لیبیا ۔ سامراجی جارحیت , قذافی آمریت مردہ باد ۔ عرب انقلاب زندہ باد

Urdu translation of Support Libyan revolution, Oppose imperialist aggression! (March 21, 2011)

چنگاری ڈاٹ کام،27.03.2011

ہفتے کی شام کو فرانس کے جنگی جہازوں نے لیبیا پر بمباری کی ا بتدا کردی۔یہ سوائے جارحیت کے کچھ بھی نہیں۔اس کے بعد امریکہ اور پھر برطانیہ کے بحری جنگی جہازوں اور آبدوزوں نے بھی110ٹام ہاک میزائلوں سے حملے کیے گئے ہیں۔فرانسیسی حکمران،چارلس ڈیگال نامی بحری بیڑے پر سے لیبیا کی سمندری حدود میں مداخلت و جارحیت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ڈنمارک ،ناروے ،سپین اور کینیڈا بھی اپنے اپنے جہاز بھیج رہے ہیں۔اٹلی اپنے فوجی اڈے اور بحری بیڑے ،اس کیلئے دان کر رہاہے۔جبکہ قطر نے اپنے چار جہاز بھیجے ہیں جو لیبیا پر بمباری کریں گے ،یوں قطر پہلا ملک ہے جس نے ایک عرب ملک پر جارحیت میں معاونت کی ہے ۔اور بھی کئی عرب ممالک ،جن میں سعودی عرب بھی شامل ہے اس کام میں حصہ لینے کی تیاری کر چکے ہیں اور اپنی فوجیں بھیج رہے ہیں۔ ہفتے کے دن سے لے کر اب تک بمباری کا سلسلہ جاری وساری ہے ۔اور بربریت کایہ سارااہتمام دنیا کو یہ کہہ کر کیا جارہاہے کہ ہم لیبیا میں باغیوں کو قذافی کی وحشت سے محفوظ کرنے کیلئے یہ حملے کر رہے ہیں ۔لیبیا کے مشرق میں سرگرم باغی واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ انہیں کسی قسم کی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں ہے ۔جونہی یہ عیاں ہواکہ قذافی نے اپنی ساری قوت مجتمع کرکے انقلاب کو روکنے اور کچلنے کا فیصلہ کرلیاہے ،تویہ سوچ لیاگیا کہ نوفلائی زون کی ترکیب کو کام میں لایاجائے اور اس ترکیب کو ہر طرف سے سراہا جائے گا۔تاہم باغیوں کی عبوری کونسل نے اس بات پر اصرار جاری رکھا کہ لیبیا کی سرزمین پر فوجیں نہ اتاری جائیں۔لیبیا میں انقلابی نوجوانوں نے غیر ملکی مداخلت اور جارحیت کے خلاف بھرپور مظاہرے بھی کئے ہیں۔

اسی سے ہمیں یہ بات بآسانی سمجھ آجاتی ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردا دکے الفاظ اتنی ’’احتیاط‘‘ سے کیوں طے اور تحریر کئے گئے ۔ایک طرف تو یہ کہا گیا کہ لیبیا پر قبضہ نہیں جمانا؛یہ احتیاط اس کیفیت کی غمازی کرتی ہے کہ جو جارحیت کرنے والوں کو عراق اور افغانستان میں پیش آچکاہے جبکہ دوسری طرف یہ بھی قرار دے دیاگیا ہے کہ’’ لیبیا کے عوام کے تحفظ ‘‘کیلئے جو بھی اقدام ممکن اور مناسب سمجھا جائے گا ،وہ کیا جائے گا۔وہ سبھی جنہوں نے ’’نو فلائی زون ‘‘ کی بات کی تھی اب وہ اپنے اعلان سے کہیں زیادہ تجاوز کرنے میں لگ چکے ہیں۔انقلابات ہوں یا جنگیں ،ان میں کوئی چور راستہ یا شارٹ کٹ نہیں ہواکرتا۔

ایکشن کے پہلے دودنوں کی کاروائی سے یہ عیاں ہو چکا ہے کہ یہ جارحیت محض نوفلائی زون قائم کرنے کیلئے نہیں کی گئی ۔ جارحیت کرنے والوں نے اب لیبیائی فوج کو اس کی تنصیبات سمیت اپنا نشانہ بنانا شروع کر دیاہے ۔یہی نہیں طرابلس میں مخصوص عمارتوں کو بھی نشانہ بنایا جاچکاہے ۔ادھر قذافی کی افواج بن غازی اور دیگر شہروں پرچڑھائی کرنے کو دوڑ رہی ہیں،جس کی وجہ سے ’’عالمی برادری‘‘ کو سخت پریشانی اور تشویش ہوئی کہ لیبیا کے بیچارے عوام کے تحفظ کیلئے کچھ نہ کچھ کیا جائے ۔ یہ بات اس نظریے کی بنیاد بنی کہ قذافی کی طاقت سے زیادہ معیاری طاقت استعمال کرکے قذافی کی طاقت کو شکست دی جائے ۔اپنی اس مبینہ عوام دوست جارحیت کیلئے سامراجیوں کو قانونی واخلاقی جواز فراہم کرنے کیلئے سلامتی کونسل کی آشیرباد لینے کا تکلف کرناپڑا۔اور سلامتی کونسل نے بھی تہذیب کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس جارحیت کی اجازت دے دی۔اب یہ کھل چکا ہے کہ ان کے عزائم نوفلائی زون سے کہیں آگے کے ہیں۔

عرب لیگ ،چین‘ ہندوستان اور روس ٹسوے بہانے کا مقابلہ

اب جبکہ اندھادھند فائرنگ اور بمباری شروع ہو چکی ہے ،جس کی وجہ سے لگتاہے کہ عرب لیگ کی آنکھیں کھلنے لگی ہیں۔عرب لیگ کو تشویش لاحق ہو چکی ہے اور اس میں اختلافات و تنازعات بھی سامنے آنا شروع ہوچکے ہیں۔عرب لیگ کے جنرل سیکرٹری امر موسیٰ نے کہا ہے کہ جیٹ اور کروز میزائلوں کا استعمال نو فلائی زون کے قواعدو مقاصدکی کھلی خلاف ورزی ہے۔ امر نے حملوں کی نوعیت اورشدت پرسخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سب کچھ تو’’ عوام‘‘کے تحفظ کیلئے طے پایاتھا مگر۔۔۔کچھ ہی دن پہلے اسی عرب لیگ نے ہی اپنی میٹنگ میں یہ مطالبہ کیاتھاکہ لیبیاپر پابندیاں لگائی جائیں اور نوفلائی زون قائم کیا جائے ۔اب کوئی کیسے وضاحت کر سکتاہے کہ جناب امر موسیٰ کے پاؤں یکدم اتنے ٹھنڈے کیوں پڑ گئے ؟ اس کیلئے زیادہ سمجھ بوجھ کی ضرورت نہیں ہے کہ ایک عرب ملک پر سامراجی جارحیت نے سارے عرب خطے میں ایک عوامی اور عمومی غم و غصے کو بھڑکا دیاہے ۔اور وہ سبھی عرب بادشاہتیں اور حکومتیں جو اس جارحیت کی حمایت یا معاونت کر رہی ہیں ،ان پر عوام کا دباؤ بڑھتاچلا جارہاہے ۔تاہم آج پھر اپنے آقاؤں کی طرف سے ڈانٹ پڑنے کے بعد اسی امر موسیٰ نے ایک بار پھر اپنی پوزیشن بدل لی ہے ۔اور اس نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ ’’ہم سب عوام کے تحفظ کے ایشو پر متحد ہیں‘‘۔ چین‘ روس اور ہندوستان نے بھی لیبیا پر بمباری کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اندھادھند بمباری،ان حدودو قیود سے سراسرتجاوز ہے جن کا اقوام متحدہ کی قرارداد میں تعین کیا گیاتھا۔جبکہ ایک روسی ترجمان نے فائربندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ فائرنگ سے بے شمار شہری ہلاک ہو چکے ہیں ۔ جبکہ ایک بڑامیڈیکل سنٹر بھی اس بمباری کے نتیجے میں تباہ کردیاگیاہے ۔چین نے بھی کہاہے کہ اسے بمباری پر سخت افسوس ہوا ہے۔اس نے فوجی ایکشن کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہاہے کہ وہ لیبیا کی خودمختاری کااحترام کرتاہے ۔

روس اور چین دونوں کے بیانات سے پتہ چلتاہے کہ وہ کیک میں سے اپنا حصہ لینے اور پھراسے ڈکارنے کے چکر میں ہیں۔یہ دونوں ایسی طاقت ہیں کہ جنہیں اقوام متحدہ میں کسی بھی رائے یا فیصلے کو ویٹو کرنے کا اختیار حاصل ہے۔لیکن انہوں نے چپ سادھنے(abstain) کا فیصلہ کیا۔جس کا صاف مطلب ایک ہی نکلتاہے کہ آپ قراردادکی حمایت کر رہے ہیں۔کیونکہ چپ رہنے والوں کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی چپ کے بعد قرارداد نے منظور ہوجانا ہے۔ہندوستان کی حکومت نے بھی ایک بیان جاری کردیاہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’ہمیں یہ جان کر دکھ ہورہاہے کہ بمباری شروع کر دی گئی ہے،جو کچھ ہورہاہے ،کیا جارہاہے اس میں اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے تاکہ لیبیا کے عوام کے نقصان اور ان کی مشکلات میں مزید اضافہ نہ ہو‘‘۔ رائے عامہ اپنی رائے درست رکھے برطانوی وزارت خارجہ نے معاملے میں دلچسپی رکھنے والے سبھی خواتین وحضرات کی تسلی و تشفی کیلئے فرمان جاری کیا ہے۔

’’ہمارے اتحاد کے ارکان ،کسی طور قذافی کی طرح وحشی نہیں ہیں کہ جو شہریوں کو ہلاک کرنے لگ جائیں۔اقوام متحدہ نے ہمیں اس بات کا حکم دیاہے کہ ہم معصوم شہریوں کو ہلاکتوں سے محفوظ رکھنے کیلئے ہر ممکن اقدام اٹھائیں۔سیکورٹی کے حوالے سے نو فلائی زون کو ممکن بنانے کیلئے یہ ضروری ہے کہ لیبیا کی فضائیہ کی صلاحیت کو نشانے پر لیا اور رکھاجائے۔ایسی تمام احتیاطی تدابیر سوچ لی گئی ہیں کہ جس کی مدد سے شہریوں کا کوئی بھی نقصان نہ ہوسکے ۔اپنے عرب ساتھی حکمرانوں کے مکمل تعاون سے ہم لیبیا کے عوام کی بہتری کیلئے سب کچھ کرگزریں گے‘‘۔ ان مہذب الفاظ کواگر سلیس زبان میں بیان کیاجائے تو اس کے صاف معنی یہ نکلتے ہیں کہ ہمیں اقوام متحدہ کی مکمل آشیرباد و پشت پناہی حاصل ہو چکی ہے اور ہم اپنے عظیم مقصد کی تکمیل کیلئے جو جی میں آئے گا کریں گے۔پچھلے ہفتے اقوام متحدہ میں منظور ہونے والی قرارداد کے الفاظ انتہائی شاطرانہ اور مکارانہ تھے کہ اگر بمباری سے کچھ ایسا ویسا ہو بھی جائے تو ہمارے پاس اس کا جواز بھی موجود ہو۔یہ الفاظ’’درکار لازمی اقدامات اٹھانا‘‘واضح کرتے ہیں کہ معاملہ صرف نو فلائی زون تک محدودرہنے والاہے ،نہ تھا۔لیبیا کی سڑکوں ،چوراہوں پر بمباری کا مطلب یہ ہے کہ لیبیا کیلئے بم روانہ کرنے والوں کی پوری تیاری تھی کہ وہ کیا کچھ کرنے اور کتنا کچھ کرنے جارہے ہیں۔

سامراجیوں کا ایک ہی سنجیدہ مسئلہ اور وہ یہ کہ کس طرح رائے عامہ کو اپنے حق میں کیا اور رکھا جائے تا کہ قذافی کو اچھی طرح سبق سکھایاجاسکے ۔امریکہ اور برطانیہ جیسے ملکوں میں عام لوگوں کی اکثریت عراق اور افغانستان میں جنگوں سے تنگ آچکی ہے ۔اور یہ سب جانتے ہیں کہ ان ہر دوجنگوں کیلئے ان سے صریحاً دانستہ جھوٹ بولا گیا تھا۔سبھی کو اچھی طرح یاد ہے،ہمیں بھی ہے ،کہ کس طرح بش اور بلیرنے کھلے عام وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا رونا رو رو کے عراق پر جنگ مسلط کر دی تھی۔اپنے حکمرانوں اور اپنی حکومتوں کی طرف سے بار بار بولے جانے والے جھوٹوں کی وجہ سے ان ملکوں کی عوام اب ان کی کسی بھی بات پر اعتبار کرنے کیلئے تیار نہیں ہے ۔

اب ایک بار پھر انہی حکمرانوں کی جانب سے نو فلائی زون کیلئے بتایا جارہاہے کہ یہ سب قذافی کو اپنے باغیوں کے خلاف قتل وغارت گری کا راستہ روکنے کے ارادے سے کیا جارہاہے ۔کیفیت یہ ہے اور معاملہ کچھ یوں ہے کہ قذافی کی زمینی فوج اور دیگر قوت اس کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے ۔باغیوں کی قیادت بن غازی میں قائم عبوری کونسل کر رہی ہے۔آئیے ہم کچھ دیر کیلئے فرض یا تصور بھی کر لیتے ہیں کہ سامراجیوں نے واقعتاً ہی صرف قذافی کی طاقت کو کچلنے کا ہی تہیہ کیاتھا۔لیکن اس کا کیا کیا جائے اور اس پر کیا کہا جائے کہ معاملات اس سے کہیں آگے نکل چکے ہیں۔دوسری طرف باغی، قذافی کے کنٹرول میں ہر علاقے ہر جگہ کو اپنا نشانہ بنائیں گے۔اگر وہ اس میں ناکام ہوتے ہیں،تب اقوام متحدہ کی طاقتیں کیا کریں گی؟انہیں ناگزیر طورپر قذافی کی زمینی فوج پر حملے کرنے ہوں گے۔اور ایساوہ شروع بھی کر چکے ہیں ۔

زمینی لڑائی کے اندیشے

ہرچند سامراجی بمباری کی وجہ سے قذافی کی فضائیہ کے کئی اہم مراکز تباہ یا ناکارہ ہو چکے ہوں گے لیکن اس کی جنگ لڑنے کی قوت ابھی بھی بہت زیادہ ہے۔باغیوں کے کنٹرول میں واقع مشرقی علاقے میں اس کی فوجی جارحیت بھی زیادہ تر زمینی ہی ہے۔الجزیرہ کی رپورٹ میں بھی جیسا کہ بتایا گیاہے کہ’’یہ مفروضہ کہ فضائی فوج زمینی فوج پر آسانی سے چڑھائی کر سکتی ہے،بہت ہی مبالغہ آرائی پر مبنی ہے۔اس کی حالیہ تاریخ میں زندہ مثال سربیامیں1999ء میں ناٹو کی اندھا دھند بمباری ہے ۔افغانستان میں 2001ء میں البتہ کچھ جزوی کامیابی ہوئی لیکن اس میں بڑی وجہ اتحادی افواج کی مشترکہ عسکری اکائی تھی۔یہ کہا جانا کہ لیبیا کی سر زمین پر کوئی غیر ملکی فوجی بوٹ قدم رنجہ نہیں فرمائے گا،اس پر نظرثانی کی جاسکتی ہے ۔اس کے باوجود کہ اس کے مضمرات شدید بھی ہو سکتے ہیں۔اگر صرف سپیشل فورسز کے مبصرین ہی باغیوں کے علاقے میں بھیجے جاتے ہیں تو بھی۔اس کے علاوہ اور اس سے ہٹ کر یہ سمجھنا بہت ہی مشکل ہے کہ اس ساری مہم میں کامیابی کیسے ممکن ہو سکے گی؟خاص طورپر ان علاقوں میں جہاں لڑائی پہلے سے جاری ہے

Al Jazeera, Strikes on Libya - a military perspective, 19 March 2011

 

اقوام متحدہ کی قرارداد میں شہریوں کے تحفظ کے الفاظ تو موجود ہیں لیکن حکومت کی تبدیلی کا نہ ذکر ہے نہ ہی کوئی اشارہ۔لیکن اب جو جارحیت سامراجی کرنے جا رہے ہیں اس سے یہی ظاہر ہو رہاہے کہ وہ یہی کچھ کرنے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں۔آن لائن انٹیلی جنس پبلیکیشنزمیںStratforکیلئے لکھتے ہوئے جارج فرائیڈ مین کا کہنا ہے کہ ’’قذافی کی ساری طاقت کا دارومدار ،روایتی عسکریت پر ہے جس میں آرٹلری خاص طورپر قابل ذکر ہے ۔اس کی فضائی عسکریت اور تنصیبات کو تباہ کرنے سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ سامراجی کامیاب ہو جائیں گے۔جنگ کا اصلی مرکز میدان ہے۔سوال یہ ہے کہ اس کی فوج کا جذبہ کتنا ہے !اگر اس کی فوج یہ طے کر لیتی ہے کہ ہتھیار ڈالنا،ناقابل قبول ہے اور یہ ان کی انفرادی حمیت کیلئے تباہ کن ہو گا تو وہ لڑنے کا فیصلہ کریں گے ۔ایسی صورت میں اتحادی یہ فیصلہ کریں گے کہ ان کو لازماًزمینی فوج پر فضائی حملے کرنے ہوں گے تاکہ اس کی زمینی طاقت کو تہس نہس کیا جائے۔ایسا کیا جاسکتاہے لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ایسا کیا جانا اپنے مطلوبہ نتائج بھی حاصل کر سکے گا‘‘۔(The Libyan War of 2011, March 19, 2011)

ان سبھی خواتین و حضرات کیلئے جو یہ سوچتے اور سمجھتے ہیں کہ سامراجی فضائی بمباری سے لیبیا کے عام شہریوں کو کوئی نقصان نہیں ہوگا،اس بارے یہی مضمون نگار صاف گوئی سے لکھتاہے ’’یہی وہ کیفیت ہواکرتی ہے کہ جس میں انسانی نقصان سب سے زیادہ ہواکرتاہے ۔کسی بھی جنگی جنون کا یہ ایک اندرونی تضاد اور المیہ ہوتاہے کہ یہ انسانی نقصان کو کم کرنے کے نام پر کیاجاتاہے لیکن بسا اوقات یہ مقصد حاصل کرتے ہوئے یہی انسانی نقصان ہی اس جنگ کا سب سے بڑا نتیجہ بن جایاکرتاہے ‘‘۔ یہ محض ایک نظری یا فکری بیان نہیں ہے ۔اس موقع پر جنگ و جارحیت کی حمایت کرنے والے ،جو کہ انسانی المیے کو کم سے کم کرنے کا سوچے ہوئے ہیں،یہی انسانی المیہ سیاسی لیڈروں کیلئے مہنگا بھی پڑسکتاہے۔یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ صدام حسین کو دنیا بھر میں ملعون و مطعون کیا گیاتھا۔لیکن اسے عبرت کا نشان بنانے والوں کے یہ بس میں نہیں تھا کہ وہ اسے اکھاڑ پھینکنے کے بعد اس کی قیمت بھی ادا کریں۔یورپ والے خاص طور پر اس معاملے میں بہت حساس ہیں‘‘۔

بظاہر نوفلائی زون کے نام پر شروع کئے جانے والے اس جنگی جنون کے تضادات کا ذکر کرتے ہوئے اسی Stratforکے ایک اور مضمون میں لکھا گیا ہے کہ ’’یہ فیصلہ کیا جاچکاہے کہ لیبیا میں حکومت تبدیل کی جائے گی۔1991ء کے بعد سے جنگ کیلئے یہی حکمت عملی وضع کی گئی اور اسی پر ہی عملدرآمدہورہاہے۔اس بار یورپ والے بھاری تیاری کے ساتھ ہیں۔ابتدائی دنوں میں تو سب بہت اچھا جائے گا لیکن یہ بات حتمی نہیں کہی جاسکتی کہ آخرکار کیا ہوگا؟کامیابی ہوگی کہ نہیں؟اس کا پتہ تبھی چل پائے گا کہ جب انسانی نقصان اور المیے کو کم کرنے کیلئے شروع کی جانے والی لڑائی انسانی نقصان اور المیے میں اضافہ کرنا شروع کر دے گی‘‘۔

بمباری کے پہلے دودنوں کے اندر یہ واضح ہو چکاہے کہ کئی معصوم شہری اس کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔اسی سے یہ قلعی کھل گئی ہے کہ شہریوں کے دفاع کی اس مہم میں شہری ہلاک ہونا شروع ہو چکے ہیں۔اور یہ بھی ایک بار پھر عیاں اور ثابت ہو چکاہے کہ سامراجیوں کو کہیں بھی کبھی بھی انسانی جانوں کی پرواہ نہیں رہی ۔یہ دعویٰ اور دلیل کہ ہم تو بن غازی میں محصور و محبوس عام انسانوں کے تحفظ کیلئے یہ سب کچھ کرنے جا رہے ہیں ،یہ محض انسان ترسی کا پرفریب دھوکہ ہے جس کا مقصد صرف دنیا بھر کے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے تاکہ ان کی رائے کو اپنے حق میں کیا جائے ۔یہ کئی انسانی جانوں کو اپنی وحشت کی بھینٹ چڑھائیں گے، طرابلس سمیت ہر شہر ہر علاقے میں جہاں کہیں بھی یہ بمباری کریں گے ۔تبروک شہر جس پر باغیوں کا کنٹرول ہے ، میں سے بی بی سی کے کیون کنولی نے رپورٹ بھیجتے ہوئے بتایاہے کہ ’’یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہے کہ حملہ آور، مسراتا کے علاقے میں قذافی کی طاقت پر حملہ کرتے وقت‘ وہاں موجود عام انسانوں کو ہلاکتوں سے محفوظ رکھ سکیں گے کہ نہیں جن کو بچانے کیلئے یہ حملہ کیا جارہاہے‘‘۔

سامراجی ،قذافی کو نکال باہر کرنے کیلئے باؤلے ہوئے جارہے ہیں۔جیسا کہ انہوں نے صدام حسین کے ساتھ کیا تھا۔لیبیا میں انقلاب کی تحریک شروع ہونے سے بہت پہلے سامراجی قذافی کو اپنے رنگ وروپ میں ڈھال اور اپنے آئینے میں اتار چکے تھے ۔اور قذافی بھی ان کے ساتھ ہر ایک شعبے میں بھرپور تعاون کرتا چلا آرہاتھا اور انقلاب کے شروع ہونے تک کسی کے خواب وخیال میں بھی نہیں تھا کہ قذافی کو ہٹایا جائے ۔ قذافی خطے کے انتہائی سفاک حکمرانوں میں سے ایک تھا اور ہے۔کوئی بھی اس کے خلاف کوئی بات کرتا تو اس کی ایسی کی تیسی پھیرنے میں قذافی لمحہ بھر کی تاخیر نہیں کرتاتھا۔سامراجیوں کا مسئلہ طرز حکمرانی نہیں تھا اور نہ ہی رہاہے ۔قذافی کی تو حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے ملک کو منڈی کی معیشت کیلئے کھول بھی چکاتھا ۔ معیشت کے کئی شعبوں کی نجکاری کی جاچکی تھی اور بہت سوں کی نجکاری کا عمل ہونے جارہاتھا۔

گڑبڑ تب اور تب سے ہونی شروع ہوئی کہ جب تیونس اور مصر میں انقلابی ابھار وہاں کی حکومتوں کے تخت اکھاڑ پھینکے اور سامراجیوں کے گماشتہ حکمران اقتدار سے نکال دیے گئے ۔ یہی نہیں بلکہ اس کے بعد دوسرے عرب ملکوں میں بھی یہ انقلابی طوفان پہنچنا اور تخت وتاج کو لرزانا شروع ہوگیا۔سامراجی اس انقلابی سرکشی کے سامنے مکمل بے بس اور مجبور محض ہو چکے تھے ۔ لیکن پھر قذافی کے لیبیا نے انہیں وہ سوچنے اورکردکھانے کا موقع فراہم کردیا جو وہ پہلے نہیں کر پائے تھے ۔وہ ’’انسان دوستی‘‘کے اپنے پرانے فریب کو ایک چھوٹے ملک پر جارحیت کرنے کا جوازبنا کر اس پر چڑھ دوڑے ہیں۔

یہ جنگ بنیادی طور پر اور درحقیقت اس انقلابی طوفان کے دھارے کو کاٹنے اور روکنے کی ایک کوشش ہے جو سارے عرب ملکوں میں بڑھتا اور پھیلتا جارہاہے ۔اوبامہ نے اعلان کیا ہے کہ یہ سب صرف دو ایک دنوں کی بات ہے ۔لیکن یہ بات سراسر جھوٹ ہے ۔چند روزہ بمباری سے ان کے مطلوبہ مقاصد حاصل ہونے والے نہیں ہیں۔اپنے ہدف کیلئے انہیں اس سے بہت زیادہ کرناپڑے گا جو وہ کر رہے ہیں۔انہیں اندھا دھندبمباری کرنی ہوگی ،یہاں تک کہ انہیں اپنی زمینی فوج بھی کام میں لانی پڑے۔اس سارے خونی کھیل میں کئی عام شہری مارے جائیں گے۔بلاشبہ کچھ ہی دنوں میں ہمیں یہ سنایا اور بتایا جائے گاکہ’’ ہمیں مرنے والے عام شہریوں کی ہلاکت پر سخت افسوس ہے‘‘ ۔اس کے ساتھ ہی ساتھ ہم وہ روایتی بیانات بھی سنیں گے کہ غلطی سے ہمارے فوجیوں کے ہاتھوں خود ہمارے فوجی بھی مارے گئے ہیں۔

تضادات اور مفادات کا کھلواڑ

جنگ کا ایک اور پہلو جنگ میں شریک سامراجیوں کا اپنا اپنا حلقہ اثر قائم کرناہے۔اسی کے ساتھ ساتھ یہ حکمران اپنے اندرونی خلفشار سے توجہ ہٹانے کیلئے بھی اس معاملے کو بروئے کار لا رہے ہیں۔سب سے زیادہ پریشانی فرانس کے سارکوزی کو درپیش ہے ۔ایک حالیہ رائے عامہ کے سروے کے مطابق فرانس کے 71فیصد شہری سارکوزی کی کارکردگی سے ناخوش ہو چکے ہیں۔2007ء میں اقتدار میں آنے کے بعد سے اس کی یہ سب سے بری حالت ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ پچھلے عرصے میں کٹوتیوں کے اپنے منصوبوں کی وجہ سے اس کی حکومت بری طرح بدنام ہو چکی ہے ۔ان مجوزہ منصوبوں کی وجہ سے فرانس میں35لاکھ محنت کشوں اور نوجوانوں نے تحریک بھی چلائی تھی ۔ یہ فرانس ہی تھا کہ جس نے سرکاری طورپر باغیوں کی کونسل کو لیبیا کی حقیقی حکومت کے طورپر تسلیم کیا۔اور یہی فرانس ہی تھا کہ جس نے سب سے زیادہ زورڈالا اور شور مچایا کہ نوفلائی زون قائم کیا جائے ۔اور اسی فرانس نے ہی لیبیا پر حملہ کرنے میں پہل کی ۔ ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ اس سارے جھوٹے کھلواڑ کے پیچھے کون سے مقاصد کارفرما ہیں ۔ فرانس کسی دور میں افریقہ کے حوالے سے ایک سامراج رہاہے اوربہت دنوں سے اس کا حلقہ اثر کم سے کم اور کمزور سے کمزور تر ہوتا جارہاتھا۔اپنی اس سامراجیت کے حوالے سے اس کے برطانیہ اور امریکہ کے ساتھ کئی ایک تضادات و تنازعات بھی تھے ۔فرانس کے صدر کی جلد بازی کا ایک ہی مقصد اور ہدف تھا کہ وہ پہل کر کے اپنے حلقہ اثر کو پھر سے مستحکم و مضبوط کر سکے گا۔خاص طورپر لیبیا کے تیل کے ذخائر اگر ہاتھ لگ گئے تو سارکوزی کے خیال میں اس کی بلے بلے ہو جائے گی۔صاف عیاں ہے کہ سارکوزی کو انسانوں اور انسانیت کے زیاں کا نہ تو خیال ہے نہ ہی کوئی چنتا۔

ایسی ہی ملتی جلتی کیفیت برطانوی وزیر اعظم کیمرون کی ہے ۔حالیہ دنوں میں اس کی بھی مقبولیت کا گراف کافی نیچے گر چکاہے۔اس کی عوامی ساکھ اب چٹان سے نیچے لٹک رہی ہے۔اس کی بھی حکومت کٹوتیوں کی بے رحمانہ پالیسیاں مسلط کرنے میں لگی ہوئی ہے ۔اسے برطانوی محنت کشوں کی طرف سے سخت ناراضگی کا سامنا ہے ۔آنے والے ہفتے کے دن ہم شاید 1970ء کے بعد سے برطانیہ کی تاریخ کا سب سے بڑا نہیں تو ایک بہت بڑا احتجاجی مظاہرہ دیکھیں گے۔چنانچہ ہم جان سکتے ہیں کہ دونوں ،سارکوزی اور کیمرون کو کچھ ایساکرنے کی سخت ضرورت تھی کہ جس کی مددسے وہ اپنے اپنے ملکوں میں اپنے اپنے عوام کی توجہ کسی اور طرف مبذول کراسکیں۔اور اسی طریقے سے یہ حکمران لوگ ساری دنیا کو گمراہ کرنے کیلئے ہر حرکت کرجایاکرتے ہیں۔اور یہ سب کچھ نام نہاد انسانی حقوق اور جمہوریت کے تحفظ کے نام پر کیا جاتاہے ۔ڈنمارک ، ناروے ،کینیڈا یہاں تک قطرجیسا چھوٹا ملک بھی اپنے اندرونی سماجی خلفشارو انتشار سے بچنے کیلئے اس بربریت میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔

امریکہ بہادر بھی چاروناچار ایک اور عرب ملک میں اپنے فوجیوں کی ٹانگیں اڑانے پر مجبورہوگیا۔امریکہ میں عراق جنگ کے بعد عوامی رائے یکسر جنگ وجدل کے خلاف ہو چکی ہے ۔اکثریت یہ جان چکی ہے کہ یہ سب غلط ہوااور کیاگیا۔اور ایسی ہی عوامی رائے افغانستان بارے بھی ہے ۔اور یہی وہ عوامی اضطراب ہے کہ جس کی وجہ سے پچھلے منگل تک اوبامہ انتظامیہ زور لگاتی رہی کہ لیبیا میں نوفلائی زون کے معاملے پر ووٹنگ کے ذریعے ہی عملدرآمدکیاجائے۔ جمعے کے دن وال سٹریٹ جرنل نے صورتحال کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے ’’پچھلے سوموارکوہی سارکوزی ہیلری کلنٹن پرزور لگاتارہا کہ امریکہ اس عالمی مہم جوئی میں پیچھے رہے تو وہ ششدر رہ گئی۔امریکی وزیر خارجہ نے فرانسیسی صدر کو انتباہ کیا کہ جنگجوئی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے اور اس کے بھیانک اثرات سامنے آسکتے ہیں۔یہ بات دونوں ملکوں کے متعلقہ افسران کی طرف سے سامنے آئی ہے جو اس باہمی گفت وشنید میں شریک رہے ۔’’پچھلے ہفتے کے اختتام تک فرانس ،امریکہ اور دیگر عالمی طاقتیں اس بات پر مصرہیں کہ ’’سبھی درکار اقدامات‘‘(فوجی حملے کا کوڈ)اٹھائے جائیں گے ۔ اور یہ سب اقوام متحدہ کی اجازت سے کیاجائے گا۔اندرونِ خانہ پیرس کے صدارتی محل کے اندر چار دنوں تک اس حوالے سے سفارتی آمدورفت اور گفت وشنید جاری رہی ۔مغربی اور عرب سفارتکاروں کے مطابق،ان ملاقاتوں اور باتوں میں اوبامہ انتظامیہ پرجنگ کے حوالے سے طنز کئے جاتے رہے ۔کئی عوامل وعناصر اس حوالے سے فیصلے تک پہنچنے میں آڑے آتے رہے ۔ سفارتکاروں کے مطابق مختلف عرب حکومتوں کے مستقبل کے بارے بھی سخت بحث مباحثے کئے گئے ۔یہ کہا گیا کہ فرانس اور برطانیہ کو تو کوئی پوچھ بھی نہیں رہا۔خاص طورپر فرانس کو توکوئی گھاس بھی نہیں ڈال رہا۔ (Wall Street Journal, March 19, 2011)

ان سب معاملات سے یہ واضح ہوجاتاہے کہ لیبیا پر اس سامراجی جارحیت کے پیچھے کسی طور لیبیا کے باغیوں یا عوام کی کسی اپیل کسی مطالبے کا کوئی ہاتھ نہیں تھا ۔یہ ساری خونریزی صرف اور صرف دوچار سامراجی بدمعاشوں کی اپنے مفادات اوراپنی لوٹ مار کی ضرورت کے تحت کیا گیاہے اور کیا جا رہا ہے‘ جو ان مہذب وحشیوں کے عرب دنیا اور افریقہ سے وابستہ ہیں۔

سامراجیوں کے جھوٹے واویلے کو سمجھنے کی ضرورت

دنیا بھر کے محنت کشوں اور نوجوانوں پر یہ لازمی ہے کہ وہ سامراج کے روایتی کذب و فریب کو سمجھیں۔جو وہ انسانی ہمدردی کے جذبے کے نام پر اپنی فوج کشی کو جائز اور ناگزیرقراردیتے آرہے ہیں۔جب بھی جہاں بھی سامراج کو ضرورت پڑی ہے اس نے اسی انسانیت کو انسانیت کے قتل عام کیلئے وجہ اور جواز بنایااور بتایاہے ۔ہر جنگ سے پہلے سامراجی اسی قسم کی شعلہ بیانی سے رائے عامہ بنانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ اس مرتبہ یہ شعلہ بیانی اور مگر مچھ کے آنسو لیبیا کے غریب عوام کی حالت کے نام منسوب کی گئی ہے ۔

عراق پر جارحیت مسلط کرنے سے پہلے بھی دنیا بھر میں پروپیگنڈے کا ایک طوفان بدتمیزی برپاکیاگیا کہ وہاں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے ذخائر موجود ہیں ۔اور یہ بھی فرمایا ،سنوایاجاتارہاکہ صدام حسین توشیطان ہے آمر ہے وغیرہ وغیرہ۔بلاشبہ وہ یہ سب کچھ تھا ۔لیکن یہ سب فرماتے اور سنواتے وقت وہ یہ بھول گئے کہ کبھی اسی آمر اور شیطان کے ساتھ ان سبھی سامراجی حکمرانوں کے گہرے یارانے تھے ۔ افغانستان میں بھی ایسے ہی ہوا اور انہی سامراجیوں نے ہی اسلامی بنیادپرستی کو روس کے خلاف استعمال کرنے میں پالا پوسا اور جب وہی طالبان امریکہ کو آنکھیں دکھانے پر اتر آئے تو امریکہ نے افغانستان کے عام شہریوں کو طالبان کی بربریت سے بچانے کیلئے بربریت کا کھیل شروع کردیا جو اب تک جاری وساری ہے۔اور جہاں آئے روز بمباری سے ہزاروں عام افغان شہری ہلاک ہو تے ہیں۔ ان سامراجیوں کی منافقت کا ہمیشہ سے یہی عالم رہاہے۔بحرین کے معاملے میں ہمیں ان کی یہ منافقت اپنے عروج پر نظر آتی ہے جہاں کی حکومت ، برطانیہ کی طرف سے مہیا کردہ ہتھیاروں سے اپنے ہی شہریوں کا قتل عام کر رہی ہے ۔ لیکن یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ کیمرون کو یہاں کچھ بھی ایسا ویساہوتا نظر نہیں آرہاکہ جس کی بنیادپر یہاں مداخلت کی جائے ۔

لیکن یہ بھی ہماری ناانصافی ہوگی کہ اگر ہم کیمرون کی خوبی کی تعریف نہ کریں ۔ابھی اسی سال فروری میں ہی اس نے ’’کویت میں جمہوری پارلیمنٹ‘‘کیلئے ہونے والے عام الیکشن کے دوران یہ حقیقت کھل کر بیان کی کہ’’ہم مغرب والے، اعتراف کرتے ہیں کہ ہم نے بہت سی آمریتوں کو غلط طورپر پالاپوسااور اب جو عوام کے ہاتھوں اکھاڑی جارہی ہیں‘‘۔لیکن کیمرون کی اس بدقسمتی کاکیا کیجیے کہ جس وقت وہ یہ خطاب کر رہاتھا،عین اسی وقت ہی ایک سو کے لگ بھگ برطانوی کمپنیاں ایک میلے میں شریک تھیں جو کہ انہی غلط آمروں کو اسلحہ بیچنے کیلئے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہی تھیں۔اور برطانوی تاجروں کے اس وفدکی قیادت کیمرون کا وزیردفاع جیرالڈ ہوارتھ کر رہاتھا۔ یمن میں بھی ایک آمرعلی عبداللہ صالح ہی کی حکومت ہے جس کی افواج نے پچھلے ہفتے پچاس سے زائد شہریوں کو قتل کردیا۔لیکن اس پر اقوام متحدہ کی نہ توجہ ہے نہ پرواہ۔یہاں تک کہ ان ہلاکتوں پر کھوکھلی تقریروں کی بھی کسی کو توفیق نہیں ہوئی۔ان سب کے دماغ صرف لیبیا ہی کو محورومرکز بنائے ہوئے ہیں۔

قذافی حکومت پر بمباری کے اثرات دیکھنے سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس بدیسی جارحیت کے خود لیبیا کے اندر کیا اثرات مرتب ہوئے اور ہو رہے ہیں ۔وہ بھی خاص طورپر طرابلس میں ۔ جیسا کہ ہم پہلے واضح کر چکے ہیں کہ وہاں قائم عبوری کونسل نے نوفلائی زون کا مطالبہ کیاتھا۔جس نے اقوام متحدہ کو مداخلت اور عالمی طاقتوں کو حملے کا بہانہ فراہم کردیا۔اب جبکہ بمباری شروع ہو چکی ہے تو اس کے نتائج و عواقب بھی پیداہونا اور سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں۔طرابلس اور دیگرشہروں پر ہونے والی بمباری سے عام انسان ہلاک ہوتے جا رہے ہیں جبکہ انفراسٹرکچر بھی تباہ وبرباد ہوتا جارہاہے ، ایسی حالت میں قذافی کے خلاف پہلے سے موجودغم وغصہ ، قدرتی طورپر اس کیلئے ہمدردی اور حمایت میں بدل سکتا ہے ۔ لیبیا کے مشرق میں جہاں باغیوں کو کنٹرول حاصل ہے ،اب سامراجی جارحیت کی حمایت ملنے پر ان کی خوش قسمتی کسی حد تک بڑھ چکی ہے ۔ایسا کر کے یہ لوگ لیبیا کے انقلاب سے غداری کا ارتکاب کر چکے ہیں۔ان کی نادانی اور بیہودگی نے لیبیا کے عوام کو فرانس ،برطانیہ ،امریکہ اور کچھ دوسرے چھوٹے ملکوں کے حکمرانوں اور ان کے مفادات کے پاؤں تلے روند ڈالا ہے۔ جارحیت کرنے والے کسی ایک ملک کو بھی لیبیائی عوام کی فلاح وبہبود سے کوئی سروکار نہیں ۔اور اس جارحیت میں کامیابی اور قذافی کو ہٹانے کے بعد‘ جو حکومت قائم ہو گی ،وہ بھی لیبیا کے محنت کشوں اور نوجوانوں کیلئے قطعی کوئی کردار ادا نہیں کر سکے گی۔اپنے ہی ملکوں کے محنت کشوں پر حملے کرنے والے سارکوزی اور کیمرون کس طرح لیبیا کے عوام کے ساتھ ہمدردی رکھ سکتے اور کر سکتے ہیں؟

باغی عبوری کونسل یہ قرار دے چکی ہے کہ اس کے میلانات اور توقعات مغرب سے جڑے ہوئے ہیں۔یہ مغرب کے ساتھ دوستانہ اور خوشگوار تعلقات بنانا اور استوار کرنا چاہتی ہے ۔ان کی حکومت انہی سامراجیوں کے مفادات کو ہی ترجیح دے گی اور ان کی پالیسیوں کو ہی چلائے گی۔یہ بھی انہی سامراجیوں کی کٹھ پتلی بنے گی۔سامراجی دھونس دھاندلی کی معاونت سے جہاں بھی جب بھی کوئی حکومت قائم ہوئی ہے ،اس نے اپنے لوگوں کی آزادی کیلئے کبھی کوئی خواہش اور کوشش نہیں کی۔اس کی بجائے ایسی حکومت پچھلے حکمرانوں سے کہیں زیادہ

اپنے سامراجی آقاؤں کی غلامی کا وطیرہ اپناتی آرہی ہے ۔اور یہی وہ مقصد ہے جسے سامراجی حاصل کرنااور یقینی بنانا چاہتے ہیں ۔انہی تجربات کی تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے دنیا بھر کے محنت کش اور نوجوان اپنے اپنے ملکوں کے غلام حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کے میدان میں اترے ہوئے ہیں اور اترتے جا رہے ہیں۔جدوجہد میں شریک ہر محنت کش ہر نوجوان پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ لیبیا میں اس سامراجی جارحیت کے خلاف بھی آواز بلند کریں ۔قذافی کے خلاف کوئی بھی فیصلہ کرنے کا سب سے پہلا اور سب سے آخری استحقاق صرف اور صرف لیبیا کے عوام کا ہی ہے ۔کسی اور کا نہیں،کسی کا بھی نہیں ۔

Translation: Chingaree.com