Urdu

18 جون کو اسلامی جمہوریہ ایران نے صدارتی انتخابات منعقد کروائے، جن کا وسیع پیمانے پر عوامی بائیکاٹ کیا گیا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ٹرن آؤٹ 48 فیصد رہا، جس میں ریاست کے چہیتے امیدوار رئیسی کو 61.9 فیصد ووٹ پڑے، جبکہ دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ تعداد یعنی 12.8 فیصد بلینک ووٹوں (جس میں احتجاجاً کوئی بھی نمائندہ منتخب نہیں کیا جاتا) کی رہی۔ بہرحال حقیقی ٹرن آؤٹ اس سے بھی کم ہونے کا امکان ہے، جو کچھ اندازوں کے مطابق 25 سے 35 فیصد رہا۔ اطلاعات کے مطابق بعض پولنگ اسٹیشن بالکل خالی پڑے رہے۔ یہ انتخابات محض ایک دکھاوا تھا، جس میں اسلامی جمہوریہ کی تاریخ کا سب سے کم ترین ٹرن آؤٹ اور بلینک ووٹوں کی سب سے بڑی تعداد دیکھنے کو ملی۔ یہ سب کچھ ایسی صورتحال میں دیکھنے کو ملا جب ہڑتالوں

...

حالیہ G7 اقوام کے اجلاس کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی عالمی سٹیج پر واپسی اور چین کے ابھار کو روکنے کی کوشش قرار دیا جا رہا تھا، اس حوالے سے اس اجلاس کی کافی چرچا کی گئی۔ لیکن تمام تر دعووں کے برعکس سربراہی اجلاس نے مغربی سامراج کے انحطاط اور عدم اتحاد پر مہر ثبت کر دی۔

پچھلے سال پوری دنیا میں حکومتوں نے حیرت انگیز ریاستی امداد کے ذریعے لرزتی سرمایہ داری کو قائم رکھا۔ لیکن ان ہیجانی اقدامات نے عالمی معیشت کی بنیادوں میں بارود بھر دیا ہے۔ اس بارود کے پھٹنے کا وقت آ گیا ہے۔ آج سے سو سال پہلے جون 1921ء میں لیون ٹراٹسکی نے کمیونسٹ انٹرنیشنل کی تیسری کانگریس میں خطاب کرتے ہوئے عالمی معاشی صورتحال کا تجزیہ کیا اور سرمایہ داری کے حوالے سے تناظر پیش کیا۔

غزہ کے اوپر گیارہ دن تک سنگدلانہ بمباری کے بعد، جس نے 240 سے زائد فلسطینیوں کی جانیں لیں (جس میں تقریباً آدھے خواتین اور بچے تھے) اور ہزاروں کو زخمی کیا، اسرائیل بالآخر جنگ بندی پر راضی ہو گیا۔ بمباری کی وجہ سے 75 ہزار افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ ان کے گھروں کو برباد کر دیا گیا اور انتہائی اہم عمارتوں کو بھی شدید نقصان پہنچا، جن میں سکول، ہسپتال (بشمول کرونا کی تشخیص اور ویکسین کا واحد مرکز)، بجلی اور صاف پانی کی عمارتیں شامل ہیں۔ غزہ کی آبادی کو کئی سالوں تک اسرائیل کے اس حملے کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔

اس مہینے کے اوائل میں، عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے زیرِ نگرانی قائم انڈیپنڈنٹ پینل نے عالمی سطح پر کرونا وباء کے حوالے سے ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی۔ حیران کن طور پر اس رپورٹ میں بحران کا الزام انہی لوگوں پر لگایا گیا جو حقیقت میں اس کے ذمہ دار ہیں یعنی سرمایہ دار سیاستدانوں اور مالکان پر۔ ہر جگہ پر موجود بربریت اور بے تحاشا تکالیف کے اس دور میں، ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ سے کرونا وباء کے حوالے سے حکمران طبقے کی سفاکیت کا اندازہ ہوتا ہے، جس میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ اس وباء کو آسانی سے روکا جا سکتا تھا۔

ساری دنیا کو ایک دفعہ پھر کرونا وباء کی شدت کا سامنا ہے، جس میں نیپال بھی شامل ہے۔ یہاں روزانہ کی بنیاد پر کرونا کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے، نیپال کی وزارتِ صحت و آبادی کے مطابق کرونا کے مریضوں کی مجموعی تعداد 3 لاکھ 43 ہزار 418 تک پہنچ چکی ہے، جبکہ اموات کی تعداد 3 ہزار 362 ہے۔ پچھلے کئی دنوں سے روزانہ 8 ہزار نئے کیس رجسٹر ہو رہے ہیں۔

کورونا وباء کو سولہ ماہ گزر چکے ہیں اور اطلاعات کے مطابق اس سے اب تک 69 لاکھ افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ سرمایہ داری اپنی تاریخ کے عمیق ترین بحران میں دھنس چکی ہے اور حکمران طبقات آپس میں پیٹنٹ ختم کرنے، برآمدات پر پابندی لگانے اور اپنے آپ کو سب سے پہلے رکھنے پر کتوں کی طرح لڑ رہے ہیں۔

ایک نئی انکشافاتی رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ کس طرح سرمایہ داری کا بحران ایک پوری نسل کے مستقبل پر ڈاکہ ذن ہے، خاص کر کورونا وبا کے اُبھار میں جس نے نظام کے گلنے سڑنے کے عمل کو مزید گہرا اور شدید کردیا ہے۔

غزہ میں اسرائیلی بمباری سے ابھی تک 65 فلسطینی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جن میں 16 بچے بھی شامل ہیں، اور سینکڑوں افراد زخمی ہوئے ہیں، جبکہ غزہ کے علاقے سے مارے جانے والے میزائلوں کے نتیجے میں 6 اسرائیلی لقمہ اجل بنے ہیں۔ بین الاقوامی میڈیا نے ایک دفعہ پھر اسرائیل کی بمباری کو حماس کی جانب سے مارے جانے والے میزائلوں کے خلاف جائز کارروائی کے طور پر پیش کیا ہے۔ البتہ، ہمیشہ کی طرح، انہوں نے اسرائیل اور فلسطین میں اس بحران کی شدت کی اصل وجوہات کے حوالے سے مکمل یک طرفہ مؤقف اپنایا ہوا ہے۔

کرونا وباء کی دوسری لہر نے پورے انڈیا کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے، جہاں روزانہ تقریبا 4 لاکھ نئے کیس رجسٹر ہو رہے ہیں؛ اگرچہ یہ سرکاری اعداد و شمار حقیقت سے بہت کم ہیں۔ ملک بھر کی صورتحال کسی بھیانک خواب کی طرح لگ رہی ہے۔ مگر بالخصوص سماج کی غریب ترین پرتوں کے لیے یہ کسی جہنم سے کم نہیں۔

پیوٹن حکومت، جو اپنی بقا کے لیے بڑھتے ہوئے بے رحم اور ظالمانہ جبر پر انحصار کر رہی ہے، کی بنیادوں میں دراڑیں پڑنا شروع ہوگئی ہیں۔ حکومت بحران کے دور میں داخل ہو چکی ہے اور روسی آبادی کی بڑی اکثریت اس پر کھلے عام تنقید کر رہی ہے۔ اس ساری صورتحال کے پیشِ نظر، سوال ابھرتا ہے کہ؛ روسی وفاق (رشین فیڈریشن) کی کمیونسٹ پارٹی کا رد عمل اب کیا ہوگا؟

7 اپریل 2021ء کو، جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول، اور بوسان جہاں اہم بندرگاہ بھی موجود ہے، میں ووٹروں نے حکومتی ڈیموکریٹک پارٹی (ڈی پی) کو زبردست انداز میں مسترد کیا۔ اگرچہ اس کے نتیجے میں قدامت پرست پیپل پاور پارٹی (پی پی پی) نے ان دو اہم شہروں کا اقتدار سنبھال کیا ہے مگر درحقیقت یہ جنوبی کوریا کے عوام کی جانب سے صدر ’مُون جے اِن‘ اور پورے سیاسی اسٹبلشمنٹ دونوں کے خلاف نفرت کا اظہار تھا۔ دنیا بھر کے کئی دیگر ممالک کی طرح، یہاں بھی محنت کش طبقے کے گرد منظم سیاسی متبادل کی اشد ضرورت ہے۔

انگلینڈ بھر میں فٹ بال شائقین کے بڑے پیمانے پر مظاہروں کی بدولت یورپی سپر لیگ کے منصوبوں کو بالآخر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ شائقین کی ایک بڑی فتح ہے۔ لیکن ’عام عوام کے کھیل‘ پر منافع خوری اور اس کی لوٹ مار کو روکنے کی لڑائی اب بھی جاری ہے۔

پچھلے موسمِ گرما میں، امریکی ریاست کے اندر کروڑوں افراد نے بلیک لائیوز میٹر کی تحریک میں شرکت کی، جو پولیس کے ہاتھوں جارج فلوئیڈ کے نسل پرستانہ قتل کے خلاف ابھری تھی۔ تقریباً ایک سال بعد، 20 اپریل 2021ء کو، اس کا قاتل ڈیرک شاوین تین الزامات کے تحت سزاوار قرار پایا؛ سیکنڈ ڈگری غیر ارادی قتل؛ تھرڈ ڈگری ”شیطانی ذہنیت“ کے تحت قتل؛ اور سیکنڈ ڈگری قتلِ عام۔ شاوین کو مجرم قرار دیے جانے سے حقیقی انصاف کا دور تک کوئی واسطہ نہیں، جارج فلوئیڈ اور وہ سب جو مسلسل پولیس کے جبر کا شکار ہیں، اب بھی انصاف سے محروم ہیں۔

ترکی پچھلے کئی ہفتوں سے مختلف وجوہات کی بناء پر عالمی سرخیوں کی زینت بنا رہا ہے۔ ان میں سے ایک اہم خبر 19 مارچ کو مرکزی بینک کے گورنر ناچی آگبال کی برطرفی تھی، جس کے فوری بعد اس کے نائب گورنر کو بھی برطرف کر دیا گیا۔ اردگان کے اس اقدام کے نتیجے میں ایک دن کے لیے لیرا کی قدر میں 15 فیصد کی شدید گراوٹ دیکھنے میں آئی۔ حیرت میں ڈوبے مین سٹریم بورژوا معیشت دانوں نے اردگان کے اس رویے کو پاگل پن اور غیر متوقع قرار دیا۔ مگر اس پاگل پن کے پیچھے کچھ وجوہات کارفرما ہیں۔ سب سے بڑھ کر، اردگان ایک سماجی دھماکے سے خوفزدہ ہے۔