امن مذاکرات کا ڈھونگ

Urdu translation of India and Pakistan: A hoax called Peace Talks (April 27, 2011)

تحریر: لال خان

چنگاری ڈاٹ کام،21.04.2011

بسمارک کے مشہور پروشیائی جرنیل کارل وان کلازوٹز نے کہا تھا کہ ’’جنگ در اصل دوسرے پر تشدذریعوں سے سیاست کا تسلسل ہوتی ہے‘‘۔

بر صغیرِجنوبی ایشیا میں بھی جنگ کا خوف اور امن مذاکرات ، ان ممالک کے عوام کو فریب دینے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ہندوستان اور پاکستان کی اشرافیہ، دونوں ممالک کے درمیان ہنگامہ خیز تعلقات کو ،کبھی گرم اور کبھی سرد کر کے اپنے ممالک میں ابھرنے والی سماجی بغاوتوں کا رخ موڑنے کے لیے استعمال کرتی چلی ہے اور جب مہم جوئی میں سے ہوا نکل جاتی ہے تو وہ امن اور دوستی کا ناٹک رچانا شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن اس دوران ہر طرح کی کیفیت میں وہ اسلحہ جمع اور فوجی سازوسامان پر بے پناہ پیسہ خرچ کرتے رہتے ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین ساڑھے تین جنگیں ہو چکی ہیں اوردس پندرہ مرتبہ امن مذاکرات کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ لیکن اس دور کی حقیقت یہ ہے کہ نہ تو وہ جنگ لڑنے کے متحمل ہو سکتے ہیں اور نہ ہی پائیدار امن قائم کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہمیں ایک مرتبہ پھر سے بتایا جا رہا ہے کہ بات چیت شروع ہو گئی ہے اور تعطل کا شکار ’جامع مذاکرات‘ کا عمل پھر سے شروع ہونے والا ہے۔

پتھر جیسی ذہنیت رکھنے والے ہندوستان اور پاکستان کے حکمرانوں اور بیوروکریٹوں کے مابین مذکرات سفر سے پہلے شراب کے آخری گھونٹ کی مانند ہوتے ہیں، اور یہ سفر کبھی ختم نہیں ہوتا۔ اور بالآخر عوام ایک مرتبہ پھر دکھتے ہوئے سر لیے بیدار ہوتے ہیں اور ان کے سروں پر جنگ کا خطرہ کسی ننگی تلوار کی مانند لٹک رہا ہوتا ہے۔ یہ ’’مذاکرات برائے مذاکرات ‘‘ کا ایسا شیطانی چکر ہے جس میں ہر کچھ عرصے بعد تناؤ پیدا ہو جاتا ہے اور عوام کی بڑی اکثریت کی امیدوں پر پانی پھر جاتا جن کی سرحد کے پار اپنے طبقاتی بھائیوں اور بہنوں سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔

اس بیہودہ کھیل کا آغاز ادنیٰ درجے کے سفارتکاروں کی بے دخلی سے ہوتا ہے۔ پھر مذہبی انتہا پسند آگ اگلنا شروع کرتے ہیں اور جلد ہی لبرل اور سیکولر اشرافیہ بھی شاونزم کی اس تکرار میں شامل ہو جاتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس تناؤ اور اس کے نتیجے میں عسکری تیاریوں سے اربوں کمانے والے اس سارے کھیل کی بہت باریکی سے منصوبہ بندی اور صفائی سے عملدرآمد کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی وہ دو ایٹمی طاقتوں کے مابین مکمل جنگ سے بچنے کی بھی کوشش کررہے ہوتے ہیں۔

’جنگ کے خطرے‘ سے محض دونوں ممالک کے اعلیٰ فوجی افسران ہی فائدہ نہیں اٹھاتے بلکہ امن اور جنگ کی اس نوٹنکی سے سامراجیوں کے بھی گہرے مفادات وابستہ ہیں۔ ہندوستان اس وقت روایتی ہتھیاروں کا دنیا میں سب سے بڑا خریدار ہے۔ ان کی درآمد میں چین دوسرے نمبر پر ہے جس کے بعد جنوبی کوریا اور پاکستان کا نمبر آتا ہے۔ اگر جی ڈی پی کے تناسب میں دیکھا جائے تو پاکستان اسلحے کی خرید پر کہیں زیادہ خرچ کرتا ہے۔ ہتھیاروں کی یہ دوڑ اسلحے کی صنعت کی تجوریاں بھرے جا رہی ہے، بالخصوص امریکہ میں۔ بر صغیر میں ایٹمی پروگرام پر خرچ کی جانے والی بے پناہ دولت کو اگر ایک منصوبہ بند معیشت میں استعمال کیا جاتا، تو یہ اس خطے سے جہالت، بیماری اور غربت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرنے کے لیے کافی ہوتی۔

یہ ایٹمی پاگل پن اب بھی دونوں ممالک کی معیشت کا مسلسل خون نچوڑ رہا ہے۔ہر طرف اذیت، غربت اور بیماری کا راج ہے۔ سامراجی کاروبار اور اہلکار بھی ہندوستان کی سیاست میں اتنے ہی گھسے ہوئے ہیں جتنا کہ پاکستان میں۔ گارڈین اخبار میں حال ہی میں چھپا ایک مضمون واضح کرتا ہے کہ یہ بے غیرتی کی حد تک دھوکہ باز اور ضمیر فروش حکمران طبقہ اور اس کا جمہوریت کا ڈھونگ سامراج کا تابع فرماں اور کارپوریٹ طاقت کے گٹھ جوڑ کا غلام ہے۔گارڈین اخبار لکھتا ہے کہ ’’ 2008ء میں نہرو گاندھی خاندان کے ایک پرانے درباری کے ایک معاون نے ایک امریکی سفارت کار کو25ملین ڈالر سے بھرے دوصندوق دکھائے جو ممبرانِ پارلیمنٹ کو امریکہ ہندوستان ایٹمی معاہدے کے حق میں ووٹ دینے کے لیے رشوت تھی، اور اس معاہدے نے ہندوستان کو امریکی اسلحے کی بڑے پیمانے پر فروخت کی راہ ہموار کی۔۔۔ہندو بنیاد پرست بی جے پی امریکی سفارت کاروں پر اپنی امریکہ نوازی ثابت کرنے کے لیے بھر پور زور لگا رہی ہے، یہاں تک کہ وہ اپنی خون خوار مذہبی جنونیت کو محض موقع پرستی اور’گپ شپ‘ قرار دے رہے ہیں‘‘۔ سچ تو یہ ہے کہ پہلے دن سے ہی ہندوستانی اور پاکستانی سیاستدان اور جرنیل بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے ان ’معاہدوں‘ کے ذریعے ان کے بنانے والوں کی جانب سے کِک بیک کی شکل میں بڑی بڑی رقوم سے مستفید ہو رہے ہیں۔

سفارتی مذاکرات کو جان بوجھ کے طویل اور موخر کیا جاتا ہے ۔سر کریک، سیاچن اور دیگر ایسے سادہ نوعیت کے مسائل جنہیں مذکرات کے ایک دور میں ہی حل کیا جا سکتا ہے، شعوری طورپر چلتے رہنے دیے جاتے ہیں۔زیادہ تر مذاکرات بات چیت کی نوعیت اور ان کے ایجنڈے کی ترتیب کے متعلق ہوتے ہیں۔ اور جب یہ تکنیکی معاملات طے پا جائیں، کوئی ایسا واقعہ یا سانحہ رونما ہو جاتا ہے جس سے مذکرات کا عمل ختم یا تعطل کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ سارا عمل ایک مرتبہ پھر صفر سے شروع کرنا پڑتا ہے۔ چونسٹھ پر آشوب اور اذیت ناک برسوں سے ایسا ہی ہوتا چلا آرہا ہے۔ مسئلہ کشمیر کو ایک سے دوسرے چولہے پر ڈالا جاتا رہا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے حکمران طبقات نے باقی بر صغیر کی طرح کشمیر میں بھی قہر نازل کر رکھا ہے۔ برطانوی سامراج کی جانب سے تقسیم کے وقت لگایا جانے والا یہ زخم آج تک رس اور دکھ رہا ہے۔

لیکن کشمیر کے نوجوانوں اور محنت کشوں میں یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ موجودہ نظام میں رہتے ہوئے ان کے دکھوں کا کوئی حل نہیں ہے۔ اب وہ سماجی اور معاشی جدوجہد میں شامل ہو رہے ہیں اور بنیاد پرستی کافی عرصے سے پسپائی کا شکار ہے۔ واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے کہ کشمیری عوام قومی آزادی کی تحریک کو سارے بر صغیر میں طبقاتی جدوجہد کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت کو جان رہے ہیں۔ پانی کے مسئلے پر بڑھتے ہوئے تنازعات تقسیم کی جغرافیائی طور پر ناکامی کا اظہار ہیں۔آنے والے دنوں میں ان تنازعات کی شدت میں اضافہ ہو گا اور اس سے ساری صورت حال مزید عدم استحکام کا شکار ہو گی۔

ویزوں کا مسئلہ بھی بر صغیر کے محکوم محنت کش طبقات کے لیے بہت اذیت ناک ہے۔ ’سول سوسائٹی‘ کے امن کے عمل دونوں ممالک کے حکمرانوں سے ویزہ پالیسی میں معقولیت ‘نرمی اور دوستی بڑھانے کے مطالبوں تک محدود رہتے ہیں۔ کیا سادگی ہے! حکمران طبقات، متحارب ریاستوں اور سامراج کو اسی طرح کے دوغلے باہمی تعلقات کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ہندوستان کو تقسیم صرف اس وقت کیا گیا تھا جب برطانوی اور مقامی ہندو اور مسلم بورژوازی کو یہ احساس ہو گیا کہ آزادی کی جدوجہد قومی خودمختاری کے مرحلے پر نہیں رکے گی بلکہ آگے بڑھتے ہوئے ایک سماجی انقلاب کی شکل اختیار کرے گی جو سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینک کر سامراجی لوٹ مار کا خاتمہ کر دے گی۔

مذہبی منافرت کو اشتعال دینے کے لیے تقسیم کے زخموں کو بار بار کریدا جاتا ہے۔ ہندو اور مسلم انتہا پسندی ایک دوسرے کے بل بوتے پر چلتی ہے اور زہریلے شاؤنزم کو ہوا دے کر طبقاتی جدوجہد کا رخ موڑا جاتا ہے۔ سرمایہ داری کی حدود میں رہتے ہوئے دونوں مخالف ریاستوں کے درمیان کسی طرح کا امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اور نہ ہی موجودہ حکمران طبقہ کسی بھی مسئلے کا پائیدار حل دے سکتا ہے۔ کسی بھی ایک ملک میں سوشلسٹ انقلاب سارے خطے کو بدل کر رکھ دے گا۔جنوبی ایشیا کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن ہی اس برصغیر میں امن اور خوشحالی کا واحد راستہ ہے جہاں کرہ ارض کی 22فیصد آبادی اور 40فیصد غربت پلتی ہے۔

Translation: Chingaree.com