بنگلہ دیش میں سلگتا ہوا قومی مسئلہ

Urdu translation of The fate of the Chittagong Hill Tracts tribes of Bangladesh (2 November 2009)

جمیل ایم اقبال کی بنگلہ دیش سے طبقاتی جدوجہد کیلئے خصوصی تحریر ترجمہ۔ زبیر رحمن،01.02.2010۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لینن نے ایک موقع پر کہا تھا کہ” ہرقوم میں دوقومیں ہوتی ہیں‘ ایک ظالم اور دوسری مظلوم“۔ اس کامطلب یہ نہیں کہ قوموں کی شاخیں ہوتی ہیں بلکہ طبقاتی تفریق کی بنیاد پران کی روایات اور تہذیب ہوتی ہیں۔ آگے چل کرلینن کہتا ہے کہ بورژوازی اپنی منڈی کے لئے جس قومی آزادی کی بات کرتی ہے وہ دراصل قومی آزادی نہیں بلکہ آزادی کے نام پرطبقاتی استحصال کومزیدتیزکرتی ہے۔ یہ ایک ایسا زہر ہے کہ قومیں تقسیم درتقسیم ہوتی چلی جاتی ہیں۔ جیسا کہ ترکی نے عرب سامراج سے آزادی حاصل کی اور اب وہ خودکردوں کو قومی آزادی دینے سے گریزاں ہے۔ برصغیر میں برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کرنے کے بعد آج ہندوستان‘ پاکستان اور بنگلہ دیش ہینر و‘ آسامی‘ جھاڑکھنڈ ‘ میتھالی‘ کشمیر‘ چٹاگانگ ‘ بلوچ ‘ سرائیکی ‘ سندھی اور پختونوں کوقومی حقوق دینے سے گریزاں ہیں۔ پاکستانی حکمران طبقات مشرقی پاکستان پر مسلط تھے اوربنگالیوں کے قومی حقوق غضب کررہے تھے‘ جسکے نتیجے میں بنگلہ دیش وجود میں آیا اور بنگلہ دیش آزاد بھی ہوا۔ لیکن اب وہ خود چٹاگانگ کے پہاڑی قبیلوں کوقومی حقوق دینے سے گریزاں ہے۔ اس علاقے میں مختلف قومیتوں کے لاکھوں لوگ جوبنگلہ بولتے ہیں اور نہ بنگالی تہذیب وتمدن سے انکاکوئی تعلق ہے‘ انہیں انکے حقوق نہیں دئیے جارہے اور ان پر بنگالی حکمران طبقات اپنی ثقافت‘ تہذیب اور زبان کوتھوپ رہے ہیں۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ قومی حقوق‘ طبقات کے خاتمے کے بغیریعنی سوشلسٹ نظام کو رائج کیے بغیر نہیں مل سکتے ہیں۔ چٹاگانگ کے پہاڑی قبائلی دیہاتوں سے اپنے قومی حقوق کے لئے مل کر جدوجہد میں برسرپیکار ہیں جسکے نتیجے میں دسیوں ہزار افراد لقمہ اجل ہوچکے ہیں۔ بنگلہ دیش کے جنوب میں پہاڑی قبائلی تقریباً سات لاکھ نفوس پر مشتمل ہیں۔ یہ علاقہ پانچ ہزار ترنویں مربع میل رقبہ پر مشتمل ہے۔ یہ بنگلہ دیش کے رقبے کادسواں حصہ ہے۔ یہ علاقہ تین اضلاع پر مشتمل ہے جن میں رانگہ مائی‘ کھاگرہ چاڑی اور بندر بن ہیں۔ مشرق میں میزورام جبکہ جنوب مشرق میں میانمار واقعہ ہے اور مغرب میں چٹاگانگ کے اضلاع ہیں۔ یہ علاقہ بنگلہ دیش کی فوجی حکمت عملی کے لحاظ سے بھی بہت اہمیت کاحامل ہے۔ یہ علاقہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ یہاں گیس‘ کوئلہ اور تانبا کے بڑے بڑے ذخائر”مییانی“ جنگل میں موجود ہیں۔ مقامی یونین (جوگی گولا یونین)نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کھاگرہ چاڑی اور رانگہ مائی میں تیل کے بڑے ذخائر ہیں۔ بنگلہ دیش کی حکومت اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اس تیل کے ذخیرے کو نکال نہیں سکتی۔ چٹاگانگ پہاڑی علاقے کوبرطانوی راج نے بھی مسخر نہیں کیاتھا اور اسے ہندوستان کے خلاف بفرزون کے طورپر استعمال کیا گیا۔ اس علاقے کی مصنوعی حدبندی انیس سو سنتالیس میںبرطانوی راج کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ختم ہوگئی۔یہاں کے لوگوں کی نسل بنگالیوں کے بجائے چینی اور تبت کے لوگوں سے جاملتی ہے۔ یہاں گیارہ نسلی گروہ بستے ہےں۔ جن میں بوح‘ چک‘ چکمہ‘ کھامی ‘ کھیانگ ‘ لوشانی ‘ مارما ‘ مرنگ ‘ پنکھو ‘ پٹیخانکیا اور ترپیورہ ہیں۔ یہ قبیلے عمومی طورپر ”جوماز“ کے نام سے منسوب ہیں۔ یہ دوقبیلوں کی اجتماعی جدوجہد کے نام سے منسوب ہے۔تین لاکھ کی مستحکم آبادی چکمہ اور مرما قبائل پرمشتمل ہے جوکہ بدھ ہیں جبکہ دوسرے قبیلے ہندو‘ عیسائی اور اپنے مقامی مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ لوگ پہاڑیوں کے کنارے بہت مشکل سے اناج اگاتے ہیں۔ پھر جب کھیتی باڑی کاایک موسم ختم ہوجاتا ہے تویہاں سے وہ نقل مکانی کرجاتے ہیں‘ اور جاتے وقت لوٹانے کی شرط پراوروں کے حوالے کرجاتے ہےں۔ اسے مقامی زبان مےں ”جھوم“ کہتے ہیں‘ جولفظ ”جما“ عوام کے نام سے منسلک ہے۔ پہاڑوں کی چوٹی پرمکان بھی تعمیر کرتے ہےں۔ یہ پرامن چوٹیاں انیس سو اسی سے انیس سو ستانویں تک میدان جنگ بن گئی تھیں۔ اس بغاوت اور فوجی آپریشن کے جھگڑے میں دس ہزار افراد جان سے جاتے رہے۔ جسکے نتیجے میں انکی تہذیب اور ماحول بری طرح سے متاثر ہوا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ این جی اوزنے خوب پیسے بنائے اور بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے انکی نسل کشی کوبے نقاب بھی کیا۔ انیس سو ستر کے بعد یہاں بنگالیوں کولاکرحکومت نے مستقل آباد کیا اور اب وہاں زمین کی مشترکہ ملکیت اور باری باری تبادلے کے ذریعہ کاشت کرنے کانظام معدوم ہوتا گیا۔ یہاں انتہا درجے کی فوج کشی کے نتیجے میں ستر ہزار لوگ سرحد پار کرکے ہندوستان چلے گئے اور ساٹھ ہزار ملک کے اندر ہی نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے۔ تقریباً ایک لاکھ پچیس ہزار افراد اس عمل سے متاثر ہوئے۔ انیس سو چوراسی میں انٹرنیشنل لیبرآرگنائزیشن نے یہ پیشین گوئی کی تھی کہ یہاں کا غلام داری مخالف سماج بکھر کے تباہ ہوجائے گا‘ جس کے لئے کچھ نہیں کیاجارہاہے۔ عوامی لیگ کی قوم پرست تحریک کاوہ ساتھ نہیں دے سکتے تھے۔ اس لیے بھی کہ وہ خود بنگال کے سرمایہ داروں سے استحصال کے شکار تھے اور ہےں۔ انیس سو اکہتر کے سقوطِ ڈھاکہ کے بعدمکتی باہنی(فوج آزادی) نے پاکستان کے فوجیوں کوگرفتار کرنے کے لئے اس قبائلی علاقے کی گھر گھر تلاشی لی اور مقامی آبادی پر مظالم ڈھائے۔ جب شیخ مجیب الرحمن بنگلہ دیش کے وزیراعظم تھے اس وقت قبائلی لوگوں کے رہنما مانوبندرہ نرائین لارما کی قیادت میںایک وفد نے ملاقات کی اور اپنے تین مطالبات پیش کیے۔1- پہاڑی علاقے کی خود مختاری اپنی آئینی اسمبلی کے ساتھ دی جائے۔2- قبائلی رہنماﺅں کاعہدہ بحال کیا جائے۔3- ہیلی ٹرک کے علاقے میں غیرقبائلی لوگوں کی بلاروک ٹوک آمد پر پابندی کی آئینی ترمیم کی جائے۔ چونکہ بنگلہ دیش کے آئین میں یہ درج ہے کہ بنگالی قوم ہی ہماری واحد پہچان ہے۔ قبائلی رہنما ایم این لارمہ نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”آپ اپنی قومی تشخیص کو کسی اور پر مسلط نہیںکرسکتے۔“ انہوں نے مزید کہا تھا کہ ”میں چکم ہوں بنگالی نہیں“ ”میں بنگلہ دیش کاشہری ہوں اور آپ بھی بنگلہ دیشی ہیں۔ آپکی قومی شناخت بنگالی ہے‘ پہاڑی‘ عوام کبھی بھی بنگالی نہیں ہوسکتے۔“ پہاڑی لوگوں کی بڑی تعداد دربدر ہوچکی ہے اور انکی جائیداد تباہ ہوچکی ہے۔ حکومت نے رانگہ مائی میںکرنا فولی ندی کے ساحل پر ”ہائی ڈورالیکڑک“ تعمیر کی ہے۔ انیس سو ستاون ، ستاسٹھ میں امریکہ کی مالی اورٹیکنیکل مدد سے شمال مشرق ”کایتیا“ کے گاﺅں میں بڑے پیما نے پرجھیلیں بنائی گئی تھیں۔ اس پروجیکٹ کی تعمیر سے مقامی لوگوں کوکوئی فائدہ نہےں پہنچا۔ یہ زمین پر چار سو اسکوئر مل علاقے پر مشتمل ہے جو ضلع کا چالیس فیصد علاقہ ہے۔ ا س بند کی تعمیر میںایک لاکھ افراد بے گھر ہوئے‘ ان میں پچاس ہزار لوگ سرحد پار ہندوستان ہجرت کرگئے۔ ابھی بہت سے لوگ ہندوستان میںبے ریاست افراد کے طورپر رہتے ہیں۔ جبکہ ملازمتوں کے مواقع نکلنے پربنگالیوں کوتعینات کیا جاتا ہے۔ حکمرانوں نے وعدہ کیا تھا کہ پہاڑی لوگوں کوبجلی مفت فراہم کی جائیگی مگرصرف کچھ ہی علاقوں کوبجلی ملی ہے۔ برطانوی راج میںیہاں جنگل اور جنگلی وسائل مقامی لوگوں کے استعمال میںتھے۔ مگراب اسے تجارتی مقاصد کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے۔ آٹھارہ سو پنسٹھ میں ”انڈین فاریسٹ ریزروایکٹ“ کے تحت مقامی آبادی کویہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اپنے وسائل کوخود استعمال کرسکتے ہیں۔ مگر سامراجی ریلوے سیلیر کے لئے بڑے پیمانے پردرختوں کی کٹائی شروع کردی گئی تھی۔ 1875ءمیں نوآبادیاتی نظام کے تحت دواقسام کے جنگلات کی پالیسی کومتعارف کرایاگیاتھا۔ محفوظ جنگلات ،، آر ایف ایس،، اورضلعی جنگلات ،، ڈی ایف ایس،، آر ایف ایس ،، مکمل طورپر فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ کے ماتحت تھا۔ جھوم کاشتکاری اور جنگلات کے وسائل کے استعمال پرپابندی تھی۔ جبکہ ڈی ایف ایس مکمل طورپر ضلع کے ماتحت تھا اور اسے ڈپٹی کمشنر گاہے بگاہے حکم نامہ جاری کرسکتاتھا۔ ریاست اعلیٰ درجے کے علاقے پوری ضرورتوں کے لئے باغات لگا سکتی تھی۔ آٹھارہ سو ساٹھ سے ستر کی دہائی میں یہاں چائے‘ کافی اور سنگترے کے باغات لگائے گئے۔ پاکستان کی حکومت کی طرح بنگلہ دیش کی حکومت ہی انکے وسائل کونوآبادیاتی تسلط کی طرح لوٹ رہی ہے۔ مختلف طریقوں سے انکا استحصال ہورہاہے۔ جیساکہ نقل مکانی‘ حقوق کی سلبی‘ بدعنوانی‘ اختیارات کاچھیننا‘ خواتین کو بے اختیار کرنا اور آب وہوا کی خرابی وغیرہ وغیرہ۔ آر ایف ایس بنیادی طورِِپر مقامی لوگوں(آدی باسی)کے حقوق کاتحفظ دیتا ہے جبکہ حکومت نے انہیں کوئی متبادل جگہیں فراہم نہیں کیں۔ پہاڑی لوگوں کو آر ایف ایس کے تحت خاموشی سے بے دخل کیاگیا۔ کھیسیانگ قبلیے کے لوگوں کوبھی اسی طرح سے بے دخل کیا گیا۔ کھیسیانگ قبیلے کے چار ہزار افراد بندربن میںنقل مکانی کرکے چلے گئے۔ ان میںبہت سوں کوغیرقانونی طورپر آر ایف ایس کے قانون کو توڑنے کے جرم مےں انکے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے۔ جھوم نظام میں خواتین‘ مردوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ یاکم اپنے کاموں مےں لطف اندوز ہوتی ہیں‘ اس نظام میں انہیں اختیارات ملتے ہیں۔ اس طرح انہیں کھاناپکانے میں‘ ایندھن کے لیے لکڑی جمع کرنے میں اور روایتی ادویات جمع کرنے میں مردمدد گار بنتے ہیں۔ پہاڑی علاقے خاص کر گھسبانگ قبیلے میں خواتین اندرون خانہ اور بیرونی کام دونوں سرانجام دیتی ہیں۔ نجی انٹرپرآئزز کے عمل دخل سے بھی قدرتی ماحول بری طرح متاثر ہورہاہے جبکہ یہ کام برسوں سے غیرقانونی طورپر کیا جارہاہے۔ پہاڑی علاقوں میں بانس‘ ٹمبر اور ایندھن کی لکڑیوں کی کٹائی ہورہی ہے۔یہ کام انفرادی گروہوں اور فوج کی شکل میں ماحول کوتباہ کرنے کے لئے کیا جارہا ہے۔ انیس سو ستر کے پروگرام کے تحت چٹاگانگ پہاڑی علاقے میں بنگالیوں کوآباد کئے جانے کے سلسلے کوجاری رکھا گیا۔ پہاڑی لوگوں نے ”یونائیڈ پیپلز پارٹی آف دی ہیلی ٹرک“ پہاڑی لوگوں کی متحدہ عوامی جماعت کے نام سے ایک سیاسی جماعت تشکیل دی جسکا عسکری محاذ ”شانتی باہنی “(امن فوج)کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش کی جانب سے فوج کشی کے خلاف شانتی باہنی نے مسلح جدوجہد شروع کی۔ انیس سو اسی سے چوراسی تک تقریباً چارلاکھ بنگالی اس علاقے میں آباد کرائے گئے۔ انیس سو تہتر سے شانتی باہنی کی تشکیل کے بعد وہ بھارتی سامراج کی مدد سے مقامی طورپر اپنے حقوق کی جنگ لڑرہے ہیں‘ وہ بنگلہ دیش کی حکومت کواپنا بنیادی دشمن سمجھتے ہیں۔ بنگالیوں کوپہاڑی علاقے میں مستقل آباد کرنے سے مقامی لوگوں اور بنگالیوں کے مابین تعلقات نہ صرف خراب ہوئے ہیں‘ بلکہ مقامی لوگ بنگالیوں کواپنا دشمن سمجھنے لگے ہیں ۔ ہندوستان انکی حمایت میںمخلص نہیں بلکہ وہ خودشمال مشرقی علاقے میں باغیوں سے نبردآزما ہیں۔ تریپِوری اور آسامی بھی ہندوستان سے مکمل حق خوداختیاری چاہتے ہیں۔ اس طرح سے ہندوستان یہاں سیاسی پیچیدگیاں پیدا کر رہا ہے۔شانتی باہنی کے حقوق کے لئے حقیقی امداد کرنے کے بجائے اپنے علاقے میں اٹھائے جانے والے مطالبات کودبانے کے لئے ایسا کررہاہے۔ شانتی باہنی کامرکزی دفتر تریپورہ(ہندوستان) میںہے۔ ہندوستانی فوج انہیں فوجی تربیت دیتی ہے اور بالواسطہ طورپر پہاڑی مہاجرین کوپناہ دینے کاواویلہ کرتی ہے۔ شانتی باہنی نے پہلی بار انیس سو ستاہتر میںایک بنگلہ دیشی فوجی کاروان پرحملہ کیا۔ اچانک حملے کی وجہ سے بنگلہ دیش کی فوج ہندوستان کے خلاف ہوشیار ہوگئی۔ نتیجتاً بنگلہ دیش کی فوج نے شانتی باہنی پرحملے کرنے کے بہانے مقامی پہاڑیوں کے گاﺅں پرحملہ کردیا۔ انہیں نظر بند کیا‘ معصوم اور بے گناہ دیہاتیوں کواذیت دیتی رہی اور ہزاروں جما استادوں‘ طلبہ اور سرکاری ملازمین کاقتل کیا۔ پچیس مارچ انیس سو اسی میں بنگلہ دیشی فوجی حکام نے رانگہ مائی کے کاﺅکھالی بازار میں قبائلی رہنماﺅں سے مذکرات کے نام پر انہیں جمع کیا اور پھر ان پر بلااشتعال گولیاں چلادیں۔ فوج نے اس طرح کی کارروائی چوبیس گاﺅں میںکی۔ نتیجے میں تین سو افراد کی ہلاکتیں ہوئےں۔ ان میں زیادہ تر نہتے بچے اور عورتیں تھیں۔ بڑے پیمانے پربشمول نن اور مونک (مذہبی راہ بائیں) کی بلاد کاری کی گئی۔ انہوں نے ہندوﺅں او ربدھوں کے مندر گرادیئے۔۔ غیرجانبدار ذرائع کے مطابق یہ کارروائی آبادکاربنگالی اور فوج نے منصوبہ بندی کے ساتھ کی۔ بنگلہ دیشی فوج نے وہاں فوجی آپریشن کرکے اس راستے کو روک دیا جہاں سے بنگالی آبادکار داخل ہوتے ہیں۔ اسی مقام پر انیس سو تراسی میں شانتی باہنی نے بھی حملہ کیا تھا۔ پنچاری کے علاقے میں فوجی ہیلی کاپٹر گن شپ سے شانتی باہنی پرگولیاں چلائی گئیں جبکہ زمین پرنیم فوجی دستے ”انصار“ انکے خلاف کارروائی کررہے تھے۔ بعدازاںانصار نے یہاں عمومی طورپرخواتین سے زنابالجبر کیا اور خاص کر نوجوان لڑکیوں کے ساتھ زیادہ بلادکاری کی۔ جیسا کہ انیس سو اکہتر میں پاکستانی فوج نے بنگالی لڑکیوں کے ساتھ کیا تھا۔ فوج نے مقامی آبادی سے رابطہ کیا ہوا ہے اور مختلف تنظیمیں تشکیل دی ہیں‘ تاکہ موقع پر انہیں استعمال کیا جا سکے۔ انیس سو بانویں میںفوجی حکومت کے خاتمے اور خالدہ ضیاءکی سول حکومت کے قیام کے بعد فوجی جنتا کازور ٹوٹ گیا اور پہاڑی علاقوں میںیہ ختم ہوگئے۔پھر شانتی باہنی نے انیس سو بانویں کے اگست میں اپنی غیرقانونی سرگرمیوں کوروکنے کااعلان کیا۔ انیس سو چھیانویں میں شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد جب وزیراعظم بنی تو انیس سو ستانویں میں یونائیڈ پیپلزپارٹی آف ہیلی ٹرک ،، پی سی جے ایس ایس ،، اور حکومت کے درمیان سات بار امن مذاکرات کے بعد حسینہ واجد نے علاقے میں فوجی آپریشن کے خاتمے کاوعدہ کیا۔ یہ معاہدہ اس لیے ہواتھا کہ دودہائیوں سے پچیس ہزار انسانوں کی اس لڑائی مےں جان گئی۔ معاہدے میں چٹاگانگ کے قبائلیوں کوخودمختاری دینے کاوعدہ کیا گیا۔ انیس سو آٹھانویں میں شانتی باہنی پرعائد پابندی ہٹالی گئی اور پی سی جے ایس ایس کوایک آئنی سیاسی جماعت کے طورپر تسلیم کر لیا گیا۔ پی سی جے ایس ایس کے بعض اراکین نے اس امن معاہدے میں بنگالی آبادکاروں کی حیثیت کے بارے میںکوئی تجویز نہ رکھنے پر تنقید کی۔ انہوں نے یہ کہا کہ شانتی باہنی کے ساتھ امن معاہدے کے باوجود اس علاقے میں اب بھی پچاسی ہزار فوجی دستے موجود ہےں۔ اور یہاں ”جما“ لوگوں سمیت مسلسل قتل کیا جارہا ہے۔ اسکے علاوہ انیس سو بانویں کے اپریل میں لوگانگ گاﺅں اور کاگرہ چاڑی پر جوبڑے پیمانے پرفوج کشی اور قتل عام ہواتھا اسکا بھی اس معاہدے میں کوئی ذکر نہیںتھا۔ اس معاہدے کے بعد جوفرق آیا ہے وہ یہ ہے کہ پہاڑی علاقے میںپروکسی وار(مقامی ایجنٹوں کے ذریعہ جنگ لڑنا)کی جارہی ہے۔ ان میںایک ”پربتا گانا“ ہے۔ حکومت نے اس تنظیم میں زیادہ تر ”جما“ مخالف لوگوں کی بھرتی کی ہے اور ان میں بیشتر کاتعلق بنیاد پرست ”جماعت اسلامی“ سے ہے۔ دوسری نام نہاد ”ٹائیگر فورس“ ہے۔ اس نیم فوجی دستے کو”مارسا“ اور ”مرو“مقامی قبیلوں پر تشکیل دیا گیاہے۔ جوروایتی طورپر چکم اور انکی سیاسی تنظیم ”ووینز فیڈریشن“ کی تنظیمی سیکرٹری کیلنا چکم جوکہ ایک نوجوان خاتون ہیں کوان کے گھر ”باغائی چاڑی“ سے فوج نے گرفتار کیا تھا اور حکومت نے ان کی تحقیق کا وعدہ بھی کیاتھا لیکن تا حال وہ لاپتہ ہےں۔ جولائی دو ہزار نو میںبنگلہ دیش کی حکومت نے چٹاگانگ پہاڑی علاقے سے بارہ سال تک امن کی لوری دینے کے بعد فوج کو وہاں سے واپس بلانے کاحکم صادر کیا۔ بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ نے وعدہ کیا تھا کہ ستمبر دو ہزار نو تک انفینٹری بریگیڈز سمیت پنتیس کیمپوں سے فوری طور پر فوج واپس بلائی جائے گی۔ بنگلہ دیش کی حکومت نے مسلسل پہاڑی لوگوں کے حقوق کی پامالی کی ہے۔ انہوں نے انکی تذلیل‘ خواتین کی بارہا آبروریزی‘ مذہبی تفریق‘ خاص کر بدھوں کے ساتھ‘ مندروں کی تباہی‘ دیہاتوں او رجائیداد کو تباہ کرنا‘ انفرادی طورپر جسمانی اور ذہنی اذیتیں‘ بارہا قتل عام‘ خاص کرمعروف ”جما“ سرگرم کارکنوں کاقتل‘ سیاسی رہنما‘ پیشہ ور ماہرین‘ مونک‘ نن (مذہبی پیشوا)‘ کوبھی نہیں چھوڑا۔ انیس سو اسی سے انیس سو ترنویں تک تیرہ جگہوں پر بڑے پیمانے پرفوجی آپریشن کے ذریعے تباہی پھیلائی گئی۔ پی سی جے ایس ایس(پہاڑی لوگوں کی سیاسی تنظیم) کی تحریک نظریاتی طورپر کمزوری کا شکار ہوئی۔ اس نے ہندوستان کی مالی امداد کیلئے ہندوستان کوہی اپنا مرکز (بیس) بنایا۔ پارٹی جانتی ہے کہ ہندوستان انہیں مکمل خودمختاری دلوانے میںمددنہیں کرے گا۔ بلکہ یہ شمال مشرقی علاقوں کوگوریلا وار اور انکے خلاف ہونے والی فوج کشی پرسے توجہ ہٹانے کے لئے چٹاگانگ پہاڑی علاقے کی(CHT)پارٹی کی مدد کررہا ہے۔ درحقیقت یہ بنگلہ دیش کی حکوت پر ایک دباﺅ ڈالنے کی حکمت عملی ہے۔ نظریاتی طورپر ”جما“ قوم پرستی ایک پیٹی بورژوا(ادنیٰ سرمایہ داروں)کی تحریک ہے جو انیس سو نویں کے معاہدے کے مطابق مقامی قدیم طریقہ کار کی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے۔ یہ تحریک چکمہ قبیلے کی سرپرستی میںچلائی جارہی ہے۔ دوسرے چھوٹے گروہ بھی ”جما“ پی سی جے ایس ایس کے ذریعے انکی حمایت کرتی تھیں۔ چھوٹے گروہ اور چکم قبیلے کے بھی کچھ لوگ اور تعلیم یافتہ پیشہ ور ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ ”جما“ ایک پیشہ وارانہ نام سے منسوب ہے۔ یہ عوام کی شناخت کا ذریعہ نہیں ہوسکتا ہے۔ جنوبی ایشیاءکے قبائلیوں کا طریقہ زندگی ایک پسماندہ طریقہ کار ہے لیکن ان میں آزادی بھی ہے‘ ان میںبہت قدیم روایتی انسانی ہمدردی بھی موجود ہے۔ بنگلہ دیش کی حکومت کے پاس ایسی کوئی حکمت عملی نہیں جس سے وہ بنگالیوں اور چٹاگانگ کے پہاڑیوں کے مسائل حل کرنے کے لئے واضح پروگرام پیش کریں۔ اب جوبھی تجاویز پیش کی جارہی ہیں وہ وقتی اور پائیدار نہیں ہیں۔ یہاں اقلیتوں پرعشر کانظام متعارف کروانے کی بات ہورہی ہے‘ اس سے نہ صرف تضادات بڑھیں گے بلکہ یہاں ایک خطرناک صورتحال پیدا ہوگی۔ اور عوام میں زیادہ ریڈیکل تحریک شروع ہوگی۔ بائیں بازو کی جانب سے خلا ہونے کی وجہ سے اس تحریک کودرست سمت دینا محال ہو جائے گا۔ بدقسمتی سے ٹریڈیونین بہت کمزور ہے۔ یہاں صرف ایک قبضہ گروپ مزدور یونین میں منظم ہے۔ اب صرف کمیونسٹ پارٹی‘ ورکرزپارٹی اور دیگر سوشلسٹ پارٹیوں کایہ فریضہ بنتا ہے کہ وہ اس مسخ شدہ بورژوا جمہوریت کودرست سمت میں ایک انقلابی پروگرام بشمول بنگلہ دیش اور ”جما“ کی عوام کے لئے پیش کریں۔ سامراج زدہ نیم جاگیردار‘ نیم سرمایہ دار بنگلہ دیش ان مسائل کوحل نہیں کرسکتا۔ چٹاگانگ کے پہاڑی لوگوں کی موجودہ تنظیم بھی اپنے لوگوں کے مسائل حل نہیں کرسکتی ہے۔ انہیں مغربی بنگال اور بنگلہ دیش کے بنگالی محنت کشوں اور عوام کے اتحاد کی ضرورت ہوگی۔ اسکے علاوہ میانمار کے محنت کشوں کی طرف سے یکجہتی کی ضرورت بھی پڑے گی۔ ایک سوشلسٹ بنگلہ دیش ہی وسیع پیمانے پر برصغیر جنوبی ایشیاءکی سوشلسٹ فیڈریشن قائم کرکے دنیا بھر کے عوام کی ضرورتوں کوپورا کرسکتا ہے۔