مایہ کی نگریہ میں جمہوریت کا بازار

ہندوستان ’’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘‘ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی بدعنوان ترین سیاست کے حوالے سے بھی مشہورہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی جمہوریت میں دولت کی طاقت فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ امریکہ سے لے کر جنوبی افریقہ تک، تمام انتخابات پیسے کے بلبوطے پر لڑے جاتے ہیں اور اصل مقابلہ مالیاتی سرمائے کے مختلف جگادریوں کے درمیان ہی ہوتا ہے۔ آخری تجزئیے میں جیتتا ہمیشہ امیر ہی ہے اور شکست غریب کا مقدر بنتی ہے۔ یہی اس طبقاتی نظام کا دستور ہے اور اس سرمایہ دارانہ سماج میں رہتے ہوئے اس کے برعکس توقع کرنا محض خودفریبی اور دھوکہ دہی ہے۔

7اپریل سے بھارت میں شروع ہونے والے عام انتخابات میں 81 کروڑ 50 لاکھ ووٹروں کے پاس ووٹ ڈالنے کااختیار تو ضرور ہے لیکن ووٹ ڈالنا کس کو ہے، یہ اختیار ان کے پاس نہیں ہے۔ بدعنوانی کسی نظام کی خرابی کی وجہ نہیں ہوا کرتی بلکہ اس نظام کو لاحق بیماری کی علامت ہوتی ہے۔ علامات دور کرکے بیماری کا علاج نہیں کیا جاسکتا۔ کرپشن کے خلاف تمام تر نعرہ بازی کے باوجود، ہندوستان جیسی بیمار سرمایہ دارانہ ریاست میں بدعنوانی، فراڈ اور دھوکہ دہی حکمران طبقے کا سب سے بڑا سہارا ہیں۔ جس ریاست کا ہر ادارہ اور ہر نمائندہ بدعنوانی میں کسی نہ کسی طرح ملوث ہو وہاں انتخابات بھلا کیسے آزاد اور شفاف ہوسکتے ہیں؟

آزادی کے 67 سال بعد بھی ہندوستان کے حکمران طبقات بڑی افرادی قوت اور بے پناہ وسائل اپنی دسترس میں ہونے کے باوجود جدید اور ترقی یافتہ سماج تعمیر کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس ناکامی کی سب سے بڑی وجہ مقامی سرمایہ دار طبقے کا تاریخ کے میدان اور عالمی منڈی میں تاخیر زدہ ہونا ہے۔ صحت مند اورجائز طریقوں سے شرح منافع کو برقرار رکھنے میں ناکام تیسری دنیا کا یہ سرمایہ دار طبقہ روز اول سے ہی اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے ریاستی خزانے کی لوٹ گھسوٹ، ٹیکس چوری اور کرپشن پر منحصر تھا۔ چھ دہائیوں بعد بدعنوانی، رشوت ستانی اور دو نمبری اس حکمران اشرافیہ اور ریاست کی رگوں میں رچ بس چکی ہے۔ ہندوستان کی دس بڑی اجارہ داریوں میں سے سات کرپشن کے الزامات کی زد میں ہیں۔ باقی تین شاید بدعنوانی اور رشوت ستانی میں زیادہ ماہر ہیں۔

ہندوستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں امارت اور غربت کی خلیج تیزی سے وسعت اختیار کررہی ہے۔ ہندوستانی مرکزی بینک کے سربراہ راگورام راجن کے مطابق ’’ہندوستان میں روسی مافیا کی طرز پر تیزی سے نودولتیوں کی نئی پرت ابھری ہے۔ بہت سارے لوگ صرف حکومت اور ریاست کے ساتھ قربت کے ذریعے امیر ہوئے ہیں۔ ‘‘اسی طرح کانگریس کے ایک رہنما نے پچھلے دنوں اعتراف کیا ہے کہ ’’قانون صرف غریب لوگوں کے لئے ہے۔ سیاسی شہزادوں اور صنعت کاروں پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ‘‘بڑے صنعت کار بینکوں سے لئے گئے قرضوں کا بڑا حصہ واپس ہی نہیں کرتے۔ یہ معمول بن چکا ہے۔ ایک اور اہم سیاسی لیڈر کے مطابق ’’کوئی بھی ماننے کو تیار نہیں ہے کہ اس نے مال بنایا ہے۔ یہ مکمل طور پر ایک منافقانہ نظام ہے۔ بدعنوانی کے خلاف قوانین بنتے جارہے ہیں اور یہ بڑھتی بھی جارہی ہے۔ کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا ہے۔ ‘‘

حالیہ دنوں میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق 96 فیصد شہریوں نے ہندوستان کو بدعنوانی کا گڑھ قرار دیا ہے۔ کرپشن مخالف تحریک میں انا ہزارے کی مقبولیت کے بعد سے ہر سیاسی جماعت اسی ایشو پر اپنی سیاست چمکا رہی ہے۔ اس شور شرابے سے کرپشن کم ہونے کی بجائے پچھلے پانچ سالوں میں دو گنا ہوگئی ہے۔ ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں بیوروکریسی اور این جی اوز بظاہر کرپشن روکنے کے لئے سرگرم ہیں۔ پچھلے دنوں کرناٹک کی ریاست نے بدعنوانی کے مختلف واقعات پر 25000 صفحات کی رپورٹ شائع کی ہے لیکن کرپشن کا بازار پہلے سے زیادہ گرم ہے کیونکہ کرپشن کے خلاف کام کرنے والے مختلف حکومتی ادارے اور بیوروکریسی خود کرپٹ ہے۔ ’’اکانومسٹ‘‘ کے مطابق ’’ممبئی کے بینکار سیاستدانوں کی مدد سے کرنسی کے کاروبار میں ہیرا پھیری کر کے راتوں رات کروڑ پتی بن رہے ہیں۔ ‘‘

کرپشن ہمیشہ سے ہندوستان کا سنجیدہ مسئلہ تھا لیکن 1990ء کی دہائی میں معیشت کو ریاستی ملکیت سے نکال کر نجی ہاتھوں میں دینے کے بعد سے یہ کینسر کی طرح تیزی سے بڑھی ہے۔ آج کی کرپشن کے مقابلے میں ماضی کی بدعنوانیاں ایک مذاق لگتی ہیں۔ ’’اکانومسٹ‘‘ کی مذکورہ بالا رپورٹ میں ہی بتایا گیا ہے کہ ’’ہندوستان کے عالمی معیشت میں داخل ہونے کے ساتھ ہی بے ایمانی کے مواقع کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ نجکاری اور پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ عام ہوگئی ہے اور اس عمل میں بڑے پیمانے کی خردبرد ہوئی ہے۔ سول سروس کی اشرافیہ کا کیڈر گل سڑ گیا ہے۔ ایک اعلیٰ افسر نے انکشاف کیا ہے کہ بیوروکریسی کے 500 بڑے افسران میں سے صرف 10 فیصد ایماندار ہیں۔ سالانہ رشوت کا حجم 12 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے۔‘‘

 ریاستی افسر شاہی کی طرح سیاستدان بھی اس بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھو رہے ہیں۔ تمام بڑی سیاسی پارٹیاں اپنے فنڈز اور انتخابی مہم کے اخراجات کیلئے سرمایہ داروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتی ہیں۔ ٹکٹیں بھی عام طور پر ’’درمیانے‘‘ درجے کے سرمایہ داروں کو بیچی جاتی ہیں۔ وزارتوں کی باقاعدہ بولیا ں لگتی ہیں۔ اسی طرح بڑی پارٹیاں حکومتیں بنانے کے لئے چھوٹی پارٹیوں کو نقد رقم یا اقتدار میں تھوڑی بہت حصہ داری کے ذریعے خریدتی ہیں۔ ہندوستان میں آخری مرتبہ 1984ء میں ایک پارٹی (کانگریس) پر مشتمل حکومت بنی تھی۔ اس کے بعد سے آج تک تمام حکومت مخلوط بنیادوں پر قائم ہوئی ہیں۔ مخلوط حکومتوں میں بلیک میلنگ اور کرپشن کا بازار سب سے زیادہ گرم ہوتا ہے۔ انتخابی مہم پر اخراجات کا اندازہ صرف سونیا گاندھی کے جلسے پر خرچ ہونے والی 5کروڑ روپے کی رقم سے لگایا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ نریندرا مودی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اس سے کہیں بڑے پیمانے کے 185 جلسوں سے خطاب کرنا ہے۔ اکانومسٹ کے مطابق 2010ء سے 2015ء کے دوران ہونے والے مرکزی اور صوبائی انتخابات میں 5 ارب ڈالر خرچ ہوں گے۔ انتخابی اخراجات کی حد بندی کے قوانین کی وجہ سے اس رقم کا بڑا حصہ غیر قانون طور پر اکٹھا اور خرچ ہوگا۔

ہندوستان میں دنیا کی کل آبادی کا 20 فیصد جبکہ کل غربت کا 40 فیصد پلتا ہے۔ لیکن تمام بڑے سیاستدان اور پارٹیاں عوام کو معاشی اور سماجی ذلتوں سے نکالنے پر توجہ دینے کی بجائے سرمایہ داروں اور نودولتیوں کے تلوے چاٹنے میں مصروف ہیں۔ راہول گاندھی نے اپنے حالیہ بیان میں نیو لبرل سرمایہ داری کی حمایت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’غربت معاشی ترقی کے بغیر ختم نہیں ہوسکتی۔ لیکن دولت پیدا کرنے کے لئے آزاد منڈی کی معیشت ہی عظیم ہے۔ ‘‘ دوسرے الفاظ میں موصوف پٹرول سے آگ بجھانے کی بات کررہے ہیں۔ اسی طرح بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے امیدوار برائے وزیر اعظم نریندر مودی نے 27فروری کو ممکنہ وزیر خزانہ ارون جیٹلی کے ساتھ مل کے بڑے سرمایہ داروں کو ایک سمینار پر مدعو کیا اور سارا دن ان کے منافعے بڑھانے کی پالیسیاں لاگو کرنے کے وعدے کرتا رہا۔ یہ الگ بات ہے کہ کانگریس کے موجودہ وزیر خزانہ چدامبرم کے بقول ’’مودی کو اتنی معیشت آتی ہے جو ایک ڈاک کے ٹکٹ کے پیچھے لکھی جاسکتی ہے۔ ‘‘بھارتی سیاست میں نئی ابھرنے والی ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کے لیڈر آروند کیجری وال نے بھی ’’عام آدمی‘‘ کی بجائے کھل کر سرمایہ داروں کی حمایت کا عندیہ دیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ ریاستی پابندیوں کو ختم کر کے سرمائے کو ’’پھلنے پھولنے‘‘ کی مکمل آزادی دی جائے گی۔

ہندوستانی معیشت کا بحران سرمایہ دارانہ نظام کے اپنے معیاروں اور اعداد و شمار سے ہی عیاں ہے۔ معاشی شرح نمو پچھلے پانچ سالوں میں 10 فیصد سے کم ہوکر 5فیصد سے بھی نیچے آچکی ہے۔ مزید گراوٹ کے امکانات قوی ہیں۔ ہندوستان کے ایک ارب سے زائد غریب اور پسے ہوئے عوام حکمرانوں کے کھلواڑ کب تک برداشت کریں گے؟ذرائع ابلاغ سرمائے کے قبضے میں ہیں، سیاست اس کی لونڈی ہے اور ریاست اس کی محافظ۔ جب عوام کے لئے تمام راستے بند ہو جائیں تو بغاوت ہر رکاوٹ کو پاش پاش کرتے ہوئے انقلاب کا راستہ کھولتی ہے۔ مارکس نے کہا تھا کہ ’’بعض اوقات انقلاب کو آگے بڑھنے کے لئے رد انقلاب کا کوڑا درکار ہوتا ہے۔‘‘ آنے والے انتخابات میں نریندرا مودی کی ممکنہ کامیابی رد انقلاب کا وہی تاریخی کوڑا ثابت ہوسکتی ہے!

Source