فرانس کا صدر فرینکو اولاندے؛ سرمایہ داری کارضاکار قیدی

مئی میں ہالینڈے کے اقتدار میں آنے کے بعدسے فرانس میں بیروزگاری کی شرح ہر مہینے تیزی سے بلند ہوتی چلی جارہی ہے۔اس وقت یہاں بیروزگاروں کی تعدادتیس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔اگر ہم ان میں وہ لوگ بھی شمارکرلیں کہ جو محض چند گھنٹوں کی جاب کررہے ہیں یا جنہیں کوئی باقاعدہ روزگار میسر نہیں ہے تو یہ تعدادساڑھے چارملین تک جا پہنچتی ہے۔اندازہ لگایاگیاہے کہ مزید دس لاکھ افراد روزگار سے باہرہیں۔وہ مراعات سے بھی محروم ہیں اور ان کی رجسٹریشن بھی نہیں ہوئی۔اس بات کے بہت ہی کم امکان ہیں کہ مستقبل قریب تک بیروزگاری کی شرح میں یہ اضافہ کسی طور بھی کم ہو پائے گا۔آنے والے دنوں میںCitro235n-PSAآٹھ ہزار روگار ختم کررہی ہے،جبکہ ائرفرانس بھی پانچ ہزار روزگار ختم کرنے کا ارادہ کئے ہوئے ہے۔ان کے علاوہAlcatel-Lucent, Sanofi, SFR, Bouygues Telecom, Hewlett-Packard, Conforama, Doux, Groupama, Puma, Castorama, Novandie, Nouvelles Fronti232resسمیت کئی دوسرے ادارے اور کاروبار بھی اپنے کام کرنے والوں کی تعداد کم کرنے کے اعلانات کرچکے اور کرتے چلے جارہے ہیں۔اکیلے تعمیرات کے شعبے میں ہی سے 2012ء کے دوران35000روزگارختم ہونے جارہے ہیں۔اولاندے حکومت اس کیفیت میں مکمل بے بس ولاچار نظر آنے کا تاثر دے رہی ہے لیکن حقیقت میں بات کہیں آگے کی ہے۔اولاندے اور اس کی کابینہ کے لوگوں نے سرمایہ دارانہ نظام کا قیدی بننے کا رضاکارانہ فیصلہ کر رکھاہے۔ اور وہ بھی ایک ایسی حالت میں کہ جب یہ نظام زوال پذیری کی زد میں آیاہواہے۔بلاشبہ امیر، امیرتر ہوتے چلے جارہے ہیں اور ان کیلئے کوئی بھی بحران،بحران نہیں ہے۔لیکن ان کا یہ نظام قائم ہی اس شرط پر ہے کہ باقی سماج ان کی اس امارت کیلئے قیمت اداکرتا رہے۔

اپنی الیکشن کمپین کے دوران اولاندے وعدے اور اعلان کرتا رہاتھا کہ وہ محنت کش طبقے کی بہتری کیلئے بھرپور اقدامات کرے گا۔لیکن اسی دوران ہی ایک ہی سانس میں ہی وہ سرمایہ دار طبقات کو بھی مراعات دینے کی باتیں کرتا رہا۔اسے ابہام کہا جائے یا پھر زیادہ درست الفاظ میں دوغلا پن قراردیاجائے کہ جسے سوشلسٹ پارٹی کی قیادت اپنا اوڑھنابچھونا بنائے چلی آرہی ہے۔مالکان کی فیڈریشنMEDEF سے خطاب کرتے ہوئے اولاندے نے وعدہ کیاہے کہ وہ ’’لیبر کاسٹ‘‘ میں کمی کو ممکن اور آسان بنائے گاجس سے منافعوں کی شرح میں بھی مزید بہتری ہوگی اور مسابقت کے رحجان میں بھی خوشگوار اضافہ ہوگااور کاروبارپھلے پھولیں گے۔اس کا اور کوئی مطلب نہیں نکلتاسوائے اس کے کہ محنت کشوں کے استحصال میں اضافہ کیاجائے گا۔ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر مسابقت اور مقابلے بازی کیلئے مرکزی نکتہ یہی ہے کہ کم سے کم اجرت پر زیادہ سے زیادہ پیداوار کی جائے۔

اسی دوران ہی اولاندے محنت کش طبقے سے بھی بات کرتے ہوئے ان سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ ان کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات کرے گا۔پبلک اخراجات کے ضمن میں وہ دوغلے پن پر مبنی باتیں اور اعلان کرتاہے۔وہ ایک طرف جہاں کھلے بندوں ’’کٹوتیوں‘‘کی مخالفت کرتا ہے وہاں پر ہی یورپی یونین کے معاہدوں پر عملدرآمد کرنے کا چیمپین بننے کا بھی مظاہرہ کرتاپھر رہاہے جن کے مطابق اسی سال کے اندر ہی پبلک اخراجات کے ضمن میں مزید دس بلین یوروکی کمی کرنی پڑے گی۔یہ کٹوتیاں اس کے علاوہ ہیں جو کہ اولاندے کا پیشرو،سارکوزی کر کے جا چکاہے۔اس قسم کی منافقت اولاندے کے حقیقی ارادوں کے حوالے سے کئی قسم کے کنفیوژن پیدا کر سکتی ہے جو تادیر قائم نہیں رہے گی۔

ہم یہ جانتے ہیں کہ محنت کش طبقہ بہت صابر ہواکرتا ہے۔یہاں تک کہ اس حالت میں بھی کہ جب وہ تکلیف اور اذیت میں مبتلاہے۔وہ ابھی تک ان کا اعتبار آزما رہاہے کہ جو اس کی بھلائی اور بہتری کے دعوے کر رہے ہیں۔لیکن پھر اس قسم کے صبر کی بھی اپنی حدودوقیود ہوتی ہیں۔اس قسم کے اشارے سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں کہ معاملات ان حدود تک پہنچ رہے ہیں اور جونہی یہاں تک بات پہنچی تو ایک خوفناک سماجی مزاحمت پھٹ کر سامنے آئے گی اور فرانس کا محنت کش طبقہ میدان عمل میں اتر آئے گا۔

جب PSAنے فرانس کے شمالی علاقے Aulnay-sous-Boisمیں اپنی فیکٹری کو بند کرنے کا اعلان کیاتو اولاندے نے اس پر اعلان کیا کہ یہ کسی صورت ’’قابل قبول ‘‘نہیں ہے، لیکن اولاندے کچھ بھی نہ کر سکا۔البتہ اس نے مالکان سے یہ اپیل ضرور کی کہ وہ خدا ترسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کم سے کم لوگوں کو روزگار سے محروم کریں۔اس کے دو دنوں کے بعد 14جولائی کو دائیں بازوکے اخبار Le Figaro نے ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان تھا ’’اولاندے کی فیکٹری کی بندش رکوانے میں نااہلی اور ناکامی ‘‘۔یہ نااہلی وناکامی بنیادی طورپر اس وجہ سے سامنے آئی ہے کہ اولاندے نے سرمایہ داری کے خلاف کوئی بھی سنجیدہ قدم اٹھانے سے دانستہ گریز کیا ہے۔ PSAکو قومی تحویل میں لے لیا جاتا تو روزگار یقینی طورپر محفوظ رہ جاتے۔وہاں محنت کشوں کو کام سے فارغ کر کے حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیاگیا ہے لیکن ان میں سے بہت سے محنت کش اس غداری کو بھی محسوس کررہے ہیں جو حکومت کی جانب سے ان کے ساتھ کی گئی ہے۔اس قسم کے تجربات کسی طور بھی محنت کش نہیں بھولتے خواہ وہ فیکٹریوں کے اندر ہیں یا باہر۔وقت کے ساتھ ساتھ وہ لازمی اسباق بھی سیکھتے جائیں گے۔

اولاندے نے وعدہ کیاتھا کہ وہ اپنے پانچ سالہ اقتدار کے دوران تعلیم کے شعبے میں 60,000نئے روزگار پیدا کرے گا۔لیکن ابھی تک وہ صرف ایک ہزار ہی روزگار پیداکرپایا ہے جس کا مطلب ہے کہ اس شعبے میں روزگار کا خسارہ اب بھی 13000ہے کیونکہ سارکوزی اقتدار چھوڑتے وقت اس شعبے میں 14000روزگارکم کر گیاتھا۔

اس میں حیرانی والی کوئی بات نہیں کہ رائے عامہ کے تجزیوں میں اولاندے اپنی سماجی بنیادیں تیزی کے ساتھ گنواتا چلا جا رہاہے۔ابھی9ستمبر کو وہ ٹیلیویژن سکرین پر نمودارہواتاکہ اپنے تاثراور ساکھ کو کسی طرح بحال اور بہتر کر سکے۔اپنے خطاب میں اس نے کہا کہ وہ توقع لگائے ہوئے تھا کہ معیشت اگلے سال میں’’بحران‘‘سے نکل کر بحالی کی طرف گامزن ہو جائے گی۔کم از کم ایک حوالے سے یہ ایک’’ جراتمندانہ‘‘ اعتراف ہے۔سپین،اٹلی،یونان،برطانیہ اور دیگر ممالک بحران کی زد میں ہیں۔جرمنی کی معیشت بھی اس طرف لڑھک رہی ہے۔ فرانس کی سالانہ شرح نمو اس وقت صفر فیصد پرہے۔صنعتی اشیا کیلئے آرڈرز تیزی کے ساتھ کم ہوتے جارہے ہیں۔جرمنی کا صنعتی اشیا پر دارومدار22فیصدہے،اس کے مقابلے میں فرانس کا دارومدار12فیصد ہے۔اس سال فرانس کا تجارتی خسارہ 75بلین یوروکی انتہاؤں کو چھورہاہے۔پبلک اخراجات میں کٹوتیاں،بیروزگاری کی شرح میں تیزاضافہ،قرضوں کی سہولت میں پابندیاں،کم ہوتی سرمایہ کاری، اور گرتی ہوئی صارفیت ؛یہ سب عوامل فرانس کی معیشت کو ڈبوتے چلے جارہے ہیں۔اور صرف فرانس ہی کیوں سارے یورپ کا یہی قصہ اور قضیہ بناہواہے۔سپین اور اٹلی میں جس طرح حالات نے اپنے بھرپور اثرات مرتب کئے ہیں،یہاں فرانس میں بھی ایسا ہونا ممکن ہے۔ چنانچہ یہ کہناکہ ’’اگلے سال معیشت میں بحالی یا بہتری ہوگی‘‘ سراسر جھوٹ ہے۔پتہ نہیں یہ اگلا سال کہاں سے آئے گا؟اولاندے کی اس قسم کی خوش گمانی کا صرف ایک ہی مطلب نکلتاہے کہ وہ وقت گزارنا اور نکالنا چاہ رہاہے۔حقیقت یہ ہے کہ اولاندے کے پاس کسی طور کوئی آئیڈیاہی نہیں ہے کہ اس نے اپنی انتخابی مہم جن وعدوں پر چلائی،ان کیلئے کیا، کب اور کیسے کیا جائے!

یونان اور سپین میں ہم محنت کش طبقے کی جس جدوجہدکو پروان چڑھتاہوادیکھ رہے ہیں،وہ صرف انہی دوملکوں کے اندرہی محدود نہیں رہے گی۔آنے والے دنوں میں یہ فرانس میں بھی اپنا اظہار کرے گی۔نہ تو یہ سرمایہ داروں اور نہ ہی اقتدار پر براجمان ان کے گماشتہ ترجمانوں کے بس میں ہے جو مزدورتحریک میں اس وقت اعلی ٰ عہدوں پر چمٹے ہوئے ہیں کہ وہ اس بحران سے بچنے کا کوئی حیلہ یا وسیلہ کرسکیں۔سماج کو مسلسل پیچھے کی طرف دھکیلا جارہاہے اور ماضی میں محنت کش طبقے نے جو حاصلات کرر کھی تھیں وہ اب ان سے چھینی جارہی ہیں۔محنت کشوں کا معیار زندگی تہس نہس کیا جارہاہے۔انقلاب سے قبل کی صورتحال سماج کی تہہ میں پنپ رہی ہے۔سرمایہ دارانہ نظام کی جانب سے کئے جانے والے حملوں کا دفاع کرنے کی بجائے محنت کش طبقہ اس نتیجے پر پہنچے گا کہ انہیں آخرکار اس نظام کو ہی اکھاڑ کر پھینکنا ہے۔

Front de Gaucheکے صدارتی امیدوار جین لوک ملنشاں کی انتخابی مہم کے دوران لوگوں کے بڑے اجتماع،جن میں ایک لاکھ تک کے بھی اجتماع شامل ہیں،اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ورکرز موومنٹ میں ریڈیکلائزیشن کا عمل شروع ہو چکاہے۔آنے والے عہد کے دوران ہم دیکھیں گے کہ یہ عمل اور ایسے اجتماع بڑے پیمانے پر اور بڑی تعدادمیں سامنے آئیں گے۔اس وقت انقلابی نظریات فرانس میں محنت کش طبقے کی بھرپور توجہ کا مرکز ومحور بنیں گے۔ماضی میں بھی ایساہواتھا لیکن اب کی بار یہ تاریخی طور پر انتہائی بڑے پیمانے پر ہوگا۔تب سوشلزم صرف نظریات کا ایک پروگرام نہیں رہے گا بلکہ سماجی تبدیلی کا ایک حقیقی وسیلہ بھی بن کر سامنے آئے گا۔

Translation: The Struggle (Pakistan)