شام ۔ انقلابی سوشلزم کی روایات کا نیا جنم

Urdu translation of Syria: The people have had enough - Terror will not save the regime (March 22, 2011)

تحریر: عیسیٰ الجزیری ۔ ترجمہ ، اسدپتافی

چنگاری ڈاٹ کام،27.03.2011

پندرہ سو کے قریب افرادکے ایک اچانک سامنے آجانے والے مظاہرے کے بعد دیرا میں ہزاروں احتجاج کرنے والوں اورپھر کرد علاقوں میں احتجاجیوں پر سیکورٹی فورسز کی جانب سے گولیاں چلادی گئیں ۔دمشق میں وزیرداخلہ کوذاتی طور پر قوم سے معافی مانگنی پڑگئی ۔انقلاب کا شعلہ بھڑک چکاہے جو کسی بھی وقت شام کو اپنی لپیٹ میں لے سکتاہے ۔

شام کی ریاستی سیکورٹی پولیس مخابرات، سرتوڑ کوشش کر رہی ہے اوردن رات سرگرم ہو چکی ہے کہ حکومت کواس سے پہلے کہ کچھ ہو جائے کچھ کر لیا جائے۔حکومت کا رد عمل یہ واضح کرتاہے کہ اسے ایک حقیقی خطرہ لاحق ہو چکاہے۔جمعے کے دن دیرا میں تین سو سے زائد گرفتار جبکہ پانچ مظاہرین پولیس فائرنگ سے ہلاک کئے گئے۔اتوار کو بعث پارٹی کے دفتر،عدالتوں،اور کئی دوسری حکومتی عمارتوں کو مظاہرین نے نذر آتش کردیا۔یہ مظاہرین سکول کے بچوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے جنہیں سیکورٹی فورسز نے حکومت کے خلاف مظاہرے کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیاتھا۔

دمشق ۔ انسانوں کی تذلیل کا سلسلہ اب بس

سترہ فروری کوایک نوجوان عماد نصیب اپنے بھائی الائی کے ساتھ ،الحمیدیہ چوک کے ساتھ ہی ایک دکان پر خریداری کیلئے جارہاتھا ۔وہ ایک ٹریفک اشارے کے قریب پہنچے جو پچھلے کئی روز سے کام نہیں کر رہاتھا۔اس دوران دو ٹریفک پولیس والوں نے انہیں روک لیا۔اور ان کے ساتھ بحث و تکرار شروع کردی ۔جس کے بعد افسران نے ان کو تنبیہ کرنا شروع کردی۔نوجوانوں نے کہا کہ آپ ہمارا چلان کردو لیکن ہماری تذلیل اور توہین نہ کرو۔نوجوان قریب ہی واقع چوکی پر ٹریفک دفتر میں موجود انچارج میجرسے شکایت کرنے پہنچ گئے ۔ انچارج نے انہیں سنتے ہی الٹا ان کو جھاڑ دیا ۔اور کہا کہ تمہیں ہمت کیسے ہوئی کہ شکایت کرو۔اس کے بعد افسر نے اپنی بیلٹ اتارکر عماد کو مارنا شروع کردیا ۔جس کے بعد جھگڑا بڑھ گیا اور پولیس والوں نے دونوں کو تشددکا نشانہ بنانا شروع کردیا۔

عام طورپراس قسم کے واقعات عمومی نوعیت کے واقعات ہوتے ہیں لیکن اس دن تو کچھ اور ہی واقع ہوگیا۔ان نوجوان بھائیوں کی چیخوں سے ایک مجمع اکٹھا ہوتاچلاگیا۔سینکڑوں افراد جمع ہوگئے اور انہوں نے دونوں کو پولیس سے چھڑا لیا۔جب انچارج میجر نے دیکھا کہ علائی کے جسم سے خون رس رہاہے تو اس نے کہا کہ ہم سب کو پولیس سٹیشن چلنا چاہئے جہاں ان دوٹریفک والوں سے پوچھ گچھ کی جائے گی۔مجمع میں شریک لوگوں نے انہیں منع کیا کہ وہ پولیس سٹیشن نہ جائیں۔ہوسکتا ہے کہ وہاں ان پر مزید تشدد کیا جائے۔لوگوں کے بگڑتے موڈ کو دیکھ کر میجرانچارج نے لوگوں سے مذاکرات شروع کردیے ۔ اس نے کہا کہ جسے جسے بھی شکایت ہوتی ہے ہم اس کی بات سنتے ہیں لیکن اس وقت صرف یہی دو بھائی ہمارے ساتھ چلیں۔اس دوران ہی حمیدیہ پولیس ڈیپارٹمنٹ کے لوگ بھی وہاں پہنچ گئے ۔اسی دوران پانچ پولیس والے اٹھے اور انہوں نے دونوں بھائیوں کو بندوقوں کے بٹوں سے مارناشروع کردیا۔عماد کے مطابق،میجر نے انہیں پولیس والوں سے بچانے کی کوشش کی۔اسی دوران جمع ہو چکا ہجوم پولیس والوں پر ٹوٹ پڑا۔جھگڑے کے دوران میجر ،دونوں بھائیوں کو لے کرایک قریبی عمارت میں لے گیا۔عماد کے بقول،اب پتہ نہیں یہ ہمارے تحفظ کیلئے کیا جارہاتھا یا پھر پولیس والوں کو لوگوں سے بچانے کیلئے ! میجر کی جو بھی نیت تھی لیکن ہجوم نے یہی سمجھ لیا کہ ہمیں تشددکیلئے ہی لے جایا جارہاہے ۔اب تک لوگوں کی تعدادپندرہ سو سے بھی بڑھ چکی تھی۔یہ سب عمارت کے دروازے پر جمع ہوگئے اور نعرے لگانے شروع کردیے کہ ہمیں چھوڑا جائے۔میجر نے حمیدیہ پولیس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کو فون کیا،جس نے آتے ہی دونوں بھائیوں سے معذرت کی۔اسی دوران ہی دمشق پولیس کے سربراہ کا بھی فون آگیا جس نے بھائیوں سے بات چیت کی،عماد کے مطابق اس کا لہجہ بہت نرم تھا۔اس دوران ہی ان نوجوانوں کا والد بھی پہنچ گیا۔اس دوران دمشق پولیس سربراہ نے وزیر داخلہ کو آگاہ کیا۔وزیر نے والد سے فون پر بات کی اور خیر خیریت دریافت کی۔وزیر نے اسے دعوت دی کہ وہ اپنے بیٹوں کو ساتھ لے کر اس کے دفتر آجائیں۔اس کے بعد پولیس سربراہ اور عماد کے والدنے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ اب چلے جائیں۔لیکن لوگوں نے مطالبہ کیا کہ وزیر کو خود یہاں آنا ہوگا۔

ہجوم کی تعداد بھی بڑھ رہی تھی اور ان کا جو ش وجذبہ بھی بڑھ رہاتھا ۔وہ مسلسل نعرے لگا رہے تھے کہ اب عام لوگوں کی مزید توہین و تذلیل برداشت نہیں کی جائے گی ۔لوگوں کے جوش وجذبے اور ان کی ضد کو محسوس کرتے ہوئے ،ملک کے وزیر داخلہ کو اپنے سب کام کاج چھوڑ کر فوری طورپر پہنچنااور عام لوگوں سے بات چیت کرناپڑگئی۔اس نے پوچھا کہ آپ کیوں جمع ہوئے !کیا یہ کوئی احتجاج ہورہاہے ؟یہ ایک تنبیہ تھی کیونکہ ملک میں1963ء سے ایمرجنسی مسلط چلی آرہی ہے ۔اور جس کے تحت کسی قسم کابھی اجتماع یا احتجاج غیر قانونی ہے۔وزیر صاحب کی بات سن کر ہجوم میں سے کئی لوگوں کی ہنسی نکل گئی۔وہ وزیر کے پاس پہنچ کے بولے نہیں نہیں ،یہ ہرگز کوئی احتجاج وحتجاج نہیں ہورہاہے،آپ چنتا نہ کریں۔ وزیر نے اعلان کیا کہ دونوں بھائیوں کو چھوڑاجارہاہے اوریہ بھی یقین دہانی کرائی کہ متعلقہ پولیس والوں سے پوچھ گچھ کی جائے گی کہ انہوں نے ان سے کیوں زیادتی کی۔

یہ ایک انتہائی چھوٹا معاملہ تھا لیکن یہاں شام کی تاریخ میں یہ معمولی واقعہ تاریخی اہمیت کا حامل لمحہ بن گیا۔اس سارے واقعے کی خبر سارے ملک میں پھیلتی چلی گئی۔ایک چھوٹے ہجوم کی یہ چھوٹی کامیابی سارے شام میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔انہیں بھی جنہیں عربی زبان نہیں آتی،اس واقعے کی ویڈیوسے ساری کیفیت کا پتہ چلتا گیا۔

لیکن پھر یہ ایک آغازہی تھا۔پچھلے ہفتے سے اب تک سارے دمشق میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔یہ مظاہرے فیس بک پر قائم ایک گروپ کی طرف سے منظم کئے جارہے ہیں ۔اس گروپ نے پہلے بھی مظاہروں کی کال دی تھی مگر تب کسی نے اس پر توجہ نہیں دی تھی۔لیکن اب کی بار برف پگھل چکی تھی اور مظاہرے یکے بعددیگرے ہونے شروع ہو چکے ہیں۔اس ابتدائی واقعے میں ہجوم نے جو ایک نعرہ بلند کیا تھا کہ اب عام انسانوں کی توہین و تذلیل برداشت نہیں کی جائے گی،ان مظاہروں کا مرکزی نعرہ بن چکاہے ۔اس کے ساتھ ساتھ اب بدعنوانی اور استحصال کے خلاف بھی نعرے لگائے جانے لگے ہیں۔

حمیدیہ میں پولیس افسروں کا رویہ ،واضح طورپر متکبرانہ، اہانت آمیزاورشرمناک تھا کہ جیسے عام لوگ انسان نہیں بلکہ کیڑے مکوڑے ہیں۔اور اگر کبھی موقع بن پڑے تو عام انسانوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک روا رکھا جاتاہے ۔اور یہ کسی طور کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں ہواکرتا۔عام طور پر افسر شاہی،سول سرونٹس،پولیس افسران،اور دیگر ریاستی شعبوں کے افسران دہائیوں سے اپنے ہی عوام کی جانب جو رویہ اور روش اپنائے ہوئے چلے آرہے ہیں ،یہ واقعہ بھی اسی کی ہی ایک جھلک تھا۔شام میں پھوٹنے والے مظاہروں کی نوعیت گاہے شدید گاہے کمزورہے ۔ ایک شناختی کارڈ کیلئے ،شام میں ہر جگہ پر لوگوں کو قطاروں میں گھنٹوں گھنٹوں کھڑاکرکے ان کو عذاب میں مبتلا رکھا جاتاہے ۔اس کے علاوہ بھی زندگی کے ہر اس معاملے میں کہ جس میں عام انسانوں کا ریاست سے واسطہ پڑتاہے ، ایساہی سلوک عام انسانوں کے ساتھ ہوتا آرہاہے۔’’پیچھے ہٹو ، پیچھے ہٹو‘‘یہی آوازیں روزعام لوگوں کو سنائی جاتی ہیں۔رقم لگواؤ اور کام کرواؤاور چلتے بنو۔اگر آپ کو اپنے علاج کی فائل دیکھنی ہو تو آپ کو متعلقہ کلرک کی مٹھی گرم کرنی پڑتی ہے ۔آپ کو گھر کیلئے درخواست دینی ہو کہ پاسپورٹ کیلئے ،ہر حالت میں آپ کو اپنے پاس رقم رکھنی اور افسرشاہی کو دینی پڑتی ہے ۔یہاں تک کہ ایک معمولی سطح کا کلرک بھی خود کو نپولین بوناپارٹ سے کم تصور نہیں کرتا۔وہ ہر ایک سے یہی توقع رکھتا ہے کہ اسے بادشاہ سمجھ کر ہی بات کی جائے ۔اور جو بھی اس کے حضور پیش ہو ،اسے چاہئے کہ وہ بادشاہ سلامت کے حضور نذرنیاز پیش کرنا اپنا فرض سمجھے۔اور اگر وہ کسی کام سے اپنی جگہ سے اٹھ کر کہیں جانے لگے تو سبھی حاجت مندوں پر فرض ہے کہ وہ اسے کورنش بجا کر اسے جانے دیں اور اس کا انتظارکریں۔اگر بادشاہ سلامت کسی سائل کو جھاڑ دیں یا اس کی توہین بھی کر دیں تو اسے سائل اپنی توہین نہ سمجھے بلکہ مزید ڈانٹ ڈپٹ سے بچنے کیلئے بادشاہ کو مزید نذرانہ دینے کا اہتمام کرے۔بادشاہ سلامت کو یہ بھی استحقاق حاصل ہے کہ وہ اپنے سائلین کی مارپیٹ کرے۔اور اگر کوئی نک چڑھا سائل غلطی سے کوئی بدزبانی بھی کرے تو اسے یہ قانونی حق حاصل ہے کہ وہ اپنے افسران بالا کوکہہ کر ایسے ناہنجار سائل کو داخل زنداں کرادے۔یہی رویہ ،یہی روش تھی جو مسلسل شام کے لوگ بھگتتے آرہے تھے اور جس سے تنگ آکر ہی حمیدیہ والے واقعے میں اچانک لوگوں کی تنگی نے انہیں اجتماع پر مجبورکردیا۔

شام کے عوام کے ساتھ بہت ہو چکی تھی اور جب اچانک دو نوجوان بھائیوں کے ساتھ مذکورہ واقعہ پیش آیا تو اس نے ہر پچھلی توہین اور تذلیل کو شعلہ بنادیا۔اب یہ شعلہ ہر عام شامی کے جسم و جان میں داخل ہوچکاہے ۔

دیرا میں پولیس کی فائرنگ

شام میں زیادہ تر واقعات دمشق سے ، جنوب کی طرف ایک سو کلومیٹر دور علاقے دیرا میں ہورہے ہیں۔چھ مارچ کو یہاں پندرہ سال سے کم عمر کے بیس بچوں کواس الزام میں گرفتار کر لیاگیا کہ وہ سپرے کلر سے دیواروں پرحکومت کے خلاف نعرے لکھ رہے تھے ۔یہ بچے تیونس اور مصر کے واقعات سے متاثر ہوکر یہ حرکت کر رہے تھے،بچوں کی اس حرکت نے انتظامیہ کے کان کھڑے کردیے ۔جمعہ 18مارچ کو ان بچوں کی رہائی اور ضروریات زندگی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرہ منظم کیا گیا ۔اس مظاہرے کو انتظامیہ نے آڑے ہاتھوں لیا ۔اور مظاہرے پر براہ راست فائرنگ کر دی گئی۔نہ تو کوئی آنسو گیس نہ ہی ربڑ کی گولیاں استعمال کرنے کا تکلف کیا گیا۔ نیچے فائرنگ کرتی فوج کی مدد کیلئے ہیلی کاپٹرکے ذریعے مزید کمک بھی فراہم کی جاتی رہی۔اگلے روز شہر سے باہر مضافات میں مرجانے والوں کی تدفین کا اہتمام کیا گیا۔لوگوں کی بہت بھاری تعداد وہاں جمع تھی اور سخت غم وغصے میں تھی۔صدر بشارالاسد اور اس کے بدعنوان خاندان کے خلاف سخت نعرے بازی کی جاتی رہی ۔ ہزاروں لوگ اس موقع پر انقلاب انقلاب کے فلک شگاف نعرے لگاتے رہے اور اس بار بھی انتظامیہ اور سیکورٹی فورسز نے لوگوں پر جبر وتشددکیا اور ان پر زبردست لاٹھی چارج کیا گیا اور ماراپیٹاگیا،کئی لوگوں کو گرفتار بھی کیاگیا۔ اس دوران شہر کو جاتے ہی لوگوں نے شہر کو مکمل طورپر بند کردیا۔اگلے دن بیس مارچ کو شہر کے غم وغصے سے بھرے لوگ سڑکوں پر نکل آئے ۔اس دوران حکومت نے ایک اعلی ٰ سطحی وفد کو لوگوں سے معافی مانگنے اور بات چیت کرنے کیلئے بھیجا ۔کہا گیا کہ حکومت شہریوں کی ہلاکت کی تحقیقات کرے گی۔سرکاری وفد نے شہر کے کچھ خود ساختہ ’’معززین ‘‘سے ملاقاتیں بھی کیں۔جنہوں نے مطالبہ کیا کہ علاقے کے گورنر کو فوری طورپر برخاست کیا جائے ؛سبھی گرفتار شدگان کو رہاکیاجائے ؛نہتے لوگوں پر فائرنگ کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے ؛اور شہر میں جائیدادوں کی خرید وفروخت کیلئے خفیہ پولیس کی منظوری کی شرط کو ختم کیا جائے ۔

تحریک کی خود روی و خودمختاری کو محسوس کرتے ہوئے، یہ بات واضح ہے کہ یہ معززین علاقہ اپنی خودکی یا عوام کے نقطہ نظر کی نمائندگی نہیں کر رہے ہیں ۔اسی دن ہی بعد میں یہ معززین حکومتی وفد سے خود جا کے ملنے چلے گئے جبکہ بپھرے ہوئے لوگوں نے شہر میں لگے حافظ الاسد (شام کا سابق صدر اور موجودہ صدر کا باپ)کامجسمہ تہس نہس کرڈالا۔ساتھ ہی انہوں نے حکمران بعث پارٹی کے دفتر سمیت ایک عدالت کو بھی نذر آتش کر ڈالا۔اسی کے ساتھ ساتھ حکومت کی تعمیرکردہ یوتھ یونین بلڈنگ اور انقلابی یونین بلڈنگ کو بھی جلا ڈالا۔جبکہ صدر کے کزن رمی مخلوف کے کاروباری مرکز کو بھی آگ لگادی جو شام کا سب سے طاقتور بزنس مین ہے ۔شام میں صورتحال اس قدر سنجیدہ ہو چکی ہے کہ خود صدر بشارالاسد کو ذاتی مداخلت کرتے ہوئے سبھی گرفتار شدگان کی فوری رہائی،گورنر کی برخاستگی اورشہر میں ہونے والی ہلاکتوں کی تحقیقات کرانے کا اعلان کرنا پڑا۔لیکن دمشق میں وزیر داخلہ کی جانب سے دونوجوانوں کو دی گئی رعایت کی طرح صدر کی طرف سے یہ اعلان بھی سوائے اشک شوئی کے کوئی معنی نہیں رکھتا۔اور یہ تو ابھی ابتداہے ۔

زندہ انقلابی روایتیں زندہ رہتی ہیں

دوسری عالمی جنگ کے بعد سے ابھرنے والے نوآبادیاتی انقلابات کی موجیں شام کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکی تھیں ۔مصر اور لیبیا سے بھی پہلے اور تیزی کے ساتھ انقلاب نے شام کو منورکیا۔یہاں انقلاب نے سرمایہ داری کو یکسر اکھاڑ پھینکا۔ لیکن سوویت یونین میں براجمان مضبوط سٹالنسٹ حکمرانوں نے شام کے انقلاب کو مجبورکیا کہ وہ سوویت یونین میں قائم پرولتارین بوناپارٹسٹ طرز کو ہی اپنائے اور کام چلائے۔ معیشت کے مراکز کی جتنی بھی نیشنلائزیشن کی گئی اس میں نیچے سے انقلاب کرنے والے محنت کش طبقے کا کوئی عمل دخل نہیں تھا ۔بلکہ یہ سب فوجی افسروں اور بعث پارٹی کے عہدیداروں کے ذریعے کیاگیا۔معیشت منصوبہ بند تھی۔جس کی وجہ سے شام کے لوگوں کو مفت علاج ،مفت تعلیم اور حکومتی سبسڈی کے ساتھ آسان رہائش کی سہولتیں فراہم ہوتی گئیں۔ اس کے ساتھ ہی دن میں چھ گھنٹے کام کرنے کا نظام بھی نافذ کیاگیا۔اور یہ سبھی اقدامات مشرق وسطیٰ میں موجود سرمایہ دارانہ ریاستوں کے عین بیچ میں موجود ایک ملک میں غربت کے خاتمے کے لیے کافی تھے۔لیکن چونکہ اس کا سارا انتظام وانصرام افسرشاہی کے ہاتھوں میں تھا اس لئے رفتہ رفتہ لوگوں کو حاصل سبھی مراعات یہ افسر شاہی خود ہی نچوڑنے لگی۔

لیکن یہاں ہم جو بات رکھنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ اس بنیاد پر شام کی حکومت کو وسیع عوامی بنیادیں اور حمایت میسر آگئی۔اور اس کی مقبولیت ملکی سرحدوں سے بھی باہر پھیلتی چلی گئی۔سارے مشرق وسطیٰ کے اندر ایک متحدہ عرب جمہوریہ کے قیام کا نعرہ گونج اٹھا جس نے اس خطے کے محنت کشوں کی توجہ اور پذیرائی حاصل کرلی۔اور اس حکومت کے ان ملکوں کے محنت کشوں کے ساتھ بھی تعلقات استوار ہوگئے کہ جن کے حکمران اپنے عوام کی بجائے اپنے سامراجی آقاؤں کے مفادات کی دلالی اور گماشتگی کر رہے تھے۔لیکن اس مقبول طرز حکومت کا المیہ یہ تھا کہ یہ سیاسی،ریاستی اور فوجی افسرشاہی کا ملغوبہ تھی۔ورکروں کا اس طرزحکومت اور طرز معیشت پر کوئی اختیار نہیں تھا۔افسر شاہانہ بدعنوانی اور ضیاع نے معیشت کو گھن کی طرح چاٹنا اور نحیف کرنا شروع کردیا۔

سوویت یونین کے انہدام کے فوری بعد یہاں بھی معیشت کی کمزور ی یکدم اپنا اظہار کرنے لگی۔چین ،ویتنام سمیت دوسرے سابق سٹالنسٹ ملکوں کی طرح یہاں بھی افسر شاہی نے لبرلائزیشن کو اپنا اوڑھنابچھونا بنانا شروع کردیا۔سرمایہ داری کی طرف رجوع کرنے کے بعد معیشت نے کسی طور بھی عام شہریوں کی فلاح وبہبود کا کچھ نہیں سوچا۔ان پر وہی فوجی و ریاستی افسر شاہی ہی مسلط رہی۔ہاں البتہ طرز معیشت کی اس تبدیلی نے افسر شاہی کے حصوں کو بے پناہ دولت کمانے کا موقع ضرور فراہم کردیاہے۔رمی مخلوف جیسے کئی لوگوں نے سرمائے کی اس بہتی گنگا سے ضخیم دھن دولت کمالیاہے۔رمی مخلوف کی کمپنی سیریاٹیل ملک کے موبائل فون کی منڈی کے55فیصد حصے کی مالک ہے ۔اس نے مرسیڈیز جیسی کمپنی کو بھی ناکوں چنے چبوا دیے اور اس کے سپیر پارٹس پر پابندی لگوادی تاکہ اپنے خود کے کاروبار کو ترقی دے سکے۔

اس قسم کے چوروں کی سازشیں اور امداد بھی حکومت کو مضبوط ومستحکم رکھنے میں ناکام ثابت ہورہی ہیں۔ایک وقت تھا کہ جب ایمرجنسی قانون کا سب سے بڑا حمایتی عبدالحلیم خدام ہواکرتاتھا اور جو اس وقت نائب صدر بھی تھا۔تب اس کی دلیل یہ ہواکرتی تھی کہ اس قانون کی مخالفت کرنا اسرائیل کی حمایت کرنے اور قومی سلامتی کی مخالفت کے مترداف ہے ۔وہ ایک امیر آدمی ہے جس کی اربوں کی جائیدادیں ہیں۔جن میں لگژری ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔بعد ازاں وہ منحرف ہوگیا اور اس نے ایک سعودی شہزادے کو اپنی ساری جائیداد بیچ دی اور فرانس ہجرت کرگیا۔سرمایہ داری کا یہ گماشتہ اب سب سے بڑا’’موقع پرست‘‘ بن چکاہے اوراب اسے ’’اچانک ہی یہ سدھ بدھ ‘‘ہونی شروع ہو گئی ہے کہ یہاں شام میں تو انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔دوسری طرف اس کے ساتھ اقتدار کا مزہ لوٹنے اور دولت کمانے والے سابق ساتھیوں اور موجودہ حکمرانو کو بھی ’’اچانک‘‘ یہ پتہ چلا کہ خدام تو ایک انتہائی بدعنوان اور لٹیرا انسان تھا۔

ان احتجاجوں کے شروع ہونے سے پہلے یہاں شام میں ایک جگت بہت مشہور ہوئی ،جب بھی حکومت کے کسی وزیر یا وزیراعظم کی بدعنوانی بارے کوئی بات سامنے آتی تو یہ کہا جاتاکہ ’’سمجھو اب اس نے خودکشی کرلی‘‘۔یہاں شام میں ایک نیا سرمایہ دار طبقہ پیدا ہوچکاہے ۔جن میں سے اکثر سابق سٹالنسٹ حکومت کے کرتے دھرتے رہے ہیں۔جبکہ اس ملک کے شمال میں ہی دس لاکھ سے زائد لوگ محض اس لئے نقل مکانی کر چکے ہیں کہ ان کے علاقے میں پچھلے پانچ سال سے پانی کا قحط پڑاہواتھا۔ان میں سے کئی ہجرت زدہ لوگ دیرا کے علاقے میں آکر بسے ۔یہ ایک نیا شام ہے ؛اس کا صدر اسد بھی ایک نیا اسد ہے ۔پچھلے اور اس نئے اسد میں صرف ایک فرق واضح ہے؛بدعنوانی اور بدزبانی کا۔مگر اس سب کے باوجود یہاں شام میں انقلابی روایتیں بہت پرانی اور بہت گہری ہیں۔دیرا‘ ضورجیسے شہروں نے ہمیشہ انقلابات میں رہنماکردار اداکیاہے ۔ اور اس انقلاب کی ابتدا میں بھی یہی شہر ایک بار پھر اپنی روایت کو زندہ کر رہے ہیں۔شام اردن کی سرحد سے شام کی طرف آتے ہوئے دیرا شہر کے قریب تین بڑے استقبالی مقام ہیں جن پر اب تک بعث پارٹی کا نعرہ کندہ ہے‘اتحاد‘

آزادی‘ سوشلزم۔

بلاشبہ اب اس نعرے کی آج کی بعث پارٹی کو نہ ضرورت ہے نہ ہی پرواہ۔کئی سال پرانے استقبالیے سے لفظ سوشلزم گھس کرگر چکاہے اور اپنے وہ معنی بھی کھو چکاہے جو اس وقت ہوتے تھے کہ جب یہ لکھا ،بولااور برتاگیاتھا۔شام میں حکومت کے خلا ف لڑائی کا تعلق اس جائیداد سے ہے جو کہ حکومت پر عرصے سے براجمان افسرشاہی لوٹ مار کر کے اکٹھی کر چکی اور خود کو سرمایہ دار اور اشرافیہ میں ڈھال چکی ہے ۔ ڈاکوؤں ، چوروں اور ٹھگوں کے خلاف ہماری لڑائی کیلئے یہی تین لفظ ہی کار آمد اور نتیجہ خیز ثابت ہو سکتے ہیں۔افسر شاہی نے جس طرح سے خود کو عوام الناس سے الگ تھلگ اور بالاتر کرلیا ،اب عوام الناس کا وقت ہے کہ وہ بھی خود کو ان سے بالاتر اور الگ تھلگ کر لیں۔

گھر کو لگی آگ اور ہمسائے کے گھروں کو لگی آگ سے ہراساں حکومت

شام میں تحریک سے پہلے ہی جب یہاں سب شانت تھا ،شام کی حکومت اس خطرے کو سونگھ رہی تھی کہ یہاں بھی وہ کچھ اور بہت کچھ ہوسکتاہے جو کہ اس کے اڑوس پڑوس میں ہورہاتھا ۔تیونس اور مصر میں جوں جوں واقعات ابھی ابتدائی حالت میں ہورہے تھے ،یہاں شام کی نئی نسل کوشش کرتی رہی کہ وہ مشعلیں جلاکر تیونس اور مصر کے نوجوانوں کی جدوجہد کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر سکیں۔لیکن ایسا کرنے والوں کو گرفتار کیا جاتا رہا۔اس کے باوجود کہ ان ملکوں کی حکومتیں شام کی مخالف چلی آرہی تھیں۔اور ابھی حال ہی میں یہاں کی خفیہ پولیس نے ایک ریلی کے سینکڑوں نوجوانوں کو پکڑا اور مارا پیٹا ہے جو قذافی کے اپنے لوگوں کے خلاف جبر وتشدد کے خلاف اور لیبیا انقلاب کے ساتھ یکجہتی کیلئے ریلی نکالنے کی کوشش کررہے تھے ۔ ریلی کے شرکا یہ نعرے لگا رہے تھے کہ ’’اپنے ہی لوگوں پرتشددکرنے والے غدار اور فاسق ہوتے ہیں‘‘جو کہ قذافی کے خلاف تھے، لیکن جن پر سیکورٹی فورسز والے پریشان ہو گئے اور انہوں نے ریلی کے شرکا پر تشدد شروع کردیا۔دس مارچ کو شام کی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کیا کہ شام کی حکومت اپنے پڑوسی برادر ملک میں جاری صورتحال کو انتہائی تشویش سے دیکھ رہی ہے‘‘۔ الجزیرہ ٹی وی نے رپورٹ دی ہے کہ ایک سویلین بحری جہاز اسلحے اورپانچ سوSUVsسے لداہواشام سے لیبیا روانہ کیا گیا ہے ۔اور یہ بھی کہا ہے کہ شامی فوج قذافی کی فوج کے شانہ بشانہ لڑ رہی ہے ۔یہ بھی اطلاعات ہیں کہ شامی پائلٹوں کو وہاں انقلابیوں نے مار بھی گرایا۔اسی طرح شامی وزیر خارجہ ولید معلم نے کھلے عام سعودی حکومت کی جانب سے بحرین میں فوجیں بھیجنے کی مکمل حمایت کا اعلان کیاہے ۔اس کے باوجود کہ سعودی عرب ہمیشہ سے ہی شام کا کھلا مخالف چلا آرہاہے۔

یہ ایک انقلاب ہے اورشام کے لوگوں کی اپنی ہی ایک پرانی تاریخ اور روایت ہے کہ وہ عرب محنت کشوں اور نوجوانوں کو اپنے ساتھ متحد کرتے اور رکھتے ہوئے انہیں ایک جدوجہد میں پروتی آئی ہے ۔جنہیں عالمی جنگ کے بعد سامراج نے ایک قبیح سازش کر کے ایک ہی زبان ایک ہی قوم ایک ہی ثقافت کو کئی الگ الگ ملکوں میں تقسیم کردیاتھا۔ایک مختصر وقت کیلئے ہی سہی ،لیکن متحدہ عرب جمہوریہ کے قیام کی جدوجہدکی تاریخ آج بھی شام کے سکولوں میں پڑھائی جاتی ہے ۔اور جیسا کہ جمال عبدالناصر کی روایت مصر کے حالیہ انقلابی واقعات کے دوران ایک بار پھر زندہ ہوئی ہے ،اسی طرح متحدہ عرب جمہوریہ کی روایت بھی شام کی نئی نسل میں ازسرنو موجزن ہونا شروع ہوچکی ہے جو کہ اپنے ارد گرد کے عرب ملکوں میں اپنے نوجوان بہنوں بھائیوں کوجدوجہد میں اتراہوادیکھ رہے ہیں۔

سوشلسٹوں کا فریضہ

 

کئی دہائیوں سے موجود ہ حکمران جمہوریت اور الیکشن کے ذریعے حکومت قائم رکھے چلے آرہے ہیں ۔ پارلیمنٹ میں سبھی پارٹیاں بعث پارٹی ہی کو حکومت دیتی چلی آرہی ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ بعث پارٹی ہی سب پارٹیوں کو سیٹیں دان کرتی آرہی ہے ۔یہ حکومتی اتحاد ’’نیشنل پروگریسو فرنٹ‘‘کے نام سے قائم ہے جس میں سبھی پارٹیاں خود کو سوشلسٹ قراردیتی ہیں۔اس میں کمیونسٹ پارٹی کے دوآپسی متحارب دھڑے بھی شامل ہیں۔کمیونسٹ پارٹی کی ملک میں ایک طویل تاریخ ہے ۔ لیکن پھر اپنی اس تاریخ کو اس نے خود ہی مسخ کیاجب اس نے مصر کے ساتھ شام کے الحاق کی مخالفت کی ۔اس کے بعد ایک اور بھیانک غلطی موجودہ حکمران اتحاد کا حصہ بن کر کی جس نے ایک وقت میں لبنان کی خانہ جنگی کے دوران، فاشسٹ بشیر حکومت کی بھی حمایت کی ۔اس قسم کی حکومت کا حصہ بننا اور بنے رہنااپنی جگہ خود ایک بہت بڑا جرم ہے ۔اپنی ممبر شپ پر پابندی لگائے رکھنے اور نوجوانوں اور فوجیوں کو بعث پارٹی میں ہی شامل ہونے کا راستہ اور موقع دینا ،یہ سب ایک ایسا قبیح فعل ہے کہ جس کے نتیجے میں آپ محنت کش طبقے کو منظم کرنے کے فریضے سے چشم پوشی کررہے ہیں۔

جیسا کہ تیونس اور مصر کے انقلابی واقعات سے ظاہر ہو چکاہے ،ایک ایسی پارٹی کے بغیر کہ جو تحریک چلانے والوں کے مفادات کی نمائندگی اور نگہبانی کرسکتی ہو،انقلاب کیلئے سرگرم اور سرکش ہوچکے عوام کوسامراج، حکمران طبقات اور ان کے گماشتوں کے ساتھ لڑائی کے عمل میں ایک طویل اور تکلیف دہ عمل میں سے گزرناپڑجاتاہے۔ وقت اور حالات یہ تقاضا کر رہے ہیں کہ محنت کشوں اور نوجوانوں کی ایک حقیقی پارٹی تعمیر کی جائے ۔شام کا انقلاب ہماری آنکھوں کے سامنے شروع ہوچکاہے ۔شام کے مارکس وادیوں کو خود کو منظم کرناہوگا۔اب وقت ضائع کرنے کیلئے ہمارے پاس کوئی وقت نہیں بچا۔

Translation: Chingaree.com