وینزویلا: اپوزیشن کی رد انقلابی مہم کے جواب میں نیاانقلابی ابھار

شاویز کی خرابی صحت کو بہانہ بنا کر وینزویلا کے حکمران طبقات اور سامراج نے بولیویرین انقلاب کو کمزورکرنے کی اپنی مہم کو اور بھی تیز کردیاہے جس سے محنت کش طبقے اور غریبوں کا غم و غصہ پھٹنے کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں۔

سپین کے ایک اخبار ABC نے اس مہم میں زیادہ نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس نے یہ شہ سرخی لگائی کہ شاویز بے ہوشی کی حالت میں جا چکا ہے اور اب اس کے دن گنے چا چکے ہیں۔ اخبار نے اپنے گمنام ذرائع کی وساطت سے بتا یا کہ اس کو لگائی جانی والی سانس کی مشین جلد ہٹا لی جائے گی جس پر کہ شاویز اپنی سانسیں لے رہاہے۔ یہ خبر سوشل میڈیا نیٹ ورک کے پروپیگنڈے اور جھوٹ کی بھرمار ہی کی ایک کڑی تھی۔ اور یہ مہم نام نہاد جمہوری اختلاف رکھنے والوں کی طرف سے بھرپور طورپر چلائی جارہی ہے۔

اس مہم کا مقصد وہ کچھ حاصل کرنا ہے جو اشرافیہ بیلٹ بکس کے ذریعے حاصل کرنے میں ناکام رہی اور دیگر سازشیں اورسبوتاژکی کوششیں بھی بارآور ثابت نہیں ہوئیں۔ ان سب کا مقصد شاویز کی صدارت کاخاتمہ کر کے انقلاب کو نقصان پہنچاناہے۔ ان نام نہاد جمہوری خواتین وحضرات کی منافقت کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ اب انہوں نے اس بات پر زور دینا شروع کر دیا ہے کہ آئین کا احترام کیا جانا چاہئے اور یہ بھی کہ اگر شاویز دس جنوری تک حلف نہیں اٹھا تا تو وہ صدر نہیں رہے گااور یوں نئے الیکشن کرانے ہوں گے۔ یہ وہی لوگ ہیں کہ جنہوں نے اسی آئین کی شدید مخالفت کی تھی، اس کے خلاف متحرک ہوئے تھے اور احتجاج کرتے ہوئے اس کی کاپیاں جلائی تھیں۔ اپریل 2002ء میں جب انہیں بغاوت کے بعد کچھ وقت کیلئے موقع ملا تو اس آئین کو ختم ہی کر دیاتھا۔

اب ان خواتین وحضرات کی واحد تشویش یہ ہے کہ آئین کا احترام کیا جانا چاہئے۔ یہ لوگ محدود آئینی نکتہ نظر کے مطابق بھی غلطی پر ہیں۔ آئین کا آرٹیکل 231 واضح طور پر یہ کہتا ہے کہ اگر صدر دس جنوری تک قومی اسمبلی کے سامنے حلف نہیں لے پاتا تو وہ بعد میں عدالت عظمی ٰ کے سامنے حلف لے سکتا ہے جس کی کوئی تاریخی حد بھی مقرر نہیں ہے۔ قانونی طور پر شاویز نے قومی ا سمبلی سے اس کی اجازت حاصل کر لی تھی کہ اسے علاج کیلئے باہر جاناہے۔ اسی آئینی طریقہ کار کی بدولت ہی نائب صدر ماڈورونے اسمبلی کو آگاہ کیا کہ شاویز بیماری کے علاج کی وجہ سے دس جنوری کو اسمبلی سے حلف نہیں لے سکتا چنانچہ اسمبلی اس معاملے کو سپریم کورٹ میں لے جائے۔ آرٹیکل233 کے مطابق صرف صدر کی مکمل’’ غیر موجودگی‘‘ کی حالت میں ہی تیس دنوں کے اندر نئے الیکشن کرائے جا ئیں گے۔ مر جانے، استعفی دینے یا سپریم کورٹ کی جانب سے متعین کئے جانے والے میڈیکل بورڈ کے مطابق جسمانی یا نفسیاتی طورپر نااہل ہونے کی صورت سے ہی صدر کی’’ غیر موجودگی ‘‘ مراد لی جائے گی، اور یہ بات عیاں ہے کہ ان میں سے کوئی ایک صورت بھی موجود نہیں ہے۔

لیکن اس سب کے باوجود بھی اپوزیشن والے اپنی سفاکانہ مہم سے باز آنے کو تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے اعلان کیاہے کہ انہیں ’’جاننے کا حق‘‘ ہے کہ صدر کی صحت کی حالت ہے کیا ؟اس کیلئے انہوں نے قابل اعتماد افراد پر مشتمل ایک وفد بنا کر کیوبا بھیجنے کا اعلان کیا ہے جو جا کر اصل صورتحال کا جائزہ لے گا۔ ان لوگوں نے انٹرنیشنل کمیونٹی (یعنی عالمی سامراج سے)سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ اس بارے مداخلت کرے اور یہ سبھی وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے 2002ء کی بغاوت کو منظم کیاتھا اور جن سب کو جیل میں ڈالاجانا چاہئے۔ انہی سرمایہ داروں، جاگیرداروں، میڈیا مالکان اور مذہبی پیشواؤں نے ہی اس غیر جمہوری بغاوت کو پلان کیا تھا جس کے تحت ایک منتخب صدر کا تختہ الٹا یاگیا تھا۔ اب یہ سب شور وغوغا مچائے ہوئے ہیں کہ اگر شاویز دس جنوری تک حلف نہیں اٹھاتا تو وہ ملک کا صدر نہیں رہ سکتا۔

آئینی تفصیلات کو بھی ایک طرف رکھتے ہوئے کہ جس میں بھی یہ کسی طورکسی بھی قسم کے اخلاقی جواز سے سراسر محروم ہیں اور غلط ہیں، جس مرکزی حقیقت کو یہ لوگ نظرا نداز کر رہے ہیں کہ شاویز کو اکتوبر کے الیکشن میں 8.1ملین (اکیاسی لاکھ)ووٹروں نے ایک بار پھر اپنا صدر منتخب کیا ہے۔ اس الیکشن کا ٹرن آؤٹ حیران کن حد تک 80 فیصد تھا۔ لوگوں نے اپوزیشن کو مکمل طورپر مسترد کرتے ہوئے صدر شاویز کی جاری انقلابی پالیسیوں کے حق میں ووٹ دیا۔ اب وینزویلا کی اشرافیہ اپنی اس شکست کا بدلہ لینا چاہتی ہے اور وہ بھی انتہائی غیر جمہوری طریقے سے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ان حضرات و خواتین کو آئین و قانون سے کوئی رغبت ہے تو اس کا اندازہ ان کی ملک بھر میں کی گئی حرکتوں سے لگایا جا سکتا ہے، مثال کے طور پر دسمبر 2002ء میں مالکان کی تالہ بندی اور ملک میں عوام کو خوراک کی فراہمی کے عمل میں ایک مسلسل و منظم خلل اور غذائی اشیاء کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ وغیرہ۔

اپوزیشن کی ان سبھی رقیق حرکتوں کی وجہ سے وینزویلا کے انقلابی عوام کا موڈاب ایک پریشانی، غم اور دعا ئیہ جذبات میں ڈھل چکاہے اور یہ عمومی کیفیت اس بار کرسمس اور نئے سال کے تہواروں پر بھی حاوی رہی ہے۔ اس بار یہ تہوار عوامی غصے اور جوش وجذبے کی نذر ہوگئے اور یوں ایک بار پھر رد انقلاب کے اس کوڑے نے انقلاب کو ایک نئی مہمیز اور نئی شکتی فراہم کر دی ہے۔ 5جنوری کے دن جب اسمبلی نے اپنے سربراہ کا انتخاب کیا تو ہزاروں مزدوراور غریب لوگ کیراکس کے مرکز میں اکٹھے ہوئے اور شاویز اور انقلاب کیلئے اپنی بھر پور حمایت کا مظاہرہ کیا۔ یہ مظاہرہ نیچے سے عوام کی جانب سے منظم کیا گیاتھاجس میں لوگ جوش و جذبے سے شریک ہوئے۔ اس دن نائب صدر ماڈورو اور اسمبلی کے سربراہ کابیلونے انتہائی ریڈیکل تقاریر کیں۔ اور انہوں نے اپوزیشن کو صاف انداز میں انتباہ کیا کہ وہ اپنی سازشوں سے باز رہے۔ کاربیلو نے کہا کہ ’’ہم بڑی عاجزی لیکن بڑی جرات کے ساتھ آپ کو یہ بتا رہے ہیں کہ آپ غلطی نہ کریں تو بہتر ہوگا، ورنہ آپ کو اس کی بہت بھاری قیمت اداکرنی پڑے گی‘‘۔ ماڈورو نے کہا کہ ’’وینزویلا میں ایک ہی تبدیلی ممکن ہے اور وہ سرمایہ داری سے سوشلزم کی طرف تبدیلی ہے، جس کی قیادت صدر شاویز کر رہے ہیں جنہیں عوام نے بار بار منتخب کر کے اپنے فیصلے کی توثیق کی ہے‘‘۔

ا س حوالے سے ایک اور پیش رفت اس وقت سامنے آئی کہ جب آنے والے میونسپل الیکشن کے امیدواروں کے چناؤ کیلئے نچلی سطح پر انقلابی کارکنان سے صلاح مشورہ لیا گیا ہے۔ یہ ایک اہم پیش رفت ہے کیونکہ اس سے پہلے دسمبر کے ریجنل الیکشنوں میں اوپر سے بالا بالا امیدواروں کے نامزدکئے جانے سے عام انقلابی کارکنان میں سخت بے چینی موجود تھی۔ اس کے بعد آنے والے دنوں میں نچلی سطح کی انقلابی تنظیموں سے ملنے والی خفیہ معلومات کی روشنی میں سرکاری اداروں نے ذخیرہ اندوزوں اور سٹہ بازوں کے خلاف کاروائیوں کا سلسلہ شروع کیااورماڈورو نے کہا کہ ایسے لوگوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹاجائے گا۔ کیرابوبو کے علاقے میں مکئی کاخام آٹا(جو کہ یہاں کی ایک بڑی غذائی پیداوارہے ) ایک نجی عالمی اجارہ داری ’’پولر‘‘کے گوداموں میں سے برآمد کیا گیا، اسی طرح گمانا کے علاقے میں ایک اور گودام سے237ٹن اور اسپارٹاکے گودام میں سے 26 ٹن مکئی کے آٹے کی برآمدگی کی گئی ہے۔ اس غذا کی قلت کئی ہفتوں سے جاری تھی۔ آراگوامیں ایک گودام سے 8000 ٹن چینی برآمد کی گئی۔ ایسے ہی کئی اور علاقوں سے برآمدگیاں کی گئی ہیں۔ اس سے صاف عیاں ہوتا ہے کہ کس طرح سے ایک منظم مہم چلائی جارہی ہے جس کے ذریعے ایک مصنوعی غذائی بحران پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ لوگوں کو ذلت اور اذیت سے دوچار کیا جائے۔ اب یہاں دس جنوری کو حلف اٹھانے کے مجوزہ دن شاویز کے حق میں ایک بہت بڑی ریلی نکالی گئی ہے جو کہ ایک درست اور بروقت اقدام ہے۔ عوام بہت ہی جوش اور جذبے سے سرشار ہیں۔ اپوزیشن والے اکتوبر الیکشن میں ملنے والی شاویز کی فتح کو چوری کرنا چاہتے ہیں جبکہ عوام کبھی ایسا نہیں کرنے دیں گے۔ 5 جنوری کو ہونے والی ایک ریلی میں انٹرویودیتے ہوئے لوگوں نے واضح کہا کہ ہم انقلاب کو جاری وساری رکھیں گے، ہم اپنی پیش قدمی کو جاری رکھیں گے۔

یہ بات سب پر واضح ہے کہ صدر کی حالت تشویشناک ہے اور اس بات نے کروڑوں لوگوں کے دلوں میں ایک سوچ کو جنم دیاہے کہ اب آگے کیا ہونے والا ہے۔ اس کا جواب بھی مل چکا ہے ’’ہم سب عوام ہیں، یہ ہمارا انقلاب ہے اور ہم نے ہی اسے بچانا اور آگے لے کر جانا ہے ‘‘۔ اشرافیہ کے کئی سیانے اس بات کو محسوس بھی کر رہے ہیں اور زیادہ نفاست سے حملے کر رہے ہیں۔ سپین کا بدنام اخبار El Pais، جو اگرچہ شاویز اور وینزویلا کے عوام پر اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہے، کہتا ہے کہ اپوزیشن صورتحال میں بری طرح پھنس چکی ہوئی ہے اور وہ کوئی بھی راستہ نہیں نکال پارہی ہے، شاویز کے ہاتھوں شکست کھانے والا امیدوار حیرت انگیز طورپر چپ سادھے ہوئے ہے، وہ اپوزیشن کی جانب سے ’’شہری ہڑتالوں ‘‘ کی اپیلوں پر بھی کوئی بات نہیں کررہاہے اور اس وقت کچھ بھی ان کے کنٹرول میں نہیں ہے۔

صورتحال ایک ایسی نہج پر پہنچ چکی ہے کہ جہاں انقلاب اپنی حتمی منزل تک جا سکتا ہے۔ اشرافیہ کی جانب پیدا ہونے والے غم وغصہ کو جائیدادوں کے مالک طبقے کے خلاف فیصلہ کن حملے کیلئے بروئے کار لایاجانا چاہئے۔ پولر سمیت ذخیرہ اندوزی اور مہنگائی کا سبب بننے والی ہر کمپنی جو کہ غذائی اجناس کی اجارہ داری قائم کئے ہوئے ہے، کے محنت کشوں کو مزدور کنٹرول کمیٹیاں تشکیل دینی چاہئیں جو کہ مقامی کونسلوں سے مربوط ہوں اور جو خوراک کی فراہمی کو سبوتاژکرنے والوں کو بے دخل کر سکیں۔ اس کا مطلب مینڈوزا خاندان کا خاتمہ ہوگا جو کہ پولر گروپ آف کمپنیز کا مالک ہے۔ اسی کمپنی نے ہی 2002ء کی بغاوت اور بعد میں مالکان کی تالہ بندی میں بنیادی کردار اداکیاتھا۔ یہی کمپنی ہی پچھلے بارہ پندہ سالوں کے دوران غذائی قلت پیدا کرتی چلی آرہی ہے۔ وینزویلا کے اکثر لوگ خود سے یہ سوال کر رہے ہیں کہ کب تک ایسے لوگوں کوغیر جمہوری ہتھکنڈے استعمال کرنے کی کھلی چھٹی دی جائے گی۔

وزارت اطلاعات نے بھی Globovision(ونزویلا کا ایک نجی ٹی وی چینل) کو یہ واضح انتباہ کیا ہے کہ وہ نائب صدر ماڈوروکو فوری طور پر قائم مقام صدرکہنے کا واویلا بند کرے کیونکہ وہ نائب صدر ہی ہے۔ ایک بار پھر سیاسی کارکن یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس چینل کا لائسنس منسوخ ہونا چاہئے کیونکہ 2002ء کی بغاوت سمیت ہمیشہ ردِ انقلابی پراپیگنڈہ کرنے والا یہ چینل اپنے لائسنس کا بلاجواز استعمال کررہاہے۔

اپوزیشن کی جانب سے ایک ’’قومی سطح کی سویلین ہڑتال‘‘ کی کال کے پس پردہ مالکان کی تالہ بندی کے خطرے کے پیش نظر سبھی کارخانوں اور کام کی جگہوں پر ورکرز کنٹرول کمیٹیاں قائم کی جانی ضروری ہیں جو کہ انقلابی فرائض سرانجام دیں جیسا کہ انہوں نے 2002/3 کی تالہ بندی کے دوران کیاتھا کہ جو بھی فیکٹری بند کی جائے گی، اسے قبضے میں لے لیا جائے گا۔ یہ جدوجہد اسی صورت ہی جیتی جاسکتی ہے جب وینزویلا کا محنت کش طبقہ خود کو وینزویلا کے عوام کی قیادت کے طور پر سامنے لائے اور اس پروگرام کی طرف پیش قدمی کرے جس کیلئے اکتوبر الیکشن میں عوام نے ووٹ دیے تھے یعنی سوشلزم۔

Translation: The Struggle (Pakistan)