Urdu

7 اور 8 جولائی2013ء کوکشمیر کے شہر راولاکوٹ میں نیشنل مارکسی سکول (گرما) کا انعقاد کیا گیا جس میں پورے پاکستان سے 270 سے زائدکامریڈز نے شرکت کی۔ دو روز تک جاری رہنے والا یہ سکول مجموعی طور پر چارسیشن پر مشتمل تھا۔ سکول سے ایک دن پہلے راولاکوٹ میں ایک یوتھ کانفرنس کا انعقاد بھی کیا گیا تھا۔

مورخہ 6 جولائی کوجموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے زیر اہتمام منعقدہ ’’سوشلسٹ کشمیر کانفرنس‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ سائنسی سوشلزم تاریخ کا واحد سچ ہے جو انسانیت کے بہتر اور محفوظ مستقبل کی نوید ثابت ہو سکتا ہے۔ سوشلزم کشمیر سمیت تمام محکوم قومیتوں کے قومی اور طبقاتی استحصال کے خاتمے کا ضامن نظریہ ہے جس پر کاربند ہوتے ہوئے اس خطہ سے سرمایہ داری کا خاتمہ کر کے ایک غیر طبقاتی اور استحصال سے پاک سماج کا قیام عمل میں لایا جا سکتا ہے۔ قومی جمہوری انقلاب اور سرمایہ دارانہ بنیادوں پر قومی علیحدگی کے نظریات تاریخ کی کسوٹی پر متروک ہو چکے ہیں، سرمایہ دارانہ نظام عالمی طور پر متروک ہو کر پوری دنیا میں انسانیت کو بربریت میں دھکیل رہا ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری، توانائی کا

...

جاہ و جلال سے بھرپور نواز شریف کی حلف برداری کی تقریب اورنئی جمہوری حکومت کے قیام کو حکمرانوں کے ذرائع ابلاغ نے عوام کے شعور پر مسلط کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت تک اقتدار کی منتقلی کو بہت بڑا کارنامہ قرار دیا جارہا ہے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ حلف برداری کے بعد نواز شریف کی الیکشن مہم میں کئے گئے ’انقلاب‘ کے وعدے سبز باغ بن کے رہ گئے ہیں۔ حکومت کی یہ جمہوری تبدیلی، اس نظام کی ظلمتوں سے بدحال پاکستان کے کروڑں محنت کش عوام کی زندگیوں میں کوئی بہتری نہیں لائے گی۔ یہاں جمہوریت دولت کی لونڈی ہے۔ حالیہ انتخابات میں انتخابی مہم پر اخراجات کی بہت سی حدین مقرر کی گئیں لیکن سب جانتے ہیں یہ پاکستان کی تاریخ کے مہنگے ترین انتخابات تھے۔ یہاں کے

...

مصر ی تاریخ کے سب سے بڑے عوامی مظاہرے تادم تحریر جاری ہیں۔ مصری وزارتِ داخلہ کی اپنی رپورٹ کے مطابق ایک کروڑ چالیس لاکھ لوگ پورے ملک میں سڑکوں پر موجود ہیں۔ بعض عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ ’’تاریخ کے سب سے بڑے سیاسی مظاہرے‘‘ ہیں اور مظاہرین کی تعداد تین کروڑ تک بتائی جارہی ہے۔ یہ تحریک 2011ء سے کئی گنا بڑی ہے۔ مظاہرین نے قاہرہ میں واقع اخوان امسلمون کے مرکزی دفتر کو نذر آتش کر دیا ہے۔ پورے مصر میں اخوان المسلمون کا شائد ہی کوئی دفترایسا ہو جسے عوام نے اپنے قہر کا نشانہ نہ بنایا ہو۔ ریاست ہوا میں معلق ہے۔ مصری حکام کے مطابق اب تک پانچ وزراء محمد مورسی کی کابینہ سے استعفیٰ دے چکے ہیں۔ فوج نے مورسی حکومت کو مظاہرین کے مطالبات پورے کرنے کے لئے 48 گھنٹے کہ مہلت دی ہے۔ تشدد کے

...

22 جون کو کشمیر ریجن کی سالانہ ریجنل کانگریس کا انعقاد راولاکوٹ میں کیا گیا۔ عمومی طور پر کشمیر میں ترقی پسند سیاست میں ایک گراوٹ اور زوال کے ماحول کے باوجود IMT کے کشمیر ریجن کی کانگریس اپنی کامیابی کا ثبوت خود ہے۔487 کامریڈز نے کشمیر کے تمام اضلاع سے بھرپور انقلابی جوش و جذبے کے ساتھ شرکت کی۔

قطر میں طالبان کے دفتر کے ’’افتتاح‘‘ اور مذاکرات کے امکانات کے بارے میں گرما گرم خبریں میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔ قطر کے رجعتی حکمرانوں نے جو محل نما دفتر طالبا ن کو دیا ہے اس سے سعودی اور خلیجی بادشاہتوں کی طرف سے طالبان کے کچھ گروہوں کی پشت پناہی اور اس خطے میں اپنی اجارہ داری داری قائم رکھنے کی پالیسی پوری طرح واضح ہوجاتی ہے۔ طالبان نے اپنا پرچم لہرا کر اس دفتر کو ’’اسلامی امارات‘‘ کے مرکز کا درجہ دیا ہے جس پر حامد کرزئی بہت برہم ہے۔ اس نے القاعدہ سے ناطے توڑنے اور موجودہ افغان حکومت کو تسلیم کرنے کی قبل از مذاکرات شرائط کو رد کر کے امریکی وزیرخارجہ جان کیری کو یہ بیان دینے پر مجبور کیا ہے کہ ’’مذاکرات اپنے آغاز سے پہلے ہی ناکام ہوسکتے ہیں۔‘‘ امریکی کٹھ پتلی حکومت کے صدر

...

2008ء میں سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخ کے سب سے بڑے معاشی کریش کے بعد یورپ، امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک کی معیشتیں بحالی کی بجائے مزید اقتصادی و مالیاتی بحرانوں میں ڈوبتی چلی جارہی ہیں۔ عالمی سرمایہ داری کے ماہرین کا خیال تھا کہ ’’ابھرتی‘‘ ہوئی معیشتیں (جن میں برازیل، روس، ہندوستان، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں )سرمائے کے ڈوبتے ہوئے سفینے کو سہارا دیں گی اور سرمایہ داری کو اس عالمی بحران سے نکالنے میں کردار ادا کریں گی، لیکن پچھلے پانچ سالوں میں حکمرانوں کی یہ امیدیں اور خواب چکنا چور ہوچکے ہیں۔ چین کی شرح نمو 11 فیصد سے کم ہو کر 7.2 فیصد، ہندوستان کی 10 فیصد سے 5.5 فیصد جبکہ برازیل کی شرح نمو 7فیصد سے گر کر 0.9 فیصد تک آگئی ہے۔ یہ تمام تر ممالک جہاں سرمایہ دارانہ نظام کی

...

پاکستان کی سیاست میں عمران خان کی سونامی ’آنے اور چھا جانے‘ میں ناکام ہو گئی ہے۔ انتخابات کے نتائج آنے کے ساتھ تحریکِ انصاف کے حامیوں کی امیدیں دم توڑ گئیں۔ مالیاتی سرمائے کے جبر اور پیپلز پارٹی کی موجودہ موقع پرست قیادت کی غداری کے باعث نظریاتی سیاست کے پسِ منظر میں چلے جانے کے عہد میں رائج الوقت نظام کو چیلنج کرنے والی ایک نئی سیاسی تنظیم کے لیے ایک بے کراں خلا موجود تھا۔

’’یہ سوال کہ آیا انسانی غور و فکر بجائے خود حقیقی وجود رکھتا ہے یا نہیں، کسی طرح بھی نظریاتی سوال نہیں، یہ عملی سوال ہے۔ انسان پر لازم ہے کہ عمل میں اپنے غورو فکر کی صداقت ثابت کر کے دکھائے، یعنی اس کی اصلیت اور اس کی طاقت کو، اور ادھر والے رخ کو ثابت کرے۔ غور وفکر کے حقیقی وجود ہونے یا نہ ہونے کی بحث، جب اسے عمل سے بیگانہ کرکے زیر غور لایا جائے، محض عمل، خیالی بحث ہو کر رہ جاتا ہے۔ ‘‘ (مارکس، فیورباخ پر دوسرا تھیسس)

وزیرستان میں موجود کامریڈز کے مطابق مسلم لیگ (ن)  کی جیت بڑے پیمانے پر دھاندلی کا نتیجہ تھی۔ 11مئی کو الیکشن نتائج آنے کے فوراً بعد سے ہی کامریڈ علی وزیر کی فتح کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں شروع کر دی گئیں تھی۔ 8مئی کو کامریڈ علی وزیر نے اپنی انتخابی مہم کے دوران 30000 ہزار افراد پر مشتمل ریلی کی قیادت کی تھی۔ اس شاندار ریلی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ مقامی لوگوں میں کتنے مقبول ہیں۔ سماجی دباؤ کی وجہ سے خواتین کی بہت بڑی تعداد اگرچہ اس ریلی میں شریک نہیں ہو سکی لیکن انتخابات کے دن بے شمار خواتین نے کامریڈ علی وزیر کو ووٹ دیا۔

بّرِاعظم یورپ اور ایشیا کو ملانے والا ترکی کا شہر استنبول 2 جون کی صبح خاموش تھا۔ گزشتہ رات طوفانی واقعات سے بھرپور تھی۔ شہری اپنی مدد آپ کے تحت رات ہونے والے مظاہروں کا ملبہ اور بکھرا ہوا کوڑا کرکٹ صاف کررہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ رات کا عوامی طوفان ٹل گیا ہے۔ ایوانوں میں بیٹھے خوفزدہ حکمران بھی سمجھنے لگے تھے کہ ان کا بھیانک سپنا ختم ہو رہا ہے۔ لیکن جوں جوں اتوار کا دن ڈھلنے لگااستنبول کے تکسیم اسکوائر پر مجمع بڑھنے لگا، شام تک لاکھوں مظاہرین ایک بار پھر اس اسلامی جمہوری حکومت (جسے وہ بد ترین آمریت گردانتے ہیں) کے خاتمے تک جدوجہد جاری رکھنے کا اعادہ کر رہے تھے۔ دو دن پہلے ترکی کی فضاؤں میں بلند ہونے والے انقلابی نعروں سے تکسیم اسکوائر ایک بار پھر گونج رہا تھا اور اس گونج

...

28 مئی کو پورے ملک میں پاکستان کے ایٹمی طاقت ہونے کا جشن منایا جارہا ہے۔ انسانی بربادی کے ان آلات کی نمائش کاہر طرف تماشا لگایا جائے گاتا کہ خلق خدا مزید مرغوب اور حکمرانوں کے جاہ وجلال کی مطیع ہوسکے۔

اکثر کہا جاتا ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے لیکن ضرورت اور ایجاد کا باہمی تعلق درحقیقت جدلیاتی ہے۔ کوئی ایجاد جب سماج کے اکثریتی حصے کی پہنچ میں آجائے تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ضرورت بن جاتی ہے۔ بجلی کے حوالے سے بھی یہ بات بالکل درست ہے۔ بجلی انسانی زندگی کا ایک لازمی حصہ بن چکی ہے۔ پنجابی میں ایک بہت دلچسپ روایتی کہانی ہے۔ ایک غریب کسان رات کے اندھیرے میں گندم کی بوری چھت پر لیکر جارہا تھا۔ اس کے ساتھی نے ماچس جلائی تاکہ سیڑھیوں کو روشن کرسکے۔ کچھ لمحوں بعد ماچس بجھ گئی۔ اس کسان نے غصے سے کہا ’’تم نے تو مجھ سے میرا اندھیرا بھی چھین لیا ہے۔‘‘ جب ماچس بجھی تو اس کی آنکھیں، جو اندھیرے کا عادی ہوگئی تھیں ، وہ پہلے کی طرح اندھیرے میں دیکھنے سے قاصر تھیں۔ بجلی، لوڈ شیڈنگ

...

گزشتہ ہفتے منعقد ہونے والے ’صاف اور شفاف‘ عام انتخابات میں کچھ پولنگ سٹیشنوں پر سو فیصد سے زیادہ اور کچھ جگہوں پر دو سو فیصد ٹرن آؤٹ دیکھنے میں آیا۔ بلوچستان میں خاص طور پر صورتحال اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز رہی۔ڈیلی ٹائمز میں چھپی ایک رپورٹ کے مطابق ’’اگرچہ الیکشن کمیشن کے مطابق ووٹ ڈالنے کی شرح 50 فیصد سے زیادہ تھی، تاہم مقامی بلوچ سیاسی کارکنان کے مطابق یہ شرح محض 3 فیصد رہی۔ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ عسکریت پسندوں کی جانب سے دھمکیوں اور بلوچستان نیشنل فرنٹ، بلوچ ری پبلیکن پارٹی جیسی قوم پرست جماعتوں کی جانب سے بلوچ اکثریتی علاقوں میں پہیہ جام ہڑتالوں کی وجہ سے انتخابات سے قبل جلسے جلوس ممکن نہیں ہو سکے اور الیکشن کے روز صوبے بھر میں ووٹ ڈالنے والوں کی شرح بہت ہی کم

...