ایم کیو ایم اور پنجاب

پچھلے چند ماہ میں ایم کیو ایم نے اپنے آپ کو ’’ملک گیر‘‘ ’’قومی‘‘ پارٹی بنانے کا عمل تیز تر کردیا ہے۔اس میں کشمیر اور بلتستان میں انتخابات میں حصہ لینے اور ’’ووٹ بینک‘‘ حاصل کرنے کے بعد پنجاب پر ایک بڑے پیمانے کی یلغار شروع کردی گئی ہے۔ اپریل میں لاہور اور ملتان میں ہونے والے ’’کنونشنوں‘‘ سے پیشتر کراچی کے ناظم اور ایم کیو ایم کے مختلف وزرا اورطاقت ور شخصیات نے پنجاب کے بہت سے خفیہ اور نیم خفیہ دورے کیے۔ ان میٹنگوں میں اس ملک میں عمومی حکمران سیاست کی طرز پر’’ اہم‘‘ صحافیوں‘ ’’معتبر‘‘ شخصیات اور سیاست کے پر اثر افراد کو مدعو کیا گیا۔

ان ملاقاتوں سے زیادہ ضیافتوں پر مبنی دعوتوں کا اہتمام کیا گیا۔ لیکن آج کی سیاست کے تقاضوں کے مطابق رقوم کے بھاری لفافوں کا شاہانہ استعمال بھی بہت تھا۔ میڈیا میں ایم کیو ایم اور الطاف حسین کی قصیدہ گوئی کی کافی عرصہ سے کالم نویسی اور صحافت کی اعلیٰ شخصیات نے جاری کی ہوئی تھی اس کو تیز کردیا گیا۔ ہر دور میں صاحب اقتدار جماعت کی طرح اپنے ہزاروں ساتھیوں سمیت سینکڑوں سیاسی لیڈران نے ایم کیو ایم میں پنجاب سے شمولیت کے اعلان کرنے شروع کردیئے۔ پھر کنونشن سے پیشتر آج کی سیاست کے مطابق مختلف جھنڈے‘ پوسٹر اور بینر مارکیٹ سے زیادہ ریٹوں پر لاہور کی ’’اہم شاہراؤں پر ٹھیکے دے کر لگوائے گئے۔ ماضی قریب میں ایک وقت ہوا کرتا تھا جب پارٹیوں کے سیاسی کارکنان نہ صر ف خود راتیں جاگ کر پوسٹر جھنڈے اور بینر لگایا کرتے تھے۔ لیکن اس کے علاوہ خون کی قربانی سے پہلے ٹھوس مادی قربانی ماہانہ چندے کی صورت میں بھی دیا کرتے تھے اور پارٹیوں کی مالیاتی بنیادیں اس پر مبنی ہوا کرتی تھیں۔ اس لیے ورکروں کا لیڈروں اور پارٹیوں پر کسی حد تک کنٹرول بھی ہوتا تھا۔ اب تو پارٹی کے ممبر شپ فارموں کی کاپیاں ہی سرمایہ دار‘ جاگیردار اور کاروباری حضرات خرید کر نہ صرف ان ورکروں کے نام درج کرکے پارٹیوں میں اپنی حمایت حاصل کرتے تھے لیکن یہ ورکرز اب ان پارٹیوں کو چندہ دینے کی بجائے اپنی ورکری کے اس سیاست کی منڈی میں بھاؤ لگا کرفروخت کرتے ہیں۔ جب سیاسی ورکری تک بکتی ہو تو پھر غریب‘ نادار جن کے پاس کوئی آسرا نہیں رہا جن کی ہر امید ٹوٹ گئی ہے۔ جن کو ہر روایت کی قیادت بار بار دھوکے دیئے ہیں ان کے پاس فروخت کرنے کے علاوہ ووٹ کا اور کیا استعمال رہ جاتا ہے۔ ایم کیو ایم نے اپنے تازہ کالے دھن سے پنجاب کی اس سیاسی منڈی میں بھی اجارہ داری حاصل کرنے کا عمل جارحانہ انداز میں شروع کیا ہے۔ پھر کنونش ہوا یا ہوئے۔ اس میں الطاف حسین نے اپنا مخصوص ٹیلی فونک خطاب فرمایا۔ الطاف حسین کو صرف سننا ہی نہیں پڑتا بلکہ برداشت بھی کرنا پڑتا ہے۔ ان تقاریر کی مدح سرائی پست سیاسی شعور اور محکومانہ نفسیات اور انتہاکی شخصیت پرستی درکار ہوتی ہے۔ الطاف حسین اس مسلسل غیر مبدل گرج میں غربت اور دوسرے مسائل کا شور مچایا اور جاگیرداری کے خلاف راست اقدام کرنے کا تیس سالہ پرانا انتباہ پھر دہرایا۔ ان تیس سال میں سے بیس سال ایم کیو ایم اقتدار میں کسی نہ کسی طرح رہی ہے۔ ہر قسم کے پنجابی جاگیرداروں اور سرمایہ داروں سے الحاق کیا ہے۔ آج بھی وہ ایک ایسی ہی مخلوط حکومت میں صرف شامل ہی نہیں ہے بلکہ آئے دن اپنی دہشت گردی کی طاقت قوت کے بلبوتے پر دوسری حکومتی پارٹیوں کو بلیک میل کرکے اپنے مفادات کو منواتی ہے۔ جہاں جہاں یہ اقتدار میں رہی ہے وہاں عوام کی غربت‘ محرومی اور ذلت میں اذیت ناک اضافہ ہوا ہے۔ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا نہ صرف بال بھی بیکا نہیں ہوا بلکہ انہوں نے اپنی دولت کی ہوس کو عوام کے خون سے باربار سینچا ہے۔ ایم کیو ایم 1978ء میں اس ملک کی سب سے بھیانک اور خونریز ضیاء الحق کی آمریت کی کوکھ سے جنم لینے والی پارٹی ہے۔ اسکی بنیاد جس سیاسی پس منظر میں بنی تھی وہ انیس سو بہتر کے بعد کراچی میں مزدور تحریک کی پسپائی تھی جہاں پشتوں‘ پنجابی سندھی اور دوسری قومیتوں کے مزدوروں کو ایک انقلابی منزل نہ مل سکنے کی وجہ سے ریاست نے اپنے قومی سیاسی عمائدین کے ذریعے قوم پرستی میں بانٹ کر طبقاتی یکجہتی کو توڑا تھا۔ ایسے میں اردو بولنے اور ہندوستان کے دوسرے علاقوں سے ہجرت کرکے آنے والے مزدوروں کو جس بیگانگی اور عدم شناخت کے خوف میں مبتلا ہوگئے تھے اس میں ریاست نے ایم کیو ایم کا وار کرکے اس تنظیم کو ابتدائی سماجی بنیاد حاصل کروائی تھی۔ ضیاء الحق کی آمریت کے دوران جماعت اسلامی کی طرح ایم کیو ایم نے بھی اس درندگی کی بی ٹیم کا کردار ادا کیا تھا۔ لیکن پھر جب سماج میں تضادات بڑھنے لگے 83ء کی تحریک نے خصوصاً اندرون سندھ میں زور پکڑا وہاں کراچی میں اس ضیاء آمریت کے خلاف تحریک کو روکنے میں ایم کیو ایم کا اہم کردار تھا۔ لیکن اس عرصے میں آمریت اور ریاست کے اندر تضادات بڑھنے لگے تھے اور ریاست کے ان اداروں کے تصادم ان کی ایم کیو ایم جیسی پروردہ سیاسی کٹھ پتلیوں کے ساتھ رویوں اور تعلقات میں بھی اثر انداز ہوئے اور ہر بحرانی کیفیت کی طرح وفاداریاں اور حمایت بدلنے لگی تھیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سوائے 1968ء اور 1970ء کی پیپلز پارٹی کے علاوہ شاید اس مملکت میں کوئی بھی سیاسی پارٹی بھی ریاستی آشیر باد کے بغیر منظر عام پر نہیں آسکی یا عوام کی وسیع حمایت حاصل نہیں کرسکی۔ اس دور کی پیپلز پارٹی کے ریاستی بیڑیوں کی جکڑ سے آزاد ہو کر بننے اور پنپنے کی سب سے اہم وجہ بھی انیس سو آٹھاسٹھ، اناہتر کا انقلاب تھا جب پہلی مرتبہ محنت کشوں نے اس نظام اور اسکی ریاست کواپنے زیر کیا تھاجبکہ ہر دوسرے عہد میں عوام ریایا ہی رہے اور حکمران طبقات نے اس ریاست کے ذریعے ان کو اپنے زیر کیے رکھا۔ لیکن پھر مفروضہ محض منطقی (Logical) سوچ تک ہی محدود ہے کہ ریاست کوئی بھی پارٹی بناتی ہے تو ہر دور میں وہ اسکی تابع اور اس کے کنٹرول میں ہی رہے گی۔ جدلیاتی بنیادوں پر دیکھا جائے تو سماج کے ساتھ ریاست اور پارٹیاں بھی مسلسل تغیر ارتقا اور تبدلیوں کا شکار رہتی ہیں۔ ان کی وفاداریاں اور الحاق بدلتے رہتے ہیں کیونکہ جو مفادات ایک وقت میں یکجا ہوتے ہیں وہی مفادات اور دوسرے وقت میں ایک دوسرے متحارب مفادات بن جاتے ہیں۔ اسی تغیر کی کیفیت میں وہ ایک دوسرے کی ضد بن جاتی ہیں۔ برگیڈیر خالد خواجہ کا حالیہ قتل اسی عمل کی عکاسی کرتا ہے۔ مفادات کے ان تضادات میں ریاست سماج معیشت اور سیاست کا بحران ایک فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے جو ایک وقت میںآن کر ان باہمی رشتوں کی مقداری سے معیار تبدیلی کا موجب بن جاتا ہے۔ اس لیے یہ ضروری نہیں ہے جو ایجنسی جس پارٹی یا تنظیم کو ایک مخصوص وقت میں اس نظام کی کیفیت کے لئے تشکیل دے وہ اسی کے کنٹرول میں ہمیشہ ہی رہے۔ ہمارے سامنے آئی ایس آئی اور سی آئی اے کی بنائی ہوئی افغان ’’ڈالر‘‘ جہاد کے دوران کی بنیاد پرست تنظیموں کی دہشت گردی کس کے خلاف استعمال کروائی گئی تھی۔ آج اسی دہشت گردی کا ہدف اسکے اپنے خالق ہی بن گئے ہیں۔ ۔ یہی باہمی رشتہ ایم کیو ایم اور پاکستان کی ریاستی ایجنسیوں کا بھی ہے۔ لیکن کراچی حیدآباد کے اس کھیل میں مالیاتی سرمائے کا شاید اتنا بڑا حجم براہ راست ملوث نہیں تھا جتنا پشتونخواہ اور افغانستان میں تھا اس لیے ایم کیو ایم اور ایجنسیوں کے درمیان تضادات اور تصادم دوبارہ مصالحت میں بھی تبدیل ہوتے رہے ہیں لیکن پھر دونوں کی بنیاد ایک ہی ہے کہ تمام تضادات کے باوجود ان کا مقصد دولت اور طاقت کا حصول اور اس نظام کا جبر قائم رکھنا ہے۔ ان کے تصادم حصہ داری کے مسئلہ پر رہے ہیں اور پھر بھی پھٹ سکتے ہیں لیکن سرمائے اور منڈی کے مسئلہ پر ان کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ریاست مملکت پاکستان اور ایم کیو ایم کے درمیان بھی یہ جہاں ریاست کے اندر کے تضادات ہیں وہاں ایم کیو ایم اور دوسری سیاسی پارٹیوں کے اندرونی تضادات پھٹ کربھی سیاست کے روپ اور راستے بدلتے رہتے ہیں۔ ایم کیو ایم کی دوبڑی تقسیمیں ہیں۔ اسی طرح ریاست کے مختلف دھڑوں کے درمیان تضادات کے پھٹنے سے آج پورا ملک ایک خونریزی اور دہشت گردی کے عذاب سے دوچار ہے۔ پنجاب میں میڈیاں نے ایم کیو ایم کو بہت اچھالا ہے۔ میڈیا بھی اس نظام کا حصہ ہے اور ایم کیو ایم بھی اس نظام کی پیداوار اور حفاظت کا اوزار ہے۔ میڈیا اور مافیا کی بھی ایک گہری مشابہت ہوتی ہے۔ آج کے عہدمیں میڈیا کی بھاری صنعت اور سلطنت کا جائزہ لیا جائے تو اس میں ہمیں مافیا کے طرز کے رویے اور طریقہ کار کی جھلک ملتی ہے۔ ایم کیو ایم کے بارے میں میڈیا اس کوجاگیرداروں کی بجائے مڈل کلاس کی پارٹی قرار دے رہا ہے۔ آج کل میڈیا کی بحثوں میں اس بات کا بہت چرچا ہے کہ جب تک مڈل کلاس اقتدار میں نہیں آئے گی اس وقت تک بحران حل نہیں ہوسکے گا۔ اورجمہوریت مستحکم نہیں ہوسکے گی۔ اس حوالے سے ہمیں اس مڈل کلاس کے تاریخی‘ تہذیبی‘ معاشی سماجی اور طبقاتی کردار کا جائزہ لینا ہوگا۔ پاکستان کی موجودہ آٹھارہ کروڑ سے زائد آبادی کا تقریباً چار سے پانچ کروڑ کسی حد تک درمیانے طبقے کے زمرے میںآتا ہے۔ ان میں پھر کئی پرتیں ہیں جس میں اپر کی مڈل کلاس درمیانی مڈل کلاس‘ نچلی مڈل کلاس اور انتہائی نچلی ودرمیانی مڈل کلاس ہے۔ ہر سرمایہ دارانہ معاشرے میں حکمران طبقات کے(جو یہاں دو فیصد کے قریب ہے)معاشی‘ سیاسی‘ ثقافتی‘ اخلاقی اور معاشرتی اقتدار کی بنیاد ہی درمیانہ طبقہ ہوتا ہے۔ اس طبقہ کا کوئی آزادانہ سیاسی کردار ہوتا ہی نہیں ہے۔ بلکہ یہ ’’معمول‘ ‘ کے حالات میں حکمران طبقے کی پیروی کرتے ہیں اور ساری زندگی اوپر تک پہنچنے کی جستجو میں گزار دیتے ہیں۔ لاکھوں میں ایک ہوتا ہوگا جو اوپر کے طبقات میں شامل ہو سکتا ہو۔ لیکن سوچ پورے طبقے پر مسلط ہوتی ہے۔ اسی لیے یہ طبقہ مسلسل عدم استحکام‘ ہچکچاہٹ‘ افراتفری‘ ہیجان‘ بے چینی‘ اضطراب‘ عدم اطمینانی‘ ‘ احساس کمتری وبرتری اور توہم پرستی کا مسلسل شکار رہتا ہے۔ معاشی طور پر پاکستان میں سرمایہ داری کی منڈی اور کھپت کا بڑا حصہ اسی درمیانے طبقے پر مبنی ہے لیکن آج کے شدید معاشی بحران میں یہ طبقہ جس منڈی کو جنم دے رہا ہے اس کا دو، تین حصہ سرکاری معیشت پر مبنی نہیں ہے بلکہ غیر سرکاری معیشت پر مبنی ہے یعنی دوسرے الفاظ میں یہ ’’ غیر قانونی‘ ‘ یا کالی معیشت ہے۔ کیونکہ پاکستان کی صنعت وزراعت اور سروسز کے شعبوں کا جائزہ لیا جائے تو ان کے پیداواری کیفیت دیکھ کر بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ اتنی شدید غربت اور محرومی میں ایک اعشاریہ آٹھ فیصد کی شرح پیداوار پر ملک چل ہی نہیں سکتا۔ اس غیر سرکاری معیشت کی بنیادپر سمگلنگ‘ جرائم‘ سٹہ بازی‘ دھوکہ دہی‘ فراڈ‘ منشیات واسلحہ کے کاروبار اور سب سے بڑھ کر کرپشن پرمبنی ہے۔ اس معاشی بنیاد پر اس طبقے کی سوچ اور شعور بھی کافی حد تک اس کیفیت کی عکاسی کرتا ہے۔ لمپنلائزیشن ایک ناسور کی طرح معاشرے میں پھیل رہی ہے۔ جہاں مڈل کلاس سرمایہ داری کی حاکمیت کومحنت کش عوام پر مسلط کرنے میں مائل رہتی ہیں وہاں وہ محنت کشوں پر حکمران طبقات کی ثقافت‘ سیاست‘ اقتدار‘ اخلاقیات اور نظریات کا تسلط قائم رکھنے میں آلہ کار بن رہی ہوئی ہیں۔ اس لیے جب سرمایہ دارانہ نظام گل سڑ اور تاریخی متروکیت کا شکار بھی وہ جاتا ہے تو یہ طبقہ انہی کے نظریات اور تعصبات کا میں مبتلا ہوکر ان کا سماج میں پرچار کرکے ان کو محنت کشوں پر مسلط کرنے کی کاوش مسلسل مبتلا رہتا ہے۔ ٹراٹسکی نے ایک مرتبہ لکھا تھا کہ’’ وہ واحد خدا جس کو یہ درمیانہ طبقہ مانتا اور جانتا ہے وہ ’طاقت‘ ہے‘‘ چونکہ ظاہری طور پر طاقت ریاست کے پاس ہوتی ہے اس لیے یہ طبقہ ریاستی نظریات کے مطیع ہو کر اسکی طاقت کو سماج پر مزید مسلط کروانے کا کردار ادا کرتا ہے۔ یہی کیفیت سماجی اخلاقیات اور اقتدار کی ہے۔ جس سے خود غرضی‘ جھوٹ‘ فریب‘ منافقت اور بدعنوانی ایک سماجی معمول اور اعلیٰ اخلاقیات کی اصل کیفیت ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ طبقہ بنیادی طور پر مفادا پرستانہ کردار کا حامل ہوتا ہے اور طبقاتی جدوجہد کو روکنے کے لیے مفاد پرستی کا درس دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی جماعتوں اور ایم کیو ایم کے رجعتی اور انقلاب دشمن نظریات اس طبقے میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔ تاریخی طور پر اس مڈل کلاس میں سرمایہ دارانہ بحران کے بڑھنے کی کیفیات اور انقلابات کی پسپائی یا شکست کی صورت میں لسانی فرقہ واریت ذات پات‘ مذہبی جنونیت‘ قوم پرستی‘ تنگ نظر قوم پرستی‘ شاونزم وغیرہ کے رجعتی جذبات سرائیت کرجاتے ہیں۔ ان جمود کی مخصوص کیفیتوں میں محنت کش طبقے کی پسماندہ پرتیں بھی ان نظریات اور تعصبات کا شکار ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہٹلر سے لے کر ضیاء الحق کی سماجی بنیادیں اسی مڈل کلاس اور سماج کی پسماندہ پرتوں پرمبنی تھی۔ ہٹلر نے نسلی شاونزم اور ضیاء الحق نے مذہبی توہم پرستی کو استحصال کیا تھا۔ معمول کے رجعتی حالات میں یہ مڈل کلاس حکمرانوں کی کاسہ لیسی کا کردار اادا کرتی ہے۔ پھر انقلابی تحریکوں میں یہ اسی مفادپرستی کے غرض سے اپنے پڑھے لکھے ہونے کا رعب جما کر تحریکوں پر براجمان ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ صرف میڈیا اور ایم کیوایم کا یہ پرچار کہ مڈل کلاس کو اوپر لایا جائے نہ صرف ایک یوٹوپیا ہے بلکہ اوپر آکر مڈل کلاس کے افراد مڈل کلا س کے رہتے ہی نہیں بلکہ بالادست طبقات کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہی اس سرمایہ دارانہ سماجی نظام کااصول اور قانون ہے۔ جہاں رجعتی نظریات کی اس طبقے میں بنیاد ہوتی ہے وہاں یہ ان جرائم میں بھی ملوث ہوتا ہے جو دہشت گردی‘ ڈکیتی اور بھتہ خوری کے عمل میں سرگرم ہوتے ہیں۔ ان کی منظم شکل ہمیں ایم کیو ایم کی صورت میں ملتی ہے۔ جو ایک ریڑھی والے سے لے کر ایک بڑے سرمایہ دار تک کو اس تشدد غنڈہ گردی کی بلیک میلنگ او ر دہشت سے خوفزدہ کرکے ایک بہت بڑی مالیاتی طاقت بن چکی ہے۔ بہت سے فنکار‘ دانشور‘ کھلاڑی‘ اور دوسرے اپنی ہی شہرت اور دولت کے غلام بھی اسی اطاعت پر مجبور ہوتے ہیں۔ لیکن ایم کیو ایم جس مہاجر شاونزم سے شروع ہوئی تھی وہاں سے وہ ارتقا کرکے اب متحدہ کے روپ میں ایک’’سیکولر‘ ‘ ’’جمہوری‘ ‘ ملک گیر پارٹی بننے کی کوشش کررہی ہے۔ درمیانے طبقے کے لیے جہاں طاقت کا سرچشمہ پاکستانی ریاست ہے وہاں اس سے بڑا طاقت کا سرچشمہ امریکی سامراج ہے۔ اس لیے یہ ’’نظریات‘ ‘ واشنگٹن کی آشیر آباد حاصل کرنے کے لیے بھی تشکیل دیئے گئے ہیں۔ لیکن ایم کیو ایم کی تاریخ قطعاً جمہوری نہیں ہے بلکہ اس میں فسطائیت کے عناصر اور حربے بڑے حد تک پائے جاتے ہیں۔ سامراجیوں نے جب جماعت اسلامی اور دوسری مذہبی پارٹیوں کو استعمال کرلیا ہے تو وہاں وہ بھی ایم کیو ایم کی آشیر باد میں اضافہ کررہے ہیں۔ ان کو ایم کیو ایم کی نیم فسطائی کردار سے قطعاً کوئی اختلاف نہیں ہے بلکہ ایک انقلابی صورتحال میں وہ اس کی اس وحشت اور تجربے کو بھرپور طور پر نوجوانوں او رمحنت کشوں کی تحریک کے خلاف استعمال کریں گے۔ برطانیہ میں الطاف حسین کو دیئے جانے والے پروٹول کول اس کی غمازی کرتا ہے۔ سامراج کی اسی ’’مصالحت‘ ‘ کی پالیسی کے تحت جب مختلف پارٹیوں پر حکمران طبقات کے براجمان نمائندگان کی مخلوط حکومت بنائی گئی تو سندھ میں اکثریت کے باوجود صوبائی اور مقامی حکومتوں میں پیپلز پارٹی کی موجودہ سامراج نواز قیادت نے پارٹی کی جدوجہد اورورکروں کے لہو کو سامراجی پست پناہی کے حصول کے نیلام کرکے ایم کیو ایم کو پھر اقتدار دے دیا۔ کیونکہ سامراجی بھی جانتے ہیں کہ ریاستی اقتدار کے بغیر ایم کیو ایم اپنا تسلط اور وجود تک قائم نہیں رکھ سکتی۔ سامراجی اب مذہبی دائیں بازو کے زوال کے بعد ایک نام نہاد جمہوری‘ لبرل اور سیکولر دایاں بازو کوبنا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا کے علاوہ ریاست کے کچھ حصوں کے ساتھ ساتھ سامراجی بھی ایم کیو ایم کو پنجاب میں لاکر ایک مزید متبادل قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ سرمایہ دارانہ‘ جاگیردارانہ قیادت کو انہوں نے مشرف سے بڑھ کر استعمال کیا ہے اور کررہے ہیں۔ لیکن سامراجی پالیسیوں سے جو مہنگائی‘ غربت‘ بے روزگاری‘ بیماری‘ ناخواندگی اور عوام کی بربادی ہورہی ہے اس سے حکمران طبقات کے لیے پیپلز پارٹی کواسکی موجودہ شکل میں استعمال کرنا لمبے عرصے تک ممکن نہیں ہے۔ نہ صرف سماج میں بلکہ پیپلز پارٹی کے اندر بڑی بغاوتیں اور تحریکیں ابھریں گی۔ خصوصاً وہ کروڑوں محنت کش عوام جو پیپلز پارٹی کی حمایت کرتے ہیں لیکن اس کے اقتدار میں برباد ورسوا ہوتے ہیں۔ ان کے اندر بھی ایک لاوا سلگ رہا ہے وہ اس سے بیزار ضرور ہیں لیکن دائیں بازو کی جانب انکی بھاری اکثریت کی حمایت کے امکانات نہیں ہیں۔ دوسری جانب مسلم لیگ (نون) پنجاب میں اقتدار اسنبھال کر مال تو ہمیشہ کی طرح بہت بنارہی ہے لیکن اس کی ساکھ بھی تیزی سے مجروع ہو رہی ہے۔ پچھلے عرصے میں اس جماعت کی بنیاد بھی زیادہ تر کاروباری حضرات اور مڈل کلاس پر ہی تھی لیکن حالیہ بحران کی شدت نے اسکی بنیاد کو پنجاب میں بھی بہت کمزور کردیا ہے۔ پیپلز پارٹی میں بھی پچھلے عرصے میں مڈل کلاس کا خصوصاً پنجاب میں اہم رول رہا ہے۔ اس طبقے کا ہر کوئی اپنی مفاد پرستی کے لیے شارٹ کٹ ڈھونڈ رہا تھا۔ چونکہ بیشتر سیاسی پارٹیوں کی بنیادی معاشی وسیاسی پالیسیوں اور نظریات میں حکمرانوں نے فرق مٹا دیا ہے۔ اس لیے مفاد پرستی کو کیا غرضیکہ کہ لیبل کیا ہے؟ ان کو تو مال اور مفادات سے غرض ہے۔ لیکن پنجاب میں اس طبقے کا بدظن ہونا پھر ایم کیو ایم اپنے مفادات اور سرمایہ دارانہ نظام کی بقا کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ اس میں وہ ناکام ہی ہوگی۔ پنجاب میں قومی مسئلہ کی ایک اپنی المناک داستان ہے۔ انیس سو سنتالیس کے بٹوارے میں جو دوقومیں سامراج نے مقامی حکمرانوں کے ذریعے دو لخت کیں تھیں وہ بنگال او رپنجاب ہی تھیں۔ لیکن پنجاب میں بنگال سے بھی کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر قتل غارت گری ہوئی تھی۔ پہلے مذہبی بنیادوں پر اس کوکاٹا گیا اور پھر اس مذہبی منافرتوں کے جنون کو ابھار کر پنجاب کے دریاؤں کو محنت کشوں کے لہوسے پنجاب کے حکمرانوں نے سامراجی ایما پر سرخ کروادیا تھا۔ اگر سامراج یہ بٹوارہ مذہب کی بنیاد پر پر نہیں کرواتا تو پھر برصغیر جنوب ایشیا میں قومی آزادی کی جدوجہد کسی مرحلے پر رکے بغیر سوشلسٹ انقلاب کی منزل کو حاصل کرکے ہی دم لیتی۔ سرمایہ داری‘ جاگیرداری کا خاتمہ ہوجانا تھا اور سامراج کا استحصال مٹ جانا تھا۔ لیکن پنجاب کے اس خونی بٹوارے کے زخم بہت گہرے تھے المیہ یہ ہے کہ اس خونزیزی کی منافرتوں کے بل بوتے پر ایک رجعتی سوچ کو ابھارا گیا اور پنجابی قوم کا قتل پاکستانی شاونزم کی بنیاد بنا جس میں نہ صرف طبقاتی کشمکش کو کچلا گیا بلکہ سندھی‘ بلوچی‘ پشتونوں اور دوسری مظلوم قومیتوں کا قومی استحصال کیا گیا۔ لیکن اگر پنجاب میں پاکستانی شاونزم ابھارا گیا اور قومی استحصال بڑھایا گ یا تو ایم کیو ایم کا جنم اور ایک علیحدہ قومیت کے طور پر وجود ہی پاکستان کے حکمران طبقات کی جدید صنعتی قومی اور جمہوری ریاست تشکیل دینے کی تاریخی شکست کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ لیکن جس مہاجر شاونزم میں ایم کیو ایم کو ابھارا گیا اس کی کوئی تاریخی قومی وسماجی بنیاد ہی نہیں تھی۔ ہندوستان سے آنے والے خصوصاً یوپی اور سی پی کے درمیانے طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ چونکہ اشرافیہ اور بڑی جائیدادیں رکھنے والے بہت کم مسلمانوں نے اس علاقے سے ہجرت کی تھی جبکہ اتنے دور سے آئے کے لیے غریب عوام کے پاس شاید سفری صلاحیت ہی نہیں تھی۔ لیکن اس بٹوارے کے بعد کراچی اور دوسرے علاقوں میں متروکہ غیر مسلم املاک اور جائیدادیں کی ملکیت کا کھلواڑ شروع ہوا وہ آج اس مافیا سرمایہ دارای کی شکل اختیار کرگیا ہے جس کی سیاسی نمائندگی میں فسطائیت کے غالب عناصر ہیں۔ پنجاب میں اگر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں کی تعداد میں سیاسی ورکر ایم کیو ایم میں شامل ہورہے ہیں۔ لیکن ان کی اکثریت کسی امید‘ کسی انقلابی جذبے کے تحت شامل نہیں ہورہے ہیں۔ اپنی مایوسی اور اپنے کام پنجاب کی حکمرانوں جماعتوں سے نہ کرواسکنے کی پراگندگی میں اسی نظام اور اس طرز کا ایک اور سیاسی شارٹ کٹ کے چکر میں ہیں۔ لیکن شاید یہاں ان کو پہلے سے بھی زیادہ مایوسی ہوگی۔ کراچی اورسندھ کے دوسرے شہروں کی طرح پنجاب میں بھی ایم کیو ایم میں شمولیت اختیارکرنے والوں کی بڑی تعداد جرائم پیشہ اور لمپن عناصر پر مبنی ہے۔ جو اپنی پست پناہی کے لیے ایم کیو ایم کے اقتدار اور سیاسی بلیک میلنگ کو استعمال کرنے کی غرض سے اس میں شامل ہونے کا اعلان کررہے ہیں۔ ایم کیو ایم ان کو اپنی سیاسی غنڈہ قوت میں منظم کرنے کی کوشش کرے گی جس سے سیاسی تشدد مزید بڑھے گا۔ ایم کیو ایم کا پنجاب میں داخلے کا ایک اور مقصد بھی ہے۔ کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں میں دو دہائیاں اقتدار میں رہنے سے ان کی اردو بولنے(مہاجر) والے محنت کشوں میں ساکھ بری طرح مجروع ہوئی ہے۔ اگر دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں انکی اقتدار اور گورنر شپ پر گرفت نہ ہوئی اور ان کے پاس ایک مافیا طرز کی انتخابی مشینری نہ ہوئی، ، جس کی مالیاتی بنیادیں مسلسل بھتہ خوری پر ہے جس کا لوٹنے جانے کا عمل انکی ٹریننگ کاحصہ ہے، ، تو ایم کیو ایم کو ایک عبرتناک شکست کامنہ میں دیکھنا پڑتا ہے۔ اس مصنوعی اور فسطائی بنیاد پر وہ پنجاب میں بھلا کیا عوامی بنیادیں حاصل کرسکیں گے اور کونسی ملک گیر پارٹی بن سکیں گے۔ جس مافیا سیاست کے عادی ہیں وہ پنجاب میں بھی مختلف مسلم لیگوں اور دوسرے سیاسی پارٹیوں کے پھیلے ہوئے لاتعداد قبضہ گروپوں اور سمگلنگ کے گروہوں کی صورت میں پہلے سے ہی موجود ہیں۔ یہاں بھی قبضہ گروپوں کی لڑائی اور غنڈہ گردی تیز ہوگی۔ محنت کش عوام تویونہی برباد ہ ہوتے رہیں گے۔ دو ہزار آٹھ کی انتخابی مہم میں کراچی کے صنعتی پرولتاریہ کا اہم حلقہ این اے دو سو ستاون ملیر جب انقلابی سوشلزم کے پروگرام پر کامریڈریاض لند کی انتخابی مہم نے کراچی کو سرخ جھنڈوں سے ایک نئی تبدیلی کی امید سے معطر کرنا شروع کردیا تھا تو الطاف حسین نے اپنے ایک ٹیلی فونک خطاب میں سوشلزم اور کمیونزم کے خلاف لڑنے اور اس کوبرباد کرنے کی بات کی تھی۔ غریب عوام کے مسائل اور دکھوں کی بات تو ہر کوئی کررہا ہے۔ یہ مظلوم طبقات اپنی اذیتوں کے نوحے سن سن کر تنگ آچکے ہیں۔ لیکن دوسرے لیڈروں کی طرح الطاف حسین ان کا کوئی ٹھوس جامع سائنسی حل دینے سے قاصر ہے۔ سامراج کی کوکھ میں بیٹھ کر پاکستان میں اقتدار کی شطرنج کھیل کروہ خود مزے لوٹ رہا ہے۔ ان نظریات اور ان افکار میں سے تو ردِانقلاب اور رجعتیت ہی نکل سکتی ہے۔ یہ پنجاب یا پاکستان کے محنت کشوں کے مسائل کہاں سے حل کریں گے۔ اگر کراچی میں ایم کیو ایم کی ساکھ ختم ہورہی ہے پنجاب میں بھی مسلم لیگیں اور نظریہ پاکستان کا غلبہ کسی حد تک ٹوٹ چکا ہے۔ پاکستانی قوم پرستی اور محب الوطنی بہت لاغر اور کھوکھلی ہوچکی ہے۔ لاہور کے جواریوں نے کرکٹ کے ذریعے اس محب الوطنی کو جعلی طور پر ابھارنے کے ہتھکنڈے کا بھی ستیاناس کردیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت نے پارٹی کے بنیادی سوشلسٹ منشور سے اذیت ناک انحراف کرکے سرمایہ داری اور سامراجی جبر کے ذریعے محنت کشوں پر عذاب ڈھائے ہیں۔ حالیہ قیادت کے اقتدار کے ختم ہوتے ہی پارٹی پران کی گرفت بھی ٹوٹ جائے گی۔ پارٹی کی حمایت کرنے والے محنت کش عوام ان کو اور ان کے کاسہ لیسوں کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔ ان کی سیاست کے خاتمے کا عمل تیزی سے بڑھے گا اور پارٹی میں انقلابی سوشلزم کے رجحانات آگے بڑھیں گے۔ موجودہ حکمران اور سیاست دان چونکہ غیر جدلیاتی یعنی منتقی سوچ اور فلسفہ رکھتے ہیں اس لیے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ سماج میں حالیہ عارضی سیاسی بے حسی لاامتناہی طور پر جاری رہے گی۔ ان کے خیال میں مڈل کلاس کے وفاداریاں بدلنے سے یہ سیاسی خلا پر ہوتا رہے گا۔ ان کے چہرے بدلتے رہیں گے نظام وہی رہے گا‘ یہ سوچ غلط اور فرسودہ ہے۔ حالات کے تھپیڑے اور بڑے بڑے طوفانی واقعات موجودہ سیاسی بے حسی کو توڑ دیں گے۔ محنت کش طبقے کی سوچ لاشعور سے شعور میں داخل ہوگی۔ حقائق کو پہچانے گا‘ اپنے دکھوں کا مداوا تلاش کرے گا۔ ہاتھوں سے ووٹ دے دے کر محنت کش عوام کو کچھ نہیں ملا۔ ہر حکومت میں غربت اور ذلت بڑھی ہے۔ اس بوسیدہ نظام کے جعلی انتخابات کی بجائے یہ محنت کش طبقہ ا س سیاسی خلا کو پرکرنے کے لیے 1968-1969ء کی نسل کی طرح انقلاب کے میدان میں اتر کر اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں میں لے کر تاریخ کو بدل سکتا ہے۔ انقلابی تحریکیں پھوٹیں گی۔ سارا ماحول بدل کر رہ جائے گا۔ یہ اندھیرے‘ یہ بھوک‘ یہ ذلت‘ یہ خونریزی ہمارے مقدر میں نہیں لکھی ہے۔ اس بوسیدہ نظام میں رہنے کی سزا ہے۔ اس سزا کو ختم کرنا ہوگا۔ ہمیں اذیتیں دینے والوں کو تاریخ کے مکافات عمل کا سامنا کرنا ہوگا۔ ان فوجی آمریتوں‘ ان سیاسی دھوکے باز مداریوں‘ ان رجعتی مذہبی جنونیوں اور تنگ نظر قومی تعصبات کے بیوپاریوں کا قلع قمع کرناہوگا اس نظام کو ایک سوشلسٹ فتح سے نیست ونابود کرکے ایک سرخ سویرے کا طلوع ایک نئے وقت‘ ایک نئی زندگی اور استحصال سے پاک معاشرے کو نوید بنے گا۔ جہاں سے نسلِ انسان کے تسخیر کائنات کے سفر کانیا آغاز ہوگا۔

Source: ایم کیو ایم اور پنجاب