بلدیہ ٹاؤن کراچی: یہ ’’قومی‘‘ سانحہ نہیں بلکہ طبقاتی استحصال کی پیداوار ہے

کراچی میں کپڑے کے کارخانے میں لگنی والی ہولناک آگ جس میں 289مرد، عورتیں اور بچے مارے گئے اور کئی سو جھلس کر شدید زخی ہو گئے، جہاں کسی قید خانے کی طرح دروازے مقفل تھے، ایسے واقعات پاکستانی مزدوروں کے لیے معمول بن چکے ہیں۔اس واقعے سے وہ حالات عیاں ہو گئے ہیں جن میں مزدوروں کو کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

اسی روز لاہور میں جوتوں کے ایک کارخانے میں 25 سے زائد مزدور جھلس کر مر گئے اور کئی زندگی بھر کے لیے اپاہج ہو گئے۔اس قہر کی شدت اس قدر زیادہ تھی اور اتنی بڑی تعداد میں لوگ صرف ایک واقعے میں مارے گئے کہ حکمرانوں کا دلال میڈیا بھی یہ سب دکھانے پر مجبور ہو گیا۔

صرف لاہور میں آٹھ ہزار ایسے کارخانے موجود ہیں جہاں کسی بھی وقت اس طرح کی تباہ کن صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ کراچی اور پاکستان کے دیگر شہروں میں ایسے مزید کئی ہزار کارخانے ہیں جن میں اس طرح کے واقعات کا خطرہ رہتا ہے۔ محنت کشوں کی بربادی کا اندازہ لاہور کی آگ میں بچ جانے والے ایک مزدور کے بیان سے لگایا جا سکتا ہے کہ ’’ہر کسی کو ایک روز مرنا تو ہے۔ مجھ جیسا انسان اگر کام نہیں کرے تو فاقوں سے مر جائے گا‘‘۔

میڈیا میں سیاسی اشرافیہ، دولت مند کاروباریوں، ریاستی حکام اور سرمایہ داری کے عذر خواہ دانشورو ں کی جانب سے ایک کان پھاڑ دینے والا شور اور ہنگامہ ہے۔ بے پناہ دولت سمیٹ کر عیش و عشرت کے مزے لوٹنے والے اس نظام کے نمائندے مگر مچھ کے آنسو بہا رہے ہیں۔ اگر ان کی زندگیوں کا موازنہ پاکستان کے عوام کے حالات سے کریں تو وہ کسی اور سیارے کے مقیم معلوم ہوتے ہیں۔

پاکستان کے کارپوریٹ میڈیا کے کے تجزیہ نگار اس ہولناک تباہی کی وجوہات کے متعلق طرح طرح کی تھیوریاں پیش کر رہے ہیں جن میں ہر کسی اور ہر محکمے پر الزامات لگائے جا رہے ہیں لیکن اصلی مجرم کی جانب کوئی بھی اشارہ نہیں کر رہا جو کہ پاکستان کا گلا سڑا ہوا سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ عوام کو بہکایا جا رہا ہے تا کہ وہ اس عذاب کے حقیقی خالق کو نہ پہچان پائیں۔

یہ وحشت ناک المیہ ایک بنیادی سوال کو اٹھاتا ہے۔ اگر سرمایہ دار مزدوروں کو مناسب اجرت، پینشن، صحت کی سہولیات، مناسب حفاظتی اقدامات مثلاً آگ سے بچنے کا بندوبست(Fire Proofing)، صنعتی پیداوار کے لیے جدید انفرا سٹرکچر کی تعمیر اور اچھا میعار زندگی دینا شروع کر د یں تو کیا وہ محنت کشوں کو نچوڑ کر کمائے جانے والے منافع کی بے پناہ شرح قائم رکھ سکتے ہیں ؟ اس کا جواب صاف نفی میں ہے!

’’آزادی‘‘ کے بعد پاکستان کے تاخیر زدہ حکمران طبقہ کو عالمی منڈی کا سامنا کرنا پڑا جس پر پہلے سی سامراجی قوتوں کا غلبہ اور معاشی اور تکنیکی اجارہ داری قائم تھی۔ان کی ریاست کبھی بھی جدید انفرا سٹرکچر کی تعمیر اور صنعتی انقلاب کے فریضے پورے کرنے کی صلاحت نہیں رکھتی تھی۔

اس لیے شرح منافع کے حصول کے لیے انہیں محنت کشوں کا آخری حد تک استحصال کرنا پڑا۔لیکن ان کے لیے یہ بھی ناکافی تھا او ر انہیں دولت کی کبھی نہ پوری ہونے والی ہوس کی تسکین کے لیے وسائل کی چوری، ٹیکس میں غبن اور ریاست میں لوٹ مار کرنا پڑی۔ نتیجتاً ریاست خود اس لوٹ مار سے مستفید ہونے لگی اور کاروبار کا حصہ بن گئی۔یہ کوئی حادثہ نہیں کہ پاکستانی فوج کا ایک ذیلی ادارہ پاکستان کا سب سے بڑا کاروباری گروپ ہے جس کی معیشت میں 27ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہے۔ اور یہ تو صرف پاکستان کی قانونی معیشت ہے جس کاپاکستان کی کل معیشت میں صرف ایک تہائی حصہ ہے۔ ریاست کے انتہائی نچلے درجے بھی رشوت اور کرپشن کے اس بازار میں شامل ہیں۔ چناچہ صنعتی حفاظتی اقدامات کے انسپکٹروں، پولیس اور دیگر محکموں پر غفلت کا الزام لگانا در حقیقت مجرم اشرافیہ اور کرپشن پر کھڑے نظام کے جرم پر پردہ ڈالنے کا ایک بے شرم تماشہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ نچلے درجے کے ریاستی اہلکار ’ایمانداری‘ کے ساتھ گزارہ کر ہی نہیں سکتے۔ افراد کو الزام دے کے کر بڑی حقیقت کو چھپایا جاتا ہے۔ ایک درخت پر نظر جمانے سے سارا جنگل اوجھل ہو جاتا ہے۔

انکوائریاں، تحقیقاتی کمیشن، عدالتی چھان بین اوردھوکہ دہی کے ایسے دیگر ہتھکنڈوں کی پاکستان میں بہت پرانی تاریخ ہے۔ عوام میں عام تاثر یہ ہے کہ ہر حکومت نے ان ہتھکنڈوں کو سلگتے ہوئے مسائل اور بڑے واقعات میں تاخیرکر کے زائل کرنے اور ان سے توجہ ہٹانے کے لیے استعمال کیا ہے۔ پاکستان میں اگر کسی مسئلے کو دفن اور فراموش کرنا ہو تو اسکے لیے عدالتی کمیشن بنا دیے جاتے ہیں جن کے نتائج کبھی بھی منظر عام پر نہیں آتے۔

کراچی اور لاہور میں محنت کشوں کے قتل کا بھی یہی انجام ہو گا۔ مگر مچھ کے آنسو بہانے کے بعد سب کچھ پھر سے معمول کے مطابق چلنے لگے گا۔مزید محنت کش اور کسان کارخانوں میں آگ لگنے، صنعتی حادثات، ریاستی دہشت گردی اور دیگر وحشت ناک کاروائیوں میں مارے جائیں گے۔ سرکاری خرچے پر نئے کمیشن بنائے جائیں گے جن کی زبان اس قدر پیچیدہ ہو گی کہ عام عادمی سمجھ ہی نہ سکے۔پھر وقت گزرنے کے ساتھ معاملہ ٹھنڈا پڑتا جائے گا۔ سرمایہ داری کی چکی محنت کش عوام کے خون، پسینے اور ہڈیوں سے بے پناہ منافع بناتی جائے گی اور ایسے درد ناک مظالم مستقبل میں دہرائے جائیں گے۔

حکمران طبقہ اوراس کے پیٹی پورژوا پٹھو یعنی نام نہاد ’’سول سوسائٹی‘‘ چراغ جلا سوگ منانے اور ٹی وی پر آکر اظہار افسوس کر رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک بے شرم حد تک کرپٹ اور لمپن کاروباری نے سوگوار خاندانوں کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے معاوضے کی رقم کی پیشکش کی ہے۔ اول تو ان آسرا خاندانوں کی طرف پھینکے گئے ان ٹکڑوں کی تقسیم پر خاندانی تنازعات جنم لیں گے اور دوسری جانب بمشکل ہی کچھ اس کرپٹ افسر شاہانہ نظام کے چنگل سے بچ کر متاثرین کے خاندانوں تک پہنچ پائے گا۔ یہ میڈیا پرچلائے جانے والا ایک شعبدہ ہے اور قوی امکان ہے کہ کبھی حقیقت میں نہیں بدلے گا۔ وزیر داخلہ نے ایک اورپیشن گوئی کی ہے کہ اس میں بیرونی ہاتھ اور دہشت گردی ملوث ہے۔ کتنی آسانی کے ساتھ یہ تھیوری گھڑ ی لی گئی !یہ لوگ کس حد تک نیچ ہو سکتے ہیں؟

بڑے بیوپاری اور اشرافیہ کے سیاست دان چیخ رہے ہیں کہ یہ ایک ’قومی‘ سانحہ ہے۔ مرنے والے بدحال محنت کش اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جسے حکمران طبقات نے ’’قوم‘‘ کے نام پر غلام، مجبور اور محروم بنا کر استحصال کا شکار کر رکھا ہے۔ قومیتوں پر جبر، عورتوں سے امتیازی سلوک، مذہبی اقلیتوں کے ساتھ نفرت کا برتاؤ، مخالف اسلامی فرقوں کے گلے کاٹنے کو تیار شیعہ، سنی، وہابی اور دیگر بنیاد پرستوں کے مابین خونریزی، یہ سب ایک قوم ہونے کی علامات تو نہیں۔

تاہم فیصلہ کن لڑائی طبقات کے درمیان ہے، امیر اور غریب کے درمیان۔ یہ محنت کش طبقے کا سانحہ ہے جس نے بے پناہ جبر اور قومی شاؤنزم، مذہبی جنونیت،میڈیا اور ریاست کی جانب سے عوامی شعور پر مسلط کردہ جھوٹی حب الوطنی کے ہاتھوں سرمایہ دارای کے بہت عذاب سہے ہیں۔ عوام نے 1968-69ء میں اپنی زنجیریں توڑ ڈالی تھیں۔ ان کی جدوجہد قومی جدوجہد نہیں بلکہ ایک طبقاتی جنگ ہے۔ اسی راکھ سے محنت کش طبقہ انتقام کی آگ لیے پھر سے ابھرے گااور فتح اس کا مقدر بنے گی!

Source: The Struggle (Pakistan)