ایران اسرائیل جنگ: سامراجی جنگ طبقاتی جنگ کو ابھارے گی

Urdu translation of Iran and the threat of war: What should our attitude be? (February 22, 2012)

تحریر:ایلن وڈز‘حمید علی زادے:-

(ترجمہ: اسدپتافی)

ایک بار پھر سے اسرائیلی اور امریکی سامراج مشرق وسطیٰ میں اپنی شہہ زوری کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔اس بار ان کا نشانہ ایران ہے۔پچھلے دس سالوں کے عرصے میں یکے بعد دیگرے ایران پر پابندیاں لگائی گئی ہیں تاکہ اس پر دباؤ ڈالا جائے اور وہ اپنا جوہری پروگرام ترک کردے۔ پچھلے دو سالوں کے دوران سامراجیوں نے ایران کے جوہری پروگرام پر تنازعے کو ہوااور تقویت دی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ایران کو اسرائیل کیلئے ایک’’زندہ خطرہ ‘‘قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی حکومت ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کے لئے جو بھی ہوسکا ،کرے گی۔

گزشتہ چار برس میں ایران کے چار جوہری سائنسدانوں کو قتل کردیا گیا ہے، ممکنہ طور پر موساد یا سی آئی اے کے خفیہ آپریشن سے یہ سارا کھلواڑکیاجارہاہے۔ ساتھ ساتھ ایران پر عائد پابندیوں کو بھی مزید سخت کردیا گیا ہے، جس سے ایرانی معیشت کا بحران مزید گہرا ہوگیا ہے۔مغرب کی طرف سے تازہ ترین اہم حملوں میں ایران کے بینکنگ اور تیل کے شعبے پر لگائی جانے والی پابندیاں ہیں۔ جب فروری میں عائد کردہ تیل کے شعبہ پر عائد پابندیاں اپنا اثر دکھانا شروع کریں گی، تو اس کا نتیجہ ایرانی معیشت کے لیے انتہائی تباہ کن ثابت ہوگا۔ ایران کی آمدن کا اہم ذریعہ تیل ہے۔ صنعت ، خدمات اورزراعت کے شعبے مکمل طور پر تیل کے شعبے پر انحصار کرتے ہیں۔تیل کے شعبے کی آمدنی میں گراوٹ ایران اور خاص طور پر ایرانی لوگوں کو غیر یقینی کی کیفیت میں ڈال دے گا۔

ا سرائیلی حکومت اس حقیقت کو نہیں چھپا رہی کہ وہ ایران پر حملہ کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ افغانستان یا عراق کی طرح ایران پر قبضہ کیا جائے گا۔ایرانی فوج کی وہ حالت نہیں ہے جو 2003 ء میں عراقی فوج کی تھی۔ایران کی فوج زیادہ بڑی، بہتر طور پر مسلح اور زیادہ تربیت یافتہ ہے۔اسرائیل کی طرف سے ایک زمینی حملے کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کی فوج کوکم سے کم دو ممالک کے درمیان سے گزرنا پڑے گا، جو کہ بہت انتظامی مسائل کو اجاگر کرتا ہے۔سب سے بڑھ کر اپنے ملک پر ایک امریکی حملے کی صورت میں ایرانی عوام ا پنے بھرپور سامراج مخالف جذبات کی وجہ سے ایک زبردست مزاحمت سے امریکی سامراج کاڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔

تاہم ایک زمینی حملے کے امکان کو مسترد کیا جاسکتا ہے، عین ممکن ہے کہ فضائی حملوں کا لائحہ عمل اپنایا جائے۔اسرائیلیوں کی تاریخ ایسے حملوں سے بھری پڑی ہے۔1981ء میں اسرائیلیوں نے ایک اچانک فضائی حملہ کر کے اوسیراک (Osirak) میں زیر تعمیر عراقی جوہری ری ایکٹر کو تباہ کردیا تھا۔2007ء میں اسرائیل نے شام پر ایک فضائی حملہ کرکے مبینہ طور پر ایک جوہری تنصیب کو تباہ کردیاتھا۔ حالیہ عرصے میں سعودی عرب اور اردن نے اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ ایسے محاذ کی صورت میں وہ اسرائیل کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے دیں گے۔یہ ایران پر اسرائیلی جارحیت کو شہہ دینے کیلئے کھلی دعوت ہے۔

اپنے بھرپور تیل کے ذخائر کی وجہ سے مشرق وسطیٰ، خاص طورپر امریکی اور عالمی سرمایہ داروں کی نظر میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔وہ دوسری قومیتوں کو دھمکانااور ان کو اپنے آگے جھکنے پر مجبور کرکے اپنی باتوں کو کسی قانون کی طرح منوانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ہم مارکس وادی اس طرح کی تمام سامراجی کاروائیوں کی مکمل اور بھرپور مذمت کرتے ہیں۔یہاں یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس طرح کے کسی بھی قسم کے حملے کی قیمت ایران کے حکمران طبقے کو نہیں بلکہ ایران کے عوام کو اداکرنی پڑے گی جو کہ پہلے سے ہی ایک جابرانہ اور رجعتی حکومت کی وجہ سے شدید تکالیف اور مشکلات کا شکار ہیں ۔ ایسی صورت حال میں ضروری ہے کہ ہم پراپیگنڈے کی دھند سے آگے دیکھتے ہوئے اس تضاد کے پیچھے اصل مقاصد اور مفادات کو بے نقاب کریں۔

جوہری سوال ؟

سامراجی، ایرانی حکومت پر جوہری پروگرام شروع کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔دوسری طرف ایران کی حکومت کا موقف ہے کہ اس جوہری پروگرام کا مقصد پر امن ہے اور توانائی کے حصول کیلئے ہے۔ ایک ایسا ملک جو کہ تیل کی دولت سے مالامال ہو ، اس کے لیے یہ بات کرنا ناممکن سی بات ہے لیکن ، یہ دیکھنا بہت آسان ہے کہ ایرانی حکومت کیوں جوہری پروگرام شروع کرنا چاہتی ہے۔انہوں نے دیکھا تھا کہ عراق جس کے پاس بڑے پیمانے کی تباہی کے ہتھیارنہیں تھے، کیسے اس پر حملہ آورہو گیا اور پھر قبضہ کرتا گیاتھا۔دوسری طرف، شمالی کوریا جس کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں ،امریکہ اس کی حکومت کے ساتھ مطمئن اندازمیں بات چیت کا راستہ اپناتا ہے۔نتیجہ نکالنا مشکل نہیں ، سامراجی دھمکیوں سے بچنے کہ لیے آپ کے پاس جوہری ہتھیار ہونا لازمی ہیں۔

امریکی اور اسرائیلی سامراج کی اس سوال پر شکایات منافقت سے بھرپور ہیں۔اسرائیل مشرق وسطی کا واحد ملک ہے جس کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں جبکہ امریکہ بہادر کے پاس دنیا میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار موجود ہیں۔امریکہ وہ واحد ملک ہے جس نے جوہری ہتھیار کا استعمال جنگ میں کیا‘ جو اس نے دوسری عالمی جنگ کے اختتامی لمحوں پر ، جاپان کے نہتے معصوم شہریوں پر استعمال کیا تھااورجس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ سوال پیداہوتا ہے کہ یہ کون ہوتے ہیں جو فیصلہ کریں کہ کون جوہری ہتھیار بنا سکتا ہے اور کون نہیں؟

کئی دہائیوں سے امریکہ اور خاص طور پر اسرائیل عادی سے ہوگئے ہیں کہ وہ مشرق وسطیٰ میں اپنی من مانی کریں۔ انہوں نے ایک کے بعد ایک جنگ کی ہے ،کئی دوسرے ممالک کوڈرایا دھمکایا ہے اور اپنے منافقانہ مقاصد کے حصول کیلئے اپنی دھونس دھاندلی ا ور اثرورسوخ کو استعمال کیا ہے۔لیکن اگر ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تویہ خطے میں اسرائیل کی غالب پوزیشن کے لیے شدید خطرہ بن جائے گااور لا محالہ امریکی سامراجیت کی ساکھ کو بھی بہت نقصان پہنچے گا اور امریکہ کی حمایت یافتہ عرب گماشتہ حکومتوں کی بھی صورت حال مزید خراب ہوجائیگی۔یہی ایران کے جوہری پروگرام کے اوپر ہونے والے ہنگامے اور رونے دھونے کی اصل وجہ ہے۔اس شور شرابے کا ’’ایک آوارہ حکومت‘‘ کو ختم کرنے یا ’’جمہوریت کے تحفظ ‘‘ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔

جب بحرین میں عوام جمہوریت کے لیے بڑی تحریک کی صورت میں باہر نکلے ہوئے تھے تو سامراج کی طرف سے سڑکوں پر نکلے ہوئے لوگوں کو بچانے کے لیے کوئی بھی کوشش نہیں کی گئی تھی۔اس کے بر عکس ، انہوں نے بڑے آرام سے بحرینی حکومت کی طرف سے سعودی فوج کی مدد سے ہونے والے جبر کو نظر انداز کردیا۔سعودی حکومت بذات خود انسانی حقوق کے احترام کے حوالے سے خاصی بدنام ہے، تو پھر اس حکومت کو روکنے کی بات کیوں نہیں کی گئی؟وجہ صاف ظاہرہے کیونکہ ایسے موقعوں پر چپ اور منافقت سعودی حکومت‘ اسرائیل اور امریکہ کے معاشی ، سیاسی اور فوجی مفادات کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے ۔

مشرق وسطی میں تبدیلیاں

اس ساری صورتحال کی جڑوں کا سراغ امریکہ کی 1992 ء اور 2003-2011ء عراق پر جنگ سے لگایا جاسکتا ہے۔1992 ء سے پہلے ایران اور اسرائیل نے دہائیوں تک باہمی تعاون کے ساتھ کام کیا تھا، لیکن ظاہری سی بات ہے یہ سب کچھ پس پرد ہ کیا گیا نہ کہ کھلے عام اور سب کے سامنے۔ اس سانجھے داری کا بنیادی ہدف عراق کو کمزور سے کمزور ترکرناتھا ۔ لیکن 2003ء میں عراقی فوج کی سامراجی جارحیت اور قبضے کے بعد عراقی فوج کی تحلیل نے مشرق وسطی میں پہلے سے موجود طاقتوں کے توازن کو یکسر بدل کے رکھ دیااور جس کا فائدہ ایران کو ہوا۔حالیہ عرب انقلاب نے مشرق وسطی میں امریکہ کی ساکھ اور طاقت کو مزید کمزور کرڈالااور امریکہ کا ایک بہت بڑا گماشتہ حسنی مبارک اس انقلاب کے ہاتھوں اقتدار سے باہر ہوگیا۔ اسرائیل بھی امریکہ کا ویسے ہی گماشتہ ہے جیسا مبارک تھا۔

سعودی حکمران جو کہ آخر دم تک ہر ممکن زور لگاتے رہے کہ امریکہ مبارک کا ساتھ نہ چھوڑے ،لیکن وہ بعد میں اوبامہ کی متذبذب پوزیشنوں سے سخت مایوس وناخوش ہوئے ۔انہیں محسوس ہوا کہ اس طرح امریکہ دھوکے بازی کا ارتکاب کر رہاہے۔ انہیں یہ بھی خدشہ اور خوف لاحق ہوگیا کہ کہیں ان کے ملک میں بھی ایسی کوئی کیفیت نہ سامنے آجائے ۔خلیجی ریاستوں اور سعودی عرب نے ،خاص طورپر،عرب انقلاب کے دوران اپنے اپنے نتائج اخذ کرنے شروع کردیے تاکہ اپنے مفادات کا تحفظ کر سکیں ۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق قطر کے حکمرانوں نے تو انتہائی سرگرمی سے ان ملکوں میں مداخلت کی بھرپور کوشش کی تاکہ خطے میں اپنے اثرورسوخ کی دھاک بٹھاسکیں۔

اگر ہم یہاں یہ بات بھی کرتے چلیں تو مناسب ہوگا کہ عراق پر امریکی جارحیت اور پھر عرب انقلاب کے بعد سے ترکی پر بھی امریکی اثرورسوخ کمزور پڑچکاہے ۔ یوں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ خطے میں امریکی حمایت کاحلقہ اثر کم ہوچکاہے ۔اسرائیل تاہم ابھی تک امریکیوں کا دل وجان سے اتحادی چلا آرہاہے۔ اور یہی وہ وجہ ہے کہ جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ بیٹا باپ سے کیوں گورا نظر آنے پر تلاہواہے۔ واشنگٹن میں بیٹھی کوئی انتظامیہ بھی اسرائیل کو ’’نہ‘‘ کہنے کی جرات نہیں کر سکتی ۔چنانچہ اسرائیل یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ کسی جھجھک کسی تذبذب کے بغیر و مرضی آئے کر سکتاہے اور اسی احساس سے ہی معاملات جنم لیتے اور واقعات رونماہوتے آرہے ہیں۔

عراقی افواج کے انہدام کے بعد ایک خلا پیداہواجسے ایران نے پورا کیا۔اس نے نہ صرف عراق کے اندر بلکہ سارے خطے میں اپنا اثرورسوخ پھیلاناشروع کردیا۔ مشرق وسطی میں اثرورسوخ البتہ ایرانیوں کیلئے ایک موقع بناہواہے ۔لیکن جس تیز اثرکی توقع کی جارہی ہے وہ شاید ایرانی حکمرانوں کو میسر نہ آپائے ۔اپنی پوزیشن کو مستحکم بنانے کیلئے کافی وقت درکار ہوگا۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیونکر ایران کے حکمران اس قسم کے خطرات مول لیتے آرہے ہیں اور کیوں امریکہ اور اسرائیل کو تنگ آمد بجنگ آمد کیلئے شرارتیں کرتے آرہے ہیں!اور ان کو حملہ کرنے جیسے اقدامات کیلئے اکسارہے ہیں ۔

یہ کیفیت خود ایرانی سماج کے اندر پنپ رہے تضادات کی ہی عکاسی کرتی ہے ۔ایران کے حکمران طبقات میں انتشار اور ٹوٹ پھوٹ بہت نیچے گہرائی تک سرایت کر چکی ہے۔ ایرانی عوام میں بے چینی واضطراب انتہاؤں کو پہنچاہواہے ۔ کرنسی کی قیمت بہت گر چکی ہے اور افراط زر خطرناک حدوں کو چھوتا جارہاہے اور یہ ساری کیفیت ایک ایسے ماحول میں موجود ہے اور نموپارہی ہے کہ جب ایک عالمگیر زوال اپنے عروج کی طرف رواں دواں ہے اور جس نے پچھلے دو سالوں کے دوران ایران کو اپنی گرفت میں لیاہواہے ۔جس کی وجہ سے یہاں کی صنعت سکڑتی چلی جارہی ہے ،ہزاروں کمپنیاں بند ہوچکی ہیں،لاکھوں لوگ روزگارسے محروم ہوچکے ہیں ، یہ سلسلہ جاری وساری ہے اور یوں یہ سب غربت کی دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں ۔

اپنے لوگوں کو ان کی بڑھتی ہوئی غربت‘ بیروزگاری اور محرومی پر سے توجہ ہٹانے کیلئے ایرانی حکومت ایک قومی تعصب اور تفاخرکو ہوا دینے پر تلی ہوئی ہے ۔وہ ایک خارجی اورصیہونی خطرے کا واویلا کرکے آبادی کی بڑی اکثریت کی توجہ اور ہمدردی حاصل کرناچاہ رہی ہے ۔احمدی نژاد کی جانب سے امریکہ و اسرائیل کو مسلسل بھڑکانے کی کوششیں اسی ایک نفسیات ہی کا اظہار ہیں۔تاہم پھر اس قسم کے ہر عمل کی اپنی کیفیتیں اور جہتیں بھی ہواکرتی ہیں ۔ہر صورتحال کی اپنی منطق ہواکرتی ہے۔

ان خطرات کو مد نظر رکھتے ہوئے اور ان کو بھانپتے ہوئے اگر ان سے کسی حد تک واپسی بھی کی جاتی اور رعایت بھی کی جاتی ہے تو پھر نیچے موجود تضادات نئی اورزیادہ بڑی شدت کے ساتھ پھٹ کر سامنے آجائیں گے ۔امکانات موجود ہیں کہ احمدی نژاد حکومت امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ کسی سمجھوتے پر اتر آئے اور مشرق وسطی بارے کسی باہمی ہم آہنگی کو قبول کیا اور فروغ دیاجائے۔لیکن جس قسم کی دھمکیوں اور واویلے کو یہ ہوادے چکے ہیں وہ ان کی اس خواہش کو پورااور کوشش کو عمل پذیر ہونے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے ۔

اسرائیل

یہ حقیقت کہ اسرائیل کا وزیر اعظم نیتن یاہو ایران کے جوہری منصوبے کو ایک زندہ خطرہ قراردے چکاہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کا حکمران طبقہ اور خاص طورپر اسرائیل کی فوج کسی طور بھی آرام سے نہیں بیٹھیں گے ۔وہ کسی کاروائی کے بغیر ایران کی مسلسل دھمکیوں اور اشتعال انگیزی سے مشتعل ہورہے ہیں ۔وہ قرار دیتے آرہے ہیں کہ اسرائیل جو کچھ بھی کررہاہے یا کرے گا وہ اپنے دفاع کیلئے کرے گا۔دیکھنا یہ ہے کہ اصل حقیقت ہے کیا!

ابھی تک اسرائیل کا حکمران طبقہ آزادی سے ڈھٹائی سے وہ کرتا چلا آرہاہے جو وہ چاہتاتھا۔اور ایسے میں اسے کوئی چیلنج کرنے والا بھی نہیں تھا ۔1967ء سے کہ جب سے کہا جاتاہے اسرائیل نے جوہری ہتھیار حاصل کئے ،یہ مصر‘ شام،اردن ،لبنان عراق اور بلاشبہ سب سے زیادہ فلسطین پر چڑھ دوڑتا آیاہے ۔یہ ممالک ایک سے زیادہ بار’’ اسرائیل کشی ‘‘ کی زد میں آئے ہوئے ہیں۔ خطے میں ایک نئی جوہری طاقت کا ابھرنا،اسرائیل کی علاقائی داداگیری کیلئے ناقابل قبول اور تشویشناک امر ثابت ہورہاہے ۔اور یہی وہ بات ہے کہ جب نیتن یاہو یہ کہتاہے کہ ایران ہمارے لئے ایک زندہ خطرہ ہے ۔

لیکن پھر صرف یہی ایک حقیقت سب سے اہم نہیں ہے۔اس ساری صورتحال میں سب سے اہم ترین کیفیت اور عنصر خود اسرائیل کے اپنے اندر کی سماجی کیفیت ہے ۔عرب انقلاب نے اسرائیل کے اندر بہت شدیداور گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔اس نے اسرائیل کے عوام پر یہ واضح کردیاہے کہ ان کے حکمرانوں کے تمام تر پروپیگنڈے کے باوجود یہ عرب عوام نہیں ہیں کہ جو اسرائیل کے دشمن ہیں اور جنہوں نے اسرائیل کا ناطقہ بند کیاہواہے ۔بلکہ اس دوران کہ جب عرب عوام اپنے ملکوں کے اندر آمریتوں کے خاتمے اور جمہوریت کیلئے تگ ودو کررہے ہیں ،اسرائیل کی حکومت کا منافقانہ کردارکھل کر سامنے آگیاہے ۔یہ بات سب پر کھل چکی ہے کہ اسرائیل کی حکومت کی شدید کوشش اور خواہش رہی کہ حسنی مبارک اقتدار میں موجود رہے ۔اسرائیل کا حکمران طبقہ ہمیشہ سے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا چلا آرہاہے کہ اسرائیل عرب ملکوں کے ہاتھوں سخت خطرات میں گھرا ہواہے اور یہ کہ عرب دہشت گرد اسے اپنا نشانہ بنائے چلے آرہے ہیں ۔لیکن عرب انقلاب نے اس سارے جھوٹے واویلے کی قلعی کھول کے رکھ دی ۔اس نے اسرائیل کے اندر طبقاتی جدوجہد کو مہمیز دی ہے ۔ نام نہادلیفٹسٹوں کے عقیدہ بن چکے اس تصور کے بالکل برعکس کہ اسرائیل میں طبقاتی جدوجہد کا سوال ہی ناممکن ہے ،اسرائیل میں طبقاتی تفریق اور طبقاتی سوال شدت سے ابھر کر سامنے آرہاہے ۔

OECDترقی یافتہ ملکوں کی تنظیم کے مطابق،اسرائیل میں باقی ممبرملکوں کی بہ نسبت غربت کی شرح کہیں زیادہ ہو چکی ہے ۔اسرائیل میں ہر پانچ میں سے ایک شہری غربت کی سطح پر جی رہاہے ۔کام کرنے کی عمر کو پہنچے لوگوں کا چالیس فیصد روزگار سے محروم ہے ۔جبکہ 23فیصد غربت کی لکیر سے نیچے زندہ رہ رہے ہیں ۔گھر ،روزگار اور اجرتوں کے مسائل عام اسرائیلیوں کیلئے دن بدن درد سر بنتے چلے جارہے ہیں۔پچھلے موسم گرما میں لاکھوں اسرائیلیوں نے اپنی حالت زار پر احتجاج کرتے ہوئے مظاہرے منظم کئے ۔تحریک کے عروج کے موقع پر پانچ لاکھ اسرائیلیوں نے اپنا احتجاج رقم کیا ۔جبکہ اسرائیل کی کل آبادی ہی ستر لاکھ ہے ۔اس تحریک کے دوران ہی ’’مصریوں کی طرح سے لڑو‘‘اور’’یہ ہمارا تحریر سکوائر‘‘ جیسے نعرے اور بینرز تحریک میں سب سے نمایاں رہے ۔ان سے صاف پتہ چلتا ہے کہ تحریک کی کیفیت ،نوعیت اور ہئیت کیاتھی !یہ نظر آرہاتھا کہ یہ تحریک عرب انقلاب سے متاثر تھی ۔اس تحریک نے اسرائیل کی صیہونیت کو اس کی جڑوں تک ہلا کے رکھ دیا ۔یہ ایک مرکزی عنصر ہے جو کہ اسرائیل کے حکمران طبقے کو عسکری مہم جوئی کی طرف راغب کئے ہوئے ہے تاکہ عوام کی توجہ اندرونی مسائل سے ہٹائی جاسکے ۔

سعودی عرب

اس کیفیت سے سعودی حکمران سخت تشویش اور خوف کا شکار ہیں ۔عراق جنگ سے پہلے عراق ،سعودی عرب اور ایران کے مابین بفر زون چلاآرہاتھا۔اور جس نے اس بات کو یقینی بنایاہواتھا کہ ایران سعودیوں کیلئے زیادہ مشکلیں نہ پیداکرنے پائے ۔لیکن عراقی حکومت کے دھڑام کے بعد سے ایران عراق کے اندر اپنا حلقہ اثر مسلسل بڑھاتا چلا آرہاہے ۔تب سے سعودی عرب سمیت خلیجی ریاستیں ایران بارے تشویش کا شکارچلی آرہی ہیں اور انہیں اپنے ملکوں کے اندر موجود انتہائی غریب شیعہ ورکروں سے بھی خطرات لاحق ہوچکے ہیں جو کہ ان ملکوں میں انتہائی استحصال کاشکار چلے آرہے ہیں ۔اس کا اظہار بحرین کے معاملات میں سعودی عرب کی وحشیانہ عسکری مداخلت سے ہوتا ہے ۔خلیج فارس میں ایرانی حکومت انتہائی اشتعال انگیزی سے کام لیتی آرہی ہے ۔خاص طورپر امریکی بیڑوں کی نگرانی کے نام پر ۔خلیج عرب کے ایک اعلیٰ اہلکار نے کہا ہے کہ ابھی تو ایران جوہری طاقت نہیں بنا اور ابھی سے وہ اتنی دلیری کا مظاہرہ کررہاہے ،اگر یہ جوہری طاقت بن گیا تو پھر یہ نہ جانے کیا کچھ کر گزرے گا ۔اس سے عیاں ہوتا ہے کہ کیونکر سعودی اوبامہ پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ ایران کو سبق سکھایا جائے ۔اس دباؤ کا انکشاف پچھلے عرصے میں وکی لیکس کی دستاویزات میں ہواہے ۔ ’’ بادشاہ سلامت ،وزیر خارجہ ،شہزادہ مقرن اور شہزادہ نائف سبھی متفق ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ اور خاص طورپر عراق میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو روکنے کیلئے اور ایران کو واپس اس کی اوقات میں رکھنے کیلئے ہم امریکہ سے ہر ممکن تعاون کیلئے تیار ہیں۔بادشاہ سلامت تو اس بارے خاصے متفکر ہیں جبکہ سینئر شہزادے بھی ایسا ہی کچھ کرنے پر متفق و متفکرہو چکے ہیں۔ الجبیر کے مطابق بادشاہ تو مسلسل و متواتر امریکہ سے کہہ رہے ہیں کہ وہ ایران کو جوہری طاقت بننے سے روکے اور بس۔ بادشاہ کہہ چکاہے کہ سانپ کا سر ہی کچل ڈالو اس سے پہلے کہ وہ ڈس لے ۔ بادشاہ نے قرار دیاہے کہ ایران کے عراق میں بڑھتے اثرورسوخ کو روکنے کیلئے امریکہ کے ساتھ سرگرم ہونا ،سعودی بادشاہ ا ورا س کی حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے ‘‘۔

لیکن دوسری طرف وہ امریکہ پر مکمل اعتمادکرنے کیلئے بھی تیار نظر نہیں آتے ۔پچھلے سال انہوں نے اپنے ایریل ڈیفنس سسٹم کو بند کردیاتھا تاکہ اسرائیل کے جیٹ طیارے وہاں سے ایران کیلئے گزر کر سکیں ۔جبکہ اسی دوران ہی سعودی اور دیگر خلیجی ریاستیں اسلحے کے انبار خریدتی رہیں ۔ پچھلے ہی سال سعودی عرب نے امریکہ سے 60بلین ڈالرز کا اسلحہ خریدا۔جو کہ امریکہ کا کسی بھی غیر ملک کے ساتھ سب سے بڑا سودا ہے ۔

امریکہ کی حدودوقیود

جناب جارج بش کی جانب سے اعلان کردہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بعد سے امریکہ کا سیاسی ماحول بہت بدل چکاہے۔امریکیوں نے عراق میں اپنی انگلیاں جلا ڈالیں اور اس کے بعد اسے وہاں سے خجالت انگیز پسپائی بھی اختیار کرنا پڑ گئی۔افغانستان میں تو صورتحال عراق سے بھی انتہائی بدتر ہے ۔اندازہ لگایا گیا ہے کہ ان جنگوں سے جان چھڑاتے وقت امریکہ کو ان پر2.7کھرب ڈالرز خرچ کرنے پڑگئے ہیں۔ان جنگوں پر اخراجات اور امریکی مالیاتی اداروں کو دیے جانے والے بیل آؤٹ پیکجوں کی برکت سے امریکہ کا بجٹ خسارہ14.2کھرب ڈالرز تک پہنچ چکاہے۔اس مہم جوئی کے دوران ہزاروں امریکی فوجی جانیں بھی گنوا چکے ہیں ۔جنگ کے خلاف عوامی اپوزیشن پہلے سے کہیں زیادہ پیمانے پر پہنچ چکی ہے۔ اوبامہ کی الیکشن کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ اس کا ان جنگوں سے جان چھڑانے کا وعدہ بھی تھا ۔اس کیفیت میں امریکہ کا ایران کے خلاف کھلے عام جنگ کرنا بہت مشکل امر ہوگااور اس کیلئے یورپی ملکوں کو راضی یا شامل کرنا اس سے بھی کہیں زیادہ مشکل ہوگا ۔عراق جنگ کی مخالفت کے کروڑوں انسانوں کے مظاہرے بہت کم لگیں گے،اگر اب ایساہوا تو۔ یہی وجہ ہے کہ اوبامہ انتظامیہ ایران سے عسکری مخاصمت سے بچنے کیلئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے ۔امریکیوں نے تو لیبیا پر بمباری کیلئے بھی بمشکل اپنا حصہ ڈالا۔وہ بھی برطانیہ اور فرانس کی جانب سے شدید دباؤ کے بعد۔اس دوران لیبیا میں زمینی فوج کا استعمال تو سرے سے ہی نہیں کیا جاسکا۔

دراصل اوبامہ انتظامیہ ہر ممکن زور لگا رہی ہے کہ ایران کے ساتھ کوئی نہ کوئی معاہدہ یا سمجھوتہ ہو جائے ۔یہاں تک بھی افواہ ہے کہ اوبامہ نے براہ راست ایران کو مذاکرات کی پیشکش کر دی ہے ۔ایسا ہے تو پھر جنگ کا اتنا شور اتنا واویلا کس لئے ! مسئلہ یہ ہے اور یوں ہے کہ واشنگٹن کا اسرائیل کے حکمرانوں اور جرنیلوں پر کوئی بس ہے نہ کوئی زور۔ان کے اپنے مفادات ہیں اور جن کیلئے وہ امریکیوں سے متفق ہونا ضروری بھی نہیں سمجھتے ۔ خطے میں امریکہ کا واحد قابل اعتبار اتحادی ہونے کے ناطے اسرائیلی حکمران سمجھتے ہیں کہ وہ کسی مشاورت کے بغیر سب کچھ کرسکتے ہیں ۔اور پھر نیتن یاہو اوبامہ کو کمزور صدر سمجھتا ہے اور اس کے ساتھ کھلے بندوں اہانت آمیزرویہ رکھتا ہے ۔پچھلے سال کئی امریکی افسران اسرائیل کا دورہ کرتے رہے تاکہ وہ نیتن یاہو کو سمجھا بجھا سکیں کہ وہ ایران پر حملہ اس وقت تک نہیں کرے گا جب تک وہ اس کی پیشگی اطلاع امریکہ کو نہیں دے گا۔لیکن اسرائیلیوں نے ایسی کوئی بھی یقین دہانی کرانے سے انکار کردیا۔ اس کی وجہ سیدھی یہ ہے کہ وہ اپنے مفادات کو امریکہ کے سامراجی مفادات سے نتھی اورمنسلک نہیں کرنا چاہتے ۔

اگر اسرائیل ،ایران پر حملہ کرتا ہے ،جس کے امکانات واضح ہیں ،تب امریکہ کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ وہ اسرائیل کی حمایت نہ کرے۔ایران نے انتباہ کیا ہے کہ اس پر حملے کی صورت میں وہ آبنائے ہرمز کو بند کر دے گا ۔جس کے راستے سے عالمی تجارت کا 31 فیصد گزرتاہے۔ اس دھمکی کے جواب میں امریکہ نے بھی واضح کردیاہے کہ وہ بھی خلیج فارس میں اپنے مفادات کا دفاع کرے گا۔خامنائی کے نام ایک غیر اعلانیہ خط میں اوبامہ نے واضح کہا ہے کہ آبنائے ہرمز وہ’’ سرخ لکیر ‘‘ہے جسے کسی کو بندنہیں کرنا چاہئے ۔اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ امریکہ ایران میں اپنی فوج اتار دے گایا ملک پر قبضے کی کوشش کرے گا۔امریکی کسی بھی ایک اور ناقابل فتح جنگ میں نہیں ملوث ہونا چاہتے ۔وہ متحمل ہی نہیں ہو سکتے۔لیکن وہ ایران کی نیول فورس اور اس کے دفاعی مراکز کو اپنا نشانہ بنا سکتا ہے ۔

جنگ کے اثرات و مضمرات

خطے کی صورتحال ایران اور اسرائیل کے مابین ایک ممکنہ جنگ کی طرف بڑھتی نظر آرہی ہے۔اسرائیلی ایران کی جانب سے کسی اشارے کے منتظر ہیں اور وہ ایران پر فضائی حملہ کرنے کیلئے تلے ہوئے ہیں جس کا مرکزی ہدف ایران کی جوہری اور دفاعی تنصیبات ہوں گی۔اس قسم کا حملہ ایران کے نیو کلیئر پروگرام کو دو ایک سال کیلئے پیچھے دھکیل سکتاہے ۔لیکن اس کو ختم نہیں کیا جاسکے گا۔ایرانی حکومت کو ایک مشکل کیفیت کا سامنا ہوگا اور اسے ناکوں چنے چبانے پڑ سکتے ہیں لیکن اسے شکست نہیں دی جا سکے گی ۔اس کی عسکری صلاحیت بڑھ جائے گی اور یہ جلد ہی خود کو بحال بھی کرلے گی۔اس قسم کا عسکری تصادم کسی طور بھی خطے میں ایک کھلی جنگ کو جنم نہیں دے گااورجیسا کہ ماضی میں ہم نے دیکھا ہے کہ کوئی ایک عرب حکومت بھی اسرائیل کے سامنے نہیں آئے گی۔ عرب دنیا کے سبھی حکمران باہر بیٹھ کر اس جنگ کا نظارہ اور تماشہ دیکھیں گے یا پھر وہی کریں گے جس کا اشارہ انہیں امریکہ کرے گا۔ہاں البتہ جب اور اگر معاملات عرب ملکوں کی سڑکوں تک پہنچ گئے تو پھر صورتحال کچھ اور ہی رنگ ڈھنگ دکھانے لگے گی ۔ان ملکوں کے عوام اسے ایک اور جارحیت کے طورپر دیکھیں اور سمجھیں گے کہ خطے کے ایک اور ملک کو اپنا مطیع بنانے کا کھیل کھیلا جارہاہے ۔لوگ ایک بار پھر سے سڑکوں پر نکل آئیں گے ،چوکوں چوراہوں پر جمع ہوتے چلے جائیں گے ۔نہ صرف اسرائیل اور امریکہ کی حکومتوں بلکہ خو د اپنے ملکوں کے حکمرانوں کے خلاف بھی۔ مشرقِ وسطیٰ میں کوئی ایک امریکی سفارتخانہ بھی قائم نہیں رہ سکے گا۔یہ عمل خطے سمیت ساری دنیا میں طبقاتی کشمکش کو اور بھی تیز کر دے گا۔اور یوں سارا خطہ شدید عدم استحکام کی زد میں آجائے گا۔عرب انقلاب کو ایک نئی زندگی ایک نئی شکتی ملے گی اور یوں یہ ایک نئے اور اگلے مرحلے میں داخل ہو جائے گا۔

جنگ اور طبقاتی جنگ

2009ء میں ایران کے عوام نے ملائی آمریت کے خلاف چھ ماہ تک ایک شاندار انقلابی تحریک چلائی ۔یہ تحریک جو کہ قیادت،تنظیم اور محنت کش طبقے کی فیصلہ کن شمولیت سے محروم رہی ،واقعاتی طورپر شکست سے دوچارہوئی ۔لیکن اس کے بعد اور اس کے باوجود ابھی تک ایران کے عوام نے ابھی اپنے حرف آخر کا اعلان نہیں کیا ۔کوئی ایک عمومی مسئلہ حل نہیں ہو سکا اور حکمرانوں کے تضادات مزید گہرے اور شدیدہوچکے ہیں۔ مشکل ہو گا کہ اب یہ کسی نئی تحریک کو پہلے کی طرح سے قابوکرلے۔ملک کو درپیش معاشی بحران کی شدت کی بدولت معیار زندگی پہلے سے بھی پست ہوتے جارہے ہیں ،جبکہ بیروزگاری کی شرح تیزی سے بڑھتی چلی جارہی ہے۔ اکتوبر 2011ء میں افراط زر کی سرکاری شرح19.1فیصد تک پہنچ چکی تھی ۔جبکہ درحقیقت اعداد وشمار اس سے کہیں زیادہ ہیں ۔ پابندیوں کے اثرات اور ایرانی ریال کی گرتی ہوئی قیمتوں کے سبب صورتحال مزید بدسے بدتر ہوتی چلی جارہی ہے۔ جنوری 2012ء میں غیر سرکاری بلیک مارکیٹ میں ایک ڈالر 18200ریال کا ہوچکا۔ جبکہ اس سے پچھلے مہینے یہ گیارہ سے بارہ ہزار پر تھا۔صورتحال عوام کیلئے دن بدن ناقابل برداشت ہوتی چلی جارہی ہے اور جلدیابدیر ایک نئی انقلابی کیفیت سامنے آئے گی ۔اسرائیل کی جانب سے حملے کی دھمکیاں اور پابندیاں ہی وہ اوزار ہیں جن کے ذریعے ایرانی حکمران عوام کو روکے چلے آرہے ہیں ۔حکمران سامراجی پابندیوں کو عوام کی حالت زار کی اصل وجہ قراردے رہے ہیں۔

چنانچہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اسرائیل ا ور ایران دونوں ملکوں کے حکمران اپنے اپنے ملکوں کے جلتے سلگتے مسائل پر سے اپنے اپنے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے ایک دوسرے کی مخالفت و معاونت کرتے چلے آرہے ہیں ۔حکومت کسی طور جنگ لڑنے کی پوزیشن میں نہیں کہ اس کے بعد عدم استحکام اور بھی گھمبیر ہوجائے گا۔پس پردہ سبھی کسی نہ کسی باہمی سمجھوتے اور معاہدے کی تگ ودو میں بھی ہیں لیکن کھلے بندوں ایک دوسرے کو ڈرانے دھمکانے پر بھی مجبور ہیں ۔اس طرح یہ لوگ ایک آگ سے کھیل رہے ہیں ،خاص طورپر اسرائیل۔

ایران میں اس قسم کی جنگ طبقاتی جدوجہد پر کیا اثرات مرتب کرے گی؟شروع میں تو یہ طبقاتی جنگ کو یکسر ہی لیکن وقتی طور ایک طرف دھکیل دے گی‘ اپنے ابتدائی مراحل میں ہر جنگ ایسا ہی اثرمرتب کرتی ہوتی ہے ۔1914ء میں زار شاہی کی حکومت کو بھی پہلی عالمی جنگ میں جانا پڑگیاتھا جس سے روس میں طبقاتی تضاد کسی حد تک پیچھے چلا گیا۔اگرچہ حکومت کے خلاف نفرت عام تھی اور بالشویک پارٹی کو اس وقت منظم محنت کش طبقے کی دوتہائی حمایت بھی میسر تھی ،اس کے باوجود بھی انقلابیوں کو حب الوطنی کی لہر کی وجہ سے الگ تھلگ ہونا پڑ گیا تھا۔ باشعورورکروں پر پسماندہ پرتیں حاوی ہونی شروع ہوگئیں اور عوام ماند پڑتے چلے گئے ۔تاہم اس کے تین سال بعد ہی عوام انقلاب کے راستے پر چل پڑے تھے اور انہوں نے زارشاہی کو اکھاڑ کے پھینک دیاتھا۔

ہم ایران میں بھی ایسا ہی کچھ ہوتے دیکھیں گے ۔کچھ وقت کیلئے حکمرانوں پر سے نیچے کا دباؤ ٹل جائے گا۔کہا جاسکتاہے کہ ایسا نہیں ہوگا کیونکہ عوام حکمرانوں سے متنفر ہیں۔ہاں یہ درست بات ہے لیکن ایران کے عوام جتنی نفرت اپنے حکمرانوں سے کرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ وہ امریکہ اور اسرائیل کی حکومتوں سے بھی کرتے ہیں ۔ایک سامراجی جارحیت کی حالت میں وہ اپنا اور اپنے ملک کا دفاع کریں گے۔ ہمیں اس کیلئے تیار رہناہوگا۔بعد میں جاکر یہ کیفیت اپنے الٹ میں تبدیل ہو جائے گی ۔

جنگیں ہمیشہ ہی آغاز میں حب الوطنی کے جذبات کوجنم دیتی اور پروان چڑھاتی ہیں لیکن ان کا نتیجہ اور انجام انقلابی نوعیت کا حامل ہوتا ہے ۔ایک ابتدائی مرحلے کے بعد سماج میں موجود سبھی تضادات تیزی سے پہلے سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ پھٹ کر سامنے آئیں گے ۔اگر ایران کو عسکری پسپائی کا سامنا کرناپڑتاہے تو یہ عمل کہیں زیادہ تیز ترہو گا۔لوگ یہ نتیجہ اخذ کریں گے کہ ان کے سبھی عذابوں اور محرومیوں کے ذمہ دار ملاہیں اور وہ ملاؤں کو جڑ سے ہی اکھاڑ پھینکیں گے ۔جلد یا بدیر ایک نئی اور طاقتور انقلابی کیفیت سامنے آجائے گی ۔

بورژوا اصلاحات کا بانجھ پن

ایران کے لبرل ’’اصلاح پسند‘‘قدامت پرستوں پر تنقید کرتے آرہے ہیں کہ وہ بلا وجہ سامراج سے پنگالینے پر تلے ہوئے ہیں اور اشتعال انگیزی کررہے ہیں۔وہ رونا رو رہے ہیں کہ احمدی نژاد کی حکومت خواہ مخواہ اپنے دشمن پیداکرتی چلی آرہی ہے ۔دراصل یہ لوگ چاہ رہے ہیں کہ ایرانی حکومت سامراجی تقاضوں کے آگے گھٹنے ٹیک دے ۔یوں یہ لوگ مکمل طورپر ننگے اور دیوالیہ ہوچکے ہیں ۔چلیں اگر کل کلاں قدامت پرستوں کی جگہ ان لبرل اصلاح پسندوں کی حکومت بھی آجاتی ہے تو ان کے پاس ایران کے سماج کو درپیش مسائل حل کیلئے کیا پروگرام موجود ہے ؟یہ بورژوا اصلاح پسند ایران کو عالمی منڈی کیلئے کھلا چھوڑنے کے علمبردار ہیں ۔گویا امریکی و اسرائیلی سامراج کی مکمل گماشتگی کیلئے !ایران کے لوگوں کیلئے توایک ظالم کی جگہ دوسرا ظالم آجائے گااور ان کے سبھی مسائل ویسے ہی حل طلب اور تشنہ رہ جائیں گے ۔

ہم مارکس وادی ہمیشہ ہمیشہ ہی عوام کی جمہوریت کیلئے جدوجہد کے دوران، ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے آئے ہیں۔ لیکن ہمیں اس پر بھی کوئی خوش فہمی نہیں رہی اور نہ ہے کہ جمہوریت اپنے اندر اور اپنے تئیں مسائل کا کوئی شافی وکافی حل ہوتی ہے ۔جس قسم کی ’’جمہوریت‘‘ کیلئے یہ اصلاح پسند پیچ وتاب کھاتے چلے آرہے ہیں وہ ایران کو امریکی سامراج کی گماشتگی میں دھکیلنے کے سوا کوئی معنی نہیں رکھتی ۔عام محنت کشوں کے استحصال میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور عوام جب بھی اپنے مسائل کے حل کی جدوجہد کیلئے اٹھے تو یہ اصلاح پسند بھی عوام کے ساتھ سختی اور وحشت سے پیش آئیں گے ۔نہ تو موجود ہ حکومت نہ ہی یہ بورژوا اصلاح پسند عوام کے بنیادی مسائل کا کوئی حل رکھتے ہیں ۔یہ عوام کو روٹی‘ کپڑ‘ا مکان‘ روزگار دینے کی اہلیت اور ارادے سے محروم ہیں ۔کیونکہ یہ سب ایک غیر منصفانہ نظام کے داعی و گماشتے ہیں اور یہ نظام اپنی سرشت میں امیروں کی غریبوں پراور غاصبوں کی محروموں پرحکمرانی کا قائل ہے۔دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام عام انسانوں کو ان کی بنیادی ضرورتیں فراہم کرنے سے قاصر ہوچکاہے ۔دینا تو درکنار یہ نظام ان سے موجود حالت بھی چھیننے پر اتر آیاہواہے۔ اور یہ ہر جگہ ہر وقت کا وطیرہ بنتا جارہاہے ۔

ہماری حکومت پر یہ تنقید نہیں ہے کہ یہ سامراج کے ساتھ کیا اور کیسا برتاؤ رکھتی ہے ۔بلکہ ہماری حقیقی تنقید یہ ہے کہ یہ سامراج کے خلاف حقیقی جنگ لڑنے سے قاصر ہے ۔ہم ایران کے محنت کشوں اور کسانوں کو یہ نہیں کہیں گے کہ ’’ہمیں امریکیوں اور اسرائیلیوں کو اپنا دشمن نہیں بناناچاہئے ‘‘۔ہم یہ کہتے ہیں کہ ’’ہمیں ہر حال میں سامراج سے لڑنا چاہئے لیکن کیا آپ کو یقین بھی ہے احمدی نژاد حکومت اس قابل ہے کہ وہ آپ کے مفادات کا دفاع کر سکے ؟ہم آپ کو متنبہ کرتے ہیں کہ آپ اپنی زندگیاں اور اپنی قسمتیں ایک رجعتی عوام دشمن حکومت کے ہاتھوں ضائع نہ ہونے دیں جو کہ موقع ملتے ہی آپ سے غداری کر ے گی اور دھوکہ دے گی ‘‘۔

ایران کے محنت کش لوگو! صرف اور صرف اپنے زور بازوپر اور اپنی طاقت پر بھروسہ کرو اور رکھو !اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے لو !جنگی صنعت کو چلانے کیلئے ورکرزکمیٹیاں بناؤ! بدعنوان افسروں اور مینیجروں کو اداروں سے باہر نکال پھینکو! محنت کرنے والوں ،بے روزگاروں اور خواتین کو یہ اختیار دو کہ وہ روٹی اور غذاسمیت بنیادی اشیا کی قیمتیں طے اور مقرر کریں! سٹے بازوں اور منافع خوروں کو قیدخانوں میں ڈال دیا جائے! پھر کہیں جاکر ہی سامراج کے خلاف ایک حقیقی جنگ لڑی اور جیتی جاسکے گی ۔یہ ایک انقلابی نوعیت کی جنگ ہو گی جس میں سبھی مزدور اور کسان شانہ بشانہ لڑتے ہوئے مثال بنتے چلے جائیں گے اورسماج کی قیادت سنبھالتے جائیں گے ۔

عوام کو سامراجی جارحیت کے خلاف اٹھنااور لڑنا ہو گا لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ عوام کو ایران کے حکمرانوں اور سرمایہ داروں کا بھی قلع قمع کرناہوگا۔اگر ایران کے عام محنت کشوں کے پاس اقتدار ہوگا تو وہ جارحیت کی کیفیت میں اسرائیل کے محنت کش طبقے اور نوجوانوں سے یکجہتی کی اپیل کر سکیں گےَ کہ وہ جنگ کی مخالفت کریں اور وہ یہ جنگ اپنے ملک کے اندر ہی لڑیں گے ۔ایک سوشلسٹ حکومت ہی ایک سامراجی جنگ کوایک انقلابی جنگ میں تبدیل کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ مشرق وسطیٰ کی بنیاد رکھ سکتی ہے ۔

انقلاب :واحد حل واحد نجات

ہم مشرق وسطیٰ کے اندر ایک انتہائی مشکل دور میں داخل ہونے جارہے ہیں ۔یہ سارا خطہ سرمایہ داری کے عالمگیر بحران اور عرب انقلاب کی بدولت اپنی کیفیت اور ہئیت بدل چکاہے ۔ انقلابیوں کو ہر صورت میں آنے والے لمحات کیلئے تیار اور مستعد رہنا پڑے گا۔تیونس ،مصر ،لیبیا میں عوام کے ہاتھوں آمریتیں اکھاڑی جا چکی ہیں۔شام میں ابھار جاری وساری ہے اور یہ کس انجام تک چلتاہے ابھی کچھ پتہ نہیں ۔اسرائیل میں تحریک پیچھے جا چکی ہے لیکن یہ پھر ابھرے گی ۔یہاں تک کہ سعودی عرب بھی انقلابی ابھار سے محفوظ نہیں ۔ایران سمیت سارے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں ایک بھی حکومت اس وقت مستحکم پوزیشن میں نہیں ہے ۔حتمی اور یقینی استحکام کیلئے لازم ہے کہ محنت کش طبقہ اور نوجوان اس نظام کو ہی جڑوں سے اکھاڑ کے پھینک دیں جو کہ جنگوں کو‘ بیروزگاری کو‘ غربت کو اور محرومیوں کو پیداکرتا آرہاہے اور جو سماج کو ظالم ومظلوم اور امیروغریب میں منقسم رکھتا چلا آرہاہے ۔صرف اس وقت ہی کہ جب خطے سے سامراجیت اور اس کی مقامی گماشتگیوں کوا کھاڑ دیا جائے گا،ایک منصفانہ سماج کو ممکن بنایاجاسکے گا ورنہ نہیں۔

واحد وجہ جس کی وجہ سے ابھی تک محنت کش اقتداراپنے ہاتھوں میں نہیں لے سکے ،ایک انقلابی قیادت کی غیرموجودگی ہے ۔2009ء میں تحریک کی ناکامی کا سبب بھی یہی تھا ۔ایک واضح انقلابی تناظر ،ایک درست پروگرام کے بغیرتحریک یہ نہ جان پائی کہ وہ محنت کش طبقے کو ایک آزاد طاقت کے طور پر مان اور پہچان کر اسے شامل کرتی ۔اسی کمزوری کا فائدہ حکومت نے اٹھایا اور وہ طوفان کو قابو میں لانے میں کامیاب رہی ۔

نوجوانوں اور مزدوروں کی سرگرم و باشعور پرتوں کو مجتمع اور منظم کرتے ہوئے،انہیں مارکسزم کے نظریات سے مسلح کرتے ہوئے ،انقلاب کے پروگرام کی تیاری کرتے ہوئے اور اس تیار قیادت کو محنت کشوں کے ساتھ منسلک کرتے اور رکھتے ہوئے انقلاب کی فتح کا مستقبل ممکن اور متشکل کیا جاسکتا ہے۔انقلاب کیلئے ا یک متبادل قیادت سامنے آسکتی ہے اور اسے سامنے آنا ہوگا۔یہی وقت کا تقاضا بھی ہے اور فریضہ بھی۔

Translation: The Struggle (Pakistan)