شام پر منڈلاتی سامراجی جارحیت

شام میں 30 ماہ سے جاری بھیانک خانہ جنگی میں ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک جبکہ کئی لاکھ زخمی، اپاہج اور بے گھر ہوچکے ہیں۔ دو دن پہلے دارلحکومت دمشق کے قریب باغیوں اور سرکاری فوج کے درمیان ایک تصادم کے دوران کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے متاثرین کے درد ناک مناظر سامنے آئے ہیں۔ دونوں اطراف اس حملے کا الزام ایک دوسرے پر عائد کررہی ہیں۔ اس واقعے کے بعد امریکی ریاست کے کچھ دھڑوں کی جانب سے صدر اوباما پر تنازعے میں براہ راست فوجی مداخلت کے لئے دباؤ مزید بڑھ گیا ہے۔ امریکہ کی قدامت پرست ریپبلکن پارٹی کے ایک لیڈر جان مکین نے اوباما حکومت پر دباؤ ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اگر اس معاملے کو دبا دیا گیا تو دنیا بھر کے ظالم آمروں کو کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی چھوٹ مل جائے گی۔‘‘ ڈیموکریٹک پارٹی کے خارجہ امور کی کمیٹی میں نمائندے ایلیٹ اینگل نے کہا ہے کہ ’’اگر ہم اپنے اتحادیوں سے مل کر اسد کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے قاتلانہ استعمال کے خلاف رد عمل نہیں کریں گے تو جارح ممالک اس کو سبز بتی سمجھیں گے۔‘‘ امریکہ کے ایک روشن خیال مفکر گور وائیڈل نے امریکی سیاست کے بارے میں کہا تھا کہ ’’امریکہ میں ایک سرمایہ دارانہ پارٹی ہے جس کے دو دائیں بازو کے دھڑے (ریپبلکن اور ڈیموکریٹ) ہیں۔‘‘

امریکہ سامراج کی شام سے مخاصمت بہت پرانی ہے۔ پہلی جنگ عظیم اور سلطنت عثمانیہ کے انہدام کے بعد برطانوی اور فرانسیسی سامراجیوں نے مشرق وسطیٰ کو مصنوعی طور پر مختلف ممالک میں تقسیم کردیا تھا۔ یہ تقسیم کچھ اس طرح سے کی گئی تھی کہ تیل کے بڑے زخائر چھوٹے ممالک کے حصے میں آئیں تاکہ سامراجی گرفت آسان رہے۔ 1950ء کی دہائی سے براہ راست سامراجی نوآبادکاری کے خلاف مشرق وسطیٰ سمیت پوری دنیا میں انقلابی تحریکیں ابھریں۔ یہ سامراج مخالف تحریکیں بہت سے عرب ممالک میں عوامی بغاوتوں اور انقلابی سرکشیوں پر منتج ہوئیں جن کے ذریعے بائیں بازو کی حکومتیں قائم ہوئیں۔ مصر میں 1952ء کے انقلاب کے ذریعے جمال عبدالناصر کی انقلابی حکومت قائم ہوئی۔ شام میں 8مارچ 1963ء کو سوشلسٹ بعث پارٹی کی قیادت میں برپا ہونے والے انقلاب کے ذریعے سامراج کی کٹھ پتلی حکومت کے ساتھ ساتھ جاگیرداری اورسرمایہ داری کا بھی خاتمہ کر دیا گیا۔ عرب ممالک کے علاوہ ایران میں بھی ایک انقلابی لہر کے ذریعے بادشاہت کا خاتمہ ہوا محمد مصدق انتخابات کے ذریعے صدر منتخب ہواجسے بعد ازاں سی آئی اے نے تیل کی برطانوی اجارہ داریوں کو قومی تحویل میں لینے کے ’’جرم‘‘ میں فوجی بغاوت کے ذریعے معزول کردیا۔ اسی دوران 1956ء میں مصر میں جمال عبدالناصر کی سامراج مخالف حکومت نے فرانس، برطانیہ اور اسرائیل کے خلاف ایک انقلابی جنگ جیت کر نہر سویز کو قومی تحویل میں لے لیا۔ حالات وواقعات سامراجیوں کے کنٹرول سے باہر ہوتے جارہے تھے چنانچہ بائیں بازو کی سامراج مخالف حکومتوں کو سبوتاژ کرنے کے لئے بے پناہ مالی امداد کے ذریعے اخوان المسلون جیسی مذہبی بنیادپرست تنظیموں کو منظم و متحرک کیا گیا۔ یہ جدید اسلامی بنیادی کا نقطہ آغاز تھا جس کا موجد امریکی صدر آئزن ہاور کا وزیر خارجہ جان فاسٹر ڈلس تھا۔

شام میں بعث پارٹی کی جانب سے معیشت کو قومی تحویل میں لینے کے بعد انتہائی تیز رفتار معاشی ترقی ہوئی۔ علاج اور تعلیم سمیت بنیادی انسانی ضروریات کی مفت فراہمی کو ریاستی ذمہ داری قرار دیا گیا۔ ان ترقی پسند اقدامات کے نتیجے میں ایک روشن خیال اور اعلیٰ معیار کی ثقافت نے جنم لیا۔ تاہم 1980ء کی دہائی میں بیوروکریسی کی کرپشن اور معاشی منصوبہ بندی پر عوام کے جمہوری کنٹرول کی عدم موجودگی نے معاشی بحران کو جنم دیا۔ حافظ الاسد کے بعد اس کا بیٹابشارالاسد اقتدار میں آیا تاہم بحران سے نمٹنے کے لئے جمہوری منصوبہ بندی جیسے انقلابی اقدامات کی بجائے اس نے نجکاری جیسی رجعتی پالیسیوں کا راستہ اپنایا، لیکن نجکاری کا یہ عمل سست رفتار تھا اور معیشت کے بڑے حصے ریاستی ملکیت میں ہی رہے۔ اس کے علاوہ نجکاری کے عمل میں بشارالاسد سامراجیوں کی بجائے اپنے حواریوں کو ہی نوازتارہا اور یوں سامراج کے ساتھ اس کے تعلقات بدستورکشیدہ رہے۔ دوسری طرف بشارالاسد کی ان پالیسیوں اور ریاستی جبر کے نتیجے میں شامی عوام کے اندر اس کے خلاف غم و غصہ بڑھتا رہا۔

2011ء میں تیونس اور مصر سے اٹھنے والی انقلابی لہر پورے خطے میں پھیل کر شام میں بھی سرایت کر گئی۔ ہر انقلابی تحریک کی طرح شام کے عوام بھی اپنی بنیادی ضروریات کے حصول کے مطالبات لئے حکومت کے خلاف سڑکوں پر آئے تھے لیکن ٹھوس پروگرام اور لائحہ عمل سے لیس انقلابی قیادت کی عدم موجودگی میں یہ تحریک رجعتی عناصر کے ہاتھ چڑھ گئی، سیاسی بنیادوں پر جدوجہد کی بجائے شام میں خانہ جنگی کا آغاز ہوگیا اورسامراجیوں کی مداخلت کے بعد یہ لڑائی دو رجعتی قوتوں کے درمیان ایک تنازعے کی شکل اختیار کر گئی۔ اس وقت بشارالاسد کے خلاف برسر پیکار نام نہاد ’’آزاد شامی فوج‘‘ میں کئی دھڑے موجود ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، سعودی عرب، قطر، ترکی اور بحرین کی حکومتیں مختلف جنگجو گروپوں کی فوجی اور مالی امداد کررہی ہیں۔ سامراجی جنگ لڑنے والے ان گروپوں کے درمیان بھی تضادات موجود ہیں اور ان کی آپسی لڑائیاں خون ریزی کو مزید بھڑکا رہی ہیں۔ امریکہ مذہبی بنیاد پرستوں کو بڑے پیمانے کی فوجی امداد اور بھاری اسلحہ نہیں دینا چاہتا ہے کیونکہ اسے ڈر ہے کہ اسلحہ واپس اسی کے خلاف استعمال ہوسکتا ہے۔ اسی طرح حالیہ دنوں میں سعودی عرب اور قطر کے درمیان سامراجی غلبے پر مبنی تضادات کھل کر سامنے آئے ہیں اور دونوں ممالک مذہبی جنونیوں کے مختلف دھڑوں کی حمایت کررہے ہیں۔ سامراج کے حمایت یافتہ یہ دہشتگرد اور مذہبی جنونی اپنی دہشت پھیلانے کے لئے شامی عوام کا کھلے عام قتل عام کر رہے ہیں۔ اپنے زیر قبضہ علاقوں میں ان کی درندگی کے سامنے طالبان کی بربریت بھی شاید شرما جائے گی۔ شامی ’’باغیوں‘‘ کے ایسے اقدامات کی بدولت بشارالاسد کی عوامی حمایت میں ایک بار پھر اضافہ ہورہا ہے۔

دوسری طرف بشارالاسد کوروس، چین اور ایران کی حمایت حاصل ہے۔ حزب اللہ جیسی عسکری تنظیمیں اپنے علاقائی غلبے کو قائم رکھنے کے کئے اسد کی فوجوں کے شانہ بشانہ لڑ رہی ہیں۔ روس بڑے پیمانے پر بشارالاسد کو فوجی امداد فراہم کررہا ہے۔ امریکہ، شام پر عراق کی طرز کا ’نوفلائی زون‘ نافذ کرنے سے بھی ہچکچا رہا ہے کیونکہ اسے ڈر ہے کہ بشارالاسد کو روس کی جانب سے فراہم کردہ جدید ترین SAM میزائل اس کے جہازوں کو گرا سکتے ہیں، ایسی صورت حال عالمی سطح پر امریکہ کی تذلیل اور جگ ہنسائی باعث بنے گی۔ امریکہ اگر بحیرہ روم میں موجود اپنے بحری بیڑے (جس میں مزید ایک جہاز ’’مہان‘‘ کا اضافہ کیا گیاہے)سے شام پر کروز میزائلوں کا حملہ کرتا ہے تو یہ تنازعہ مزید تباہ کن ہوجائے۔ اس سے امن کی بجائے خونریزی میں اضافہ ہوگا اور پورا خطہ عدام استحکام کی نئی لہر کی لپیٹ میں آجائے گا۔ افغانستان اور عراق کی جنگوں میں پہلے ہی امریکہ کا دیوالیہ نکل چکا ہے، ایک اور خون ریز تنازعے میں امریکہ کی براہ راست شمولیت سے اس کی معیشت کا زوال تیز تر ہوجائے گاجس کے نتیجے میں عالمی معیشت 2008ء سے بھی زیادہ سنگین کریش کا شکار ہوسکتی ہے۔ اسرائیل بھی حالیہ دنوں میں شام پر محدود پیمانے کے کئی فضائی حملے کرچکا ہے۔ شام میں درحقیقت اسرائیل، امریکہ اور بہت سے مذہبی بنیاد پرست گروہوں کا الحاق موجود ہے۔ یہ رجعتی اتحاد امریکہ کی ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ اور مذہبی بنیاد پرستوں کی ’’امریکہ دشمنی‘‘ کے جعلی تضاد کا پردہ فاش کرنے کے لئے کافی ہے۔

جب تک شام میں سامراجی مداخلت بند نہیں کی جاتی، بشارالاسد کی فوجیں اپنا ریاستی جبر ختم نہیں کرتیں اور شامی عوام کو خود اپنے مقدر کا فیصلہ نہیں کرنے دیا جاتا یہ تنازعہ جاری رہے گا، خونریزی بڑھے گی اور پورا خطہ عدم استحکام کا شکار رہے گا۔ لیکن رضاکارانہ طور پرنہ تو سامراجی قوتوں کی درندگی رکے گی اور نہ ہی جبرالاسد کا جبر کم ہوگا اور نہ ہی سامراج کی گماشتہ اقوام متحدہ کوئی امن قائم کر سکتی ہے۔ یہ فریضہ صرف شامی عوام کو طبقاتی بنیادوں پر یکجا ہو کر ایک انقلابی تحریک کے ذریعے ہی سرانجام دینا پڑے گا۔ صرف اسی انقلابی جدوجہد کے ذریعے شام کے عوام اپنے جمہوری، معاشی اور سماجی حقوق حاصل کر سکتے ہیں!