عالمی بینکاری :عالمی تباہکاری کا نظام

Urdu translation of International banking – a system ruled by stupidity and fraud (April 22, 2010)

چنگاری ڈاٹ کام،01.06.2010۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گولڈ مین ساچز الزامات کی زد میں آئی ہے اورامریکی سکیورٹی ادارے اور سٹاک ایکسچینج کمیشن اس کی تفتیش کر رہے ہیں ۔یہ سب کچھ اور جو کچھ ہو رہاہے اور جس طرح کیا جارہا ہے اور اس کے جو نتیجے سامنے آنے ہیں ،وہ محض ایک کاروباری ہیرا پھیری کے سوا کچھ نہیں ۔یہ تجارت ہی کے عیارانہ داؤ پیچ ہیں ۔کس طرح پیسے سے پیسہ کمانا اور نکالنا ہے ؟اور وہ بھی اصل معیشت میں کوئی سرمایہ کاری کیے بغیر۔اور یہ سارا ایک ایسا کھیل ہے جس میں لوگوں کا پیسہ شامل کیا جاتا ہے اور پھر اچانک ہی یہ پیسہ ضائع ہوجاتاہے اور لوگ کنگال ہوجاتے ہیں لیکن اسی عمل میں گولڈ مین ساچیز جیسے ادارے اچانک ہی امیر سے مزید امیرترین ہو جاتے ہیں ۔ اور یہ عمل تب تک جاری رہتا چلا جاتاہے جب تک کہ سارانظام ہی دھڑام نہ ہو جائے ۔ گولڈ مین ساچزکا شمار مالیاتی بینکوں کے بادشاہوں میں ہوتا ہے ۔آج کل یہ بادشاہ سلامت امریکی سکیورٹیز اور سٹاک کمیشن کے حضور پیش ہوکر پیشیاں بھگت رہاہے۔موصوف پردھوکہ دہی کا الزام دھراگیاہے ۔اس الزام کی تفصیلات خاصی پیچیدہ ہیں ۔اور یہ کوئی اچنبھے کی بات بھی نہیں کیونکہ یہی وہ پیچیدگیاں ہی ہیں جن کی بنیاد پر اس جیسے ادارے دنیا پر اپنی مالیاتی دھاک بٹھائے ہوئے تھے ۔اور وہ بھی دنیا بھر کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے۔گولڈ مین ساچز ایک سرمایہ کاری بینک ہے ۔ یعنی یہ کہ یہ بینک نہ صرف ڈیپازٹ کا کام بھی کرتا ہے اور لوگوں کو قرضے وغیرہ کی فراہمی بھی،مگر اس کے ساتھ ساتھ ہی یہ بڑے دولتمندوں کو ’’مشوروں‘‘سے بھی نوازتا رہتا ہے اور اس کیلئے ان سے بھاری کمیشن وصول کرتا ہے ۔یہ ساراکھیل گھڑ دوڑکی طرح کا ہے ۔آپ ذرا تصور کیجئے کہ ایک حضرت آپ کو قائل کرتے ہیں کہ آپ اس والے گھوڑے پر داؤ لگا لیں ،بہت بھاری نقدرقم آپ کو مل سکتی ہے۔آپ سے کمیشن کی رقم لے لی جاتی ہے لیکن پھر کچھ دیر بعد ہی آپ کے ہاتھ میں بہت بھاری نقد رقم کی بجائے،چپکے سے گھوڑے کی باگ تھما دی جاتی ہے۔اس کے بعد آپ جانیں اور گھوڑا جانے اور آپ کانصیب۔ گولڈ مین ساچز کے سرمایہ کاری کے حوالے سے دیے جانے والے مشورے،گھڑدوڑ میں گھوڑوں بارے دی جانے والی معلومات اور ان کی جیت بارے یقین ابھارے جانے والے کمیشن ایجنٹوں کی طرح سے بیہودہ اور محض مطلب پرستانہ ہوتے ہیں ۔ لیکن ظاہر ہے یہ حضرات گھوڑوں پر داؤ نہیں لگانے کا کہتے یہ لوگ مالیاتی مشاورت کا دھندہ کرتے ہیں ۔ انہوں نے اس حوالے سے تخلیقی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک ایسا خاص ادارہ قائم کیا جسے قرض بازی کی پشت پناہی فراہم کی گئی جس کی نوعیت قرض حسنہ کی سی تھی ۔اس ادارے کا نامCollateralised Debt Obligation ،، سی ڈی او ،، رکھاگیا۔یہ ادارہ، ایک سٹے باز جس کا نام پالسن تھا ،کی مشاورت ومعاونت سے تشکیل دیاگیا ۔ادارے،، سی ڈی او ،، اور پالسن کو معلوم تھا کہ قرضے بازی کی اصلیت اور نوعیت کیا ہے ۔گولڈ مین ساچزنے اپنے ’’مؤکلوں ‘‘کو مشورہ دیا کہ وہ ،، سی ڈی او ،، پر شرط لگالیں ۔پالسن کو بخوبی علم تھا کہ اس نے کیا کرنا ہے ؟پالسن کا یہ من پسند مقولہ تھا کہ آپ ایک گھوڑے پر بھی پیسہ لگا کر پیسہ کما سکتے ہیں ۔اب یہ آپ کی قسمت کہ گھوڑا دوڑ میں سب سے آگے جائے یا سب سے پیچھے رہ جائے ۔اس ضمن میں ،، سی ڈی او ،، کو سب سے ممکنہ بہتر دوڑنے والا گھوڑا بناکر پیش کیا جاتارہا۔یعنی آپ کو اگر ایک بار کامیابی ملتی ہے تو پھر تو آپ کیلئے کامیابیاں دیدہ ودل فرش راہ کرتی چلی جائیں گی۔ لیکن یہ بھی آپ کو ذہن نشین رکھناہو گا کہ اگر آپ کی قسمت کی دیوی گھوڑے پر سوار نہیں ہوتی تو آپ کو لینے کے دینے بھی پڑ سکتے ہیں اور وہ بھی ایک لمبے عرصے تک کیلئے ۔ چنانچہ یہ سارا ماحول تیار کرلینے کے بعد سے گھوڑے کو بنا سنوارکرسامنے لایاجاتا ہے ،معاف کیجئے گا ہماری مراد ،، سی ڈی او ،، تھی،’’مؤکلوں ‘‘کو اس حوالے سے ترغیبات اور مراعات سے متعارف کرایاجاتا،اور اس کیلئے قرضے یا رہن کی سہولت کی بھی فراہم کی جاتی ۔اور اس ساری سرمایہ کاری کو سونے کی طشتری میں سجاکے مؤکلوں کو پیش کردیا جاتا۔دار فانی سے کوچ کر جانے والامہان بینک، رائل بینک آف سکاٹ بینک بھی اسی ہوس گیری کی بھینٹ چڑھا۔جبکہ جرمنی کا معروف بینک آئی کے بی بھی گولڈ مین ساچزکی نصیحت اور مشورے کے نتیجے میں ایک سو پچاس ملین ڈالرز داؤپر لگابیٹھا۔اب یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ آئی کے بی کو کتنا دکھ ہواہوگا اور کس قدر غصہ آیا ہوگا۔۔! زخموں پر نمک چھڑکنے کیلئے ،گولڈ مین ساچز نے انہی دنوں جب یہ سکینڈل سامنے آیا، اچانک یہ اعلان کردیا کہ اس کے سہ ماہی منافعوں کی شرح دوگنی3.5بلین ڈالرز ہوگئی ہے ۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ بینک اپنے ملازمین کیلئے 5.4بلین کی رقم ایک طرف رکھ رہاہے جو کہ ان کو دی جائے گی۔وائٹ ہاؤس نے اس حوالے سے بہت دباؤڈالاہواہے۔وائٹ ہاؤس کے مالیاتی مشیرآسٹن گولس بی نے کہا ہے کہ ’’اس سے پیشتر کہ یہ حضرات ،اپنے عظیم کارناموں کو سرانجام دینے کے بعد، جو یہ کر چکے ہیں،مطمئن ہو کر اپنی اپنی نشستوں پر جا کر براجمان ہو جائیں اور یہ اپنے منافعوں پر جو یہ کما چکے ہیں مزید بھاری بونس حاصل کریں ۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان حضرات کو یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ ان کو حاصل ہونے والے بھاری منافعے، حکومت کی اس مداخلت کے نتیجے میں ہی ممکن ہو سکے ہیں جو اس نے ان بڑے بینکوں کو بچانے کیلئے کی تھی‘‘۔ گولڈمین ساچز کو سٹاک ایکسچینج کمیشن کی طرف سے لگائے گئے الزامات کا بھی سامنا ہے ۔وہ اپنی کمائی ہوئی خوش نصیبی کا بڑا حصہ اپنی خوش نصیبی کو بچانے کیلئے خرچ کرنے کیلئے تیار ہو چکے ہیں ۔آپ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ قصہ اب یونہی چلتا رہے گا اور بس چلتا ہی رہے گا ۔آپ خواہ مخواہ ہی شور سے پریشان نہ ہوا کریں ،یوں سمجھیں کہ پڑوس میں کوئی ترکھان کام کر رہاہے اور یہ اس کے آلات چلنے کی آوازیں ہیں اور بس۔یہی اس رپورٹ کا خلاصہ ہے ۔ ،، سی ڈی او ،، کا معاملہ اس شہر میں سامنے آیا جو کہ مالیاتی سرمایہ داری کا سب سے بڑا گڑھ ہے،یعنی کہ لند ن۔فیب ٹورے صاحب یہاں گولڈ مین ساچزکے نمائندے ہوتے ہیں۔جنوری دو ہزار سات میں اس نے ایک ای میل میں لکھا کہ ’’ اس نظام میں بڑھوتری دن بدن جس طرح سے بلند ہوتی جارہی ہے ،اس سے اس بات کے امکانات بھی دن بدن روشن ہوتے جارہے ہیں کہ یہ کسی بھی وقت اپنے ہی بوجھ کی وجہ سے دھڑام ہو جائے گا،ہاں البتہ اگر کوئی اس دھڑام میں سے زندہ بچے گا تو وہ صرف ایک ہی فرد ہوگا اور وہ بھی کوئی اور نہیں بلکہ میں ہی ہوں گا‘‘۔ سب کچھ دھڑام ہوچکا ،جیسا کہ فیب نے کہاتھا مگر بدقسمتی سے یہ حضرت خود بچنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ۔اس کا یہ خیال غلط ثابت ہوا کہ جس ڈائن قسم کے نظام کو وہ پال پوس رہے ہیں وہ سب کو کھاجائے گا مگر اسے نہیں ۔ڈائن اپنے پالنے والے کو بھی کھا گئی ہے ۔تباہی کئی اور لوگوں کے ساتھ ان کی خوش نصیبی کو بھی ڈکار چکی ہے۔ہاں یہ بات اس کیلئے قابل تشویش ہے کہ یہ سب دیر سے کیوں ہوا؟ بلاشبہ گولڈ مین ساچزاس کیفیت سے باہر نکلنے اور بچ نکلنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا ۔بڑی بڑی جگہوں اوراعلی ترین عہدوں پر ان کے کئی خیراندیش موجود ہیں ۔یہ ہیراپھیری اورلوٹ مار ان دنوں بہت ہی سہل ہو چلی تھی جب انیس سو نوئے کی دہائی میں نظام میں Deregulationsکے نام پر اصلاحات کی جارہی تھیں۔ اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن نے جس کی زیر نگرانی اصلاحات کے نام پر رد اصلاحات کا یہ کھلواڑ شروع کیاگیا تھا ۔یہ پالیسی خوش بختیوں کے دروازے کھولتی چلی گئی ۔اب کلنٹن کف افسوس مل رہاہے کہ یہ سب صحیح نہیں ہواتھا۔لیکن افسوس یہ ہے کہ کلنٹن محض ایک آلہ تھا جسے سرمائے کے مشیران استعمال کر رہے تھے ۔لیری سمرز اور رابرٹ روبن اس کے عرصہ صدارت کے دوران اس کے معاشی مشیر تھے اور جنہوں نے ڈی ریگولیشن کی اس پالیسی کو متعارف ومسلط کرنے میں کلیدی کردار اداکیاتھا ،وہ ’’اتفاق‘‘سے گولڈ مین ساچزکے سابقہ ملازم رہ چکے تھے۔ جبکہ موجودہ صدر اوباما کے وزیرخزانہ ٹم گیتھنربھی اتفاق سے ہی اسی کاملازم رہ چکاہے۔ گولڈ مین ساچزکی رسم وراہ صرف ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ ہی نہیں ہے ۔ دو ہزار آٹھ میں کہ جب بینکوں کو اپنے تباہ ہونے والے سات سو بلین ڈالرزکے اثاثوں کیلئے حکومت سے مددومعانت درکار تھی ،، جن میں مذکورہ بالا ،، سی ڈی او ،، سمیت کئی دیگر شامل تھے ،، اور جو اثاثے خود انہی کے تخلیق کردہ تھے اور جن کی خریدوفروخت بھی یہ آپس میں کرتے چلے آرہے تھے ،تب اس مشکل گھڑی میں ہینک پالسن جو کہ ریپبلک انتظامیہ کا کرتادھرتا تھا ،سامنے آیا تاکہ بینکوں کو بچایا جاسکے۔پالسن صدر بش کا سینئرسیکرٹری آف ٹریژری تھااور وہ گولڈ مین ساچزکا سربراہ بھی رہ چکاتھا ۔ ان دنوں اس بینک کا سربراہ لائڈ بلینک فائن ہے جو کہ ایک سیدھا سادہ شریف النفس انسان ہے۔اس کا کہنا ہے کہ وہ صرف اور صرف ایک بینکار ہے جو خداوند کے احکامات کو ماننے والوں میں سے ہے۔لیکن اسی کے ساتھ ہی ہمیں ایک اور نقطہ نظر بھی سننے کو ملتا ہے ۔میٹ ٹیبی کا یہ کہنا ہے اور اس کی بات سے اختلاف کرنا مشکل بھی ہے،کہ ’’گولڈ مین ساچز انسانیت کے چہرے کے ساتھ چمٹی ایک ایسی ڈائن ہے کہ جو انسانیت کے بدن سے ہر اس چیز کو خون کی طرح چوس لینا چاہتی ہے کہ جس میں سے سرمائے کی خوشبو آتی ہے ‘‘۔اور یہ قصہ صرف گولڈ مین ساچز ہی کا نہیں ۔لہمن برادرزجو کہ دارفانی سے کوچ کرچکا ہے ، اس کی انتظامیہ کو بھی اس کے اسی قسم کے کرتوتوں بارے تحقیق وتفتیش کا سامنا ہے ۔اس حوالے سے جو کہا اورجوبتایا جارہاہے وہ ’’کاماسترا ‘‘کے کسی منظر سے کم نہیں ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ یہ محض ایک ڈھکوسلاہے جو بینک والے بیان کررہے ہیں کہ ہمارے پاس اس سے کہیں زیادہ سرمایہ موجود تھا جتنا کہ ہمارے بہی کھاتوں میں درج تھا۔جسے وہ ایک غلط نوعیت کی فروخت قرار دے رہے ہیں ،وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے جتنا قرضہ جاری کیا، وہ ان کے پاس موجود سرمائے سے کہیں زیادہ تھا جس کی وجہ سے معاملات قابو سے باہر ہوتے گئے ۔اگرچہ لہمن برادرز نے اس سودے بازی میں کھرب ہا ڈالرز ادھار بھی لئے ہوئے تھے ،کہ جنہیں وہ بعد میں ادا کرنے کے قابل بھی نہ رہا۔ انجام کار یہ کہ دو ہزار آٹھ میں یہ کھیل لہمن برادرزکی ناگہانی وفات پر منتج ہوا۔ اور ابھی ٹھہریے!صرف بینک ہی اس خونی دھندے میں ملوث نہیں رہے۔ملک بھی اس دوڑ میں شامل ہوئے۔آئس لینڈ کے بینکوں نے تو جیسے جواء خانے کا روپ ہی دھار لیا ۔مگر اس جوئے بازی کی قیمت کسی اور کو نہیں وہاں کے باشندوں کو اداکرنی پڑگئی۔ابھی حال ہی میں دو ہزار صفحات پر مبنی ایک سرکاری رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں دیوالیہ ہوچکے اس ملک کے بینکوں اور ریگولیٹروں پر ’’انتہائی درجے کی غفلت ‘‘کے ارتکاب کا الزام عائدکیاگیاہے۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ وسط دو ہزار سات تک اس کے Landsbankiبینک کی برطانیہ میں موجود برانچ میں5.5بلین پونڈز موجود تھے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’اس حقیقت کی روشنی میں کہ آئس لینڈ کے مرکزی بینک کے پا س غیر ملکی کرنسی کے ریزرو اس وقت صرف ایک اعشاریہ دو بلین پونڈز تھے ،یہ بات یقینی سمجھی جا سکتی ہے کہ آئس لینڈ کایہ مرکزی بینک قطعی اس قابل نہیں تھا کہ ضرورت پڑنے پر Landsbankiکی کسی طور مددکرسکتا۔چنانچہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ آئس لینڈ کے بینکوں کے جسم ان کے سروں سے بھی اوپرتک بڑھ چکے تھے۔اس کہانی میں اب تفتیشی افسران ہیں اور ان کے نیم جان ملزمان۔ مضحکہ خیز محسوس ہوتی ہوئی، یہ ایک انتہائی سنجیدہ صورتحال ہے۔ دو ہزار آٹھ میں بینک انجام کو پہنچے تھے ۔اب ہمیں پتہ چل رہاہے کہ جو کچھ یہ کر رہے تھے وہ کم ازکم ایک جرم تھا ۔لیکن سرمائے کی ہوس کایہ مجرمانہ کھلواڑ عالمی معیشت کوہی نگلنے پر اتر آیا۔لاکھوں انسان اپنے روزگار سے محروم ہو چکے ہیں‘ لاکھوں ہی اپنے گھروں سے بے گھر کر دیے جاچکے ہیں ۔بینکوں کو سرمایہ دارانہ معیشت میں انتہائی طاقت میسر ہے ۔ موجودہ انکشافات اس بات کا تقاضاکررہے ہیں کہ بینکوں کو نیشنلائز کیا جائے ۔

Source: Chingaree.com