عالمی مالیاتی دھندوں میں مندا

Urdu translation of Panic in world markets (October 10, 2008)

 

ایلن وڈز۔ ترجمہ ،اسدپتافی،18.11.2008۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ بدحواسی اور سراسیمگی نے دنیا بھر کی سٹاک مارکیٹو ں کو اتھل پتھل کر کے رکھ دیا ہے۔ کسی سے کچھ بھی نہیں بن پارہا ہے کہ اسے کسی طرح کنٹرول کیا جائے اور دنیا بھر کی حکومتیں نہ کچھ کہہ پا رہی ہیں نہ ہی کچھ کر پارہی ہیں۔ انیس سو اناتیس کی طرح سے جب لوگ ابھی ایک تباہی کے بعد سوچتے تھے کہ نہ جانے آگے کیسی اور بربادی ہماری منتظر ہے۔ اسی طرح آج کسی کو پتہ نہیں چل پارہا کہ حصص کا زوال ابھی اور کتنا گہرا اور شدید ہوگا۔ عالمی معیشت اس وقت خود کو گہری دلدل میں پھنسی ہوئی محسوس کررہی ہے۔Payden & Rygelلاس اینجلس کے ا یکویٹی سٹریٹیجی کے سربراہ کرس آنڈروف کے الفاظ میں،، ہم پاتال کی طرف لڑھک رہے ہیں ،، یہ محض وحشت ہے اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں،۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہاہے کہ یہ کیا، کیسے ہورہاہے اور اس کا انت کیا ہوگا کیسے ہوگا؟ہاں البتہ یہ سب کو نظر آرہاہے کہ سبھی بتیاں سرخ ہو چکی ہیں۔ آج ہی لندن سٹاک مارکیٹ میں سبھی کمپنیوں کے حصص تیز ی سے گرگئے ان میں عمومی طورپر متاثرنہ ہونے والی اور محفوظ سمجھی جانے والی فارماسوٹیکل کمپنیاں بھی شامل تھیں۔ جبکہ کل امریکہ کی ڈاﺅن سٹریٹ دو ہزار تین کے بعد پہلی مرتبہ نو ہزار پوائنٹس تک گرگئی۔ اسی طرح کی گراوٹیں ہمیں سارے یورپ میں ہوتی دکھائی دیں‘ پیرس میں آٹھ اعشاریہ چار ، جرمنی میںنو اعشاری ایک فیصد گراوٹ ہوئی جبکہ ویانا میں جمعہ تک کے لیے مارکیٹ ہی بندکر دی گئی۔ روس کی رعونت زدہ بورژوازی جسے کسی قسم کے بحران کا اندیشہ تک بھی خواب وخیال میں نہ تھا،تیل کی قیمتوں میں اچانک گراوٹ سے ششدررہ گئی۔ انتہائی بے یقینی کی وجہ سے ماسکو کی سٹاک مارکیٹ کو غیر معینہ مدت کے لیے بندکردیا گیا۔ امریکی سٹاکس انیس سو سنتیس کے بعد سے بدترین حالت میں جا چکے ہیں۔ غربت کے معیارکے چیف اکانومسٹ ڈیوڈ ویس نے کہا ہے کہ میں نے اس سے بھیانک کبھی دیکھا اور نہ سنا۔ میں نے سٹاک مارکیٹو ں کو گرتے دیکھا ہے لیکن اس قدر دھڑام اور وحشت سے کبھی پالا نہیں پڑا۔ آج کا واشنگٹن پوسٹ لکھتا ہے کہ جمعرات کے دن وال سٹریٹ پر خوف اور دہشت کے سائے چھائے رہے۔ مارکیٹ دوبارہ بیٹھ گئی اور سرمایہ کار وں کو اس بات کا یقین ہوگیا کہ قوم اب ایک گہری کھائی کے دہانے پر کھڑی ڈگمگا رہی ہے۔ سات سو بلین ڈالرز کا بھاری بھرکم بیل آﺅٹ منصوبہ بھی جس کا مقصد تھاکہ بینک آپس میں قرضے لین دین کرنے کے قابل ہوسکیں، کوئی فوری کارگری نہیں دکھا سکا۔ بینک آپس میں سہ ماہی بنیادوں پر ڈالر کا جو ریٹ طے کئے رکھتے ہیں(جسے Liborکہاجاتاہے)اس میں چار اعشاریہ آٹھ فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ خوف اور دہشت کی یہ فضا ایشیائی مارکیٹوں پر بھی حاوی رہی ؛ٹوکےو میں حصص کی قیمتیں دس فیصد تک گر گئیں اوروہاں کئی حصص اور آپشنز کو معطل بھی کرناپڑگیا۔ جون دو ہزار تین کے بعد کی یہ سب سے بڑی گراوٹ تھی۔ بینک آف جاپان کو ہنگامی طورپر چھیاسٹھ اعشاریہ چھ ارب ڈالرزڈالنے پڑے تاکہ خیر خیریت رہے اور معاملہ جان لیوا ثابت نہ ہو۔ آسٹریلیا کی مارکیٹ بھی انیس سو ستاسی کے کرےش کے بعد کی سب سے بڑی گراوٹ کی زد میں آگئی۔ جنوبی کوریا کیKospi،تائیس جون دو ہزار تین کے بعد کی سب سے بڑی گراوٹ کی زد میں آگئی اور وہاں مستقبل کے کئی سودے دم توڑ گئے۔ جاپان میں مرکزی بینک کو لگاتاراٹھارہ دنوں تک مارکیٹ میں پیسے ڈالنے پڑے تاکہ سرمائے کے بہاﺅ میں دم خم باقی رہ سکے۔ بینک آف جاپان کو سرمائے کی مارکیٹ کو بچانے کے لیے چھیاسٹھ اعشاریہ چھ ارب ڈالروں کا ٹیکہ لگاناپڑا۔ جاپان کے مرکزی بینک کی طرف سے ڈالا جانے والا سرمایہ کسی طور نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا ۔ ٹوکیو میں ایک ہفتہ کے دوران چو بیس فیصد کی گراوٹ ہوئی جو انیس سو ستاسی کے کرےش کی ہفتہ وار گراوٹ سے دوگنازیادہ تھی۔ ٹوکیوکی شنکوسیکورٹیز کے سینئر ماہرےوتاکاموئرا نے کہا کہ نیو یارک اور ٹوکیو میں سب برائے فروخت ہوچکاہے اور یہ رکنے کا نام نہیں لے رہا جبکہ سرمایہ کاری کرنے والے خوف اور بے یقینی کا شکارہوچکے ہیں۔ ایشیا کے باقی حصوں میں بھی یہی کتھاکہانی چل رہی ہے۔ ہانگ کانگ میں ہینگ سینگ انڈیکس تین سالوں کی کم ترین سطح تک گرا جبکہ فلپائن میںآٹھ اعشاریہ تین تک گراوٹ ہوئی۔ انڈونیشیا کی سٹاک مارکیٹ کو کھولا ہی نہیں گیاکیونکہ اس کا صدر خوف وہراس کے زیادہ گہرے ہونے اور اس کے نتائج وعواقب سے ڈرا ہوا تھا،یہاں ہفتے کے آغازمیںدو دن کاروبار معطل رکھاگیا۔ ممبئی انڈیا میں کاروبار کے آغازپر مارکیٹ چھ اعشاریہ پانچ فیصد تک گر گئی۔ انڈیا کے مرکزی سنٹرل بینک نے کہا ہے کہ وہ بارہ اعشاریہ آٹھ فیصد بلین ڈالرکی اضافی رقم منی مارکیٹ میں ڈالنے کے لیے تیار ہے۔ آسٹریلین حصص مارکیٹ آٹھ اعشاری تین فیصد تک گر گئی۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے یہ کہا اور یقین کیا جارہاتھا کہ اگر عالمی معیشت کو کچھ ہوا تو ایشیاءاسے سنبھال لے گا۔ ایسے ہمارے کئی سادہ لوح دوست بھی تھے جو اس بات پر کامل ایمان لائے ہوئے تھے مگر افسوس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ برطانیہ بحران مےں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ٹونی مکنلٹی، گولڈن براﺅن کی حکومت کا پہلا وزیر ہے جس نے کل ہی یہ اعتراف کیا ہے کہ برطانیہ زوال کی طرف گامزن ہے۔ اس نے کہا ہے کہ برطانوی بینکوں کو ملنے والی ضخیم امداد سے اندازہ ہو گا کہ زوال کتنا لمبا اورکتنا گہراہوگا۔ ہم دھیرے دھیرے ایک ایسی سٹیج کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں سست روی رفتہ رفتہ ہمیں زوال کی طرف لے جائے گی۔ اس کے بعد ہی ہم یہ انداز ہ لگا سکیں گے کہ اس بحران کی فطرت کیسی اور گہرائی کس قدر ہے ۔ قنوطیت اور یاسیت کے حامل یہ الفاظ ابھی کچھ ہی دن پہلے کے سرکاری بیان کی مکمل نفی کرتے ہیں کہ برطانوی حکومت کی طرف سے بینکوں کو دیا جانے والا بیل آﺅٹ کریڈٹ کرنچ سے سنبھلنے کا باعث بنے گا۔ مگر سنبھلنا تو کجا یہ منصوبہ راتوں رات الٹ نتیجہ پیداکرگیا۔ اور اب پتہ چل رہاہے کہ یہ کریڈٹ کرنچ سے بچنے کا نہیں بلکہ بینکنگ نظام کو دےوالیہ ہونے سے بچانے کی ایک کوشش تھی۔ مجموعی طورپر براﺅن اور ڈارلنگ دونوں نے مل کرپانچ سو بلین پونڈزبینکا روں کی صوابدید میں دے دیے۔ اس کا زیادہ تر حصہ قرضوں اور ضمانتوںپر مبنی ہے۔ جو ان دونوں کا کہنا ہے بہت جلد وصول کر لئے جائیں گے لیکن یہ جلد کب آئے گا اس کا کسی کو پتہ نہیں ہے۔پچاس بلین پونڈزجو بقایا رہتے ہیں ان کی واپسی کا دورد ور تک نام ونشان نہیں اگرچہ کہا یہی جارہاہے کہ ہمیں امید ہے کہ یہ کسی وقت مل جائیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امید ایک اعلیٰ و ارفع جذبہ ہے۔ ہر جواری کو یہ امید ہوتی ہے کہ بس اگلی بازی میں قسمت کی دیوی اس کے قدموں میں گری پڑی ہوگی۔ اس کے بعد موجاں ہی موجاں۔ لیکن بدقسمتی سے ایسی کسی امید کی کوئی ٹھوس بنیاد موجود نہیں ہواکرتی۔ المیہ تو یہ ہے کہ یہ صاحبان اتنی بڑی اور غےر معمولی رقم کو کس معمولی انداز میں برتتے اور بانٹتے ہیں پچاس بلین پونڈز بہت بڑی رقم ہے۔ یہ دو ہزار بارہ میں ہونے والی اولمپک گیمز پراندازاً اٹھنے والی رقم سے پانچ گنازیادہ ہے۔ اور یہ پچھلے سال برطانیہ بھر سے اکٹھے کئے جانے والے ٹیکسو ں کی آمدنی سے تین گنا زیادہ رقم ہے۔ یہ حکومت کی طرف سے پچھلے ٹیکس سال لئے جانے والے قرضوں کی رقم سے ساٹھ فیصد زیا دہ بڑی رقم ہے۔ اور یہ بہت بڑی رقم ٹیکسوں سے ادا کی جائے گی اور اسے قرضے کے طورپر دے دیا جائے گا۔ اس کی وجہ سے پہلے سے ہی سرکاری قرضوں کے حجم میں اور بھی اضافہ ہوگیاہے۔ اس سے برطانوی ٹیکس گزاروں پر بہت زیادہ بوجھ بڑھ جائے گا۔ یہی نہیں بلکہ اس کی وجہ سے اس سال سماجی اخراجاتpublic spendingمیں بے پناہ کٹوتیاں بھی سامنے آئیں گی۔ گولڈن براﺅن کا فرمانا ہے کہ یہ ایک قسم کی سرمایہ کاری کی گئی ہے جو اپنا خرچہ منافع خود ہی پیداکر لے گی۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ایسا پہلے سکینڈ ے نیویا میں کیا جا چکا ہے۔ لیکن وہاں بھی حقیقت یہ ہے کہ ناروے کو تو اپنی رقم واپس ملی جبکہ فن لینڈ اور سویڈن کو خسارے کا سامنا کرناپڑگیا۔ اور پھر ہر سرمایہ کاری کی طرح یہ ایک جو ا ہے۔ جس کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ بینکا ر اس میں جیت جائیں مگر خاکم بدہن اس کے آثار نظر نہیں آرہے۔ پھر اس اقدام سے تاحال کسی قسم کی بحالی یا بہتری ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ۔ مالیاتی منڈیاں اعتماد سے ابھی تک محروم ہیں۔ جس دن اس اقدام کا اعلان ہوا ، اسی دن لندن کیFTSE5پوائنٹ مزید گر گئی اور یہ سلسلہ جار ی و ساری ہے۔ اس سے برطانوی دارالعوام میں عیلمٹ علاقے سے لیبر ممبرپارلیمنٹ کولن برگن کی طرف سے دیے گئے تبصرے کی تصدیق ہوتی ہے ،، مجھے دکھائی دے رہاہے کہ منڈی کا نادیدہ ہاتھ ہمارے ٹیکس گزاروں کی جیب سے پچاس بلین پونڈز نکال رہاہے یہی نہیں بلکہ یہ ہاتھ اپنی دو اورانگلیاں بھی کسی اورکام لانا چاہ رہاہے،،۔ یہ اقدام کسی حد تک نیشنلائزیشن ہے ۔ تاہم ابھی تک ایسی کوئی صورت نظر نہیں آرہی کہ ،، نیشنلائز،، ہونے والے ان بینکوں میں ٹیکس گزاروں کے حقوق کے تحفظ کی کوئی گفتگو یا سرگوشی تک بھی کی جارہی ہو۔ چنانچہ یہ حتمی بات ہے کہ ان بینکا روں کو کنٹرول کرنے کا کوئی بندوبست موجود نہیں ہے۔ قدرتی طورپر دارالعوام میں کنزرویٹو اور لبرلز دونوں دھڑوںنے کھلے دل کے ساتھ حکومتی پلان کی تائید کی ہے۔ ایسا ہونا بھی چاہئے تھا کیونکہ جب بھی کڑا اور برا وقت آئے تو ہر شریف مہذب مردوزن کا فریضہ بنتا ہے کہ وہ باہم اتفاق سے مسئلے کے حل کی تدبےر کریں۔ اور خاص طورپر جب معاملہ اور مسئلہ،، سرمائے ،، کا ہو تو پھر یہ اتفاق و اتحاد اور بھی ناگزیز ہوجاےا کرتا ہے۔ سبھی پارٹیوں کے لیڈرایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے ایک دوسرے پر گرے جارہے تھے تاکہ سرمائے کے تحفظ کے لیے اپنی وابستگی و نےازمندی کے اظہار میں کوئی حرف نہ آنے دیں ۔ اس کے باوجود بھی اس کشمکش میں کنزرویٹو لیڈر ڈیوڈ کیمر ون اپنے نیولبرل حریف پر بازی لے جانے میں کامیاب ہو گیا۔ ریاکاری کی کئی سالوںکی ریاضت کے ہاتھوں منجھے ہوئے ڈیوڈ کیمر ون نے البتہ یہ مطالبہ ضرورکیا کہ اس سال بینکا روں کو کسی بھی قسم کا کوئی بونس نہ دیا جائے۔ عوام کی ہمدردی کے لیے کی جانے والی اس ریاکاری نے غریب گورڈن براﺅن کو پریشا ن کر کے رکھ دیا(ویسے بھی اس بیچا رے کو پریشان کرنا اتنا مشکل کام نہیں رہاہے)۔ پارلیما نی اد ب آداب کے تقاضوں اور پھرخود اپنے ذاتی وصف اور عاجزی کے سبب بھی وزیراعظم براﺅن نے اپنے خطاب میں نمبر بنانے کی ہر ممکن کوشش کی اور کہا کہ اچھے نتیجے دینے والوں کو انعام سے نوازا جائے گا۔ ایک ایسے وقت میں جب ہر خاص وعام یہ جانتا ہے کہ ان ماہرومشاق، ذہین و فطین بینکاروں نے ساری دنیا کے مالیاتی نظام کو تہہ وبالا کر کے رکھ دیا ہے، لیبر پارٹی کے لیڈر کی طرف سے اس قسم کے الفاظ پارلیمنٹوں کی ماں کے اندر اور باہر اس کے ہمدردوں میں کسی اضافے کا باعث نہیں بنیں گے۔ یہ بھی سچ ہے کہ اس بیان سے اگلے ہی روزجناب وزیراعظم نے ،، یقینی طورپر اپنے مشیروں کے کہنے پر،، ایک عوامی قسم کا غصیلا بیان جاری فرمادیا کہ غیرذمہ داری کے مرتکب بینک کارسزا سے نہیں بچ سکیں گے۔ البتہ بیان میں سزاکی مقدار اور معیار کا کوئی ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھاگیا۔ ہو سکتا ہے کہ ان غیر ذمہ داروں کو وزیر خزانہ اےلسٹیرڈارلنگ کامسلسل ایک ہفتے تک مالیاتی معاملات پر لیکچر سننے کا حکم سنا دیا جائے۔ اور یہ،، ملزمان،، بینکار بھی اپنا سالانہ بونس لینے کی بجائے اسے سننے کو ہی ترجیح دیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آئس لےنڈ:اےک دےوالیہ ہوچکا ملک ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت جبکہ عالمی سٹاک مارکیٹوں کی ڈرامائی گراوٹ کے منظر ہر طرف دکھائی دے رہے تھے ، اور بحران کے مزید شدید ہونے کا پتہ دے رہے تھے ۔ ایسے میں بینکوں نے جلتی پر تیل کا کام کرتے ہوئے کم مدتی قرضوں پر شرح سود میں اضافہ کردیا۔ ایسادنیا بھر کے بڑے مرکزی بینکوںکی طرف سے بدھ کے دن ، شرح سودمیں شعوری کمی کے باوجودکیاگیا۔ اس سے صاف ظاہرہوتا ہے کہ بینک ایک دوسرے کے ساتھ بھی لین دین کرتے ہوئے کتنے خوفزدہ ہیں ۔ قرضوں کی معافی نہ صرف سارے مالیاتی نظام کی تباہی کے ساتھ ساتھ پیداواری شعبے ،صارفین حتیٰ کہ ساری قوم کی تباہی کاپیش خیمہ ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے اپنی اشاعت میں لکھا ہے کہ امریکی مینو فیکچر نگ کی صنعت پر اس بحران نے کیا برے اثرات مرتب کیے ہیں،، سب سے بدت اثرات آٹو میکر شعبے پر ہوئے ہیں ۔J D Power and Associatesکے مطابق عالمی آٹو میکنگ انڈسٹری دو ہزار نو تک منہدم ہو سکتی ہے۔ ایس اینڈ پی ریٹنگ نے جی ایم کے قرضے ڈوبنے کے خدشے کا اظہار کردیا ہے۔ جس کے حصص اکتیس فیصد تک گر کرچار اعشاریہ چھہتر فیصد ڈالر تک پہنچ گئے ہیں اورجوانیس سو پچاس کے بعد سے سب سے کم ہیں۔ جبکہ ایف او آر ڈی کے حصص بائیس فیصد گر چکے ہیں،،۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بڑی فرمیں مستقبل قریب میں دیوالیہ ہونے جارہی ہیں ۔جس سے لامحالہ طورپر بیروزگاری میں شدید اضافہ ہو گا اور جس سے مراد یہ ہے کہ منڈی مزید سکڑے گی اور پھر اس کے نتیجے میں کئی اور دیوالیے سامنے آئیں گے۔ اسی مضمون میں کہا گیا ہے کہ ،، اس دوران بحران کے سیاہ بادل معیشت کے د یگرعلاقوں میں پہنچنا شروع ہو گئے ہیں ۔ فولاد اور بھاری مشینر ی کی صنعتیں مشکلات کی زد میں آچکی ہیں جو کہ ابھی کچھ ہی دن پہلے تک مستحکم و مضبوط جارہی تھیں ۔ اس سے یہ تاثر مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جارہاہے کہ امریکی معیشت ایک سنگین تنزلی کی زد میں آتی جا رہی ہے۔ ماہرین معیشت کے اندازوں کے مطابق امریکی معیشت دو ہزار نو کے وسط تک سکڑ کر رہ جائے گی،،۔ تیل کی قیمتو ں میں کمی نے مارکیٹ کی بدحواسی میں اور بھی اضافہ کردیا ہے۔ اس سے تیل کے حصص کی قیمتیں بھی گرنا شروع ہو گئی ہیں ۔ ایگر ون موبل اور شیوران کے حصص میں بارہ کمی واقع ہوئی ہے۔ امریکی خریداروں نے اپنے اخراجات میں اچانک کٹوتی کردی ہے ۔ پچھلے سترہ سالوں کے دوران جب سے حکومت سہ ماہی اعدادوشمار شائع کرتی چلی آرہی ہے ، صارفیت میںیہ پہلی گراوٹ ہے جو سامنے آئی ہے۔ یہ سب سے فیصلہ کن سوال ہے۔ امریکی منڈی دنیا کی واحد اور سب سے بڑی منڈی تھی جو دنیا بھر میں بننے والی اشیا کی سب سے بڑی خریداری کا مرکز تھی۔ امریکہ میںڈیمانڈ میں اچانک اور تیز کمی کا مطلب ہے کہ یہ اشیا اب فروخت نہیں ہو سکیں گی۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بورژوا ماہرین معیشت کی یہ خود بر غلط منطق کہ امریکی معیشت دنیا بھر کی معیشت سے الگ تھلگ اور نرالی ہے اوراسے کسی شے سے کوئی فرق نہیں پڑسکتا ، اپنی انتہائی نامعقو لیت کے ساتھ سب پر عیاں ہوچکی ہے۔ جس طرح ایک بھاری پتھر جھیل میں گرنے سے ارتعاش پیدا ہوتا ہے اسی طرح یہ بحران بھی ہر جگہ ارتعاش پیدا کررہاہے۔ اٹھارہ مہینے قبل امریکہ سے شروع ہونے والے اس مالیاتی سونامی نے آئس لینڈ کو اپنا نشانہ بنا لیا ہے۔ یہاں انٹرنیٹ بینک آئی سیونے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے سبھی کھاتہ د اروںکے کھاتے منجمد کر رہاہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی بینک سے اپنے پیسے نکلوانا چاہے گا تو اسے درخواست دینی پڑے گی کہ اسے کسی طرحcompensateکیاجائے۔ ا س بینک کے مالک بینک لینڈس بینکی کوپہلے ہی رےاستی رےگولیٹر ی اتھارٹی نیشنلائز کر چکی ہے۔ دارالحکومت میں اتھارٹی کی طرف سے رقوم کی واپسی کی سبھی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں اوراس کی صاف اور سیدھی وجہ یہ ہے کہ آئس لینڈ پہلے ہی دیوالیہ ہوچکاہے۔ آئس لینڈ نے پچھلے عرصے کے دوران برطانیہ اور امریکہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سروسز کے شعبے اور مالیاتی پیداوارپر ہی اپنی ساری معیشت مرتکز کر دی تھی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں بحران زیادہ شدید دھماکے کے ساتھ پھٹ کر سامنے آیا ہے اور یوں اس کا خمیازہ ایک پوری قوم کو بھگتنا پڑگیاہے۔ اس دیوالیہ پن نے برطانیہ اور ہالینڈ کے اندر پینتیس لاکھ بچت کرنے والوں کا ستیا ناس کر کے رکھ دیاہے جنہوں نے چار اعشاریہ پانچ بلین پونڈز جمع کرارکھے تھے۔ مقامی اتھارٹیز سمیت برطانیہ کے دیگر عوامی اداروں کے مزید ایک بلین پونڈزبھی اس دیوالیہ پن میں ڈوب گئے ہیں ۔برطانوی حکومت آئس لینڈ سے رقوم کی واپسی کی ضمانت حاصل کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ ویسے بھی کسی پتھر سے خون کا ایک قطرہ نچوڑنا ممکن نہیں ہواکرتا۔ نتیجہ یہ ہوا ہے کہ برطانیہ کے اندر آئس لینڈ کے سبھی اثاثے ضبط کر لئے گئے ہیں اور وہ بھی انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت۔ چنانچہ دونوں ملکوںکے مابین سفارتی تناﺅ میں شدت آچکی ہے۔ یہ واضح ہو چکا ہے کہ مایوسی اور بے یقینی زور پکڑتی جارہی ہے۔ ہر کوئی حیران پریشا ن اور ششدر نظر آ رہا ہے۔ جب برطانوی حکومت بینکوں کے منہ میں پانچ سو بلین پونڈز انڈیل رہی تھی تو سب اس جوئے پر ہراساںدکھائی دے رہے تھے۔ حکومت اپنے سبھی ریزروز داﺅپرلگا چکی ہے اور یوں اس نے سوئی کو سرخ نشان تک پہنچا دیا ہے۔ برطانوی معیشت دیگر کی نسبت زیادہ جلدی اور زیادہ تیزی کے ساتھ اس عالمی بحران میں عریاں ہوتی جارہی ہے۔ ایم ایس این منی میں نک لاﺅتھ حسب ذیل لکھتا ہے،، البتہ ہم سب کے لیے سب سے بڑا خطرہ ،، وسیع معیشت ،،(broader economy)ہے۔ قرضوں میں ڈوبے ہوئے بینکو ں کو قومی لائف بوٹ کے ذریعے بچانے کی کوشش سے قومی معیشت اور زیادہ نیچے گہرے پانی کی طرف کھنچی چلی جارہی ہے۔ جہاں پہلے ہی بحران کی طوفانی سرکش لہریں بپھری ہوئی ہےں،،۔ آٹھ اکتوبر دو ہزار آٹھ،۔ آئرلینڈ جیسے یوروکے تحفظات کے حامل ملکوں کے ساتھ جڑے ہونے کی وجہ سے جو کہ برطانیہ کی طرح بینکا ری کمزوریوں اور گھریلو صنعت کے زوال کی زد میں ہے، سٹرلنگ کی قدر وقیمت بھی شدید لڑکھڑاہٹ کا شکار ہو چکی ہے۔ برطانوی حکومت کی طرف سے اضافی پچاس بلین پونڈز ادھارلینے کے عمل نے ، وہ بھی زیادہ تر باہرسے، کرنسی کی قدر پر اعتمادکو متزلزل کردیاہے۔ ڈالر اور یورودونوںکے مقابلے میں سٹرلنگ کہیں کمزورپڑچکاہے۔ جبکہ پونڈ اس سے بھی کہیں زیادہ گرے گا اور برطانوی معیشت کی کمزوری کو عیاں کر دے گا جس کی حالت پہلے سے ہی خستہ و شکستہ ہے۔ قرضوں کے سکڑنے سے کئی چھوٹی فرمیں دیوالیہ پن کو پہنچ چکی ہیں ۔ بڑی کمپنیوں کی باری اس کے بعد آنے والی ہے۔ اور بیروزگاری میں اضافہ ،اس کا تو خیر ذکر ہی کیا کیجئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سرمایہ دارانہ انتشار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بورژوا ماہرین معیشت کی فہم و فراست شروع ہی سے قابل تحسین چلی آرہی ہے ۔ انیس سو ستاسی میں معاشیات کے شعبے میں نوبل پرائز حاصل کرنے والے رابرٹ سولو نے واشنگٹن پوسٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ،، ویسے تو معاشی عدم استحکام کے امکانات ہمیشہ موجود رہتے ہیں لیکن میں ششدر ہوں کہ جو کچھ ہورہاہے اتنی شدت سے کیونکر ہورہاہے۔ہر کسی کی طرح مجھے بھی کچھ نہیں سجھائی دے رہا ہے۔ میری عقل سلیم میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے کہ جسے میں آپ کو فروخت کر سکوں،،۔ ان الفاظ سے ہمیں بورژوازی اور اس کے حکمت سازوں کی دانشمندی کی ایک واضح جھلک نظر آسکتی ہے ۔ ٹراٹسکی نے کہاتھا ،، یہ وہ سیانے ہوتے ہےں جو آنکھوں پر پٹی باندھ کر طوفان کا سامنا کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہوتے ہےں،،۔ ایک حتمی کوشش کے طورپر کہ کسی نہ کسی طرح سے اس عالمی بربادی سے بچا جائے،گلوبل معاشی پالیسی ساز آج واشنگٹن میں آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی سالانہ میٹینگو ں کے لیے اکٹھے ہو رہے ہیں۔ یہ سب سر جوڑ کرکوئی باہمی حل تلاش کرنے کی تدابیرپر غوروخوض فرمائیں گے۔ لیکن اب تک جو بھی اقدامات کئے گئے ہیں ان میں سے کسی کا کوئی بھی مطلوبہ نتیجہ برآمد نہیں کیا جا سکا ہے۔ مارکیٹیں نیچے کی طرف لڑھکنے کا وطیرہ جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ صورتحال یہ ہے کہ برطانوی چانسلر ڈارلنگ سمیت جی سیون ممالک کے وزرائے خارجہ،، اعتماد،، کی بحالی کے عزم کے ساتھ جس دن واشنگٹن پہنچے ،اسی دن ڈاﺅجونزنو ہزار پوائنٹس تک گر گئی ، یہ دو ہزار تین کے بعد پہلی بارہوا۔ اس سربراہی اجلاس میں برطانیہ عظمیٰ کے حکمران اس جوش وجذبے کے ساتھ گئے کہ وہ دیگر ملکوں کو مالیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے کئی جامع حل تلاش کرنے کی حکمت واہمیت سے آگاہ کریں جس سے عالمی معاشی تعاون واختلاط کو مزید مضبوط کےا جاسکے ۔ لیکن جیسا کہ ابتدا سے ہوتا چلاآرہا ہے کہ جب بھی کوئی فوج میدان میں لڑائی کے لیے آگے بڑھتی ہے تو ایک نعرہ لگایاجاتا ہے،، ہر ایک اپنا خیال خود ہی رکھے ،،(every man for himself)۔ یہ بات اتنی آسان نہیں ہے کہ ایک اجتماعی نظم وضبط کا احساس اور ڈسپلن طے کیا جاسکے۔ پھر برطانوی حکومت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ سب کو ایکتا کے لیے راضی یا مجبور کر سکے کہ آئیے مل جل کر کچھ کریں۔ یہ تو اس قابل بھی نہیں کہ یہ آئس لینڈ سے اپنے ڈپازٹ شدہ کروڑوں پونڈز ہی وصول کر سکے۔ امریکی خزانے کا سیکڑٹری ہنری پالسن کوشش کر رہاہے کہ وہ جی بیس ممالک کی میٹنگ کو کچھ طوالت دے سکے، جی سیون ممالک کے ساتھ چین ، روس اور انڈیا سمیت دوسرے ترقی کرتے ممالک کو اس میں شامل کیا جائے۔ یہ سب ایک قدیم اصول کے تحت کیا جارہاہے کہ برے وقت میں سب دوست مل کر بیٹھ جایا کرتے ہیں۔ یہ سب مل کر عالمی جی ڈی پی کے بڑے حصے کو ترتیب و تشکیل دیتے ہیں ۔ اور مسٹر پالسن کو یقین ہے کہ یہ سب مل کر مصیبت کی اس مشترکہ گھڑی میں کچھ نہ کچھ کریں گے ، اصولی طورپر یہ سارا اہتمام امریکہ کو اس مشکل وقت سے نکالنے کے لیے ہورہاہے۔ جی سات ملکوں کا اجلاس ایک ایسے ہفتے کے اختتام پر ہورہاہے جب ساری دنیا کی منڈیاں مسلسل گراوٹ کی زد میں آرہی تھیں ۔ اس میٹنگ میں جو سب سے نمایاں عنصر ہمیں نظرآرہاہے وہ خوف ہے۔ ایک وحشت ہے جس نے مارکیٹو ں کو اپنی لپیٹ میں لیاہوا ہے کہ حکومتوں کی بحران سے نمٹنے کی تمام تر کوششیں رائیگا ں چلی جارہی ہیں۔ امریکی فیڈرل بینک ، برطانیہ ویورپ کی حکومتوں اورمرکزی بینکوں کی طرف سے کی جانے والی اس گراوٹ کو روکنے کی ہرممکن کوشش کارآمدنہیں ہوسکی۔،، ریوڑکی جبلت ،، ۔(the herd instinct )کا ایک انتہائی قدیم قانو ن ہی منڈی کے رحجان کو کنٹرول کرتا ہے۔جھاڑی کے پیچھے چھپے ہوئے شیرکی بوکوسونگھ کر جنگلی درندوں کا ایک ریوڑ یہی سوچتا ہے کہ اس شیر سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ یہی وہ سفاک میکنز م ہے جو دنیا بھر کے کروڑوں انسانوں کی تقدیریں طے کرتا ہے۔ منڈی کی معیشت کا یہی سب سے حقیقی بے رحم پہلوہے۔ بتایا گیا ہے کہ جارج بش اس بحران کے حوالے سے روزگارڈن میں ایک بیان دے گا۔ اس نے سنیچر کے دن دنیا کے سات بڑے صنعتی ممالک کے وزرائے خزانہ کے ساتھ غیر معمولی میٹنگ بھی کرنی ہے۔ پریس سیکڑٹری ڈانا پیرینو کے مطابق صدر بش امریکی عوام کو اس بات کی یقین دہانی کرائے گا کہ،، وہ اعتماد رکھیں کہ ہمارے معاشی ماہرین ہر وہ ضروری قدم اٹھانے کی طرف بڑھ رہے ہیں جس سے ہمارا مالیاتی نظام مستحکم ہو جائے گا،،۔ بورژوازی کا سب سے بڑا مسئلہ ان کی یہ خوش فہمی ہواکرتی ہے کہ یہ سب محض اعتماد کی کمی کا ہی کیا دھرا ہے۔ جبکہ اعتماد ہمیشہ ہی معروضی معاشی صورتحال ہی کی عکاسی کیاکرتا ہے۔ ملکوں کے صدور،بینکوں کے سربراہوں یا پاپائے روم جتنی بھی دل خوش کن تقریریں کرتے رہیں ، اس سے کوئی فرق نہ پڑاہے نہ پڑے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ طبقاتی جدوجہد، آج کی ناگزیر ضرورت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس طرح سے ایک جنگلی درندہ ہی کسی بھوکے شیر کی بو سونگھ لیا کرتا ہے، اسی طرح منڈیاں بھی بحران کی بو سونگھ لیتی ہیں انہیں پتہ ہے کہ جونہی شیر جھپٹے گا اسے کوئی نہےں روک سکے گا۔ سبھی تقریریں ، شرح سود میں ہونے والی سبھی کٹوتیاں،بینکو ں کو دی جانے والی سبھی امدادیں، ان سے مالیاتی منڈیوں پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ منڈیاں دیکھ لیں گی کہ حکومتیں اور مرکزی بینک خوفزدگی کا شکار ہیں ۔ اور یوں وہ اہم اسباق حاصل کریں گی۔ کل ہی امریکی محکمہ خزانہ کی طرف سے مضبوط اشارے دیے گئے ہیں کہ امریکہ کے کچھ بڑے اور اہم بینکوں کو قومی تحویل میں لیا جا سکتا ہے۔ فری مارکیٹ اکانومی کے عظیم آدرش کے منہ پر طمانچے کی حےثیت رکھنے والے اس غیر معمولی قدم کا مقصد اعصاب کو سکون فراہم کرناہے ۔ فطری طورپر یہ قدم ناکام ہوچکاہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ بینکنگ کے اس بحران نے کس طرح پھیل کر حقیقی معیشت کو متاثرکرنا شروع کر دیاہے۔ آ ئی ایم ایف کے سربراہ سٹراس کاہن نے کہا ہے کہ ہم ایک عالمی بحران کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں ۔ اس نے ان ملکوں کو جو اس کی وجہ سے متاثر ہورہے ہیں ، فنڈز کی فراہمی کے ہنگامی پروگرام کی ضرورت پر زوردیاہے۔ تاہم اس نے اس ضمن میں آئی ایم ایف کی طرف سے کسی ملک کے لیے کسی امداد کاکوئی ذکر نہیں کیا۔ کچھ بھی ہو جائے آئی ایم ایف اب ساری دنیا کو سنبھالنے کی نہ اہلیت رکھتا ہے نہ صلاحیت۔ اور جو بحران ہم آپ مل کر دیکھ رہے ہیں وہ ایک عالمی بحران ہے جس سے کوئی ملک بچ نہیں سکتا۔ یہ بحران سب سے زیادہ سختی اور شدت کے ساتھ افریقہ، مشرق وسطیٰ،ایشیاءاور لاطینی امریکہ کے ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے گا۔ برآمدات میں انہدام سبھی اشیاءکو(سوائے سونا، چاندی کے)متاثر کر ے گا۔ تیل بھی ان میں شامل ہے جبکہ غذائی اشیاءکی قیمتو ں میں مزید اضافہ ہو گا جو کہ پہلے ہی سٹے بازی کی وجہ سے بہت بڑھی ہوئی ہیں ۔Banco Interamericanoکی ایک تازہ رپورٹ میں خبردارکیاگیاہے کہ غذائی اجناس کی قیمتوں میں اضافے سے لاطینی امریکہ میں دوکروڑساٹھ لاکھ انسان غربت کی انتہاﺅں کو پہنچ چکے ہیں۔ عالمی بینک کے صدر رابرٹ زوئیلک نے انتباہ کیا ہے کہ دنیا کے غریبوں کو تین بربادیوں کا سامنا ہے۔ فنانس ، فوڈ ، فیول۔ یہ غریب کسی طور ان کی قیمتوں کو افورڈ نہیں کر سکتے۔ ہم نے اندازہ لگایا ہے کہ غذائی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے اس سال مزید چوالیس ملین انسان کم غذائیت سے پیداکردہ مسائل کا شکار ہو جائیں گے۔ یہ انتہائی عمدہ لفظ ہیں لیکن پھر جیسا کہ ایک پرانی انگریزی کہاوت ہے کہ عمدہ لفظ صرف عمدہ لفظ ہی ہو اکرتاہے۔ یہ تو بحران کا دور ہے مگر اس کے باوجود جب عروج ہوتا تھا یا ہوتاہے تو بھی انسانوں کی اکثریت اس عروج کے فیوض وبرکات سے یکسر محروم رہتی ہے۔ عروج کے عرصے میں بھی دنیا کے سبھی ملکوں کے اندر امیروں اور غریبوں کے مابین تفریق اپنی انتہاﺅںکو پہنچی ہے ۔ دنیا کی صرف دو فیصد آبادی دنیا کی پچاس فیصدسے زیادہ دولت کی مالک بن چکی ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ یوں ہے کہ ایک ارب بیس کروڑ انسان بدترین غربت کی زد میں ہیں۔ ہر سال اسی لاکھ انسان غربت کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔ یہ ہے جو سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا کو دیا ہے۔ یہ بہترین وقتوں کی بات ہے ۔ اب آگے کیا ہوگا؟ ہر طرف ہر جگہ عوام کا موڈ بدل رہاہے۔ لاطینی امریکہ پہلے ہی انقلابی صورتحال سے دوچارہے جودنیا کے دیگر ملکوں کی توجہ حاصل کر چکی ہے۔ یہ ابھی مزیداور شدید اثرات مرتب کرے گی ۔ امریکہ برطانیہ اور ان جیسے دوسرے صنعتی ممالک میں جہاں پہلے لوگ موجودہ مروجہ نظام کو کبھی سوچتے بھی نہ تھے اب وہاں بھی لوگ اس نظام بارے سوچنا شروع کر چکے ہیں۔ پہلے جن نظریات کو انتہائی قلیل لوگ سنتے تھے اب آنے والے دنوں میں ایل بڑی اکثریت ان کی طرف دھیان دے گی اور انہیں سنے گی بھی اورسمجھے گی بھی۔ دنیا بھر میں ایک بے نظیرعالمی طبقاتی جدوجہد کاابھارہمارے استقبال کامنتظرہے۔

 

Source: Chingaree.com