حصہ سوئم: چی گویرا کون تھا اور کس مقصد کے لئے لڑا؟

چی گویرا کی 45ویں برسی پر اس عظیم انقلابی کی زندگی، جدوجہد اور نظریات کے بارے میں شائع کئے جارہے ایلن ووڈز کے مضمون کا تیسرا حصہ پیش کیا جارہا ہے۔بقیہ حصوں کے لنک صفحے کے آخر پر ملاحظہ فرمائیں۔

چی گویرا کی شہادت کی چالیسویں سالگرہ کے موقع پر اس کے خلاف ایک مہم سی شروع کر دی گئی ہے۔اس مہم کو صرف دائیں بازو والوں نے ہی شعار نہیں بنایاہوا بلکہ انارکسٹوں،آزادخیالوں اورہمہ قسم کے جمہوریت پسندبھی اس کارخیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔خاص طورپر ریجس ڈیبرے جیسے بدزبان اور بزدل کی جانب سے کی جانے والی بیہودہ اور بدذائقہ تنقید جس نے بولیویا میں چی کی آخری دنوں کی سرگرمیوں کے دوران انتہائی گھناؤنا کردار ادا کیاتھا اور جو بعد میں ایک اصلاح پسند اور پھر متراں کی حکومت میں مشیر بن گیاتھا۔اسی طرح چی گویراپر حال ہی میں کتاب لکھنے والے جان لی اینڈرسن،جارج کیستانڈا،اوراوکتاویوپازجیسے مشہور ’’دانشور‘‘ چی گویرا کو بدنام کرنے،اس کی قدروقیمت کو کم کرنے کی کوششوں میں اپنا زور صرف کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔مقصد اس کا یہی ہے کہ چی گویرا کی جدوجہدپر مٹی ڈال دی جائے۔بہتان اور ناقدری کی اس گھٹیا کمپین کو لاطینی امریکہ کے’’لیفٹ‘‘کے کئی مہان اساتذہ کی مکمل پشت پناہی بھی حاصل ہے۔اور اس سے ہم بخوبی ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کی موجودہ پستی کی کیفیت کس طرح سے ان’’ جمہوریتی‘‘دانشوروں کی فکری زوال پذیری کی صورت میں خود کو آشکارکررہی ہے!

مصنف پال برمن ہمیں آگاہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اس عہد میں چی کا جو تشخص قائم ہے وہ سرپھروں کیلئے مہمیز کا کام دے رہاہے اور اس کی وجہ سے کیوبا کے اندر ’’ایک شاندار بھرپور سماجی تحریک‘‘آج بھی جاری وساری ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کیوبا میں ایک شاندار جدوجہد جاری ہے جو کہ انقلاب اور رد انقلاب کے مابین ہے؛یہ ایک کشمکش پر مبنی جدوجہد ہے ایک طرف وہ ہیں جو کہ انقلاب کی حاصلات کو بچاناچاہتے ہیں،اور دوسری طرف وہ جو کہ کیوبا کو ’’جمہوریت‘‘کے خوشنما لیکن دراصل بدصورت نعرے کے تحت ورغلا کر اسے سامراج کی غلامی میں لے جانا چاہتے ہیں۔جیسا کہ روس میں ہوتاچلاآرہاہے۔اس بنیادی تنازعے میں غیر جانبدار رہنا زیادتی اور ناممکن عمل ہے۔جبکہ یہ ’’جمہوریت نواز دانشور‘‘ مکمل طورپرسرمائے کی غلامی کا ڈھول اپنے گلے میں ڈال چکے ہیں۔یہ سرمایہ دارانہ ردانقلاب کے ہمنوا بن چکے ہیں۔ایسے ہی ایک اور عظیم نابغہ قسم کے مصنف کرسٹوفر ہچنز صاحب ہیں۔جو اپنے کسی پچھلے جنم میں کیوبا انقلاب کے حامی و ہمدردہی نہیں بلکہ ایک سوشلسٹ بھی رہے ہیں۔لیکن پھر جیسا کہ عمومی طورپر موسم کے مزاج کے مطابق مڈل کلاس دانشور کیاکرتے ہیں اور اپنی حکمت وہمدردی بدل لیاکرتے ہیں،وہ چی کی بطور ’’روایت‘‘بارے فرماتے ہیں؛

’’چی کی عظمت کا معیار اس لئے قائم ہوا کہ اسے ناکامی سے دوچارہوناپڑا۔وہ شکست اور تنہائی کا ایک استعارہ بن کر سامنے آیا۔اس کو کچھ سمجھنا محض خود فریبی اور ایک تکلیف دہ عمل ہے۔اگر وہ زندہ رہتا تو آج لوگ اور دنیا اس کا نام تک بھی بھلا چکی ہوتی‘‘۔

نہیں جناب کرسٹوفر صاحب!چی مرا ہے نہ مرے گا وہ آج بھی زندہ و تابندہ ہے۔اور وہ زندہ رہے گا لیکن آپ جیسے سرمایہ داروں کے گماشتوں کی دانشورانہ بیہودگیاں ضرور اپنی موت مر جائیں گی کہ کسی کو یاد تک بھی نہیں رہیں گی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ چی کو شکست ہوئی تھی۔لیکن کم از کم وہ لڑا توتھا،اس نے لڑنے کی جرات تو کی تھی۔کسی کمرے کی کسی میز پہ بیٹھ کر تاریخ پر تنقید کرنے،یاتا ریخ کو رقم کرنے یا پھراسے اپنے پست دانشورانہ ٹسووں اور طعنوں سے کوسنے سے یہ لاکھوں درجے بلند وبرتر عمل ہے کہ آپ کسی سچے مقصد کیلئے لڑنے کا فیصلہ کرو،لڑو بے شک ہار جاؤ اور باعزت طورپرمارے جاؤ!کچھ سر جھک کر بھی سربلند اور کٹ کر بھی معتبر ہی رہتے ہیں۔

انقلابی تشدد کا سوال

چی پر سب سے اہم الزام یہ عائد کیاجاتا ہے کہ وہ غیر ضروری وحشیانہ تشدد کا ذمہ دار تھا۔’’حقائق‘‘کیا ہیں؟ہمیں دیکھنا اور ان کا تجزیہ کرناہوگا۔الزام لگایا جاتاہے کہ حکومت کے خاتمے کے بعد چی کو ’’سپریم پراسیکیوٹر‘‘ کا اختیار دیاگیاتھااور اس نے بغیر کسی تحقیق و تفتیش کے سابقہ حکومت کے سینکڑوں جنگی جرائم کے مرتکب ملزمان کو تہہ تیغ کرڈالا۔La Cabana لاکبانا جیل کے کمانڈر کے طورپر اس نے سابقہ بتیستا حکومت کی طرف سے خاص طورپر قائم کردہ ’’Bureau for the Repression of Communist Activities” کے افسروں اور اہلکاروں کے ہلاک کئے جانے کے معاملے سے صرف نظر کیا۔یہ بیورو سپین کے بدنام زمانہ BRAACکی نقل کرتے ہوئے بنایاگیاتھا جس کا مقصد کمیونسٹوں کی سرگرمیوں کا قلع قمع کرنا تھا۔انقلاب کے دشمنوں کی طرف سے چی کو اس ضمن میں انتہائی بیہودہ تضحیک و ذلت آمیز حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے اور یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ایسا بہت کچھ لکھا گیا اورلکھارہاہے جس میں چی کو ایک وحشی ایک بے رحم ایک قصائی قراردیاگیا ہے۔جون لی اینڈرسن چی پر اپنی کتاب میں لکھتا ہے؛

’’جنوری کے سارے مہینے کے دوران جنگی جرائم کے شبے میں لوگوں کو پکڑکر لاکبانا جیل میں لایا جاتا رہا۔ان میں سے اکثرغیر معروف معمولی لوگ تھے اور پچھلی حکومت کے دوران بااختیار اورجانے پہچانے لوگوں میں سے کوئی بھی ان میں شامل نہیں تھا۔باغیوں کے شہر کا کنٹرول سنبھالنے سے پہلے ہی بہت سے فرارہوچکے تھے۔اور فضا ئی یا سمندر ی رستوں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو چکے تھے یا پھر سفارتخانوں میں پناہ لے چکے تھے۔پیچھے رہ جانے والوں میں سے زیادہ تر نائبین یا چھوٹے عہدوں کے حامل پولیس والے تھے جو عمومی طورپر تشدد کرتے رہتے تھے۔جیل میں رات آٹھ نو بجے ’’عدالت‘‘ لگائی جاتی،اور صبح دو تین بجے کے قریب فیصلہ سنا دیاجاتاتھا۔دوقے استرادا جس کا کام شہادتیں اکٹھی کرنا،بیانات گواہیاں قلمبندکرناہوتا تھا، بھی’’سپریم پراسیکیوٹر‘‘ چی کے ساتھ اپیلیٹ بنچ میں بیٹھاہوتا تھا۔یہی اپیلیٹ بنچ ہی ملزم کے مقدرکا فیصلہ کیا کرتا تھا‘‘۔(Source: Anderson, Jon Lee. Che Guevara: A Revolutionary Life, New York: 1997, Grove Press, pp. 386-387)

جوزے ولاسوسو،چی کی ماتحتی میں اٹارنی کے طورپر کام کرتارہا ہے،نے ان سبھی مقدمات اور سزاؤں کو غیر قانونی قراردیا ہے اور کہا ہے کہ ان معاملات میں حقائق کومروجہ عمومی عدالتی قوانین اورضابطوں سے ہٹ کر سماعت کیاجاتا تھا۔ولاسوسونے ایک مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں تفتیشی افسر کے بیانات بددیانتی کا ملغوبہ تھے،اور محض پچھلی حکومت کے جبر وتشدد کا شکارہونے والوں کے عزیز واقارب کی گواہی پر مقدمے کا فیصلہ سنایا گیا۔یونانی سلطنت کا مشہورزمانہ ’’ایتھنزکا آئین‘‘ تحریر کرنے والے سولون دی گریٹ،نے جو قانون کے علم کے بارے ایک یا دو چیزیں ہی جانتا تھا،نے ایک بار کہاتھا’’قانون مکڑی کا وہ جالا ہوتا ہے جس میں کمزور پھنس جایا کرتے ہیں اور جسے طاقتور چیر کر نکل جایاکرتے ہیں‘‘۔

کوئی بھی قانون کبھی بھی ان طبقاتی مفادات سے مبرا نہیں ہوتا جو اس قانون کے پیچھے کارفرماہواکرتے ہیں۔سرمایہ اور سرمایہ دار بظاہر قانون کی غیر جانبداری کا ڈھونگ رچائے ہوئے ہوتے ہیں اور قانون کو بڑے بینکوں اور بڑی اجارہ داریوں کے رحم وکرم پر چھوڑکر ایک طرف خاموشی سے پڑے رہتے ہیں۔ جونہی یہ قانون ان سرمایہ داروں کے کسی کام کا نہیں رہتا تو یہ اس سے فوری طورپر جان چھڑالیتے ہیں اورننگی آمریت مسلط کر دیتے ہیں۔لاکبانا میں سزاپانے والے بیتیستاحکومت کے گماشتے وہی لوگ تھے جن کا اوپر یونانی کہاوت میں ذکر کیاگیا ہے اور جو سابقہ حکومت کے دوران ہر قسم کے قاعدے قانون سے مبرا اور بلند چلے آ رہے تھے۔یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ان گنت افراد کو کسی جرم کسی گناہ کے بغیر نہ صرف عقوبت خانوں میں وحشت و بربریت کا نشانہ بنایا بلکہ کئی بے گناہوں کو بے رحمی سے موت کے گھاٹ بھی اتارتے رہے۔ان سب انسانیت سوز مظالم پر ہم سے یہ توقع کی جائے کہ ہم اپنے ہاتھ اچک کر کاندھے ہلاتے ہوئے ایک طرف ہو جائیں !اورہاں یہ بھی ہم پر لازم ہے کہ جب انقلاب اپنے دشمنوں کے خلاف کچھ کرے تو بھی ہمیں اس کی شدومد سے مخالفت اور مذمت کرنی چاہئے!!

انقلابیوں کی اس’’بدمعاشی‘‘کے خلاف ماتم کناں یہی وہ انسانیت کے عظیم خیرخواہ ہیں جو چلی،ارجنٹائن اور جنوبی افریقہ میں ہمہ قسم مظالم کے وقت ’’امن و مصالحت‘‘کاپرچار کرتے رہے ہیں؛نام نہاد ’’حقائق کمیشنوں‘‘کے یہی وہ مصنفین ہیں جن کے نام نہاد ’’حقائق کمیشنوں‘‘کے اندر قاتلوں اور جلادوں کو ان کے ظلم و ستم کا شکارہونے والوں،بیوہ بنادی جانے والی خواتین،یتیم کر دیے جانے والے بچوں،سالہا سال تک تشددو اذیت برداشت کرنے والوں اور عقوبت خانوں میں محض اپنے نظریات کی بدولت ناکردگی کی سزا بھگتنے والوں کے ساتھ بٹھاکر حقائق مرتب کئے جاتے ہیں۔ان حقائق کو مرتب کر لینے کے بعد یہ مہذب خواتین وحضرات معاملات کو رفع دفع کرنے اور’’امن وشانتی‘‘کی جدوجہد میں مصروف ہوجاتے ہیں۔لیکن’’امن وشانتی‘‘ایسی آد م خور خونی تلوارہے جس نے نہ جانے کتنے سروں کو ان کے تنوں سے اور کتنے ہی بازؤوں کو ان کے کاندھوں سے کاٹ کر الگ کیا ہے۔ انسانیت کے روشن و درخشاں مستقبل اور بہتر سماج کی تشکیل کی جدوجہد کی پاداش میں تاریک راہوں میں مارے جانے والے ہزاروں آدرش وادی انسان، تاریخ کی اجتماعی قبرمیں دفن ہو کر ’’امن و شانتی‘‘ کی نیند سورہے ہیں۔

امن و شانتی،مصلحت و مصالحت کا یہ کھیل سوائے ایک واضح دھوکے اور مہلک خودفریبی کے کچھ بھی نہیں ہے۔حقائق کے نام پر بنائے جانے والے یہ کمیشن حقائق کی تذلیل کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔قاتلوں جلادوں کی مقتولوں مظلوموں کے ساتھ کیسی مصالحت کیسی امن و شانتی! ان کی تو قبروں سے بھی آوازیں آرہی ہیں کہ ہماری جانوں ہماری زندگیوں کا بھی کوئی حساب کوئی انصاف ہے کہ نہیں؟!یہ بات کیسے برداشت کی جائے کہ آج کئی نامور قاتل وحشی،جن کے ہاتھ اور آستینیں ہی نہیں بلکہ جبڑے تک بھی ہزاروں انسانوں کے خون ناحق سے لتھڑے ہوئے ہیں،سنتیاگو،بیونس آئرس اور جوہانس برگ کی سڑکوں پر کھلے عام دندناتے پھر رہے ہیں۔اور جن کے مقتولوں اور مظلوموں کے پیارے بے بسی اور لاچارگی کی دلدل میں دھکیل دئے گئے ہیں۔سپین کے اندر اصلاح پسند اور سٹالنسٹ’’عبوری عہد‘‘کے نام پر ایک شرمناک دھوکہ دہی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔اس عبور کے نتیجے میں لاکھوں انسانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے فاشسٹ بھیڑیوں کو عام معافی دے کر کھلاچھوڑ دیاگیا ہے۔ ایسی ہی مصالحت کا مظاہرہ چلی سمیت کئی اور ملکوں میں بھی کیا جاچکا ہے۔سفاک اور وحشی پنوشے کو بڑے آرام سے مرنے کیلئے زندہ چھوڑ دیاگیا،کیا یہ جائز تھا؟کیا یہ بہترجائز اور مناسب نہ ہوتا کہ لاکھوں انسانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے اس وحشی قاتل کو اس کے ظلم و ستم کا شکارہونے والے مظلوموں اور مقتولوں کے پیاروں کے ہاتھوں ’’انصاف‘‘ میسرہونے دیا جاتا!اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے عدل وانصاف کا راگ الاپتے یہ مصالحین فوری کہیں گے نہیں نہیں ایسے نہیں یہ تو سراسر انصاف کے مسلمہ اصولوں کی خلاف ورزی ہوگی۔

سچاانقلابی رویہ کیاہوسکتا ہے یہ ہم بتاتے ہیں۔جب معاملہ طبقاتی تنازعے کا ہو تو ایسے میں پیار محبت اور مصالحت سوائے ایک جرم کے کچھ بھی نہیں ہے۔ کمزوراور بے سروسامان لوگوں سے ہی کہا جاتاہے کہ وہ درگذرو معافی کا مظاہرہ کریں جبکہ امیروں اور زورآوروں کو ہر قسم کے جرائم کا ارتکاب کرنے کے بعد کسی بھی سزا جزا سے بچنے کا موقع فراہم کیا جائے۔چی گویرا ایک انسان دوست انسان تھا جس کے دل میں غریبوں اورمحروموں کے لئے انتہائی محبت کے جذبات موجزن تھے۔چنانچہ فطری طورپر وہ اس غربت اور محرومیوں کے ذمے داراستحصال اور لوٹ مار کرنے والے طبقے کیلئے نفرت کے جذبات رکھتا تھا۔اس کے اپنے الفاظ میں؛’’نفرت، جدوجہد کا ہی ایک عنصر ہواکرتی ہے۔ہمارے دشمن کی ہمارے خلاف انسانیت کی سبھی فطری حدود وقیود سے بڑھی ہوئی نفرت وحقارت ہمیں بھی متشدد،منتقم اور بے رحم مشین بنا کے رکھ دیاکرتی ہے۔چنانچہ ہمارے ’’سپاہیوں‘‘کوہر حال میںیاد رکھنا چاہئے کہ ایک بے رحم سفاک دشمن کے مقابلے کیلئے نفرت کے جذبے سے لیس ہوئے بغیر چارہ نہیں ہوتا‘‘۔

بہت سے مہذب دوستوں کو یہ الفاظ انتہائی سخت لگے ہوں گے اور ان کے ماتھے پر بل پڑگئے ہوں گے !جی ہاں،ہمیں یہ کسی طور نہیں بھولنا چاہئے کہ طبقاتی جدوجہد ہمیشہ ’’سخت‘‘ہی ہواکرتی ہے جس میں جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات کی شکل میں سامنے آیا کرتی ہے۔ اس میں کمزوری کا ایک ہی نتیجہ ایک ہی مطلب ہواکرتا ہے!موت۔کیوبا دنیا کی سب سے بڑی سامراجی طاقت امریکہ سے صرف 90میل کے فاصلے پر ہے۔سفاک بیتیستا حکومت کے ایجنٹ جن ’’بے چاروں‘‘ کے خلاف کاروائی کا الزام چی گویراپر عائد کیا جاتا ہے، یہ لوگ کیوبا کے انقلابی واقعات کے بعدامریکی پشت پناہی اور امداد سے یقینی طورپر انقلاب کو قتل کرنے میں ذرہ برابر نہ چوکتے۔

سامراجیوں کی منافقت

ہر انقلاب کے خلاف اس کے دشمنوں کے حملے منافقت اور حیلوں بہانوں سے مزین ہواکرتے ہیں۔ہر ایک انقلاب کو ہر حال ہرحالت میں اپنے دشمنوں سے محفوظ کرناہوتا ہے ؛یہ دشمن اندرونی بھی ہوتے ہیں بیرونی بھی۔اورپھر چونکہ ہر انقلاب قدیم بورژوازی طرز حکمرانی کو اس کے سبھی قوانین قواعد سمیت اکھاڑ کر ہی برپاہوتا ہے اس لئے اس پر اس قدیم منافقانہ قوانین پر عملدرآمد کرنا ناممکن و ناقابل قبول ہوتا ہے۔انقلاب کو اپنے ہی قوانین وقواعد تخلیق کرناپڑتے ہیں۔انقلاب کا واحد اور پہلا قانون وہی ہے جس کوعظیم مفکرCicero نے صدیوں پہلے کہہ دیا تھا کہ’’ عوام کی نجات سے بڑا،بلند اور برتر کوئی قانون نہیں ہواکرتا‘‘۔انقلابیوں کیلئے سب سے بڑا انقلابی قانون ایک ہی ہوتا ہے اوروہ ہے انقلاب کی نجات انقلاب کا تحفظ!یہ بات کرنی اور کہنی ہی سراسر حماقت و بیہودگی ہے کہ انقلاب خود کو بورژوا’’قانونیت‘‘ کے تابع رکھے۔ساری انسانی تاریخ بھری پڑی ہے جب سسکتے ہوئے،کراہتے ہوئے مقہور و مجبور انسانوں نے اپنے آقاؤں کے خلاف بغاوتیں کیں،ان کی مزیداطاعت سے انکار کیا۔غلاموں کی بغاوتیں انسانی تاریخ کے ماتھے کو آج تک روشن رکھے ہوئے ہیں۔اور بھی مثالوں سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ غلاموں کی ہر بغاوت کے ہر واقعے سے ہم ایک ہی سبق سیکھتے ہیں کہ یہ بھولے بادشاہ محض اس لئے شکست سے دوچارہوتے رہے کہ ان کے جذبے بلاشبہ عظیم لیکن مزاج محض عاجزی اور اعتماد کے حامل تھے اور مزاج کی یہ کمزوری ہی ان کو شکستوں سے دوچارکرتی رہی۔آقاؤں کے لارے لپے ان کو باربار کچلتے مارتے رہے۔حکمران طبقات کبھی بھی اپنے طبقاتی مفادات کیلئے کسی بھی بے رحمی کسی بھی وحشت کسی بھی بربریت کو اپنانے سے نہیں ہچکچایاکرتے۔وہ ایسا کرتے چلے آرہے ہیں اور کرنے کیلئے ہر وقت تیار بھی ہوتے ہیں۔یہ اپنی طبقاتی حکمرانی کو ہر حالت میں قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

انسانی تاریخ اس قسم کی خونی داستانوں سے بھری پڑی ہے،سپارٹکس کی شکست کے بعد رومی حکمرانوں نے Via Apiaکے مقام پر ہزاروں غلاموں کو تہہ تیغ کر ڈالا تھا۔جون1848میں جنرل کوائگنکCavaignac نے عام معافی کا کھلم کھلا اعلان کیا تھالیکن اسی نے ہی مزدوروں کے خون سے ہولی کھیلی تھی۔بورژوازی کی قانون کی حکمرانی کے بحال ہوتے ہی اس نے اپنی فوج کو حکم دے دیا کہ وہ سرکشی کرنے والوں کے سر کچل ڈالیں۔پیرس کمیون کی شکست کے بعد ورسیلز نے پیرس کے محنت کشوں سے انتہائی بھیانک انتقام لیا۔اپنی کتاب History of the Paris Commune of 1871 میں لیسا گارے Lissagarayلکھتا ہے؛

’’جون کے پہلے دنوں تک قتل عام کا بازارتھوک کے بھاؤ چلتا رہا،پہلے دوہفتوں کے دوران’’فوری طورپر‘‘موت کے گھاٹ اتارے جانے کا سلسلہ سرانجام دیا جاتا رہا۔ Bois de Boulogneمیں ایک لمبے عرصے تک عجیب وغریب تشویشناک ڈرامے رچائے جاتے رہے۔اس بدنام ’’خون آشام ہفتے‘‘ کے دوران نجانے کتنی زندگیوں کے چراغ گل کر دئے گئے۔ملٹری جسٹس کے چیف نے اعتراف کیا کہ17000افراد کو گولی مار ی جا چکی ہے۔پیرس کی میونسپل کونسل نے17000لاشوں کی تدفین کے اخراجات کا بل ادا کیا۔لیکن ایک بہت بڑی تعداد کو پیرس سے باہر یا تو جلاد یا گیا تو مار کر ہلاک کر دیاگیاتھا۔کسی مبالغے کے بغیر یہ تعداد کسی طور 20000سے کم نہیں تھی‘‘۔

’’کئی محاذوں پر تو لاشوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ تھی لیکن کم از کم یہ لوگ دوبدولڑتے ہوئے تو مارے گئے تھے۔اس صدی نے جنگ کے بعد سے اس سے بڑا قتل عام نہیں دیکھا۔ہماری سول جدوجہد کی تاریخ میں اس کی برابری کا اور کوئی واقعہ نہیں ملتا۔جون 1948،دودسمبراورSt. Bartholomew’s Dayکے خونی واقعات کے بعد مئی کایہ قتل عام تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔یہاں تک کہ قدیم روم سمیت جدید دورکے نامی گرامی قاتل بھی ڈیوک آف میگنیٹا کے ظلم کے سامنے چھوٹے نظر آتے ہیں۔ صرف ایشیائی فاتحین کی بربریت اورداہومےDahomey کی سفاکی سے ہی اس ظلم کا موازنہ کیا جا سکتا ہے جس نے پرولتاریہ کاا تنے بڑے پیمانے پر اور اتنی بے رحمی سے قتل عام کیا‘‘۔ اور صرف یہی نہیں حالیہ سالوں کی کئی اور مثالیں بھی ہمارے سامنے موجود ہیں۔گوئٹے مالا میںآربنز کی جمہوری حکومت کا خاتمہ کرنے کے بعد وہاں کے حکمران طبقات نے سی آئی اے کی مدد سے اپنے ہی عوام کے خون سے ہولی کھیلی۔پنوشے نے چلی میں ہزاروں لاکھوں انسانوں کوبدترین تشدد کا شکار کیا ان کو قتل کیا۔ارجنٹائن میں جنتا نے اس سے بھی کہیں زیادہ سفاکی سے عوام کے گلے کاٹے۔اور کیوبا کے معاملے میں امریکہ کے کٹھ پتلی بتیستا نے ان گنت افراد کواپنے جبر و تشددکا نشانہ بنایا اور ان کو زندگیوں سے محروم کیا۔

یہ سب کچھ تاریخ کا حصہ ہے اور جو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔امریکہ اور یورپی یونین کے نام نہاد جمہوریت نواز کیوبا کے انقلاب کی طرف سے انقلاب کے مخالفین کے ساتھ روا رکھے جانے والے جبروتشددپر تو حیرانی اور تاسف کا اظہار کرتے ہیں۔لیکن جو کچھ ان کے اپنے بغل بچہ حکمرانوں نے کیا اس پر یہ انتہائی سادگی و معصومیت سے اپنی آنکھیں اور زبانیں بند کر لیتے ہیں۔امریکی صدر روزویلٹ نے نکارا گوا کے آمر سوموزا کے بارے کہا تھا:

 He’s a son of a bitch, but he’s our son of a bitch ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ کتے کا بچہ ہے لیکن وہ ہمارا ہی کتے کا بچہ ہے‘‘۔

Bay of Pigs

’’تشدد‘‘ کا سوال بورژوازی کے نکتہ نظر سے ایک عملی اور طبقاتی معاملہ ہے۔چنانچہ محنت کش طبقے کو بھی اسی نکتہ نظر سے اس معاملے کو سمجھنا اور برتنا ہوگا۔یہ سوچنا سمجھنا اور اس خوش فہمی میں مبتلا ہونا ہی انتہائی احمقانہ اور بیہودہ ہے کہ ہم اپنے طبقاتی دشمن کو اخلاقیات پر متاثر کن لیکچر دے کریا پڑھاکر شکست دے سکتے ہیں۔کیوبا (اورروس کے)انقلاب کے معاملے میں ان کی اخلاقی چیخ وپکار کے پیچھے ان کا صرف ایک ہی اضطراب اور نفرت پوشیدہ ہے کہ ان ملکوں میں غلاموں نے نہ صرف اپنے آقاؤں کے خلاف بغاوت کی،نہ صرف جدوجہد کی بلکہ ان کی حکمرانی کو شکست فاش دے کر اپنی حکمرانی قائم کر لی تھی۔

کیوبا انقلاب کے فوری بعد کاسترو کا تناظر کسی طوربھی سوشلسٹ نہیں تھا بلکہ اس نے ایک عرصے تک کسی بھی ادارے کو نیشنلائز نہیں کیاتھا۔یہ چی گویرا تھا جو اصرار کر رہاتھا کہ کیوبا کے انقلاب کوہر حال میں سوشلسٹ انقلاب میں بدلنا چاہئے۔کیوبا انقلاب کو فوراًہی امریکی سامراج کے ساتھ مخاصمت کا سامناکرناپڑگیا۔جس نے انقلاب کی طرف سے شروع کی جانے والی زرعی اصلاحات اور عوام کی بہتری کیلئے کئے جانے والے دیگراقدامات کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ بڑی امریکی کمپنیوں نے کیوبا کی معیشت کو متاثر اور کمزور کرنے کا کھیل شروع کر دیا۔کاسترونے اس کے جواب میں کیوبا میں موجودسبھی امریکی اثاثوں کو قومی تحویل میں لے لیا۔انقلاب ہچکچاہٹ سے آگے نکلتا گیا،یہ جاگیرداری اور سرمایہ داری کو بے دخل کرتا گیا اور یوں واشنگٹن کے مدمقابل صف آراہوتاچلاگیا۔ انقلاب کایہ عمل واضح طورپر ٹراٹسکی کے نظریہ مسلسل انقلاب کی عملی شکل بنتاجارہاتھااور اس کی صداقت کو ثابت کر رہاتھا۔یہی وہ نظریہ تھا جس کے ساتھ کامریڈ چی کی دلچسپی اور وابستگی اتنی گہری ہو چکی تھی کہ بولیویا میں مرتے دم تک اس کے پاس ٹراٹسکی کی یہ کتاب موجود تھی۔اپنے اس نظریے میں ٹراٹسکی واضح کرتاہے کہ جدید دور میں نوآبادیاتی اور سابقہ نوآبادیاتی ملکوں کے اندر سرمایہ دارانہ جمہوری انقلاب کے مرحلے کی انجام دہی بورژوازی کے بس کی بات نہیں ہے،اس کی بجائے یہاں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا خاتمہ کرتے ہوئے سماج کی براہ راست سوشلسٹ تبدیلی کا عمل سرانجام دیناہوگا۔

کیوبا کے انقلاب کا جواب سامراجی ’’جمہوریت نوازوں‘‘ نے کیوبا پر جارحیت کی شکل میں دیا۔سی آئی اے کے تربیت یافتہ اور مسلح جاسوسوں نے انقلابی حکومت کو کمزور اور ختم کرنے کیلئے دہشت گردی اور تشدد کا ایک سلسلہ شروع کردیا۔انقلاب نے کسانوں اور محنت کشوں کو متحدمسلح اور منظم کرتے ہوئے اس سازش کا مقابلہ کیا۔سازشیوں نے کیوبا کے ساحلی علاقے Bay of Pigsکو اپنا مرکز بنایا ہواتھا۔ لاطینی امریکہ میں سامراجیوں کو پہلی بار شکست فاش سے دوچارہوناپڑا۔انقلاب نے اپنا دفاع کیا اور اپنے دشمن کے پاؤں اکھاڑ دیے۔

سوال یہ ہے کہ اگر یہ رد انقلابی سازشی کسی طرح کامیاب ہو جاتے تو یہ کیا طرز عمل اختیار کرتے؟کیا وہ کیوبا کے محنت کشوں اور کسانوں کو اپنے گلے لگاتے؟ان کو عالمی بھائی چارے اور اخوت و محبت کے من موہنے گیت سنا کر لبھاتے؟کیا وہ ان کو معاف کر دیتے؟کیا وہ بھی’’حقائق کمیشن‘‘ بناتے جو چی گویرا اور کاسترو کو بلا کر بٹھاکر ان کا نکتہ نظر معلوم کرتا؟وہ محض ایک لاکبانا جیل نہیں بلکہ سینکڑوں ایسی جیلیں اور بھی قائم کرتے اور وہ کچھ کرتے جس سے ان کی اپنی تاریخ بھری پڑی ہے۔صرف ایک اندھے اور کور عقل کو ہی کوئی خوش فہمی ہو توہو لیکن کم سے کم وہ ایسی بیوقوفی اور بیہودگی نہ کرتے۔ کبھی بھی نہ کرتے۔

چی اور عالمی انقلاب

کیوبا کا انقلاب اپنے جنم دن سے ہی خطرات میں گھر چکا تھا۔اس کو کس طریقے سے محفوظ کیا اور رکھا جاسکتاتھا؟چی گویرا کے بے تاب دل ودماغ کو یہ سب ہوتا نظر آرہاتھا اور وہ اس کیلئے درست خطوط پر سوچ بھی رہاتھا اور سعی بھی کر رہاتھا،اوراسی جدوجہدکے دوران ہی اس نوجوان کی زندگی کا چراغ بے دردی سے گل کردیاگیا۔وہ اپنی طبع اور افتاد میں ہی افسرشاہی،بدعنوانی اور مراعات یافتگی کے خلاف تھا۔یہ چیزیں ہی آج کیوبا کے انقلاب کیلئے سب سے بڑا اندرونی خطرہ بن چکی ہیں۔اگر ان سے فوری اور شعوری طورپر نہ نمٹا گیا تو کیوبا میں سرمایہ داری کی بحالی کو کسی طرح سے نہیں روکا جاسکے گا۔چی اس بات کو بخوبی سمجھ گیاتھا کہ کیوبا کے انقلاب کے بچاؤ کا واحد رستہ اور طریقہ ایک ہی ہے کہ اسے عالمی انقلاب سے منسلک کردیا جائے اور جس کی ابتدا لاطینی امریکہ سے کی جانی ضروری ہے۔افسر شاہیت اور سوویت یونین پر اس کی نکتہ چینی اور تحفظات میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جارہاتھا وہ بڑھ چڑھ کر سوویت یونین کی کیوبا میں بے جا تقلید پر کھلے عام جراتمندانہ پوزیشنیں بھی لیتا جارہاتھا۔ وہ سوویت یونین کی طرز سے حیران اوردل برداشتہ ہوتا جارہاتھا۔اس نے کھلے عام ماسکو پر نوآبادیاتی انقلاب سے غداری کرنے کا الزام عائد کیا۔فروری1965میں الجیرہ میں ایفروایشین سالیڈیریٹی کے زیر اہتمام معیشت بارے منعقدہ دوسرے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے،جو کہ چی گویرا کی آخری عوامی موجودگی بھی تھی اور اس کی آخری عوامی تقریر بھی،چی نے کہا’’ہماری جدوجہد میں کوئی بھی سرحد ہمارے آڑے نہیں آیاکرتی،سوائے ہماری موت کے۔ہم کسی طور بھی دنیا میں کسی بھی جگہ ہونے والی ناانصافی اور زیادتی سے صرف نظر نہیں کر سکتے ہیں۔ کسی بھی ملک میں سامراج کیخلاف ہونے والی کوئی لڑائی ہماری ہی لڑائی ہے اور ہر کامیابی ہماری ہی کامیابی ہے۔یہی نہیں ہر شکست بھی ہمیں اپنی ہی شکست لگتی ہے۔سوشلسٹ ملکوں پر یہ لازمی اخلاقی فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ مغربی ملکوں کے ساتھ تعلقات کے ضمن میں معاونت کا نہیں معاندانہ رویہ اختیارکریں‘‘۔

یہ واضح طورپر سٹالنسٹ روس کی ’’پر امن بقائے باہمی کی اصولی پالیسی‘‘ کے خلاف پوزیشن تھی، جو چی نے لی تھی۔اس کا کہنا تھا کہ کاسترو سے صلاح مشورہ کئے بغیر کیوبا سے روسی میزائلوں کا ہٹایا جانا غداری ہے۔چی گویرا ویتنام کے عوام کی امریکہ کے خلاف جاندار جدوجہد آزادی کا پرجوش حامی تھا۔اس نے ہی دنیا بھر کے مقہور اور مظلوم لوگوں سے اپیل کی تھی کہ وہ ویتنام کی جدوجہد آزادی سے یکجہتی کیلئے ’’100ویتنام‘‘”100 Vietnams”کے نام سے تنظیم تخلیق کریں اور ویتنامی جدو جہد کے شانہ بشانہ یکجہتی میں شریک ہو جائیں۔اس قسم کی گستاخانہ بات چیت خروشیف اور ماسکو کی افسرشاہی کو کہاں برداشت ہونی تھی!

اس کے دل ودماغ میں رفتہ رفتہ یہ بات بیٹھتی گئی کہ کیوبا کے انقلاب کو بچانے کا ایک ہی مناسب وموزوں طریقہ یہی ہے کہ اس انقلاب کو عالمی انقلاب میں بدل دیا جائے۔بنیادی طورپر اس کی یہ سوچ درست تھی۔کیوبا انقلاب کی تنہائی ہی اس انقلاب کیلئے سب سے بڑا خطرہ تھی۔اور پھر چی گویرا ایسا انسان بھی نہیں تھا جو نظریے کو صرف کاغذوں یا کتابوں تک ہی محدود رکھنے کا عادی ہو۔وہ نظریے کو عمل میں بدلنے اور ڈھالنے کا قائل فرد تھا۔اس نے 1965میں کیوبا کو خیرباد کہہ دیا تاکہ وہ افریقہ میں جاری جدوجہد میں شریک ہو سکے۔وہ سب سے پہلے کنشاسا -کانگو پہنچا۔یہ بات ذہن نشین رہے کہ کیوبا چھوڑنے سے دوسال بعد تک اس کے بارے سب کچھ خفیہ رکھا گیا کہ وہ کون ہے اورکیا ہے!کامریڈ چی نے اپنے خط میں کیوبا انقلاب کے ساتھ اپنی قلبی وابستگی کے برقرار ہونے کا ذکر کرتے ہوئے یہ لکھا تھا کہ اس کے باوجود وہ انقلاب کے پھیلاؤکے عظیم مقصد کیلئے روانہ ہواتھا۔ اس نے لکھا تھاکہ ’’دنیاکے دوسرے ملک میری حقیرکوشش،میری جدوجہد کو پکار رہے ہیں‘‘۔یہی وجہ تھی کہ اس گوریلے نے اپنے لئے نئے محاذ ڈھونڈنے اور وہاں اپنے جوہردکھانے کا فیصلہ کیا۔کیوبا حکومت کو کسی پریشانی سے بچانے اور سامراج کو کیوباپر حملہ نہ کرنے کا کوئی بھی عذروجواز فراہم نہ کرنے کے ارادے سے اس نے حکومت،پارٹی اور فوج سمیت ہر عہدے سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا۔یہاں تک کہ اس نے کیوباکی شہریت بھی ترک کردی۔یہ شہریت اسے انقلاب کیلئے اس کی درخشاں خدمات سرانجام دینے کے اعتراف میں 1959میں دی گئی تھی۔

’’یہ شکست کی تاریخ ہے‘‘

یہ وہ دن تھے جب افریقہ سرگرم اور سرکش تھا۔فرانس الجزائر سے اور بلجیم کانگو کو چھوڑ کر جا نے پر مجبورہوچکے تھے۔لیکن سامراجی،جنوبی افریقہ میں اپنی گماشتہ سفاک حکومت کوخطے میں بھرپور طورپر سازشوں میں شریک اور متحرک رکھے ہوئے تھے۔اس سارے وحشیانہ کھیل کا ہدف افریقہ کے بیش بہا قدرتی وسائل تھے۔جبکہ یہ خطہ روس اور امریکہ کے مابین کشمکش کا محورومرکز بھی بناہواتھا۔چی نے اپنے تئیں یہ مناسب سمجھا کہ یہی وہ خطہ ہے جو اس کی جدوجہد کیلئے بہتر ہے۔الجزائر کا صدر بن بیلا تھا اور وہ چی گویرا سے کئی ملاقاتیں کر چکاتھا،اس نے کہا کہ ’’افریقہ میں صورتحال جس طرح سے پنپ رہی تھی،اس سے یہ بات واضح ہورہی تھی کہ وہاں انقلاب کی کیفیت موجود تھی۔ اس کو دیکھ کر ہی چی نے یہ نتیجہ نکالا کہ یہی خطہ اس وقت سرمایہ داری کی کمزورترین کڑی ہے،سواس نے یہاں آنے اور اپنی کوششیں کرنے کا فیصلہ کیا‘‘۔

ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے آزادی پانے والے کانگو میں بلجیئم اور فرانس نے وہاں قائم لیفٹ ونگ لوممبا کی حکومت کو ختم کرنے کیلئے وہاں شدیدفساد اور انتشارپھیلادیاکہ وہاں کسی طرح فوجی جارحیت کا جواز پیداکیا جاسکے۔سی آئی اے کی مکمل حمایت اور امداد سے مبوتوکی سرپرستی میں لوممباکو موت کے گھاٹ اتار دیا گیااور اس کی حکومت ختم کر کے مبوتو نے اقتداراپنے ہاتھ میں لے لیا۔لوممبا کے حمایتیوں نے اس کے رد عمل میں وہاں گوریلا کاروائیاں شروع کر دیں۔کیوبا کی طرف سے شروع کیا جانے والا آپریشن وہاں لارنٹ ڈی سائرکابیلا کی سربراہی میں جدوجہد آزادی کیلئے لڑ نے والے باغیوں کے ساتھ تعاون کیلئے اپنایاگیا تھا۔حیران کن بات یہ ہے کہ چی گویرا نے کوئی باقاعدہ آرمی ٹریننگ بھی نہیں کی ہو ئی تھی۔استھما کی بیماری کے باعث اسے ارجنٹائن میں اس قابل ہی نہیں سمجھاگیا کہ وہ عسکری تربیت حاصل کر سکے۔لیکن اس کادامن کیوبا انقلاب کے تجربے سے ضروربھراہوا تھا۔یہی اس کیلئے کافی تھا۔یہ قطعی کوئی عجیب وغریب پہلو نہیں تھا۔انقلاب روس کے قائد اور لینن کے ساتھی لیون ٹراٹسکی کو بھی کسی قسم کاعمومی عسکری تجربہ نہیں تھا مگر اس نے ریڈ آرمی کو تشکیل دیاتھا۔یہ اس کے ریڈ سولجرز ہی تھے جنہوں نے انقلاب پر حملہ آور کثیرالملکی فوجوں کو شکست دی تھی۔

نپولین نے کچھ عرصہ قبل یہ قرار دیاتھا کہ کسی بھی جنگ میں سب سے فیصلہ کن عنصر جذبہ ہواکرتا ہے۔تاہم چی کو اپنے کانگو کے ساتھیوں کے ساتھ ’’کام کرنے‘‘کا مزا نہیں آیا۔وہ کابیلا کی قابلیت و صلاحیت سے بھی مطمئن نہیں ہوا ’’مجھے کسی طرح سے بھی یہ یقین نہیں ہو پارہاہے کہ یہ آدمی کسی طرح بھی صورتحال کو سمجھنے اور سنبھالنے کا اہل ہے‘‘۔کیوبا اور روس کے انقلاب کو برپا کرنے والوں کو کم از کم اس بات کا بھرپور یقین اور ادراک تھا کہ وہ انقلاب کیلئے کوشاں ہیں۔جبکہ کانگو میں جاری سامراج مخالف جنگ قبائلی تنازعات وتعصبات،ذاتی سربلندی کے آدرش اور بدعنوانی کے لوازمات سے مزین تھی۔بعد میں پیش آنے واقعات نے ان عوامل کی تصدیق بھی کر دی۔مئی 1997میں لارنٹ کابیلا نے مبوتو کا تختہ الٹ دیا اور ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگوکی عنان اقتدار سنبھال لی۔ جس پر وہ2001تک اپنے مارے جانے تک براجمان رہا۔اس دوران اس کا طرز عمل ایک بدعنوان بدمست حکمران کا ہی رہا۔اس کی جگہ اس کے اپنے بیٹے جوزف کابیلا نے ہی سنبھالی اور بیٹا باپ سے بھی آگے نکلا۔

سی آئی اے اور جنوبی افریقہ کے جاسوس مبوتو کے ساتھ مل کرباغیوں کو کچلنے اور شکست دینے میں مگن تھے۔لیکن ان کو جلد ہی یہ محسوس ہو گیا کہ ان کا پالا ایک جراتمند اور سخت جان مدمقابل سے ہے۔ان کو یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ چی گویراباغیوں کے ساتھ ہے۔تاہم سی آئی اے کی سپریم انٹیلی جنس کو یہ معلوم پڑگیااور انہوں نے جنوبی افریقہ کو خبردار کر دیا کہ چی گویرا وہاں موجود ہے۔چی کی لکھتCongo Diary’’کانگو ڈائری‘‘ کو پڑھنے سے یہ صاف پتہ چل جاتا ہے کہ کانگو میں اس کے ساتھ شریک جنگجو کس قدر نا اہل،احمق اور جوش وجذبے سے محروم تھے۔اور یہی وہ عوامل تھے جو اس جدوجہد کی شکست کا باعث بنے۔

اس جدوجہد کو کچھ وقت اور حوصلہ کیوبا کی مدد سے ملا۔ ورنہ یہ بہت پہلے اور زیادہ بھیانک شکست سے دوچارہوچکی ہوتی۔اپنے ساتھیوں کی پیداکردہ فرسٹریشن کم حوصلگی اورکم ہمتی نے اس کی بیماری کو اوربھی ابھار دیا۔سات مہینے بعد ہی وہ اپنے باقی بچ جانے والے کیوبائی اور کانگو کے ساتھیوں کے ہمراہ کانگو سے نکل گیا۔بعد میں کانگو کی اپنی یادداشت لکھتے وقت اس نے انتہائی کرب اور تلخی سے یہ جملہ لکھا’’یہ ایک ناکامی کی تاریخ ہے‘‘۔

بولیویا

افریقہ میں ناکامی کے بعدچی نے لاطینی امریکہ میں ایک نیا انقلابی فرنٹ قائم کرنے کی منصوبہ بندی کی۔اس نے سٹریٹجک اہمیت کے پیش نظر بولیویا کا انتخاب کیا۔جس کی سرحدیں کئی اہم ملکوں کے ساتھ جڑی ہوئی تھیں،ان میں ارجنٹائن بھی شامل تھا۔یہاں اس نے یوراگوئے کے ایک تاجر کا روپ دھارا جس کا سر گنجا اور جس نے موٹے شیشوں والا چشمہ پہن رکھاہوتا تھا۔یہ بہروپ اتنا مکمل اور بھرپور تھا کہ جب وہ اپنی چھوٹی بیٹی سے آخری ملاقات کرتے ہوئے اس کا بوسہ لے رہاتھا تو وہ بھی اسے نہیں پہچان سکی۔لیکن بہر طور یہ سامراجیوں سے پوشیدہ رہنے کیلئے انتہائی ناکافی تھا۔چی سے ایک انتہائی فاش غلطی سرزدہوگئی جب اس نے بولیویا میں ایک گوریلا لڑائی کومنظم کرنا شروع کر دیا۔یہ ایک ایسا ملک تھا جو کہ محنت کشوں کی اکثریت اورشاندار انقلابی روایات کا حامل تھا۔ اس نے اپنے ’’محاذوں‘‘کے انتخاب کے ضمن میں کئی غلط علاقوں کا انتخاب کر کے انتہائی فاش غلطی کی۔ اس نے اندازہ لگایا کہ اس کا مقابلہ ایک معمولی بولیویائی فوج سے ہے جس کی نہ تربیت اتنی اعلیٰ ہے نہ اس کے پاس جدید اسلحہ ہے۔لیکن جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں کہ سامراجی کیوبا کے تجربے اور ناکامی سے سبق حاصل کر کے انتہائی چوکنے ہو چکے تھے۔اور وہ ان سے نمٹنے کیلئے تیار بھی تھے۔صرف گیارہ مہینوں کے اندر اندر ہی سبھی گوریلوں کی بو سونگھ لی گئی اور بالآخر چی گویرا کو بھی قتل کردیاگیا۔بولیوین فوج نے اپنے امریکی مشیروں کی مدد و معاونت سے جو جال ان کے قلع قمع کیلئے تیارکیاتھا،اس میں سے صرف پانچ افراد ہی بچ نکلنے میں کامیاب ہو سکے۔آج اگر آپ اور ہم چی کی’’ بولیویا ڈائریز‘‘Bolivian Diariesکو پڑھیں تو ہمیں معلوم پڑتا ہے کہ ہم ایک زندہ المیے کو اپنے سامنے متحرک دیکھ رہے ہیں۔ انسانوں کے اس چھوٹے سے گروپ کی طبعی اور ذہنی کیفیت کے بارے میں بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان پر کیا کیا نہ قیامتیں گذری ہوں گی۔اور جو کچھ ان کے ساتھ انجام کی صورت میں سامنے آیا اس کی کربناکی کا تو تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔اپنے آدرش کے حسن کی معتبری کی گواہی کیلئے ڈٹ جانے والے،اپنی جانوں سے گذرکردرد کے فاصلے بہر حال مختصر کر گئے۔

چی گویرا نے بولیویا میں 209ancahuaz250کے علاقے کے دوردراز کے جنگلات کو اپنی کمین گاہ بنایا۔جس قسم کے حالات اور ماحول تھے ان میں کسی بھی قسم کی گوریلا فوج تیار کرنا مناسب حکمت عملی نہیں تھی۔ یہ انتہائی مشکل ترین ہدف تھا جس کی کوشش کی گئی۔اس کا اظہار اس کی بولیوین ڈائری سے بھی ہو تا ہے۔لیکن بولیویا کے دورافتادہ جنگلات میں رہتے ہوئے انقلاب کی ابتدا کرنا،اپنی بنیادوں میں ہی کمزور مشن تھا۔ان کی کل گوریلا فورس پچاس ساتھیوں پر مبنی تھی۔آس پاس کی مقامی آبادیوں سے اپنے لئے موزوں افراد ڈھونڈنا ایک خطرناک اور حساس معاملہ تھا۔ اور وہ بھی ایسے لوگ تھے کہ جن کو ہسپانوی زبان بھی نہیں آتی تھی۔گوریلوں نے Quechuaزبان سیکھی ہوئی تھی جبکہ مقامی لوگ صرفTup237-Guaran237بولتے تھے جو کہ ان کی مقامی بولی تھی۔لیکن اس سب کے باوجود ان جانبازوں نے شروع میں کامیریCamiri mountains کے پہاڑوں پر بولیویائی فوج کے ساتھ جس جوانمردی اور جذبے سے مقابلہ کیا اور اہم کامیابیاں حاصل کیں،وہ اپنی جگہ ایک زندہ وتابندہ مثال ہے۔تاہم ستمبر میں فوج کو موقع مل گیا کہ وہ گوریلوں کے دو گروپوں کا خاتمہ کر سکے۔اس کاروائی میں ایک گروپ لیڈر بھی ماراگیا۔یہ واقعہ ان کے انجام کا آغاز ثابت ہوا۔یہ مہم جوں جوں بڑھتی رہی توں توں چی کی صحت بھی گرنا شروع ہو گئی۔اس دوران اسے استھما کے کئی شدید دورے بھی پڑے۔مارچ1967ء میں فوج کے ساتھ ایک جھڑپ کے دوران کچھ گرفتار ہونے والوں سے چی کی تصویریں برآمدہوئیں جن کی وجہ سے حکام بالا کو اس کی موجودگی کا علم ہو گیا۔یہ کہا جاتا ہے کہ جب بولیویا کے صدر رینی بیرنتوس کو اس کی موجودگی کا علم ہواتو اس نے حکم دیا کہ وہ چی گویرا کے سر کو دارالحکومت لاپاز کے وسط میں لٹکتاہوا دیکھنا چاہتا ہے۔یہاں ہمیں ایک بار پھرصاف دکھائی دے سکتا ہے کہ بورژوازی اورحکمران کس قدر انسان دوست اور ہمدردوخیرخواہ ہواکرتے ہیں! یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو انقلابیوں پر تشدد کا الزام لگاتے نہیں تھکتے۔چی گویرا کو ایک وحشی خون کے پیاسے کے طورپر پیش کرنے کی کاوشیں (دنیا کے کس انقلابی کو ایسا ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی گئی؟)محض جھوٹ کا ایک پلندہ ہیں اور بس!وہ ایک سچا اور کھرادردمند انسان تھا۔اپنی بولیویرین ڈائریز کے ہی ایک سفرنامے میں وہ لکھتا ہے کہ کس طرح اس کے ہتھے ایک سرکاری فوجی چڑھ گیا اور وہ اسے آسانی سے گولی مار کر ہلاک کر سکتا تھا لیکن چی کہتا ہے کہ مجھ سے بندوق چلائی ہی نہیں جا سکی۔

یہ رویہ، ایسا کردار کسی طور پر بھی ایک وحشی خون کے پیاسے فرد کا نہیں ہوسکتا۔چی ذاتی طورپر خود ان زخمی سپاہیوں کی نگہداشت اور علاج کیا کرتا تھا جو جھڑپوں کے دوران گوریلوں کے قبضے میں آجاتے تھے۔اور جب و ہ صحت یاب ہو جاتے تو ان کو رہاکردیاجاتاتھا۔اس کے برعکس ہمیں انسانی رویوں کا اندازہ اس وقت لگتا ہے جب چی خود بولیویائی فوج کے ہتھے چڑھا۔اس نے اس وقت پیشکش کی کہ وہ زخمی ہو جانے والے فوجیوں کا علاج کرسکتا ہے اور کرنا چاہتا ہے لیکن افسر اعلیٰ نے اس کی مدد لینے سے انکارکردیا۔

سٹالنسٹ غداری

چی اور اس کے ساتھیوں کو اس سارے عرصے میں انتہائی نا موافق حالات اور رکاوٹوں کا سامنا کرناپڑگیا۔نہ صرف زبان اور ابلاغ بلکہ موسم بھی نامہربان ہی میسرآیا،وہ ایک ایسے ماحول میں تھے کہ جہاں ہر وقت بارش ہوتی رہتی تھی۔بولیویا کی کمیونسٹ پارٹی جس کی سربراہی ماریو مونجے کررہاتھا،سوویت سٹالنزم کے زیراثر تھی اور وہ کامریڈ چی گویرا کی بولیویا میں موجودگی سے نہ صرف نالاں و ناخوش تھی،بلکہ اس کی مخالفت میں بھی پیش پیش تھی۔بولیویاکے کمیونسٹوں نے چی اور اس کے ساتھیوں کی کسی سی بھی قسم کی مدد سے صریحاًانکارکردیا۔ان کی دلیل یہ تھی کہ ابھی بولیوین میں انقلاب کیلئے حالات سازگار ہی نہیں ہیں۔چی کی کتاب بولیویرین ڈائریز کے پیش لفظ میں فیڈل کاسترو نے ان کے اس جواز کا درست طورپرکچھ یوں جواب دیاہے؛

’’اس بات کا تو ہر وقت ہر جگہ اور ہر حال میں جواز موجود ہوتا اور رہتا ہے کہ ابھی انقلاب کیلئے حالات سازگار نہیں ہیں۔یہ بھی کہ ہمیں لڑائی مول نہیں لینی چاہئے لیکن کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو کچھ ہوتارہے ہونے دیا جائے،اس پر نہ آہ وبکاکی جائے نہ اس کی مذمت اور نہ ہی اس کی مزاحمت کی جائے؟ان بدتریں حالات سے آزادی حاصل نہ کی جائے؟چی نے کبھی اپنے آدرش اپنے نظریے سے بے اعتنائی نہیں برتی۔وہ جانتا تھا کہ اس کی موت کے نقصان سے ان نظریات کا دائرہ اور بھی وسیع ہو جائے گا۔اس پر انگلیاں اٹھانے والے خود ساختہ انقلابی ناقدین اپنی سیاسی بزدلی اور آفاقی بے عملی کی بدولت اس کا تو خیر کیا بگاڑیں گے ہاں البتہ اس سے ان کی اپنی بیہودگی اور حماقت ضرور کھل کر عیاں ہو جائے گی۔یہ بات انتہائی بے معنی ہے اور کوئی وزن نہیں رکھتی ہے، جیسا کہ اس ڈائری کے مطالعے سے پتہ چلتاہے،کہ ماریومونجے جیسی’’ انقلابی‘‘کہلائی جانے والی مخلوق جو لاطینی امریکہ میں کثرت سے پائی جاتی ہے،نے اپنے کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری کے عہدے کو چی کے بولیویا کی تحریک کے سیاسی اور عسکری قیادت کے حق کے خلاف استعمال کیا۔اور مونجے پارٹی کے اندر اپنے عہدے اور حیثیت سے دستبردارہونے کے ارادے کا اعلان بھی کر چکا تھا۔اس کے بقول وہ اس عہدے سے بڑی حد تک عہدہ برا ہو چکاتھا اور اب وقت آگیاتھا کہ وہ اس کیلئے عہد ہ چھوڑدے‘‘۔’’یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ مونجے کو گوریلا لڑائیوں کا قطعی طورپر کوئی تجربہ نہیں تھا،نہ ہی اس نے کسی لڑائی میں کبھی کوئی حصہ لیاتھا۔لیکن یہ سچائی کہ وہ خود کو ایک کمیونسٹ کہتااور سمجھتا تھاتو یہ محض ایک مصنوعی اور مغرور قسم کی حب الوطنی جیسی کسی شے کے علاوہ کچھ معنی نہیں رکھتا تھا۔سچے حب الوطن تو وہی تھے جو مادروطن کی آزادی کیلئے جدوجہد کر رہے تھے‘‘۔’’اور جہاں تک ان کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ وہی ہیں جواس براعظم پر بین الاقوامیت اور سامراج مخالف جدوجہد کے نظریے کے علمبردار ہیں تو ان جیسے ’’کمیونسٹ لیڈروں‘‘ کی وہی کیفیت ہے جو ان قبائلی جنگجوؤں کی سی ہے جنہوں نے سامراجی آقاؤں کے آگے گھٹنے ٹیک دیے تھے جب وہ ان کے علاقوں کو فتح کرکے اپنی نوآبادی بناچکے تھے‘‘۔’’بولیویا کی کمیونسٹ پارٹی کے قائد کاکیا عجیب کردار تھا،ایک ایسے ملک کی کمیونسٹ پارٹی کے قائد کا جس کے دارالحکومت کو لوگ آج بھی جنگ آزادی کے ہیروز کے نام کی نسبت سے Sucreکے مقدس نام سے یاد کرتے ہیں۔بولیویا کی آزادی کیلئے کٹ مرنے والے یہ دونوں ہیرو بولیویائی نہیں تھے بلکہ ان کا تعلق وینزویلا سے تھا۔مونجے کے پاس موقع تھا کہ وہ چی جیسے سچے،عظیم اور بلند مرتبہ انقلابی کے ساتھ تنظیمی سیاسی اور عسکری معاونت کو یقینی بناتا،جو قومیت،سرحدپرستی اور حب الوطنی جیسے معمولی و محدودآدرش سے کہیں بلند ایک بڑے جذبے اور آدرش کو اپنے جسم وجان کا حصہ بناکر وہاں لڑائی لڑرہاتھا۔مونجے نے عملی طورپر تو کچھ نہ کیا لیکن وہ قیادت کے سوال کو ابھار کر نظریات اور انقلاب کی خدمت ضرورکرتارہا‘‘۔(Ernesto Che Guevara, Bolivian Diary, “A Necessary Introduction” by Fidel Castro, pp. xxxi-xxxii.)

کاسترو یہیں ختم نہیں کرتا بلکہ وہ مونجے سمیت کمیونسٹ پارٹی کے دوسرے قائدین پر مزید روشنی بھی ڈالتا ہے؛

’’ان سب حالات سے ناخوش مونجے،تحریک کو سبوتاژکرنے پر اترآیا جب اس نے تربیت یافتہ کمیونسٹ ساتھیوں کو اس وقت روک دیا جب وہ انقلابی گوریلوں کے ساتھ شامل ہونے جارہے تھے۔یہ سب وہ لوگ تھے جو انتہائی اعلیٰ تربیت یافتہ تھے اور جو مسلح جدوجہد کیلئے درکار سبھی خوبیوں اور صلاحیتوں سے لیس تھے۔پارٹی کے یہ سب تربیت یافتہ ساتھی اس جنگ میں شریک ہونے کے آرزومند تھے لیکن بدقسمتی یہ تھی کہ ان کی قیادت نااہل بزدل اورسازشی افراد کے ہاتھوں میں تھی‘‘۔(ایضاً)

اور خود اپنی اس لکھت میں کامریڈ چی کیا لکھتا ہے!جنوری کے انت میں،اس مہینے کا خلاصہ وہ کچھ یوں بیان کرتاہے؛

’’اور جیسا کہ مجھے خدشہ تھا،پہلے تو مونجے کی شکل بگڑ گئی،اس کے کچھ دیر بعد وہ چڑچڑاگیا۔اس کا لہجہ تضحیک آمیز ہوگیا‘‘۔

’’پارٹی اب ہمارے خلاف ہتھیاراٹھانے تک کو تیار ہو گئی ہے۔اور میں نہیں جانتا کہ یہ لوگ اور کس حد تک ہمارے خلاف جائیں گے!لیکن ہم اس سے نہ گھبرانے والے ہیں نہ ہی رکنے والے!بلکہ مجھے لگتاہے کہ اس سے ہمارے حوصلوں ہمارے جذبوں میں اور بھی اضافہ ہوگا(کم از کم ذاتی طورپر میں تویہی سمجھتا ہوں)ان میں سے جذبے اور جرات سے مسلح کئی ساتھی ہمارے ساتھ لڑائی میں شریک ہوجائیں گے۔اور کچھ نہ بھی ہواتو ضمیر کا بوجھ ان کو خاموشی سے گھر بیٹھنے پر مجبورکردے گا‘‘۔

’’مؤسس گوئیوارا کی طرف سے مثبت جواب ملا ہے،دیکھنا یہ ہے کہ آگے چل کر وہ اورا س کے ساتھی ہمارے ساتھ کیا رویہ اور تعلق رکھتے ہیں!‘‘

’’تانیہ کہیں جا چکی ہے،لیکن ارجنٹائن کے ساتھیوں کی زندگی کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں،لگتا ہے تانیہ بھی!اب صحیح معنوں میں لڑائی کو گوریلا مرحلہ آچکا ہے۔اب ہمیں اپنی سپاہ کو آزمانے کا موقع ملے گا۔اس کا فیصلہ اب وقت کرے گا کہ یہ کتنے باصلاحیت ہیں اور بولیویا کے انقلاب کا مقدر کیا ہے؟‘‘۔

’’جس بات نے ہمیں ذہنی طورپر محصور کئے رکھا وہ ایک ہی مشکل ترین ہدف تھا کہ ہم بولیویائی ساتھی ریکروٹ کر سکیں جو ہم نہیں کر سکے‘‘۔

چی گویرا کی اس لڑائی میں شامل یا اس کی حمایت کرنے والے وہ لوگ تھے جو اپنی قیادت کی خواہش کو خاطر میں نہیں لائے۔ چی کی اس لکھت Bolivian Diary سے پتہ چلتا ہے کہ بولیویائی کمیونسٹ پارٹی کے مسائل نے ان گوریلوں کی صلاحیتوں کو ان کامیابیوں سے محروم کردیا جو یہ حاصل کر سکتے تھے۔اس کی بدولت ہی انقلابی گوریلوں کی کامیابی کا ہر امکان موت کے گھاٹ اتر گیا۔

ریجس ڈیبرے

چی کے ساتھ اپنے تعلق کے حوالے سے مشہورہونیوالے اور ان تعلقات سے ’’خاطرخواہ استفادہ‘‘ کرنے والے ریجس ڈیبرے کا ان سبھی معاملات میں اہم رول رہاہے۔اس کے بارے میں عام طورپر یہ تصور پایا جاتا ہے کہ وہ بولیویا میں چی کے شانہ بشانہ رہا۔یہ کسی طور پر سچ نہیں ہے۔وہ کبھی کسی لڑائی میں شامل نہیں رہابلکہ اس کی وجہ سے ان گوریلوں کو بڑے سنجیدہ مسائل اور دقتوں سے بھی دوچارہوناپڑا۔چی نے ہمیشہ اس پیٹی بورژوا دانشور کے ساتھ اپنا رویہ اہانت آمیز رکھا۔اس کی ڈائری کے صفحات واضح طورپر اپنے اس ’’عظیم‘‘ہم سفر کے بارے بیزار ی کی نشاندہی کرتے ہیں۔کہیں بھی اس کی تعریف وتوصیف نظر نہیں آتی۔ ڈیبرے اور ارجنٹائن کاایک پینٹر سائرو بستوس اس کے خیمے میں ’’انقلابی سیاح‘‘کے طورپر ملاقات کیلئے آئے تھے۔ان مہمانوں نے ان کی کوئی خدمت تو کیا کرنی تھی البتہ ان کی مصیبت اور اذیت میں ضرور اضافہ کیا۔انہوں نے اپنے تئیں ایک کام اپنے ذمے لیا کہ وہ باہر کی دنیا سے رابطے کا فریضہ سرانجام دیں گے۔رفتہ رفتہ ان کی ناموری بڑھنے لگی وہ بھی گوریلوں کی قیمت پر۔ڈائری سے پتہ چلتا ہے کہ چی کو شروع سے ہی ڈیبرے پر شک ہوچلاتھا؛

’’اس نے کچھ زیادہ ہی لجاجت اور متانت سے خود کو اس بات کا ماہر قرار دیا کہ وہ باہر کی دنیا سے رابطے کیلئے واحدموزوں شخص ہے‘‘۔(Ernesto Che Guevara, Bolivian Diary, p. 69.)

چی کی تشویش کی جلد ہی تصدیق ہو گئی،بدترین حالات سے گھبرا کر انہوں نے چی سے لوٹ جانے کی اجازت طلب کی۔جلد ہی راستے میں فوج کے ہاتھوں دھر لئے گئے۔انہوں نے فوج کو ایسی اہم اطلاعات فراہم کر دیں جو گوریلوں کیلئے زندگی موت کا باعث تھیں۔بستوس تو باقاعدہ طور پر گوریلوں سے غداری کا مرتکب ہوا اور ان کے خلاف ایک گھٹیا قسم کامخبر ہی بن گیا۔ یہاں تک کہ اس نے فوج کو گوریلوں کے پورٹریٹ بھی بناکر دیے تاکہ ان کی شناخت آسان ہو سکے۔بعد میں ریجس ڈیبرے کے مقدمے نے عالمگیر شہرت حاصل کرلی اور وہ بھی کچھ ایسی کہ وہ گوریلے جو اپنی جان ہتھیلیوں پر رکھ کر لڑائی لڑتے رہے یوں پس منظر میں ہی چلے گئے کہ جیسے ساری جدوجہد کا مرکز ڈیبرے ہی تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس مقدمے نے بولیویا حکومت کو تشویش میں مبتلا کر دیاتھا لیکن اسی مقدمے کی وجہ سے ہی اس کا گوریلوں کے بارے رویہ اور بھی سخت ہوگیا۔یہ بھی ممکن ہے کہ صدر بیرنتوس کی طرف سے گویرا کو قتل کرنے کے حکم دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ وہ میڈیاٹرائل کی دوبارہ گرفت میں آنے سے خو دکوبچاناچاہ رہاتھا۔

Translation: The Struggle (Pakistan)