اقوامِ غیر متحدہ

Urdu translation of Obama and the dis–United Nations (28 September 2011)

بدھ کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے باراک اوباما کا خطاب کسی اور سیارے کے متعلق کسی اور سیارے سے ہونے والی تقریر محسوس ہو رہی تھی۔اس کا فن خطابت اور لفاظی ماند پڑ چکی ہیں۔

اسے اپنے الفاظ پر خود بھی یقین نہیں تھا۔ جنگوں، مختلف خطوں کی صورتحال اور عالمی سرمایہ دارانہ معیشت کے مستقبل کے متعلق گفتگو جارج اورویل کے ناول کی ’’ نئی زبان‘‘ کے جیسی تھی۔ اس کا مجروح اعتماد، جسے بحال کرنے کی وہ بے پناہ لیکن بے سود کوشش کر رہا تھا، سب سے بڑھ کر تاریخ کی سب سے قوی سامراجی طاقت کے زوال اور گلنے سڑنے کی نشان دہی کر رہا تھا۔

امریکی افواج کے انخلاء پر اصرار اور ایک پر امن دور کے مبہم وعد ہ کو اس وقت پر رونما ہونے والے واقعات جھٹلا رہے تھے ۔افغانستان پر جارحیت بہت غلط شکل اختیار کر گئی ہے۔ پاکستانی فوج کے ساتھ تضادات خطرناک حد وں تک جا رہے ہیں۔ یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ پاکستانی جرنیل امریکی الٹی میٹموں اور سفارتی دھمکیوں پر عمل کریں گے یا نہیں۔

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ’ بہت سے سینیئر امریکی اہلکار برداشت کی انتہا تک پہنچ چکے ہیں‘۔ لیکن امریکی جرنیلوں کے لیے بھی ایک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ، 19کروڑ آبادی اور سات لاکھ فوج کے ملک پر حملے کا خیال آسان نہیں ہے۔

جمہوریت کی بے ہودہ تکرار کے ساتھ وہ ان آمروں کے خاتمے کو سراہ رہا تھا جو اپنے آخری وقت تک امریکی سامراج کے دم چھلے تھے۔ زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ جب حسنی مبارک کے اقتدار میں اوباما نے قاہرہ میں اپنی ’تاریخی‘ تقریر کی تھی۔ جس میں اس آمر حکومت پر ذرہ بھی تنقید نہیں کی گئی تھی۔ عرب میں امریکی سامراج کے سب سے بڑے ساتھی سعودی عرب نے عوامی بغاوتوں کے نتیجے میں برطرف ہونے والے ان آمروں کو پناہ دے رکھی ہے۔ جن اتحادی ممالک کا اس نے ذکر کیا ان میں مراکش، اردن، بحرین، متحدہ عرب امارات، قطر اور دیگر رجعتی بادشاہتیں اور جابر حکومتیں شامل ہیں۔ تاہم یہ ظالم حکومتیں بحران میں ہیں اور عوامی بغاوت کی ایک نئی لہر میں بہہ جائیں گی۔

لیکن اوباما کی تقریر کا سب سے گھٹیا حصہ اقوام متحدہ کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی مخالفت تھا۔ سفارتی منافقت کی انتہائی خوشنما لفاظی بھی رجعتی اسرائیلی ریاست کے حملے کے سامنے اس کی شرمناک پسپائی کو نہیں چھپا سکی۔

کانگریس، وائٹ ہاؤس اور امریکی کارپوریشنوں میں اپنی مضبوط لابی کے زور پر دائیں بازو کے صیہونی لیڈر امریکہ کی مشرق وسطیٰ میں پالیسی کا تعین کرتے ہیں۔ مغربی کنارے کے کمزور اور تابعدار فلسطینی لیڈر فلسطین کے درجے میں ووٹ کے حق سے محروم ’مبصر وجود‘ سے ’مبصر ریاست‘ کا عاجز مطالبہ لے کر آئے تھے۔ ویٹیکین سٹی ’مبصر ریاست‘ ہے۔ایسے بے معنی بیو روکریٹک ’درجے‘ کی تبدیلی پر گھبراہٹ امریکی اور اسرائیلی حکمران طبقے کے اضطراب کو ظاہر کرتی ہے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ اسرائیلی ریاست کو اس کی بنیاد تک ہلا دینے والے بحران کا سامنا ہے۔ حکمران اشرافیہ اور نیتن یاہو کی حکومت ہل کر رہ گئے ہیں۔ اور یہ باہر سے نہیں ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران اسرائیل کے محنت کش اور نوجوان ایک انقلابی تبدیلی اور سماجی انصاف کے حصول کی خاطر نظام اور سیاست کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور اس تحریک کو اسرائیل کی 90فیصد آبادی کی حمایت حاصل ہے۔ صرف اس طبقاتی جنگ میں ہی پرولتاری اتحاد کی فتح صیہونی ریاست کو فیصلہ کن شکست اور آزادیِ فلسطین کو یقینی بنا سکتی ہے۔ اور مشرق وسطیٰ کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کے قیام کا عمل شروع ہو گا۔

’دو ریاستوں پر مبنی حل‘ ہمیشہ سے ہی ایک پر فریب خیال رہا ہے۔ کچھ سنجیدہ بورژوا تجزیہ نگار بھی اس سچائی کا اعتراف کرتے ہیں۔ حال ہی میں سی آئی اے کے سابقہ پالیسی ساز اور منجھے ہوئے صحافی ایرک ایس مارگولس نے حال ہی میں لکھا کہ ’’باہر کے بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دو ریاستوں کا حل ممکن ہے اگر باریک تفصیلات کو طے کر لیا جائے۔ راقم اس خوبصورت خیال سے متفق نہیں ہے۔

اسرائیل کا اشرافیہ مغربی کنارے اور گولان کی پہاڑیوں کے تمام علاقے کو قبضے میں رکھنے چاہتا ہے۔ اسرائیل کی یہ پالیسی رہی ہے کہ نہ ختم ہونے والے جھوٹے’ امن مذاکرات‘ جاری رکھتے ہوئے مغربی کنارے اور گولان کی پہاڑیوں میں انتہائی تیزی سے آباد کاری کی جائے۔فلسطین کے اقوام متحدہ میں یتیم درجے کی تبدیلی سے اس بنیادی مسئلے کا کوئی حل نہیں نکل سکتا‘‘۔

مسئلہ فلسطین اور دنیا میں اس جیسے کئی دیگر تنازعات نام نہاد اقوام متحدہ کے خصی پن، دھوکہ دہی اور اسکے غیر سنجیدہ کردار کو واضح کرتے ہیں۔ 1945ء میں اپنے قیام سے لے کر اب تک یہ ادارہ ایک بھی بڑے تنازعے کو حل نہیں کرا سکا۔ کشمیر، کانگو، جزیرہ نما کوریا اور ایک بہت لمبی فہرست ہے۔ اسرائیل کے سامراجی قبضے سے فلسطین کی آزادی کے لیے اقوام متحدہ 218قراردادیں پاس کر چکی ہے۔ ان قراردادوں کے نتائج سے ہم سب بخوبی آگاہ ہیں۔دوسری عالمی جنگ کے بعد ہونے والے تنازعات، جنگوں اور مسلح بغاوتوں میں دونوں عالمی جنگوں سے زیادہ اموات ہوئی ہیں۔ اور اس خون خرابے میں مسلسل شدت آرہی ہے۔ اقوام متحدہ سامراجی طاقتوں کی داشتہ رہی ہے اور اپنے ان مالکان کے مفاد میں کام کرتی رہی ہے۔ یہ دنیا بھر کے اربوں افراد پر جبر کرنے والے اشرافیہ کے لیڈروں کا بے ہودہ بحث کرنے کا کلب ہے۔لینن نے اس کے پیش رو لیگ آف نیشنز کو ’’چوروں کا باورچی خانہ‘‘ کہا تھا۔

اقوام متحدہ کا قیام ایک غلیظ معاہدے نتیجے میں ہوا جو ’فاتح‘ سامراجی طاقتوں اور بے ہودہ بیوروکریٹک مسخ شدہ سوشلسٹ ریاستوں کے مابین ہوا جہاں طبقاتی انقلابات قومی بنیادوں پر مسخ ہو گئے تھے۔دنیا کو تقسیم کر دینے والے یہ معاہدے 1944-45ء میں چرچل، روزویلٹ ، سٹالن اور ٹرومین کے درمیان یالٹا،تہران اور پوسٹ ڈیم میں ہوئے۔ چرچل اپنی کتاب ’فتح اور المیہ‘ میں لکھتا ہے کہ’’وہ کام کو نمٹانے کے لیے بہت مناسب گھڑی تھی، چناچہ میں نے کہا کہ ’ آؤ اپنے مسائل حل کرتے ہیں۔۔۔ ہمیں چھوٹے چھوٹے اختلافات میں نہیں الجھنا چاہیے۔۔۔میں نے کاغذ سٹالن کی جانب بھیجا۔۔۔اس نے اپنے نیلے قلم سے اس پر درست کا بڑا سا نشان لگایا۔ اس معاملے کو حل ہونے میں اتنا ہی وقت لگا جتنا لکھنے میں صرف ہوا۔۔۔اس کے بعد ایک لمبی خاموشی تھی۔بہت دیر بعد میں نے کہا ’کتنا عجیب و غریب اور بیہودہ لگتا ہے کہ کروڑوں افراد کی تقدیر کا فیصلہ ہم نے کتنی جلدی کر لیا‘‘۔ رد انقلابی نے اس غداری کا پردہ فاش کر دیا۔

اقوام متحدہ کی عمارت کا سنگ بنیاد امریکی صدر ٹرومین نے رکھا تھا، یہ وہی آدمی ہے جس نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی بم گرانے کا حکم دیا تھا جبکہ جاپانی ہتھیار ڈالنے پر تیار تھے۔ اوباما نے درست کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں سے فلسطین آزادی حاصل نہیں کر سکتا۔یہ اقوام غیر متحدہ ہے جو قومی تقسیم اور تنازعات سے فائدہ اٹھاتی ہے۔

سیاست اور سماج میں تمام سنجیدہ سوالات جنگوں اور انقلابات سے حل ہوتے ہے۔ سامراجی یہ نہ ختم ہونے والی خوفناک جنگیں لڑتے جا رہے ہیں۔ پرولتاریہ کا ہراول دستہ انقلاب کی تیاری کر رہا ہے۔

Translation: Chingaree.com (Urdu)