خون میں ڈوبا بلوچستان

بلوچستان میں ہزارہ اہلِ تشیع کے ہولناک، بے رحم اور لامتناہی قتل عام نے اس خطے میں بھڑکتی ہوئی آگ، قومی سوال اور فرقہ وارانہ تصادم کی پیچیدگی کو ایک مرتبہ پھر انتہائی دلخراش انداز میں بے نقاب کر دیا ہے۔

 بربریت کی یہ کاروائی ایک بوسیدہ ریاست اور نظام کی اس خطے میں امن اور خوشحالی لانے میں بری طرح ناکامی کا نتیجہ ہے۔ بلکہ ریاست کے کچھ حصوں کے اس ہلاکت میں ملوث ہونے کے شواہد ہیں۔ قریباً ایک دہائی سے ہزارہ افراد کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا جا رہا ہے۔ کوئی ایک بھی مجرم گرفتار یا قانونی کاروائی کی زد میں نہیں آیا۔ ظلم و جبر کی خاطر ریاست کی تخلیق کردہ مذہبی دہشت گر د تنظیموں کا اس جرم کے پیچھے ہونا سب پر عیاں ہے۔

معاشی اور سماجی بحران کے بڑھنے کے ساتھ پاکستانی سرمایہ داری کے گلنے سڑنے کے عمل میں ریاست مزید شکستہ ہوتی چلی گئی اور اسکی حرکات میں پاگل پن آتا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ جبراور دہشت گردی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ان مذہبی جنونی تنظیموں کی اکثریت کو حکمران طبقات کے مختلف دھڑوں اور ریاستی حکام کے مفادات کے تحفظ کی کاروائیاں سرانجام دینے کے لیے تخلیق کیا گیاتھا۔ یہ غیر ریاستی تنظیمیں ایسے راکھشس ہیں جنہیں ریاست کے کنٹرول سے باہر علاقوں اور حلقو ں میں کام کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ سامراجیوں، ریاستی ایجنسیوں اور رجعتی سعودی بادشاہت جیسی حکومتوں کی جانب سے ریکروٹ، تربیت اور مالی معاونت پانے والے ان جنونیوں کی تعلیم و تربیت مذہبی اور فرقہ وارانہ داستانوں کی بنیاد پر کی گئی۔ تاہم تیزی سے بدلتے حالات اور سامراجیوں اور پاکستان میں انکے کارندوں کی پالیسیوں میں فوراً اور یکسر تبدیلیوں کی وجہ سے ان بدمعاشوں کو قابو میں رکھنا مشکل اور پیچیدہ ہو گیا۔

ان جنونی تنظیموں کا شیرازہ بکھرنے لگا اور ٹوٹ کر علیحدہ ہونے والے عناصر کہیں زیادہ درندہ صفت اور دیوانگی کا شکار ہونے لگے۔ منشیات کی تجارت اور دیگر مجرمانہ کاروائیوں کے ذریعے جمع کیے گئے بے پناہ کالے دھن کی وجہ سے یہ جہاد اور دہشت گردی بے پناہ منافع بخش کاروبار بن گئے۔ 1978ء کے افغان انقلاب کے بعد سامراجیوں کی شروع کردہ اس لڑائی میں نو دولتی جنگجو سردار اور منشیات کے سوداگر ابھر کر سامنے آئے۔ پھوٹ پڑنے کے بعد علیحدہ ہونے والے گروہوں نے سب سے پہلے اپنے خالق آقاؤں کو نشانہ بنایا۔ اس کے علاوہ اس ٹوٹ پھوٹ اور بکھرنے کے عمل نے ریاست کے مختلف دھڑوں کو بھی ایک دوسرے کے بر خلاف لا کھڑا کیا جو پہلے سے ہی اکثر ان مذہبی جنونی تنظیموں کو استعمال کر تے ہوئے مختلف آپریشنوں میں باہم متصادم تھے۔ ریاستی اداروں کے اندرونی تنازعوں نے مسلح افواج کی جڑت اور قیادت کے نظام (Chain of Command) کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔

دوسرا عنصربلوچستان کا سٹریٹجک جغرافیہ اور اسکے معدنی وسائل کی دولت ہے جو یہاں کے باسیوں کی بدبختی بن چکی ہے۔ عالمی اور علاقائی طاقتوں کے اپنے سامراجی عزائم ہیں۔ وہ بھوکے گِدھوں کی طرح بلوچستان کے زندہ جسم پر جھپٹ کر اسے نوچ کھا رہے ہیں۔ اس سب نے سامراج کی پراکسی جنگوں کو جنم دیا ہے جن میں نہ صرف ریاستیں بلکہ ملٹی نیشنل کارپوریشنیں اس خطے کے وسائل کی لوٹ مار میں زیادہ سے زیادہ حصہ بٹورنے کے لیے بر سر پیکار ہیں۔ ایک جانب چینی مفادات اور امریکی سامراج کا خفیہ ٹکراؤ ہے جس کی بنیاد قدرتی وسائل کے علاوہ گوادر کی بندر گاہ اور ساحلِ مکران تک رسائی کا حصول ہے۔ اس طرح خطے میں بالا دستی کے لیے سعودی حکومت اور ایرانی ملا اشرافیہ کا تصادم ہے۔

بلوچستان کے مجبور لوگوں خاص طور پر ہزارہ اس فرقہ وارانہ پاگل پن میں مارے جا رہے ہیں۔ بلوچ عوام چھ دہائیوں سے زیادہ عرصے سے طبقاتی استحصال اور قومی جبر سہہ رہے ہیں۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ کے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جو وسائل کے اعتبار سے امیر ترین ہے۔ لیکن یہاں کے عوام انتہائی غربت اور اذیت کا شکار ہیں۔

تقسیم سے قبل بلوچستان کا بڑا حصہ ریاست قلات میں شامل تھا جسے محلاتی سازشوں اور ننگی جارحیت کے ذریعے پاکستان میں شامل کیا گیا تھا۔ پاکستانی ریاست کے قیام کے وقت ہی سے اس قومی جبر کے خلاف مزاحمت جاری ہے۔ 

 نے ریاست کے اس جبر کے خلاف کئی مسلح لڑائیاں لڑی ہیں۔ یہ پاکستان میں جاری طویل ترین بغاوت ہے جو جھکنے کو تیار نہیں۔ 1970ء کی دہائی کی جدوجہد کو فوج نے بے دردی سے کچلا تھا اور اس میں امریکی سامراج کے معاونِ خاص شاہِ ایران کی مدد بھی شامل تھی جسے سامراج نے مقبول قوم پرست رہنما مصدق کا ایک سازش کے ذریعے تختہ الٹ کر تخت طاؤس پر بٹھایا تھا۔ آزادی کی اس جدوجہد میں 5000 سے زیادہ بلوچ مارے گئے۔ بلوچ قوم پرستوں کے مطابق موجودہ لڑائی میں 8000 بلوچ طلبا اور سیاسی کارکنان ’ایجنسیوں‘ کے ہاتھوں اغوا ہو چکے ہیں۔ اگر بلوچ آزادی حاصل نہیں کر سکے تو فوج بھی انہیں شکست نہیں دے سکی۔

لیکن اس جدوجہد کا المیہ ہے کہ نہ صرف پاکستانی ریاست مروجہ سیاست کرنے والے لیڈروں کو خریدنے کی کوشش کرتی ہے بلکہ بہت سے سامراجی اس لڑائی میں گھس کر اسے اپنے مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جنرل شیروف کے نام سے مشہور بلوچ مزاحمت کے ہیرو شیر محمد مری جنہیں نے 1978ء میں انقلابی طلبا کے وفد سے کہا تھا کہ ’’ہم ایک آزاد سوشلسٹ بلوچستان کی خاطر لڑ رہے ہیں۔ ہمارا مقصداس کے ذریعے سارے خطے میں انقلابی سوشلزم کو پھیلانا ہے۔ ‘‘اس بیان سے1970ء کی دہائی میں جاری قومی آزادی کی جدوجہد کی نظریاتی اساس اور اس کے کردار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آج ریاستی جبر کے خلاف ہونے والی جدوجہد فرقہ وارانہ اور نسلی تنازعات کے ہاتھوں تقسیم ہو رہی ہے۔ ریاست کے منصوبہ ساز اس مزاحمت کو توڑنے کے لیے ان تنازعات کو ابھارنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ سامراجی کبھی بھی محکوم قومیتوں کے محنت کش عوام کے دوست نہیں رہے خصوصاً بلوچستان کے عوام کے۔ حقِ خود ارادیت بشمول علیحدگی بلوچستان کے مجبور عوام کا بنیادی حق ہے۔ انہیں ایسی ریاست میں رہنے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی کیا جا سکتا ہے جس میں بلوچ عوام کی اکثریت نہ رہنا چاہے۔ لیکن جابر سرمایہ دارانہ ریاست کو شکست دینے کے لیے اس کے جبر اور استحصال کا شکار سماج کے تمام حصوں کو تحریک میں یکجا کرنا ہو گا۔ اس کے لیے قومی آزادی کی جدوجہد کو طبقاتی جدوجہد سے جوڑنا ضروری ہے۔ اس سے وہ ناقابلِ تسخیر قوت پیدا ہو گی جو طبقاتی استحصال اور قومی جبر کے اس نظام کو اکھاڑ پھینکے گی۔ لینن نے قومی اور طبقاتی جدوجہد کے درمیان تعلق کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا ’’بلا شبہ حق خود ارادیت ایک جمہوری حق ہے، کوئی سوشلسٹ اصول نہیں۔ لیکن ہمارے عہد میں حقیقی جمہوری اصولوں کی حمایت اور ان کا حصول صرف انقلانی پرولتاریہ کر سکتا ہے؛یہی وجہ ہے کہ یہ حقوق سوشلسٹ فرائض کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ‘‘

Translation: The Struggle (Pakistan)