک دینے کے 32 واقعات) کے موازنے میں حالیہ ہڑتالی لہر کے دوران یہ تعداد کافی زیادہ ہے، جب اگست 2022ء میں بیک وقت 75 اور ستمبر میں 71 کام چھوڑ تنازعات جاری رہے۔ ان میں سے اگر محض ایک مثال لی جائے تو یونائیٹ یونین کے مطابق اس کے اراکین کی جانب سے ملک بھر میں کی جانے والی بسوں کی ہڑتالوں کی تعداد میں 827 فیصد کا اضافہ ہوا: 2019ء میں 11 ہڑتالیں ہوئی تھیں، جبکہ شیرن گراہم کے منتخب ہونے کے بعد 102 ہڑتالیں ہوئی ہیں۔ جب ان دونوں ڈیٹا کا ایک ساتھ مشاہدہ کیا جائے تو وہ محنت کش طبقے کے بیچ پروان چڑھتے لڑاکا پن کا اظہار کرتے ہیں۔ موجودہ ہڑتالی لہر واضح طور پر دہائیوں کی وسیع ترین تحریک ہے۔ اور اس کے مزید بڑھنے کے واضح آثار بھی نظر آ رہے ہیں۔

دوبارہ بیدار ہوتا دیو

اگرچہ یہ عمل اب بھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے، اس حوالے سے گرم جوشی دکھانا بالکل جائز ہے۔ کئی دہائیوں سے، برطانوی محنت کش طبقہ ایک سوتے ہوئے دیو کی طرح تھا: جس کے پاس بے تحاشا قوت تھی، مگر وقفہ بہ وقفہ معمولی ہلچل کے علاوہ وہ زیادہ تر غیر متحرک تھا۔ البتہ، اب یہ دیو دوبارہ بیدار ہو رہا ہے۔ جب کسی ایک خطے یا کارخانے کے اندر محنت کش کام کے آلات نیچے رکھ کر مالکان کو للکارتے ہیں، یہ عمل باقی محنت کشوں کو بھی ایسا کرنے کے حوالے سے حوصلہ دیتا ہے۔ ایسے حالات میں، اعتماد اور لڑاکا پن انتہائی تیزی سے پھیل سکتا ہے۔ سرکاری شعبوں کے اندر یہ عمل قابلِ ذکر تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ رائل کالج آف نرسنگ (آر سی این) نے دسمبر میں دو روزہ ملک گیر ہڑتال کا فیصلہ کیا، جو اس یونین کی تاریخ کی پہلی ہڑتال ہے۔ ان کے ساتھ تین یونینز میں شامل ایمبولینس عملے کے ہزاروں محنت کش شامل ہوئے، اور سال کے اوائل میں بی ایم اے کے جونئیر ڈاکٹروں کی جانب سے بھی ان کا ساتھ دینے کے امکانات ہیں۔ ایف بی یو (فائر بریگیڈز یونین) ہڑتال کے حوالے سے اپنے ممبران کے بیچ ریفرنڈم کرا رہی ہے۔ اگر ہڑتال کے حق میں ووٹنگ کامیاب ہوئی تو 2004ء کے بعد فائر فائٹرز کی سب سے بڑی ہڑتال دیکھنے کو ملے گی۔ سرکاری ملازمت کے شعبے میں پی سی ایس نے ہڑتال کے منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے حکومت کے سب سے نازک حصے پر وار کیا، جس نے دسمبر میں کلیدی شعبوں کے اندر ہڑتال کی۔ ان میں ہیترو اور گاٹویک ایئر پورٹ سمیت 6 برطانوی ایئر پورٹس کی بارڈر فورس کا عملہ شامل تھا، جنہوں نے کرسمس اور نئی سال کی چھٹیوں کے دوران ہڑتال کی۔ ایمبولینس عملہ اور فائر فائٹرز کی ہڑتال کے باعث حکومتی وزراء نے فوج کو پاسپورٹ اور کسٹم کی جانچ پڑتال کرنے کی ذمہ داری سونپنے کی تجویز پیش کی۔ جنوری میں ہڑتالی محنت کشوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو جائے گا جب این ای یو، این اے ایس یو ڈبلیو ٹی، اور نیشنل ایسوسی ایشن آف ہیڈ ٹیچرز (این اے ایچ ٹی) ہڑتال کا حتمی فیصلہ کر لیں گے۔ یہ صورتحال تعلیم کے شعبے سے وابستہ 5 لاکھ سے زائد محنت کشوں، اور پہلے سے ہی برطانیہ کے کیمپسز بند کرنے والے یونیورسٹی اینڈ کالج یونین میں شامل ہوتے اراکین کی ہڑتال کو جنم دے سکتی ہے۔

تعاون

ایسے حالات میں، یہ پرانا جھوٹ کہ ”ہمارے ممبران ہڑتال میں شریک نہیں ہونا چاہتے“ مزید کھوکھلا ہوتا جا رہا ہے۔ دن بہ دن، محنت کشوں کے سامنے یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ ان کے پاس ہڑتال کی طرف بڑھنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ اس عمل سے ہڑتال کے باعث ضائع ہوتے ہوئے ورکنگ ڈیز اور جاری تنازعات دونوں کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وضاحت ہو جاتی ہے جو ماہانہ طور پر ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔ یہ آگے بڑھنے کا راستہ بھی دکھاتا ہے۔ محنت کش پہلے ہی ایک دوسرے کی جدوجہد کو دیکھتے ہوئے متاثر ہو رہے ہیں، اور اب جبکہ ٹی یو سی نے جدوجہد کے لیے باہمی تعاون بڑھانے کی قرارداد منظور کی ہے تو وقت آ چکا ہے کہ متحدہ ہڑتالی تحریک منظم کرتے ہوئے حکومت کے اوپر وہاں پر وار کیا جائے جہاں اسے درد ہوتا ہے۔ پہلے ہی بعض یونینز، جیسا کہ آر ایم ٹی، سی ڈبلیو یو، یو سی یو، پی سی ایس اور اساتذہ کی یونینز، کے قائدین نے اس حوالے سے ٹھوس قدم لیے ہیں۔ یکم اکتوبر کو ریل اور ڈاک کے محنت کشوں نے ایک وقت میں کام چھوڑ کر ہڑتال کی۔ اسی طرح، نومبر میں یونیورسٹی کی ہڑتالیں رائل میل کے محنت کشوں کے ساتھ مل کر کی گئیں۔ اس عمل کو اب مزید وسیع کرتے ہوئے ٹریڈ یونین تحریک کے دیگر بڑے دستوں، جیسا کہ یونیسن، یونائیٹ اور جی ایم بی کو بھی شامل کرنا ہوگا۔ مزید برآں، اوپری سطح کے تعاون کو نچلی سطح پر منظم ہونے کے ساتھ جوڑنا ہوگا۔ مطلب یہ کہ صنعتوں اور یونینز میں عام محنت کشوں پر مشتمل ہڑتالی کمیٹیاں تشکیل دینی ہوں گی؛ اور ہر قصبے اور شہر میں ایکشن کونسلیں قائم کرنی ہوں گی، تاکہ عوامی احتجاجوں، ریلیوں، اور دھرنوں کو منظم کیا جا سکے۔ ایسا کرنے سے ہڑتالی تحریک اوپر سے لے کر نیچے تک مضبوط ہوگی، اور محنت کش بطورِ ایک متحد قوت یکجا ہوں گے، اور ملک بھر کے کارخانے مفلوج ہو جائیں گے۔

آگے کیا؟

ظاہر ہے، ہمارے پاس کوئی جادوئی طریقہ نہیں ہے کہ ہر نشیب و فراز کی پیشگوئی کریں۔ بہرحال، آگے کا عمومی راستہ واضح طور پر نظر آ رہا ہے۔ پہلے ہی مقامی سطح پر کئی قابلِ ذکر فتوحات حاصل کی جا چکی ہیں، جیسا کہ بندرگاہ کے محنت کش، بس ڈرائیور اور صفائی کے محنت کش افراطِ زر کے مطابق اپنی اجرتوں میں اضافہ کروانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ لڑاکا پن کا صلہ ملتا ہے۔ البتہ، ملک گیر سطح پر، ابھی تک نہ حکومت اور نہ ہی بڑے مالکان کو جھکنے پر مجبور کیا جا سکا ہے۔ اس کی بجائے، ٹوری پارٹی اور اس کی پشت پناہی کرنے والے سرمایہ دار اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں، جو اس سے خوفزدہ ہیں کہ محنت کشوں کے مطالبات مان کر وہ مزید تحرک کو اشتعال دے سکتے ہیں۔ ریل کا جاری تنازعہ ایک زبردست مثال ہے۔ مالکان اور ریل ڈیلیوری گروپ میں موجود ان کے نمائندوں کے پیٹھ پیچھے جا کر حکومت نے مذاکرات کے لیے ڈرائیوروں کا کام شروع کرنے کی شرط رکھی ہے، وہ جانتے ہیں کہ آر ایم ٹی اس شرط کو نہیں مانے گی۔ بہ الفاظِ دیگر، ٹوری پارٹی جان بوجھ کر معاہدہ نہ ہو پانے کی کوشش کر رہی ہے۔ البتہ، رعایتیں نہ دینے کے باعث برطانیہ کی ہڑتالی لہر مزید ابھر رہی ہے، اور جدوجہد مزید تلخ اور لڑاکا ہوتی جا رہی ہے۔ ٹوری پارٹی یونین مخالف قوانین کے حوالے سے جو بھی فیصلہ کرے، برطانوی سرمایہ داری کے گہرے ہوتے ہوئے، اور آنے والے عرصے میں دیوہیکل پیمانے پر مزدور دشمن اقدامات کے باعث، طبقاتی جدوجہد میں زبردست شدت آنے کے لیے حالات سازگار ہیں۔ یہ رجحان وقت کی مجبوری ہے، اس لیے اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں تحریک کے اندر باہمی تعاون کی ضرورت بھی بڑھتی جا رہی ہے، اور ایک ایسی لڑاکا قیادت کی ضرورت بھی جو واضح سوشلسٹ متبادل سے لیس ہو۔

انقلابی قیادت

ابھی تک ہونے والی ہڑتالیں متاثر کن رہی ہیں۔ مگر یہ محض داستان کا پہلا صفحہ ہے۔ برطانوی معیشت پہلے ہی طویل اور تباہ کن کساد بازاری میں داخل ہو چکی ہے۔ اور سرمایہ دارانہ بحرانات کا بوجھ محنت کشوں کے اوپر ڈالنے کے لیے مزید کٹوتیوں اور حملوں کا اعلان کیا گیا ہے۔ نئے سال میں صنعتی محاذ کے اندر خاموشی آنے کے کوئی امکانات نہیں۔ اس کے برعکس، سرکاری شعبوں کے اندر بڑی ہڑتال شروع ہونے کے امکانات پہلے سے کئی زیادہ ہیں۔ اور کئی دھرنوں اور احتجاجوں کے اندر، عام ہڑتال کا نعرہ بھی بلند کیا گیا ہے، اور ان نعروں میں مزید شدت آتی جائے گی اگر ٹوری پارٹی اسی طرح یونین مخالف قوانین کے ذریعے اشتعال انگیزی کرتی رہی۔ جیتنے کے لیے، تحریک کے قائدین کو ایک ایسے بیباک سوشلسٹ پروگرام کے گرد محنت کشوں کو متحرک کرنا ہوگا، جو بڑے بینکوں اور اجارہ داریوں کو قومیانے، اور ارب پتیوں کی دولت پر قبضہ کرنے کی بات کرے، تاکہ محنت کش طبقے کو درپیش مسائل کا حقیقی معنوں میں خاتمہ کیا جا سکے۔ برطانیہ کے اندر جوں جوں محنت کش طبقہ دوبارہ بیدار ہوتا جا رہا ہے اور اپنی پرانی لڑاکا روایات دوبارہ دریافت کر رہا ہے، اس دوران جاری ہڑتالی لہر طبقاتی جدوجہد کی سونامی بنتی جا رہی ہے، اس ابھرتی ہوئی لہر کو اگر انقلابی قیادت میسر آ جائے تو یہ نہ صرف ٹوری پارٹی کو اقتدار سے ہٹانے، بلکہ پورا بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام کا صفایا کرنے کی بھی طاقت رکھتی ہے۔