بھٹو کی میراث

عوام پاکستانی سرمایہ داری کے بحران کے بوجھ تلے کچلے جا رہے ہیں اور پیپلز پارٹی لیڈروں کی برسیوں اور سالگرہوں کی سیاست میں لگی ہے۔ 27 دسمبر کو بینظیر بھٹو کی برسی تھی اور 5 جنوری ذوالفقار علی بھٹو کا جنم دن منایا گیا۔

بھٹو خاندان کے مزاروں پر بینظیر کی برسی کے جلسے میں اس کے بیٹے بلاول کو پیپلز پارٹی کے نئے لیڈر کے طور پر متعارف کروایا گیا۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت ذوالفقار علی بھٹو کے نقش قدم پر چلنے اور اس کی سیاسی وراثت کی دعوے دار ہے۔ لیکن بھٹو کے 1967ء میں پیپلز پارٹی کے قیام کی بنیاد بننے والے انقلابی سوشلز م کے پروگرام کو ترک کردینے کے سوال پر اول تو جواب ہی نہیں دیا جاتا اور اگر دیں تو کہتے ہیں اب وقت اور حالات بدل چکے ہیں۔ ضیا الحق کے طیارے کے کریش کے بعد عوامی بغاوت کے خوف سے 1988ء میں پیپلز پارٹی کے اقتدار میں لائے جانے کے بعد سے بینظیر کے ریاست اور سامراج کے ساتھ سمجھوتوں اور پارٹی کے سرمایہ داری کے سامنے جھک جانے کی یہی توجیہ پیش کی جاتی ہے۔

پارٹی کا سوشلسٹ پروگرام ایک ایسے وقت میں اپنایا گیا جب ایوب خان کے ایک دہائی پر محیط جابرانہ اقتدار کے دوران تیز صنعت کاری، بلند شرح نمو اورسماجی اورمادی انفرا سٹرکچر میں قابل ذکر تعمیر کا نتیجہ عوامی بغاوت کی صورت میں نکلا۔ اس ترقی اور صنعت کاری کی بنیادی وجہ مغربی سرمایہ داری کے عروج کے اثرات تھے۔ لیکن بحران کا خاتمہ کرنے کی بجائے اس کینشئن معاشی ماڈل نے تضادات کو شدید تر کر دیا ا ور وہ آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑے۔

بھٹو اور کئی اور بائیں بازو کے سیاسی کارکن اس وقت کے بائیں بازو کے لیڈروں کی جانب سے ’قومی‘ بورژوازی کے ساتھ طبقاتی مفاہمت کی پالیسیوں سے تنگ آ چکے تھے اور انہوں نے بائیں بازو کی روایتی پارٹیوں کے جمہوری انقلاب کی بجائے سوشلسٹ انقلاب کا نعرہ بلند کیا۔ بنیادی بورژوا جمہوری مطالبات سے کہیں آگے کے اس پروگرام کی بدولت ہی پیپلز پارٹی رات و رات ابھری اور بھٹو ایک افسانوی کردار کی شکل میں سامنے آئے، جس کا سلسلہ عوام کی بائیں بازو کی روایت کی شکل میں اب تک جاری ہے۔ لیکن یہ عمل صرف پاکستان تک محدود نہیں تھا۔ 1950ء اور1960ء کی دہائی میں کئی نو آبادیاتی ممالک میں ایسا ہی معاملہ تھا جہاں کمیونسٹ پارٹیاں اور بائیں بازو کی حاوی قیادتیں ان پسماندہ ممالک میں عوامی تحریکوں کی امنگوں کی ترجمانی کرنے میں ناکام رہیں اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے قیادت کے خلا کو ان افراد یا گروپوں نے پر کیا جو سوشلسٹ نعرے اور پروگرام لے کر مروجہ معاشی نظاموں، ریاستوں اور سماجوں سے آگے کا پیغام دے رہے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ پاپولسٹ لیڈروں کے پاس سوشلسٹ انقلاب کو کرنے کے لیے نہ تو کیڈر نیٹ ورک والی پارٹیاں تھی اور نہ ہی لائحہ عمل اور نظریاتی پختگی۔ ایسے پاپولسٹ رجحانات ارجنٹینا میں پیرون، کانگو میں پیٹ رائس لوممبا، انڈونیشیا میں سوئیکارنو، چلی میں سلواڈور الاندے اور دیگر میں ممالک میں موجود تھے۔ تاہم ان لیڈروں اور پارٹیوں کے گرد بننے والی عوامی تحریکوں اور خصوصاً بعد ازاں ہونے والے ریاستی جبر نے انہیں سیاسی روایات بنا دیا جو محنت کش طبقات کی نسل در نسل میں جاری رہیں۔

ان میں سے بیشتر ممالک میں یہ تحریکیں اب بھی سیاسی منظر پر حاوی ہیں۔ ایک اور اہم عنصر ان تحریکوں کی کچھ حوالوں سے ثقافتی پسماندگی کی وجہ سے بڑی حد تک شخصیات کے ساتھ منسلک ہو جانا ہے۔ چناچہ ان ان پارٹیوں کا خاندانی سلسلہ بن جانا تقریباً ناگزیر تھا۔ آج پاکستان کی سیاست میں بھٹو کے زندہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عمومی طور پر جب بھی مجبور عوام پاکستان کے سیاسی منظر کو دیکھتے ہیں تو انہیں دائیں بازو کی پارٹیوں اور ماضی پرست تنظیموں کے بائیں جانب پیپلز پارٹی ہی نظر آتی ہے۔ چناچہ طبقاتی جدوجہد، انتخابات یا کسی سیاسی کاروائی میں شامل ہونے پر وہ پیپلز پارٹی کے پرچم تلے ہی اکٹھے ہوتے ہیں۔

لیکن پیپلز پارٹی یا دوسری خاندانی اور پاپولسٹ پارٹیوں اور ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک کی روایتی سوشل ڈیمو کریٹک اور کمیونسٹ پارٹیوں میں فرق ہے کیونکہ ان کے نہ تو صحیح معنوں میں پارٹی دھانچے موجود ہیں اور اندرونی جمہوریت بھی نہیں ہے اور تمام لیڈر اعلیٰ قیادت کی جانب سے انتہائی بھونڈے انداز میں نامزد کیے جاتے ہیں۔ اس لیے درست معنوں میں وہ سیاسی جماعتیں ہی نہیں ہیں۔ در حقیقت دو پیپلز پارٹیاں موجود ہیں۔ ان میں سے ایک کھل کر بورژوا پارٹی ہے جس کے نامزد عہدے داران ہیں اوراس کے ڈھانچوں کو ریاست اور حکمران طبقہ طبقاتی جدوجہد کے دھماکے یا امکان کی صورت میں عوامی تحریکوں کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ دوسری پیپلز پارٹی روایت کی سیاست کا بوجھ اٹھائے ہوئے بدحال محنت کش طبقات کے ذہنوں میں ہے جن کے پاس اپنے سلگتے مسائل کے حل کے لیے کوئی سنجیدہ متبادل نہیں ہے۔ مزید یہ کہ پیپلز پارٹی محنت کشوں کی جڑت کی علامت ہے اور کوئی تحریک چلانے پر یہ ان کا مشترکہ پلیٹ فارم اور اتحاد کا مرکز بن جاتی ہے۔

سمجھوتہ کر چکی قیادت کے عذر خواہ انتہائی شرمناک توجیہات پیش کرتے نظر آتے ہیں، خاص طور پر وہ جو انہیں بائیں بازو کا تحفظ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حالات کے بدل جانے کی وجہ سے سوشلزم کے غیر ضروری ہو جانے کی بات عوام کے زخموں پر نمک کی مانند ہے جو بوسیدہ سرمایہ داری کے ہاتھوں برباد ہو رہے ہیں۔ حالات تبدیل ضرور ہوئے ہیں لیکن کس سمت میں؟ 1960ء کی دہائی کی مقابلے میں عوام کی اکثریت کے لیے غربت، اذیت اور محرومی میں اضافہ ہوا ہے۔ معیشت، ریاست اور سماج کے شدید بحران اور عوام کی برباد حالت میںآج شوشلزم کی ضرورت چالیس برس پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت کے خاتمے اور ضیاء آمریت کے ہاتھوں ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کی حقیقی وجہ سرمایہ داری کا خاتمہ کرنے میں ناکامی تھی۔ سرمایہ دارانہ رشتوں کی موجودگی میں انتہائی ریڈیکل اصلاحات بھی عوام کو غربت اوراذیت سے باہر نہیں نکال سکتیں۔ بھٹو اور دوسرے لیڈروں کے قتل سے یہی سبق ملتا ہے کہ ادھوری اور ’کثیر الطبقاتی‘ پالیسیاں صرف تباہی اور بربادی کا موجب بنتی ہیں۔ اپنی آخری تحریر میں بھٹو نے لکھا کہ ’’طبقاتی جدوجہد ناقابل مصالحت ہے اور اس کا حتمی نتیجہ ایک طبقے کی دوسرے پر فتح ہے‘‘۔ بھٹو کی حقیقی میراث اور ان کی زندگی اور موت سے حاصل ہونے والا سبق بھی یہی ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی کی قیادتیں شعوری طور پر اس کو سمجھنے سے انکارکرتی رہی ہیں۔ لیکن عوام بہت تیزی سے سمجھتے جا رہے ہیں اور وقت آنے پر درست نتائج اخذ کریں گے اور اپنے پیروں سے ووٹ ڈالیں گے۔

Translation: The Struggle (Pakistan)