صحافت،ریاست اور سیاست کا وحشی کھیل

Urdu translation of Britain: News of the World Scandal - the ugly face of capitalism (July 13, 2011)

فریڈ ویسٹن ۔ ترجمہ؛ اسد پتافی

چنگاری ڈاٹ کام،16.07.2011

فون ہیکنگ سکینڈل ،جس کے نتیجے میں معروف ترین اخبار’’نیوز آف دی ورلڈ‘‘کو بندہوناپڑاہے ،نے برطانوی اسٹیبلشمنٹ کی اندرونی خرافات کو جو کہ اب تک دبی چلی آرہی تھیں ،سب کے سامنے عیاں وعریاں کر دیاہے ۔برطانوی حکمران طبقے کا کھوکھلا پن بھی اس سکینڈل کی وجہ سے سب پر کھل چکاہے جو کہ اپنے تئیں جمہوریت کاسب سے معتبر چیمپین قرار دیتے نہیں تھکتا تھا۔اب یہ بات ہر عام خاص کے علم میں آچکی ہے کہ کس طرح ایک طاقتور میڈیا گروپ حکمرانی اور سیاست پر اپنی شاہی قائم رکھے چلا آرہاتھا ۔یہ گروپ سیاستدانوں کو بناتا بھی آرہاتھا اور انہیں منظر سے ہٹانے میں بھی پیش پیش چلا آرہاتھا ۔یہ پولیس افسروں کو خریدنے میں بھی بہت ماہر تھا۔اپنے بنائے ہوئے سیاستدانوں کے اثرو رسوخ کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ ہمہ قسم کام لیتاتھا۔اور ان کاموں میں مجرمانہ افعال بھی شامل ہوتے تھے ۔

یہ کسی طور ایک معمولی یا معمول کا سکینڈل نہیں ہے کہ جسے آپ اٹھا کر سامنے لے آئیں اور پھر جب جی چاہے اسے قالین کے نیچے چھپاکے مطمئن ہوجائیں کہ یہ پبلک کی نظروں سے اوجھل ہوگیاہے۔اس کے برعکس یہ ریاستی اسٹیبلشمنٹ کے اندر موجود گھن بن چکے بحران کا اظہار ہے ۔برطانیہ کے ہر عام فرد کو اس سکینڈل کی تفصیلات نے غم وغصے اور ذلت و تحقیرکے احساس میں مبتلا کر کے رکھ دیاہے ۔لیکن اس سب کچھ سے بڑھ کر اس سکینڈل نے ریاست کے طاقتور ستونوں کی طاقت کو ہی سوالیہ نشان بنا ڈالا ہے ا ور ان کی اتھارٹی کی تباہی کا خطرہ سامنے لے آیاہے ۔

سماج میں جو سطوت و عظمت ،طاقت کے ان سرچشموں نے قائم کر رکھی تھی وہ اب داؤ پر لگ چکی ہے ۔ میڈیا ،ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کا ایک موثر ہتھیار چلا آرہاہے ۔یہی وہ ذریعہ اور طریقہ ہوتاہے کہ جس کو استعمال میں لاتے ہوئے حکمران طبقات اپنے خیالات وافکار عوام الناس تک پہنچاتے چلے آرہے ہوتے ہیں۔خاص طور پراس وقت کہ جب کوئی بھی اہم ہڑتال ہونے جا رہی ہو۔کتنے ہی ایسے مواقع سامنے آچکے ہیں کہ جب محنت کش طبقے کی ہڑتالوں اور عوامی مظاہروں کی مقدارومعیار کو یہ میڈیا کمتر بناکر پیش کرتا آیاہے ۔اسی سال26مارچ کو ہونے والے ٹریڈ یونین مظاہرے کی تازہ ترین مثال ہم سب کے سامنے ہے ۔تاہم مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کس طرح سے اور کس قدر جھوٹ بولے اور شائع کئے جاتے ہیں ،ہڑتال مظاہرے کرنے والے ورکروں کو لالچی اور بے عقل کہااور لکھا جاتاہے۔خاص طورپر گٹر پریس اس قسم کے فقرے لکھنے میں پیش پیش ہوتاہے ۔انہی میں سے ایکNoWیعنی نیوز آف دی ورلڈ بھی تھا۔اس اخبار نے تو اپنا وطیرہ ہی بنالیاتھاکہ یہ سوشل سیکورٹی کے حوالے سے کئی کہانیاں شائع کرتااور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتاتھا کہ سبھی مسائل کی وجہ صرف اور صرف ریاست کی جانب سے سماجی فلاح وبہبود پر کئے جانے والے اخراجات ہی ہیں۔جنہیں کم یا ختم کیا جائے تو مسئلے کم یا ختم ہوسکتے ہیں۔اس قسم کے بیانات اکثر میڈیا کی زینت بنے رہتے ہیں اور جنہیں معروضی حقیقت سمجھ کر پیش کیا جاتا رہاہے ۔اس سکینڈل نے اس حقیقت کے جھوٹ کا پول کھول کے رکھ دیاہے ۔

لیکن اس وقت معاملہ فقط میڈیاتک ہی محدود نہیں رہاہے بلکہ پولیس کا ادارہ بھی سوالوں کی زد میں آچکاہے ۔کیونکہ یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے کہ بہت سے اور بڑے بڑے پولیس افسران ،NoWکے اخباری دیوتاؤں کو اندر کی خبریں اور حالات دیتے اور بیچتے چلے آرہے تھے ۔ یہاں تک کہ بہت سوں کے نجی فون نمبر بھی فراہم کئے گئے اور پھر ان کو ’’ہیک‘‘کیا جاتارہا۔ دوسری طرف سیاستدانوں کی ساکھ بھی اس سکینڈل کے بعد داؤ پر لگ چکی ہے ۔

ارکان پارلیمنٹ کے اخراجات کا سکینڈل ہی اگرچہ کم اہمیت کا نہیں ہے ،موجودہ مخلوط ٹوری حکومت سے لے کر سابقہ لیبر حکومت کے ارکان تک سبھی گندگی کی اس دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔جہاں تک ڈیوڈ کیمرون کا تعلق ہے ،ان کے بارے میں مرڈوک نیوز انٹرنیشنل کی چیف ایگزیکٹوربیکا بروکس کا بیان کافی ہے ۔چنانچہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح ہمارے ملک کے وزیر اعظم اخباری دنیا کی اس ملکہ عالیہ کے میڈیائی دام کا شکار رہے ہیں ۔جب وزیر اعظم کی یہ پوزیشن ہو تو بجا طور پر بہت سے لوگ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ اور بھی کئی عظیم المرتبت رہنما میڈیا کے اس مایا جال کا شکار رہے ہوں گے۔

صورتحال کی سنجیدگی

حکمران طبقات کی اس معاملے میں سنجیدگی کااندازہ معروف جریدے ’’دی اکانومسٹ‘‘کے تازی شمارے سے لگایا جاسکتا ہے؛جولائی کے پہلے شمارے کے اہم مضامین میں سے ایک کی سرخی ’’فون ہیکنگ سکینڈل؛ندامت کی بند گلی‘‘ہے اور اس میں جو زبان استعمال ہوئی ہے وہ اس جریدے کے عمومی لب ولہجے سے بالکل مختلف ہے ۔یہ سرمایہ داری کے ایک انتہائی اہم اور سنجیدہ مبصر کی جانب سے کیا جانے والا تبصرہ ہے جس میں برطانوی اسٹیبلشمنٹ کو واضح تنبیہ کی گئی ہے ۔ان مضامین میں سکینڈل کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات اٹھانے کا کہا گیاہے تاکہ اسٹیبلشمنٹ جیسے اہم ترین ادارے کی ساکھ اور اتھارٹی کو بحال کیا جاسکے ۔جریدے کے اٰیڈیٹر نے اس بارے میں جو کھلی بات لکھی ہے وہ کچھ یوں ہے ’’اس قسم کی صحافت کو سوائے گٹر پریس کے کوئی اور نام نہیں دیاجاسکتاہے ‘‘۔مضمون میں کہاگیاہے کہ ’’صحافت سے بوآنا شروع ہو چکی ہے‘‘۔لیکن اگلے ہی جملے میں یہ بھی کہا گیاہے کہ یہی حالت وکیفیت برطانوی سیاستدانوں اور خاص طورپرپولیس والوں کی بھی ہو چکی ہے‘‘۔

یہ حقیقت کہNoWنے کئی افراد کے ذاتی فون ہیک کئے تھے،پہلے سے ہی کئی لوگوں کے علم میں آچکی تھی ۔لیکن تب تک یہ بات یوں تھی کہ یہ ہیکنگ صرف مشہور شخصیات اور فلمی ستاروں تک ہی محدود تھی۔اس قسم کے افراد کے فون کی ہیکنگ بارے عام لوگوں کو اس قدر تشویش نہیں ہوتی تھی۔لیکن پھر جب لوگوں کو پتہ چلا کہ قتل ہونے والے ،عراق افغانستان کی جنگوں میں ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ ،دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کے خاندانوں کے فون بھی ہیک کئے جاتے رہے ہیں ،تو لوگوں کے ادراک اور احساس کا انداز ہی بدلتا چلا گیا۔’’اکانومسٹ ‘‘کے بقول ’’ پچھلے ہفتے تک مشہور افراد،سیاستدان،صحافی ؛یہ سب اس قابل تھے کہ ان کے فون ہیک کئے جائیں تو کوئی پرواہ نہیں بلکہ وہ شاید اسی قابل ہی تھے لیکندہشت گردی کا شکار ہونے والوں ،جنگوں میں ہلاک ہونے والے سپاہیوں اور دو قتل ہوجانے والی لڑکیوں کے اہل خانہ کے فون ہیک کرنا ،اگر یہ سب سچ ہے تو یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ جو جرائم کے ماتھے پر کلنک قراردیا جاسکتا ہے ‘‘۔

طریقہ ء واردات

’’اکانومسٹ‘‘ اس سکینڈل کا اکیلا ذمہ دار صرفNoWکے نیوز روم میں بیٹھنے والوں کو ہی قرار نہیں دیتا بلکہ یہ وضاحت کرتاہے کہ ’’برطانیہ کے دوسرے جرائد بھی کہ جو اپنے مخالف کو اس وقت ٹھوکر مارنا کارثواب سمجھتے ہیں کہ جب وہ نیچے گر چکاہو،NoWکی جانب سے فون ہیک کئے جانے کے معاملات پر چپ سادھے رہے ہیں۔

جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ اخبار ،دوسروں کی نسبت ،قانون کی دھجیاں اڑانے میں مادرپدر آزاد ہوتا چلا گیا‘‘۔اب یہ تسلیم کیا جانے لگا ہے کہNoWنے جس قسم کے طریقے اپنائے ہیں ،وہ برطانیہ کے اخبارات کا روزمرہ کا معمول چلے آرہے ہیں ۔اگر ہم برطانیہ کے پانچ مرکزی جرائد ’’دی سن ‘‘’’ڈیلی مرر‘‘’’ڈیلی سٹار‘‘’’ڈیلی میل ‘‘اور ’’ڈیلی ایکسپریس‘‘کا جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلتاہے کہ یہ مالکان کے ہاتھوں استعمال ہونے والاپروپیگنڈے کا اہم ترین ذریعہ ہیں ۔ان سبھی جرائد کے قارئین کی مجموعی واجتماعی تعداداسی لاکھ سے زائدہے ۔اکانومسٹ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ برطانیہ کے لوگوں کی بھاری تعداد جن اخبارات سے مستفید ہوتی آرہی ہے ،وہNoWسے کسی طور بھی بہتر نہیں ہیں اور سبھی ایک جیسے ہیں۔

اس قسم کے انکشافات موجودہ حکومت اور جس طبقے کی یہ نمائندہ ہے ،کے برے وقت میں سامنے آئے ہیں۔اس وقت طالبعلموں سے یہ کہا جارہاہے کہ وہ اپنی ٹیوشن فیسوں میں اضافے کو قبول اور برداشت کریں ۔ محنت کشوں سے یہ کہا جارہاہے کہ وہ اپنے اوقات کار بڑھائیں،زیادہ عمر تک کام کرتے رہیں اور اس کے بعد ملنے والی اپنی پنشنوں میں بھی کمی کو بھی قبول کرلیں ۔جبکہ کام کرنے والوں کی بڑی تعدادکوآنے والے دنوں میں روزگار سے محرومی کا بھی سامنا ہے ۔کوئی احتجاج کئے اور کوئی لڑائی لڑے بغیر محنت کرنے والوں کو یہ سب کچھ تسلیم کرنے کیلئے آمادہ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔وہ سبھی اسی لاکھ سے زائد افراد جو کہ ان جرائد کو پڑھتے ہیں کو یہ سمجھایا جارہاہے کہ اس کے علاوہ نہ کوئی چارہ ہے نہ ہی راستہ ۔لیکن اب ان سبھی جرائد کی ساکھ انتہائی مجروح ہو چکی ہے ۔اور یہی وجہ ہے کہ جس کی بدولت ’’اکانومسٹ‘‘کا لب ولہجہ اس قدر تلخ اور سنجیدہ ہواہے ۔اس کے مدیران کا خیا ل ہے کہ ’’جب تک اس قبیح فعل کے خلاف سنجیدہ اقدامات نہیں لئے جاتے ،جب تک اس کے ذمہ داران کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نہیں نمٹا جاتا،تب تک میڈیا کی ساکھ بحال نہیں کی جاسکتی ہے ‘‘۔

پولیس فورس بھی سخت مشکل میں آچکی ہے ۔’’اکانومسٹ‘‘کے اسی مذکورہ اداریے میں کہا گیا ہے کہ ’’اس کے بعد پولیس والے ہیں ۔میٹرو پولیٹن پولیس کی جانب سے فون ہیک کرنے کی ابتدائی خبریں انتہائی شرمناک ہیں ۔کئی سالوں تک یہ پولیس والے خفیہ دستاویزات کے بھاری پلندے پربے نیازانہ بیٹھ کر آرام کرتے رہے ۔بے توجہی ایک اور معاملہ ہے ۔لیکن یہاں تو پولیس بڑے جرائد کے ہاتھوں کا دستانہ بنی رہی ہے ۔ایک باہمی معاہدہ چپ چاپ تشکیل دیاجاتاہے کہ ہم تمہیں کہانیاں دیں گے اور آپ لوگ ان کمزور مجرمان کاشکارکریں گے۔اور ہاں یہ بھی یاد رہے کہ جب یہ سب کچھ ہورہاہوتو آپ اپنے ہاتھ اپنی اپنی جیبوں میں ٹھونسے رہنا تاکہ کسی کو بھی شک وشبہ نہ ہونے پائے ۔پچھلے مہینے ہاتھ لگنے والی کئی فائلوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پولیس نےNoWوالوں سے کافی رقم اینٹھی ہے‘‘۔

یہ بات بھی سامنے آچکی ہے کہ اہم عہدوں پر فائز کئی پولیس افسران نے بھرپور کوشش کی کہ فون ہیکنگ کو ایک معمولی سی بات قراردے دیاجائے ۔سکاٹ لینڈ یارڈکے ایک سینیر اسسٹنٹ کمشنرجان ییٹس نے2009ء میں یہ فیصلہ کیاتھا کہ فون ہیکنگ کے معاملے کو دوبارہ نہ کھولا جائے ۔اس کے باوجود کہ یہ باتیں عام ہوچکی تھیں کہ ہزاروں لوگ اس مجرمانہ فعل کے ہاتھوں ذلیل ہورہے ہیں ۔اب یہی سابقہ افسر اس بات پر کف افسوس ملتا اور اشک بہاتانظر آرہا ہے کہ میرا اس وقت کافیصلہ بہت بڑی غلطی تھی ۔وہ عوام سے اپنی ندامت کا اظہار کرتے ہوئے معافی کا طلبگار بناہواہے ۔ایسا لگتاہے کہ پولیس کے ہی اسسٹنٹ کمشنر اینڈی ہیمین کہ جس نے فون ہیکنگ کے معاملے کی چھان بین کی نگرانی کی تھی ،اب اس معاملے کو مزید آگے لے جانے کیلئے لیت ولعل سے کا م لے رہاہے کیونکہNoWوالوں کے پاس اس کی ذاتی زندگی کے حوالے سے کچھ ثبوت موجود ہیں ۔جسے اینڈی کسی طور بھی پبلک نہیں کرنا چاہے گا۔اس بات کا بھی انکشاف ہواہے کہ اینڈی کو اس وقت NoWوالوں کی جانب سے خصوصی دعوت شیراز پیش کی گئی تھی کہ جب یہ سکینڈل عین عروج پر پہنچاہواتھا۔یہ تو وہ دو افسران ہیں کہ جنہوں نے معاملے کو آگے لے جانے کی بجائے ویسے کا ویسے رکھنے کی کوشش کی ۔لیکن تازہ ترین انکشافات میں کچھ اور افسران بھی سامنے آئے ہیں لیکن جن کے نام ابھی تک پوشیدہ ہیں ،جنہوں نے NoWوالوں سے بھاری رشوت وصول کی ۔ ایسے عالم میں کہ جب پولیس والے احتجاج کرنے والے طالبعلموں کو سبق سکھانے ،اور کارخانوں میں قائم ہڑتالی مزدوروں کی پکٹس کو تہس نہس کرنے کا فریضہ سرانجام دینے میں مگن ہوتی ہے عین اسی وقت یہ مجرمانہ سرگرمیوں میں بھی ملوث رہتی ہے۔یوں ریاست کا ایک اہم ادارہ اپنی ساکھ گنوا رہاہے ۔اب یہ مطالبہ سامنے آچکاہے کہ اس سارے معاملے کی تفتیش کیلئے ایک ’’فل جوڈیشل انکوائری‘‘کی جائے ۔ایک بار پھر ’’اکانومسٹ ‘‘اس بارے تلخ بات لکھتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’اگر اس معاملے کی عدالتی تحقیقات کے بعد’’ فلیٹ سٹریٹ‘‘ اور ’’سکاٹ لینڈ یارڈ ‘‘کو خون سے بھی دھونا پڑے تو کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہئے ‘‘۔دوسرے الفاظ میں کچھ قربانی کے بکرے تیار کئے جارہے ہیں تاکہ عوام الناس کی نظروں میں اعتماد بحال کیا جائے اور یہ تاثر دیاجائے کہ کنویں کا پانی صاف ہوگیاہے ۔بلاشبہ ان کا نصب العین یہ ہے کہ’’اگر آپ معاملات کو جوں کا توں رکھنا چاہتے ہیں تو اس کیلئے معاملات کو تبدیل کرنا پڑے گا‘‘۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہمارے ملک کے وزیر اعظم کو ’’اکانومسٹ ‘‘کے ایڈیٹرکی طرح مطالعے کا زیادہ شوق نہیں ہے اور وہ ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کا قلع قمع کرنے میں کم دلچسپی رکھتاہے ۔شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ ان مجرمان میں سے کوئی ایک اس کا قریب ترین دوست ہوں،شاید جناب کولسن۔یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ کیمرون اپنے دوست کو اس طبقے کے مفادات پر ترجیح دے رہاہے کہ جس کی وہ نمائندگی کرتاہے ۔شاید اسی وجہ سے ہی ’’اکانومسٹ‘‘ وزیر اعظم کے خلاف سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے لکھتاہے کہ ’’مسٹر کیمرون کا معاملے کی انکوائری کرنے سے گریز ،اس کی کم نظری اوربزدلی کی غمازی کرتاہے ‘‘۔اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ کیمرون کو،جسے پہلے پہل اس کے آقاؤں کی جانب سے پوری بریفنگ دی جاتی تھی اور اب وہ بھرپور کوشش کرے گا کہ اپنے آپ کو اس سارے معاملے سے الگ تھلگ رکھے۔

لیکن اس نے تاخیر کردی ہے اور کافی نقصان پہنچ چکاہے ۔پہلے ہی ہم دیکھ چکے ہیں کہ لبرل ڈیموکریٹس کو ٹوریوں کے ساتھ مخلوط حکومت میں شامل ہونے کا کافی خمیازہ بھگتنا پڑاہے ۔جبکہ اس دوران ٹوریوں نے ان کے کچھ ارکان بھی توڑلئے ہوئے ہیں۔اب یہ نیا سکینڈل خود ٹوریوں کو شدید مشکلات میں مبتلا کر رہاہے ۔کیونکہ اس کی قیادت اس سکینڈل کے کچھ مرکزی کرداروں کے ساتھ روابط میں ملوث ہے ۔

جمہوریت

اس سارے سکینڈل نے ساری حکومت ہی کو ہلاکے رکھ دیاہے ۔جریدے’’دی لندن ایوننگ سٹینڈرڈ‘‘نے اپنے اپنے اداریے میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’سب سے زیادہ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ پولیس ،سیاستدانوں اورپریس کا عوام کی نظروں میں امیج سخت متاثر ہواہے ۔

ان سب کی دیانتداری ہی جمہوریت کا مرکز ومحور سمجھی جاتی ہے ۔یہاں جمہوریت سے مراد وہ نہیں ہے کہ جو عام لوگوں کے ذہنوں میں پائی جاتی ہے ۔مالکان کیلئے جمہوریت ایک ایسا نظام ہوتاہے کہ جس میں عام بنیادی جمہوری حقوق میسر ہوتے ہوں،جن میں ووٹ دینے کا حق،آزادنی اظہار کاحق،لیکن جہاں حقیقی طاقت بڑی کارپوریشنوں کے ہاتھوں میں ہو،ان میں سے ہی ایک مرڈوچ کی میڈیائی سلطنت بھی شامل ہے ۔اس قسم کے اہم فیصلے کہ مملکت کی باگ ڈور کون سنبھالے گا اور و ہ کس قسم کی پالیسیاں اپنائے اور چلائے گا!یہ سبھی اہم فیصلے کسی طور محنت کش طبقے کے اختیار میں نہیں ہوتے۔اس قسم کے پارلیمانی نظام کے اندر ہم محنت کرنے والوں کے پاس کوئی اختیار نہیں ہواکرتے کہ ہم نے کب ریٹائر ہوناہے !ہمیں ایک ہفتے کے دوران کتنے گھنٹے کام کرنا چاہئے !ہماری کمائی میں سے کس قدر رقم ہمارے علاج اور ہمارے بچوں کی تعلیم پر خرچ کی جانی چاہئے!کیا ہمیں جنگیں کرنی چاہئیں یا نہیں جیسا کہ عراق افغانستان میں کیا گیا ! مسئلہ یہ ہے کہ مالکان بہت ہی قلیل تعداد کے لوگ ہوتے ہیں اور ایک طبقہ ہوتے ہیں اور ہمیں ہر وقت انہی کی بات کو سننا پڑتا ہے۔جبکہ آبادی کی بھاری اکثریت کو زندہ رہنے کے لالے پڑے ہوئے ہوتے ہیں ،اسے اپنے اپنے مالک سے اپنے لئے بگار لیناپڑتی ہوتی ہے ،چاہے وہ کارخانے کا مالک ہو،کسی تعمیراتی ادارے کا ہو ،کسی تعلیمی ادارے کا ہو کہ کسی کمپیوٹر ڈیسک کا۔

اس اکثریتی طبقے کے مفادات اقلیتی طبقے کے مفادات سے واضح تصادم رکھتے ہوتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ میڈیا ،پولیس اور پارلیمنٹ کی اہمیت اس قدر قیمتی ہواکرتی ہے اور جمہوریت کا مرکز و محور قرار پاتی ہے ۔عوام الناس کے شعور پر اپنی دھاک قائم رکھنے کیلئے ان کی ساکھ کا قائم رکھنا اور رہنا ازحد ضروری ہوتاہے ۔

موجودہ حکومت عام لوگوں کو مہذب زندگی کے ہر لوازمات سے دور رکھنے کیلئے ہر ممکن وحشیانہ حملے کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔جن کے نتیجے میں پچھلے سال طلبا ء کی ایک بڑی تحریک پھٹ کر سامنے آئی تھی ۔جبکہ اس سال مارچ اور جون میں برطانیہ کی تاریخ کے سب سے بڑے ٹریڈ یونین مظاہرے بھی ہوئے ۔ جن میں لیکچررز،ٹیچرز اور سول سرونٹس بھی شریک ہوئے ۔اور یہ سب آنے والے واقعات کی ایک ابتدائی جھلک تھی ۔اس قسم کی نازک کیفیت میں اسٹیبلشمنٹ کیلئے لازمی ہوتاہے کہ وہ اپنے سبھی اداروں اور ہتھیاروں کو تازہ دم اور متحرک و معتمد رکھے۔میڈیا لوگوں کو اٹھتے بیٹھتے بتاتا رہے کہ کٹوتیوں کے منصوبے کتنے اہم بلکہ ناگزیر ہیں!اور اگر میڈیا ورکروں کو قائل رکھنے میں ناکام رہے اور وہ سڑکوں پر نکلیں تو پولیس ان کو سبق سکھانے کیلئے چوکس ہو۔جبکہ حکومت اور ریاست ان مزدور دشمن پالیسیوں کو مسلط کرنے کیلئے اپنی ساری طاقت صرف کرتی رہے ۔

تضادات

اس سکینڈل نے اور کچھ نہ بھی کیاہولیکن یہ ان سبھی اادروں کو کمزور ضرور کرگیا ہے ۔اس نے ارکان پارلیمنٹ کے اخراجات کا سکینڈل نمایاں کیاہے کہ جس کے باعث سارا سیاسی ڈھانچہ ہی ہل کے رہ گیاہے ۔

دوسری طرف بینکوں کے بحران نے اداروں کے تضادات کو اور بھی تیز و نمایاں کیاہے ۔لاکھوں لوگ دیکھ رہے ہیں کہ ایک طرف وہ اپنے بلوں کی ادائیگی سے قاسر ہوتے جارہے ہیں جبکہ دوسری جانب بینکار وں کو بونس پر بونس دیے جارہے ہیں ۔یہ سب کچھ ،تناؤ کو گہرا اور متشددکررہاہے اور یہ سب کسی آنے والے لمحے میں ایک بڑے سیاسی اظہار کی صورت میں سامنے آسکتاہے کہ جس کا اس ملک میں پہلے کبھی سنا بھی نہ گیا ہوگا۔

یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ ریاستی اداروں کا ایک کے بعد دوسرا سکینڈل سامنے آتا جا رہاہے ۔ نیوز آف دی ورلڈ کی طرف سے استعمال ہونے والے طریقے اب کسی کیلئے نئے نہیں رہے ہیں ۔یہ تو کب سے استعمال ہوتے چلے آرہے تھے ۔ہاں البتہ ان کا پبلک میں اظہار اب جا کے ہورہاہے ۔نظام میں جب تک بہتر محسوس کرنے کی گنجائش موجود رہی تو سب اچھا چلتا رہا۔لوگ بڑی سی بڑی ہزیمت کو بھی برداشت اور قبول کرتے رہے ہیں۔لیکن اب لاکھوں کروڑوں انسانوں پر سخت سے سخت حملے کئے جارہیں تو ہر چیز پھٹ کر سامنے آنا شروع ہو گئی ہے ۔اگر لیبر قیادتاپنے اہداف سے باخبر ہوتوبرطانیہ میں موجود صورتحال ایک بڑی عوامی تحریک کی ابتدا کا باعث بن سکتی ہے ۔اور جو مالکان سمیت اس حکومت کے خلاف اٹھ سکتی ہے ۔بدقسمتی سے لیبر قیادت بھی ان مجرموں کے ساتھ سازبازہے اور ان کی طاقت سے سہمی ہوئی ہے ۔لاکھوں محنت کشوں کی حالت زار کا ،لیبر قیادت کی لڑائی لڑنے کی صلاحیت سے محرومی کا کوئی تال میل نہیں بن پارہا۔ہمارا یہ فریضہ بنتا ہے کہ ہم لیبرکی تنظیموں کو لاکھوں محروم انسانوں کی حالت کی طرف کھینچ کے لائیں اس کی ابتدا ٹریڈ یونینوں سے کی جانی چاہئے ۔اور پھر اسے لیبر پارٹی کے اندر تک لے جانا چاہئے ۔آنے والی جدوجہدوں کیلئے ہمیں مزدور تحریک کی قیادت کو تعمیر کرناہے ۔اگر یہ ہدف ہم پالیتے ہیں تو ہم اس بات کی ضمانت دے سکتے ہیں کہ موجودہ بحران کو حقیقت سے روشناس کراتے ہوئے محنت کش طبقے کو حقیقی جدوجہد کی طرف لے جاسکتے ہیں جسے ایک پر جوش قیادت بھی میسر ہوگی ۔

Translation: Chingaree.com