”وحشی“ روس اور ”مہذب“ مغرب

ایک شہرہ آفاق جملہ ”میں آپ کی بات سے متفق نہیں ہوں لیکن میں اس بات کو کہنے کے لئے آپ کے حق کا موت تک دفاع کروں گا“ فرانسیسی فلسفی والٹیئر سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس نے الفاظ کہے یا نہیں یہ علیحدہ بحث ہے لیکن ان الفاظ کو بہرحال حقِ اظہارِ رائے کے اصول کو بیان کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

[Source]

انگریزی میں پڑھنے کیلئےیہاں کلک کریں

اظہارِ رائے اور اس کے ساتھ میڈیا کی آزادی کو ہمیشہ جمہوریت کا ایک بنیادی ستون قرار دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ بھی ایک بنیادی فرق ہے جو مغربی دنیا کی باوقار عوام کو دیگر بیچاری قوموں سے منفرد کرتا ہے۔ تصور کیا جاتا ہے کہ یہ پتھر پر وہ لکیر ہے جو بربریت اور تہذیب میں فرق کرتی ہے۔ سب سے بڑھ کر آج کی دنیا میں، جس تاریخی لمحے میں ہم زندہ ہیں، اس کا مطلب تہذیب یافتہ، جمہوری اور مغربی دنیا کی آزادی پسند عوام اور روسی آمرانہ بربریت کے درمیان فرق ہے۔

مشرق تو ’مشرق‘ ہے۔۔۔

ایک لمحے کے لئے ہمیں عرصہ دراز سے مجبورولاچار روسی عوام کی حالت زار پر سوچنا چاہیے۔ خونخوار زار ولادیمیر کی فاسق اور تاریک سلطنت میں یہ بدقسمت عوام حقیقی جمہوریت کے سب سے عظیم تحفے یعنی آزاد میڈیا سے محروم ہے۔

ہمارے برعکس یہ سرکاری پروپیگنڈے کے علاوہ کچھ پڑھ سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی سن سکتے ہیں۔ تمام مخالف یا نیم مخالف میڈیا لمحہ بھر میں بند کر دیا جاتا ہے۔ جو بچ جاتا ہے اس پر سنسرشپ کے ذریعے کڑی نظر رکھی جاتی ہے۔

اس وجہ سے بیچاری روسی عوام کی وہی رائے ہوتی ہے جو کریملن میں موجود مردِ آہن انہیں بتاتا ہے۔ کم از کم ہمیں تو یہی بتایا جاتا ہے۔

اگرچہ میڈیا کی طاقت بہت زیادہ ہے لیکن یہ ابدی نہیں۔ جلد یا بدیر عوام کو شک ہونے لگتا ہے کہ حکومت ان سے سچ نہیں بول رہی اور سرکاری میڈیا صرف اتنا ہی بتا رہا ہے جتنا وہ بتانا چاہتا ہے۔

کئی روسی شہروں میں جنگ مخالف احتجاج ہو رہے ہیں جن پر ریاست نے بہت جبر کیا ہے۔ یہ واضح ہے کہ کئی افراد زار ولادیمیر اور اس کے سرکاری میڈیا پر اعتماد نہیں کرتے۔ اگر جنگ طوالت اختیار کرتی ہے تو بداعتمادی اور بغاوت کا یہ موڈ مزید بڑھے گا۔

۔۔۔اور مغرب پھر ’مغرب‘ ہے

تہذیب یافتہ مغرب بالکل مختلف ہے۔ یہاں کہیں بھی حکومت اور نیٹو کے خلاف احتجاجوں کی خبر نہیں ملے گی۔ ایسا لگتا ہے کہ عوامی رائے مکمل طور پر حکومت کی قیادت میں متحد ہے۔ سادہ الفاظ میں اس کی تشریح یہ ہے کہ روس برا اور یوکرین اچھا ہے۔۔کہانی ختم!

قومی اتحاد کا یہ عظیم اظہار اس لئے ممکن ہے کیونکہ بیچاری روسی عوام کے برعکس مغربی جمہوریت کی عوام کے پاس بے تحاشہ میڈیا ذرائع ہیں جن کے ذریعے ہم قائل ہیں کہ ہمارے لیڈر درست ہیں اور ہمارے دشمن غلط ہیں۔

ہم جمہوری برطانیہ کی مثال لیتے ہیں۔ میں نے شام چھ بجے کی خبروں کے لئے اپنا ٹی وی چلایا۔ خبر رساں نے مجھے بڑی تفصیل سے بتایا کہ یوکرین آرمی کی ہمت و بہادری سے روسی افواج کی پیش قدمی رُک چکی ہے جس میں برطانیہ اور امریکہ کی بد دل مدد بھی شامل ہے۔ پھر بڑی تفصیل سے جابر روسی حملہ آوروں کے نئے مظالم، حقیقی یا خیالی، سے آگاہ کیا گیا، جس کے بعد مغربی لیڈران کی ایک طویل قطار نے ان جابرانہ اقدامات کی انتہائی جوشیلے انداز میں مذمت کی۔

’بربر مشرق‘ کے برعکس ’تہذیب یافتہ‘ مغرب کے پاس تو آزاد میڈیا ہے۔۔۔جو درحقیقت سرکاری احکامات پر ہی چلتا ہے۔

خبروں کا اختتام انسانی مشکلات کی دل دہلا دینے والی منظر کشی، بے پناہ مہاجرین اور کچھ انٹرویوز سے ہوا تاکہ جنگ کی ہولناکیوں کے خلاف انسانی ہمدردی اور یکجہتی کے فطری جذبات ابھارے جائیں۔

پھر میں نے ITV چینل کھولا جہاں یہی خبر، یہی انٹرویوز اور یہی بیانات چل رہے تھے۔ اس کے بعد مختلف آراء سے ہٹ کر مستند خبریں جاننے کے لئے میں نے نام نہاد سنجیدہ خبروں والا چینل 4 نیوز کھولا۔ لیکن کچھ نیا جاننے کے بجائے میرے سامنے وہی خبریں اور وہی باتیں چل رہی تھیں۔

کچھ ہفتے پہلے رشیا ٹوڈے تک رسائی ممکن تھی۔ یہ واحد چینل تھا جو مختلف باتیں کر رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ ہر ذی شعور انسان کو پتہ ہے کہ رشیا ٹوڈے کس کی زبان بولتا ہے۔ دیگر چینلوں کی طرح اس چینل پر جو کچھ بتایا جائے اسے من و عن ماننا ضروری نہیں ہے۔ لیکن کم از کم یہ مختلف آراء کا ایک ذریعہ تھا جس کے ذریعے معروضی صورتحال کے حوالے سے کوئی رائے قائم کی جا سکتی تھی۔

اب نہیں! بورس مسخرے کی حکومت میں ہمارے جمہوری سورماؤں نے اس واحد مخالف آراء پر مبنی ٹی وی چینل کو فوری طور پر بند کرنے کے لئے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ اس مطالبے پر پارلیمنٹ میں تالیوں کی گونج میں فوری عمل کیا گیا۔ تالیاں بجانے والوں میں سب سے زیادہ پرجوش سر کیئر سٹارمر اور لیبر پارٹی کے انتہائی دائیں بازو کے ممبران تھے جو اب کسی بھی حوالے سے ٹوری پارٹی سے مختلف نہیں ہیں سوائے اس کے کہ روس کے خلاف تادیبی کاروائیوں کے حوالے سے ان کے مطالبات اور بھی زیادہ سخت ہیں جس میں تیسری عالمی جنگ تک بھی شامل ہے۔

تمام مخالفت کو خاموش کرانے کے بعد ہمارے جمہوری سورماء اب پراعتماد ہیں کہ قومی اتحاد ہو چکا ہے اور وہ کسی تضاد سے آزاد اپنا پرجوش پروپیگنڈہ جاری رکھ سکتے ہیں۔

لیکن ایک منٹ! کیا یہی جمہوری مغرب اور پیوٹن کی جابرانہ آمریت میں ایک بنیادی فرق نہیں تھا؟ اور کیا اس میں میڈیا کی آزادی شامل نہیں تھی؟ اگر یہ درست ہے کہ روس میں عوام جنگ پر ایک ہی سرکاری رائے سننے پر مجبور ہے تو پھر یہ بات تو مغربی عوام کے لئے بھی درست ہے۔

شریف النفس لوگ یہ نتیجہ نکالیں گے کہ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ لیکن یہ معصومانہ غلطی ہو گی۔ ظاہر ہے کہ ایک بہت بنیادی فرق ہے۔۔روسی عوام سرکاری پروپیگنڈہ سننے پر مجبور ہے لیکن برطانیہ اور دیگر آزاد ملکوں میں ہم اپنی آزادانہ مرضی سے وہی خبر سنتے ہیں جو ہمیں سنائی جاتی ہے۔

درحقیقت یہ خبریں سرکاری منشاء کا اظہار ہیں۔ یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ، یہ سرکاری منشاء خود سفاک حکمرانوں کی مرضی اور چالبازیوں کا اظہار ہے۔

زچہ و بچہ ہسپتال کا عجیب و غریب معاملہ

9 مارچ کو رپورٹ آئی کہ ایک روسی حملے میں ماریوپول شہر میں ایک زچہ و بچہ ہسپتال کو نقصان ہوا ہے۔

ایک بہترین مشین کی مانند پروپیگنڈہ ڈیپارٹمنٹ فوراً متحرک ہو گیا۔ تمام نیوز میڈیا کا ایک ہی مسئلہ بن گیا کہ یوکرینی صدر زیلنسکی نے حملے کو ایک جنگی جرم قرار دیا ہے۔ اس نے حملے کو ”نسل کشی کا سب سے بڑا ثبوت“ کہا ہے۔

لیکن اس حوالے سے کچھ سوال اٹھ رہے تھے۔ اس نے ایک ویڈیو بھی پوسٹ کی جس میں بظاہر ہسپتال اندر سے دکھایا گیا تھا کہ یہ مکمل طور پر برباد ہو چکا ہے۔ اگر واقعی ایسا تھا تو مردہ اور زخمیوں کی قابلِ ذکر تعداد ہونی چاہیے تھی۔

دونیتسک علاقائی ایڈمنسٹریشن (اس میں ماریوپول کی بندرگاہ بھی شامل ہے) کے سربراہ پاولو کیریلنکو نے کہا کہ کوئی اموات رپورٹ نہیں ہوئیں اور واضح طور پر کہا کہ بچوں کی اموات سے متعلق کوئی اطلاعات نہیں ہیں۔

ماریوپول شہری کونسل نے کہا کہ حملے سے ”دیو ہیکل نقصان“ ہوا ہے اور ایک ویڈیو بھی چلائی جس میں جلی ہوئی عمارتیں، تباہ گاڑیاں اور ہسپتال کے باہر ایک بہت بڑا گڑھا دکھایا گیا۔ بی بی سی نے ویڈیوز میں بتائی گئی جگہ کی تصدیق تو کی لیکن فوت ہونے والوں کی تعداد کی تصدیق نہیں کی۔

میں ٹھوس معلومات کا انتظار کرتا رہا۔ لیکن خبریں اور ٹی وی پر ویڈیوز مبہم تھیں۔ ان میں کئی خواتین کو دیکھا جا سکتا ہے جو اپنے پریشان روتے بچوں کو سنبھال رہی ہیں۔ کسی بھی عام انسان کے لئے غم و غصہ اور شکوک ابھرنا فطری تھا۔

ایک یوکرینی ممبر پارلیمنٹ دمیتری گورین نے بی بی سی کو بتایا کہ کمپلیکس پر بمباری ہوئی ہے۔

اس کا کہنا تھا کہ ”یہ ایک ہی کمپلیکس ہے۔۔ایک زچہ و بچہ ہسپتال“۔

”بہت زیادہ خواتین جان بحق ہوئی ہیں اور زخمی ہیں۔ ہمیں بچوں اور نومولود کے بارے میں ابھی کچھ نہیں پتہ“۔

غم و غصے کا شور آسمان تک جا پہنچا۔ ”لاپرواہ“، ”جابرانہ“، ”مکروہ“، ”فاسق“ اور جانے کون کون سے الفاظ استعمال نہیں ہوئے۔

ساری بیان بازی متوقع تھی۔ وائٹ ہاوس نے معصوم شہریوں کے خلاف قوت کے ”جابرانہ“ استعمال کی مذمت کی۔ بورس جانس نے ٹویٹ کیا کہ ”کمزور اور بے یارومددگار کو نشانہ بنانے سے زیادہ مکروہ شائد ہی کوئی اور عمل ہو“۔ وغیرہ وغیرہ۔

لیکن ابتدائی اطلاعات انتہائی مبہم رہیں اور حیران کن طور پر اموات کا کوئی ذکر نہیں ہوا۔ مقامی نمائندوں کا کہنا تھا کہ سترہ افراد بشمول سٹاف اور مریض زخمی ہیں۔ لیکن یہ ایک ابتدائی تخمینہ تھا اور یہ بھی بتایا گیا کہ ملبے کے نیچے لوگ دبے ہوئے ہیں۔

یقینا مرنے والوں اور زخمیوں کی تعداد تو مسلسل بڑھے گی؟

لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بعد میں ابتدائی کہانی تبدیل کر دی گئی۔ اب کہا گیا کہ تین افراد جن میں ایک بچہ بھی شامل ہے، جاں بحق ہوئے ہیں۔ میں نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے ایک اتنی بڑی عمارت تباہ و برباد ہو چکی ہے لیکن اموات اتنی کم ہیں؟ ایک ہی تشریح ممکن ہے کہ بمباری کے دوران عمارت خالی تھی یا زیادہ تر خالی تھی۔

روسی ایک خالی عمارت پر بمباری کیوں کریں گے؟ روسیوں نے جواب دیا کہ یوکرینی، عمارات، جیسے ہسپتالوں کو خالی کراتے ہیں، پھر ان پر انتہائی دائیں بازو کے قوم پرست، اس واقعے میں آزوف رجمنٹ، قبضہ کر لیتے ہیں جو روسیوں پر گولیاں برسا کر دانستہ طور پر حملے کرواتے ہیں۔ درحقیقت حملے سے پہلے ایک روسی میڈیا رپورٹ میں نشاندہی کی گئی تھی کہ آزوف عناصر نے اس ہسپتال میں پوزیشن سنبھال لی ہے۔ کیا ان ساری معلومات پر کم از کم سوچ بچار لازمی نہیں؟

ظاہر ہے ان دلائل کو فوری طور پر یوکرینی اور ان کے امریکی اور برطانوی اتحادیوں نے پروپیگنڈہ کہہ کر مسترد کر دیا۔ ہمارے نام نہاد میڈیا کو اجازت نہیں ہے کہ وہ حقیقی طور پر کوئی متبادل وضاحتیں تلاش کریں۔ کیا صحافت کی یہ ذمہ داری نہیں کہ تمام زاویوں سے ایک واقعے کی تحقیقات کی جائیں اور پھر رپورٹ پیش کی جائے؟ لیکن جیسے ایک صحافی نے کہا تھا کہ ”حقائق سے ایک اچھی کہانی کیوں خراب کریں؟“۔

کئی آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ روس پر جنگی جرائم، یہاں تک کہ نسل کشی کا مقدمہ چلایا جائے۔ اس حوالے سے ہمیں واضح ہونا چاہیے۔ ایک امریکی جرنیل نے کہا تھا کہ جنگ جہنم ہے۔ جنگ کا مطلب ہی لوگوں کا قتل ہے۔ اورچاہتے یا نا چاہتے جنگ میں معصوم عوام قتل ہوتے ہیں۔

اس لئے پروپیگنڈے کی اس غلیظ بوچھاڑ کو کوئی اہمیت نہیں دینی چاہیے جس میں سے بے حسی، سفاکی اور منافقت کی غلیظ ترین بدبو آ رہی ہے۔ میں حقائق کے ساتھ یہ ثابت کرتا ہوں۔

نظر انداز امریکی جنگی جرم

3 اکتوبر 2015ء کو امریکی ہوائی حملوں میں شمالی افغانستان کے شہر کندوز میں Medicines Sans Frontiers (MSF) کا ایک ہسپتال تباہ ہو گیا۔ یہ ایک ایسا تحقیق شدہ واقعہ ہے جس کو کسی طرح جھٹلایا نہیں جا سکتا۔

اس رات ایک امریکی گن شپ نے ہسپتال کی مرکزی عمارت پر 211 شیل برسائے۔ یہ حملہ ایک گھنٹہ جاری رہا جبکہ اس دوران MSF کی ٹیمیں فوجی قیادتوں سے رابطے کر کے حملہ روکنے کی منتیں کرتی رہیں۔

امریکیوں کو معلوم تھا کہ ٹارگٹ ایک ہسپتال ہے۔ MSF نے کئی دن پہلے امریکی وزارتِ دفاع، کابل میں افغان وزارتِ داخلہ اور دفاع، اور امریکی افواج کو اپنی GPS لوکیشن دی تھی۔

کم از کم 42 افراد جان بحق ہوئے جن میں 24 مریض، 14 سٹاف اور 4 لواحقین شامل تھے، جبکہ 37 افراد زخمی ہوئے۔

MSF نے بعد میں رپورٹ دی کہ:

”ہمارے مریض اپنے بستروں میں جل گئے، ہمارے میڈیکل سٹاف کے سر تن سے جدا ہو گئے یا اعضاء ضائع ہو گئے۔ ایک عینی شاہد کے مطابق عمارت سے بھاگنے والے دیگر افراد کو گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔ ہسپتال میں لوگوں کا یہی خیال ہے کہ یہ حملہ تباہ و برباد اور قتل کرنے کے لئے کیا گیا۔ لیکن ہمیں نہیں معلوم کیوں“۔

امریکیوں نے بعد میں دعویٰ کیا کہ انہیں اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ ہسپتال کی عمارت میں سرگرم طالبان جنگجو موجود ہیں۔ لیکن MSF نے رپورٹ دی کہ کمپلیکس میں ہوائی بمباری سے پہلے کوئی مسلح جنگجو موجود نہیں تھے اور کوئی لڑائی بھی نہیں ہوئی۔

آخر میں امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل وٹیل نے وضاحت دی گہ یہ ایک ”غلطی“ تھی اورکیونکہ حملہ دانستہ نہیں تھا اس لئے ”اسے ایک دانستہ جنگی جرم قرار نہیں دیا جا سکتا“۔

اس لئے یہ ٹھیک ہے۔ اگر امریکی ہسپتالوں پر حملہ کر کے معصوموں کی جانیں لیں تو یہ کہ بدقسمت حادثہ ہے اور اس لئے ایک جنگی جرم نہیں ہے۔ لیکن اگر روسی یہی کام کریں تو پھر یہ ایک جنگی جرم ہے۔

جارج اورویل اس مکروہ منطق کو سمجھتا ہو گا جو سیدھی وزارتِ سچائی (جارج اورویل کے ناول 1984ء کا حوالہ) سے آئی ہے۔ ہماری تمام معلومات اسی وزارت سے آ رہی ہیں اس لئے ہمیں بھی انہیں سچ ماننا چاہیے کیونکہ کسی اور بات پر یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

جنگی ہیروز اور جنگی بدمعاش

برطانیہ کے وزیرِ دفاع جیمز ہیپی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہسپتال پر بمباری ایک جنگی جرم ہے جس پر مسٹر پیوٹن کو کورٹ گھسیٹ کر لے جانا چاہیے۔ یہ کام کون کرے گا، ابھی تک پر اسرار معمہ ہے۔

اب تک مسٹر ہیپی سے زیادہ اہم افراد یہی کہانی مسلسل دہرا چکے ہیں۔

لیکن سطحی تحقیق سے بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ برطانوی سامراج کی ہولناک تاریخ کے سامنے یہ بناوٹی غصہ کتنا کھوکھلا ہے۔

برطانیہ کے جنگی جرائم کی فہرست میں سرِ فہرست دوسری عالمی جنگ کے دوران بلا اشتعال دریسدن شہر کی کارپٹ بمباری ہے، جس میں کوئی تمیز نہیں کی گئی اور نتیجے میں ایسی آگ لگی کہ پورا شہر راکھ کا ڈھیر بن گیا۔ تاریخ دان ڈونلڈ ملر نے اس ظلم کو بیان کیا ہے کہ:

”جھلستی سڑکوں پر لوگوں کے جوتے پگھل گئے اور آگ اتنی تیزی سے پھیلی کہ جوتے اتارنے سے پہلے ہی کئی افراد راکھ ہو گئے۔ آگ نے لوہا اور سٹیل پگھلا دیا، پتھر کو پاوڈر بنا دیا اور درخت دھماکوں سے پھٹ گئے۔ آگ سے دور بھاگتے عوام کو اپنی پیٹھ پر گرمی محسوس ہو رہی تھی جس نے ان کے پھیپڑے جھلسا دیے“۔

پورا شہر آگ کی لپیٹ میں تھا۔ ہسپتال، سکول، کنڈرگارٹن، چرچ، لائبریریاں، میوزیم، گھر، ہزاروں مرد، عورتیں اور بچے۔۔سب کچھ اس دانستہ تباہی میں جل کر راکھ کا ڈھیر بن گیا۔

تہذیب کے شہرہ آفاق گڑھ دریسدن کی عسکری حوالے سے کوئی اہمیت نہیں تھی۔ صرف ایک مقصد تھا کہ ہولناک خوف و ہراس پھیلا کر عوام کی ہمت توڑ دی جائے۔ لیکن یہ ایک فاش غلطی ثابت ہوئی۔ ہوائی بمباری سے کبھی جنگیں نہیں جیتی جاتیں۔ بمباری کے نتیجے میں عوام مزید اپنے حکمرانوں کی حمایت میں کھڑے ہو گئے۔

اندازاً 25-35 ہزار افراد کی موت ہوئی لیکن یہ اندازوں سے بہت کم ہے۔ کچھ اندازوں کے مطابق 2 لاکھ 50 ہزار اموات ہوئیں کیونکہ مشرقی محاذ سے بہت زیادہ مہاجر شہر میں پناہ گزین تھے۔ مظلوموں میں زیادہ تر عورتیں، بچے اور بزرگ تھے۔

انہیں جلنے کے علاوہ دم گھٹ کر مرنے کی ہولناک موت نصیب ہوئی۔ ملر کا کہنا ہے کہ 70 فیصد اموات آگ سے بننے والی کاربن مونوآکسائڈ کی وجہ سے ہوئیں۔ یہ کوئی حادثہ نہیں کہ جرمن مصنف جارج فرائڈریک نے دریسدن اور دیگر شہروں پر اتحادیوں کی بمباری پر لکھی اپنی متنازعہ کتاب کا سادہ نام Der Brand (دی فائر) رکھا۔

کیا یہ ایک حادثہ تھا؟ نہیں یہ ایک دانستہ پالیسی تھی۔ کیا یہ ایک جنگی جرم تھا؟ کوئی شک نہیں۔ اس جرم کا ذمہ دار کون تھا؟ بنیادی طور پر دو آدمی۔۔ایک سر آرتھر ٹریورز ہیرس، رائل ائر فورس کا سربراہ جسے ”بمبار ہیرس“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور دوسرا اس وقت برطانیہ کا وزیرِ اعظم سر ونسٹن چرچل۔

کیا ان دونوں پر جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا گیا؟ ظاہر ہے نہیں۔ کیا کبھی کوئی تحقیقات بھی ہوئیں؟ نہیں۔ ان جرائم کو تاریخ سے حذف کر دیا گیا۔ ان کے بارے میں اب کوئی بات نہیں کرتا اور ان کے مجسمے، برطانوی جمہوریت کے زندہ دھڑکتے دل پارلیمانی چوک، ویسٹ منسٹر میں فخریہ انداز کے ساتھ موجود ہیں۔

تو اب واضح ہو چکا ہے۔ یہاں اخلاقیات کا کوئی وجود نہیں۔ سچائی نسبتی ہے جسے حکمران اپنی مرضی کے مطابق سفاکی سے توڑ مروڑ کر مسخ کرتے ہیں۔ جارج اورویل درست تھا۔ پس ثابت ہوا، ایک شخص کا جنگی مجرم دوسرے شخص کا ہیرو ہے۔

ہیروشیما اور ناگاساکی یاد ہے؟

اگر امریکی جنگی جرائم کی بات کی جائے تو فہرست اتنی طویل ہے کہ یہاں تحریر کرنا ناممکن ہے۔ ویتنام کے لوگوں سے پوچھو جنہیں امریکیوں نے نیپام، کارپٹ بمباری اور ایجنٹ اورینج سے متعارف کرایا۔۔ایک ایسا کیمیاء جس کی دردوتکلیف میں عوام آج بھی جل رہے ہیں۔

لیکن ان چھوٹی باتوں کو چھوڑ کر ہم اہم واقعے کی جانب بڑھتے ہیں جسے صد افسوس بھلا دیا جاتا ہے۔ میرا اشارہ 1945ء میں دو جاپانی شہروں کی مکمل تباہی و بربادی ہے جن پر امریکی ہوائی جہازوں نے ایٹم بم گرائے تھے۔

اگست 1945ء میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر جوہری بم گرانے کے نتیجے میں اندازاً 1 لاکھ 99 ہزار افراد قتل ہوئے تھے۔ اگلے کئی سال تابکاری کے اثرات سے مزید ہزاروں افراد کی ہولناک اموات ہوئیں۔

یہاں بھی کئی افراد موت کے گھاٹ اترے، ہسپتال (جن میں زچہ و بچہ ہسپتال بھی شامل ہیں)، سکول، بزرگوں کے لئے گھر وغیرہ سب راکھ ہو گیا لیکن واشنگٹن اور پینٹاگون کے ماتھے پر بل تک نہ آیا۔

عام طور پر اس بھیانک اقدام کی وجہ یہ پیش کی جاتی ہے کہ ”اس سے جنگ کا فوری خاتمہ ہوا اور کئی (امریکی) جانیں بچ گئیں“۔ لیکن یہ ایک سفاک جھوٹ ہے۔ اس وقت تک جاپان جنگ ہار چکا تھا اور امن کی کوششیں کر رہا تھا۔

صدر ٹرومین کے حکم پر ہروشیما اور ناگاساکی کا جوہری صفایا کرنے کی حقیقی وجہ یہ تھی کہ ماسکو کو بتایا جائے کہ اب امریکہ کے پاس ایک ایسا نیا اور خوفناک ہتھیار ہے جس کا ایک بم پورا شہر نیست و نابود کر سکتا ہے۔ یہ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کا آغاز تھا جو دہائیوں جاری رہی۔

دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد سے امریکی سامراج جارحانہ خارجہ پالیسی اپنائے ہوئے ہے جس کے نتیجے میں بیرونی ممالک سے جنگیں، بمباری اور لاتعداد معصوم عوام کا قتلِ عام ہو چکا ہے۔

2001-2021ء کے دوران بیس سالوں میں امریکہ دیگر ممالک پر 3 لاکھ 26 ہزار بم برسا چکا ہے جن میں سے عراق اور شام میں 1 لاکھ 52 ہزار بم برسائے گئے ہیں۔ افغانستان اور پاکستان میں نیٹو آپریشن کے دوران ان بیس سالوں میں 2 لاکھ 41 ہزار لوگ قتل کئے جا چکے ہیں۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ان میں سے 71 ہزار عام شہری ہیں۔

یمن میں امریکی اور برطانوی براہِ راست حمایت کے ساتھ سعودی بادشاہت نے ایک بھیانک یکطرفہ جنگ مسلط کر رکھی ہے جس میں 1 کروڑ سے زیادہ افراد کئی سالوں سے فاقوں پر مجبور ہیں۔

سال 2020ء کے اندازوں کے مطابق مغرب کے اس اتحادی نے 20 ہزار سے ذائد بمباری ریڈ کی ہیں اور کچھ عرصوں میں ایک دن میں 300 ریڈز بھی ہوتی تھیں۔ نومبر 2021ء میں اقوام متحدہ کی شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق یمنی جنگ میں سال 2021ء کے آخر تک 3 لاکھ 77 ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے تھے۔

1999ء میں یوگوسلاویہ پر نیٹو کی 78 دن بمباری میں 2 ہزار 300 میزائل داغے گئے جبکہ 14 ہزار بم برسائے گئے جن میں یورینیم اور کلسٹر بم شامل تھے۔ ہزاروں افراد قتل کرنے کے ساتھ نیٹو نے سکولوں، لائبریریوں، ہسپتالوں اور ہزاروں گھروں پر بم برسائے۔ ایک واقعے میں اتحادیوں نے مہاجرین پر حملہ کیا جس میں اطلاعات کے مطابق 60 افراد مارے گئے۔ اس طرح کے تمام واقعات کو ”کولیٹرل ڈیمج“ اور غلطیاں کہہ کر دامن جھاڑ لیا گیا۔

دنیا کی سب سے خونخوار ردِ انقلابی قوت امریکی سامراج کی خونی تاریخ سے متعلق یہاں اب مزید بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

”یوکرین کے شانہ بشانہ“

اب ہم اپنی توجہ میدانِ جنگ کی گرمی سے لندن میں موجود برطانوی پارلیمنٹ کے پر امن ایوان پر مرکوز کرتے ہیں۔

8 مارچ کی شام ممبران پارلیمنٹ ایوان میں کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے۔ پارلیمانی سٹاف اکٹھا کھڑے ہو کر چھت تک ہجوم بنائے تماشہ دیکھنے کھڑا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا ہو گا جیسے سینما جا رہے ہیں یا پھر سرکس دیکھنے کھڑے ہیں کیونکہ حقیقت میں یہ سب ایک سرکس ہی تھا۔

چند لمحوں کی کھسر پھسر کے بعد ممبران پارلیمنٹ نے اپنے ہیڈ فون ٹھیک کر لئے تاکہ تقریر کا ترجمہ صاف سنائی دے۔ سکرین پر ایک تصویر ابھرنے کے ساتھ ہی سکوت طاری ہو گیا، جیسے کسی دوسرے سیارے سے کوئی مخاطب ہو اور سب ہمہ تن گوش ہوں۔

اپنی میز پر ایک اکلوتے یوکرینی جھنڈے کے ساتھ صدر زیلنسکی ممبران پارلیمنٹ اور اپنی عوام سے مخاطب ہونے کے لئے براجمان تھا۔ پہلی مرتبہ کسی بیرونی لیڈر نے برطانوی پارلیمنٹ میں براہِ راست تقریر کی ہے۔

ناٹک کے نکتہ نظر سے کافی شاندار سماں تھا۔ سیاسی اور سفارتی حوالے سے کچھ زیادہ نہیں۔ لیکن جب تمام حاضرین کو ایک جاندار المیے کے نتیجے میں ملنے والے کیتھارسس کی امید ہو تو کیا غم ہے؟

یوکرین کے لیڈر نے متوقع طور پر اکٹھے ہوئے جھوٹوں اور پیشہ ورانہ سفاکوں کے دلوں کے تار چھیڑے۔ عام دنوں میں یہ لوگ کسی قسم کے جذبات سے عاری ہوتے ہیں۔ اس نے انتہائی جذبات کے ساتھ ہر گزرتے دن کے ساتھ کہ ”ہم نے یہ جنگ شروع نہیں کی“، مسلط کردہ جنگ میں اپنے ملک پر گزرنے والی قیامت کا ذکر کیا۔

شاندار ریہرسل کے ساتھ شاندار ڈلیوری ہوئی۔ سب سچ تھا کہ سکولوں پر بمباری ہو رہی ہے۔ چرچ تباہ ہو رہے ہیں۔ بچوں کے ہسپتالوں پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ کچھ جگہوں پر اشیاء خوردونوش اور پانی کی کمی ہو رہی ہے۔

لیکن زیلنسکی کے مطابق مورال بلند تھا اور عوام آخری وقت تک لڑنے کو تیار تھے۔ اپنی ہی بیان بازی میں بہتے ہوئے اس نے چرچل کے مشہور جملے بولے کہ ”ہم ساحلوں پر، سڑکوں پر، جنگلوں میں ہر جگہ لڑیں گے“۔ یہاں تک کہ اس نے شیکسپیئر کا سوال بھی سامنے رکھ دیا۔ ”رہنا ہے یا نہیں رہنا ہے؟“۔ اس نے کہا کہ یوکرین نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ ”آزاد رہے گا“۔

شاندار تقریر! لیکن اب جوہر پر آتے ہیں۔

زیلنسکی نے برطانیہ کی حمایت کا شکریہ ادا کیا لیکن پھر شکوہ بھی کیا کہ یہ کافی نہیں ہے۔ اس نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ پابندیوں کو مزید سخت کیا جائے۔ (لیکن بھئی کیا ہم نے کافی کچھ کر نہیں لیا؟ ہماری معیشت تباہ ہونے جا رہی ہے اور ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے؟)۔

سب سے بڑھ کر اس نے اصرار کیا کہ آپ کو یوکرین کی فضائی حفاظت کرنی چاہیے ”اگرچہ ایک نو فلائی زون کو لاگو کرنے کا قدم ایک خطرہ ہے، جو برطانیہ اور اس کے اتحادی فی الحال اٹھانے کو تیار نہیں ہیں“۔

(ہاں۔ مسئلہ یہ ہے کہ تھوڑا خطرہ تو ہو گا اگر نو فلائی زون لاگو کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ روسی جنگی جہازوں کو مار گرانا۔ اس کا مطلب روس کے ساتھ براہِ راست عسکری تصادم ہو گا۔ اس کا مطلب ایک تیسری عالمی جنگ ہو گا۔ اس کا مطلب جوہری ہتھیاروں سے تہذیب کا نیست و نابود ہونا ہو گا)۔

اس لمحے پر ممبران پارلیمنٹ کے پسینے چھوٹنے شروع ہو گئے۔ ان سب کو معلوم ہے کہ جن دوبارہ تعمیر ہوئے محرابوں سے وہ گزر کر آتے ہیں ان پتھروں پر دوسری عالمی جنگ کی بمباری کے نشانات موجود ہیں۔ شکر ہے تقریر ختم ہونے جا رہی تھی!

تقریر کے اختتام پر گیلریوں میں بیٹھے ممبران پارلیمنٹ اور لارڈز نے کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں۔ صدر زیلنسکی نے سینے پر ہاتھ رکھ کر ان کی دلی حمایت کا شکریہ ادا کیا اور پھر ایک لمحے کے لئے اپنی کرسی پر ڈھیر ہو گیا۔ پھر اس نے دوبارہ چاق و چوبند ہو کر ہوا میں باغیانہ مٹھی لہرائی، اٹھ کھڑا ہوا اور چلا گیا۔

اس کے الفاظ کا واضح طور پر کئی ممبران پارلیمنٹ پر اثر پڑا تھا جن میں سے کچھ کی آنکھیں آنسوؤں سے جھلملا رہی تھیں جبکہ دیگر حمایت میں سر ہلا رہے تھے۔ اس لئے انہوں نے اس شاندار پرفارمنس کو دو مرتبہ خراجِ تحسین پیش کیا، ایک شروع ہونے سے پہلے اور ایک اختتام پر۔اور اگر صدر زیلنسکی کی خواہش ہوتی تو وہ تیسری اور چوتھی مرتبہ بھی ایسا کر دیتے۔

نو فلائی زون کی شکل میں حقیقی ٹھوس عسکری امداد بہر حال انہوں نے پوری نہیں کی اور نہ ہی کبھی کریں گے۔ تالیاں جتنی مرضی ہو بجوا لو لیکن نو فلائی زون نہیں ملے گا! زیلنسکی کے دن کا اختتام خالی ہاتھوں اور پھولے سینے کے ساتھ ہوا۔ اگر عملی طور پر دیکھا جائے تو یہ خاصی مایوس کن صورت حال تھی۔

اگر جانسن اور اس کے ساتھیوں کی بے ایمانی اور منافقت کا اور ثبوت چاہیے تو یوکرینی مہاجرین کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ اب تک 20 لاکھ مہاجرین اپنے گھر چھوڑ چکے ہیں۔ ان میں سے آدھے پولینڈ میں ہیں جبکہ ہنگری اور دیگر ہمسایہ ممالک میں بھی قابلِ ذکر تعداد موجود ہے۔

اقوامِ متحدہ کے مطابق 9 مارچ تک پولینڈ (14 لاکھ 12 ہزار 502)، ہنگری (2 لاکھ 14 ہزار 160)، سلواکیہ (1 لاکھ 65 ہزار 199)، روس (97 ہزار 98)، رومانیہ (84 ہزار 671)، مولدوویہ (82 ہزار 762)، بیلاروس (765)، اور دیگر یورپی ممالک میں 2 لاکھ 55 ہزار پناہ گزین موجود ہیں۔

لیکن برطانیہ؟ نئی فیملی سکیم کے تحت یوکرین میں پناہ گزینوں کی تعداد 50 سے بڑھ کر اس وقت 300 ہے۔

یوکرین پناہ گزین کیلے (Calais) تک اس امید پر پہنچے کہ وہ برطانیہ میں اپنے رشتہ داروں کے پاس جائیں گے لیکن انہیں واپس بھیج دیا گیا۔ وزیر داخلہ پریتی پاٹیل نے پارلیمنٹ میں سفید جھوٹ بولا کہ اس نے کیلے میں ایک ویزا آفس کھول دیا ہے۔ پتہ چلا کہ جس آفس کی بات ہو رہی ہے اس میں ایک فولڈنگ ٹیبل اور تین بندے نمکین چپس کے پیکٹ لے کر بیٹھے ہوئے ہیں لیکن کوئی ویزا درخواست موصول نہیں کی جا رہی۔

پھر یوکرینی مہاجرین کو بتایا گیا کہ وہ ایک یوروسٹار ٹرین کے ذریعے کیلے سے للی جا سکتے ہیں جہاں ان کی ویزا درخواستیں موصول ہوں گی۔ ایک اور سفید جھوٹ۔ درحقیقت کیلے اور للی کے درمیان کوئی یورو سٹار ٹرین سروس نہیں ہے اور للی میں برطانیہ کا کوئی ویز ا آفس نہیں ہے! پتہ یہ چلا کہ ویزا آفس للی سے 48 کلومیٹر دور آراس میں ہے اور اسے ابھی تک کھولا نہیں گیا ہے۔ یہ ہے ساری حقیقت۔ برطانیہ یوکرین کے شانہ بشانہ اس وقت تک کھڑا ہے جب تک یوکرینی دوسری طرف موجود ہیں۔ یوکرین کو برطانوی حکمران طبقے اور اس کی حکومت کی حمایت کی اصل حقیقت یہ ہے۔

مغرب جنگ کو کیسے ہوا دے رہا ہے

یہ درست ہے کہ مغرب یوکرین کو ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔ ان کے ذریعے جنگ کو ایک حد تک طوالت دی جا سکتی ہے لیکن یوکرین فتح یاب نہیں ہو سکتا۔ یہ ”مدد“ یوکرینی عوام کی تکالیف کا مداوا نہیں ہے۔ اس کے برعکس درست ہے۔

یوکرین میں موجودہ جنگ جتنی طویل ہو گی اتنا ہی زیادہ معصوم مرد، عورتیں اور بچے مارے جائیں گے۔

نیٹو اور خاص طور پر امریکہ اور برطانیہ نے یوکرین کو روس کے ساتھ موجودہ جنگ میں اپنے سفاک مقاصد کے لئے دھکیلا ہے۔ یوکرینی عوام کشت و خون کے سمندر میں ڈوب رہی ہے اور یہ سب سنگدلی سے ہاتھ باندھے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ ان سب پر اس غیر ضروری جنگ کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور اب اپنے مقاصد کے لئے اس جنگ کو طوالت دینے کی ذمہ داری بھی ان پر عائد ہوتی ہے۔ ان کا مقصد ہے کہ روس یوکرین میں پھنس جائے اور حتمی نتیجہ، روس کی فتح، جتنا ممکن ہو تاخیر زدہ کیا جائے اور قیمت یوکرینی ادا کریں۔

ہماری مکمل حمایت عالمی طاقتوں کے سفاک سیاسی کھلواڑ کی بھینٹ چڑھنے والے معصوم یوکرینیوں کے ساتھ ہے۔ لیکن یہ تکلیف اور مصیبت اسی وقت ختم ہو گی جب جنگ کا اختتام ہو گا۔ جو ایک انگلی اٹھائے بغیر حتمی نتیجہ جانتے ہوئے بھی یوکرینیوں کو جنگ جاری رکھنے پر ابھار رہے ہیں، یوکرینی عوام کے دوست نہیں ہیں۔ وہ ان کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔

لندن، 11 مارچ 2022ء