مذاکرات کے لئے مذاکرات

Urdu translation of  Pakistan: Talking about talks... (27 April 2012).

صدر زرداری کے ہندوستان میں مختصر قیام کو میڈیا نے ’’مقدس دورے‘‘ کے طور پر بڑھا چڑھا کے پیش کیا ہے۔ ہمیشہ کی طرح بنیاد پرست اور اِنتہا پسند دائیں بازوکے گروہوں نے اِسے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ رُجعت پسند سیاست نفرت،بد گمانی، تعصب اور ہٹ دھرمی سے بھری ہوئی ہے، جو اِس مو قع پر بھی کوئی اور رائے پیش نہیں کر سکی۔ تقسیم کے دونوں جانب اِس نفرت آمیز مذہبی جنگ نے ریاست اور اشرافیہ کے مختلف دھڑوں کے مفادات کو ہی تحفظ دیا ہے۔ یہ لوگمذہبی نفرت کو تب تک جاری وساری رکھیں گے جب تک سماجی و معاشی زوال اور طبقاتی جدوجہد میں عارضی سکوت ہے ۔ کالے دھن کی موجودگی میں لُوٹ کھسوٹ کے یہ بیوپاری اپنی بے ہودہ حرکات کواِس طرح سے منظم کرتے ہیں کہ عوام پر حُب الوطنی اور مذہبی تعصب کے جذبات پیدا کرنے میں حکمران طبقہ کے لیے مدد گار ثابت ہوسکیں۔ اُن کا مقصد استحصال کو بڑھانا اور عام آدمی کو دباناہے تاکہ منافع اور لُوٹ کھسُوٹ کو بڑھایا جا سکے۔ کالے دھن (Black Capital)نے اِن رُجعت پسند قوتوں کو تقویت دی اور انہیں غیر معمولی فوائد اور تحفظ فراہم کیا۔ پاکستان اور ہندوستان دونوں میں مذہبی اِنتہا پسندی، اشرافیہ کی نام نہاد آزاد خیال سیاست اور بے بنیاد تنازعات سماج کے حقیقی تضاد ، طبقاتی تضاد، کودبانے کے لیے اِنتہا ئی کارآمد اوزارہیں۔

تاہم، اِس دورے کی حاصلات معمولی اور غیر اہم ہیں۔ اگر ہوئیں بھی تو اِس بات کے بہت کم مضمرات ہیں کہ صدر زراری کا یہ دورہ دونوں قوموں کے مابین امن اور ہم آہنگی کو فروغ دے گا۔ دھوکا دینے والے اِشاروں اوربناوٹی مصافحوں سے برصغیر کے عوام کے ساتھ امن اوراستحکام کا جھُوٹا ناٹک کیا گیا۔ اِس وقت ابہام کا شکار پاکستانی اور ہندوستانی حکمران نہ تو مکمل جنگ کے متحمل ہو سکتے ہیں اور نہ ہی پائیدار امن کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔ پچھلے 65سال سے دونوں اطراف کے حکمران امن اورجنگ، دوستی اور دُشمنی کے گھن چکر میں اُلجھے ہوئے ہیں، جبکہ برصغیر کے عوام اِس سارے عمل میں تکلیفیں جھیل رہے ہیں۔دونوں ملکوں کی اکثریتی آبادی کا معیارِزندگی اِنتہائی گراوٹ کا شکار ہے۔شیرخوار بچیوں کاقتل، تعلیم کی کمی، ناقص اور نا کافی غذا، جہالت، غربت، بے روزگاری، محرومی، بیماری، جبر اور بدحالی میں بے تحاشہ اِضافہ ہوا ہے۔بلند شرح نمو اور عام انسانوں کے معیار زندگی میں کوئی مطابقت نہیں ۔ دونوں ریاستیں خطیر رقم فوجوں اوربڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں پر خرچ کرتی آئی ہیں۔ دونوں ممالک جنگی سازوسامان پرسب سے زیادہ اخراجات کرنے والے دُنیا کے پہلے دس(10)ممالک میں شمار ہوتے ہیں، جبکہ سماجی معیارِ زندگی کے پیمانے پر دونوں ممالک کی درجہ بندی اِنتہائی نچلی سطح پر ہے۔اب تقریباََ دُنیا کی آدھی غربت جنوب ایشیائی برصغیر میں آباد ہے۔

تجارت کے کھلنے کی خوشی، کاروباری حضرات اور صحافیوں کے لیے ویزے، MFNحیثیت اوردوسرے زیبائشی اعلانات ریڈ کلف لائن کے دونوں اطراف رہنے والے کروڑوں اِنسانوں، جو کہ اِنتہائی کرب، ذلت اور تنگ دستی کی زندگی گزار رہے ہیں، کے لیے زیادہ معنی خیز نہیں ہیں۔ عام آدمی کے لیے پاکستان یا ہندوستان کا ویزہ حاصل کرناضرورت سے زیادہ کٹھن اور ذلت آمیز عمل ہے اور یہ عمل آنے والے وقت میں ختم نہیں ہونے والا۔ سماجی و معاشی زوال کی وجہ سے کسی بھی ریاست کی سفارتی حکمتِ عملی دھوکا دہی، منافقت اور مکاری پر مبنی ہوتی ہے، یہ سنجیدہ غیر مُلکی سفارتی حِکمت عملی سے زیادہ اندرونِ ملک خرچ کی چالبازی ہے۔ اگرچہ کچھ سرمایہ دار دھڑے اپنے گِرتے ہوئے منافع کو بڑھانے کے لیے دوستانہ تجارتی تعلقات چاہتے ہیں، لیکن موجودہ سماجی و معاشی بحران کو مدنظرر کھتے ہوئے دوستانہ، پُرامن اور حسب معمول تعلقات قائم کرنے کی دلیل دینے والے یا تو بہت سادہ لوح ہیں یا پھر انتہائی مکار اور چالاک۔ جُھوٹے تصورات پر مبنی یہ مصنوعی جھگڑا محنت کشوں اور عام عوام کے ہاتھوں جابرکو بچانے کے لیے بالکل ایسے ہی استعمال ہوتا رہے گا جیسے1940ء کی دہائی میں محنت کشوں کی اِنقلابی اُٹھان کومذہبی تقسیم ، مُنافرت اورلسانی و نسلی قتل وغارت گری کی بنیا دپر منتشرکر کے ہندوستان کو تقسیم کیا گیا تھا۔ بصورت دیگر اُس تحریک کو سرمایہ دارانہ بنیادوں پر قومی آزادی کی سطح پر روکا نہیں جا سکتا تھا۔ اُس تحریک نے نا گزیر طور پر سماجی اِنقلاب کی سطح کو پار کر جانا تھا، جس کے نتیجے میں سامراج اور مقامی اشرافیہ کی لُوٹ کھسُوٹ کا خاتمہ ہو جاتا۔ یہ ساری حکمت عملی ماضی سے اُنہی بنیادوں پر استوار ہے۔

پاکستان اور ہندوستان کی خارجہ پالیسی ایک دوسرے سے تضاد پر مبنی ہے اوردونوں اطراف کے اہم خفیہ اداروں کا اِن پر فیصلہ کن اختیار ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ امن کے خواہاں بھی اِن سے مایوس ہیں اور تھکان کے عالم میں اِن معمولی مسائل پر سمجھوتا کرنے پر مجبور ہیں۔ کون ہے جو سیاچن کے جھگڑے کو پاگل پن کہنے سے اِنکار کرتا ہو؟ ہزاروں کی تعداد میں سپاہی دُنیا کے بلند ترین میدانِ جنگ میں اِنتہائی سخت سردموسمی حالات کی بھینٹ چڑھ گئے۔ لیکن اِس پاگل پن میں بھی ایک قاعدہ ہے۔ سر کریک، مچھواروں کے پریشان کن حالات اور دوسرے معمولی نوعیت کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ ایسا ہو سکتا ہے۔ لیکن پچھلے 60 سالوں سے نام نہاد کشمیر کے مرکزی مسئلے کے مسودے پرحقیقت میں کوئی عملدرآمدشروع ہی نہیں ہوا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ موجودہ سماجی ، معاشی اور جغرافیائی حالات میں برصغیر کے حکمراں طبقات اور اُن کے سامراجی آقا اِس عناد کو ختم ہی نہیں کر سکتے نہ ہی ان کا اس سے کوئی سروکار ہے۔ فوجی افسر شاہی کو کل داخلی پیداوار) (GDPسے اپنا حصہ چاہیے اور سیاست دان اِسی عداوت کو اِستعمال کرتے ہوئے داخلی اِنتشار اور محنت کشوں کی تحریکوں کو دباتے ہیں۔ سامراج کے فوجی صنعتی کارخانے اِس دشمنی کی بنیاد پر اپنی لوٹ کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اپنے جنگی سازوساما ن بیچنے کی غرض سے لاک ہیڈ مارٹن (Lockheed Martin)، جنرل ڈائی نیمکس(General Dynamics) اور اِسی طرح کے دوسرے گروہ امریکی کانگرس سے ایسی حکمت عملی تیار کرواتے ہیں جو )جنگی سازوسامان کے لیے( منڈیاں، جنگیں اور نفرت آمیز حالات پیدا کر سکیں۔ ہندو اور مسلم اِنتہا پسندوں کے اِس تنازعے میں اپنے مفادات ہیں۔ جیسے ہی مذاکرات کی بات کے اِس نازک عمل میں با معنی حل کے لیے دباؤ بڑھتا ہے، ایک دہشت گرد حملہ یا دھماکہ خیز سانحہ اِس سارے عمل کو دوبارہ صفر پر لے آتا ہے۔ یہی کچھ یہاں رونما ہو رہا ہے۔ موجودہ ریاستی ڈھانچے اور اِستحصالی اصلاحات کو برقرار رکھنے کے لیے حکمران طبقات کو اِس قسم کی محدود عداوت اور کبھی کبھار کی رسمی دوستی اور امن کی ضرورت ہے۔ تاہم موجودہ نظام میں ’معمول کے حالات ‘ ایک دیوانے کا خواب ہی ہیں۔ لیکن غربت، اِستحصال، ذلت ، جبراور رُسوائی خطے کے عام عوام کے صبر سے باہر ہو رہے ہیں۔ ایک دفعہ یہ انقلاب کی صورت میں پھٹ پڑے تو مکمل تبدیلی سب کچھ اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ 1946ء کا اِنقلاب بلند سطح پر دہرایا جائے گا اور یقیناًاِنقلابات سرحدوں کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتے۔ اس جبر و استبدادکا حل صرف اور صرف برصغیر کی ایک رضا کارانہ سوشلسٹ فیڈریشن ہی ہے۔

Translation: The Struggle (Pakistan)