مشرقِ وسطیٰ: سامراجی کٹھ پتلیوں کا میدان جنگ

عرب انقلابات سے مشرقِ وسطیٰ کی حکمران اشرافیہ کے مابین تنازعات پھٹ پڑے ہیں۔ اپنے اپنے ممالک میں محنت کشوں کی تحریکوں کو کچلنے کے ساتھ ساتھ وہ خطے میں بالادستی کے لیے آپس میں بھی لڑ رہے ہیں۔ اس جنگ میں دوست دشمن اور دشمن دوستوں میں بدل چکے ہیں۔ تاہم ان حکمرانوں کے طبقاتی مفادات واضح ہیں اور وہ ہر قیمت پر اس بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام کے جبر اور اپنی پر تعیش زندگیاں بچانا چاہتے ہیں۔ کئی دہائیوں سے مجتمع ہونے والے تضادات اب پھٹ رہے ہیں اور سرمائے کی حکمرانی میں سٹیٹس کو اور حالات کو معمول پر رکھنے کی تمام کوششیں ناکام ہو رہی ہیں۔

ایسے ہی ایک واقع میں مصر میں اخوان المسلمین کے سینکڑوں کارکنان کے فوج کے ہاتھوں قتلِ عام سے دنیا کے کئی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے لیکن اس کے ساتھ مشرقِ وسطیٰ میں امریکی سامراج کے دو کارندوں کی آپسی دشمنی بھی عیاں ہو گئی ہے۔ سعودی بادشاہت اور قطری ریاست ایک لمبے عرصے سارے خطے میں امریکی مفادات کی خدمت بجا لا رہے ہیں۔ دونوں ریاستیں رجعت اور ردِ انقلاب کے گڑھ ہیں۔ تیونس کے بن علی کو پناہ دینے سے لیکر طالبان اور رجعتی اسلامی بنیاد پرستی کی مالی معاونت تک، خاندانِ سعود ہمیشہ سامراج کے مہرے کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ 1932ء میں سامراج ہی انہیں اقتدار میں لایا تھا۔ تاہم 2011ء میں شروع ہونے والے عرب انقلاب کے سعودی عرب کے اندر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور القطیف سمیت کئی شہروں میں تحریکیں بار بار پھٹ رہی ہیں۔ اپنے ملک میں تحریکوں کو کچلنے اور نوجوانوں کے لیے10 ارب ڈالر کے پیکج کے ساتھ ساتھ سعودی فوج ہمسایہ ملک بحرین میں مسلسل ابھرتی ہوئی عوامی بغاوت کو بھی وحشیانہ انداز میں کچل رہی ہے۔ غیر ملکی محنت کشوں کے خلاف حالیہ قانون سازی اور ان پر کریک ڈاؤن بھی سعودی عرب میں انتشار کا باعث بن رہا ہے اور حکمران ملک کے اندر ہونے والی بغاوت کے خوف سے کانپ رہے ہیں۔

1995ء میں اپنے باپ کا تختہ الٹ کر بر سرِ اقتدار آنے والے شیخ حماد بن خلیفہ ال تہانی کی حکمرانی میں قطر امریکی سامراج کا پسندیدہ ملک بن چکا ہے۔ 2003ء میں عراق پر قبضے کے لیے امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) کا ہیڈ کوارٹر بھی قطر میں قائم تھا۔ تیل کے وسیع ذخائر رکھنے والے قطر کی کل آبادی 18 لاکھ 70 ہزار ہے۔ صرف 15 فیصد لوگ قطری شہری ہیں جبکہ باقی جنوبی ایشیا اور عرب ممالک سے آئے ہوئے تارکینِ وطن ہیں۔ گیس کے وسیع ذخائر کی بدولت قطر دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک ہے اور یہاں کی فی کس آمدنی دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ غیر ملکیوں کی آمدن اس میں شامل نہیں جو محنت کش طبقے کا 94 فیصد ہیں۔ ظالمانہ حالاتِ زندگی میں رہنے والے محنت کش طبقے کے استحصال اور بے پناہ دولت کے بل بوتے پر قطری حکمران علاقائی بالادستی کی پالیسی پر گامزن ہیں اور اپنی دولت میں اضافے کے لئے مزید سرمایہ برآمد کر رہے ہیں۔ قطر کا شیخ حماد 2012ء میں حماس کے زیر کنٹرول غزہ کی پٹی کا دورہ کرنے والا پہلا غیر ملکی حکمران تھا اور اس نے غریب خاندانوں کے لیے1000 گھروں کی تعمیر کے پراجیکٹ کا آغاز کیا۔ اس دورے کا مقصد فلسطین میں اخوان کی برادر تنظیم حماس کی گرتی ہوئی مقبولیت کو سہارادے کر خطے میں اپنے سامراجی عزائم کی حفاظت تھا۔ اس سے سامراجی قوتوں اور اسلامی بنیاد پرستی کی منافقت عیاں ہوتی ہے۔

حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے باوجود امریکی اور یورپی یونین اپنے کٹھ پتلی ممالک کی حماس کے ساتھ ساز باز کی حمایت کرتے ہیں۔ اس منافقت سے سامراجیوں اور اسلامی بنیاد پرستی کے مابین خفیہ دوستانہ تعلق عیاں ہوتا ہے۔ مصر میں حسنی مبارک کی حکومت کے خاتمے کے بعد یہ اسلامی بنیاد پرست خطے میں سامراج کے اہم حلیف بن چکے ہیں۔ قطر کا امیر شیخ حماد اس پالیسی میں پیش پیش ہے۔ شیخ حماد کے دورہ غزہ اور مصر میں مرسی کی حکومت کو5 ارب ڈالر کی امداد سے قطر کے اخوان اور خطے میں اس کے نیٹ ورک سے جڑے مفادات صاف ظاہر ہیں۔ یہ رقم اس قرضے سے زیادہ ہے جو مرسی نے اقتدار میں آکر آ ئی ایم ایف سے مانگا تھا۔ یہ اثر و رسوخ مصر اور غزہ تک محدود نہیں بلکہ تیونس میں بھی قطر کی مداخلت ہے جہاں بن علی کی حکومت کے خاتمے کے بعد انھضہ پارٹی کا غنوشی برسرِ اقتدار آیا۔ انھضہ پارٹی بھی اخوان کی برادر تنظیم ہے اور غنوشی قطری حمایت اور سعودی مخالفت کے درمیان بہت مشکل سے توازن قائم رکھنے کی کوشش میں ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسے حکومت کے خلاف باہر نکلے تیونس کے عوام کے غیض و غضب کا بھی سامنا ہے۔ واشنگٹن کے مسلسل چکر اس کے مٹتے ہوئے کردار اور تیونس کی کمزور ریاست کی علامت ہیں۔

مصر اور دیگر ممالک میں امریکی سامراجیوں اور اخوان کے درمیان معاہدے کے باوجود سعودی حکمران اس کے خلاف ہیں اور اپنے دیگر کارندوں کے ذریعے اپنی پالیسیوں کا نفاذ چاہتے ہیں۔ پہلے انہوں نے حسنی مبارک کو بچانے کی کوشش کی حالانکہ شدید مظاہروں کے دوران امریکی اسے بچانے کے قابل نہ تھے۔ شاہ عبداللہ اور اوباما کے مابین تلخ گفتگو کی خبریں بھی آتی رہیں جب اوباما نے اپنے پرانی اتحادی حسنی مبارک کو فارغ کرنے کی کوشش کی اور فوج کو حالات کنٹرول میں لینے اور مبارک کو ہٹانے کی ہدایت کی۔ اپنی بادشاہت کے متزلزل ہونے کی صورت میں شاہ عبداللہ کو حسنی مبارک کی شکل میں اپنا مستقبل دکھائی دے رہا ہے جس سے امریکیوں نے چشم پوشی کر لی۔ اس کے بعد سعودی حکمرانوں نے علاقائی بالادستی کے لیے اپنی الگ پالیسی اختیار کی اور اپنے وفادار کارندوں کی حمایت شروع کی۔ مصر میں فوج کے زیرانتظام صدارتی انتخابات کے ڈھونگ کے بعد امریکہ کے ساتھ ساز باز کے نتیجے میں اخوانی بر سرِ اقتدار آئے۔ امریکہ اور اخوان المسلمون کے درمیان قطر نے واسطے کا کردار ادا کیا۔

سعودی حکومت کی اخوان سے نفرت کی تاریخ پرانی ہے اور دونوں رجعتی قوتوں کے کشیدہ تعلقات کی وجہ اخوان کے خلیجی ممالک میں سیاسی عزائم ہیں۔ سعودی عرب نے کبھی بھی اخوان پر اعتماد نہیں کیا، لیکن مصر کے صدارتی انتخابات کے بعد سعودیوں کو غیر یقینی اور کشیدہ حالات سے سمجھوتہ کرتے ہوئے اپنے پروردہ سلفیوں کی مرسی حکومت میں شرکت پر اکتفا کرنا پڑا۔ سلفیوں اور اخوان نے امریکہ اور دوسرے سامراجوں کی مکمل تابعداری کی اور ان کے ہر حکم کی غلامانہ تعمیل کی۔ ’’اسلامی حکومت‘‘ نے سودی نظام کے تحت آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے قرضے لیے جبکہ اسلام میں ہر طرح کا سودممنوع ہے!

مصر میں مرسی کی حمایت کے ساتھ قطر کا شیخ حماد یمن میں پاؤں جما رہا ہے۔ بوسیدہ سرمایہ داری کا خاتمہ کرنے کی اہلیت رکھنے والی کسی بالشویک قیادت کے بغیرعرب انقلابات کے ابھار نے قطر جیسی علاقاتی قوتوں کو خطے میں مداخلت اور اپنی کٹھ پتلی حکومتیں قائم کرنے کی گنجائش فراہم کی۔ یمن میں صالح کے خلاف تحریک کے آغاز کے بعد قطر پہلا ملک تھا جس نے اس کی برطرفی کا مطالبہ کیا، کیونکہ قطری یمن میں اپنی تابعدار حکومت چاہتے تھے۔ تب سے اخوان کو قطر کی جانب سے بہت پیسے مل رہے ہیں اور یمن میں ان کا اثر و رسوخ بہت بڑھ گیا ہے۔ یمنی صدر منصور ہادی نے جولائی میں دوحہ کا دورہ بھی کیا جس پر سعودیوں نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ قطر کے پیسے سے یمنی یوتھ ٹی وی چینل بھی قائم کیا گیا ہے جس کا تعلق اخوان کے ساتھ ہے۔ یمنی حکومت کے ساتھ اس تعلق سے سعودی سامراجی خطرہ محسوس کر رہے ہیں اور اپنے پچھواڑے میں اخوان اور قطری اثر و رسوخ کے خاتمے کی کوشش میں ہیں۔

مصر میں دوسرے انقلاب کے دوران 30 جولائی کو 3 کروڑ لوگ مرسی کے خلاف باہر نکلے اور سعودیوں کو مداخلت کا موقع ملا۔ انقلاب ایک مرتبہ پھر کامیاب ہوا اور مرسی حکومت کا خاتمہ ہوا لیکن سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی ظالمانہ ریاست جوں کی توں موجود رہی۔ بورژوا میڈیا نے اس بے مثال عوامی انقلاب کو فوجی بغاوت سے تعبیر کرنے کی کوشش کی اور اسے جمہوریت اور آمریت کی لڑائی بنا کر پیش کیاگیا۔ در حقیقت لوگ گرتے ہوئے معیارِ زندگی، بیروزگاری اور دوسرے معاشی مسائل کے حل کے لیے لیے باہر نکلے تھے۔ انہیں احساس ہوا کہ حسنی مبارک کے جانے کے بعد بھی ان کے معاشی حالات بد تر ہوتے جا رہے ہیں اور حکومت ماضی کی سرمایہ دارانہ پالیسیوں پر ہی عمل کر رہی ہے۔ لیکن بالشویک طرز کی انقلابی پارٹی کے نہ ہونے کی وجہ سے انقلاب سرمایہ داری کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہا۔

اس صورتحال میں سعودیوں نے مداخلت کرتے ہوئے فوجی جرنیلوں کی حمایت کی اور انقلابی تحریک کے دباؤ میں ظالمانہ ریاست کو خاتمے سے بچا لیا۔ سلفی تحریک کو دیکھتے ہوئے مرسی سے پہلے ہی دور ہونا شروع ہو گئے تھے۔ تب سے سلفی السیسی کی حکومت کا حصہ ہیں اور سعودیوں نے حسنی مبارک کو جیل سے رہا بھی کروا لیا ہے۔ اگر حالات نے اجازت دی تو وہ مستقبل میں اسے پھر استعمال کر سکتے ہیں اور ماضی کے تمام شیطانوں کو محنت کشوں پر مسلط کر کے انقلاب کی علامتی حاصلات بھی چھین لیں گے۔

اخوان کی پشت پناہی کرنے والے بڑے سرمایہ دار ریاستی طاقت کے ذریعے لوٹ مار جاری رکھنے کے لیے اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں۔ انہیں امریکی سامراج کے احکامات اور پالیسیوں پر عمل درآمد کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مرسی کی معزولی کے بعد خطے میں اپنے کم ہوتے ہوئے اثر و رسوخ کو بحال کرنے کے لئے اس نے اخوان کو اقتدار واپس لینے کے لیے کافی پیسے دئیے ہیں، اگرچہ قطری وزیرِ خارجہ نے ان الزامات کی تردید کی لیکن صورتحال کچھ اور ہی بتاتی ہے۔

حال ہی میں سعودی میڈیا نے قطر کی جانب سے یمن میں اخوان کو آٹھ کروڑ ڈالر دینے کی خبر لیک کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ’’عرب انقلاب کے آغاز کے بعد کے برسوں میں یمنی فوج اور سکیورٹی فورسز میں ہزاروں افراد کی جبری بھرتی کے پیچھے قطر اور اس کے وفادار اخوانیوں کا ہاتھ ہے۔‘‘ مصر میں سعودیوں کے اثر و رسوخ کی بحالی کے بعد سے السیسی کی حکومت کو بہت پیسے دئے گئے ہیں۔ سعودی عرب، کویت اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے السیسی کی ’’عبوری حکومت‘‘ کو 12 ارب ڈالر کے وعدے کیے گئے ہیں جن میں سے 6 ارب ڈالر ادا کیے جا چکے ہیں چنانچہ سعودی حمایت کی موجودگی میں السیسی کو آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کے قرضوں کی ضرورت نہیں۔ لیکن بھاری مالی امداد کے بدلے میں اسے اپنے آقاؤں کے احکامات بجا لاتے ہوئے مصر میں اخوان اور قطر کو اثر و رسوخ کا خاتمہ کرنا ہوگا۔

فرانسیسی جریدے ’’لے موند‘‘ کو دیے گئے انٹر ویو میں مصری جرنیل امر نے کھل کر کہا ہے کہ وہ مصری فوج میں اسلامی سیاست کا خاتمہ کرنے کی مہم کے لیے تیار ہے۔ اس نے کہا کہ’’مصر کی آبادی نو کروڑ ہے جبکہ اخوان کی تعداد صرف تیس لاکھ ہے۔ ان سب کو ختم یا قید کرنے کے لیے ہمیں چھ ماہ درکار ہیں۔‘‘لیکن سلفیوں کے نگران حکومت میں رہتے ہوئے ’’اسلامی سیاست کے خاتمے‘‘ کا نعرہ ایک تضاد ہے۔ یہاں ’اسلامی سیاست‘ سے مراد صرف سعودی عرب کی نظروں میں کھٹکتی اخوان المسلمون ہے۔ سلفی سعودیوں کے مکمل وفادار ہیں اور ان کی نظر میں خلیجی بادشاہتیں اسلامی ہیں۔ جھنجھلاہٹ میں اخوان نے مصر میں قبطی عیسائیوں کے گرجے جلا کر اپنا اصل چہرہ دکھایا ہے۔ اخوان کی گولیوں سے کئی فوجی بھی مارے گئے ہیں اگرچہ انہوں نے اس کی تردید کی ہے۔

سعودیہ اور قطر کی اس لڑائی کا شکار افغانستان کے طالبان بھی ہوئے ہیں۔ طالبان اور امریکہ کے درمیان 2014ء میں افغانستان سے امریکی انخلاء کی روشنی میں مذاکرات بھی شروع ہوئے۔ 2001ء میں شروع ہونے والی جنگ اور لاکھوں بے گناہوں کو قتل کرنے کے بعد یہ دشمن اب دوستانہ مذاکرات کر رہے تھے۔ طالبان کو دوحہ میں سفارتخانہ کھولنے کی پیشکش کی گئی۔ طالبان کبھی بھی ایک یکجا اکائی نہیں رہے اور مختلف سامراجی طاقتوں کی حمایت سے کئی گروپ طالبان کے نام سے کام کر رہے ہیں۔ چناچہ یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ ان کرائے کے قاتلوں کی دوحہ میں کون نمائندگی کرے گا۔ پاکستانی آئی ایس آئی کی مدد سے بہت احتیاط سے ایک فہرست ترتیب دی گئی اور یہ ’دفتر‘ کھولا گیا، سارے میڈیا میں اس کا چرچا ہوا۔ لیکن جلد ہی افغانستان کے کٹھ پتلی صدر حامد کرزئی نے اپنا محدود ہوتا ہوا کردار دیکھ کر اپنے آقاؤں کے خلاف بیان دیا اور اس عمل پر اعتراض کیا۔ اس کے علاوہ طالبان کے کئی دھڑوں اور دیگر بنیاد پرست کرائے کے قاتلوں نے اس فہرست پر اعتراض کیا کیونکہ انہیں اس میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ قطریوں اور سعودیوں کے بڑھتے ہوئے اختلافات کے بعد سے یہ سفارتخانہ ویران ہو گیا ہے اور طالبان نے اسے کہیں اور منتقل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کے بیان کے مطابق سعودی عرب یا دوبئی منتقل کیا جا سکتا ہے۔ اس سے طالبان کے اہم گروپوں پر سعودی عرب کے مضبوط کنٹرول کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ دریں اثنا سعودیوں نے پاکستان میں عام انتخابات کے ناٹک کے ذریعے اپنے پسندیدہ بغل بچے نواز شریف کو ایک مرتبہ پھر اقتدار میں دیا ہے۔ 1999ء میں جنرل مشرف کی فوجی بغاوت کے ہاتھوں حکومت کے خاتمے کے بعد نواز شریف دس برس تک سعودی عرب میں جلا وطن رہا۔ وہ طالبان کے کچھ دھڑوں اور پاکستان میں متحرک کئی دیگر بنیاد پرست تنظیموں کا پسندیدہ بھی ہے۔

شام اس سرد جنگ کا ایک اور محاذ ہے۔ اسد کے خلاف جنگ میں قطر ’احفاد الرسول بریگیڈ‘ کی حمایت کر رہا ہے۔ کچھ خبروں کے مطابق قطری ’جبہۃ النصر‘ کی بھی مدد کر رہے ہیں۔ شام کے اخوان کو بھی دوحہ کی حمایت حاصل ہے۔ جبکہ سعودی بھی کئی بنیاد پرست تنظیموں کی حمایت کر رہے ہیں جن میں القاعدہ بھی شامل ہے۔ یہاں تک کہ سعودی آقاؤں کے مفادات کے تحفظ کے لیے پاکستان اور افغانستان سے طالبان کو شام برآمد کیا جا رہا ہے۔

مصر میں فوج کے ہاتھوں سینکڑوں اخوانیوں کے قتل کے بعد شام میں یہ دشمنی شدید ہوئی ہے۔ جنگ اور اسد کی فوج کے شدید حملو ں کے باوجود یہ اسلامی بنیاد پرست دھڑے لوٹ مار کے لیے آپس میں بھی لڑ رہے ہیں۔ ان میں سے درجنوں، شامی فوج کی گولیوں سے نہیں بلکہ دوسری جہادی تنظیموں کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔ اس وجہ سے وہ امریکہ اور یورپی سامراجی قوتوں کی جانب سے مالیاتی اور عسکری امداد کے مزید طلبگار ہیں۔ اگرچہ کسی کو حتمی طور پر نہیں معلوم کہ گزشتہ ہفتے شام میں کیمیائی ہتھیار کس نے استعمال کیے لیکن ان بنیاد پرست قوتوں کی بے چینی اور سعودیوں کی اپنا اثر و رسوخ مستحکم کرنے کی شدید خواہش کی روشنی میں شام اور روس کی جانب سے حزب مخالف پر لگائے جانے الزامات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

پہلے ہی القاعدہ سے تعلق رکھنے والے کرائے کے قاتلوں نے ’’آزاد شامی فوج‘‘ (FSA) کے ایک اہم شخص کمال حمامی کو جولائی میں قتل کیا جس سے حزب اختلاف کے دھڑوں میں موجود پھوٹ کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس سارے عمل نے عالمی طور پر سفارتکاری اور بورژوا سیاست کو مکمل طور پر بے نقاب کر دیا ہے۔ کئی برسوں تک ساری دنیا کے لوگوں کو یہ بتایا جاتا تھا کہ امریکہ اور القاعدہ شدید دشمن ہیں اور اسی لیے افغانستان اور عراق کی جنگوں میں اربوں ڈالر جھونکے جا رہے ہیں۔ لیکن شام پر امریکی حملے کی صورت میں دونوں مل کر بشار الاسد کی فوج کے خلاف لڑیں گے۔ تہذیب یافتہ مغربی دنیا کے دشمن طالبان سے بھی اب سفارتی تعلقات قائم کئے جا رہے ہیں۔

مسلمانوں کو بتایا جاتا تھا کہ یہودی ان کے دشمن ہیں اور ہر قیمت پر اسرائیل کو تباہ کرنا ہو گا۔ لیکن اب ہم شامی فوج کے خلاف مشترکہ کاروائی کے لیے خادمینِ حرمین شریفین کی اسرائیل کے ساتھ خفیہ قریبی دوستی کو دیکھ رہے ہیں۔ تہذیبوں کے تصادم اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نعرے لگانے والے اب دہشت گردی کے دوست بن گئے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل کے دہشت گرد اب ’’اتحادی‘‘ ہیں۔ مصر میں جمہوریت اور آمریت کی لڑائی محض اس نظام میں لوٹ مار کے لیے حکمران طبقے کی آپسی لڑائی ہے۔ طبقاتی حکمرانی کے دونوں طریقے سرمائے کے جبر کو جاری رکھنے کے لیے ہیں۔ امریکہ کو عراق اور شام میں جمہوریت چاہیے جبکہ سعودی عرب اور خلیج کے رجعتی شیخ اس کے بہترین دوست ہیں۔ قذافی اور حسنی مبارک کا حشر دیکھ کر تمام ظالم بادشاہ خوف سے کانپ رہے ہیں۔ اپنے ملک میں سنجیدہ معاشی بحران کی حالت میں امریکی سامراجی عرب میں اپنے اتحادیوں کے مابین تنازعات سے پریشان ہیں۔ ترکی کا اردگان بھی ان کا اہم اتحادی ہے جسے بیس سال میں سب سے بڑی عوامی تحریک کے نتیجے میں عوام کے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ وہ اپنے سامراجی عزائم کے حصول کی کوشش میں تھا لیکن اپنے ہی ملک میں تحریک نے اس کے منصوبوں پر بڑی حد تک پانی پھیر دیاہے۔ شام کے ساتھ سرحد پر پناہ گزین کیمپ میں اسد کے خلاف تقریر کا اسے نقصان ہوا ہے۔ عراق میں اس کی مداخلت اور کرد علاقوں میں آپریشن کے خلاف شدید مزاحمت ہوئی ہے۔ اس کیفیت میں عراق فرقہ وارانہ مقتل بن رہا ہے۔ کرد قومی سوال پھر سے سامنے آ گیا ہے اور اسد اور اردگان اس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

اسرائیل کا سامراجی پھیلاؤ جاری ہے اور وہ فلسطینی علاقوں میں مزید بستیاں قائم کر رہا ہے۔ 2011ء میں اسرائیل کے اندر ابھرنے والی انقلابی تحریک نے مسئلہ فلسطین کا حل پیش کیا ہے۔ خطے میں امن، روزگار اور بلند معیار زندگی کے حصول لیے اسرائیل کی صیہونی ریاست کا خاتمہ ضروری ہے جس کے لئے مشرقِ وسطیٰ کی سوشلسٹ فیڈریشن کی جانب بڑھنا ہو گا۔

روس، چین اور ایرانی حکمران طبقات کی جانب سے مخالفت، امریکیوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ ان ممالک کے حکمران طبقات کے سرمایہ دارانہ نظام اور امریکہ کے ساتھ مفادات اگرچہ مشترکہ ہیں لیکن سامراجی لوٹ مار اور ستحصال پر کئی اختلافات بھی موجود ہیں۔ نیز ان ممالک میں ابھرنے والی عوامی تحریکیں یا ایسے ممکنات بھی حکمرانوں کے لئے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ پیوٹن پہلے ہی 2011ء میں اپنے خلاف ایک عوامی تحریک کو کچل چکا ہے۔ ایران کو سنجیدہ معاشی بحران کا سامنا ہے اور ایران میں ایک انقلابی تحریک تیار ہو رہی ہے۔ ایران کی جانب سے لبنان میں حزب اللہ اور شام میں اسد کی حمایت کا مقصد نہ صرف علاقائی برتری کا حصول ہے بلکہ اس کے سامراجی عزائم بھی ہیں۔ ایران نے بحرین میں انقلابی تحریک کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر زائل کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ پاکستان میں شیعہ عسکری تنظیموں کی مالی معاونت بھی کر رہے ہیں۔ چین کی شرح نمو میں سست روی آتی جا رہی ہے اور مزدور تحریک تیز ہو رہی ہے۔

جنگوں کی کوکھ سے انقلابات جنم لیتے ہیں۔ یہ صورتحال آنے والے دنو ں میں اس خطے میں بڑے عوامی دھماکوں کو جنم دے گی اور غیر معمولی انقلابی تحریکوں کا ابھار ہو گا۔ اگر 1917ء کے روس کی طرز پر ایک انقلابی پارٹی موجود ہوتی تو صورتحال یکسر مختلف ہوتی۔ وقت آ چکا ہے کہ انقلابی قوتوں کو یکجا کر کے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کیاجائے جسے بچانے کی کوشش یہ رجعتی حکومتیں کر رہی ہیں۔

آنے والے دنوں میں حکمران طبقات میں مزید تنازعات جنم لیں گے اور دوسرے ممالک کے حکمرانوں سے لڑنے کے ساتھ ساتھ ہر ملک میں داخلی لڑائیاں بھی ہوں گی۔ حکمران طبقات کی قوتوں کو یکجا کرنے کی کوششیں بھی ہوں گی اور نسبتاً استحکام کے ادوار بھی آ سکتے ہیں لیکن اس سب کا انجام اور زیادہ لڑائی ہو گا۔ دوست دشمن اور دشمن دوست بنیں گے۔ حتیٰ کہ اخوان اور مصری فوج کے اتحاد کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا اور اس کے ساتھ ساتھ مصری فوج میں اختلافات اور بغاوتوں کا بھی امکان ہے۔ اخوان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اس عمل میں اضافہ ممکن ہے۔

اس صورتحال میں جنگوں اور خانہ جنگیوں سے بچنا ممکن نہیں اور عسکری صنعت مزید منافعوں کی کوشش میں ہوگی۔ جرمنی نے پہلے ہی مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کو اسلحہ کی فروخت میں اضافہ کر دیا ہے۔ 2013ء کے پہلے چھ ماہ میں جرمنی نے اس خطے میں 80 کروڑ یورو کا اسلحہ بھیجا ہے جس میں قطر نے63 کروڑ 5 لاکھ یورو کی خریداری کی ہے۔ 2012ء میں جرمنی نے مشرق وسطیٰ کو1.42ارب یورو کا اسلحہ بیچا جو ایک ریکارڈ تھا لیکن لگتا ہے کہ 2013ء میں یہ ریکارڈ ٹوٹ جائے گا۔ اسلحے کی خرید پر بے پناہ پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے جبکہ کروڑوں انسان غربت اور ذلت میں صحت کی بنیادی سہولیات کے بغیر زندہ رہنے پر مجبور ہیں۔ اسلحے کی صنعت ساری دنیا کے حکمرانو ں کو جنگ کی جانب دھکیلے گی۔ اس وقت معاشی بحران اور محنت کشوں کی تحریکوں کے باعث ایسا کرنا مشکل ہو رہا ہے لیکن وہ ان جنگوں کے لئے عوامی رائے کو ہموار کرنے کے بہانے تراش رہے ہیں۔

اسرائیل اور عرب میں ابھرنے والی عوامی تحریکوں نے عوام کی طبقاتی جڑت کا اظہار کیا ہے۔ عالمی افق پر ہونے والے واقعات مذہب، قوم، نسل، فرقے اور زبان کی بنیاد پر قائم جعلی تقسیموں کو عیاں کر رہے ہیں۔ نئی تحریکوں سے مزید لوگ ان سامراجی تنازعات کی طبقاتی بنیادوں سے آگاہ ہوں گے۔ واقعات کی اس گرمی میں ہی انقلابی پارٹی کو تعمیر کرنا ہو گا۔ واقعات کے تھپیڑوں سے مشرقِ وسطیٰ کے عوام جلد سیکھیں گے اور انقلابی نتائج اخذ کریں گے۔ اب یہ مارکسسٹوں کا فریضہ ہے کہ ان کی قیادت کرتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب کی منزل کی جانب آگے بڑھیں اور مشرقِ وسطیٰ کی سوشلسٹ فیڈریشن کی بنیاد رکھ کر اس مسلسل قتلِ عام کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کریں۔ مشرقِ وسطیٰ اور ساری دنیا میں امن قائم کرنے کا یہی واحد راستہ ہے!

Source