یورپ کا بحران: صورت حال میں ایک فیصلہ کن تبدیلی

Urdu translation of The crisis in Europe: a decisive turn in the situation (May 11, 2012)

تحریر : ایلن ووڈز:-

(ترجمہ: کامریڈ علی)

فرانس اور یونان کے انتخابات صورت حال میں ایک بنیادی تبدیلی کی عکاسی کرتے ہیں۔ یورپ کا بحران ایک نئے اور ہنگامہ خیز موڑ پر آن پہنچا ہے۔ ایک غصے کا موڈ پورے یورپ میں پھیل رہا ہے۔ ہاں، ہم یہ سمجھتے ہیں، کہ الیکشن کے نتائج پوری درستگی کے ساتھ عوام کی نفسیات کی غمازی نہیں کرتے۔ یہ ایک لمحے میں کھینچی گئی تصویر کی مانند ہوتے ہیں۔ لیکن انتخابات کے نتائج کودھیان کے ساتھ پرکھنا بہت ضروری ہے، کیونکہ یہ سماج کے کچھ مخصوص رجحانات کی عکاسی کرتے ہیں۔2008ء میں آنے والے معاشی بحران کا سب سے پہلا نتیجہ جو نکلا تھا، وہ صدمے کا تھا، جس نے ایک جمود کی صورت میں اپنا اظہار کیا۔ لیکن، یہ موڈ جلد ہی ختم ہوگیا اور اس کی جگہ ہڑتالوں اور بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں نے لے لی۔ لیکن یہ بحران اتنا گہرا ہے کہ سڑکوں پر اٹھنے والا دباؤکوئی خاص تبدیلی کرنے سے قاصر ہے۔ اسی وجہ سے تحریک دوبارہ سیاسی میدان کی طرف جارہی ہے۔

یونان اور فرانس میں ووٹروں نے بجٹ میں کٹوتیوں کے خلاف آواز اٹھانے والے امیدواروں کو ووٹ دیے۔ برطانیہ کے مقامی انتخابات میں ووٹروں نے ایک بھرپور سوئنگ(Swing) کے ساتھ کون۔ ڈیم اتحاد کے برعکس لیبر پارٹی کے حق میں ووٹ دیے۔ اٹلی میں ہونے والے مقامی انتخابات کے جزوی نتائج بھی مرکزی دھارے میں شامل سیاسی جماعتوں کے خلاف ایک سوئنگ کی نشاندہی کررہا ہے۔ کسی سنجیدہ بائیں بازو کا متبادل نہ ہونے کی وجہ سے، کچھ ووٹریورو مخالف احتجاجی تحریک چلانے والے سابق مذاحیہ اداکار بیپی گریلو ( Beppe (Grillo کے ساتھ ہوگئے، جس نے کئی مقامات پر اہم اثر ڈالا، ان مقامات میں پارما اور جینیوا شامل ہیں۔

یونان اور فرانس میں منڈیاں بحران کا شکار ہوئیں، لیکن اکثریت صحت یاب ہوگئیں۔ یونانی سٹاکس بیس سال میں سب سے زیادہ گراوٹ کا شکار رہی، جبکہ پیرس کی ( CAC 40 slid)2.8فیصد اور جرمنی کی (Xetra Dax) 1.9 فیصد پر بند ہوئے۔ ڈالر کے مقابلے میں یورو 0.3 فیصد پر پھسل گیا جبکہ ڈالر 1.3022 پر آگیا۔ حقیقت میں، فرانس کے انتخابی نتائج کا منڈیوں نے بڑے تحمل کے ساتھ استقبال کیا ہے۔ یہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ان کو اصلاحات کی اصلیت کا اندازہ ہے، یاپھر ان کو معتبر طریقے سے یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ جوہولینڈے انتخابی مہم میں کہتے ہیں وہ ایک چیز ہے اور جو جناب صدرہولینڈے کرتے ہیں وہ بالکل ہی الگ۔ لیکن، یونانی اسٹاک ایکسچینج پیر کے اختتام تک 6.67فیصد تک ڈوب گیا،یہ بحران کی اصل شدت کی عکاسی کرتا ہے۔

فرانس : بائیں طرف جھکاؤ

فرانس میں سوشلسٹوں نے پہلی بار ایک نسل کے بعد صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔نکولس سارکوزی اب تاریخ کی کتابوں میں1981ء کے بعد سے پہلے فرانسیسی صدر کی حیثیت سے داخل ہوگا جومسلسل دو بار صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل نہ کر سکا ہو۔ وہ تازہ ترین یورپی حکمران بن گئے ہیں کہ جس کو یورپی قرضوں کے بحران کے درمیان عہدہ کٹوتیوں کے خلاف ابھرتے ہوئے ووٹروں کے غصے کی وجہ سے چھوڑنا پڑا ہو۔سوشلسٹ امیدوار فرینکوئس ہولینڈے ’’ ترقی کے معاہدے ‘‘ کی ضرورت کے نعرے کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ اپنی انتخابی مہم میں انہوں نے بینکاروں اور امیروں پر شدید حملے کیے اور کئی لوگ یہ سمجھے کے ہولینڈے بجٹ میں کٹوتیوں کے بھی خلاف ہے۔

پہلے ر اؤ نڈ میں ان پر لیفٹ کی طرف سے دباؤ پڑا۔ جیسے کے انتخابی رائے عامہ دکھا رہی تھی، کہ میلین شاں، لیفٹ فرنٹ (کمیونسٹ پارٹی اور لیفٹ پارٹی) کے امیدوار بہت زیادہ ووٹ لینے میں کامیاب رہیں گے۔ ہولینڈے نے اس کو کاٹنے کے لیے اپنے آپ کوجتنا وہ ہے اس سے زیادہ بائیں بازو کا رجحان رکھنے والاظاہر کرنے کی کوشش کی۔ کوریز،اپنے مقامی علاقے میں پرجوش سامعین سے بات کرتے ہوئے، نئے منتخب صدر ہولیندے نے سٹیج کو سنبھالتے ہوئے کہا کہ وہ بجٹ میں کٹوتیوں کے علاوہ کوئی اورحل تلاش کریں گے۔ ہارن بجاتی ہوئی گاڑیاں پیرس کی مرکزی سڑکوں پرجن کو ٹریفک کے لیے بند نہیں کیا گیا تھا، گھومتی رہیں۔’’تبدیلی آرہی ہے‘‘، ہولینڈے نے اعلان کیا، ’’ کٹوتیوں کا اختتام ‘‘اور ایک نئے عہد ’’نوجوانوں اور انصاف کے عہد‘‘کا اعلان کیا۔

انہوں نے بڑی کمپنیوں اور وہ لوگ جو ایک ملین یورو سالانہ سے زیادہ کماتے ہیں، ان پر ٹیکس بڑھانے کا وعدہ کیا۔وہ چاہتے ہیں کہ کم سے کم اجرت کو بڑھایا جائے، مزید 60,000 اساتذہ کو نوکریوں پر لیا جائے، کچھ ورکروں کے لیے ریٹائرمنٹ کی عمر کو 62 سے کم کرکے 60 کردیا جائے۔ دوسرے راؤنڈ میں انہوں نے 52فیصد ووٹرز کو جیت لیا۔ یہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ عوام کٹوتیوں اور بجٹ میں کمی کی پالیسیوں کے علاوہ کچھ ڈھونڈ رہے ہیں۔ اس خوشی کااظہار اتوار کی رات کو فرانس کی سڑکوں پر ہونے والے جشن سے ہوتا ہے، جو سڑک پر ہونے والی پارٹی جیسا تھا۔ ہولینڈے کے پر جوش حامی بلتیل پیرس میں جو کہ فرانس میں لیفٹ کی ریلی نکالنے کی روایتی جگہ ہے میں جمع ہوئے اور جشن منایا۔ لیکن، تمام جشنوں کی طرح اس جشن کے بعد بھی ایک شدید سر درد (Hang Over)ہی آئے گا۔مثلا یہ ہے کہ تمام مصالحت پسند سمجھتے ہیں کہ سرمایہ داری کو ختم کیے بغیر تمام مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔ یہ ایک خطرناک اور یٹوپیائی دھوکہ ہے۔ اگر آپ سرمایہ داری کو مانتے ہیں، تو پھر آپ کو اس کے قوانین کو بھی ماننا پڑے گا۔ یہ بہت اچھا ہے کہ ہولینڈے بجٹ میں کمی کے خلاف بولتے ہیں۔ لیکن یہاں ایک مسئلہ ہے،سرمایہ داری کے عالمی بحران کے تناظر میں اور اگر وہ سرمایہ داری سے چھٹکارا نہیں پانا چاہتے تو پھر بجٹ میں کٹوتیاں ہی واحد ممکن پالیسی ہے۔ اگر ہولینڈے یہ نہیں سمجھتا تو منڈی کی معیشت اسے خود سمجھا دے گی۔ یونانیوں کی طرح ہولینڈے جرمن بجٹ کٹوتیوں کی ضد کو چیلنج کرنا چاہتا ہے۔ فرانس کے اندر اور پورے یورپی اتحاد میں ہولینڈے کی جیت سے کئی امیدیں اٹھی ہیں، کہ شدید بجٹ میں کٹوتیوں کی پالیسیاں جو کہ اب تک یورپ میں بحران کو حل کرنے کا طریقہ کار رہا ہے، تبدیل ہوگا۔ فرانسیسی اب محسوس کر رہے ہیں کہ چیزیںآرام سے ان کی مرضی کی سمت میں بڑھ رہی ہیں اور ان کو یورپ میں مختلف جگہوں سے حمایت حاصل ہے اور امریکہ میں بھی۔ لیکن ہولینڈے کو کچھ ہی عرصے میں ایک کانٹے دار کیفیت کا سامنا کرنا پڑے گا۔کیا وہ یونانی لوگوں کے ساتھ کھڑا ہوگاجو کٹوتیوں کے خلاف لڑ رہے ہیںیا پھر جرمن حکومت کے ساتھ اور انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ (I.M.F) کے ساتھ، جو کہتے ہیں کہ یونانی بیل آؤٹ پیکیج میں بدلاؤ کی گنجائش ہی نہیں ہے۔

فرانس اور جرمنی

مسز مرکل نے وقت ضائع کیے بغیر منتخب صدر کو کال کی اور ان کو جیتنے پر مبارک باد دیتے ہوئے جلد برلن میں آکر بات چیت کرنے کی دعوت بھی دی، لیکن انہوں نے یہ بھی باور کرا دیا کہ مالی کمپیکٹ ’’حاصل نہیں کیا جاسکتا۔‘‘انہوں نے ایک پریس کانفرنس سے بات کرتے ہوئے کہا ’’بات چیت کا مقصد اس بات پر ہے کہ۔۔۔ کیا ہم ترقی کے ایسے پروگرام جو قرض کی بنیاد پر ہیں دوبارہ کرنے جارہے ہیںیا ہم ایسے پروگرام جو پائیدار ہیں اور واقعی ممالک کے مقابلہ پر انحصار کرتے ہیں۔ ‘‘

فرانس کو اب جرمنی کے ساتھ یورپ کی اہم طاقت کے طور پر نہیں جوڑا جاسکتا۔بلکہ یہ جنوبی یورپ کے بیمار کلب کا حصہ ہے، لیکن ابھی وہ ’کم بیمار‘مریضوں کے ڈیپارٹمنٹ میں بیٹھا ہوا ہے۔ سپین اور اٹلی کی حکومتیں امید کے ساتھ فرانسیسی صدر کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ پیرس ہمدردی بھری آوازیں اٹلی اور سپین کے لیے بلند کرتا ہے۔ ہولینڈے نے تو پرانے رقیب برطانیہ کے لیے بھی کچھ ہمدردی بھرے جملے ڈھونڈ لیے ہیں۔

یہ یورپی یونین میں طاقت کے توازن کو بدل سکتا ہے۔ممکن ہے یہ ایسی کیفیت کو جنم دے جس کی وجہ سے جرمنی کے برابر کی طاقت ابھرے۔ جنگ کے بعد کی پالیسی، جس کے تحت فرانسیسی بورژوازی یہ تصور کرتی تھی کہ وہ جرمنی کے ساتھ مل کر یورپ پر حکمرانی کرسکتی تھی، کو بھی ترک کیا جاسکتا ہے۔ عملی طور پر یہ ہمیشہ سے ایک خواب ہی رہا ہے۔ جرمنی کی انڈسٹریل اور مالیاتی طاقت نے اسے ہمیشہ سے ایک غالب رول دیا ہے، جب کے فرانس کا رول ایک دوسرے درجے کے ’’ساتھی‘‘ کا رہ گیا ہے۔

جب تک یورپی معیشت بڑھوتری کی طرف گامزن تھی، صورت حال پر کم ازکم کچھ حد تک پردہ ڈالا جاسکتا تھا۔ لیکن 2008 ء میں آنے والے معاشی بحران کے ساتھ اصلی رشتہ داری کھل کے سامنے آگئی ہے۔ فرانس کی کمزوری سب کے سامنے عیاں ہو چکی ہے۔ جرمنی ہی ہے جو معاملات کو کنٹرول کرتا ہے۔ برلن اور پیرس کے درمیان ٹینشن کے نتیجے میں یورو کا جہاز ڈوب سکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یورپی یونین بھی اس تضاد کی وجہ سے بکھر جائے۔ فائنینشل ٹائمز کے بقول ’’ ایک کھلا تضاد فرانس اور جرمنی کے درمیان یورپ بھر میں مسائل کھڑے کرسکتا ہے۔ زیر زمین زلزلہ برپا کرنے والی دراڑیں جو کہ یورپی یونین اور اس کی یکجا کرنسی کی بنیادوں میں ڈلی ہوئی ہیں ان کو کھول سکتا ہے۔‘‘

یونانی بحران نے ہالینڈے کی مرضی اور خواہشات کے برعکس ان کو بہت جلد امتحان میں ڈال دیا ہے۔ میڈم مرکل یہ بات کہیں گی کہ ہالینڈے واضح پوزیشن لے کہ وہ ایتھنز کے ساتھ ہے یا برلن کے۔ یہ بہت گھمبیر صورتحال ہے، مگر جواب تو دینا ہو گا۔ تاہم برلن کو اپنے ریمارکس دیتے ہوئے، ہالینڈے جلدی سے اپنے آپ کو واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں:کہ وہ ایک معقول انسان ہیں اور کسی قسم کے مسائل کھڑے نہیں کرنا چاہتے۔ وہ ڈیل کو تبدیل نہیں کرنا چاہتے بلکہ ’’اس میں حصہ ڈالنے کے خواہاں ‘‘ ہیں اور وغیرہ وغیرہ۔

یونان کے سیاسی بحران نے ہر چیز کو پگھلنے کے لیے بھٹی میں پھینک دیا ہے۔ مسائل اتنے شدید ہیں کہ کتنی ہی ڈیلز اور مشقیں ہوجائیں، اس کو صحیح نہیں کیا جاسکتا۔ ہولینڈے شاید سمجھتے ہیں کہ چالاکی سے تیار کی گئی شقوں کو یورپی ٹریٹی میں شامل کرنے سے انہیں کریڈٹ مل جائے گا۔ ہولینڈے صاحب کے منصوبوں میں ’’ بانڈر ‘‘ شامل ہیں( پیداوار کے لیے بانڈز جیسا کے دوسرے انہیں کہتے ہیں) جن سے بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر لگانے کے لیے پیسے مل جائیں گے اور مزید سرمایہ کاری یورپی سرمایہ کار بینک سے ہوگی۔ طویل دوڑ میں وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ یورپی سینٹرل بینک براہ راست انفرادی طور پر ریاستوں کو قرضے دے۔ لیکن مسز مرکل نے یہ واضح کردیا ہے کہ یہ ان کا نقطہ نظر نہیں ہے۔

جرمن چانسلر شاید یورپی یونین کے حمایت یافتہ’’بانڈر کے منصوبے ‘‘جن سے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے مالی امداد مل پائے گی کی حمایت کریں اور یورپی سرمایہ کار بینک کی جانب سے دیے جانے والے قرضوں کے بڑھاؤ پر بھی اتفاق رائے ہواسکتا ہے۔ لیکن وہ معاہدے پر ’’دوبارہ گفت و شنید ‘‘ کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے، ان کا اصرار ہے کہ ’’ترقی کے منصوبے‘‘ ممالک کی ’’مقابلہ کرنے کی صلاحیت ‘‘ کی بنیاد پر ہونے چاہیں۔اگر اس سے ا نکی مراد فرانس کی ہے تو وہ بہت شائستہ لہجہ استعمال کر رہی ہیں اور واضح الفاظ استعمال نہیں کر رہیں۔ بحر حال جرمنی، فرانس کی طرف بھیڑیوں کی طرح سے دیکھ رہا ہے۔

ہولینڈے نے ابھی تک اس بات کو واضح کرنا ہے کہ وہ کیسے اگلے سال تک بجٹ خسارے کو جی ڈی پی کے 3%تک لے کر آئینگے۔ جیسا کہ اس نے اپنی انتخابی مہم میں کیے گئے وعدے پورے کر نے کے لیے کہا ہے، جیسا کہ اس نے تعلیمی سال کے شروع ہونے پر فلاحی وظائف بڑھانے کی بات کی تھی، مزید ہزاروں ٹیچر ز کی نوکریاں، اورریٹائرمینٹ کی عمر کو جزوی طور پر 62 سال سے 60 سال تک واپس لے جانا۔ اس سب کا مطلب ہے، مزید اخراجات۔ فرانس میں ابھی بھی پبلک سیکٹر پر خرچ کی جانے والی رقم پورے بجٹ کا 56فیصد ہے، اور مجموعی طورپر ٹیکس کی شرح بھی زیادہ ہے۔مزید یہ کہ آئی۔ ایم۔ ایف کی پیشنگوئی ہے کہ یہ خسارہ 2013ء میں 3.9فیصد کے قریب بڑھ جائے گا۔

یہاں پر اصل مسئلہ کھل کر سامنے آتا ہے۔ کیا ہولینڈے فرانسیسیوں سے کیے ہوئے وعدوں پر قائم رہیں گے؟یا پھر وہ مرکل اور’’ منڈیوں‘‘ کے دباؤ کے آگے جھک جائیں گے۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ فیصلہ کریں گے کہ ہمت اور پسپائی دونوں میں احتیاط سے کام لیا جائے اگر برلن سے اپنی ساکھ بچانے والے اشارے چاہیءں۔ وہ کہیں گے انہوں نے یورپی یونین کی سمت ’’معاشی بڑھوتری ‘‘ کے حق میں تبدیل کردی ہے۔،مرکل کچھ غیر واضح الفاظ پر مبنی ’’ پیداوار کے معاہدے‘‘ کو مان لیں گی،لیکن جس کی قیمت مزید کٹوتیاں ہی ہوں گیں۔آخرمیں سطح پر چیزیں ویسی ہی رہیں گی جیسے پہلے تھیں۔ ’’جتنی زیادہ تبدیلیاں ہوں، چیزیں اتنی ہی پہلے جیسی رہتی ہیں۔‘‘

صدر فرانس اپنے آ پ کو آسمان اور کھجور کے درمیان پائیں گے۔ اگر وہ جرمنوں کے ساتھ جائیں گے تو ان کی انتخابی مہم میں بجٹ میں کٹوتیوں کے خلاف کی جانے والی بیان بازی کا کھوکھلا پن سب کے سامنے کھل کر عیاں ہوجائے گا۔ اس سے سوشلسٹ پارٹی میں8 گہری تقسیم بڑھے گی اور میلنشاں اور (Front de Gauche) جو کہ کمیونسٹ پارٹی اور لیفٹ پارٹی کا اتحاد ہے، کی پوزیشن اور مضبوط ہوگی جس نے انتخابات کے پہلے مرحلے میں 11.1فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔

یونان میں زلزلہ

فرانس میں ہولینڈے کی کامیابی خاص مقام رکھتی ہے لیکن یہ یونان کے انتخابات تھے جنہوں نے کسی بھی چیز سے زیادہ منڈی کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا۔ لیکن اتوار کے دن آنے والے نتائج کسی بھی طور سے زیادہ حیران کن نہ تھے۔

یونان پر دباؤ ڈالا گیا ہے کہ وہ شدید کٹوتیاں لگائے پینشن اور تنخواؤں پر ٹیکس بڑھائے اور پبلک سیکٹر کی ہزاروں نوکریوں میں کمی کرے۔ یونان کے موجودہ کٹوتیوں کے پلان کے مطابق جون کے مہینے تک اربوں یورو کی مزید کٹویتاں کرنی پڑیں گی، اور یونان یورپی یونین سے ملنے والی 30ارب یورو کی اقساط کی آس بھی لگا کر بیٹھا ہوا ہے۔ یہ واضح طور پر ایک غیر پائدار حکمت عملی ہے کیونکہ آپ پتھر سے خون نہیں نچوڑ سکتے۔

اس سب کے باوجود یورپی یونین او ر آئی۔ایم۔ایف نے خبردار کیا ہے کہ وہ تمام قرض کی رقوم کو منجمد کردیں گے جب تک کہ یونانی پارلیمینٹ میڈیم ٹرم پیکیج کو منظور نہیں کردیتی، جس کا مطلب صحت کے شعبے اور پبلک سیکٹر کی نوکریوں میں مزید کمی اور کٹوتیاں کرنی ہوں گی۔ یہ بالکل واضح طور پر وہی چیزیں تھیں جن کی وجہ سے پچھلی دو حکومتوں کے خلاف بڑے پیمانوں پر عام ہڑتالیں ہوئی تھیں۔

یہ نتائج عوامی شعور میں تیز تبدیلی کی غمازی کرتے ہے۔ کچھ ہی مہینوں پہلے سب سے اہم بورژوا پارٹی New Democracy بڑے اعتماد کے ساتھ یہ دعویٰ کر رہی تھی کہ اقتدار اب ایک پکے ہوئے سیب کی طرح، ان کی گود میں آنے والا ہے۔ اس کے برعکس ان کو شدید شرمندگی سے دوچار ہونا پڑا جب پیسوک (Pasokٌ) کے ووٹ بھی تیزی سے کم ہوئے۔ اس طرح، کٹوتیوں کے خلاف سرگرم پارٹیوں نے اتوار کے روز ہونے والے انتخابات میں 65 فیصد ووٹ حاصل کئے، جب یونانیوں نے بے روزگاری، اجرت میں کٹوتیوں، اور اٹھارہ مہینوں تک مزید بحران کی پیشن گوئی کے خلاف اپنے غصے کا اظہار کیا۔

بورژوازی کے الارم کی گونج یونان کی سٹاک مارکیٹ میں سنائی دی۔ ASE انڈیکس 3.8 فیصد گری 619.52کے مقابلے میں، جو کہ نومبر 1992 ء کے بعد کی سب سے شدید گراوٹ ہے۔اس میں 9.1فیصد کی کمی صرف اس سال میں ہوئی جو کہ یونانی بورژوازی کے عدم اعتماد کی غمازی ہے۔ اتوار کے روز ہونے والے انتخابات کا غیر فیصلہ کن کردار اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بائیں بازو اور دائیں بازو میں پولرائزیشن ہوچکی ہے۔ سیاسی مرکزیت ہمارے سامنے تباہ ہورہی ہے۔ دونوں یورپ پسند سیاسی جماعتوں کے ووٹ گرتے دکھائی دیے۔ آنے والے دنوں کا یہ منظر صرف یونان کا ہی نہیں ہے۔

یونان میں دونوں دائیں بازو کی نئی جمہوریتNew Democracy اور اس کی اتحادی پیسوک نے اپنے سپورٹروں کو انتہائی بائیں اور دائیں بازو کی پارٹیوں کی طرف جاتے دیکھا۔ نئی جمہوریت کی حمایت 33.5 فیصد سے گر کرصرف 18.9 فیصد ووٹ تک رہ گئی اور 300سیٹ کے پارلیمینٹ میں صرف 108سیٹیں لے سکی۔ یہ اس مقام پر صرف ایک ایسے قانون کی وجہ سے آسکی جس کی رو سے پہلے نمبر والی پارٹی کو اضافی پچاس سیٹیں ملتی ہیں۔ پیسوک کو 13.2 فیصد ووٹوں اور 41سیٹوں کے ساتھ ایک شرم ناک تیسری پوزیشن پر آنا پڑا۔ پچھلے انتخابات میں اس کو 43فیصد ووٹ ملے تھے۔ نئی جمہوریت اور پیسوک نے مل کربڑی مشکل سے صرف ایک تہائی ووٹ حاصل کیے۔

یہ ایک سیاسی زلزلہ ہے، منظر نامے کی ایک تیز اور اچانک تبدیلی۔ انتانس سامراس، نئی جمہوریت کا لیڈر، ایک نیشنل یونٹی کی گورنمنٹ بنانا چاہتا تھالیکن اس نے فورأ ہی یہ کوشش ترک کردی۔ جریدہ دی ایکونومسٹ لکھتا ہے:’’ اس کی پارٹی جس نے جلد الیکشن پر زور دیا تھا اب لڑکھڑا رہی ہے۔ یہی حالات پیسوک کے ہیں جو کہ اس بات کے لیے تیار تھے کہ وہ ان انتخابات میں کچھ خاص کامیابی نہیں حاصل کر پائیں گے لیکن انہوں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ سیریزا (Syriza) ان سے آگے نکل جائے گی۔ کئی سوشلسٹ نائبین جو پچھلے سال پیسوک کی بجٹ کٹوتیوں کی پالیسی کی وجہ سے پیسوک کو چھوڑ گئے تھے، سیریزا سے نشستیں جیتے ہیں، جب کے کئی مقبول اصلاح پسند مثلاً آنا ڈیمونٹو پولو (Anna Diamantopoulou) (ترقی کے وزیر اور پرانے یورپی کمیشنر ) اپنی نشستیں ہار گئے۔ (جورج پاپنڈرو پرانے وزیر اعظم اپنے صوبائی انتخابی حلقے میں ایک سیٹ ہار گئے۔ )

بڑی جیت سیریزا کی ہوئی۔یہ بائیں بازو کا اتحادہے جس کی سربراہی الیکسزسپراس Alexis Tsipras کر رہے ہیں جو کہ دوسرے نمبر پر آئی اور پہلے نمبر پر آنے والیٌ نئی جمہوریت کے قریب قریب رہی۔ سیریزا کے ووٹ بڑھنے کی پیش گوئی پہلے سے تھی لیکن آخری نتائج امیدوں سے زیادہ حیران کن تھے۔ اس نے پیسوک کے ووٹروں کو جیت لیا تھا اور 16.8فیصد ووٹ لیے ( جو کہ 2009ء میں ہونے والے انتخابات میں 4.6فیصد تھے) اور پارلیمنٹ میں 52سیٹ لیں۔ ایتھنز اور پیریوس میں ملنے والی بڑی کامیابوں کے علاوہ یونان کے بڑے انتخابی حلقوں اور محنت کشوں کی اکثریت رکھنے والے علاقوں میں بھی سیریزا کا کردار حاوی رہا۔

صورت حال کی ستم ظریفی یہ ہے کہ قدامت پرست ساماراس بھی جانتا ہے کہ بجٹ میں کٹوتیاں غیر پیداواری عمل ہے۔ وہ چاہتا تھا کہ یونانی کاروباروں پر ٹیکس کم کردیے جائیں۔ لیکن اس تجویز کو انجیلا مرکل کی طرف سے مسترد کردیا گیا، جس کی وجہ سے دونوں کے درمیان اختلافات ابھی تک قائم ہیں۔ انتخابات کے نتائج کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے مرکل نے کہا کہ بجٹ میں کٹوتیوں کی پالیسیوں پر ’’کوئی بات چیت ‘‘ نہیں کی جاسکتی اور یونانی ریفارمز کو ’’شدید اہم ‘‘ قرار دیا۔یہ وہ مرکزی تضاد ہے، جس کی وجہ سے انتخابات کے بعد سے کوئی نئی گورنمنٹ نہیں بن سکی۔

ایک غیر منتخب ’’ٹیکنوکریٹ‘‘اور قومی اتحاد کے نمائندے لیوکس پیپیڈیموس کی گورنمنٹ کی پسپائی نے ایک خلاء چھوڑ دیا ہے جس کا پورا ہونا ضروری ہے لیکن اس کو پورا کرے گا کون؟ پاپاڈیموس جو ایک یورپی بینک کا سابق نائب صدر تھا اس نے سیاسی استحکام کی اپیل کی ہے تاکہ’’ یونانیوں کی قربانیاں رائگاں نہ جائیں۔۔۔ایک ایسے وقت میں جب ہم نے معاشی استحکام کی طرف ایک لمبا اور مشکل سفر طے کر لیا ہے ‘‘۔ لیکن تین سال کے عذاب، گرتا ہوا زندگی کا معیار، بڑھتی ہوئی بے روزگاری، جس نے یونانیوں کی اکثریت کو غربت کی اتھاہ گہرایوں میں دھکیل دیا ہے اور لوگ گھسی پٹی تقریروں سے تنگ آچکے ہیں۔ انہیں کسی بھی قسم کا ’’معیشت کے استحکام ‘‘ نظر نہیں آرہا۔

بلکہ انہیں ایک معاشی تباہی کی تمام نشانیاں نظر آتی ہیں۔بند کارخانے اور شپ یارڈز، دکانوں کے بند شٹرز اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری۔ برسل اور برلن کی نافذکردہ پالیسیوں کی وجہ سے یونان 2012 ء میں پیشن گوئی کیے جانے والے بحران سے بھی زیادہ شدید بحران میں دھنس گیا ہے۔ آنے والے کچھ مہینوں میں یونان کی معیشت 5فیصد مزید سکڑ جائے گی۔

یونانیوں کی مصیبتوں کو تمام انسانی حدود سے بھی آگے لے کر جایا جارہا ہے اور اس میں مزید اضافہ کیا جارہاہے۔ جب دس فیصد یونانی کھانے اور صحت کی امداد لینے پر مجبور ہوں توبجٹ میں کٹوتیوں اور ’’قومی یکجہتی ‘‘ کی بات کون سنتا ہے۔ معاشی افراتفری نے شدید مصیبتیں اور سماجی بے یقینی کو جنم دیا ہے۔اب ان پارٹیوں کے خلاف جن کو صحیح طور پر لوگ بجٹ میں کٹوتیوں کے نقشہ ساز سمجھتے ہیں،ایک وسیع عدم اعتماد پایا جاتے ہے۔

پارلیمینٹ کی سب سے بڑی پارٹی کے لیڈر کے طور پر ساماراس نے ایک اتحاد بنانے کی ناکام کوشش کی۔ساماراس نے اس پیر کی رات اس بات پر زور دیا کہ اس نے ’’ہر ممکن کوشش کی‘‘ کہ وہ حکومت بنا سکے۔ ’’ میں نے کوشش کی کہ میں قومی نجات کے لیے گورنمنٹ بنا سکوں، دو مقاصد کے ساتھ: کہ ملک یورو میں رہے اور بیل آؤٹ کی حکمت عملی پر دوبارہ گفت و شنید کے ذرائع سے پالیسی کو تبدیل کیا جاسکے، ‘‘ انہوں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا۔ ’’ہم نے اپنی تجویز تمام متعلقہ پارٹیوں کے سامنے رکھی جو ایسے عمل میں کچھ کر سکتی تھیں، لیکن یا تو انہوں نے صاف طور پر ایسی کسی تجویز کو مسترد کردیا، یا پھر انہوں نے شرط رکھی ایسی پارٹیوں کی شمولیت کی شرط رکھی جو پہلے ہی اس تجویز کو مسترد کر چکی تھیں۔‘‘

اس کے بعد تمام آنکھیں الیکسزسپراس (Alexis Tsipras)سیریزا کے لیڈر پر جمی ہوئی تھیں، جو دوسری پارٹیوں کے ساتھ گورنمنٹ بنانے کے لیے مذاکرات میں سر گرم تھا۔ ’’ ہم ہر ممکن کوشش کریں گے کہ ایک تفہیم حاصل ہوسکے، خاص طور پر بائیں بازو کی قوتوں کے ساتھ ‘‘سپراس نے کہا۔ لیکن انہوں نے کچھ شرائط ایسی نوعیت کی رکھیں جو کسی بھی بورژوا پارٹی کے لیے ما ننا نا ممکن تھیں۔یہ شرائط مندرجہ ذیل ہیں:

ً

بیل آؤٹ کی شرائط کا خاتمہ، خاص طور پر ایسے قوانین جن کی رو سے اجرتوں میں کٹوتیا ں اور پینشن میں کمی کی جاسکتی ہو۔

*ایسے قوانین کو منسوخ کرنا جن سے محنت کشوں کے حقوق ختم کیے جاسکتے ہوں، خاص طور پر ایک ایسا قانون جس کے تحت اجتماعی لیبر معاہدوں کو ختم کردیا جائے گا، یہ قانون 15 مئی سے لاگو ہو نا تھا۔

*مناسب نمائندگی کا مطالبہ اور پہلی پارٹی کی بونس 50 سیٹوں کا خاتمہ۔

*یونان کے بینکنگ سسٹم کی تحقیقات جس نے تقریباٌ 200 ارب یورو پبلک کے پیسوں میں سے حاصل کیے او ر بینکوں کے اوپر کسی قسم کے ریاستی کنٹرول کا مطالبہ۔

*ایک انٹرنیشنل کمیٹی کا قیام تاکہ یونان کے پبلک خسارے کی وجوہات معلوم کی جاسکیں اور قرض کی سروس کو روکاجائے۔

سیریزا کے لیڈر نے بڑی مہارت کے ساتھ یورپی یونین کی طرف سے نافذ کردہ ’’وحشی کٹوتیوں ‘‘کے خلاف اپنی پوزیشن کی تشہیر کی۔ساتھ ہی وہ چاہتے ہیں کہ یونان یورپی یونین کے اندر رہے۔ یہ کسی دائرہ کو مربع کرنے سے زیادہ پیچیدہ ہے! جو شرائط سپراس کی طرف سے رکھی گئی تھیں انہوں نے قدرتی طور پر ایک نئے اتحاد کونا ممکن بنادیا۔ اس نے پیسوک اور نئی جمہوریت کو کال دی کہ وہ ٹرواکا(Troika) کو دی گئی اپنی لکھی ہوئی ضمانتیں واپس لے لیں۔

 

اس طرح لیفٹ گورنمنٹ بنانے کی واحد ممکن صورت کے کے ای (KKE یونانی کمیونسٹ پارٹی) کے ساتھ معاہدے رہ گئی۔ لیکن انہوں نے اس کی پیشکش کو ہاتھوں ہاتھ مسترد کردیا۔ اس نے کے کے ای کی صفوں میں بے چینی پیدا کردی، جس کے ممبران پہلے ہی لیڈر شپ کی فرقہ وارانہ اور تقسیم کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں۔اسی قسم کے فرقہ وارانہ رویوں کی وجہ سے KKEان ساز گار حالات میں بھی اپنے ووٹ ایک فیصد بھی نہیں بڑھا پائی۔ الٹا محنت کشوں کے کچھ علاقوں میں پارٹی کے ووٹ کم ہوئے۔ ایک حاشیے کے طور پر ہم یہ بھی بتاتے چلیں کے الٹرا لیفٹ گروپوں کا چھوٹا سا اتحاد انترسیا (Antarsya) صرف 1.2فیصد ووٹ حاصل کرسکا۔ وہ کہیں گے کہ یہ ’’ایک آگے کی سمت میں ایک بہت بڑا قدم ہے‘‘ جیسا کہ انہوں نے اپنے ووٹوں کو چار گنا بڑھایا ہے، مجموعی طور پر 75,000 ووٹ لینے کے بعد۔ لیکن پھر بھی وہ ایک معمولی طاقت ہیں اور عوام نے (کے کے ای) اور سیریزاکو ہی ووٹ دیا ہے۔ وہ اس بات کو بھی نظر انداز کردیتے ہیں کہ 2010 ء کے مقامی اور کونسل کے انتخابات میں انہوں نے 97,000 ووٹ حاصل کیے تھے۔

سپراس کے لامحالہ اپنی کوششوں میں ناکام ہونے کے بعد، پیسوک کے لیڈر اور پرانے وزیر خارجہ ایونجیلوس وینیزولوس (Evangelos Venizelos)، نے گورنمنٹ بنانے کابیڑ اٹھایا،لیکن کامیابی کی توقعات پہلے سے کم ہو چکی تھیں۔ اینیزولوس نے کہا’’ یہ ضروری ہے کہ ایک قومی یکجہتی کی حکومت بنانے کے لئے تمام طاقتیں متحد ہوں جو یورپی یونین میں شمولیت برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔کم از کم یونان کے یورپی یونین میں رہنے پر اتفاق ہونا چاہئے۔ ‘‘

قومی یکجہتی کا فارمولا تمام سیاسی نعروں میں سب سے کھوکھلا تھا،یونانی عوام بیوقوف نہیں جو یہ دیکھنے سے قاصر ہوں کہ امیر اور غریب کا اتحاد اصل میں ایسا ’’اتحاد‘‘ ہے جیسا گدھے اور اس انسان کا ہوتا ہے جو اسے چلاتا ہے۔جب میں یہ لائنیں لکھ رہا ہوں، وینیزیلوس ابھی بھی کوششیں کر رہا ہے کسی بھی قسم کا اتحاد بنایا جاسکے۔ لیکن کسی بھی قسم کی گورنمنٹ جس کوعوام گزشتہ قائم شدہ سیٹ اپ کی ایک کڑی کے طور پر دیکھیں گے، مسترد کر دیں گے۔بلکہ ایسی صورتحا ل میں لوگ سڑکوں پر بھی آسکتے ہیں۔

سیریزا کا ابھار

ایکونومسٹ (سات مئی) یونان کے انتخابی نتائج کو غصے کے جھٹکوں کے طور پر بیان کرتا ہے۔ لیکن اصل میں یہ اس سے زیادہ بہت کچھ ظاہر کرتا ہے۔ جھٹکا بہت جلدی گزر جاتا ہے، لیکن جو عمل یونان اور دوسرے ممالک میں ہورہا ہے وہ اتنی جلدی ختم ہونے والا نہیں۔ ’’ کچھ لوگ انتخابی نتائج کی تشریح غصے کے ووٹ کے طور پر کر رہے ہیں،‘‘ سپراس نے کہا۔’’ وہ غلطی کر رہے ہیں۔ یہ ایک سنجیدہ اور شعوری پسند تھی۔ ‘‘

سیریزا سینسپیموس (Synaspismos) کے گرد بننے والا انتخابی فرنٹ ہے، جو کہ ماضی میں کے کے ای میں پھوٹ کے بعد بنا تھا۔سپراس یونانی کمیونسٹ پارٹی کے یوتھ ونگ کا لیڈر تھاجس نے ماضی میں تعلیمی نظام میں دائیں بازو کی اصلاحات کے خلاف دھرنے منعقد کئے اور اینٹی گلوبلائزیشن احتجاجوں میں حصہ بھی لیتا رہا ہے۔ سیریزا کو اس لیے واضح طور پر ایک کمیونسٹ ’’فیملی ‘‘کا ممبر سمجھا جاتا ہے۔

اوپر منظر نامے کا کھینچا گیا نقشہ دیکھ کر یہ بات واضح ہے کہ انتخابات کی کال دوبارہ دینی پڑے گی، عین ممکن اگلے مہینے ہی الیکشن منعقد ہو جائیں۔ ’’ ہم اگلے مہینے دوسرے ووٹ کی جانب بڑھ رہے ہیں ایک پولرائزڈماحول میں۔ ‘‘ ایک مایوس گورنمنٹ آفیشل نے کہا۔ لیکن نئے انتخابات کیا تبدیل کریں گے؟ جو رجحانات ان انتخابات میں نظر آئے وہ کچھ زیادہ تبدیل نہیں ہوں گے، ماسوائے اس کے کہ مرکز(Centrists)بکھرتا جائے گا اور اس قیمت پر بائیں اور دائیں بازو میں بانٹ بڑھتی جائے گی۔

اہم جیت سیریزا کی ہی ہوگی جس کی مقبولیت کی وجہ اس کااتحادبنانے کے بارے میں سخت نقطہ نظر ہے۔ آئی ایم ایف اور یورپی یونین کے خلاف ایک سخت پوزیشن لینے کے باعث سیریزا اگلے انتخابات میں پہلی پوزیشن لینے کی کیفیت میں ہے۔ ’’سیریزا ان لوگوں کی آواز اٹھا رہی ہے جن کو بیل آؤٹ پیکج کی وجہ سے تنگی ہوئی، اس لیے میں نے اپنا ووٹ سیریزا کو دیا۔‘‘ڈیموس سٹرجائٹس( جو کہ پچھلے مہینے اپنی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی نوکری کھو بیٹھا تھا) نے کہا۔ یہ بیان یونان کے محنت کشوں کی سوچ کا اظہار ہے۔

اس وجہ سے یونان کی سیاست میں سیریزا ایک اہم عنصر بن گیا ہے۔ ’’ ایک گورنمنٹ بنانے کے لیے آپ کو سیریزا کی حمایت یا خاموش منظوری کی ضرورت ہے، اور یہ بات صاف ہے کہ ایسا مستقبل قریب میں ہونے نہیں ہوگا۔ ‘‘ لیوکس ٹیوکالیس نے کہا جو کہ ایتھنز تھنک ٹینک ایلیا میپ (Eliamep) کے سربراہ ہیں۔

موجودہ وقت میں بائیں بازو کی تین پارٹیوں کے پاس 300ممبر پارلیمنٹ میں سے 97 سیٹ ہیں، جس سے سیریزا کے لیے اکثریت حاصل کرنا ناممکن ہوجاتا ہے اگر پیسوک اپنی 41 سیٹوں کے ساتھ اس میں شمولیت کر بھی لے تب بھی یہ اکثریت نہیں حاصل کر سکتے۔ ایک ایسا عمل جو پیسوک کا دائیں بازو کا لیڈر ایونجیلوس وینیزیلوس کبھی نہیں کرے گا۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ سیریزا اگلے انتخابات میں اپنے ووٹوں میں اضافہ کرے گی، جیسا کہ رائے عامہ(Opinion Poll) سے ابھی سے اشارہ کر رہے ہیں۔

ایلفا (Alpha) ٹی وی چینل کی طرف سے کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق، سیریزا 16.7 سے بڑھ کر 27.7 فیصد تک جائے گی، جب کے نئی جمہوریت دائیں بازو کی جماعتوں کے ووٹ دوبارہ حاصل کر کے 18 سے 20 فیصد پر آجائیں گے،( پیسوک 13 سے 20فیصد پر آجائے گی)کے کے ای( 8.5فیصد سے گر کر 7 فیصد تک آجائے گی) آزاد یونانی امیدواروں کی وہی صورت حال رہے گی، جب کے گولڈن ڈان ( 6.9 سے گر کر 5.7 فیصد پر آجائے گی ) اور ڈیموکریٹک لیفٹ کے ووٹ بھی کم ہونگے( 6.1 سے 4.9 فیصد) یہ سروے ڈیموکریٹک لیفٹ کے نئی جمہوریت اور پیسوک کے ساتھ اقتدار میں شمولیت کے اعلان سے پہلے کیا گیا تھا۔

بے روزگار یونیورسٹی گریجویٹس جن کو شاید نوکری کی تلاش میں ملک چھوڑنا پڑے،اب سیریزا کی طرف پلٹ رہے ہیں۔ نوجوان بے روزگاروں نے الیکشن میں ایک بڑی تعدادکے ساتھ سیریزا کو ووٹ دیئے، ساتھ ہی خود ساختہ پیشہ وروں نے جو اپنی بند دکانوں کی لبرلائزیشن سے تنگ آچکے ہیں اور بوڑھے بائیں بازو کے لوگوں نے بھی جو کہ پینشن میں مزید کٹوتیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ابھی 11.5 ارب یورو کی کٹوتیوں کا پیکیج آنے والی پارلیمنٹ نے منظور کرنا ہے۔

سپراس کا ایک بائیں بازو کی متحدحکو مت بنانے کا خواب، KKEکے فرقہ ورانہ رویے سے ٹکراتا ہے، جس نے بار بار تعاون کرنے کی پیشکش کو ٹھکرا دیا ہے۔ پارلیمینٹ میں دوسری واحد بائیں بازو کی پارٹی ڈیموکریٹک لیفٹ ہے جو کہ سیریزا سے ایک دائیں بازو کی تقسیم کے بعد وجودمیں آئی اور جو نئی جمہوریت اور پیسوک کے ساتھ اتحاد بنانے کے معاملے پر تذبزب کے عالم میں سوچ رہی ہے۔ آخر میں فوٹیس کویلی، ڈیموکریٹک لیفٹ کے لیڈر نے اس بات کوواضح کیا کہ وہ کسی ایسی اتحادی گورنمنٹ کا حصہ نہیں بنیں گے جس میں صرف نئی جمہوریت اور پیسوک شامل ہو اور سریزا جس میں شامل نہ ہو۔ وہ سمجھ گیا ہے کہ ایسا کرنے سے وہ اپنے ووٹوں کا بیڑا غرق کر بیٹھے گا۔

دراصل ڈیموکریٹک لیفٹ کے کویلیسو اور پیسوک کے وینیسیلو کو سمجھ آگیا ہے کہ ایک ایسی اتحادی گورنمنٹ جس میں نئی جمہوریت شامل ہو اور سیریزا شامل نہ ہو عوام کی نظر میں نا قابلِ قبول ہو گی۔

حالانکہ پیسوک۔ نئی جمہوریت۔ ڈیموکریٹک لیفٹ گورنمنٹ کی کل ملا کر 168 سیٹ بنیں گی لیکن ایسی گورنمنٹ کا بننا دراصل سیریزا کی مقبولیت میں اضافہ کرے گی۔ لیکن پیسوک، نئی جمہوریت، ڈیموکریٹک لیفٹ ایک اور مشکوک کیفیت کے شکار ہیں کہ اگر کوئی معاہدہ نہیں ہوپاتا تو جون میں نئے انتخابات کرائے جانے پڑیں گے جس سے سیریزا کے ووٹ مزید بڑھیں گے۔ پہلے پوزیشن پر آنے پرسیریزا کو50 سیٹوں کے بونس سے بھی فائدہ ملے گا جب کے باقی تمام پارٹیوں کی حمایت مزید کم ہو جائے گی۔ اگر یہ اب ایک اتحادی حکومت نہیں بناتے تو ایک بائیں بازو کی حکومت کا امکان نا گزیر ہوجائے گا۔

کرو یا مرو

جیسا کہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں، یہ بہت مشکل لگ رہا ہے کہ ایک پارٹی یا مختلف سیاسی پارٹیاں ایک مستحکم اتحاد بناکر آئی ایم ایف اور یورپی یونین کی طرف سے دی گئی بجٹ میں کٹوتیوں کی پالیسی کو چلا پائیں گی۔

اگر( جیسا کہ ممکن لگ رہا ہے) سیریزا جون میں ہونے والے انتخابات میں جیت کرایک بائیں بازو کے اتحاد پر مبنی ایک حکومت بنا پاتی ہے تو اس کی پالیسیاں اور لیڈران کڑے امتحان سے گزریں گے۔ اس کے لیڈروں پر ایتھنز کی ہی نہیں بلکہ برسلز اور برلن کی بورژوازی دباؤ ڈالے گی۔دوسری طرف ان پر لاکھوں محنت کشوں کا دباؤ ہوگا جنہوں نے ان کو تبدیلی کے لیے ووٹ دیا تھا۔

سریزا کو ورکروں، ریڈیکلائزڈ نوجوان، پریشان حالات سے دوچار پینشن لینے والے، بے روزگار اور برباد ہونے والی پیٹی بورژوازی نے محظ پرانے حکمرانوں کے خلاف ووٹ نہیں دئے۔بلکہ انہوں نے ناقابل برداشت گلے سڑے اور دیوالیہ نظام کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ وہ ایک بنیادی تبدیلی کے لیے ووٹ دے رہے ہیں؛ ایک انقلاب کے لیے۔ لیکن جب تک بایاں بازو فوراً ایسے اقدامات نہیں اٹھاتا جن سے سرمایہ داروں اور بینکاروں کو بے دخل نہیں کیا جائے، وہ اپنے آپ کو منڈی کی معیشت کے سامنے محظ ایک کھلونے کے طور ہر ہی پائیں گے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ سیریزا کی لیڈر شپ ابھی تک اس کوشش میں ہے کہ وہ سرمایہ داری اور یورپی یونین میں رہتے ہوئے مسائل کا حل ڈھونڈ پائے۔لیکن ایک ایسا حل جو سرمایہ داری کی حدود و قیود میں ہے،وہ تو پہلے سے پچھلی حکومتیں آزما چکی ہیں۔ اس کا انجام یہ نکلے گا کہ ایک بحرانوں کی حکومت بنے گی جو اپنی اصل بنیادوں یعنی یونان کے محنت کش طبقے اور نوجوانوں کو کھو دے گی۔اور یہ سب ایک بار پھر دائیں بازو کے ابھر کی وجہ بن سکتا ہے۔ اس بنا پر کچھ عرصے کے بعد بائیں بازو کی حکومت کو دائیں بازو کی اتحادی پارٹیاں اکھاڑ دیں گی۔

یونان سرمایہ داری کے بحران کی وجہ سے سماجی اور سیاسی افرا تفری میں گھرگیا ہے۔ ان مسائل کا حل سرمایہ داری کے ’’عام‘‘طریقوں میں رہتے ہوئے نہیں ہوسکتا۔ معاملات آدھے حل کی حدودسے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ ڈسپرین سے کینسر کا علاج ناممکن ہے۔طویل دوڑ میں بحران کا حل یا تو محنت کشوں کے طاقت کے حصول سے ہوسکتا ہے یا پھر ایک وحشی رد انقلاب کے ذریعے!

پھانسی کا پھندا یونان کی گردن کے گرد تنگ ہوتا جارہا ہے۔ ہر چیز آنے والے چند مہینوں میں یونان میں ایک شدید اور سخت بحران کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔یورپی یونین کو ایک کڑے انتخاب سے گزرنا پڑے گا؛ کیا وہ یونان کو مزید امداد بھیجے گی تاکہ وہ آئی ایم ایف کے واپس لیے جانے والے فنڈز کا خمیازہ ادا کرسکے؟ یا وہ امداد کو بند کردے گی اور یونان کو ڈوبنے دے گی؟

دوسری ممکنہ کیفیت کو بحث میں لایاجارہا ہے۔جورگ اسموسین(Asmussen)،یورپی مرکزی بینک کے ایگزیکٹو بورڈ کے ممبر، نے پہلی دفعہ امکان ظاہر کیا ہے کہ یونان یورو سے نکل سکتا ہے۔ایک ایسی آپشن جس کو ای سی بی نے پہلے پبلک میں ماننے سے انکار کردیا تھا۔ ’’ یونان کو اس بات کا پتہ ہونا چاہیے کہ اصلاحات کے پروگرام کا کوئی متبادل نہیں اگر وہ یورو زون میں رہنا چاہتا ہے،‘‘ اسموسین نے ایک جرمن اخبار کو بتایا۔

ایکونومسٹ لکھتا ہے ؛’’یونان کایورو میں مستقبل اب بہت مشکوک نظر آرہا ہے، کچھ سرمایہ دارانہ تجزیہ نگار کہہ رہے ہیں کہ ’’Grexit‘‘ (یونان کے یورو زون سے نکلنے) کے امکانات آج 40 فیصد سے بڑھ کر 50فیصد پر آگئے ہیں۔ اگلی حکومت کو جون کے مہینے میں ایک اور بجٹ میں کٹوتیوں کے پیکیج کو لانا تھا جو کہ یونان کے آئی ایم ایف او ر یورپی یونین کے ساتھ دوسرے بیل آؤٹ معاہدے کا حصہ ہے۔ اس میں ایک اور 11.5ارب یورو کی خرچوں میں کمی، غیر پسندیدہ ساختی اقدامات شامل ہیں‘ پینشنیں کم ہوجائیں گی اور ہزاروں پپبلک سیکٹر کے ورکرز برخاست ہوجائیں گے‘‘۔

آئی ایم ایف کے آفیشلز نے خبردار کیا ہے کہ اگر اصلاحات کا ٹائم ٹیبل آگے پیچھے ہوتا ہے تو یونان کو اگلی دفعہ کے فنڈزنہیں ملیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے اگلے مہینے تنخوائیں اور پینشنیں نہ ملیں، ایک ایسا امکان جو کے ووٹروں کی توجہ مرکوز رکھے گا۔ ’’شائد آپ کو کل کے نتائج کو انتخاب کے پہلے راؤنڈ کی طرح دیکھنا ہوگا، جب لوگ اپنا غصہ نکالتے ہیں،‘‘ ایک پرانے وزیر نے کہا۔’’پھر دوسرے راؤنڈ میں وہ اپنے فوائد کے حوالے سے ووٹ ڈالتے ہیں۔‘‘

انتخاب اب سخت شرائط کے ساتھ ہے۔کیا یونان آنے والے مہینوں میں اربوں یورو کی کٹوتیاں کرنے کے لیے تیار ہوگا‘ جیسا کے مرکل اور اس کے ساتھیوں نے مطالبہ کیا ہے ؟ سپراس نے واضح اظہار کرتے ہوئے کہا ہے’’ عوام کے فیصلے نے بیل آؤٹ پیکیج کو صفر کردیا ہے‘‘لیکن اگر ایسا ہے تو آئی ایم ایف بھی اسی تناسب سے اپنے ارادوں کے حوالے سے واضح ہے اور وہ یونان کو دی جانے والی رقم کی اگلی قسط روک دے گا۔ اس کا مطلب سادہ الفاظ میں یہ ہوگا کہ یونانی حکومت کے پاس پیسے ختم ہوجائیں گے اور معیارِ زندگی کی جو کیفیت بنے گی اس کے مقابلے میں ابھی تک تنخواؤں اور پینشنوں پر لگائی جانے والی ظالم کٹوتیاں کچھ بھی نہیں ہیں۔

یونان کو زبردستی یورو سے نکالنے کا عمل آخری حربہ ہوگا۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا انتشار اورسماجی انقلاب یونانی سرمایہ داری کے لیے بہت خطرناک ہوگا۔ آج کی صورتحال اور ایسے حالات میں میں وہی فرق ہوگا جو خطرناک ڈھلوان پر چلتی ناپائیدار بریکوں والی اور اسی ڈھلوان پر چلتی بغیر بریکو ں والی گاڑی میں ہوتا ہے۔ لیکن اگر جلد کچھ نہ کیا گیا تو یہ سب بہت جلد ہو گا!
ناگزیر طور پر یونان کا دیوالیہ ہونا اور یوروزون اور شاید یورپی یونین سے نکالا جاناہی اس سب کا نتیجہ ہے۔ اس کے نتائج پورے یورپ کے لیے بہت خطرناک ہوں گے لیکن یونان کے لیے یہ بہت شدید ہوں گے۔پرانی کرنسی ڈراشما کی طرف واپسی کوئی حل نہیں ہے اور اس سے ایک بری صورت حال مزید خراب ہوجائے گی۔ نیا ڈراشما بین الاقوامی منڈیوں میں کوئی حیثیت نہیں رکھے گا۔ کرنسی کی قدر کا گرنا مہنگائی کی شرح کو بڑھائے گا۔ بینکوں کے لیے ایک راہ فرار، بچتیں اور پینشنیں بند ہوجائیں گی۔ ایسی صورت حال انقلاب کے ساتھ حاملہ ہوگی جیسا کے جرمنی میں 1923ء میں ہوا تھا۔

انقلاب یا رد انقلاب

ایک سوشلسٹ سماج کی طرف تبدیلی کا سفر ایک سیدھی لکیر میں نہیں چلے گا۔ اس میں ناگزیر طور پر گراوٹ اور بڑھوتری آئے گی۔ آگے بڑھتے ہوئے طوفانی ادوار کے بعد تھکن، ہار، جمود اور رد عمل بھی آئے گا۔ بائیں سے دائیں کی جانب شدید حرکتیں ہوں گی۔ لیکن ایسی ہر حرکت بائیں بازو کی طرف حرکت کو مزید تیز کرے گی۔ موجودہ دورمیں ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک میں فسطائیت(Fascism) اور بوناپارٹزم کابظاہر کوئی خطرہ نہیں ہے۔لیکن آنے والے وقت میں یہ سب خارج از امکان بھی نہیں ہے۔

جلد یا بدیر، یونانی حکمران طبقہ اختتامی حربوں کی طرف آئے گا۔آئے روز ہڑتالیں، مظاہرے، افراتفری۔ انتشار مردہ باد! ہمیں نظم و ضبط چاہئے ! آکر کار، حکمران طبقہ کھلم کھلا بوناپارٹزم کی طرف جائے گا۔ دائیں بازو کی طرف سے ہر طرح کی سازشیں ہوں گی جیسے 1970 ء کی گلاڈیو کی سازش۔ لیکن محنت کشوں کی جوابی طاقت دھماکے کے ساتھ طبقاتی جدوجہداور خانہ جنگی کی شروعات کر سکتی ہے۔

لیکن یہ ایک فوری تناظر نہیں ہے۔ یونان کا تناظر ایک لمبے دور پر محیط شدید سیاسی ناہمواری کا تناظر ہے، جس میں ایک عدم استحکام کی شکار اتحادی حکومت کے بعد دوسری آئے گی۔ پینڈلم یکدم بائیں سے دائیں کی طرف گھومے گا اور پھر واپس۔ اور پینڈلم کی ہر حرکت کے ساتھ پہلے سے زیادہ شدید ہوگی جیسا کہ ٹراٹسکی انقلاب روس کی تاریخ میں لکھتا ہے:

’’انقلابی ادوار میں عوامی شعور اور رویوں میں ہونے والی تیز تبدیلی، انسانی شعور کی لچک سے نہیں بلکہ اس کے الٹ یعنی کہ شعور کی قدامت پرستی سے برآمد ہوتی ہے۔معروضی حالات اور معاشی رشتوں و نظریات کے درمیان بننے والی وسیع خلیج عین اس وقت ایک انقلاب کو جنم دیتی ہے جب معروضی حالات عوام کے اوپر ایک طوفان کی طرح حملہ آور ہوتے ہیں۔ایسے انقلابی ادوار میں تب نظریات ایسے پر جوش طریقے سے چھلانگیں لگاتے ہیں جو رجعتی شعور رکھنے والوں کو محظ ہیجان انگیزی اور بے ترتیبی ہی لگتی ہے ‘‘

سرمایہ داری کے بحران ایک ایسی کیفیت کو جنم دیتے ہیں جن میں نسل پرست اور رد انقلابی خیالات کی گونج سماج کی کچھ پرتوں میں سنائی سے سکتی ہے۔ جہاں محنت کشوں کی تحریک بظاہر کوئی متبادل فراہم نہ کررہی ہو وہاں بحران کی اصل وجہ سے نا آشنا لوگ ردِ انقلابی قوتوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔

ایسے عناصر ابھی بھی یونان میں دیکھے جاسکتے ہیں جیسا کے گولڈن ڈان جیسی فاشسٹ تحریکوں کا یونان میں ابھار نظر آتا ہے۔یہ پارلیمینٹ میں پہلی دفعہ آئے گی سات فیصد ووٹ اور 21 سیٹیں جیتنے کے بعد۔ یہ ایک نسل پرست نیو۔ نازی گروپ ہے، جو غیر قانونی ایمیگرینٹس(Emigrants) کے خلاف ہیں اور ان کے کالی شرٹوں میں ملبوس غنڈے بائیں بازو کے ورکروں پر حملے بھی کرتے ہیں۔فرانس میں بھی ایک طرف میلنشاں اور دوسری طرف میرین لی پین کو ملنے والے ووٹ اسی طرح کی سیاسی پولرائزیشن کی غمازی کرتے ہیں۔(حالانکہ فرانسیسی نیشنلسٹوں نے فسطائیت کو ترک کردیا ہے)

یہ محنت کش طبقہ کے لیے ایک انتباہ ہے کہ کیا ہوسکتا ہے اگر وہ طاقت حاصل کرنے میں ناکام ہورہے۔ لیکن اس کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا بھی غلط ہوگا۔

اس وقت فاشسٹ ایک کمزور طاقت ہیں۔ انہوں نے سات فیصد سے بھی کم ووٹ جیتے، سیریزا کے 17فیصد کے مقابلے میں۔ مزید یہ کے فاشسٹ صرف وہ ووٹ حاصل کر رہے تھے جو (LAOS) کے تھے لیکن حکومت میں شمولیت کی وجہ سے اس کو نہیں مل سکے۔اور جیسا کے ہم نے اوپررائے عامہ کے نتائج سے دیکھا ابھی سے گولڈن ڈان کے حمایتیوں کو دوہرے خیال آرہے ہیں۔یہ سوچنا کے اس پارٹی کے تمام ووٹر نیو۔نازی ہیں غلط ہوگا۔ کئی لوگوں نے احتجاج کے طور پربھی س ان کو ووٹ دیے۔بائیں بازو کے کل ووٹ 31 فیصد تھے۔ اس کے معنی یہ ہوئے فاشسٹوں کو بائیں بازو کے مقابلے میں چوتھائی ووٹ ملے۔

لیکن ہمیں اس خطرے کو بھی نہیں بھولنا چاہئے جو ایسی پارٹیاں آگے جا کر کر سکتی ہیں۔گولڈن ڈان کے کالی شرٹوں میں ملبوس فاشسٹ غنڈے محنت کشوں کو ڈرانے کے لیے استعمال کیے جاسکتے ہیں، جیسا کے چلی میں (Patria y Libertad) نے کیا۔بلکہ یہ عناصر پہلے ہی وہ حرکتیں کر رہے ہیں۔

ایسے عناصر بوناپارٹسٹ رد انقلاب کی رگوں کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ لیکن بورژوازی ابھی انہیں طاقت میں آنے کی اجازت نہیں دے گی جیسا کے انہوں نے ہٹلر اور موسیلینی کے ساتھ ماضی میں کیا تھا۔ ماضی قریب کی داستان ہمیں یہ دکھاتی ہے کہ جب بورژوازی اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ جمہوریت ان کے مفادات کی ضامن نہیں رہی تب وہ فاشسٹ وحشیوں کی طرف نہیں جاتی بلکہ فوج کی طرف رجوع کرتی ہے۔لیکن بورژوا انتہا درجے کے رد انقلابی اقدام تب کرے گی جب باقی تمام طریقہ کار ناکام ہوجائیں۔

لیکن ہمیں جس چیز پر توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اس نہج پر پہنچنے سے بہت پہلے محنت کشوں کے پاس یکے بعد دیگرے ممالک میں طاقت حاصل کرنے بہت سے مواقع آئیں گے۔ صرف محنت کشوں کی مسلسل شکستوں کے تسلسل کے بعد ہی نوبت بوناپارٹسٹ آمریت تک پہنچ سکتی ہے۔

حکمران طبقہ خواہ وہ یونان کا ہو، یا کسی دوسرے ملک کا جمہوریت کی جذباتیت کی وجہ سے حمایت نہیں کرتا بلکہ اس لئے کرتا ہے کیونکہ یہ سماج کی حکمرانی کرنے کا سب سے آسان طریقہ کار ہے۔ عوام کی اس سوچ کا دھوکہ دیکر کے وہ اپنے معاملات طے کرسکتے ہیں۔آخری تجزیہ میں، جب بورژوازی اپنے بنیادی مفادات کو خطرے میں دیکھے گی تو جمہوریت اور قانون کا نقاب اتار کر اپنا اصلی چہرہ دیکھاکر ننگے جبر سے رتی بھر بھی دریغ نہیں کرے گی۔

حالانکہ،یونانی حکمران طبقا ت کا ایک حصہ بلاشبہ فوجی بغاوت کرنے کا سوچ رہا ہوگا لیکن معروضی حالات اس وقت اس کی اجازت نہیں دیتے۔ انتخاب کے نتائج واضح طور پربائیں بازو کے رجحان کی نشاندہی کر رہے ہیں۔یونانی محنت کش اس وقت تاریخ کے کسی بھی دور سے زیادہ طاقت ور ہیں۔انہوں نے دہائیوں میں ایک فیصلہ کن مات نہیں کھائی۔ مزید یہ کہ پیٹی بورژوازی بھی ایک متبادل کے لئے بائیں بازو ( خاص طور پر سیریزا )کی طرف دیکھ رہی ہے۔1967ء کی یادیں اور بربریت سے بھرپور کرنیلوں کا جبر ابھی بھی محنت کشوں کے ذہنوں پر نشین ہے۔

ان تمام وجوہات کی بنا پر اس سمت کی جانب کسی بھی قسم کی کوشش کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔جس کا نتیجہ خانہ جنگی کی صورت میں نکلے گا جو بورژوازی کے لئے زیادہ غیر یقینی صورتحال ہو گی۔ اس لیے یونان میں بوناپارٹزم فوری طور خارج از امکان ہے۔ بحران سالوں تک چل سکتا ہے، جس کے بعد کوئی فیصلہ کن لڑائی لڑی جائے۔ اس سے بہت پہلے کہ رد انقلاب کا سوال ابھرے محنت کشوں کے پاس طاقت حاصل کرنے کے بہت سارے مواقع آچکے ہوں گے۔

جب کوئی یونانی محنت کشوں اور نوجوانوں کی پچھلے تین سال کے عرصے میں جدوجہد دیکھتا ہے توداد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔اس سے زیادہ ہم ان سے کیا مانگ سکتے ہیں؟ انہوں نے سماج کو بدلنے کے لیے زمین اور آسمان کو ہلادیا۔اگر وہ ابھی تک کامیاب نہیں ہوئے تو اس میں ان کا قصور نہیں۔ اصل وجہ انقلابی لیڈر شپ کی کمی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ سیریزا کو سیاسی تنظیم کے طور پر طاقت ور بنانا سب سے اہم کام ہے۔اس وقت سیریزا ایک اتحاد ہے، جس کا بنیادی حصہ، سیناسپیموس (Synaspimos) ہے۔ سیریزا کو ایک ایسی پارٹی بننا ہوگا جس میں مختلف رجحانات کو اپنے خیالات کے اظہا ر کی پوری آزادی ہو۔دوسرا یہ کہ اس کو کسی بھی قسم کی لالچ سے بچنا ہوگا۔ اپنے آپ کو ’’حقیقت پسند ‘‘ اور ’’عملیت پسند‘‘ بنانے کے چکر میں بورژوازی کے جال سے بچانا ہو گا۔اگلے انتخابات میں یہ واضح ہے کہ سیریزا پارلیمینٹ میں مزید طاقت کے ساتھ ابھرے گی۔ اس کے ساتھ ان کو چاہئے کے وہ کے کے ای اور دوسری بائیں بازو کی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کرنے پر زور دیں۔ ابھی سے کئی کے کے ای کے ورکروں نے اشارہ دیا ہے کہ وہ اگلے انتخابات میں سیریزا کے ساتھ ہوں گے۔ یہ ایک لیور ہے جس کو استعمال کر کے کے کے ای کے لیڈروں پر دباؤ ڈالا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی فرقہ واریت کی پالیسی کو ترک کر یں اور سیریزا کے ساتھ مل کر ایک متحدہ ورکرز فرنٹ بنائیں۔تیسرا، پارٹی کی لیڈرشپ کو ایک حقیقی سوشلسٹ پروگرام اپنانا ہوگا جو کہ وہ واحدپروگرام ہے جو عوام کی جستجو کے مطابق تمام مسائل کاحل دے سکتا ہے۔

حتمی فتح تب ہی حاصل ہوگی جب مارکسسٹ محنت کش طبقے اور نوجوانوں کی وسیع پرتوں کو سوشلسٹ انقلاب کے پروگرام پر آمادہ کریں گے۔یعنی پہلے مرحلے میں پارٹی کے مارکسسٹ دھڑے کو مضبوط کیا جائے تاکہ پوری پارٹی اورتمام تر محنت کش طبقے کو سوشلسٹ پروگرام پر لایا جاسکے۔

Source: The Struggle (Pakistan)