قذافی ؛سامراج دوست یا دشمن

Urdu translation of The nature of the Gaddafi regime – historical background notes (April 6, 2011)

فریڈ ویسٹن ۔ ترجمہ ؛اورنگزیب خان

چنگاری ڈاٹ کام28.04.2011

قذافی نے1969ء میں ہونے والی نوجوان فوجی افسروں کی بغاوت کے بعد اقتدارسنبھالا تھا ۔یہ بغاوت مصر کے صدر جمال عبدالناصر کی جانب سے شروع کی گئی،پین عرب ازم تحریک سے متاثر ہوکر کی گئی تھی ۔بادشاہ عبداللہ کے دور میں لیبیا مکمل طورپر سامراج کا حمایتی اور گماشتہ چلا آرہاتھا۔1967ء کی خلیجی جنگ میں اسرائیل کے ہاتھوں عربوں کی شکست کے بعد قذافی ،آزاد افسروں کی تحریک کے ساتھ منسلک ہوا ،یہ لیبیائی فوج کے وہ نئے جونیر افسر تھے جن میں اس جنگ میں شکست کے خلاف سخت غم وغصہ اور احساس ندامت پایا جاتاتھا۔ قذافی نے جو ہدف رکھا،وہ لیبیا کو جدید کرنے اور معیشت کو ترقی دینا تھا ۔قذافی نے یہ سارا کچھ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے کرنے کی کوشش کی۔جس سے اسے سامراج کے ساتھ تضادات اور تناؤ کا سامنا کرناپڑا۔اس نے اٹلی کی سابقہ نوآبادیاتی جائیدادوں کو قومی تحویل میں لینا شروع کر دیا ۔جبکہ اس نے1971ء میں ہی برطانیہ کی تیل پیدا کرنے والی کمپنی برٹش پٹرولیم کو بھی قومی تحویل میں لے لیا ۔برطانیہ کی جانب سے مخالفت نے لیبیا کو مجبور کر دیا کہوہ سوویت یونین یونین سے معاشی مدد مانگے ۔اس کے نتیجے میں سوویت یونین نے لیبیا سے1971 ء میں ایک معاہدہ کیا کہ وہ لیبیا کی تیل کی صنعت کو بہتر کرنے میں مدد کرے گا۔

اسی دور میں ہی قذافی نے کمیونزم کے خلاف اپنے روپ کو ظاہر کیا ،مثلاً 1971ء میں سوڈان کے کمیونسٹوں سے بھرا ہو اایک جہازسوڈان بھیج دیا جنہیں اس وقت کے صدر جعفر النمیری نے قتل کر دیا۔1973ء میں قذافی کے چار سال پورے ہونے پر دستاویزات شائع کی گئیں جن کا عنوان ’کمیونزم کے خلاف مقدس جنگ ‘‘ تھا۔اور جن میں یہ قرار دیاگیا’’کہ انسانیت کیلئے سب سے بڑا خطرہ کمیونزم کا فلسفہ ہے‘‘۔

اس کے باوجود کہ قذافی نے امریکہ کے اڈے ختم کئے،امریکی صدر نکسن نے قذافی کے کمیونزم دشمن اقدامات کو اپنے لیے بہت فائدہ مند سمجھا کیونکہ قذافی کا عرب دنیا میں کافی اثر تھا۔ اس حوالے سے قذافی کو بہت سراہا بھی گیا۔شروع شروع میں قذافی مصر کے سوویت یونین کے ساتھ قریبی تعلقات سے خوش نہیں تھا ۔یمن میں قذافی شمالی اور جنوبی علاقوں کی جڑت کے حق میں تھا مگر اس میں شرط یہ تھی کہ شمالی یمن ،ماسکو کے ساتھ اپنے تعلقات کو ختم کر دے ۔قذافی نے 1971ء میں پاکستان کا ساتھ دیا کیونکہ ان دنوں بھارت ، روس کا قریبی اتحادی تھا ۔

1974ء میں ہونے والے عالمی بحران نے قذافی کو بہت تیزی سے بدلا ۔جس کی وجہ سے لیبیا پر بہت برے اثرات مرتب ہوئے ۔اور جس سے لیبیا میں ایک سماجی بے چینی پیداہوئی اور حکومت کے اندر ٹوٹ پھوٹ شروع ہو گئی ۔کچھ عناصر اس وقت کمزور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تھے لیکن قذافی نے ان کے خلاف قم اٹھایا۔لیبیا کی کمزوربورژوازی لیبیا ئی معیشت کو بہتر اور جدیدکرنے میں ناکام رہیجس کی وجہ سے قذافی کو اپنی پرانی پالیسی کو بدلنا پڑا۔اور قومی کمنیوں کی معیشت کو اپنایا۔چند افسران جو پہلی بغاوت کے وقت قذافی کے ساتھ تھے ،نے اس کے ساتھ اپنا تعلق ختم کرکے1975ء میں تختہ الٹنے کی کوشش کی،انہی میں سے چند آج بھی قذافی کی حکومت کو گرانے میں آگے آگے ہیں۔عمر مختار الہریری جو کہ اپوزیشن کی جانب سے اعلان کردہ حکومت میں عسکری امور کا وزیر مقرر کیا گیا ہے ۔ قذافی نے اس بغاوت کو کامیابی سے کچل دیا۔اس نے اداروں کوقومی تحویل میں لئے جانے والی پالیسی کو جاری رکھا ۔اس کے ساتھ ہی اس نے سوویت یونین کے طرف جھکاؤ بھی جاری رکھا اور1979ء تک نجی شعبے کو مکمل طورپر قومی تحویل میں لے لیا۔اپنے ان اقدامات کو ایک نظریاتی یا فکری رنگ روپ دینے کیلئے قذافی نے اپنی مشہور’’ سبزکتاب‘‘کا پہلا حصہ شائع کیا۔1977ء میں اس نے اپنے ملک کا نام ’’ عظیم سوشلسٹ پیپلز لیبین عرب جمہوریہ ‘‘ رکھ دیا۔جمہوریہ کا مطلب اس نے عوام کی ریاست قراردے دیا۔اپنی اس کتاب میں اس نے سوشلزم کے اپنے ہی تصور کردہ ماڈل کو متعارف کرایا۔یہ ایک اسلامائزڈنقطہ نظرتھا جس نے محنت کشوں کی طبقاتی جدوجہد کوسماج کو آگے لے جانے کی قوت کی بجائے ، اسے سماج کیلئے انتہائی خطرناک قرار دے دیا۔سچ تو یہ ہے کہ مذکورہ کتاب ایک ایسی کوشش تھی کہ جس کے پردے اور جس کی آڑ میں ،ورکروں کو کسی بھی قسم کی تنظیم یا ہڑتال کی آزادی سے محروم کر دیاگیا ۔اور یہ سب ایک ایسے سوشلزم کے نام پر کیا گیا کہ جو کسی طور بھی سوشلزم ہی نہیں تھا۔یہی وہ عرصہ تھا کہ جب کئی لیفٹسٹوں نے قذافی کے گن گانے کا سلسلہ شروع کر دیا اور انہوں نے کچھ سوچے سمجھے بغیر اس کی حمایت کا بیڑہ اٹھالیا ۔اس عمل میں بہت سے اہم نکات اور معاملات کو سرے سے ہی نظر انداز کر دیاگیا ۔مثال کے طورپر قذافی نے1969ء میں آزاد ٹریڈ یونین تشکیل دینے اور ہڑتال کرنے پر مکمل پابندی عائد کر دی تھی ۔ حقیقی لیبر یونینوں پر پابندی کے بعد سرکاری یونینیں قائم اور مسلط کر دی گئیں ۔ان اقدمات کے نتیجے میں جس قسم کی حکومت بنی وہ محض ایک مطلق العنان حکمرانی کے کچھ نہیں تھی ۔

اس متشدد آمریت کے باوجود تیل کے بڑے ذخائر اور ان کی آمدنی کی بدولت ،اور ایک بڑے پبلک سیکٹر کی موجودگی کی وجہ سے لیبیا ایک فلاحی ریاست بنتا چلاگیا۔اس ساری کیفیت کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہئے کہ قذافی ان حالات میں اپنے ملک میں ایک بڑی عوامی بنیادقائم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔اس عوامی حمایت کا اظہار ہم آج بھی تریپولی سمیت کئی دوسرے علاقوں میں ہوتا دیکھ سکتے ہیں۔لیبیا کے باشندے خاص طورپر پرانی نسل کے لوگ اس بات کو بخوبی جانتے اور سمجھتے ہیں کہ بادشاہ ادریس کا دورکیسا تھا اور اس کے بعد قذافی کے دور کا لیبیا کیسا ہے !

لیکن پھر اس دروان عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں نے لیبیا کو بھی بری طرح اپنی گرفت میں لینا شروع کردیا۔ان تبدیلیوں میں ایک اہم عنصر سوویت یونین اور مشرقی یورپی ریاستوں کا انہدام تھاجہاں بعد ازاں سرمایہ داری نے اپنے پنجے گاڑنے شروع کر دیے تھے۔ان دیو ہیکل تبدیلیوں نے ہی چین کو سرمایہ دارنہ طرز معیشت کی طرف مراجعت کا راستہ کھول دیا۔پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ لیبیا جیسا چھوٹا ملک ان اثرات سے الگ یا محفوظ رہ پاتا ؟1993ء میں یہاں بھی ایک عمل شروع ہوتا ہے جس میں ہم دیکھتے ہیں کہ معیشت کو لبرلائزیشن کی طرف دھکیلا جانے لگا ۔اس عمل کو’’ انفتاح‘‘کا نام دیاگیا۔اس سال حکمنامہ نمبر 491کے تحت ہول سیل تجارت کو لبرلائز کر دیا گیا ۔اگلے سال غیر ملکی تجارت اور سرمایہ کاری کو قانونی اجازت اور حقوق فراہم کردیے گئے ۔جبکہ لیبیائی دینار کو قابل تبادلہ بھی کر دیاگیا۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ تمام تر میلان اور ارادے کے باوجود لیبیائی معیشت کو مکمل طورپر نجکاری میں دیے جانے کا عمل بہت سست رہا۔تحویل شدہ معیشت جس سے سینیئر مینیجروں اورمڈل کلاس سمیت افسر شاہی مستفید ہوتی آرہی تھی ،اور جو کہ تیل کے سارے شعبے کا انتظام و انصرام سنبھالے آرہی تھی ،اور یہی افسر شاہی کسی طور نہیں چاہتی تھی کہ نجکاری اور لبرلائزیشن کا عمل کامیاب ہو نے دیاجائے ۔یہ سب مل کر’’ سٹیٹس کو‘‘ قائم رکھنا چاہتے تھے ۔

سوویت یونین کی موجودگی میں لیبیا نے جس قسم کی خصوصی اہمیت حاصل کر لی تھی ،اس کی وجہ سے سامراج یہاں کی حکومت کو بدمعاش اور ناپسندیدہ سمجھتا اور قرار دینے لگا ۔ایران میں خمینی حکومت اور سربیا میں میلاسووچ حکومت بھی اسی طرح سامراج کی ناپسندیدہ حکومتیںْ قرار پا چکی تھیں۔

1986ء میں امریکی صدر رونالڈ ریگن نے لیبیا پر ایک فضائی حملے کاحکم دیا جس کا واضح مقصد قذافی کو ختم کرنا تھا ،حملے میں قذافی تو بچ گیا لیکن 69لوگ اس حملے میں ہلاک ہوئے ۔اس کے بعد1988ء میں سکاٹ لینڈمیں پان ایم کی فلائٹ 103پر بمباری کے واقعے کے بعد لیبیا پر پابندیاں عائد کر دی گئیں ۔ا ن واقعات کے ساتھ ہی 1990کی دہائی اور2000ء کی دہائی کی ابتدا میں تیل کی قیمتوں میں کمی نے ملکی معیشت کو متاثر کرنا شروع کردیا۔پھر2003ء میں عراق پر سامراجی بربریت وجارحیت اور صدام کے انجام نے سامراج دشمنی کے علمبرادروں اور دعویداروں کو اپنے اپنے نقطہ نظر پر ازسرنو غور کرنے پر مجبور کردیا۔عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا الزام تھا اور یہ الزام لیبیا پر بھی لگایا جا رہاتھا۔ان سبھی واقعات وحالات نے مل جل کر لیبیا کو اس کی پالیسی میں ریڈیکل تبدیلیاں لانے پر مجبور کر دیا۔

2003ء میں شکری غانم جسے آزاد منڈی کا حامی اور علمبردار سمجھا جاتاتھا ،نجکاریاں کرنے کیلئے وزیراعظم بنا دیاگیا۔اسی سال ہی حکمنامہ نمبر 31کے تحت 360ریاستی اداروں کو جنوری2004ء سے دسمبر2008ء کے درمیان و دوران نجکاری کر دیے جانے کا فیصلہ جاری کیاگیا ،جس کے بعد 2004کے آخر تک 41ادارے پرائیویٹائز کر دیے گئے ۔یہ سارا عمل توقع کے برعکس سست رہالیکن شروع کر دیاگیا۔اسی منصوبے کو سامنے رکھتے ہوئے لیبیائی حکومت نے2007ء میں پبلک سیکٹرکے چار لاکھ ملازمین کو روزگار سے محروم کرنے کا اعلان کر دیا۔یہ کل سرکاری ملازمین کا ایک تہائی حصہ تھا۔2003ء میں لیبیا نے اس بات کی تردید کی کہ وہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار بنا نے کا کوئی پروگرام بنارہاہے ۔یہ اعلان عراق پر سامراجی جارحیت کے بعد سامنے آیا۔قذافی کی پالیسی میں تبدیلی کے بعد بش انتظامیہ نے بھی اپنی پالیسی میں بدلاؤ شروع کر دیا اور اب لیبیا اس کا ناپسندیدہ ملک نہیں رہاتھا۔2003ء میں ہی اقوام متحدہ نے لیبیا پر عائد پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کردیا۔

جبکہ اس سے اگلے سال امریکہ نے بھی اپنی لگائی ہوئی بہت سی پابندیاں ختم کردیں۔2006ء میں سفارتی تعلقات بھی بحال کر لئے گئے ۔اس کے بعد لیبیا پر غیر ملکی سرمایہ کاروں نے اپنی نظر کرم شروع کر دی۔ خاص طورپر تیل کے شعبے اور سول انجینئرنگ کے شعبے پرپر بہت سوں کی نظریں لگی ہوئی تھیں ۔کئی مغربی اجارہ داریوں کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کئے گئے جن میں اٹلی کی AGIP،برٹش پٹرولیم ،شیل ،سپین کی ریپسول،فرانس کی ٹوٹل ،جی ایف ڈی سوئزسمیت امریکہ کی کونوکو فلپس،ہیس، اوکسیڈنٹل،ایگزون اور شیوران شامل تھیں ۔ان کے ساتھ کینیڈا ناروے اور دوسرے ملکوں کی کمپنیاں بھی معاہدوں سے نوازی گئیں ۔اس عرصے میں قذافی حکومت سامراجی ملکوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ قریب ہوتی گئی۔اس عرصے کا مغربی میڈیا مغربی تاجروں اور لیبیائی حکومت کے عہدیداروں کے باہمی دوروں ،ملاقاتوں اور معاہدوں کی تفصیلات سے بھراہوا ملتا ہے ۔مثال کے طور پر 12مارچ 2007ء کے’’ بزنس ویک‘‘ نے اپنے مضمون ’’لیبیا کی اوپننگ‘‘میں لکھا کہ’’لیبیائی معیشت کے کھلنے سے یہاں ہونے والی ترقی ،ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسراور مسابقت بازی کے گرو مائیکل ای پورٹر کی مہربانی کے باعث ہے جو کہ لیبیا کے لوگوں کو بوٹن کنسلٹنسی گروپ کی مدد سے رہنمائی اور معاونت فراہم کر رہاہے ۔پچھلے دو سالوں سے نگران کنسلٹنٹ صاحبان لیبیا میں اپنے فرائض سرانجام دیتے آرہے ہیں ۔یہ لوگ لیبیا میں معیشت کا جائز ہ لے رہے ہیں اوروہاں ایک سہ ماہی پروگرام منعقد کر رہے ہیں جس کا مقصد ایک نئی کاروباری اشرافیائی پرت پیداکرناہے ۔ ای پورٹر کو یہ کچھ کرنے کا فریضہ قذافی کے بیٹے سیف الاسلام نے سونپا ہے جو کہ لندن سکول آف اکنامکس کا گریجوایٹ ہے اور جو یورپی طرز زندگی اور معاشی طرز اصلاحات کا بہت بڑا حامی و علمبردار ہے ۔لندن میں سیف کے ساتھ اپنی کئی میٹنگوں کے بعد پورٹر اب تک لیبیا کے تین دورے کر چکاہے ۔جہاں اس کی لیبیاکے کئی اعلی ٰ حکام اور معمر القذافی کے ساتھ کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں ۔قذافی کا یہ بیٹا’’ معاشی لبرلائزیشن ‘‘کا بہت بڑا حامی ہے اور وہ معیشت کوزیادہ سے زیادہ تیزی کے ساتھ کھولنے کیلئے زور لگاتا آرہاہے ۔وہ زیادہ سے زیادہ اور تیز تر نجکاری کرنا چاہتاہے ۔وہ ریاستی معیشت کی جگہ کھلی معیشت کو لاگو کرنے کاخواہاں ہے ۔لیکن سیف یہ بھی چاہتاہے کہ یہ کسی طرح بھی ہمارے کنٹرول سے باہر نہ ہوجائے ‘‘۔ اس سب سے یہ بات واضح اور عیاں ہوتی ہے کہ سیف لیبیا کی معیشت کو کھولنا چاہتا ہے اور نجکاری ،ڈاوئن سائزنگ سمیت سب کچھ چاہتاہے لیکن اس بات کی بھی ضمانت چاہتاہے کہ قذافی اور اس کے ہمنواؤں کو اس سلسلے میں سب سے بہتر اور سب سے زیادہ مستفید ہونے کا بھی موقع دیاجائے ۔ اور یہ بھی کہ ان کے خاندانی اقتدار کی مطلق العنانیت کو بھی نہ چھیڑا جائے ۔

لیبیا کو ناپسندیدہ ملکوں کی فہرست سے نکال دیے جانے کے بعد سے اب تک کئی مغربی اعلی ٰ عہدیدارو سیاستدان لیبیا کا دورہ بھی کر چکے ہیں اور ان دوروں میں وہ قذافی سے بغل گیر بھی ہوئے اور شرف ملاقات بھی حاصل کیا۔اور اپنے ملکوں اور کمپنیوں کیلئے معاہدے پر دستخط بھی کرواتے رہے ۔

2008ء میں برلسکونی نے ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کے تحت اٹلی ماضی میں لیبیا پر اپنے قبضے کے معاوضے کے طورپر5بلین ڈالرز دیے تھے۔یہ ایک معاہدے کے تحت ہوا جس کے مطابق لیبیا بحر الکاہل کی نگرانی کرے گا اور اس کے ذریعے افریقہ سے اٹلی آنے والے لوگوں کو روکنے کا پابند ہوگا۔اس بات کی مغرب کو کوئی پرواہ نہیں تھی کہ قذافی اس سلسلے میں کیا کیاوحشیانہ طور طریقے اپناتارہا۔اسی سال امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے بھی لیبیا کا دورہ کیا ۔1953ء کے بعد کسی اعلی ٰ امریکی عہدیدار کا یہ پہلا دورہ تھا۔اس سے پہلے ٹونی بلیر بھی2004ء میں لیبیا کا دورہ کرکے اپنے خوشگوار تعلقات کا اظہارواعلان کر چکاتھا ۔اس دورے میں ہی وہ ’’شیل‘‘ کیلئے تیل کے کئی بیش قیمت معاہدے بھی دستخط کرواکر لایا تھا۔

یوں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کبھی سامراج کی مخالفت کا دم بھرنے والا قذافی ،کس طرح سے بعد میں سامراج کا حامی اور دوست بنتا چلا گیا۔وہ سامراج کے ساتھ دامے درمے سخنے ہر قسم کا تعاون کررہاتھا۔اور وہ وہی قذافی بنتا جارہاتھا جو وہ1970ء کی دہائی سے پہلے کا قذافی تھا۔یہ نیا قذافی پوری طرح سے سامراج کے ساتھ وابستہ ہوکر اس کے ساتھ مکمل معاونت اپناچکاتھا۔ جیسا کہ وہ اٹلی کے ساتھ ایک جان دوقالب کی طرح منسلک ہوچکاتھا۔قذافی سامراجیوں کی نام نہاد’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘میں بھی بھر پور معاونت کر رہاتھا ۔وہ لیبیا کے اندر سے اسلامی بنیاد پرستوں کے ذریعے سی آئی اے اورM16کو ہمہ قسم کی معلومات فراہم کر رہاتھا۔اگست2009ء کی تریپولی میں واقع امریکی سفارتخانے سے لیک ہونے والی ’’وکی لیکس ‘‘کے مطابق ’’لیبیا جانفشانی سے امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف مہم کا ساتھی بنا ہواہے ۔اور یہ ہمارے غیر ملکی دشمنوں سے نمٹنے کے عمل میں ہمارے بہترین معاونین میں سرفہرست ہے ۔ہمارے سٹریٹجک مفادات کے ضمن میں لیبیا سے ہمارا بھائی چارہ اس وقت عروج پر ہے ‘‘۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قذافی کسی طور بھی سامراج مخالف نہیں ہے ۔بلکہ حالیہ عرصے میں وہ سامراج کا ایک مفید معاون وآلہ کار بن کر سامنے آیا ہے ۔لیکن پھر ناٹو کی جانب سے کی جانے والی حالیہ جارحیت نے اسے حیران وپریشان کر ڈالاہے ۔وہ صدام کی طرح کا اپنا انجام نہیں چاہتا۔وہ سمجھتا ہے کہ اس نے سامراج کے لیے بہت خدمات سرانجام دی ہیں ۔لیکن وہ اپنے ماضی کی وجہ سے سامراج کیلئے کبھی بھی قابل اعتبار نہیں ہوسکا۔وہ اندھادھند استعمال ہونا والا ایک اوزار تھا اور بس۔ وہ مکمل طور پر سامراج کی معاونت وفرمانبرداری کر رہاتھا اور یہ سب وہ اپنے پورے ہوش وجوش ،دل وجان سے کرتا آرہاتھا لیکن جونہی سامراج کو یہ احسا س ہوا کہ اب اس کی جگہ اس سے بھی زیادہ کوئی فرمانبردار اقتدار پر لایا جاسکتاہے ،تو اس نے ایک لمحے کی تاخیر کئے بغیراپنے اس معاون سے جان چھڑانے کی ٹھان لی اور اس پر چڑھ دوڑے ہیں۔مفادات کے رشتے ہمیشہ ذات کے رشتے پر مقدم ہوتے ہیں ،یہی سامراج کا وطیرہ اور سرمایہ داری کا چلن چلا آرہاہے۔

Translation: Chingaree.com