سوویت یونین کا انہدام اور پیوٹن کا ابھار

اِس مہینے سوویت یونین کے انہدام کو 30 سال ہو گئے ہیں۔ دنیا کی سب سے طاقتور مسخ شدہ مزدور ریاست ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کا شکار ہو رہی تھی جبکہ نام نہاد کمیونسٹ ریاستی اثاثوں کی لوٹ مار کر رہے تھے۔ اس ساری صورتحال پر مغربی سامراجی فتح کے شادیانے بجا رہے تھے۔ سرمایہ داری اپنے خوفناک پنجے پھر سے گاڑ رہی تھی اور سوویت یونین کے مزدوروں کو اسکا خمیازہ بھگتنا پڑا۔

نوٹ: یہ مضمون ’مارکسزم کے دفاع میں‘ ویب سائٹ پر دسمبر 2021ء میں یوکرائن کی حالیہ جنگ سے قبل شائع ہوا۔

سوویت یونین کی نوعیت کیا تھی؟

1917ء کا انقلابِ روس انسانی تاریخ کا سب سے عظیم واقعہ تھا۔ تاریخ میں پہلی بار محکوموں نے نہ صرف بغاوت کی بلکہ آگے بڑھ کر اقتدار پر قبضہ کیا اور اپنی حکومت قائم رکھی۔ حتیٰ کے دنیا کی تمام سامراجی طاقتوں کی فوجیں مل کر بھی نوزائیدہ مزدور ریاست کوشکست نہ دے سکیں۔

انقلابِ روس کو عالمی انقلاب کے آغاز کی ایک کڑی ہونا چاہیے تھا، لیکن کچھ وجوہات کی بنا پر جن کا اس آرٹیکل میں احاطہ نہیں کیا جا سکتا، ایسا نہیں ہوسکا۔

خانہ جنگی میں فتح تو ہوئی مگر سوویت روس کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ روس کبھی بھی ایک امیر ملک نہیں تھا لیکن پہلی عالمی جنگ اور خانہ جنگی کے نتیجے میں صنعت اور زراعت کے شعبے بالکل تباہ ہو گئے تھے۔

روس جیسی پسماندہ معیشت والی ریاست میں انقلاب کا تنہا رہ جانا بیوروکریسی کے ابھار کی وجہ بنا۔ 1920ء کی دہائی کے اختتام تک مزدور ریاست زوال پذیر ہوچکی تھی جس کو ٹراٹسکی نے مسخ شدہ مزدور ریاست کا نام دیا۔ پارٹی کے اندر اور ریاستی مشینری میں ابھرنے والی بیوروکریسی میں زیادہ تر انقلاب دشمن لوگ موجود تھے۔ مزدور طبقے اور کسانوں سے سیاسی طاقت چھین لی گئی تھی۔

جیسا کہ ٹراٹسکی ”انقلاب سے غداری“ کے 9 ویں باب میں لکھتا ہے:

”سوویت ریاست کے اندر دو متضاد رجحانات جنم لے رہے ہیں۔۔۔اپنی بالائی پرتوں کے مفاد کے لئے بیوروکریسی سرمایہ دارانہ تقسیم کار کے اصولوں کو انتہائی شدت سے لاگو کررہی ہے، جس سے سرمایہ داری کی طرف واپسی کا راستہ ہموار ہو رہا ہے۔ ملکیتی بنتر (یعنی اجتماعی ملکیت) اور سرمایہ دارانہ تقسیم کار کے درمیان یہ تضاد ہمیشہ کے لئے برقرار نہیں رہ سکتا۔ یا تو سرمایہ دارانہ تقسیم کار کسی نہ کسی شکل میں ذرائع پیداوار تک بھی پھیل جائے گی یا پھر تقسیم کار کو سوشلسٹ ملکیت کے ساتھ مطابقت میں آنا ہوگا۔“

 

یہ نئی افسر شاہانہ پرت اپنی لوٹ مار اور غبن کے سہارے مغرب کے سرمایہ داروں سے ملتی جلتی شاہانہ زندگی گزار رہی تھی۔ ان کے پاس بڑے بڑے گھر تھے، لگژری گاڑیاں، منک کے بنے ہوئے کوٹ، زیورات اور مہنگی گھڑیاں تھیں۔ لیکن انہوں نے یہ دولت نجی ملکیت کے اصولوں کے تحت نہیں بلکہ ریاستی اثاثوں کی لو ٹ مار اور کرپشن سے جمع کی تھی۔

یہی وجہ تھی کہ افسر شاہی کو ہر طرح کی جمہوری بحثوں کو جبراً روکنا پڑا۔ کیونکہ اگر ان بحثوں میں سوال اٹھنا شروع ہوتے تو مراعات یافتہ افسر شاہی بھی تنقید کا نشانہ بنتی۔ کم از کم تاریخی طور پر سرمایہ دار طبقے نے بھی سرمایہ کاری اور بچت کے ذریعے ایک ترقی پسندانہ کردار ادا کیا تھا بھلے اس کا مقصد منافع کمانا ہی تھا۔ مگر بیوروکریسی یہ کردار بھی ادا نہیں کر پائی اور ایک طفیلیے کی طرح مزدوروں کو لوٹ کر اپنی جیبیں بھرتی رہی۔

انتظامی امور میں ہر سطح پر کام کرنے والے چھوٹے بیوروکریٹوں کا مقصد ہر گز معیشت کو ترقی دینا نہیں تھا۔ ان کا مقصد بس اپنی نوکری پورا کرنا تھا۔ مطلب کہ اگر ان کے بالا افسر نے ایک ٹن کیل کا مطالبہ کیا ہے تو وہ ایک ٹن کیلیں سپلائی کر دیتے تھے، لیکن کیا یہ کیلیں بڑھئی کے کسی کام کی بھی تھیں یا نہیں، یہ بات ثانوی اہمیت کی حامل تھی۔ جتنا زیادہ بیوروکریسی آمرانہ مرکزیت پسندی کے ساتھ صورتِ حال کو چلا رہی تھی اتنی ہی بد عنوانی بڑھتی چلی گئی۔

ایک جدید معیشت کی مثال ایک نازک جاندار کی سی ہے جس کو چلائے رکھنے کے لئے اس کے مختلف شعبوں میں وسائل کی متوازن تقسیم کا ہونا لازمی ہے۔ بیوروکریسی اس توازن کو بر قرار رکھنے میں ہمیشہ ناکام رہی، لیکن وقت کے ساتھ انقلاب کی یاد داشتوں کے دھندلانے اور معیشت کی بڑھتی پیچیدگیوں کے باعث حالات خراب سے خراب تر ہوتے گئے۔

 

دنیا کو سوشلزم کا راستہ دکھانے کی بجائے بیوروکریسی خود انقلاب کے آگے بڑھنے کے رستے میں رکاوٹ بن گئی اور دوسری جگہوں پر ہونے والی انقلابی پیش رفت کی راہ میں روڑے اٹکانے کا سبب بنی۔ رجعت پسند ریاستی بیوروکریسی ہر شکست خوردہ انقلاب سے حوصلہ پکڑتی گئی اور اقتدار پر اپنی گرفت مظبوط کر تی گئی۔ جیسے مغرب میں ٹریڈ یونین بیوروکریٹوں کو سرمایہ داروں سے زیادہ خطرہ مزدوروں سے ہوتا ہے اسی طرح سوویت یونین کی افسر شاہی مغرب کے سامراجیوں سے زیادہ روسی مزدوروں سے خوفزدہ تھی۔

وقت کے ساتھ ساتھ افسر شاہی منصوبہ بند معیشت کی ترقی کی راہ میں ایک نسبتی رکاوٹ سے ایک مطلق زنجیر بن گئی۔ جبکہ محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول کی صورت میں اس پورے عرصے میں معیشت زیادہ تیزی اور زیادہ پائیداری کیساتھ ترقی کر سکتی تھی۔ بہر حال 1930ء سے لے کر 1960ء کی دہائی تک افسر شاہی کے زیر کنٹرول بھی ترقی ہوئی جو بعض اوقات نہایت تیز رفتار بھی تھی۔ مگر 1970ء کی دہائی کے اختتام تک معیشت جمود کا شکار ہو چکی تھی اور تباہی کے کنارے پر تھی۔

گورباچوف کی”اصلاحات“ کی کوشش

1985ء میں میخائل گورباچوف کمیونسٹ پارٹی آف سوویت یونین (CPSU) کا لیڈر بن گیا۔ یہ افسر شاہی کی اس پرت کا نمائندہ تھا جو معیشت کے جمود کو توڑنے کے لئے اصلاحات کرنا چاہتی تھی۔ گورباچوف نے مزدوروں کے کنٹرول اور جمہوریت کا نعرہ دیا، مگر اس پر تب تک عمل درآمد نہیں کیا جا سکتا تھا جب تک سماج پر افسر شاہی کی جکڑ کو ختم نہیں کیا جاتا۔

سرمایہ داری اور مزدوروں کے کنٹرول میں سے کسی ایک کو چننا افسر شاہی کے لئے کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ اور انہوں نے سرمایہ داری کو ترجیح دی۔ لیکن شروع میں یہ کوئی شعوری کوشش نہیں تھی بلکہ ان کے لئے موجودہ نظام کو چلائے رکھنے کیلئے مسلسل اصلاحات کرنا نا گزیر ہو چکا تھا۔ گوربا چوف محنت کش طبقے پر اس لیے ٹیک لگانے کی کوشش کر رہا تھا تا کہ حد سے تجاوز کرتی افسر شاہی کو روکا جا سکے، لیکن اس کا مقصد افسر شاہی کا تختہ الٹنا نہیں بلکہ بحیثیت مجموعی افسر شاہی کے ہی اقتدار کو دوام دینا تھا۔ جیسا کہ ٹیڈ گرانٹ نے وضاحت کی ہے:

”گورباچوف کے لائحہ عمل میں بنیادی خامی یہی تھی۔ بیک وقت محنت کشوں کی پیداواری کام میں بہتر طور پر شمولیت کے لئے ان کی حوصلہ افزائی کرنا اور افسر شاہی کی مراعات کی حمایت کرنا ایک ناممکن کام کرنے کی کوشش تھی۔“ (روس: انقلاب سے ردِ انقلاب تک)

گوربا چوف نے اس بات پر زور دیا کہ افسر شاہی کی ”جائز“ مراعات کو برقرار رکھا جائے گا:

”ہم دوبارہ سے سوشلزم کے اصولوں کو لاگو کررہے ہیں: ہر شخص سے اسکی اہلیت کے مطابق کام لینا، اور اسکے کام کی بنا پر اس کو دینا۔“

لیکن درحقیقت اس تمام لفاظی کا اصل مقصد صرف افسر شاہی کی مراعات کا تحفظ کرنا تھا۔

 

سب سے زیادہ بدعنوان دو لاکھ بیوروکریٹوں کو برطرف کیا گیا۔ لیکن ایک کروڑ نوے لاکھ کی بیوروکریسی کے مقابلے میں یہ تعداد محض آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ مزدوروں پر دباؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ نام نہاد اصلاحات نے مزدوروں کے کام کی صورتِ حال اور معیارِ زندگی کو مزید خراب کر دیا تھا۔ شراب نوشی ایک سنگین مسئلہ بن چکی تھی، جس کا نتیجہ مزدورں کی کام سے غیر حاضری کی صورت میں نکلا۔ شراب کی ترسیل پر پابندی لگانے کی کوشش نے غیر قانونی طریقوں سے کشید کی جانے والی شراب کی بلیک مارکیٹ کو جنم دیا جسے ختم کرنا لازم ہو گیا تھا۔ لیکن دوسری طرف افسر شاہی کی لوٹ مار پہلے سے بھی بڑھ گئی تھی۔

1980 ء کی دہائی کے دوسرے نصف میں غیر ملکی تجارت پر ریاستی اجارہ داری میں تھوڑی نرمی کی گئی۔ اس عمل نے ریاستی اثاثوں کی مزید لوٹ مار کے لئے بے بہا مواقع فراہم کیے۔ غیر ملکی تجارت سے حاصل ہونے والے زرِ مبادلہ کے اندر کمپنیوں کو بھی حصہ لینے کی اجازت مل گئی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ زرِ مبادلہ کا ایک بڑا حصہ برآمدات کی صنعت میں کام کرنے والے مینیجرز اور بروکرز کی جیبوں میں جانا شروع ہو گیا جس کو مغرب کے بینک اکاؤنٹس میں بھیجا جاتا تھا۔ اور ساتھ ہی بینکوں کی ہونے والی ڈی ریگولیشن نے اس عمل کو مزید تقویت دی۔

خودورکووسکی جس کے مغرب کے ساتھ کافی تعلقات تھے، یلسن کا مشیر تھا۔ اس کا کیریئر روس میں جنم لینے والے نئے سرمایہ دار طبقے کی ایک زبر دست مثال ہے۔ 1986ء میں یہ کومسومول (یوتھ ونگ آف کمیونسٹ پارٹی) کا ایک فل ٹائمر تھا، اور پھر 1987ء میں اس نے ’سنٹر آف سا ئنٹیفک اینڈٹیکنیکل کریٹیویٹی آف یوتھ‘ کے نام سے ایک ادارہ کھولا جو کومسومول کے ساتھ جڑا ہوا تھا جس کا کام مغرب کے ساتھ تجارت کرنا تھا۔ اور صرف ایک سال کے قلیل عرصے میں ہی اس ادارے نے اس کو مغرب کے بینکرز کی مدد سے ایک بینک ’میناٹیپ‘ بنانے کے قابل کر دیا۔ بہت جلد روس کے سب سے بڑے نجی بینکوں میں اس بینک کا بھی شمار ہونے لگا اور جس کے ذریعے خودورکووسکی نے آئل اور گیس کی کمپنی یوکوس پر بھی اپنا کنٹرول قائم کر لیا۔ 90ء کی دہائی کے اختتام پر خودورکووسکی کے پاس 30 کمپنیوں کے کنٹرولنگ شئیر موجود تھے، اور 2004ء تک یہ 16 بلین ڈالر کی دولت کے ساتھ امیر ترین آدمیوں کی فہرست میں سولہویں نمبر پر تھا۔

معیشت کی ترقی میں ایک عارضی بڑھاؤ دیکھنے میں آیا مگر تھوڑے ہی عرصے میں پھر حالات زیادہ خراب ہوگئے۔ اناج کھیتوں میں پڑا گل سڑ رہا تھا، چوریوں اور دھوکہ دہی میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا تھا۔ فیکٹریوں، دوکانوں اور صارفین کی ضرورت کی اشیاء کیلئے بلیک مارکیٹ بڑا ذریعہ بن چکی تھی۔ ذخائر خالی ہو گئے تھے اور 1990ء تک تقریباً سات کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے تھے۔ ہڑتالوں کی لہر نے سوویت یونین کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس کا اختتام تین لاکھ کان کنوں کی ہڑتال میں ہوا۔ ان ہڑتالوں کے دوران محنت کشوں کے کان کنی کے علاقوں کا کنٹرول سنبھالنے کی بھی اطلاعات تھیں:

”قصبوں میں ہڑتالی کمیٹیاں ایک طاقت بن چکی تھی۔ یہ تجارت، نقل و حمل اور نظم و نسق کو برقرار رکھنے کے میں لگی ہوئی تھیں۔ صبح سے لے کر رات تک جن لوگوں کو کافی دیرسے کسی اور ادارے سے مدد نہیں مل رہی تھی وہ کمیٹیوں کے پاس آتے تھے۔ اور کمیٹیوں کے کارکنان ہر ایک مسئلے کی جانچ کرتے، ماہرین سے مشورے کرتے اور جہاں تک ہوسکتا علاج معالجے، مرمت وغیرہ اور نوکریوں کے لئے ان کی مدد کرتے۔۔“ (ٹروڈ، 3 اگست 1989ء)

محنت کشوں کے اس عمل میں سیاسی انقلاب کے بیج موجود تھے۔ لیکن محنت کش طبقے کے پاس کوئی ایسی تنظیم نہیں تھی جو ان کی جدوجہد کو یکجا کر سکے اور حالات کو ان کے مطالبات کے مطابق ڈھال سکے۔ بلکہ ان کی جدوجہد کو گمراہ کیا گیا جس کے نتیجے میں نجکاری کو مزید ہوا ملی۔

1990 ء میں دی سوویت ویکلی نے ایک سروے شائع کیا جس کے مطابق صرف 15 سے 20 فیصد نوجوان سوشلزم پر یقین رکھتے تھے۔ اس لفظ ’سوشلزم‘ سے اب گلی سڑی بیوروکریسی کی بدبو آتی تھی۔ دنگے روز کا معمول بن چکے تھے اور ریاست کے جبر کا خوف لوگوں کے دلوں سے ختم ہو رہا تھا، حتیٰ کے لوگ پولیس پر بھی حملے کر رہے تھے۔

لوگوں میں موجود شکوک و شبہات اور مایوسی کا اظہار سیاسی لطیفوں کی شکل میں ہو رہا تھا جیسے: ”کیا ہم حقیقی کمیو نزم تک پہنچ گئے ہیں یا ابھی اس سے بھی برے حالات آئیں گے؟“۔ لیکن پھر بھی 1990ء میں 40 فیصد سے زیادہ لوگوں نے منصوبہ بند معیشت کے چلائے جانے کے حق میں ووٹ دیا جبکہ صرف 25 فیصد منڈی کی معیشت کے حق میں تھے۔ اس کا مطلب سرمایہ داری کی طرف واپسی کا نعرہ اتنی زیادہ مقبولیت کا حامل نہیں تھا۔

لیکن افسر شاہی اب بھرپور انداز میں سرمایہ داری کی طرف رواں دواں تھی۔ ان کو ’سوشلزم‘ پر اور خود پر بالکل بھی یقین نہیں رہا تھا، یہ صرف مغرب کی طرف حیرانی اور تحسین بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ ٹراٹسکی نے اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ افسر شاہی کے نمائندے خود کو اور اپنے بچوں کو سرمایہ دار بنانے کی کوشش کریں گے۔ اور پھر یہی ہوا، ہر سطح پر بیوروکریٹوں نے جتنی کر سکتے تھے، لوٹ مار کی۔ بدعنوانی وبا کی طرح پھیل گئی۔ نجکاری (شروع میں چھوٹے اداروں سے)، اجرتوں اور قیمتوں کی ڈی ریگولیشن کی صورت میں بڑے پیمانے پر کٹوتیوں کا نفاذ کیا گیا۔

یلسن کا کردار

1990 ء تک دی سٹیٹ پلاننگ کمیٹی (گوسپلان) معیشت کے مکمل طور پر تباہ ہونے کی تنبیہہ کر رہی تھی۔ پولِٹ بیورو کا ایک سابقہ ممبر یلسن جس کو بیوروکریسی اور بد عنوانی کی مذمت کرنے کے الزام میں برطرف کر دیا گیا تھا، سرمایہ داری کے حامی ونگ کے رہنما کے طور پر ابھرا۔ یلسن او ر اس کا دھڑا صورتِ حال کو کنٹرول کرنے کے لئے تیز تر اصلاحات پر زور دے رہے تھے۔

سوویت یونین کے ٹوٹنے کا عمل بھرپور انداز میں شروع ہو چکا تھا اور یلسن نے رشین سپریم سوویت کے چئیر مین ہونے کے ناطے سے اپنے عہدے کو اپنے اختیارات (سوویت یونین کی حکومت کے مقابلے میں) بڑھانے کے لئے استعمال کیا، جس سے گورباچوف کے مقابلے میں ایک حریف طاقت کا جنم ہوا۔

 

گورباچوف اور اس کے وزراء نے سرمایہ داری کی طرف جانے کا ابھی نہیں سوچا تھا۔ وہ سرمایہ داری کے حامیوں اور بیوروکریسی کے سخت گیر دھڑے کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ 1990ء میں گوربا چوف نے دوبارہ منڈی کی معیشت کے مطابق اصلاحات کیں۔ اپنی ایک تقریر میں اس نے افسرشاہی کے اوپر حملے کیے لیکن یہ بھی کہا کہ ہم منڈی کی معیشت کی طرف نہیں جائیں گے۔ اس کے بعد یلسن نے کمیونسٹ پارٹی آف سوویت یونین سے استعفیٰ دے دیا۔ گوربا چوف نے دو متضاد دھڑوں کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش جاری رکھی لیکن حالات اسکے کنٹرول سے باہر ہوتے جارہے تھے۔ اس وقت سووت یونین میں واضح قانونی حیثیت کی حامل دو سیاسی پارٹیاں موجود تھیں: ایک تو بیوروکریسی کی پرانی پارٹی، سی پی ایس یو، اور دوسری طرف اصلاحات کے حامیوں کے مختلف گروہوں کا اتحاد جس کی قیادت یلسن کر رہا تھا۔

منڈی کی اصلاحات معیشت کو تباہ ہونے سے نہیں بچا سکیں۔ 1991ء کے پہلے چھ مہینوں میں پچھلے سال کے مقابلے میں معیشت میں 10 فیصد گراوٹ آئی تھی۔ کوئلے کی کانوں میں مزیدہڑ تالیں ہو رہی تھیں۔

1991ء میں یلسن رشین فیڈریشن کے صدر کے طور پر منتخب ہوا۔ یہ ایک فیصلہ کن مرحلہ تھا۔ اور اسی وقت چھوٹی سوویت ریپبلکس آزادی کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ گوربا چوف کو سخت گیر دھڑے کی ناراضگی مول لیکر ایک نیا یونین معاہدہ کرنا پڑا۔ گورباچوف اب سخت گیر دھڑے کے خلاف یلسن کے ساتھ گٹھ جوڑ کر رہا تھا تاکہ نئے معاہدے کو منظور کروایا جاسکے جس سے سوویت ریپبلکس کو، جس میں یقینی طور پر روسی فیڈریشن بھی شامل تھی، مزید خودمختاری ملنی تھی۔ حتمی نتیجے میں یہ سب سوویت یونین کے اختتام کی طرف جاتا تھا۔

سخت گیر دھڑے نے اس معاہدے کو روکنے کے لئے بغاوت کی کوشش کی۔ بالائی عہدیداران اور حتیٰ کہ ”کے جی بی“ کی شمولیت ہونے کے باوجود بھی یہ غیر معمولی طور پر غیر منظم تھے۔ بغاوت کرنے والے گورباچوف پر انحصار کر رہے تھے کہ یا تو وہ بغاوت میں شامل ہو جائے یا پھر اپنے ڈپٹی کے حق میں مستعفی ہو جائے لیکن گورباچوف نے ایسا کچھ بھی کرنے سے انکار کر دیا۔ بغاوت کے منصوبہ سازوں نے یلسن کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا لیکن حقیقت میں وہ ایسا کرنے کے قابل نہیں تھے۔ اور یلسن ان کی گرفت سے بچ کر نکل گیا۔

بلکہ یلسن نے صورتِ حال کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اس نے پارلیمنٹ کی عمارت میں پناہ لے لی اور لوگوں سے اپنے ساتھ شامل ہونے کی اپیل کی اور 10000 لوگ اس کے ساتھ شامل بھی ہوگئے۔ باغیوں نے عمارت پر حملہ کر دیا لیکن جھڑپوں میں کچھ مظاہرین کی ہلاکت کے بعد ان کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ اور پھر سارا معاملہ بے نقاب ہو گیا اور باغیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔

گوربا چوف کمزور ثابت ہوا۔ سخت گیر دھڑا اب ہار چکا تھا اس لئے یلسن کے خلاف گورباچوف ان پر انحصار نہیں کر سکتا تھا۔ وہ مزید حملوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ سال کے اختتام تک یونین کا معاہدہ ہوا ہو چکا تھا سوویت یونین ٹوٹ چکا تھا، اور اسکے ساتھ ہی گورباچوف کی حکومت بھی۔

یلسن اور اس کے دھڑے کو باغیوں کی طرح پسپائی اور مایوسی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ بغاوت کے خاتمے کے ایک ہفتے بعد 29 اگست کو ”سی پی ایس یو“ کو معطل کر دیا گیا۔ اس کے بعد یلسن نے پارٹی کو توڑنا شروع کیا، پارٹی کے تمام اثاثوں کو ریاستی تحویل میں لے لیا گیا اور آخر کار 6 نومبر کو پارٹی پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی۔

سوویت یونین کے ختم ہونے کے بعد یلسن روس کا صدر ہونے کے ناطے سے اب واحد طاقت کے طور پر موجود تھا۔ اس نے تیزی سے معیشت کو لبرل بنیادوں پر استوار کرنا شروع کر دیا۔ اس کو کانگریس آف ڈیپوٹیز کی طرف سے ڈی ریگولیشن سمیت کئی معاشی اصلاحات کرنے کی اجازت تھی۔

اس ساری صورتِ حال میں محنت کشوں کی کسی آزادانہ تحریک کے نہ ہونے نے ایک فیصلہ کن کردار اداکیا۔ محنت کش کوئی آزادانہ کردار ادا کرنے کے قابل نہیں تھے جس کے نتیجے میں ساری لڑائی بیوروکریسی کے دو دھڑوں کے درمیان لڑی گئی: ایک وہ جو مغربی سامراجیوں کی ایما پر لڑا، اور دوسرا وہ جن کے حوصلے پست تھے اور ان کے پاس کوئی واضح منصوبہ بھی نہیں تھا۔ باغی ایسے سٹیٹس کو کے حامی تھے جو ناکام ہوچکا تھا اور جس پر کوئی یقین نہیں کرتا تھا۔
دونوں میں سے کوئی ایک بھی دھڑا محنت کشوں کا ترجمان نہیں تھا۔ ہر طرف ہڑتالیں اور مظاہرے تھے لیکن ایک تذبذب کی صورتِ حال تھی اور محنت کشوں کے لئے کوئی حقیقی پلیٹ فارم موجود نہیں تھا۔ یلسن کی طرف سے دی جانے والی عام ہڑتال کی کال کو رجعت پسند برطانوی وزیرِاعظم مارگریٹ تھیچر اور ایسے کافی لوگوں کی طرف سے حمایت حاصل تھی لیکن بہت کم مزدوروں نے اسکی حمایت کی۔ یلسن کے گرد جمع ہونے والے لوگوں میں زیادہ تر طلبہ، انجئینیرز وغیرہ اور سٹے باز عناصر تھے جنہیں سرمایہ داری کی طرف واپسی میں اپنا فائدہ نظر آ رہا تھا۔ محنت کش طبقے کی ناکامی نے یلسن اور اس کے دھڑے کو قابض ہونے کا موقع فراہم کیا۔

یلسن کی بغاوت

اگرچہ یہ واضح تھا کہ باغیوں کو شکست ہوگئی تھی۔ لیکن بہت جلد ہی ایک نئی اپوزیشن ابھر کے سامنے آئی۔ محنت کش طبقے کے حالات کو ٹھیک کرنے کی بجائے نئے اقدامات صورتِ حال کو تیزی سے خراب کر رہے تھے۔ قلت کے ہوتے ہوئے قیمتوں کو کنٹرول نہ کرنے کا مطلب تھا کہ افراطِ زر آسمان سے باتیں کر رہا تھا۔ ایک مہینے کے عرصے میں قیمتیں 300 فیصد بڑھ گئی تھیں اور 1992ء کے اختتام تک افراطِ زر 2400 فیصد تھا۔

روس کے اندر حالات بدترین ہوچکے تھے: افسر شاہانہ بد انتظامی اور مافیائی سرمایہ داری کے ملغوبے نے لوٹ مار اور استحصال میں بے تحاشہ اضافہ کر دیا تھا۔ ناقص پیداوار کی جا رہی تھی مگر اب پہلے کی نسبت بہت زیادہ مہنگی قیمتوں پر۔ اور اس کے ساتھ ساتھ محنت کشوں کو اجرتیں بھی نہیں دی جارہی تھی۔ خام مال نہ ہونے کی وجہ سے صنعتیں بند پڑیں تھیں۔ حالات مایوس کن ہوتے جارہے تھے۔ یہ صوررتِ حال پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ہونے والے بڑے پیمانے کے مظاہروں کی وجہ بنی اور حکومت کو مجبوراً کم سے کم اجرت کو دوگنا کرنا پڑا اور پنشن میں اضافہ کرنا پڑا۔

 

یلسن اپنی بائیو گرافی میں لکھتا ہے کہ اسکا مقصد ’’اصلاحات“ کو ناقابلِ واپسی بنانا تھا۔ یعنی کہ وہ چاہتا تھا کہ سرمایہ داری کی طرف لو ٹے جانے کو نا قابلِ واپسی بنایا جائے، لیکن اسے مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ یہ بات تو طے تھی کہ یلسن کی ’’اصلاحات“ کو مزید آگے بڑھانے کی راہ میں کانگرس ایک سنجیدہ رکاوٹ تھی۔ 1992ء کے موسمِ بہار میں یلسن کو اپنی اس شاک تھراپی کی پالیسی سے جزوی طور پر پسپائی اختیار کرنا پڑی اور اپنے وزیرِ خزانہ گیدر کو برطرف کرنا پڑا۔ یہ یلسن کیلئے ایک تنبیہہ تھی۔ اگر اسے اپنے طریقوں کے مطابق آگے بڑھنا تھاتو اس کے لئے پارلیمنٹ کا خاتمہ اور اسکی بجائے ایک آمرانہ طرزِ حکومت کا قیام ضروری تھا۔

1992ء کے بیشتر حصے میں یلسن ایک نئے آئین کی منظوری کے لئے پارلیمنٹ سے جھگڑ رہا تھا۔ مگر وہ اس کو منظور نہیں کروا سکا۔ دسمبر میں کانگرس نے، وزیرِاعظم گیدر کے استعفے کے بدلے میں، جو جون میں واپس آگیا تھا، ایک نئے آئین پر اپریل میں ریفرینڈم کروانے کا معاہدہ کیا۔ لیکن یہ معاہدہ قائم نہ رہ سکا۔ مارچ 1993ء کے آتے آتے یلسن اپنی حکومت کو ایک حکم نامے کے ذریعے چلانے کی کوشش کر رہا تھا مگر آئینی عدالت نے اس کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی لگادی۔ اور یلسن الٹا خود بد انتظامی کے الزامات کی زد میں آگیا جن سے وہ بال بال بچ کے نکلا۔

یلسن اب اپنی ساری توانائیاں ریفرینڈم کی کامیابی میں لگانا چاہتا تھا۔ سامراجی طاقتیں کھلے عام یلسن کی حمایت کر رہی تھیں اور اپریل میں یلسن کی مدد کے لئے انہوں نے 42 بلین ڈالر کی خطیر رقم امداد میں دینے کی حامی بھری۔ اس نے یلسن کو کم از کم اجرت اور پنشن میں ایک اور اضافے کا وعدہ کرنے کے قابل بنایا جو کہ سراسر رشوت تھی۔ ریفرینڈم میں یلسن بمشکل ہی جیت پایا۔ گو کہ ووٹ ڈالنے کے لئے زیادہ لوگ نہیں آئے تھے۔ اس کا مطلب کہ یلسن نے دھاندلی کی تھی۔ بہر حال یلسن پھر بھی اپنی اس جیت کو اپنے دشمنوں کے خلاف کاروائی کے ایک جوازکے طور پر استعمال کرتا رہا۔

ستمبر میں یلسن نے کانگریس کو معطل کر دیا اور اس نئے آئین کے مطابق نئے الیکشن کروانے کا وعدہ کیا جو اس نے خود بنایا تھا۔ کانگریس نے فوراً ہی اس کو مجرم قرار دینے اور برطرف کرنے کے لئے ووٹنگ کی۔ یلسن نے گیدر کو دوبارہ مقرر کیا اور نئے قانون کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ لیکن اس میں وہ زیادہ کامیاب نہ ہوسکا۔ 176 علاقائی رہنماؤں میں سے سینٹ پیٹرزبرگ سمیت 146 نے اس کی چالبازیوں کی مخالفت کی۔ مغربی سامراج نے یقینا یلسن کی حمایت کی۔ انہیں قانونی یا جمہوری اقدار کی رتی بھر پرواہ بھی نہیں تھی بلکہ ان کا مقصد منصوبہ بند معیشت کو مکمل طور پر تباہ کرنا اور ریاستی املاک کی لوٹ مار کرنا تھا۔

یلسن نے پارلیمنٹ ہاؤس کا محاصرہ کر لیا، جہاں کانگریس کے راہنماؤں نے پناہ لی ہوئی تھی۔ یلسن کے مخالفوں نے بے دلی کے ساتھ عوام سے اپیل کی۔ یہ یلسن کی بغاوت کے خلاف عوامی تحریک کو چلانا ہی نہیں چاہتے تھے۔ بلکہ انہوں نے فوج اور خفیہ اداروں کی مدد لی۔ انہوں نے کسی حد تک بغاوت کی مخالفت کی۔ لیکن ان میں اب پرانے آرڈر کو برقرار رکھنے کا حوصلہ ایک سال قبل سے بھی کم تھا۔

 

ماسکو کے محنت کشوں نے اس بغاوت کے خلاف متحرک ہونا شروع کر دیا تھا۔ 3 اور 4 اکتوبر کے دن ہزاروں مظاہرین پولیس کی رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے پارلیمنٹ ہاؤس تک پہنچ گئے۔ لیکن اس صورتِ حال کو بدلنے کے لئے یہ کافی نہیں تھا۔

ڈیپوٹیز کو اپنے عہدے چھوڑنے کے لئے رشوت دینے کے بعد یلسن نے پارلیمنٹ ہاؤس پر حملہ کر دیا۔ اس نے فوج کے ذریعے یہ سب کروانے کی کوشش کی۔ یلسن اپنی با ئیو گرافی میں غصے کا اظہار کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ 25 لاکھ کی فوج میں سے کسی ایک رجمنٹ نے بھی اسکی حمایت نہیں کی۔ اور آخر کار فوج، کے جی بی اور وزارتِ داخلہ کے افسران کو اکٹھا کر کے ایک نئی فوج تشکیل دی گئی۔

گرچہ یلسن کے پارلیمنٹ کو کنٹرول میں لینے کے بعد سرمایہ داری کو کافی تقویت ملی لیکن پھر بھی مزاحمت ختم نہیں ہوئی۔ یلسن نے مخالف پارٹیوں اور اخبارات پر پابندی لگا دی، اس نے علاقائی کونسلوں کو معطل کردیا اور کونسلروں اور گورنروں کو برطرف کر دیا۔ اس نے یہ سب ’’جمہوریت“ کے نام پر کیا۔ اس پارلیمنٹ جس کا نام بدل دیا گیا تھا (زار شاہی کے دور کا نام ڈوما دوبارہ بحال کر دیا گیا) کے انتخابات کروانا صرف اپنی چالبازیوں کو قانونی جواز فراہم کرنا تھا۔ لیکن یلسن کا دھڑا مختلف پارٹیوں میں بٹ چکا تھا اور حکومت کو برقرار رکھنا مشکل ہو گیا تھا۔

اگلے 5 سالوں میں معیشت کی حالت مزید خراب ہونے کی طرف گئی۔ پوری ایک دہائی تک معیشت گراوٹ کا شکار رہی۔ 1998ء کے اختتام تک معیشت کی کل پیداوار 800 بلین ڈالر تھی،جو 1989ء کی 1.46 ٹریلین ڈالر سے 44 فیصد کم تھی۔ 1992ء میں ایک مزدور کی اوسط پیداوار امریکہ کے مقابلے میں 30 فیصد تھی لیکن جو 1999ء میں صرف 19 فیصد تک رہ گئی تھی۔ معیشت کی حالت بالکل ویسی تھی جیسی دوسری عالمی جنگ میں ہارنے والوں کی ہوئی تھی۔ حقیقی اجرت میں نصف سے بھی زیادہ کمی ہوئی۔ سال 2000ء تک آبادی کا 29 فیصد حصہ غربت میں زندگی گزار رہا تھا۔

مسلسل معاشی بدحالی کے باعث محنت کشوں کی کافی تحریکیں ابھریں مگر ان کیساتھ دھوکا کیا گیا۔ کئی لوگ 1991ء کو روس میں سرمایہ داری کی واپسی کا سال گردانتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ نئی حکومت ابھی تک قائم نہیں ہو سکی تھی۔ روس میں بے تحاشا تضادات اور بحران موجودہونے کے ساتھ ساتھ محنت کشوں کی مزاحمت بھی موجود تھی۔

بحران زدہ ریاست

مغرب کی طرف سے ”اصلاحات“ کو مزید آگے بڑھانے پر زور دیا جا رہا تھا: ”جتنا زیادہ بحران، اتنی زیادہ اصلاحات“، جس کا مطلب یہ پیغام دینا تھا کہ روس کا واپس سوشلزم کی طرف جانا ناممکن ہے۔ یلسن اور اس کا چھوٹا تخریبی دھڑا خوش تھا کہ وہ اس سارے عمل میں اپنے پتے کھیلنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ برطانوی عدالتوں میں ان کے کچھ گھناؤنے کرتوتوں کا پردہ فاش ہوا جہاں یہ مافیائی سرمایہ دار مختلف کمپنیوں کے ملکیت کے تنازوں پر لڑ رہے تھے۔ دی گارڈین اپنی رپورٹوں میں یہ بیان کرتا ہے کہ کیسے یلسن نے 1996ء کے صدارتی الیکشن میں دھاندلی کروانے کے بدلے میں اثرو رسوخ رکھنے والے کاروباریوں کے ایک چھوٹے سے گروہ کو ریاستی اثاثے تحفے میں دیے۔ جیسا کہ 3 بلین ڈالر کی مالیت رکھنے والے تیل کے دیو ہیکل ریاستی ادارے یوکوس کو، صرف 100 ملین ڈالر میں خودورکووسکی کو دے دیا گیا۔

روس میں نئے سرمایہ دار حکمران طبقے کا یہی کردار تھا۔ دنیا کی بڑی معیشتو ں میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اپنے عروج پر ہے۔ 2000ء میں 1 فیصد امیر ترین طبقہ روس کے 54 فیصد اثاثوں کا مالک تھا۔ اسکے مقابلے میں امریکہ میں یہ شرح 33 فیصد تھی۔ آج روس کے نئے سرمایہ دار طبقے نے اپنے اس حصے میں تھوڑا سا اضافہ ہی کیا ہے، جو اب 58 فیصد ہو گیا ہے۔

 


معاشی تباہی کا نشانہ بننے والے محنت کش یہ سب دیکھ رہے تھے۔ اگرچہ بے روزگاری میں اتنی تیزی سے اضافہ نہیں ہوا تھا، لیکن یہ محض عارضی تھاکیونکہ کمپنیوں نے مزدوروں کو ابھی کام سے نہیں نکالا تھا۔ بلکہ ان کی تنخواہیں ضبط کر لی تھیں۔ کئی مہینوں کی اجرتیں ادا نہیں کی گئیں اور افراطِ زر نے ان کو ختم ہی کر کے رکھ دیا۔ اس ساری صورتِ حال نے جدوجہد کے نئے راستے کھولے۔

1995 ء کے انتخابات سرمایہ داری کی حامی پارٹیوں کے لئے بہت برے ثابت ہوئے، کیونکہ وہ اپنی نصف سے زیادہ نشستیں ہار گئیں۔ سی پی آر ایف نے بڑی جیت حاصل کی لیکن ڈوما میں بائیں بازو کی نشستیں آدھی سے بھی کم تھیں۔ یہ اس بات کا اظہار تھا کہ سما جی حالات اپنے الٹ میں بدل رہے تھے۔ 1996ء کے اگلے صدارتی انتخابات میں غالباً دھاندلی ہوئی تھی، اور اگر ایسا نہیں بھی ہوا پھر بھی یلسن کی ایما پر مغرب نے کافی مداخلت کی، جیسا کہ انتخابی مہم کے فیصلہ کن لمحات میں بھاری فنڈز فراہم کیے گئے۔ لیکن اس سب کے باوجود بھی وہ سیاسی استحکام قائم نہیں ہو سکا جیسا یہ چاہتے تھے۔

1996 ء کے موسم خزاں میں ہڑتالوں کی ایک بڑی لہر ابھری جس میں ’نجات دہندہ کمیٹیوں‘ کو بنانے کا نعرہ بھی لگایا گیا جن کا نا م کے علاوہ باقی کردار سوویتوں والا ہی تھا۔ فیکٹریوں پر قبضہ کر لیا گیا تھا اور مزدور ان کو اپنے کنٹرول میں چلا رہے تھے۔ 1998ء میں یہ تحریک دوبارہ ابھری۔ انتخابات نے منڈی کی اصلاحات کی مخالفت کو واضح کر دیا۔ جنوری 1997ء میں رائے عامہ کے ایک جائزے کے مطابق 48 فیصد نے روس کے لئے سوشلزم کو زیادہ موزوں قرار دیا اور 27 فیصد نے اس کی مخالفت ظاہر کی۔ اگر اس وقت کوئی ایک صحیح معنوں میں کمیونسٹ پارٹی ہوتی تو اس تحریک کو پورے روس میں پھیلایا جا سکتا تھا اور مزدور اقتدار پر قبضہ کر سکتے تھے مگر سی پی آر ایف یہ سب کرنے کے قابل نہیں تھی۔

سی پی آر ایف ایک بڑی پارٹی تھی اور اسکی پورے ملک میں حمایت بھی تھی مگر اس کی قیادت میں پرانی افسر شاہی کی باقیات موجود تھیں، اور 1991-1993ء کے سخت گیر دھڑے کی طرح ان کے پاس بھی سرمایہ داری کے علاوہ کوئی اورمتبادلہ موجود نہیں تھا۔ ان کو بڑے پیمانے کی عوامی سیاست کا کوئی تجربہ نہیں تھا یہ بس سیاست کے میدان میں سازشیں کرنے کے عادی تھے۔ جو آخری چیز سی پی آر ایف کی قیادت چاہتی تھی وہ محنت کشوں کا قیادت میں آنا تھا۔ اس لئے یہ حالات سے تنگ مزدوروں کو سرمایہ داری کے علاوہ کوئی اور متبادل نہیں دے سکی۔

1991 ء میں سرمایہ داری کی طرف واپسی کوئی لازمی امر نہیں تھا لیکن اب صورتحال اپنے الٹ میں بدل چکی تھی۔ کمیونسٹ پارٹی کی ناکامی اور ایک موضوعی عنصر جو مزدوروں کو اقتدار تک پہنچا سکتا تھا کی غیر موجودگی کے باعث حکومت کے استحکام کے لئے پیوٹن ایک لیڈر بن کر سامنے آیا۔

پیوٹن کا ابھار

1998 ء تک یلسن اپنی مقبولیت کھو چکا تھا۔ معاشی صورتِ حال کی تباہی اور ریاستی اثاثوں کو کوڑیوں کے دام بیچے جانے کی وجہ سے یلسن اور اس کا دھڑا بدعنوانی کے سکینڈل میں پھنس گیا تھا۔ وہ اپنی ہی حکومت کو برقرار رکھنے کے قابل نہیں تھا۔ رائے عامہ کے جائزوں میں اس کی حمایت صرف 3 فیصد تھی۔

یلسن کے جانشین عہدوں کے لئے لڑ رہے تھے اور دوبارہ یہ خطرہ لاحق ہو گیا تھا کہ کہیں کمیونسٹ پارٹی کا لیڈر زوگانووف صدارتی الیکشن نہ جیت جائے۔ اگرچہ زوگانوو ف نے ریاستی ملکیت کی مخالفت کرتے ہوئے خود کو قابلِ اعتماد متبادل کے طور پر پیش کیا مگر مزدوروں کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے سرمایہ دار اس پر اعتماد نہیں کرتے تھے۔

 

اس صورتِ حال میں پیوٹن متبادل کے طور پر ابھرا۔ پیوٹن کے جی بی کا ایک چھوٹا سا اہلکار تھا جس نے 1991ء میں بظاہر اپنی نوکری چھوڑ دی تھی اور سینٹ پیٹرز برگ کے مئیر کے طور پر اپنا سویلین کیریئر شروع کیا تھا۔ اور یہ شہر کے خارجی امور کی دیکھ بھال کا ذمہ دار تھا۔ مغرب کے ساتھ کیے جانے والے معاہدوں میں سے 80 فیصد میں کے جی بی کے عہدیداران کا حصہ ہوتا تھا۔ سینٹ پیٹرز برگ میں یہ 100 ملین ڈالر کی مالیت کے خام مال جس کو اناج حاصل کرنے کے لئے شہر سے برآمد کیا گیا تھا،کے کرپشن سکینڈل میں ملوث تھا۔ یہ اناج شہر کو کبھی نہیں ملا۔ یہ واضح تھا کہ اناج لینے کی بجائے پیوٹن اور دوسرے عہدیداران نے اپنی جیبیں بھریں تھیں۔

1997 ء میں یلسن نے پیوٹن کو اپنے صدارتی سٹاف میں شامل کیا اور پھر ایک سال بعد اس کو کے جی بی کی جانشین ایف ایس بی کا سر براہ بنا دیا، اور پھر ایک سال بعد وزیرِ اعظم۔ اس پر کچھ سوالات اٹھنے چاہیے تھے۔ بلاشبہ پورا روسی سماج مشکلات کا شکار تھا اور اس ساری صورتِ حال نے پیوٹن جیسے بد عنوان اور مفاد پرستوں کے لئے راہیں ہموار کر دیں تھیں۔ یہ حکومت کی بالائی پرتوں میں قابلِ اعتماد لوگوں کی کمی کا اظہار تھا۔

لیکن پیوٹن اس وقت بھی ایک اثرو رسوخ والا شخص تھا اور زیادہ امکان یہی تھا کہ اس نے کے جی بی جو بعد میں ایف ایس بی بن گئی تھی، کی نوکری کو ابھی تک نہیں چھوڑا تھا۔ 1999ء میں اس کا وزیرِ اعظم بننا اس بات کا اظہار تھا کہ خفیہ اداروں کے ساتھ اس کا تعلق کتنا گہرا تھا۔

چیچنیا کے تنازع نے حب الوطنی کے جذبے کو ہوا دی۔ پیوٹن کے اقتدار سنبھالنے کے محض ایک مہینے بعد ہی ستمبر 1999ء میں ہونے والے متعدد پر اسرار دھماکوں نے پورے روس کو ہلا کر رکھ دیا۔ دھماکے ہونے کے علاوہ بہت سے بموں کا پتا چلا کر ان کو ناکارہ بھی بنایا گیالیکن ایف ایس بی نے کہا کہ یہ ٹریننگ مشقوں کا ایک حصہ تھا۔ ڈوما کے ایک رکن نے ایک دھماکے کے ہو نے کے بارے میں تین دن پہلے ہی بتا دیا تھا۔ کچھ ”ہوشیار“ ایجنٹوں نے ماسکو اور وولگوڈونسک میں دھماکوں کی تاریخیں آپس میں الجھا دیں تھیں۔

ان بم دھماکوں کی آزادانہ تفتیش کے مطالبے کو رد کر دیا گیا۔ تمام مبینہ مجرموں کو یا تو قتل کر دیا گیا یا پھر خفیہ عدالتوں میں سزا سنائی گئی۔ ایک غیر رسمی کمیشن جو ڈوما کے ایک ممبر نے قائم کیا تھا، کو اس وقت بند کر دیا گیا جب اس کے دواراکین کو قتل اور ایک کو گرفتار کر لیا گیا۔ ایف ایس بی کا ایک غدار ایجنٹ لٹوی نی اینکوجو 2008ء میں لندن میں مارا گیا، اس کمیشن کے گواہوں میں سے ایک تھا۔

دھماکوں کا الزام اسلامی انتہا پسندوں پر ڈال دیا گیا اور اس کوجواز بنا کر داغستان پر حملہ کر دیا گیا۔ پیوٹن نے جوابی کاروائی میں فوری طور پر گروزنی پربمباری کا حکم دیا۔ یہ سب پیوٹن کے لئے ایک بڑا پراپیگنڈہ تھا۔ روسی پریس جو مافیائی سرمایہ داروں کے مکمل کنٹرول میں تھا، نے اس پراپیگنڈے کا خوب پرچار کیا۔

اگلے آنے والے ہفتوں میں پیوٹن کی مقبولیت آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی تھی۔ دسمبر میں یلسن کے استعفیٰ کے بعد پیوٹن قائم مقام صدر بن گیا اور انتخابات کو جون کی مقررہ تاریخ کی بجائے مارچ میں منعقد کروایا گیا۔ انتخابات کے پہلے مرحلے میں پیوٹن نے اکثریت حاصل کی۔ اگرچہ ڈومامیں پیوٹن کی اکثریت نہیں تھی لیکن سی پی آر ایف نے دھاندلی کے ذریعے اس کو ضروری ووٹ دلوائے۔

پیوٹن کی حکومت

پیوٹن روس میں سرمایہ دارانہ نظام کے استحکام کا نمائندہ تھا۔ بلاشبہ کچھ لبرلز مغرب کی طرز کی جمہوریت کا خواب دیکھ رہے تھے، مگر ایسی حکمرانی کی بنیادیں موجود نہیں تھیں۔

یلسن کی حکومت کو اچھا بنا کر پیش کرنے کی کافی کوشش کی گئی تھی لیکن یہ پیوٹن کی حکومت سے کسی طور بھی مختلف نہیں تھی۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ کیسے یلسن نے اپنے فائدے کے لئے منتخب اسمبلیوں اور آئین کوروندنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ وہ اپنا اقتدار بدعنوان سرمایہ داروں کے ایک چھوٹے سے گروہ کے بلبوتے پر چلا رہا تھا جن کو اس نے بہت ساری سرکاری املاک سونپ رکھیں تھیں۔ وہ روس میں سرمایہ داری کی واپسی چاہتا تھا اور اس مقصد میں مغرب نے اسکی بھرپور مددکی۔ لیکن یلسن کی حکومت بحران زدہ تھی۔اس کا کوئی دیر پا مستقبل نہیں تھا۔

 

جیسے ہی پیوٹن اقتدار میں آیا اس نے یلسن کے دور کی بعض حد سے بڑھی ہوئی تجاوزات کا خاتمہ کرنا شروع کر دیا۔ اس نے کچھ انتہائی بد عنوان سرمایہ داروں کو جیل میں ڈالا اور میڈیا پر ان کے کنٹرول کو بھی ختم کیا۔ اس نے یہ سب اس لئے نہیں کیا کہ یہ سب کچھ مزدوروں کے حوالے کیا جاسکے،بلکہ اپنے اقتدار کی مضبوطی کی خاطر کیا۔ بد عنوان سرمایہ داروں کو سزا دینے کا یہ طریقہ اس وقت بہت زیادہ مقبول تھا۔

مغربی طاقتوں کا یہ سمجھنا ان کی غلط فہمی تھی کہ روس دوبارہ سے 1917ء سے پہلے کے روس کی طرح مغرب کی ایک نیم کالونی کی مانند سرمایہ داری کی طرف لوٹے گا۔ بنیادی طور پر ان کا مقصد وہی تھا جو انہوں نے مشرقی یورپ کے بیشتر حصوں میں حاصل کیا تھا۔ لیکن نئے روس کے اس مافیائی سرمایہ دار طبقے کے اپنے مفادات تھے اور اب وہ اپنی بنیادیں مضبوط کر رہا تھا۔ عالمی سیاست کے منظر نامے پر روس کسی غریب ملک کے طور پر نہیں بلکہ ایک ایسی سامراجی طاقت کے طور پر ابھرا جو سوویت یونین کے انہدام کی وجہ سے اپنے کھوئے ہوئے اثر و رسوخ کو دوبارہ حاصل کرنا چاہتی تھی۔

یہ پیوٹن کا کوئی ذاتی مشن نہیں تھا بلکہ اس سے پہلے یلسن بھی چیچنیا پر قبضہ کرنے کا حامی تھا اور اس کے علاوہ وہ یہ بھی چاہتا تھا کہ سابقہ سوویت ریپبلکس اپنے آپ کو روس کے ساتھ شامل کریں۔ روس کا نیا مافیائی سرمایہ دار طبقہ پر اعتماد ہوتا جا رہا تھا اور اگلے کچھ سالوں میں معیشت کی ترقی کی وجہ سے اس کے اعتماد میں مزید اضافہ ہوا۔

نظام حکومت خود کو ازسرِ نو تبدیل کر رہا تھا۔ بنیادی طور پر کچھ بھی بدلا نہیں جا رہا تھا لیکن یلسن کے دور کی خوفناکیوں کو مٹانے کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا لازمی تھا۔ آئی ایم ایف اور واشنگٹن کے فرمودات کی پیروی کو ختم کر دیا گیا۔ پیوٹن یقینا سرمایہ داری کا خاتمہ نہیں چاہتا تھا مگر روس کی عظیم طاقت ہونے کی حیثیت کو بحال کرنے کا خواہش مند ضرور تھا۔ ایک دہائی کی قومی تذلیل کے باعث یہ کافی مقبول نعرہ تھا۔

نظام حکومت خود کو ازسرِ نو تبدیل کر رہا تھا۔ بنیادی طور پر کچھ بھی بدلا نہیں جا رہا تھا لیکن یلسن کے دور کی خوفناکیوں کو مٹانے کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا لازمی تھا۔ آئی ایم ایف اور واشنگٹن کے فرمودات کی پیروی کو ختم کر دیا گیا۔ پیوٹن یقینا سرمایہ داری کا خاتمہ نہیں چاہتا تھا مگر روس کی عظیم طاقت ہونے کی حیثیت کو بحال کرنے کا خواہش مند ضرور تھا۔ ایک دہائی کی قومی تذلیل کے باعث یہ کافی مقبول نعرہ تھا۔

سوویت یونین کے قومی ترانے کو 2000ء میں الفاظ کی رد و بدل کے ساتھ دوبارہ اپنایا گیا۔ یلسن اور دوسرے لوگوں نے اس کی مخالفت اس لئے کی کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ عوام کی خواہشات کے مطابق کام کیا جائے (کیونکہ یہ مانا جاتا تھا کہ یہ ترانہ عوام میں کافی مقبول ہے)۔پیوٹن اکثر اوقات سوویت یونین، لینن اور سٹالن کی تعریفیں کرتا ہے لیکن یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں کیونکہ زار شاہی کے بارے میں بھی وہ یہی کہتا ہے۔

نظریات کا حتمی تجزئیے میں حقیقت کے ساتھ ہم آہنگ ہونا لازمی ہوتا ہے۔ پیوٹن خود کو یلسن کے متبادل کے طور پر پیش کرتا ہے۔ لیکن جو سطحی تبدیلیاں اس نے کیں وہ اتنی اثر انگیز نہیں تھیں، اگر اس وقت معیشت ترقی نہ کر رہی ہوتی تو ان کی حقیقت واضح ہو جاتی۔ پیوٹن نے محض باتیں ہی نہیں کیں بلکہ جب وہ روس کی بحالی کی بات کرتا تھا تو اس کا اثر معیشت میں بھی دیکھاگیا۔ بلاشبہ معیشت کی یہ ترقی اسکی پالیسیوں کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ تیل کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے ایسا ہوا۔ روس کی 60 فیصد کے قریب بر آمدات تیل اور گیس کی مصنوعات ہیں۔

یلسن کے دور کی تباہ کاریوں کے مقابلے میں 2000ء کی دہائی کے اوائل میں ہونے والی معاشی بحالی نے اس حکومت کو استحکام کی وجہ فراہم کی۔ سوویت یونین میں سٹالنزم کے دور اور بعد میں 1996-1998ء کی تحریک میں سی پی آر ایف (کمیونسٹ پارٹی آف رشین فیڈریشن) کے المناک کردار کی وجہ سے محنت کش طبقہ ما یوسی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔ یہ معاشی بحالی اور پیوٹن کی کامیابی کی ایک اور وجہ تھی۔

بہت ساری بونا پارٹسٹ ریاستوں کی طرح پیوٹن بھی ریاست کو چلائے رکھنے کے لئے بیرونی دشمن بنائے رکھنا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ جنگیں جاری رہیں اور وہ جیتتا رہے۔ چیچنیا میں ہونے والی جنگ اس کی ایک مثال تھی جہاں اس نے چیچنوں کو کچل کے رکھ دیا۔ اسکے بعد اس نے 2008ء میں جارجیا کی فوج کو شکست دی،پھر 2014ء میں یوکرائن اور پھر 2015-2016ء میں شامی خانہ جنگی میں فوجی مداخلت کی۔

تاہم قوم پرستی کو ہوا دے کر مقبولیت حاصل کرنے کی کوششوں کا اثر کم ہوتا جارہا ہے۔ اور یہ کافی مہنگا بھی پڑ رہا ہے۔ روس کے فوجی اخراجات جی ڈی پی کے تناسب میں اب امریکہ سے زیادہ ہیں جو کہ جی ڈی پی کا 3.9 فیصد ہیں۔ اور برطانیہ کے مقابلے میں یہ دوگناہیں۔

پیوٹن کی حکومت اب ادھار میں ملے وقت پر قائم ہے۔ پیوٹن کی ووٹ حاصل کرنے کی شرح 60-70 فیصد سے کم ہو کر 40 فیصد ہوگئی ہے۔ روس میں آزادانہ شفاف انتخابات جیسی کوئی چیز ویسے بھی وجود نہیں رکھتی تھی مگر آخری پارلیمانی انتخابات میں سب سے زیادہ دھاندلی ہوئی۔ اس دھاندلی کے متوازی ریاستی جبر میں بھی اضافہ ہوا۔ یہ غالب امکان ہے کہ پیوٹن کی یونائیٹڈرشیا پارٹی کے 28 ملین ووٹوں میں سے آدھے دھاندلی کے ذریعے حاصل کیے گئے تھے۔ 2007ء میں جب پیوٹن کی مقبولیت بہت زیادہ تھی، یونائیٹڈ رشیاپارٹی نے 45 فیصد ووٹ کے ساتھ 315 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ اس سال رائے عامہ کے جائزوں میں یونائیٹڈ رشیا پارٹی کو 35 فیصد ووٹ ملے۔ لیکن انہوں نے پھر بھی انتخابات میں 50 فیصد ووٹ کے ساتھ 324 نشستیں حاصل کیں جو کہ آئینی تبدیلیاں کرنے کے لئے درکار دو تہائی اکثریت سے محض 4 نشستیں زیادہ تھیں۔ یہ واضح ہے کہ انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اتنے ووٹ حاصل کیے جائیں جو یہ مخصوص نشستیں جیتنے کے لئے درکار تھے۔

ایک عام بورژوا جمہوریت میں انتخابات اور احتجاجات ایک سیفٹی والوو کی طرح ہوتے ہیں، جن میں محنت کش عوام کے مزاج میں تبدیلی کی وجہ سے یا تو پارٹیاں بنتی ہیں یا ختم ہو جاتی ہیں۔ انتخابات کے نتائج اور ہڑتالوں کے اعدادو شمار طبقاتی مزاج کا اندازہ لگانے کے لئے ایک بیرو میٹر کا کام کرتے ہیں۔ لیکن اگر بات روس جیسی ریاست کی ہو تو یہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ یہاں پارلیمانی اپوزیشن کی نااہلی نے صورتِ حال کو بہت خراب کر دیا ہے۔ جبر اور دھوکہ دہی کے ذریعے سماج میں پنپتی بے چینی کو تھوڑے عرصے تک ہی دبایا جا سکتا ہے مگر جب یہ اپنا اظہار کرتی ہے تو زیادہ دھماکہ خیز انداز میں کرتی ہے۔

عالمی سطح پر بحران کی صورتِ حال اور روس میں ہونے والی تباہی کے پیشِ نظر سماج میں پنپتے غم وغصے کے لاوے کے پھٹنے کا وقت اب دور نہیں ہے۔ لبرل اپوزیشن کی مکمل ناکامی اور نا اہلی اس بات کا واضح اظہار ہے کہ دوبارہ پھر اسی غلاظت (سرمایہ داری) کو جمہوریت کے لبادے میں ایک متبادل کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ کوئی بھی امریکی سامراج کے دلالوں کو پسند نہیں کرتا اور نہ ہی عوام یلسن کے عہد جیسی حکومت واپس چاہتے ہیں۔ اسی طرح نہ ہی 30 سال پہلے کی افسر شاہانہ معاشی بد انتظامی کی طرف واپسی کا کوئی راستہ موجود ہے اور نہ ہی کوئی ایسا چاہتا ہے۔ محنت کش اس وقت ایک حقیقی متبادل کی تلاش میں ہیں۔ جس کا مطلب ہر صورت میں اکتوبر انقلاب کے نظریات کی طرف واپسی ہے۔ یہ آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔