سرمایہ داری کا عالمی بحران، مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواکی

Urdu translation of The crisis of world capitalism is gathering speed (December 17, 2008)

 

ادارتی بورڈ مارکسسٹ ڈاٹ کم،،۔ ترجمہ ، اسد پتافی،22.01.2009۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سرمایہ داری کا بحران کسی وقفے کے بغیر بڑھتااور شدیدہوتاچلاجارہاہے اوراس کی شدت و گہرائی میں بھی اضافہ ہوتاچلاجارہاہے۔ امریکہ میں پچھلے نومبرکے ایک مہینے میں ہی ، پچھلے چوتیس سالوں کی سب سے بڑی روزگاری ، ملازمتوںسے فراغت کی تعداد سامنے آئی۔ عالمی مجموعی پیداوار میں بھی گراوٹ ریکارڈ کی گئی۔ اس کی ابتدا مالیاتی بحران(نام نہاد کریڈٹ کرنچ)سے ہوئی جو بڑھتے ہوئے ایک حقیقی بحران میں بدلنا اورڈھلناشروع ہوگیا۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی بورژوا ماہرین معیشت نے یہی فرض کرلیا کہ کریڈٹ کی قلت کی وجہ سے بحران پیداہوا ہے جبکہ درحقیقت بحران کی وجہ سے ہی یہ قلت پیداہوئی ۔ عروج کے دنوں میں ہر کوئی ادھار لینے اور دینے میں مگن تھااورہر ایک منافع خوری کی ایک اچھی فضا میںخودکو مطمئن ا و راعتماد سے سرشار محسوس کررہاتھا۔ ہمیشہ کی طرح سب یہ سمجھ چکے تھے کہ خیر وبرکت کی یہ برسات کسی وقفے کے بغیر جاری وساری رہے گی۔ سٹاک مارکیٹ کا عظیم وضخیم عروج حقیقی مارکیٹ سے الگ تھلگ بے نیازہوکر بڑھتا ہی چلاجارہاتھا۔ ہم میں سے ہر ایک کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ منافع ، آخری تجزیے میں مزدورطبقے کی غیراداشدہ اجرت کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔ جب تک بھی قدرزائد کشید کی جاسکتی ہے ، تب تک یہ سبھی سرمایہ دار،جاگیردار،بینکا ر اور سٹاک مارکیٹ کے سٹہ بازمنافعوں کی اس بہتی گنگا سے مستفیدہوتے رہتے ہیں اورا س کےفیت میں یہ تصورمستحکم کرلیتے ہیں کہ کمائی کی یہ بہار سدا رہے گی مگر پھر سرمایہ دارانہ نظام کے اپنے وراثتی و نامیاتی تضادات جلدےابدیرپھٹ کر سامنے آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اب دوسرا مرحلہ یعنی حقیقی معاشی بحران کا آغاز ہوچکا ہے۔ کروڑوں محنت کشوں کوکام کی قلت،اوورٹائم ،ملازمت یہاں تک کہ ادارے کے خاتمے کا سامناکرناپڑاہے۔ دوسرے لفظوں میں معیارزندگی میں تیزی سے گراوٹ اور اس سے مراد،، طلب ،، میں تیزی سے کمی ، کاروبار کی بندش میں بڑھوتری،بے روزگاری اور ملازمتوں میں کٹوتی میں اضافہ ہے۔ معاشی سرگرمی میں تنزلی کا مطلب ٹیکسو ں کی آمدنی میں مزید کمی اورٹیکسوں میں کمی سے مراد سماجی اخراجات میں کمی اورکٹوتی ہے۔ نومبرکے دوران امریکہ میں تنخواہ دار ملازمتوں میں پانچ لاکھ تیتیس ہزار کی کمی سامنے آئی ہے،جوکہ دسمبر انیس سو چوہتر کے بعدکی سب سے بڑی گراوٹ ہے۔ بے ر وزگاری کی شرح چھ اعشاریہ سات فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ لیکن اس سب سے صورتحال کی حقیقی سنجیدگی عیاں نہیں ہوتی ، اگر ان لوگوں کو بھی شمارکیاجائے جنہوں نے ملازمت کے حصول کی کوششےں ترک کر دی ہےں تو یہ شرح بارہ اعشاریہ پانچ فیصد کو پہنچ جاتی ہے۔ بندشوں اور برخاستگیوںکی ایک لہر چلنا شروع ہوگئی ہے۔ میریل لنچ کو اپنی تحویل میں لینے کے بعد بینک آف امریکہ اپنے پنتیس ہزار ملازمین کو ملازمت سے برخاست کرنے جارہاہے۔ ڈاﺅ کیمیکلز امریکہ اور یورپ میں اپنے بیس پلانٹ بندکررہاہے جس کے بعد اس کے پانچ ہزار ملازم روزگارسے محروم ہوجائیں گے۔ جبکہ تین ایم میں سے بھی مزیددو ہزار تین سو ملازمتیں ختم ہونے والی ہیں۔ Anheuser-Busch InBevامریکہ میں اپنی ورک فورس کاچھ فیصد ختم کرنے کا اعلان کرچکی ہے۔ اب کوئی بھی فرد اس نامعقول موقف پر قائم نہیں رہا کہ یہ بحران محض امریکہ تک ہی محدودرہے گا۔ جاپان کی مشہور ومعروف کمپنی سونی اپنے سولہ ہزار ملازمین کو فارغ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی مزیدسرمایہ کاری کو روکنے اور اپنی کچھ پیداوار کو بندکرنے جارہی ہے۔ اپنے ایل سی ڈی ٹیلی وثز نوں کی فروخت میں ہونے والی گراوٹ کی وجہ سے پہلے ہی اس کے منافعوں کی شرح میں شدیدکمی واقع ہوچکی ہے۔ اینگو آسٹریلین مائننگ کمپنی Rio Tintoاپنا مالیاتی خرچہ کم کر رہی ہے، یہی نہیں بلکہ یہ اپنے دس ارب ڈالر کے قرضوںکی ادائیگی کے لیے اپنے اثاثے بیچ رہی ہے۔ یہ سال دو ہزار نو کے آخر تک اپنے چودہ ہزار ملازموں کو فارغ کردے گی۔ برطانیہ کا ایک بڑا ڈیپارٹمنٹل سٹور،، وول ورتھ،،سوسال کے بعد بندہونے جا رہا ہے جس کے بعد تیس ہزارافراد بے روزگارہوجائیں گے۔ ےہ ایک نہ ختم ہونے والی فہرست ہے اور اس میں اضافہ ہوتاچلاجارہاہے۔حکمران طبقات کے حواس باختگی مےں کیے جانے والے اقدامات اس خطرے کی شدت کی غمازی کرتے ہیں جو اس کیفیت سے بچاﺅ کی ایسی تدابیر اختیارکرتے چلے جارہے ہیں جن سے یہ خطرات ٹلنے کی بجائے بپھرتے اور بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔ ان تمام تر حفاظتی اقدامات کے باوجودبحران گہراہی ہوتاچلاجارہاہے اور یہ پل پل ہر طرف بپھرتاو پھیلتا جارہاہے۔ عالمی معیشت نیچے کی طرف لڑھکتی جارہی ہے اور کسی کو بھی سمجھ نہیں آرہا ہے کہ اس پاتال کی حد کہاںہے؟ماضی میں سرمائے کے دانشور و ماہرین اصرار کرتے رہے کہ اب کوئی بحران نہیں آئے گا۔مگر اب ان کے سامنے سب سے اہم چیلنج یہ آن کھڑاہے کہ ہم کسی گہرے بحران کی زد میں ہیں یا گراوٹ کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔ کارخانوں واداروں کی بندش،دیوالیہ پن، ملازمتوں کے خاتمے اور برخاستگیوںکی زدمیں آنے والے لاکھوں کروڑوں انسانوں کے لیے یہ کیفیت انتہائی کربناک اورہولناک ہے ۔ جبکہ سرمایہ دار اور ان کے کندذہن ماہرین یہ قرار دے رہے ہیں کہ چونکہ یہ سب کچھ محض ،،اعتماد،، کی کمی کے نتیجے میں وقوع پذیرہورہاہے ، اس لیے چند خوش نماقسم کی تقریروں اور بیانات کے ذریعے صورتحال کو متوازن کرنے اور عوامی سرمائے کے بے دریغ اور بے تحاشااستعمال کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی سرتوڑکوششیں کی جارہی ہیں۔ انہیں یہ سمجھ ہی نہیں آرہی کہ اعتماد کسی آسمان سے نہیں ٹپکتا، بلکہ یہ زندہ حقیقتوں کی ہی عکاسی کیاکرتاہے۔ اس توہم پرستانہ اور تصوفانہ توضےح کے برعکس ،، جس سے کچھ بھی واضح نہےں ہوتا،، ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ بحران ،، اعتماد،، کی کمی کا نتیجہ نہیں، بلکہ یہ بحران ہی ہے جو،، اعتماد،، کی کمی کا باعث بناہواہے اور بنتاچلاجارہاہے۔ اس بات کو ذہن میں رکھناضروری ہے کہ سرمایہ دار جب تک اپنی اشیاکوبازارمیں بیچیں گے نہیں تب تک وہ قدر زائد سے مستفیدنہیں ہوسکتے ہیں۔ سماج میں کم صارفیت ،، خریداری کے رحجان میں کمی،،کے باعث منڈی محدودہوجایاکرتی ہے اور رفتہ رفتہ وہ مقام آجاتاہے جب منڈیاں سنسان ہوجاتی اوران میں خریدار ڈھونڈے سے بھی نہیں نظر آتا۔ انیس سو نوئے اکانویں اور دو ہزار ایک کے بحران کے دوران ،، طلب ،، اس قدر نہیں گری تھی۔ پہلے بحران میں ایشیا،، چین،، کے معاشی ابھار نے بحران کو زوال میں بدلنے سے بچا لیاتھا۔جبکہ دوسری مدت میں کریڈٹ اور جائیدادوں کے کاروبارکے عروج نے معاملہ سنبھال لیااوربحران گراوٹ سے محفوظ رہ گیا۔ مگر پھر یہ دونوں بنیادیں ریت پر قائم ہوئی تھیں۔ صورتحال کو سنبھالانہیں جا سکا، سچ تو یہ ہے کہ سرمایہ دار دو دہائیوں تک گہرے بحران سے بچتے رہے مگر اس کی قیمت انہیں مستقبل کے ایک زیادہ شدید،وسیع اور گہرے بحران کی شکل میں دینی پڑگئی ۔ اوریہ مستقبل اب سرمایہ داروں کے سر پہ آن کھڑاہوگیا ہے جس نے ان کے اوسان خطاکردیے ہیں۔ ہرعروج کے دوران بے پناہ بے تحاشا منافعے بٹورے جاتے ہیں، لوگ بیچتے اور خریدتے رہتے ہیں، قرضے لیے اور دیے جاتے ہیں ہنسی خوشی سے اپنی آمدنیوں سے زائدقرضوں سے استفادہ کیاجاتاہے۔ اس کیفیت میں اگر کوئی بھی فرد یہ کہے یا سوچے کہ یہ سب مصنوعی یا عارضی ہے اور محض سٹے بازی ہے تو اسے نظراندازکردیاجاتاہے۔پریشانی اورتشویش کا ماحول ہی نہیں ہوتا کیونکہ سب امیر ہونے کے احساس سے سرشار ہورہے ہوتے ہیں۔ہر طرف رحمتوں اور برکتوں کی برکھا جو برس رہی ہوتی ہے۔ ایسے میں ناشکرا پن زیب ہی نہیں دیتا۔ آج کی پرکیف لذتوںسے مزے لینے کو فوقیت دی جاتی ہے۔ کل کی کل دیکھی جائے گی ، ایک عمومی رویہ بن جاتاہے۔ مگر جونہی یہ سب اپنی ضد میں تبدیل ہونا شروع ہوتاہے ، جس نے ناگزیر طورپرہونابھی ہوتاہے ، تو یہ سب لطافت کثافت میں اور مزا تکلیف میں بدلنا شروع ہوجاتاہے۔ اور،، اعتماد،، اس تمام لطف و مزے سمیت آبی بخارات کی طرح سے اڑ کر کافورہوجاتا ہے۔ چہچہاہٹ غم میں اور مزا کرب میںبدل جاتاہے۔ حرص کی جگہ خوف کا عنصر منڈی کی نفسیات پر غالب ہونا شروع کردیتا ہے۔ اپنے سبھی پچھلے تجزیوں کی تردید کرتے ہوئے سرمائے کے دانشورا ورماہرین یہ فرما رہے ہیں کہ یہ کیفیت زیادہ شدید اورگہری ہوگی اورہم دوسری عالمی جنگ کے بعد کی سب سے بھیانک اور طویل صورتحال سے دوچارہونے جارہے ہیں۔ سرمایہ دار اپنے پچھلے عرصے کی کرنیوں کی قیمت اداکرنے پر مجبورہوچکے ہیں۔ صورتحال کے سیاسی و سماجی اثرات نے انہیں خوف کا شکار کردیاہواہے اوروہ بوکھلاہٹ کا شکارہوکر ایسی پالیسیاں اپناتے چلے جارہے ہیں جن سے بحران کم ہونے کی بجائے اور بھی وحشی ہوتاچلاجارہاہے۔ ہر اقدام کے بعد یہ اعلان صادرکردیاجاتا ہے کہ،، ہم نے بدترین پر قابوپالیا ہے ،، ۔ مگرکچھ ہی وقت بعدپتہ چلتاہے کہ بدترین نے ہی ان پرمزید قابوپالیاہے۔ ایسے ہی اعلانات انیس سو اناتیس میں وال سٹریٹ کریش کے وقفوں کے دوران بھی کیے جاتے رہے تھے۔پس ان اعلانات کے بعدسٹاک مارکیٹوں کی گراوٹ اور پیداوار میں کٹوتی کا عمل ایک معمول ہی رہے گا۔ سرمایہ داری خود کو ایک گہری دلدل میں دھکیلتی چلی جارہی ہے جس سے نکلنا محال سے محال ترہوتا جارہاہے۔ بینک اپنے ابترقرضوں کے بوجھ تلے دب کر دھنستے چلے جارہے ہیں۔ کسی کو کوئی خبر نہیں ہے کہ ان ڈوبے ہوئے قرضوں کا حجم کتنا ہے اور یہ بھی پتہ نہےں چل رہا کہ کون سا بینک ان ڈوبے ہوئے قرضوں کے نتیجے میں ڈوب رہا ہے اور کون سا نہیں ڈوب رہا؟یہی وجہ ہے کہ معاشی ماہرین بحران کو ،، نارمل،، قرار نہیں دے رہے ۔ ان معاشی ماہرین میںسے اب کچھ قدیم زمانے کی ردالیوں کی مانند، ان بھولے بسرے سنہرے دنوں کو یاد کرنے میں لگے ہوئے ہیں جب ،، سونا،، قدرمبادلہ ہوا کرتا تھا۔ مگر شومیءقسمت ، اب سونے کی حکمرانی کے دن واپس نہیں لوٹائے جا سکتے۔ ایسا کیاگےا توسب کچھ دھڑام ہوجائے گا اور انیس اناتیس، تیس کے عظیم زوال سے بھی کہیں بدترین سامنے آئے گا۔ دوسری عالمی جنگ سے پہلے عالمی معیشت کا پیما نہ سونے سے منسلک ہواکرتاتھاجو عالمی مالیاتی منڈیوں کو سنبھالے رکھتاتھا۔ حکومتیں اپنے پاس سونے کا ایک معقول ذخیرہ رکھاکرتی تھیں اور اس کی مدد سے اپنی کرنسی کو سنبھالتی تھیں۔ مشکل صورتحال مےں قرض دینے والے سونے کی شکل میں اپنے قرضے کی واپسی کا مطالبہ کیاکرتے تھے۔ یوں سونے کی ہر دوسری جنس کی طرح ایک معروضی قدرہواکرتی تھی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے سونے کی اس قدرتبادلے کاخاتمہ اس طرح ممکن ہواکہ امریکہ کے پاس دنیا بھر میں موجود سونے کا دوتہائیFort Knoxمیں جمع ہوچکاتھااور اس کی معیشت بھی مستحکم ومربوط تھی۔ اس وجہ سے امریکہ اس قابل ہوچکاتھا کہ وہ ساری دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق چلاسکتا۔ ہر کوئی ڈالر کا طلبگار ہوچکاتھا کیونکہ ڈالر ہی سب کچھ قرارپاچکاتھا۔ ڈالر ،پونڈسٹرلنگ کی شراکت کے ساتھ،عالمی کرنسی بن گیا۔ انیس سو پنتالیس کے بعد یہ عالمی تجارت کے فروغ میں ایک اہم عنصرتھا۔ اوریہی اس وقت عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی معاشی ترقی کی حقیقی بنیادبھی تھا۔ مگراب یہ سب کچھ بدل چکا ہے۔ امریکہ اب سب سے بڑے قرضے دینے والے ملک کی بجائے سب سے بڑے قرضے لینے والے ملک میں تبدیل ہو چکاہے۔ ہرچندڈالرابھی تک عالمی کرنسی ہے مگر اس کی حقیقی شرح تبادلہ کا کسی کو بھی علم نہیں۔ پچھلی دو تین دہائیوں کے دوران عالمی معیشت میں غیرحقیقی اور مصنوعی سرمائے کا ناقابل تصور عمل دخل ہوتاچلاگیا۔ اس وقت عالمی تجارت کا حجم پانچ سو کھرب ڈالر کوپہنچاہواہے جس میں سے بےشتر مصنوعی سرمائے پر مبنی ہے جس کا کردار زیادہ ترسٹے بازی کا حامل ہے۔ منڈی کا یہ غیر حقیقی حجم امریکہ کی مجموعی قومی پیداوارکے حجم سے چھتیس گنا زےادہ ہے،، دو ہزار سات میںامریکہ کی مجموعی قومی پیداوارکا حجم تیرہ اعشاریہ آٹھ کھرب ڈالرریکا رڈکیاگیا،،۔ جبکہ یہ مجموعی عالمی پیداوار سے دس گنازےادہ ہے۔ امریکہ سمیت دیگر ملکوں میں پچھلے عرصے کے دوران کریڈٹ کے غیرمعمولی عروج کی وجہ سے،، مانگ،، میں بے پناہ اضافہ رہامگر اب یہ اپنے انجام کو پہنچ چکاہے۔ دھارے نے اب الٹابہنا شروع کر دیا ہے۔ اب کوئی بھی رقم ادھارپرلینے کوتیار نہیں جبکہ چند ایک ہی ہیں جو رقم ادھار دینے کو تیار ہیں۔ عالمی سماج کا موڈ ایک بے بسی اور بدحالی کی زدمیں آ گیا ہے۔ لوگوں کے پاس کوئی رقم ہی نہیں ہے جسے وہ خرچ کر سکیں،ہاں البتہ قرضوں کا ایک بوجھ ضروران کے سروں پرلداہواہے جنہیں انہوں نے اداکرناہے۔ کچھ ہی عرصہ پہلے قرضے لے کر چہچہانے والے اب انہی قرضوں کی وجہ سے اپنے اپنے سرپیٹ رہے ہیں۔ ان میں سے اکثریت جنہوں نے گھر بنانے کے لیے قرضے لیے تھے،وہ خود کواتھاہ بے بسی کی کیفیت میں پارہے ہیں اوراس قابل نہیں ہیں کہ یہ قرضے ادا کر سکیں چنانچہ وہ اپنے گھر سے بے گھرہونے پر مجبورہورہے ہیں۔ جائیدادوں کی قیمتیں گرنے سے ان کے گھر بھی کم قیمت کے حامل ہو چکے ہیں جبکہ ان کے قرضوں کی مالیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ کل تک ہر کسی کو قرضے کے لیے رقم دینے کو بیتا ب بینکا ر اب رقم کو چمٹے ہوئے ہیں اور ایک ایک دھیلے کو بھی ہاتھ سے نہیں جانے دے رہے ۔ ان کا بداعتمادی اور تضحیک کایہ رویہ محض نجی گھروں اور چھوٹے کاروباروں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ بینکوں اور بڑے اداروں کی طرف بھی ان کا یہی وطیرہ بن چکا ہے۔ کوئی بینک کسی بھی دوسرے بینک کو قرضہ دینے کو تیار نہیں اور ڈراہواہے کہ رقم ڈوب جائے گی۔ نہ ہی اب یہ بینک کمپنیوں کو خام مال اور دیگر ضروری آلات کی خریداری کے لیے کوئی رقم فراہم کرنے کوتیار ہیں۔ اس کی بجائے وہ اپنے دروازے بند کرکے اداروں کو بند ہونے پر مجبور کر رہے ہیں۔ ماچس کی ڈبیوں کی طرح سے ان اداروں کے ساتھ حشرناک سلوک اختیارکیاجارہاہے جس کی وجہ سے لاکھوں محنت کش، پلک جھپکتے ، اپنے روزگارسے محروم ہوتے چلے جارہے ہیں۔ چونکہ قرضہ سرمایہ دارانہ نظام کے لیے خون کی سی حیثیت رکھتارہاہے، اس لیے نہ صرف بری کارکردگی کے حامل ادارے اس عدم فراہمی کی زدمیں آئیں گے بلکہ بہترو معتبر ادارے بھی اس سے متاثرہوں گے۔ قرضوں کی یہ ،، سردمہری،، دھیرے دھیرے سماج کی پیداواری قوتوں کواپنی لپیٹ میں لیتی جارہی ہے۔ اس کے اثرات اداروں کے دیوالیہ ہونے اور ان کے بندہونے کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔ صرف چھوٹے ادارے ہی نہیں بلکہ بڑے ادارے بھی اس کی زدمیں آتے جارہے ہیںجن مےں فورڈ، جنرل موٹرز، سونی، نسان اور دیگر شامل ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ مانگ میں کمی ہے کیونکہ قرضوںکابہاﺅ رک چکاہے۔ اچانک ہی فولاد، سیمنٹ، کاروں اوردیگراشیاکی فراوانی بڑھ گئی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہم اس وقت زائدپیداوارکی ایک کلاسیکل صورتحال سے دو چار ہوچکے ہیں۔ امریکہ کی بڑی کار کمپنیوںنے قیمتوں میں کمی کرکے حصص کی منڈی کو تقویت فراہم کرنے کی کوشش کی مگر اس سے بھی عارضی سہارا ملا اور وہ بھی منافع کی شرح مےں کمی کی صورت میں۔ اس کا نتیجہ ان کے دیوالیہ پن کی شکل میں سامنے آنے لگا۔ اب یہ اپنی اپنی ٹوپیاں اتارکر امریکی حکومت کے سامنے سرجھکائے کھڑی ہوئی ہےں، جس نے ان پر ترس کھاتے ہوئے عوام کے ٹیکسوںمیں سے ایک بھاری رقم ان کو دان کرنے کی ہاں کردی ہے تاکہ وہ اپنا کاروبارحیات جاری رکھ سکیں۔ بینکوں کو بیل آﺅٹ دیے جانے کے بعد یہ ایک اور غیرمعمولی اقدام تھا۔ خاص طورپرہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ یہ ریپلیکن پارٹی تھی جو آزادمنڈی کی معیشت کی نمائندہ تھی۔ یہ سب ایک گہری مایوسی اور بے بسی کی غمازی کرتاہے۔ بڑی کارکمپنیوں کو بھاری رقم کی ادائیگی کا فیصلہ سیاسی اورسماجی وجوہات کی بنیادپرکیاگیاکیونکہ کرزلر اورجنرل موٹرز جیسی بہت بڑی کمپنیاں دیوالیہ ہونے جارہی تھیں جس کے بعد لاکھوں محنت کش اچانک بے روزگار ہوجاتے۔ یہ ایک حفاظتی اقدام تھاجوبراہ راست غیر ملکی کارسازکمپنیوں کے خلاف لیاگیا ۔ اگرا س کی منظوری دے دی جاتی ہے تو یقینی طورپر ایسے ہی اقدامات یورپ اور جاپان کی طرف سے بھی کیے جائیں گے۔ تاہم حکومت نے پیکیج کے بدلے میں اجرتوںمیں کمی کا بھی اصرارکیا جسے یونینوں کی طرف سے مستردکردیاگیا۔ جس پر ریپلیکن نے بل کو مسترد کر دیا اورجسے سینٹ میں ناکامی سے دوچارہوناپڑا۔ اس سے پہلے بھی سینٹ اور وائٹ ہاﺅس بینکوں کے بارے بیل آﺅٹ پلان پر باہم متصادم ہوچکے ہیں۔ یہ سب اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکی سماج ہر سطح پر گہرے تضادات کاشکارہوچکاہے۔ ہم پروٹےکشنزم اور بڑے سرمایہ دار ملکوں کے مابین جنم لینے والے نئے تنازعات کے عہد میں داخل ہو رہے ہیں۔ صدراوبامہ کے دور میں اس تحفظاتی رحجان کو مزیدفروغ دیاجائے گا۔ اس پر بہت زیادہ دباﺅ ہوگا کہ ،، امریکیو ں کی ملازمتیں بچائی جائیں،، ۔ ہمیں یادرکھنا چاہیے کہ ڈیموکریٹس پروٹےکشنزم کی طرف مائل چلے آرہے تھے۔ اس کے نتیجے میں نئی مخالفتوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ واکس ویگن پہلے ہی ریاستی امدادکا مطالبہ کر چکی ہے۔ بحران یورپ کے اندر بھی انتشار اور خلفشارکو جنم دے رہاہے۔برطانیہ اورفرانس جرمنی پر دباﺅڈال رہے ہیں کہ وہ اپنی معیشت میں کمی لائے یعنی کہ اپنے خسارے میں اضافہ کرے تاکہ برطانوی اور فرانسیسی اشیاکی مانگ میں اضافہ کیاجاسکے، مگرجرمنی اس کی مزاحمت کررہاہے ۔ اس کا خیال ہے کہ جرمنی آخرکیونکر دوسروں کے مسائل کی قیمت اداکرے ؟مگر پھر یورپ کی بہتری وبحالی کے لیے لازمی ہے کہ جرمنی معاملات میں شراکت کرے ۔ ان سب کو بہرحال اپنی اپنی معیشتو ں کو نیچے لاناپڑے گایاپھرجرمنی کو ہی باقیوں کے لیے ایثارکامظاہرہ کرناپڑے گا۔ تاہم ان سب تجاویزکو برلن میں اچھا استقبال فراہم نہیں ہوسکا۔ جرمن وزیرخزانہ پیرسٹین برگ نے ایسے کسی ،، عظیم حفاظتی منصوبے،، کے قابل عمل اور نتیجہ خیزہونے سے صرےحاًانکارکردیاہے اور کہاہے کہ ایسا کوئی منصوبہ ہے ہی نہیں۔ اور موجودہ بحران کواس قسم کے معموں کے ذریعے حل کرنے کی ہر کوشش غلطیوں اور نقصانات کا باعث بنے گی۔ یورپی یونین کی اتھارٹی کے جولوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ بے تحاشا اخراجات کے حامل پروگراموں سے مسائل سے نمٹاجاسکتاہے ، وہ درحقیقت یہ کہہ رہے ہیں کہ،، چونکہ جرمنی اس کی ادائیگی کرسکتاہے اس لیے اسے ہی مجبورکیاجائے،،۔ سٹین برگ کا نکتہ نظر سچاہی ہے۔ وہ درست کہہ رہاہے کہ خواہ جیسی اورجو بھی پالیسیاں اختیارکرلی جائیں ، گراوٹ ناگزیزہوچکی ہے، چاہے کوئی حکومت اب کچھ بھی کر لے ۔ جارج بش اورٹونی بلئیردونوں نے بھی،، کوشش،، کی تھی کہ بلبلے کو پھولنے سے روکا جائے اور اس کی ہوا نکال لی جائے جس نے اس سارے بحران کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے کھربوں ڈالر توبینکوں کے منہ میں ڈالے کہ شایدیہ کسی طرح سے دوبارہ قرضے دینے کی صلاحیت سے مالامال ہو سکیں۔ مگر بینک صحت یاب ہی نہ ہو سکے۔ بینکار، جاری کیفیت میں ، کسی قسم کی قرض بازی کا خطرہ مول لینے کوتیار ہی نہیں ہیں۔ اس لیے شرح سودمیں کوئی بھی تبدیلی یاریاستوں کی طرف سے کوئی بھی رعایت(سبسڈی)کوئی فرق پیدانہیں کرسکے گی۔ ان حالات میں کی جانے والی کٹوتیاں معمولی اثرات کی حامل ثابت ہوں گی۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے وہاں تو نتیجہ عملی طورپر صفر ہی نکلا ہے۔ ایک کے بعد دوسرے امیرترین ملک کے اندر سرمایہ دارہر ممکن ذرائع اور وسائل کو بروئے کار لا کر بحران کو ٹالنے کی ایک بے سود جدوجہد میں مگن ہیں جو کہ کسی کے روکے رکنے والا نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ سرمایہ داری بری طرح جا ل میں پھنس چکی ہے ۔ جس سے نکلنے کے لیے وہ جو بھی حربہ استعمال کر رہے ہیں وہ غلط ہے ۔ اگر وہ مداخلت نہیں کرتے اور بینکوں، ڈوبتے ہوئے کاروباروںکو بچانے کے لیے رقم فراہم نہیں کرتے تو اس سے ایک گہری گراوٹ سامنے آجائے گی جس کے نتیجے میں انیس سو اناتیس اور تیس کی طرح غیرمعمولی بے روزگاری و بیکاری پیدا ہو جائے گی۔ مگر اگروہ کےنےشنزم کے، خسارے کے مالیاتی طریق کارکوبرقراررکھتے ہیں ، تواس سے قرضوں میں ناقابل تصور اضافہ ہوجائے گا جن کی وصولی یا واپسی محال ہو گی ۔ جس کے نتیجے میں پیداواری سرمایہ کاری پر بدترین اثرات مرتب ہوں گے اوریہ ایک ایسی طویل کیفیت کوجنم دے گا جس میں برخاستگیوں اور بدحالیوں کا راج قائم ہوجائے گا۔ پچھلے عرصے میں رائج ومسلط پالیسیوںکی نقاہت اب ناقابل یقین عدم ادائیگیو ںکی صورت میں انجام پذیز ہو رہی ہے ۔ اس کا آسان الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ بحران مزید گہرا مزید وسیع ہوتا چلاجائے گا۔ اس کے علاوہ اور کوئی صورت ہے نہ رستہ۔ سرمایہ داروں کو اب اپنی پچھلے بیس سالوں کی کامیابیوں کی قیمت اداکرنی ہوگی ۔ سبھی ملکوں کو اب کنگالی کا سامناہے۔ آئس لینڈ پہلے ہی دیوالیہ ہوچکاہے جبکہ سرمایہ داروں کی جنت قرار دیے جانے والے سوئٹزرلینڈ میں بینکوں کی دولت، اس کی مجموعی قومی پیداوارسے سات سو گنا زائدہو چکی ہے ۔ برطانیہ میں یہ شرح ترتالیس فیصد ہوچکی ہے، امرےکہ میں یہ سو فیصد ہے اور وہ بھی بینکوں کو اس قدر ضخیم بیل آﺅٹ ملنے کے بعداور باوجود۔ بحران کی شدت میں اضافہ یورپ اور امریکہ کے مابین تنازعات کو شدید کر دے گا، امریکہ کے ہی جاپان اورچین کے ساتھ، اسی طرح امریکہ اورروس کے مابین نئے تضادات وتنازعات پیداہوںگے۔ ماضی میں ایسے تضادات اور تنازعات نے عالمی جنگ کو جنم دیاتھا ، یہ دوسری عالمی جنگ تھی جس کے ذریعے انیس سو اناتیس اور تیس کے معاشی زوال پر قابو پایا گیا تھا، جب ہتھیاروںپربے تحاشا اخراجات اور جنگ کے دوران ذرائع پیداوار کی وسیع پیمانے پر تباہی وبربادی کردی گئی۔ مگر اب کی بارصورتحال بالکل مختلف ہے۔ روس کے زوال اور امریکہ کی عدیم النظیرعسکری قوت کی وجہ سے عالمی جنگ کاہوناخارج از امکان ہے۔ چھ سوارب ڈالرکے سالانہ دفاعی وعسکری اخراجات کے حامل امریکہ کا مقابلہ کرنے کی سکت دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہے۔ مگر چھوٹی چھوٹی جنگیں ضرورلڑی جائیں گی، جیسی عراق، افغانستان، صومالیہ اور کانگو جیسے دیگر ملکوں میں ہورہی ہیں۔ امریکہ اور روس کے درمیان تنازعہ ،جارجیا کی طرح کی جنگ کا باعث بن سکتاہے۔ سفارتی تناﺅاورتنازعات ، جاری بحران میں عدم استحکام کے کئی اور عناصر کوشامل کرکے اسے اور بھی مشتعل کردیں گے۔ کسی کے قابو نہ آنے اورآپے سے باہر ہوتا دہشت گردی کا وحشی دیو، اسی بحران کی ہی ایک درپردہ علامت ہے ۔ ایک دوسرے سے بظاہر بے نیاز نظرآنے والے یہ سب مظاہر، درحقیقت ایک انتہائی اہم وجہ کی نشاندہی کرتے ہیں اوریہ وجہ پیداواری ذرائع کی بے نظیر صلاحیت اور قومی ریاست و نجی ملکیت کی تنگ حدود کے مابین تضاد ہے۔ بڑی طاقتیں خاص طورپر امریکہ یہ بھرپورکوشش کرے گا کہ وہ اپنے ہرمدمقابل کو دھونس دھاندلی کے ذریعے دباتے ہوئے منڈیاں غصب اور خام مال ہڑپ کرلے۔ مگر سرمایہ داروں کے پاس انیس سو چودہ اور انیس سو انتالیس کی طرح سے اب جنگ کا رستہ اختیارکرنا ممکن نہیں رہاہے ۔ چنانچہ سبھی تضادات اپنااظہار داخلی سطح پر کریں گے اور انہی داخلی تضادات کی کوکھ سے ہی ایک شدید طبقاتی جنگ بھی جنم لے گی۔ سبھی سرمایہ داروں کی نظریں اس وقت چین پر جمی ہوئی ہیں مگر اب چین بھی سرتاپاعالمی تجارت کے تانے بانے میں الجھاہوا ہے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ نظام کا بحران اسے چھوڑتے ہوئے گزرجائے گا۔ چےن کے ساتھ بھی بحران وہی کرے گا جو وہ باقی ساری دنیاکے ساتھ کرے گا ۔ بے روزگاری کی موجودہ شرح کو برقراررکھنے کے لیے لازمی ہے کہ ترقی کی شرح کو کم از کم آٹھ فی پر برقراررکھاجائے۔ اگر یہ شرح گرتی ہے تو اس کے نتیجے میں ایک سنجیدہ سیاسی تصادم جنم لے سکتا ہے۔ دو ہزار نو کے لیے چین کی شرح پیداوارکا تخمینہ صرف پانچ فیصد ہے ۔ آئی ایم ایف کے مینیجنگ ڈائریکٹر کاہن کے مطابق،، ہم نے چین کے ساتھ گیارہ فیصد کے ساتھ سفر شروع کیا، جو بعد میںآٹھ فیصد پر، پھر سات فیصد پرآگیا اور اب اس کی کیفیت پانچ فیصدیاچھ فیصد پررہنے کا امکان ہے،،۔ یہ شرح امریکہ اور یورپ کے مقابلے میں اب بھی بہت زیادہ ہے تاہم یہ پچھلے کچھ عرصے تک قائم چلی آنے والی دس فیصدشرح سے کہیں کم ہے جس سے چین مستفیدہوتا آیاہے۔ اور پھر اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ موجودہ شرح بھی برقرار رکھ سکے گا یا نہیں۔ چین کی اپنی اندرونی ایک بہت بڑی منڈی ہے جو تین ملین افراد پر مشتمل ہے۔ مگر یہ اس ضخیم وعظیم پیداوار کو کھپانے کے لیے انتہائی کم ہے جو پچھلے بیس سے تیس سالوں سے چین پیداکرتاچلاآرہاہے۔ امریکی منڈی میں مسلسل گرتی ہوئی مانگ سے چین کی برآمدات انتہائی متاثرہورہی ہیں۔ چین کی صنعتی پیداوار میں سکڑاﺅنومبر میں اس وقت شدیدہوگیا جب اس نومبر میں اس کی فولاد کی پیداوار، پچھلے سال کے مقابلے میں بارہ فیصدگر گئی۔ جبکہ سٹیل مل کی ترسیل میں گیارہ فیصدکمی واقع ہوئی۔ بجلی کی پیداوار میں نو اعشاریہ چھ فیصدکمی ہوئی۔ اسی طرح سے پےٹروکیمیکل کی پیداوار میں بھی کافی گراوٹ آئی۔ سال بہ سال برآمدات کے حوالے سے نومبر میں برآمدات میں دو اعشاریہ دو فیصدکی کمی ہوئی جبکہ ،، ماہرےں ،،کا خیال تھا کہ اس مذکورہ عرصے میں یہ پندرہ فیصدبڑھے گی۔ بات کو زیادہ بہترطورپرسمجھنے کے لیے ہم اپنے قارئیں کویہ بتانابہتر سمجھتے ہیں کہ دو ہزار ءاور دو ہزار چھ کے دوران چین کی برآمدات کی سالانہ شرح چھبیس فیصدتک پہنچ گئی تھی ۔جبکہ اسی نومبر میں ہی اس کی درآمدات میں آٹھارہ فیصدکی کمی ہوئی اور یہ دو ہزار ایک کے بعدپہلی بارہواکہ چین کی درآمدات میں کمی واقع ہوئی ہے۔چین کے اندر زائد پیداواراور زائدسرمایہ کاری کے امکانات واضح ہوتے جارہے ہیں۔ جس کی اندرونی منڈی اگرچہ بہت بڑی ہے تاہم یہ اپنے ہی ملک کی اتنی بڑی پیداوار کو کھپانے کے لیے بہت ہی کم ہے اور یہ اس کو جذب کرنے کے لیے بہت چھوٹی اور ناکافی پڑ رہی ہے۔ پہلا انتباہ اس کی سٹاک مارکیٹ کی گراوٹ کی صورت میں سامنے آیاجوساٹھ فیصدتک گری ہے۔ مگر بحران محض سٹاک مارکیٹ تک ہی محدودنہیں۔ گھروں کی قیمتیں گر چکی ہیں جبکہ تعمیرات اور صنعت مجموعی قومی پیداوار کے مقابلے میں سست روی کا شکار ہو چکی ہیں۔ کاروں کی سالانہ فروخت میںدس فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ جبکہ بجلی(توانائی)کی پیداوار ،جو کہ معاشی ترقی کا ایک قابل اعتماد معیار سمجھی جاتی ہے، میں سات فیصدکمی ہوئی ہے۔ ان اعداد وشمار نے چین پر نگاہ رکھنے والے مغربی ماہرین معیشت کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔ چین کے بارے میں جو پہلے شدید قسم کی خوش فہمی ان میں پائی جاتی تھی وہ اب وسوسے مےں بدل چکی ہے۔ تیرہ دسمبر دو ہزار آٹھ کے ،، اکانومسٹ،، نے لکھا ہے کہ،، کیا کیا یقین اورکیسی کیسی امیدپیدا ہو چکی تھی کہ ابھرتی ہوئی معیشتیں(چین اور بھارت)آنے والے دنوں میں انجن کا کام دیتے ہوئے عالمی معیشت کو کھےنچ کر آگے لے جائیں گی مگرافسوس کہ سب الٹ ہو چکا ہے ۔ عالمی کساد بازاری اپنے ساتھ ان دونوں کو نیچے کی طرف لڑھکاتی جارہی ہے ۔ جس کے نتیجے میں ان دوملکوں کے اندر وسیع پیما نے پر بے روزگاری پھیلتی چلی جارہی ہے، تمام تر کامیابیوں کے باوجود ، دنیابھر مےں کم غذائیت کا شکار دو سے پانچ بچوں کاتعلق بھی انہی دوملکوں سے ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چین کے پاس بے شماروسائل موجود ہیںجنہیں وہ عوامی ترقی کی سکیمو ں پرخرچ کرتے ہوئے اپنے انفرسٹرکچرکوترقی دے سکتاہے۔ نومبرمیں حکومت نے چار کھرب یوآن(تقریباچھ ارب امریکی ڈالر)کے مالیاتی امدادی پیکیج کا اعلان کیاہے۔ مگر کچھ اندازوں کے مطابق اس سے چین کی جی ڈی پی میں صرف ایک فےصد اضافہ ہی ممکن ہو سکے گا۔ جن نتائج کی چین کوضرورت ہے ،یہ اس کے لیے ناکافی ہوگا۔ پیکنگ کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اپنی برآمدات کو زیادہ تیزی اور وسعت دینے کی کوشش کرے۔ اس کوشش میں اس کا امریکہ اوریورپ کے ساتھ براہ راست تنازعہ جنم لے رہاہے ۔ جو چین پر پہلے سے دباﺅڈال رہے ہیں کہ وہ اپنی معیشت کو کم کرے اور درآمدات میں اضافہ کرے ۔ پالسن نے اپنے چین کے دورے میں زوردیا کہ وہ یوآن کی قیمت پر نظرثانی کرے مگر چین کا اصرار ہے کہ وہ اپنی کرنسی کو مزید کم کرے گا۔ اس سے چین اورامریکہ کے مابین تنازعات مزید گہرے ہو جائیں گے۔ قیادت بدسے بدترہوتی معاشی صورتحال سے انتہائی گھبرائی ہوئی ہے اور اس کو اندیشے لاحق ہوچکے ہیں کہ اس سے کوئی بڑا سیاسی و سماجی انتشار نہ پیداہوجائے اور لوگ بھڑک کر پھٹ کر سڑکوں پر ہی نہ نکل آئیں۔©©،،اکانومسٹ،،کی مذکورہ بالا اشاعت میں ہی کہاگیاہے کہ ،، ہر ہفتے یہ رپورٹیں مل رہی ہیں کہ فیکٹر یاں بندہوتی چلی جارہی ہیں خاص طورپر جنوبی چین کے دریائے پرل کے قریب کے علاقے میں قائم صنعتی زون میں یہ کیفیت زور سے جاری ہے ۔ اجرتوں سے محروم محنت کش وہاں سرکش احتجاج کر رہے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ احتجاج اور مظاہرے چین میں روزمرہ کا معمول بنتے جارہے ہیں۔ بندہوجانے والی فیکٹر یوں کے مزدور ،بے دخل ہوجانے والے کسانوں کے ساتھ مل کر شدید احتجاج پر اترے ہوئے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی کے خلاف مہم چلانے والے اور پولیس کے جبروتشدد کا شکار لوگ بھی ان مظاہروں کا حصہ بنتے جارہے ہیں،،۔ چین کی سست روی جاپان کو شدیدمتاثرکر رہی ہے کیونکہ جاپان کے لیے چینی منڈی انتہائی اہم ہو چکی ہے ۔ ستمبر سے پہلے کے تین ماہ کے دوران جاپان کی معیشت کو ایک اعشاریہ آٹھ فیصدخسارے کا سامناکرناپڑاہے۔ چین سے ہٹ کر ، دوسری ابھرنے والی معیشتیں بھی عالمی معیشت کو سنبھالا دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ آنے والے دنوں میں سب کو دھڑام کا سامنا کرناپڑے گا۔ اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سماجی وسیاسی خلفشار کس نہج اور نوعیت کا ہوگااور یہ کتنادھماکہ خیز ثابت ہوگا۔ تھائی لینڈ میں جاری انتشار اسی کی ہی نشاندہی کرتاہے۔ پانچ سالوں تک آٹھ اعشاریہ آٹھ فیصدکی شرح ترقی پر قائم رہنے کے بعد اب ، پچھلے سال کے مقابلے میں، بھارت کی برآمدات میں بارہ فیصدگراوٹ آئی ہے۔ ٹیکسٹا ئل کے سینکڑ وں چھوٹے یونٹ کام اورکاروبار سے کٹ چکے ہیں۔ کارسازی کی صنعت نے اپنی پیداوار روک دی ہے ۔ بھارت کی مقبول ترین کار ایمبیسیڈرکی فروخت گر چکی ہے ۔ دوسری طرف پاکستان معاشی اعتبار سے دیوالیہ پن کی حالت کو پہنچ چکا ہے۔ اس کے مرکزی بینک نے اپنے اہداف پر نظرثانی کرتے ہوئے شرح ترقی کا ہدف سات اعشاریہ پانچ فیصدمقرر کیاہے جو کہ انتہائی مبالغہ آمیز ہے۔ حقیقی شرح ترقی پانچ اعشاریہ پانچ فیصدتک رہے گی جو کہ دو ہزار دو کے بعدکی کم ترین شرح ہوگی۔ اپنے جی ڈی پی کے مقابلے میں ، بجٹ کے آٹھ فیصد خسارے کی کیفیت میں بھارت ، چین کی طرح سے کوئی مقام ہتھیانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اگر چین کو جہاں ہر سال ستر لاکھ افراد روزگارکی منڈی میں شریک ہونے والوں کو کھپانے کےلیے آٹھ فیصدشرح ترقی درکار ہے تو بھارت بھلا کیسے اپنے ایک سو چالیس لاکھ افراد کو کھپاسکے گا جوروزی کے لیے منڈی کا رخ کررہے ہیں۔ اس کی ترقی کے بڑے شعبوں میں انفارمیشن ٹیکنا لوجی شامل ہے جہاں ویسے بھی بڑی تعداد میں ملازمین کو نہیں کھپایاجاتا۔ بھارت میں نوجوان نسل کی بھاری تعداد میں بے روزگاری دھماکہ خیز واقعات کو جنم دے گی اور ،،اکانومسٹ ،، کے بقول” چےن کی طرح یہا ں بھی بڑے پےمانے پر بے چےنی اور سماجی سرکشی ابھرے گی،،۔ عالمی سطح پر مانگ میں گراوٹ کا بہت بڑا اظہار اشیائ(اجناس)کی قیمتوں میں مسلسل گراوٹ کے ذریعے ہو رہا ہے۔ چند ماہ کے اندر ہی تیل کی قیمت ایک سو سنتالیس ڈالر فی بیرل سے گر کر چالیس ڈالرتک دھڑام ہوچکی ہے ۔ یہ رحجان سارے مشرق وسطیٰ، ایران، انڈونیشیا، نائیجیر یا، میکسیکو ، روس اور وینز ویلا پر شدیداثرات مرتب کرے گا۔ روس کے پاس دنیا کی تیسر ی بڑی قدرزائد تھی مگر اگست کے بعد سے اب تک اس میں ایک سو چوالیس ارب ڈالر کی گراوٹ آچکی ہے۔ روبل(روسی کرنسی)کی ہوائیاں اڑرہی ہیں۔ جو روسی سرمایہ داروں کے مستقبل سے خوف کی نشاندہی کرتاہے۔ روس کا حکمران طبقہ خارجی تنازعات کوہوا دے کر(جارجیا پر جارحیت)روسی سماج میں پنپتی بے چینی کو گمراہ کرناچاہ رہاہے لیکن پھر بڑھتاہوا داخلی بحران جلدےا بدیر داخلی تنازعات اور کشمکش کے ساتھ ساتھ سماجی سرکشی احتجاج اور مظاہروںکی صورت میں بھی سامنے آجائے گا۔ یوکرائن کی معیشت سخت مصیبت کا شکار ہے اور ملک کو سو لہ ارب ڈالرقرضے کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کرناپڑگیا ہے۔ معاشی بحران سیاسی ابتری کو فروغ دے رہاہے ، جو انتہائی بھیانک شکل اختیارکرتی جا رہی ہے۔ یوکرائن سمیت ہر سابق روسی ریاست کے حکمرانوں کا لاغر پن اس بات کا اعلان ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے ہوتے ہوئے سماج کا کوئی ایک مسئلہ بھی حل نہیں کیاجاسکا۔ یوکرائن کی امریکہ نوازحکومت الیکشن سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے مگر سچ یہ ہے کہ اس کی گردن ایک رسی کے شکنجے میں آئی ہوئی ہے ۔ سابقہ روس کی باقی ریاستوں کی کیفیت تو اس سے بھی بدترہوچکی ہے۔ تیل کی قیمتوں میں تیزتر گراوٹ ایران کے اندر بڑی حد تک نیم انقلابی ابھارکی کیفیت کو جنم دے گی، جہاں احمدی نژاد کی حکومت پہلے ہی کسی کچے دھاگے سے لٹکی ہوئی ہے۔ وہاں پہلے ہی نوجوانوں کے اندر شدید غم وغصہ اور اضطراب موجود ہے۔ جبکہ درمیانے اور محنت کش طبقے کے اندر بھی بے چینی واضطراب بڑھتا چلا جارہاہے۔ ایران میں ہڑتالوں، مظاہروں کی لہر چل رہی ہے۔ امریکہ کی عراق سے نکلنے کی ضرورت اسے ایران اور شام کے ساتھ گفت وشنید پر لائے گی۔ جبکہ احمدی نژاد اس سے خاصاگھبرا رہاہے کیونکہ اس نے اپنی سیاسی بنیادہی امریکہ دشمنی اور جارحانہ نعرے بازی پر کھڑی کی ہوئی ہے۔ ایک خارجی دشمن سے گھبرایاہواایران اپنے داخلی تضادات کی وجہ سے انقلابی کیفیت میں داخل ہو سکتا ہے۔ افریقہ کے غربت کے مارے ملکوں میں دوربربریت کے عناصر نے ابھرناشروع کردیاہے اور بعض جگہوں پر تو سماج پیچھے کی طرف دھکیلا جا رہاہے اور وہاں وحشت کا عہد جنم لے چکاہے۔ کانگو میں پچا س لاکھ انسان وحشیانہ خانہ جنگی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ زمبابوے میں لاکھوں انسان قحط اور ہیضے کی زد میں آچکے ہیں۔ سیرالیون میں ستر فیصدسے زیادہ آبادی یومیہ ستر سےنٹ سے بھی کم آمدنی پر گزارہ کرنے پر مجبورہوچکی ہے جبکہ اس کی دوتہائی سے زیادہ عورتیں ناخواندہ ہیں۔ بھوک اور افلاس کی بھیانک گرفت میں آئے اس خطے کو ملیرےا اور ایڈز جیسی موذی بیما ریوں نے ،، مرے کو مارے شاہ مدار ،، والی کیفیت سے دوچارکیاہواہے ۔ہر جگہ پیداواری ذرائع کو منجمد اور معطل کرکے رکھ دیاگیاہے جس کی وجہ سے غربت اور بے روزگاری میں اذیت ناک اضافہ ہوتاچلاجارہاہے۔ اس وقت کسی کے لیے بھی یہ سمجھنا اور دیکھنا کوئی بڑا مشکل کام نہیں رہا کہ دنیا کو کس طرح کس قدر ایک بھیانک ڈراﺅنا خواب یا کسی وحشت نگر میں تبدیل کردیاگیا ہے۔ یہ سب علامتیں ہیں جسے کوئی بھی اس متروک اور ناکام و سفاک ہوتے نظام سے آسانی سے جوڑسکتاہے جو کہ اپنی تاریخی افادیت سے محروم ہوچکاہے اور یہ قدیم سلطنت روما کی طرح سے خاتمے کی طرف گامزن ہے۔ مگر تصویر کا یہی ایک رخ نہیں ہے۔ تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ سماج میں ایک بے چینی ایک جستجوبھی تڑپ رہی ہے جو بغاوت کا نقطہءآغاز بنے گی۔ بغاوت کا فطری آغازنوجوانوں سے ہی ہوا کرتا ہے۔ کیونکہ ایک طرف تووہ بحران کا سب سے زیادہ شکارہوتے ہیںدوسرے یہ نوجوان سماج کے اندر پنپتی بے چینی کے اظہار کا سب سے بہتر بیرومیٹر ثابت ہوتے ہیں۔ یہ نوجوان محنت کشوں کی بہت بڑی تحریکوں کو مہمیز دے سکتے ہیں جیسا کہ انیس سو ایک سے تین میں روس اورانیس سو آٹھاسٹھ میں فرانس میں ہواتھا۔ اٹلی اور جرمنی میں نوجوانوں کی بہت بڑی تحریکیں ابھر چکی ہیں۔ اس خزاں میں ہی سپین کے اندر طلبہ کی ایک بڑی تحریک مارکسی رحجان کی قیادت کے تحت ابھری ۔ ہنگری میں بھی نوجوانوںکی بڑی تحریکیں سامنے آئی ہیں جبکہ اس سے پہلے فرانس میں بھی یہی ہواجبکہ یونان میں چلنے والی نوجوانوں کی تحریک انتہائی نیم سرکش وجاندار انداز میں رواں دواں ہوئی جسے محنت کش طبقے کی عام ہڑتال کی امداد بھی میسر آئی۔ یہ دنیا بھر کے سرمایہ داروں کے لیے ایک واضح انتباہ اور اشارہ ہے کہ کیا کیا کچھ سامنے آسکتاہے ؟اور یہ اس غلط برخود دلیل کو بھی رد کرتا ہے کہ معاشی انحطاط کی کیفیت میں محنت کش طبقہ مفلوج ہوکے رہ جاتاہے اور وہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔ سرمایہ دارتشددکا رستہ اختیارکرنے کی کوشش کریں گے، اٹلی میں کوسیگا حکومت کی طرف سے یہی سامنے بھی آیاجوکہ ایک بوناپارٹسٹ کردارکی حامل ہے۔ لیکن یونان کے اندر ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس قسم کی پالیسی کی کیا حدودوقیودہوسکتی ہیں اور یہ کس قدر موثرثابت ہوسکتی ہے؟ایک نوجوان طالب علم کے قتل نے سارے ملک میں لوگوں کو سڑکوں پر نکال دیا۔ دائیں بازوکی حکومت نے ایمر جنسی نافذکرنے کی کوشش کی مگر حکومت کو طاقت استعمال کرنے کی جرات نہیں ہو سکی اور اسے پسپائی اختیارکرناپڑی۔ ریاست مفلوج ہوکر رہ گئی۔یونان کے واقعات واضح طورپر ثابت کرتے ہیں کہ حکمران طبقات کتنے کھوکھلے ہوچکے ہیں اور یہ کہ اس دور میں بھی محنت کش طبقے کے پاس بے پناہ طاقت ہے۔ اگر یونان کی مزدورقیادت کے پاس کوئی واضح انقلابی پروگرام ہوتا تو اقتدارپرقبضہ کیاجاسکتاتھامگر درست قیادت کی غیرموجودگی ایسی جاندار تحریکوں کو فسادات تک ہی محدود رکھنے کا باعث بن جایاکرتی ہے جسے حکومت لامحالہ طورپر کسی نہ کسی شکل میں اپنے کنٹرول میں کرلیاکرتی ہے۔ اس کے باوجود بھی یہ تحریک اپنے مزاج اور سرکشی کے اعتبار سے حکمران طبقات کے لیے سماجی بے چینی کا جراتمندانہ اظہاربن کر سامنے آئی۔ این ڈی پارٹی کی حکومت ختم ہو چکی ہے۔ یونان میں طبقاتی جدوجہد کا ایک اور نیا مرحلہ شروع ہونے جارہاہے اور اس کے بعد ایسا ہی عمل ایک سلسلہ کی صورت میں ایک کے بعد دوسرے ملک کے اند ر سامنے آتا چلا جائے گا۔ لاطینی امریکہ کے اندر انقلابی واقعات پہلے ہی ابتدا کر چکے ہیں ۔ یہ سب اتفاقات یا حادثات کا نتیجہ نہیں بلکہ ہم نے ایک دہائی پہلے ہی ان کے ہونے کی نشاندہی کر دی تھی۔ یہی نہیں بلکہ ہم نے اپنے عالمی مارکسی رحجان کو لاطینی امریکہ کے ساتھ جوڑنے کا فیصلہ بھی کرلیاتھا۔ اس براعظم کے اندر سرمایہ دارانہ نظام کی سبھی کمزورکڑیاں ٹوٹ چکی ہیں۔وینز ویلا کا انقلاب ایک فیصلہ کن مرحلے کو پہنچ چکاہے، جلد ہی یاتو یہ مکمل ہوگا یاپھر ڈوب جائے گا۔ سرمایہ دارانہ بحران سارے لاطینی امریکہ کو متاثر کرتا جا رہا ہے، اگرچہ اس کے اظہار کی کیفیت غیرمتوازن ہے مگر یہ دیگر ملکوں سے کہیں زیادہ اپنے اثرات مرتب کررہاہے۔ خطے کے سب سے بڑے مضبوط ملک برازیل کی ترقی کی شرح کا تخمینہ چار فیصدلگایاگیا ہے جو کچھ زیادہ ہی خوش گمانی پر مبنی ہے۔ جبکہ امریکہ کے ساتھ جڑے ملک میکسیکو کی شرح ترقی کااندازہ محض صفر اعشاریہ چار فیصدلگایا گیاہے۔ تاہم ان سب اندازوں اور تخمینوں میں وقتاًفوقتاًواقعات وحالات کی مناسبت سے ردوبدل ہوتارہے گا۔ اکتوبر میں آئی ایم ایف نے لاطینی امریکہ میں دو ہزار نو کے لیے تین اعشاریہ پانچ فیصد شرح ترقی کاحساب لگایا جبکہ اس کے صرف دوماہ بعدہی عالمی بینک نے اس خطے کی شرح ترقی کا اندازہ دو اعشاری ایک فیصدلگایا ہے۔ جبکہ سٹےنلے مورگن نے خطے کی سات بڑی معیشتوںمیںصفر اعشاریہ سات فیصدگراوٹ کی پیش گوئی کی ہے۔ پچھلے دوماہ کے دوران خطے میں سٹاک مارکیٹ اور کرنسی کی منڈی کا شدید بحران سامنے آیاہے جبکہ کریڈٹ میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ چینی معیشت کی سست روی نے وینز ویلا کے تیل، پیرو کی معدنیات، ارجنٹائن کے سویا اور برازیل کے لوہے اور سنگترے کے جوس کی طلب میں شدیدکمی پیداکی ہے۔ امریکہ کا جاری بحران لاطینی امریکہ کو مزید براہ راست متاثر کر رہاہے۔ میکسیکو ،ہنڈراس،ایل سلواڈور،کولمبیا اور ایکوا ڈورکے کئی شہر قصبے اور دیہات اس کی زد میں آتے چلے جارہے ہیں کیونکہ ان کی آبادی کی اکثریت امریکہ اور یورپ میں رہنے والے افراد کی طرف سے بھیجی جانے والی رقوم سے اپنا گزارہ کرتی ہے ۔ امریکہ اوریورپ میں بحران سب سے پہلے غیر ملکی محنت کشوں کو اپنی لپیٹ میں لے گااور ان کو برطر ف کر دیاجائے گا اور یوں ےہ لوگ اپنے اپنے ملکوں کو واپس جانے پر مجبورکردیے جائیں گے۔ یہ لاطینی ممالک پہلے ہی غیر ملکی کرنسی کے سخت دباﺅ میں ہیں اور پھر یہاں پہلے سے موجود بے روزگاری کی کیفیت میں واپس آنے والے محنت کشوں کا دباﺅ صورتحال کو مزید ابتر کر دے گا۔ اصلاح پسند یہ دلیل دیتے چلے آئے ہیں کہ،، وینز ویلا کا ماڈل،، ۔،، نیولبرل ماڈل،، کے پیداکردہ مسائل سے نجات دلانے کا باعث بنے گا مگر یہ محض ایک اصلاح پسندانہ خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں۔ چونکہ انقلاب کو اس کے منطقی لازمی انجام تک نہیں لے جایا جاسکا ، اس لیے وینزویلا ابھی تک سرمایہ دارانہ منڈی کے لیے ،، امیدبھری سازشوں،، کا مرکز بناہوا ہے۔ تیل کی قیمتو ںمیں گراوٹ کا مطلب یہ ہے کہ پچھلے عرصے میں کی جانے والی اصلاحات شدید متاثرہوں گی اور یہ خطرات میں گھر سکتی ہیں۔ سٹےنلے مورگن نے وینزویلا اور ارجنٹائن دونوں ملکوں میں بالترتیب ایک فیصداور دو فیصدتک معاشی انحطاط کی پیش گوئی کی ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اصلاحات اور جوش وجذبہ ماند پڑ سکتا ہے۔ سرمایہ دارانہ بحران کی موجودگی اور سرمایہ داری کی طرف سے معیشت کو سبوتاژاور تنہا کرنے کی پیہم کوششوں کی وجہ سے بولیویرین حکومت مشکلات میں گھری ہوئی ہے اور عدم استحکام کی زدمیں ہے ۔ جبکہ عوام میں تشویش بڑھتی چلی جارہی ہے۔ تمام تر اپیلو ں اور پیشکشوں کے باوجود وہاں غیر ملکی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ سرمایہ وینزویلا سے باہر منتقل کےاجارہاہے ۔ صرف ریاستی شعبہ ہی معیشت کو چلا رہاہے۔ جلدیابدیر وینزویلاکے انقلاب کو فیصلہ کرناپڑے گا کہ یا تو وہ سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کے مرحلے کو مکمل کرے یاسماج کو واپس پیچھے کی طرف دھکیل دے۔ اور واپسی کا یہ عمل ایک کے بعد ایک بڑی بھیانک شکست کا حامل ہوگا۔ رد انقلابی قوتوں کے خلاف فیصلہ کن سخت اقدامات کا مطالبہ اور ضرورت بڑھتی چلی جارہی ہے جبکہ ذرائع پیداوارکی ملکیت کو عوامی قراردینے اور انہیں مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دینے کے ساتھ سبھی معاملات کو درست کرنا وقت کااہم ترین تقاضا بن چکا ہے۔ امریکی سامراج ماضی میں فوجی بغاوت کے ذریعے کنٹرول کی کوشش کر چکاہے مگر اب ایسا کرنا مشکل ہوگا۔ امریکہ پہلے ہی عراق اور افغانستان کے اندر ناک تک دھنسا اور پھنساہواہے اور وہ لاطینی امریکہ میں کوئی اور مہم جوئی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اور اگر اس نے بیوقوفی کی بھی تو خود امریکہ کے اپنے اندر انقلابی ابھار سامنے آجائے گا۔ وینزویلا کے انقلاب کے سامنے،، ابھی نہیں توپھرکبھی نہیں،، والی کیفیت آچکی ہے۔ نومبرمیں ہونے والے الیکشن کے بعد سے سرمایہ دار پھر سے اپنے حوصلے مرتب او رمنظم کر چکے ہیں جن کی مدد سے انہیں ایسے مقام میسر آچکے ہیں جہاں بیٹھ کر وہ انقلاب کے خلاف حملہ کر سکتے ہیں۔ معاشی ابتری انہیں تقویت اور مواقع فراہم کرتی جائے گی۔ شاویزنے کئی مزید کارخانوں کو قومی ملکیت میں لینے کے ساتھ ایک اور مدت کے لیے صدرکا الیکشن لڑنے کا اعلان کیاہے۔ شاویز اس کی منظوری کے لیے ریفر نڈم کرانے کی بجائے، اسمبلی میں اپنی بھاری اکثریت سے بھی فیصلہ لے سکتاہے۔ اس کے نتیجے میں لوگ سڑکوں پر نکل آئیں گے اور طاقت کا سوال ابھر کر سامنے آجائے گا۔ صف بندی ہوگی جو انقلاب کے مقدرکا فیصلہ کر دے گی۔ آنے والے دور میں ایک شدید عدم استحکام اور اضطراب ہر طرف سرابھارے گا جس کا اظہار انقلاب اور ردانقلاب کے مقابلے کی شکل میں ہوگا۔ یہ لڑائی لمبے عرصے تک جاری رہ سکتی ہے اور اس میں کئی مرحلے‘ کئی کیفتیں سامنے آئیں گی۔ پچھلے سالوں میں کوئی بھی انقلابی یا نیم انقلابی کیفیت اتنازیادہ لمبانہیں چلتی تھی اور یہ کسی فاتح انقلاب یا پھر ایک فاشزم ۔ بوناپارٹ ازم کی ردانقلابی شکل میں سامنے آتی رہی۔ مگر موجودہ حالات کی روشنی میں ایسا نہیں ہوگا۔ ماضی میں یورپ اور دیگر ملکوں کے اندر سرمایہ داری کو آبادی کے بڑے حصوں، خاص طورپر دیہات کی چھوٹے کسانوںکی مالک پرتوں کی تائیدوحمایت میسر آتی رہی تھی۔ مالکان کی درمیانی پرتیں سرمایہ دارانہ ترقی کے نتیجے میں گم یاختم ہوچکی ہیں۔ جبکہ اس دوران بیشتر ملکوںمیں محنت کش طبقے کی آبادی میں بہت اضافہ ہواہے۔ ماضی میں امیرگھرانوں سے طلبہ سیاست میں آتے اور فاشزم کی طرف راغب ہوجاتے تھے۔ اب معاملات کچھ اور نوعیت اختیارکرچکے ہیں اور طلبہ کی اکثریت بائیں بازو کے رحجانات کی طرف مائل ہورہی ہے۔ حکمران طبقہ رجعت اور سخت گیری اختیار کرنے کے لیے انتہائی کمزورپڑچکاہے مگر اسی دوران محنت کش طبقہ بھی اپنی قیادت کے ہاتھوں پست قدمی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ طبقات کے مابین طاقت کا توازن غیر موزوں حالت میں ہے جو زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ انقلاب کبھی بھی سیدھی لائن پر نہیں چلا کرتا۔ نا گزیر طورپراس میں بھی اونچ نیج ، پیش قدمی اور پست قدمی ہوگی۔ ماضی میں روس اور سپین کے انقلابات میں بھی یہی ہوا تھا۔ فروری سے اکتوبر انیس سو سترہ تک انقلاب میں بھی کئی اہم مواقع سامنے آئے تھے مگر ساتھ ہی بیز اری اور بے بسی کے بھی ،، جولائی،اگست کے دورا،، مراحل شریک سفر رہے۔ ایسا ہی سپین میں انیس سو اکتیس اور انیس سو سنتیس کے درمیان کے عرصے میں ہوا تھا جس کے دوران ہم دو تاریک ترین سال انیس سو چوتیس سے پینتیس بھی دیکھتے ہیں۔ لیکن ایک ایسی کیفیت میں جب تاریخ کے واقعات کا دھارا بائیں بازو کی طرف رواں دواں ہو، وہاں اس قسم کے عرصے عارضی نوعیت کے حامل ہوتے ہیں اور یہ تحریک کونئی طاقت سے ہمکنارکرتے ہیں۔ جس نئے دور یا وقت میں ہم داخل ہونے والے ہیں وہ بڑی حد تک بڑی جنگوں کے درمیانی دورانیے یا پھر ستر کی دہائی کے مماثل ہوگا ۔ ایک جیسے حالات ایک جیسے نتائج پیداکریں گے۔ عوام جس تیزی اورتوجہ سے ہمارے نظریات کی طرف راغب ہوں گے ایسا ماضی میں پہلے کبھی نہیں ہواہوگا۔ وہ انقلابی نظریات کی طرف کھنچے چلے آئیں گے۔ پچھلے سارے عرصے میں بڑی بڑی عوامی تنظیمیں اور پارٹیاں جس طرح زوال پذیزی اور دیوالیہ پن کا شکارہوئی ہیں ، اس کی پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔ سوشل ڈیمو کریٹس اور سابقہ ،، کیمو نسٹ،، سوشلزم کا نام تک لینا بھی گناہ سمجھنے لگے ہیں۔ یہ تاریخ کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ ایسے کڑے اور اہم وقت میں وہ سماج کی انقلابی تبدیلی کے نعرے کوترک کرچکے ہیں۔ مگراب تاریخ ان سے انتقام لے رہی ہے۔ اٹلی میںRifondazione Comunista اور فرانس کی کیمو نسٹ پارٹی کے اندر مارکس وادیوں کی شاندار پیش قدمی اور قبولیت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ ایک ٹھوس تبدیلی عمل پذیزہورہی ہے۔ ماضی میں اس قسم کی کوئی نہ گنجائش تھی نہ مثال۔ یہی حال دیگر ملکوں کی تنظیموں کے اندر بھی ہے جہاں بیتا بی و بے چینی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور پارٹی قیادت کی بے عملی وبے راہروی عملی طورپرکارکنوں پر عیاں ہوتی چلی جارہی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ عمومی طورپر شعور حالات کے پیچھے ہی چلتاہوتاہے۔ مگر پھر حالات ہی کی بدولت یہ حالات کے ساتھ تال میل قائم کرلیاکرتاہے۔ یہی دراصل انقلاب کا حقیقی مفہوم ہواکرتاہے۔ ہم ایک انتہائی نازک اور فیصلہ کن مرحلے پر پہنچنے والے ہیں ۔ سماج کے اندر سرمایہ داری کے خلاف ایک عمومی نفرت پیداہوچکی ہے۔ لوگ کبھی اتنی بڑی تعداد اور اتنی بیتا بی سے سرمایہ دارانہ نظام کے بارے میں نہ سوچتے تھے نہ پوچھتے تھے۔حکمران طبقات کے لیے ایک انتہائی خطرناک صورتحال پیداہوچکی ہے اور یہ تو ابھی محض ابتداہے۔ شکاگو(امریکہ)میں دروازے اورکھڑکیاں تیارکرنے والی ریپلک فےکٹری پر مزدوروں کا قبضہ واضح نشاندہی کرتا ہے کہ خود امریکہ کے اپنے اندر معاملات کی کیا کیفیت چل رہی ہے۔ اس فیکٹر ی میں زیادہ تر غریب لاطینی مزدور انتہائی کم اجرتوں پرکام کرتے تھے۔ بینکو ں کی طرف سے قرضہ فراہم نہ کرنے پر فیکٹر ی کو بندکرنے کا اعلان کردیاگیاکیونکہ مالکان اپنی جیب سے مزدوروں کو اجرتیں نہیں دے رہے تھے ۔ جس سے مشتعل ہوکرفیکٹر ی پر مزدوروں نے قبضہ کرلیا۔ قبضہ کرنے والے مزدوروں نے کہا،، ہمارے پاس اپنے کرائے وغیرہ کے لیے بھی رقم نہیں ہماری نوکریوں کی طرح ہمارے گھر بھی داﺅ پر لگے ہوئے ہیں، ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ ہم قبضہ کر لیں،،۔ لیکن پھر ملکیت کا سوال آن کھڑاہوا۔ مزدوروں میں یہی خیال تقویت پکڑتاگیا کہ یہ سب اثاثے ہمارے ہی تو ہیں۔ یہ ہوتاہے کہ جب اےک جدوجہد شعورکو تےزی کے ساتھ بدل کر رکھ دےاکرتی ہے۔ بلجیممیں بیکر ی کی عالمی فرمFortisمنہدم ہوگئی ، فرانس اور ڈنمارک کے سرمایہ دار اسے لو ٹ کر کھاگئے ۔ اس کمپنی کو ایک ،،عوامی،، کمپنی سمجھاجاتاتھا کیونکہ سات لاکھ سے زائد عام لوگوں نے اس کے حصص خریدے ہوئے تھے، مگر حصص گرگئے اور ان کی قدر میں نوئے فیصدکمی واقع ہوگئی۔ اس کے نتیجے میں عوامی غم وغصے کی ایک لہر چل پڑی جس کا زیادہ تر ہدف بینک بن گئے۔ ایسے ہی بے شمارلاتعدادواقعات ہمیں ہر طرف ہر جگہ نظر آنے شروع ہوگئے ہیں جہاں عوام بینکوں اور سرمایہ داروں کے خلاف بھڑکتے ہوئے باہر نکل رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ”عوامی،، قیادت پر شدیددباﺅ بڑھ رہاہے کہ وہ ان احتجاجوں کی قیادت کریں اور طاقت پر غلبہ حاصل کریں۔ سرمایہ د ارانہ نظام کے بحران کی حالت میں عوام کے پارلیما نی نمائندے حکمران طبقات کی جبکہ ٹریڈیونین لیڈر ان پارلیما نی نمائندوں کی حاشیہ برداری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیتے ہیں۔ ایسے حالات میں حکمران طبقات کوشش کرتے ہیں کہ اصلاح پسندعوامی قیادت کو اقتدار کے منصب پر فائز کیا اور رکھا جائے۔ اس پالیسی کا مقصد ان کو استعمال کرنااور پھر ان کو ناکام ونامراد ثابت کرناہوتاہے۔ اب بھی عوامی قیادتوں کوحکمران طبقات کے مذموم مقاصد کے لیے استعمال میں لایاجائے گا اور پھر انہیں ایک فضول ٹشوپیپر کی طرح کوڑے دان میں پھینک دیا جائے گا۔ اس کے بعد یہ لیڈر اپنے عوام کے سامنے روئیں دھوئیں گے اور کہیں گے،، یہ ہوتا ہے سوشلزم کا انجام،،۔ یوں اوپر والوں کا نیچے والوں کے ساتھ ایک ٹکراﺅ شروع ہوگا۔ بالاقیادت جو دائیں بازو کی طرف لڑھکتی چلی جارہی ہے اور طبقاتی مصالحت کی پالیسی پر گامزن ہے، جبکہ ان کے نیچے کارکن اور عہدیدار بائیں بازو کی طرف مائل و راغب ہوتے چلے جارہے ہیں۔ وہ مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے انقلابی اقدامات کی جستجو میں سرگرداں ہیں۔ جلدیابدیر یہ اندرونی تضاد اپنا حتمی فیصلہ کرے گا۔ آنے والے دور میں ہم دیکھیں گے کہ محنت کشوں کی روایتی پارٹیوں میں اوپر سے نیچے تک شدید پھوٹ پڑے گی اور طبقاتی تضاد ان کو چیر کے رکھ دے گا۔ مارکس وادیوں کے لیے بہت بڑے اور وسیع ترامکانات کی دنیا اپنا دامن پھیلا ئے سامنے آنے والی ہے۔ سماجی بحران ابھی اپنی ابتدائی کیفیت میں ہے ۔ یہ جتنا بڑھے گا، جتنا گہراہوگا ، جس قدر وسیع ہوگا، محنت کش طبقے کی انقلابی کیفیت بھی اتنی ہی گہری وسیع اور مضبوط ہوتی چلی جائے گی ، وہ بھی کچھ ایسی سطح پر کہ جس کا ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں ہوگا۔ جن نظریات کو آج محض چند ایک افراد ہی سنتے اور سمجھ رہے ہیں ، ان کو سننے کےلئے عوام کی بہت بڑی تعداد دیوانہ وار لپکے گی اور یوں ایک حقیقی عوامی مارکسی متبادل کی بنیادیں تعمیر ہوتی چلی جائیں گی۔ ہر جگہ ہر طرف یہی ہوگا اور یہی تو واحد راستہ ہے جو سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کی حقیقی ضمانت فراہم کرے گا۔

 

Source: Chingaree.com