فلسطین: یوم نقبہ پر تاریخی احتجاج

Urdu translation Nakba protests: The Arab revolution reaches the Palestinian masses (May 16, 2011)

ایلن وڈز ۔ ترجمہ : آدم پال

چنگاری ڈاٹ کام، 03.06.2011

مشرق وسطیٰ میں پھیلتی ہوئی انقلابی لہر اس وقت نئی سمت میں داخل ہو ئی جب 15مئی کو فلسطینی عوام نے اسرائیل کی سرحد پر احتجاج کیا۔ہر سال 15مئی کا دن فلسطینی ’’ یوم نقبہ‘ ‘ کے نام سے مناتے ہیں ۔15مئی 1948ء کو اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا جو فلسطینیوں کے لیے یوم سیاہ ہے۔ حالیہ سالوں میں اس دن فلسطینی نوجوان اسرائیلی فوجیوں پر پتھر پھینکتے نظر آتے تھے جو ان پر جوابی حملہ کرتے تھے۔ لیکن اس سال اس دن کو زیادہ وسیع اور جوشیلے انداز میں منایا گیا۔

اسرائیلی ریاست کا قیام5لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں پر جبر، تشدد، ان کی گھروں اور اپنی زمین سے بے دخلی اور دوسرے علاقوں میں مہاجرین کی شکل میں پناہ حاصل کرنے کی جدوجہد کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ 63سال بعد یوم نقبہ کے موقع پر پوری دنیا کو نظر آیا کہ یہ جبر اور تشدد آج تک جاری ہے۔اطلاعات کے مطابق کم از کم 9لوگ مارے گئے اور بہت سے زخمی ہوئے جب اسرائیلی فوجیوں نے مظاہرین پر فائرنگ شروع کر دی۔

مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے ۔ انہوں نے چابیاں اٹھا رکھی تھیں جو ان کے اس خواب کا نشان ہیں جس میں وہ اپنی ماضی کی جائداد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں جو اسرائیل نے ان سے چھین لی ہے۔

فلسطینی مظاہرین نے لبنان، شام اور غزہ کی تین سرحدوں پر مارچ کیا۔ جب 200مظاہرین نے شام اور اسرائیل کے زیر قبضہ جولان کی پہاڑیوں کے درمیان لگی باڑ کوتوڑا اور مجدالشمس کے گاؤں میں داخل ہوئے جو 1967ء کی چھ روزہ جنگ کے بعد سے اسرائیل کے کنٹرول میں ہے ، تو اس وقت اسرائیلی فوجیوں نے ان پر فائرنگ کر دی جس میں کم از کم دو لوگ ہلاک ہوئے اور 100سے زائد زخمی ہوئے۔

مظاہرین کے لیے یہ انتہائی جرات کا کام تھا کہ وہ اتنی مسلح سرحد کو توڑنے کی ہمت کرتے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں بارودی سرنگیں بھی بچھی ہوئی ہیں اور جہاں اقوام متحد، شام اور اسرائیل کو فوجیں گشت کرتی رہتی ہیں۔یہ سرحد تاریخ میں پہلی دفعہ عبور کی گئی۔ مقامی لوگوں نے سرحد عبور کرنے والوں کا ہیرو کی طرح استقبال کیا اور ان کے ساتھ مل کر فلسطینی جھنڈے لہراتے ہوئے اور گانے گاتے ہوئے مین اسکوائر کی طرف روانہ ہوئے۔

اس جوش اور جذبے نے اسرائیلی فوج کو کنفیوز کر دیا۔وہ کئی ہفتوں سے کہہ رہے تھے کہ وہ 15مئی کو مشکل وقت کی تیاری کر رہے ہیں اور اسرائیلی ڈیفنس فورسز تیار ہیں۔لیکن مجد الشمس میں عینی شاہدین کے مطابق صرف چند اسرائیلی فوجی موجود تھے اور جب شام کی سرحد کی جانب سے ہزار سے زیادہ بسیں نظر آئیں تو وہ حیران و پریشان ہو گئے۔

وہ یقیناًاتنے بڑے پیمانے پر مظاہروں کی توقع نہیں کر رہے تھے اور نہ ہی اس کے لیے تیار تھے۔ مجد الشمس کے ایک رہائشی شفا ابو جبال نے کہا کہ ’’ میرا خیال ہے کہ وہ دوسری جانب کسی بھی قسم کے واقعہ کے رونما ہونے کے لیے تیار نہیں تھے ۔ ان کے لیے آنے والے ریزرو دستوں کو آنے میں ایک گھنٹے سے زائد کا وقت لگا۔ وہ لوگ سرحد پھلانگ کر آگئے اور ایک بھی بارودی سرنگ نہیں پھٹی جبکہ ہمیں ساری زندگی یہی بتاتا جاتا رہا ہے کہ یہاں بارودی سرنگیں ہیں‘‘۔

غزہ میں زیادہ لوگوں کو قتل کیا گیا جہاں ہزاروں فلسطینی حماس کے ناکوں کو عبور کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ اریز کی سرحد پر پہنچے۔ برطانوی اخبار انڈیپیندنٹ کے مطابق اسرائیلی فوجیوں نے ’’مشین گنو ں اور ٹینک کے گولوں سے فائرنگ شروع کر دی‘‘۔ غزہ میں ڈاکٹروں کے مطابق ایک شخص ہلاک اور 40سے زائد زخمی ہوئے۔ یروشلم کے شمال میں قلندیہ کے مہاجر کیمپ میں سینکڑوں فلسطینی نوجوانوں نے اسرائیلی فوجیوں پر پیٹرول بم پھینکے جس کے جواب میں انہوں نے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں چلائیں۔

ہیبرون،ولاجہ اور مشرقی یروشلم میں بھی جھڑپیں ہوئیں۔ بورژوا میڈیا اپنی منافقانہ طرز میں اسے اسرائیلی فوجیوں اور فلسطینیوں میں جھڑپیں قرار دے رہا ہے ۔ لیکن یہ واضح ہے کہ ایک طرف فلسطینی نوجوان پتھروں سے لیس تھے جبکہ دوسری جانب انتہائی جدید اسلحے سے لیس اسرائیلی فوجی جبر اور تشدد کر رہے تھے اور سیدھی گولیاں چلا رہے تھے۔ غزہ میں تو یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ وہ ’’بھیڑ میں گولیاں چلاتے ہوئے درجنوں کو زخمی کر رہے تھے‘‘۔ یہاں ہوا میں گولی چلانے کی منافقت کا اظہار بھی نہیں کیا گیا۔ لیکن نوجوان فلسطینیوں کی ہلاکت کو قابل قبول بنوانے کے لیے یہ کہا گیا کہ ان میں سے ایک ’’سرحد پر لگی باڑ کے قریب تھا‘‘(کتنا قریب؟)اور’’ ایک بم نصب کر نے کی کوشش کررہا تھا‘‘(کون سا بم)۔ یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ حماس نے لوگوں کو سرحد پر جانے سے روکنے کی ناکام کوشش کی۔

اسرائیلی حکمرانوں کا خوف

اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے کہا کہ اسرائیلی فوج اپنا دفاع کر رہی تھی ، اس نے کہا کہ،’’میں نے اسرائیلی ڈیفنس فورسز کو ہدایت کی تھی کہ وہ انتہائی احتیاط سے کام لیں لیکن اپنی حدود کو آنے والے در اندازوں سے محفوظ رکھیں۔ ہر کسی کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم اپنی سرحدوں اور سا لمیت کے تحفظ کے لیے پر عزم ہیں‘‘۔

اس طرح اسرائیلی حکمران ان واقعات کو ’’در اندازی‘‘اور اپنی سا لمیت کے لیے خطرہ قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔لیکن یہ کس قسم کی مداخلت ہے جس میں غیر مسلح افراد ان سرحدوں کو عبور کرتے ہیں جو جبر کے ذریعے قائم کی گئی ہیں اور تشدد کے ذریعے ان کا دفاع کیا جاتا ہے؟اور غیر مسلح مرد اور خواتین جدید اسلحے سے لیس فوجیوں کے لیے کس قسم کا خطرہ ہیں؟

کچھ جگہوں پر مظاہرین نے پتھر پھینکے۔جبکہ اسرائیلی فوجیوں نے جواباً ٹینکوں سے گولے پھینکے۔یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ صرف ’’ہوا میں فائرنگ کر رہے تھے‘‘۔ اس طرح تو انہیں انتہائی غلط نشانے بازی کا ملزم ٹھہرانا چاہیے کیونکہ ہوا میں چلائی گئی گولیوں سے آٹھ لوگ مارے گئے جو یقیناًہوا میں نہیں بلکہ زمین پر تھے۔

اسرائیلی حکمران ان مظاہروں کو ایران کی جانب سے ’’اشتعال‘‘دلا کر کرائے جانے والے واقعات بنا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اسرائیلی فوج کے ترجمان برگیڈئیر جنرل یواف مردیخائی نے اسرائیل ریڈیو پر کہا کہ اس نے’’اس واقعے پر ایران کی انگلیوں کے نشان‘‘ دیکھے ہیں گو کہ اس نے کوئی ثبوت پیش نہیں کیے۔دوسرے اسرائیلی ترجمان نے شام پر الزام لگایا۔اسرائیل ریڈیو کے عرب افئیرز کے تجزیہ نگار یونی بن میناشم نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ شام کے صد ر بشار الاسد حالیہ ہفتوں میں اپنے ملک میں ابھرنے والی عوامی تحریک سے پیدا ہونے والے مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے دہائیوں کے بعد پہلی دفعہ جولان کی پہاڑیوں میں تنازعہ کو بڑھا رہا ہے۔ لیکن یہ سب جھوٹ ہے۔دمشق میں یرموک کیمپ سے ایک فلسطینی مہاجراحمد نے اسرائیل کے اس الزام کو رد کیا کہ اس واقعہ کی منصوبہ بندی ایران نے کی تھی۔اس نے کہا’’ہم نے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی تھی۔ہم تھوڑے سے جوش میں آگئے اور ہم نے کہا کہ آؤ! یہ بھی کر دیکھتے ہیں۔ہم نے بارڈر کراس کرنے کی منصوبہ بندی نہیں کی تھی۔فوج نے کہا کہ ہم بارڈر کے قریب کھڑے ہو سکتے ہیں۔فوج کو بھی نہیں پتہ تھا۔اگر شام کی فوج کو پتہ ہوتا تو وہ ہمیں ایسا نہ کرنے دیتے‘‘۔ اس طرح کے جھوٹ غیر مسلح فلسطینی مظاہرین کے قتل کو ’’اپنے دفاع‘‘ یا ’’بیرونی دشمن‘‘(ایران اور شام) کے حملے میں قتل کرنے کی صفائی پیش کرنے کی گھناؤنی کوشش ہے۔ درحقیقت یہ تحریک فلسطینیوں پر عرب انقلاب کے اثرات کاعکس تھی، جو یہ ثابت کرتی ہے کہ عوام کی طاقت دنیا کی طاقت ور ترین ریاست اور فوجوں کو ہلا سکتی ہے۔

ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان غیر مسلح مظاہرین کا سر عام قتل یقینی طور پر دہشت گردی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ کرائے کا میڈیا اسرائیلی فوج کے لیے یہ لفظ کبھی استعمال نہیں کرتا۔ یہ نام نہاد آزاد میڈیا کی منافقت اور دوہرے معیار کا ایک اور ثبوت ہے۔

قائدین کا خصی پن

شام نے اس حملے کی مذمت کی اور انہیں اسرائیل کا ’’مجرمانہ عمل‘‘ قرار دیا۔لیکن اب مشرقِ وسطیٰ کے لوگ یہ پوچھ رہے ہیں کہ غیر مسلح مرد اور خواتین وہ کچھ کیسے کر پائے جو شام کی فوج گزشتہ 40برس میں نہیں کر پائی۔اردن کے دارلحکومت اوروادی اردن میں بھی مظاہرے ہوئے۔500لوگ جن میں بہت سے فلسطینی مہاجرین تھے، نے عمان میں مظاہرہ کیافلسطین کی آزادی اور فلسطینی مہاجرین اور ان کی اولاد کی واپسی کے اس زمین پر جانے حق کا مطالبہ کیا جسے اب اسرائیل کہتے ہیں۔

لبنان میں سینکڑوں لبنانیوں نے 9مہاجر کیمپوں سے آئے فلسطینیوں کے ساتھ مل کر مظاہرہ کیا اورمیرون ال راس پر واقع اسرائیل کی سرحد کی جانب گئے۔2006ء میں اسرائیل اور حزب اللہ کی جنگ کے دوران اس جگہ شدید لڑائی ہوئی تھی۔ لبنان کی شاہراہوں پر لگے گزشتہ دنوں میں بہت سے پوسٹر بھی مظاہرین نے یہاں منتقل کیے۔ ان پر درج تھا،’’لوگ فلسطین واپس جانا چاہتے ہیں‘‘، اسی طرح مصر اور تیونس کے مشہور نعروں کی طرح بنایا گیا نعرہ’’لوگ موجودہ راج کا خاتمہ چاہتے ہیں‘‘۔

لبنانی سرحد پراسرائیلی فوجیوں نے ان سینکڑوں فلسطینیوں پر گولی چلائی جو سرحد پار کرنا چاہتے تھے۔ لبنانی اہلکاروں کے مطابق ان میں چار لوگ قتل کر دیے گئے جبکہ درجنوں زخمی ہوئے۔گو کہ لبنانی فوج نے انہیں سرحد تک جانے سے روکا لیکن اس کے باوجود بہت سے پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔انہوں نے باڑ پر فلسطینی جھنڈا لہرا دیا اور دوسری جانب پتھراؤ کیا۔جس پر اسرائیلی فوج نے فائرنگ کر دی۔

مغربی کنارے اور غزہ میں بھی بڑے مظاہرے ہوئے۔مرکزی ریلی مغربی کنارے کے شہر راملہ میں ہوئی جونام نہاد فلسطینی اتھارٹی کی حکومت کا مرکز ہے۔یہ حکومت اوسلو معاہدے کے نتیجے میں مصالحانہ پالیسیوں کے باعث دیئے گئے نیم خود مختار علاقوں پر حکومت کرتی ہے ۔

نقبہ منانے کے لیے قائم ہائیر نیشنل کمیٹی کے محمد الایان نے کہا کہ’’فلسطینی عوام آج پہلے کی نسبت قبضے اور نسلی بنیادوں پر قتل کے خلاف زیادہ مضبوط ہیں۔ہمارے لوگوں کے خلاف صیہونی سازش ہمارے عزم کے مقابلے میں تباہ ہو جائے گی۔‘‘

حال ہی میں مدت پوری کرنے والے حماس کے سابقہ وزیر اعظم اسماعیل ہانیہ نے غزہ کی مسجد میں ہزاروں عبادت گزاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی اس سال یوم نقبہ کو’’ اس امید سے منائیں گے کہ وہ فلسطین میں صیہونی منصوبے کا خاتمہ کر دیں‘‘۔ لیکن یہ مجمع کو مطمئن کرنے کے لیے خالی الفاظ ہیں۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ 63سالوں کے بعد بھی صیہونی ریاست کامکمل کنٹرول موجود ہے۔ فلسطین کے ان لیڈروں کے پاس کوئی حل نہیں۔ حماس کے راکٹ اورPLOکے ’’مذاکرات‘‘ کوئی مثبت نتیجہ حاصل نہیں کر پائے۔

فلسطینی عوام اس سے باخبر ہیں اور حالیہ اتحاد کی تحریک ، جو عرب انقلاب سے متاثر ہو کر شروع ہوئی تھی درحقیقت الفتح اور حماس کی قیادتوں پر شدید تنقید تھی جو فلسطین کی جدوجہد کو اندھی گلی میں لے گئے ہیں۔ نتن یاہو نے فلسطین کی نئی متحدہ حکومت کے قیام کے جواب میں یروشلم میں کابینہ کے وزراء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’اسرائیلی ریاست کی موجودگی سے انکار کی کوئی جگہ نہیں۔

مجھے افسوس ہے کہ اسرائیلی عربوں اور ہمسایہ ممالک میں ایسے انتہا پسند ہیں جنہوں نے اسرائیلی ریاست، یہاں کی جمہوریت کے قیام کے دن کو اشتعال ، تشدد اور غضب کا دن بنا دیا ہے‘‘۔ جو لوگ فلسطینیوں کو تشدد اور غضب پر اکسا رہے ہیں وہ نتن یاہواور اس کی حکومت ہے جنہوں نے فلسطینیوں کے انتہائی بنیادی اور ضروری جمہوری اور انسانی حقوق کو کچل دیا ہے اور ان سے وہی سلوک کرتے ہیں جو ماضی کے حکمران اپنے مقبوضہ علاقوں کے لوگوں سے کرتے تھے۔اسرائیلی حکمران طبقے نے تو اب نام نہاد ’’نقبہ قانون‘‘ بھی پاس کردیا ہے جس میں ان تقریبات کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا ہے۔اگر آپ لوگوں کو کھائی کے کنارے تک لے جائیں گے تو وہ ایسے ہی ردعمل کا مظاہرہ کریں گے۔

اسرائیل کا حکمران طبقہ خود کش حملہ آوروں اور حماس کے راکٹوں سے خوش ہوتے ہیں۔ہر راکٹ جو اسرائیلی گاؤں میں گرتا ہے، یروشلم میں جس بس پر بھی حملہ ہوتا ہے وہ اسرائیل کے حکمرانوں کو وہ بہانہ فراہم کرتا ہے جو انہیں اسرائیل کی رائے عامہ کو حکومت اور فوج کی حمایت میں متحرک کرنے کے لیے چاہیے۔نتن یاہو کی دائیں بازو کی حکومت مصر کے انقلاب سے اتنی خوفزدہ تھی کہ اس نے اپنی کابینہ کو حکم دیا کہ وہ مصر کے واقعات پر تبصرہ نہ کریں۔

15مئی کے واقعے کے ذریعے فلسطینی عوام نے دکھایا ہے کہ آگے کی جانب ایک اور راستہ بھی موجود ہے جو عوامی انقلابی عمل کا راستہ ہے۔صرف یہی وہ طریقے ہیں جو اسرائیلی سماج کو طبقاتی بنیادوں پر تقسیم کر سکتے ہیں۔

مصر

مصر میں ہزاروں لوگوں نے قاہرہ میں ریلی نکالی جن کا مقصد غزہ تک جانا تھا۔مصر کے دوسرے بڑے شہراسکندریہ میں ہزاروں لوگوں نے یہاں واقع اسرائیل قونصل خانے کے سامنے مظاہرہ کیا۔ یہ لوگ نعرے لگا رہے تھے،’’بالروح ، بالدم، نفدیک یا فلسطین‘‘۔

حسنی مبارک امریکی سامراج کا گماشتہ تھاجو اسرائیل کے حکمران طبقے کے جرائم میں شریک تھا۔درحقیقت اس نے اسرائیل کی غزہ کی ناکہ بندی میں معاونت کی اور مصر کا غزہ کی جانب بارڈر بند رکھا۔مصریوں کی ایک بڑی اکثریت اسے اپنے لیے شرمندگی کا باعث سمجھتی تھی۔مبارک کی حکومت کے خاتمے کے بعد مصری مطالبہ کر رہے ہیں کہ حکومت فلسطین کی مدد کے لیے مزید اقدامات کرے۔ایک بینر پر لکھا تھا،’’لوگ رفاہ کی سرحد کو کھولنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔۔۔مکمل اور ہمیشہ کے لیے ‘‘۔ اس دن قاہرہ کا تحریر اسکوائر فلسطینی جھنڈوں سے سجا ہوا تھا۔ محمد السلام نےAP سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم یہاں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ ہمارے انقلاب کی فتح فلسطین کی آزادی کے بغیر نا مکمل ہے‘‘۔ ہزاروں مصریوں کا پروگرام تھا کہ وہ غزہ کی سرحد تک جائیں لیکن مصر کی سکیورٹی فورسز نے بسوں کو وہاں جانے سے روک دیا۔فوج نے غزہ کی سرحد پر جانے والی شاہراہوں پر ناکے لگا دیے تھے اور دلیل یہ دی تھی کہ ابھی مناسب وقت نہیں۔ان حضرات کے لیے مناسب وقت کبھی بھی نہیں آئے گا۔

حکومت نے فوج اور پولیس کو تعینات کر دیا کہ لوگ سوئز نہر پار کر کے سنائی نہ جا سکیں، کیونکہ غزہ کی پٹی کی جانب یہی رستہ جاتا تھا۔ سنائی میں رہنے والے فلسطینی اور مصریوں نے قریبی شہر ال عریش میں بھی مظاہرہ کیا۔ انہوں نے فلسطین کی آزادی کے حق میں نعرے لگائے اور مصری فوج سے مطالبہ کیا کہ انہیں ریلی غزہ تک لیجانے کی اجازت دی جائے۔مصطفی ردا امین جو مبارک کو نکالنے میں متحرک یوتھ الائنس کا جنرل سیکرٹری ہے نے کہا کہ منتظمین نے 20بسوں کا بندو بست کیا تھا تا کہ مظاہرین کو سنائی لیجایا جا سکے۔ لیکن مصری سرکاری ذرائع کے مطابق حکومت نے سنائی کے رہنے والوں اور وہاں ہر قسم کی آمد و رفت پر سخت پابندی عائد کر رکھی تھی۔ لیکن سب سے زیادہ وحشت قاہرہ میں نظر آئی جہاں مصری پولیس نے اسرائیلی سفارت خانے کے باہر ہزاروں مظاہرین پر آنسو گیس اور گولیاں چلائیں۔مظاہرین نے اسرائیلی جھنڈے کو آگ لگائی ، اسرائیل کے خلاف نعرے لگائے اور اسرائیل کے سفارت خانے کو بند کرنے اور اس کے سفارت کار کو بیدخل کرنے کا مطالبہ کیا۔ایک عینی شاہد مصطفی شیشتاوی کے مطابق مظاہرہ انتہائی پر امن تھا جب تک کہ فوج نے اس پر آنسو گیس اور گولیوں سے حملہ نہیں کیا۔ وزارت صحت کے مطابق سفارت خانے کے باہر کم ازم کم 353لوگ زخمی ہوئے جبکہ ایک شخص انتہائی تشویشناک حالت میں ہے۔

1979ء میں مصر پہلا ملک تھا جس نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے تھے۔عبوری ملٹری کونسل جو اس وقت ملک چلا رہی ہے اس نے اس امن معاہدے کی پاسداری کا اعلان کیا ہے۔یقینا، خارجہ پالیسی داخلہ پالیسی کا تسلسل ہوتی ہے۔ان رجعتی جرنیلوں سے فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کی توقع کرنا بیوقوفی ہے کیونکہ وہ مصر کے عوام کے حقوق کا دفاع نہیں کرتے۔

اقوام متحدہ کی منافقت

کئی دہائیوں سے اقوام متحدہ قرار دادیں پاس کر رہا ہے جس میں اسرائیلی فوجو ں سے فلسطینی خطے سے باہر نکلنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، لیکن ان پر عملدرآمد کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا۔اور اب جب فلسطین کے عام لوگوں نے ان پر عملدرآمد کی کوشش کی تو ان پر بے رحمی سے گولی چلائی گئی۔اب یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ ،’’ نو فلائی زون ‘‘کا مطالبہ اور ’’شہری آبادی کی حفاظت ‘‘ کی ضرورت اب کہاں گئی۔

اقوام متحدہ قراردادیں پاس کرنے کی منافقت کو جاری رکھے ہوئے ہے اور ان پر عملدرآمد کے لیے کچھ نہیں کر رہی۔اگر یہ واقعات لیبیا میں ہوئے ہوتے تو ہم میڈیا کی بیان بازی اور سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔لیکن یہ لیبیا نہیں اسرائیل ہے جو امریکہ کا مشرق وسطیٰ میں اہم اتحادی ہے۔مبارک کی رخصتی کے بعد اب امریکہ اسرائیل کے ساتھ پہلے کی نسبت زیادہ جڑ گیا ہے ، اور ان کی فلسطینیوں کے خلاف ہر قسم کے ظلم کی وضاحت پیش کرنے کے لیے تیار ہے جبکہ اسی وقت پاگلوں کی طرح امن کی بات بھی کر رہا ہے۔

اسرائیل کی جانب سے عام شہریوں کے قتل پر ’’عالمی برادری‘‘خاموش رہتی ہے۔جبکہ ناٹو کا کمانڈرلیبیا میں مجرمانہ بمباری کو بڑھانے کا مطالبہ کررہا ہے جس میں انفرا اسٹرکچر کو نشانہ بنایا جائے،’’ورنہ شائد قذافی اقتدار میں رہے‘‘۔در حقیقت وہ لیبیا پر بمباری کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی پرواہ نہیں کرتے اور لیبیا میں اقتدار کی تبدیلی پر تلے ہوئے ہیں۔لیکن اپنی دوست ریاستوں سعودی عرب اور اسرائیل میں وہ حکومت کی تبدیلی کی بات نہیں کرتے۔

فلسطین کے مسئلے کا حل اقوام متحدہ سے بیکار اپیلیں کرنے میں نہیں۔اور نہ ہی یہ ان بھیانک ’’امن معاہدوں‘‘ کے ذریعے کیا جا سکتا ہے جیسا کہ عرفات اور امریکہ کے درمیان اوسلومعاہدے میں کیا گیا۔اور 6دہائیوں کے بعد یہ واضح ہو جانا چاہیے کہ بورژوا عرب حکومتیں فلسطینیوں کے مسائل پر اپنے تنگ ملکی مفادات کو ترجیح دیں گی، اور اس لیے ہمیشہ ان سے غداری کریں گی۔

کیا دنیا میں کوئی طاقت نہیں جو فلسطینیوں کی مدد کو آسکے؟کیا کوئی ایسا نہیں جسے وہ سچا دوست کہہ سکیں؟فلسطینیوں کے دنیا میں بہت سے سچے دوست ہیں۔وہ مزدور اور کسان ہیں، انقلابی نوجوان اور خواتین، پہلے عرب دنیا میں اور پھر پوری دنیا میں۔عرب انقلاب نے عالمی مزدور طبقے کی ہمدردی کو اجاگر کیا ہے۔فلسطینی انقلاب مزید ہمدردی حاصل کرے گا۔جسے عالمی سطح پر متحریک حمایت میں بدلنے کی ضرورت ہے۔ عرب انقلاب کا آغاز ہو چکا ہے۔ لیکن یہ ابھی مکمل نہیں ہوا۔اور یہ اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک یہ انفرادی آمروں کو ہی نہ اکھاڑ پھینکے بلکہ اس پورے معاشی اور سماجی نظام کو جن پر یہ آمر تکیہ کرتے ہیں ، یہ سرمایہ دارانہ نظام۔فلسطینی عوام کی قومی آزادی کی جدوجہد صرف اس وقت کامیاب ہو سکتی ہے جب اس کو عرب عوام کی جمہوریت اور سماجی آزادی کی جدوجہد کے ساتھ مستقل بنیادوں پر جوڑا جائے ۔ عرب انقلاب ایک سوشلسٹ انقلاب کے طور پر کامیاب ہو گا یا پھر یہ کامیاب نہیں ہو گا۔

ثورۃ حتی النصر( فتح تک انقلاب )

Translation: Chingaree.com