کشمیر کی آزمائش

Urdu translation of Kashmir’s Ordeal (July 19, 2011)

تحریر: لال خان ۔ ترجمہ: یاسر ارشاد

چنگاری ڈاٹ کام، 16.07.2011

آزاد جموں و کشمیراسمبلی کے آج ہونیوالے انتخابات لائن آف کنٹرول کے اس پار مسائل کی دلدل میں دھنسے ہوئے محنت کشوں اور نوجوانوں کے لئے سب سے غیر اہم مسئلہ ہے۔کشمیری عوام کو جن سلگتے ہوئے مسائل کا سامنا ہے ان کو حل کرنے کیلئے حکمران طبقات کے پاس نہ تو وسائل ہیں اور نہ ہی ان کی ایسی کوئی خواہش ہے۔ پاکستان اور کشمیر میں آج کل جس طرز کی سیاست رائج ہے۔اس کے حتمی اصول و مقاصدبد عنوانی، لوٹ کھسوٹ، کمیشن خوری اور عیاشیوں و مراعات کے لئے اختیارات کے حصول کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ تمام تر انتخابی مہم جھوٹی بڑھک بازی اور کھوکھلے دعوں کی بنیاد پر چلائی گئی۔

جو پاکستانی حکمران طبقات خاص کر دائیں بازو کے قوم پرستوں اور مذہبی بنیاد پرستوں کے پاس شاونزم ابھارنے کا سب سے کارآمد اوزار مسئلہ کشمیر تھا، جو ازخود ماند پڑچکا ہے۔ ان انتخابات سے بر آمد ہونیوالے نتائج استحصال زدہ کشمیری عوام کوکچھ نہیں دے سکیں گے۔64سالہ ہنگامہ خیز دور کے بعد آزاد کشمیر کے عوام کی حالت بھارتی مقبوضہ کشمیر کے عوام کی حالت سے کسی بھی حوالے سے بہتر نہیں ہے۔

مسئلہ کشمیر کا حل آج1948سے بھی زیادہ مشکل دکھائی دیتا ہے یہاں تک کہ دائیں بازو کا مذہبی بنیاد پرست اور رجعتی سیاست دان فضل الرحمان بھی نیوز ویک پاکستان کو دئیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں اس بات کا اعتراف ان الفاظ میں کرتا ہے،’’ کشمیر کو حاصل کرنے کا جنون اب ٹھنڈا پڑ چکا ہے۔۔۔

میرے تجربات سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اب کوئی بھی ملک کشمیر کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہے۔‘‘ در حقیقت مولانہ اس حقیقت سے پہلو تہی کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ موجودہ سیاسی و جغرافیائی حالات اور سماجی و معاشی نظام کے اندر اس مسئلہ کو حل نہیں کرسکتے۔ تاہم وہ اس مسئلے کو زند ہ بھی رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ سامراجیوں اور پاک وہند کے سیاسی و فوجی حکمرانوں کے مفادات میں معاونت کرتا ہے۔ چونکہ مسئلہ کشمیر صرف اسلحہ پر ہونیوالے اخراجات کے لئے جواز کے طور پر ہی نہیں استعمال کیا جاتا جو سامراجی فوجی صنعتی کمپلیکس کے لئے بھاری کمیشنوں کا ذریعہ ہے یہ مسئلہ برطانوی سامراج نے برصغیر کے خونی بٹوارے کے بعد شعوری طور پر پیدا کیا تھا تاکہ اس خطے پر تسلط کو جاری رکھا جاسکے۔ مسئلہ کشمیر کے ذریعے پیدا ہوکر مسلسل جاری رہنے والے عدم استحکام کی بنیاد پر۔

تقسیم کے بعد برسرِ اقتدار آنے والے سامراج کے مقامی دلال حکمران مسئلہ کشمیر کو شاونزم ابھارنے کے لئے وجہ تنازعہ کے طور پر استعمال کرتے آرہے ہیں اور پھر اس شاونزم کے زہر کے ذریعے داخلی بے چینی اور طبقاتی بنیادوں پر ابھرنے والی محنت کشوں کی تحریکوں کو توڑنے اور کچلنے کے لئے ایک کارگر اوزار کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔ اس لئے وہ اپنی طبقاتی حکمرانی کے تقاضوں کے پیشِ نظر وہ اس مسئلے کو ابھارتے اور ٹھنڈا کرتے آئے ہیں۔ لیکن کشمیری عوام اور نوجونوں نے ان بدلتی کیفیتوں کا خمیازہ اپنی بد حالی اور غلامی کی صورت میں بھگتا ہے۔ برصغیر کے ڈیڑھ ارب سے زیادہ عوام کو سڑتے ہوئے سرمایہ داری نظام کے استحصال اور درندگی کا شکار رکھنے کے لئے مسئلہ کشمیر کو استعمال کیا گیا ہے۔

حکمران طبقات نے جنت نظیر کشمیر کو جہنم بنا رکھا ہے ہندوستانی فوج کے وحشیانہ جبر کی تاریخ میں کم ہی کوئی مثال ملتی ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کیمطابق’’ جموں کشمیر میں جبروتشدد ناقابلِ یقین ہے‘‘۔ برطانوی راج کے خلاف قومی آزادی کی تحریک میں مقامی سیاست دانوں خاص کر گاندھی نے سامراجی ایما پر مذہب کو سیاست میں گڈ مڈ کیا تھا۔ ایلکس وام تنزلمان نے اپنی شاندار کتاب ، انڈین سمر۔۔۔ بٹوارے کی پوشیدہ کہانی میں لکھا،’’ گاندھی کے ابھارنے مذہبی شاونسٹوں کو پر اعتماد کیا۔اگرچہ گاندھی نے تمام مختلف مذہبی عقائد رکھنے والوں کو خوش آمدید کہا مگر در حقیقت روحانی توہمات کو سیاست کا محور بنانے کا عمل انتہا پسندانہ اور تقسیم کے جذبات کو مستقل کرنے اور فروغ دینے کا باعث بنا۔۔۔جناح جس کا آغاز ہندومسلم اتحاد کے سب سے بڑے داعی کے طور پر ہوا تھا لیکن اسکا اختتام ایک مسلم اکثریت پر مبنی ریاست کی تخلیق پر اسرار کرنے والے کے طور پر ہوا‘‘۔ مذہب کو آج تک پاک و ہند میں استعمال کیا جاتا ہے خاص کر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے۔ اگر بھارتی مقبوضہ کشمیرکے باسی ہندوستانی فوجی جبرو وحشت اور قومی محکومی کا شکار ہیں تو پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے باسی بھی کوئی زیادہ آزاد نہیں ہیں۔1991میں بے نظیر بھٹو نے کہا تھا ،’’ پاکستان نے کشمیر کے وزیراعظم کو گرفتار کیا، انتخابات میں دھاندلی کی اور کشمیریوں کو اس حدتک بیگانگی کا شکار کر دیا ہے کہ وہ خود مختار کشمیر چاہتے ہیں‘‘۔

سماجی اور فزیکل انفراسٹرکچر کی حالت خوفناک ہے۔ غربت، بد حالی اور محرومی انتہاؤں کو چھو رہی ہے، اسلام آباد میں بیٹھنے والے حکمرانوں کی کشمیریوں کی جانب نو آبادیاتی آقاؤں والی ذہنیت کراہت انگیز حد تک قابلِ نفرت ہے۔ان حالات میں اگر کوئی رائے شماری کرائی جاتی ہے تو پاکستان کے ساتھ الحاق کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سلامتی کونسل کی قراردادیں اچانک بے اثر اور غیر ضروری نہیں ہوئی ہیں بلکہ سلامتی کونسل کا ادارہ بڑی طاقتوں کے مفادات کے خلاف کوئی بھی رائے شماری کرانے میں ہمیشہ خصی پن کا مظاہرہ کرتا آیا ہے۔ اس لیے سلامتی کونسل کے ذریعے مسئلے کے حل کی تمام گفتگو مضحکہ خیز ہے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ کشمیری عوام جو کئی نسلوں سے ہندوستانی فوجی تسلط کے ظلم وعتاب کا شکار ہیں۔ ہندوستان کے ساتھ الحاق مسترد کر دیں گے۔ ہندوستان کے رجعتی دائیں بازو کا پیش کردہ تین حصوں میں تقسیم کے ذریعے حل مسئلہ کشمیر کو مزید پیچیدہ کرنے اور خونریزی کا باعث بنے گا۔

تمام علاقائی اور لسانی فرق کے باوجود حق خود ارادیت کشمیریوں کا بنیادی حق ہے۔ لیکن کیا خود مختار کشمیر ایک پائیدار حل ہے؟ گزشتہ عرصے میں کشمیری عوام کی جدوجہد میں دو اہم پیش رفتیں ہوئی ہیں۔ اسلامی بنیاد پرست جو90 کی دہائی میں ابھرے تھے بڑی تیزی سے زوال پذیر ہو رہے ہیں۔ سماجی نجات کا سوال قومی تحریک کا محور بنتا جا رہا ہے۔ لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف ہونے والے ایک حالیہ سروے کے مطابق87فیصد لوگوں نے بیروزگاری اور غربت کو کشمیریوں کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا ہے۔ گزشتہ برس نہتے نوجوانوں کے دیوہیکل مظاہروں نے ہندوستانی ریاست اور دانش وروں کو لرزا دیا ہے۔ آزاد کشمیر کے علاقے میں جموں کشمیر نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن(JKNSF) میں تیزی سے فروغ پانیوالے مارکسی انقلابی رجحان نے اسلام آباد کے حکمرانوں کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔

اگر سرمایہ دارانہ بنیادوں پر خود مختار کشمیر حاصل کر بھی لیا جاتا ہے تو ہندوستان اور پاکستان کے سامراجی عزائم اور معیشت پر کنٹرول کی موجودگی میں کشمیری عوام کے سلگتے ہوئے مسائل کیسے حل کیے جاسکتے ہیں؟ بلکہ استحصال نہ صرف جاری رہے گا بلکہ بد ترین ہوتا جائیگا۔ امریکی سامراج بھی اس کو اپنے معاشی اور سٹریٹیجک مفادات کے لئے استعمال کرتا رہے گا۔ اس لئے کشمیر کی آزادی برصغیر کی محکوم اقوام اور استحصال کا شکار طبقات کی نجات کے ساتھ منسلک ہے۔ کشمیری عوام اور نوجوانوں کی تحریک جو برصغیر کے محنت کش طبقات کی تحریک کے ساتھ مضبوط طبقاتی جڑت بناتے ہوئے ہی آگے بڑھ کر اس استحصالی نظام کاخاتمہ کر سکتی ہے جو قومی جبر اور طبقاتی استحصال کی بنیادی وجہ ہے۔

لینن نے1920میں کہا تھا،’’ سوشلزم کا مقصد محض نسلِ انسانی کی آپسی تقسیموں کا خاتمہ نہیں ہے اور نہ صرف یہ کہ قوموں کو ایک دوسرے کے قریب تو لایا جائے بلکہ ان کو ایک دوسرے میں مد غم کیا جائے‘‘۔ کشمیر کی آزمائش کے خاتمے کا واحد حل اور حتمی راستہ جنوبی ایشیا کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کی تخلیق ہے۔

Translation: Chingaree.com