این آر او کالعدم ۔ انصاف کے مندر میں سرمائے کی پوجا

Urdu translation of Pakistan: The Temple of Justice and veneration of Capital - Supreme Court’s Decision on NRO (26 January 2010)

لال خان،17.12.2009۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ این آر او پر سپریم کورٹ کا فیصلہ پاکستان کے شدید سیاسی، معاشی اور سماجی بحران سے جنم لینے والے تیزی سے بڑھتے ہوئے دھماکہ خیز واقعات میں ایک اور دھماکہ بن کر نازل ہوا ہے۔ لیکن یہ واقعہ یا فیصلہ اس بحران کو حل کرنے کی بجائے اس ملک کے انتشار میں مزید اضافہ کرے گا۔ اگست انیس سو اناسی میں کامریڈ ٹیڈ گرانٹ نے لکھا تھا۔” پاکستان میںہم حکمران طبقے کو ایک طرز حاکمیت سے دوسری طرز حکومت کے درمیان جھولتا ہوا دیکھتے ہیں۔ آمریت سے جمہوریت اور پھر واپس یہی دائرہ۔ یہ ان تضادات سے فرار کی کوششیں ہیں جن کا ان کو سامنا ہے ۔ لیکن ہر کیفیت میں چاہے وہ آمریت ہو یا مشکل ”جمہوریت“ ہو یہ حکمران طبقات سماجی اور معاشی صورتحال کو استحکام دینے میں ناکام رہے ہیں“۔”اٹوٹ دھارا“ صفحہ چار سو اکتیس ،، ۔ ۔ ۔ ۔ آج تیس سال بعد یہ بحران کہیں زیادہ پیچیدہ اور گھمبیر بن کر رہ گیا ہے ۔ کرپشن اس نظام کی خرابی کی وجہ نہیں ہے بلکہ اس نظام کی ناگزیر ضرورت اور پیداوار ہے ۔ مایہ کی اس نگریہ میں کون بدعنوان نہیں ہے ۔ سیاست سے ریاست اور صحافت سے اخلاقیات ہر شعبہ‘ ہر ادارہ اور حکمران طبقات کا ہر دھڑا کرپشن کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس شدید بحرانی سرمایہ داری کی ریاست کے تمام ستونوں کے پاس اور کوئی چارہ ہے ہی نہیں ۔ مغربی سرمایہ داری کی طرح یہاں کے حکمران طبقات کے براہ راست نمائندہ سیاست دان زیادہ منجی ہوئی اور محفوظ کرپشن کرتے ہیں اور ہنر مند مجرموں کی طرح اپنے تمام نشان مٹادیتے ہیں۔ لیکن در حقیقت اس بحران کی شدت کے مقابلے میں کرپشن ایک نان ایشو بن کر رہ جاتا ہے ۔ جس عدلیہ کوانتہائی پوِتر اور پاک صاف بنا کر پیش کیا جارہا ہے اس کی تاریخ نہ صرف بدعنوانی سے بھری پڑی ہے بلکہ انہوں نے ہر اہم موڑ پر جو فیصلے دیئے ہیں وہ اس سرمائے کی حاکمیت کے تقاضوں کے مطابق تھے۔ یہ فیصلہ بھی انہی فیصلوں کا تسلسل ہے۔ فوج ‘ مقننہ ‘سویلین افسر شاہی اور صحافت کی طرح عدلیہ بھی اس ریاست کا حصہ ہے جس کا بنیادی مقصد اس نظام کو ہر حال میں بچانا ہے۔کبھی جبر سے‘کبھی ”جمہوریت“ سے اور کبھی ”انصاف“ کے ہتھکنڈوں کے ذریعے اس متروک اور درندہ نظام زر اور اسکے سماجی ڈھانچوں اور قدروں کو تحفظ دیا جاتا ہے اور پھر موجودہ سیاست اور ریاست پر مسلط ہر سیاسی پارٹی اور ہرادارہ خود سرمائے کا مطیع اور غلام ہی تو ہے ۔ یہ سرمایہ اگر ”جائز “طریقوں سے حاصل نہ کیا جائے تو پھر”ناجائز“ طریقے لازم ہوجاتے ہیں۔ جس نظام میں ہر جنس‘ ہر جذبہ‘ ہر قدر ‘ ہررشتہ بازار کی جنس بن جائے وہاں انصاف بھی منڈی میں نیلام ہوتا ہے۔ اور اس بے ہودہ کھلواڑ پر سامراج اپنی گرفت مضبوط کیے ہوئے یہاں سے تمام بھاری دولت اور وسائل مسلسل لوٹ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی ایک انقلاب کی پیداوار تھی لیکن وہ کبھی ایک لینن اسٹ انقلابی پارٹی نہیں بن سکی۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں اس ملک کے استحصال زدہ محنت کش طبقات نے اس کو اپنی نجات دہندہ سمجھ کر اس کو روایت کے طور پر اپنالیا‘ وہاں حکمران بھی اسکے انقلابی کی بجائے پاپولسٹ کردار کی وجہ سے اس کو اپنی مشکلات کو حل کرنے کے لیے استعمال کرتے رہے۔ سرمایہ داری نظام کے انہدام کے انیس سو آٹھاسٹھ ، انہتر اور انیس سو اکہتر، باہتر میں مواقع موجود ہونے کے باوجود‘ اسے اکھاڑ نہ پھینکے جاسکنے کی وجہ سے اسی نظام میں رہتے ہوئے اس پارٹی کی قیادت اپنے بنیادی سوشلسٹ پروگرام سے مسلسل انحراف کراتی چلی گئی اور اس پر حکمران طبقات کے افراد کا قبضہ ہوتا چلا گیا۔ اس سے انکار نہیں کہ موجودہ سرمایہ دار‘جاگیردار اور نودولتیہ قیادت کرپشن میں ملوث رہی ہے لیکن کونسی پارٹی یا ادارہ نہیں ہے۔ مارکس نے کہا تھا کہ ”جو تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے وہ اس کو دہرانے کی پھٹکار کا شکار ہوتے ہیں“۔ ہر مرتبہ محنت کش عوام اپنا لہو‘آنسو اور پسینہ بہاکر اس پارٹی کو ابھارتے رہے جبکہ حکمرانوں نے اسے اپنے سیاسی ومعاشی بحران کی شدت میں اور اس پارٹی کے پیچھے محنت کش عوام کے ریلے اور انقلابی شورش کو زائل کرنے کے لیے استعمال کیا۔ آٹھارہ اکتوبر دو ہزار سات میں بے نظیر کی واپسی پر اٹھنے والے عوامی ابھارنے عدلیہ کی نام نہاد تحریک کو کاٹ کر ایک طبقاتی کشمکش کو ابھار دیا تھا جس سے حکمران لرز گئے تھے۔ اسکی محور بے نظیر کوقتل کردیا گیا اورانتخابات کے ذریعے واشنگٹن سے ایسا سیٹ اپ مسلط کیا گیا جس میں اقتدار تو پیپلز پارٹی کے پاس تھا لیکن طاقت کسی اور کے پاس ہی رہی ۔ مشرف کی معزولی کا سہرا ملکی اور عالمی ذرائع ابلاغ نے اس طبقاتی تحریک کی بجائے عدلیہ کی بحالی کی تحریک کے گلے میں ڈال دیا۔ پیپلز پارٹی کے درمیانے اور بالا دست طبقات سے تعلق رکھنے والے لیڈر اقتدار‘ دولت اور شہرت کی گھناﺅنی ہوس میں اس زعم میں مبتلا رہے کہ واقعی طاقت اور اقتدار انہی کے پاس تھا۔ اس نظام کے اقتدار نے ان سے اتنی مہنگائی ، غربت ، لوڈ شیڈنگ ، بے روز گار ی اور عیارانہ(پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ )نج کاری کروائی کہ عوام اس معاشی دہشت گردی کے صدمے میں گھائل ہو نا شروع ہو گئے ۔ تحریک پسپائی اختیار کرتی گئی اور اس ریاست کو پیپلز پارٹی کی ضرورت ایک مرتبہ پھر زائل ہوتی گئی۔ لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت نے جب اس اقتدار پر کنٹرول بڑھانے کی کوشش کی تو حکمرانوں نے انکو اس مرتبہ اپنے ایک ادارے فوج کی بجائے عدلیہ سے ان کی اوقات بتلانے کی کوشش کی ہے۔ اس عمل میں پیپلز پارٹی کی قیادت نے ان پالیسیوں سے پارٹی کی ساکھ کو مجرو ح کیا اور دائیں بازو کے لیے راستے ہموار کیے۔ لیکن اگر پیپلز پارٹی حکومت برطرف ہو بھی گئی تو پھر کون سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ یہ مزید بڑھےں گے۔ بربادیاں اس سماج کو مزید اجاڑیں گی۔ بے نظیر کی شہادت کے بعد ماتمی جذبات سے کچھ عرصہ تو سماجی حمایت حاصل کی جا سکتی تھی لیکن اس سلگتی ہوئی زندگی میں سسکتے اور تڑپتے ہوئے عوام کب تک ان سے چھٹکارہ حاصل کرنے کا انتظار کر سکتے ہیں۔ اگر وہ فوراً تحریک نہ بھی چلائیں اور اپنی روایتی پارٹی کی دی ہوئی یاس اور ناامیدی میں شایدمزید کچھ وقت کے لیے خاموش رہیں لیکن پھر بھی اتنی بھوک‘ ذلت اور بحران میں کوئی بھی استحکام اب ممکن نہیں رہا۔ اس سماجی بحران اور خلفشار کی شدت کی آگ حکمرانوں کے باہمی اختلافات‘ریاست کے مختلف اداروں میں تنازعات اور اداروں کے داخلی تصادموں کو جنم دیتی ہے ۔ حکمرانوں کے یہ تمام طریقہ حاکمیت یعنی جابر فوجی آمریتیں ، مشرف کی نیم جمہوریت ، نیم آمریت کے ملغوبے اور پھر سرمائے کے زور پر جمہوریت اور پارلیمنٹ نا کام ہو چکے ہیں۔ ہر پارٹی اور ہر ادارہ بے نقاب ہو چکا ہے ۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ قیات کے لئے اب مظلومیت کا نیا روپ دھارنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ عوام پیپلز پارٹی کی برطرفی سے نالاں ضرور ہو نگے لیکن اسکی متحرک حمایت اور جدوجہد صرف اس صورت میں کریں گے جب یہ اپنے بنیادی سوشلسٹ پروگرام (1967ئ) کو انقلابی بنیادوں پر ابھارے گی ۔ لیکن موجودہ قیادت کےلئے یہ کرنا شاید اب ممکن نہیں رہا۔ اس سے پارٹی کے اندر سلگتے ہوئے مفادات پھٹیں گے۔ ان میں سے شاید بیشتر تنازعات ذاتی اور مفاد پرستانہ نوعیت کے ہونگے۔ لیکن پارٹی میں ایک نظر یاتی جنگ ناگزیر ہے ۔ یہ کس طبقے کی پارٹی ہے اور کس کے لئے کام کرتی ہے۔ بھٹو کی آخری تحریر اور وصیت ایک بار پھر ابھرے گی۔ سوشلزم یا موت کا نعرہ پھر گونجے گا ایک انقلابی جمہوری سوشلسٹ رجحان کے لیے پارٹی میں یہ جنگ جیتنے کے راستے کھلیں گے ۔ پیپلز پارٹی میں انقلابی سوشلسٹوں کی فتح پاکستان میں غربت، مہنگائی ، بے روز گاری ، محرومی ، استحصال‘ ناخواندگی‘ لاعلاجی‘ دہشت گردی، بدعنوانی اور ذلت و رسوائی کا خاتمہ ایک سوشلسٹ فتح کی صورت میں ایک حقیقت ‘ایک سچ بنے گا۔