نجکاری کے وار
کسی بھی قوم یا ملک کے دوبنیادی اثاثے ہوتے ہیں، اس کے باسی یا اسکے ذرائع پیداوار اور وسائل۔ اگر ہم پاکستان کے حکمرانوں کے بیانات اور تقاریر کاجائزہ لیں، ذرائع ابلاغ کے پروگراموں اور ترانوں پر غور کریں تو ہمیں ہر طرف سے ’’قومی مفادات‘‘، ’’حب الوطنی‘‘، ’’ملکی سا لمیت‘‘ وغیرہ کے نعرے ہی نعرے سنائی دیتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ ان حکمران طبقات کو ملک اور وطن کا اتنا درد ہے کہ وہ جان بھی دے دیں گے۔ لیکن اگر ان کی پالیسیوں، عزائم اور عملی وارداتوں کا جائزہ لیں تو یہ وطن پر جان نچھاور کرنے والے حکمران دوہرے معیاروں منافقت اور وطن فروشی کے سردار نظر آئیں گے۔ حب الوطنی، قوم پرستی اور ملکی سالمیتوں کے نعرے عوام کو اس شاونزم کی جذباتیت کے ذریعے ذہنی طور پر مطیع اور محکوم بنانے کے لیے استعمال کئے جاتے ہیں۔ اگر ہم اس ملک کے عوام کی بھاری اکثریت کی زندگیوں کاجائزہ لیں تو اس ملک کی تاریخ کا ہر دن ان کے عذابوں میں اضافے کا ہی باعث بنتا ہے۔ یہاں کے محنت کشوں کی زندگیاں اتنی تلخ، محرومی اتنی شدید اور زندگی کی ضروریات کی قلت اتنی زیادہ ہے کہ اس ملک کی بھاری اکثریت کا جینا ایک عذابِ مسلسل بن گیاہے۔ جہاں تک اس ملک کی محنت، صنعت وزراعت، معدنیات اور دوسرے اثاثوں اور معاشی شعبوں کا جائزہ لیں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ کس بے دردی سے یہ ان قومی اثاثوں کو اجاڑ رہے ہیں اور ان قومی ملکیت میں سے نکلنے والے اداروں کو زیادہ تر بیرونی سامراجی اجارہ داریاں یا پھر ان حکمرانوں کے سرمائے کے بڑے مگر مچھ نگل رہے ہیں۔ یہ اس ملک کے اثاثوں کو اس گھریلو سامان کی طرح اونے پونے داموں بیچ دینا چاہتے ہیں جیسے کوئی بگڑا ہوا آوارہ سپوت اپنے خاندانی اثاثوں کو فروخت کرکے اپنی عیاشی اور بدکاری کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ہمارے حکمران ان اجارہ داریوں سے لیے گئے کمیشنوں کو اپنے پہلے سے موجود دولت کے انباروں میں مزید اضافے کی زہریلی ہوس کی پیاس کو مٹانے کے لیے استعمال کریں گے۔