اسلام مخالف فلم: عیسائی اور اسلامی بنیاد پرستی کا بھائی چارہ

امریکہ میں رجعتی عیسائی بنیاد پرستوں کی جانب سے’’مسلمانوں کی معصومیت‘‘ نامی ایک گھٹیا، بے ہودہ اور اسلام مخالف فلم جسے جولائی میں انٹر نیٹ پر لگایا گیا، کے خلاف دنیا کے مختلف ممالک میں مظاہرے ہو رہے ہیں جن میں امریکی سفارت خانوں پر حملے اور لیبیا میں بن غازی میں امریکی کونسل خانے کے چار سفارت کاروں کا قتل بھی شامل ہے۔ہم ان سب کی وجوہات کا جائزہ لیں گے۔

رپورٹس کے مطابق پہلے اس فلم کا نام’ ’صحرا کے جنگجو‘‘ تھا اوراس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ فلم میں شامل اداکاروں کا دعویٰ ہے کہ وہ اس بات سے لا علم تھے کہ فلم اسلام کے متعلق ہے۔ بعد ازاں انٹر نیٹ پر آنے والی فلم کی کہانی دوبارہ ڈبنگ کر کے مکمل طور پر تبدیل کر دی گئی تھی۔ یہ جان بوجھ کر اس انداز میں کیا گیا کہ جس سے مسلمانوں کی توہین ہو۔

ابتدا میں یہ واضح نہیں تھا کہ اس فلم کے پیچھے کون ہے۔انٹرنیٹ پر پھیلائی جانے والی خبروں کے مطابق ’’سام بیسائیل‘‘ نامی شخص نے یہ فلم بنائی ہے اور ’’100سے زائد یہودیوں‘‘ نے اس کے لیے پیسہ دیا ہے۔ اس کاواضح مقصد یہ تاثر دے کر مسلمانوں کو مشتعل کرنا تھا کہ فلم امریکی یہودیوں نے بنائی ہے۔

بعد ازاں حقیقت سامنے آئی کہ سام بیسائیل نام کے کسی شخص کا وجود ہی نہیں اور اس فلم کو بنانے والا ایک سزا یافتہ فراڈیا ’ناکولا باسیلی ناکولا‘ نامی مصری قطبی عیسائی ہے جس کے امریکہ میں انتہائی دائیں بازو کی انجیلی عیسائی (Evangelical) تنظیموں سے قریبی تعلقات ہیں جنہوں نے اس فلم کے بنانے میں بھی مدد فراہم کی ہے۔ اس میں سٹیو کلین نامی سابقہ امریکی میرین فوجی بھی شامل ہے جو کیلیفورنیا کے گرجا گھروں میں لڑاکا ملیشیا کو تربیت دیتا رہا ہے۔ اس شخص کی دیگر کاروائیوں میں اسقا ط حمل کے مراکز پر حملے، امریکہ میں مساجد اور حتیٰ کہ عیسائی فرقے مورمن کی عبادت گاہوں کے خلاف تخریبی کاروائیاں شامل ہیں۔

’’ فلم‘‘ کو صرف لاس اینجلس میں چلایا گیا ہے جسے بہت کم تعداد میں لوگوں نے دیکھا۔ گزشتہ برس اسلام مخالف اشتعال انگیزی کے ذریعے خبروں میں مشہور ہونے والے فلوریڈا کے بدنام زمانہ’’پادری‘‘ ٹیری جونز کی اس فلم کو ابھارنے کی کوششیں بے سود ثابت ہوئیں جس کے بعد جولائی میں فلم سازوں نے اس فلم کو یو ٹیوب پر لگایا لیکن شاید ہی کسی نے اس کو دیکھاہو۔ اس وقت یہ رجعتی اور غلیظ حرکت ختم ہو سکتی تھی اور ایسی کئی دوسری حرکتوں کی طرح ہو سکتا تھا کہ یہ فلم بھی بھلا دی جاتی۔لیکن فلم میں لوگوں کی عدم دلچسپی سے مایوس فلم سازوں نے اس کا عربی میں ترجمہ کر کے اس فلم کو یو ٹیوب پر لگا دیا، لیکن تب بھی، ان دائیں بازو کے مذہبی انتہا پسندوں کی سر توڑ کوششوں کے باوجود اس کا کچھ خاص اثر نہیں ہو رہا تھا۔

لیکن پھر شیخ خالد عبدللہ سامنے آیا۔ لیکن یہ شیخ خالدعبداللہ ہے کون؟اس کا تعلق مصر سے ہے او ر اسلامی سیٹیلائیٹ ٹی وی اسٹیشن ’’الناس ‘‘پر اس کا پروگرام چلتا ہے۔ اس شخص کا موازنہ امریکہ کے گلین بیک سے کیا جاتا ہے جو ٹی وی اور ریڈیو پر اپنے پروگراموں میں ’’امریکی روایات‘‘ اور عیسائی بنیاد پرستی کا دفاع کرتاہے۔ خالد عبداللہ عرب انقلاب کامخالف ہے اور کچھ رپورٹس کے مطابق حسنی مبارک کا تختہ الٹنے والے جرات مند مصری نوجوانوں کو اس نے ’’فضول بچے‘‘ قرار دیا تھا۔ امریکی گلین بیک کی طرح اس کا مقصد بھی عیسائیوں اور مسلمانوں کے مابین تنازعہ کو مشتعل کرنا ہے۔

اشتعال انگیزفلم کو 8ستمبر کو دریافت کرنے کے بعد اس نے ٹی وی پر اس کے ایک حصے کو نشر کیا جس میں مسلمانوں کومشتعل کرنے والے حصے دکھائے گئے۔اس کے بعد سارا معاملہ جنگل کی آگ کی طرح پھیلتا چلا گیا۔ خالد عبداللہ رومیوں کے پرانے طریقے ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کو بخوبی جانتا ہے۔وہ مصر کے قطبی عیسائیوں کے خلاف نفرت ابھارنے پر خصوصی توجہ دیتا ہے جو آبادی کا دس فیصد ہیں۔

یاد رہے کہ حسنی مبارک کے خلاف عوامی تحریک میں عام مصری قطبی عیسائی اور مسلمان محنت کش شانہ بشانہ ایک ہی جدوجہد میں متحد تھے۔ایک سے زیادہ مواقع پر محنت کشوں کی طبقاتی یکجہتی کا اظہار دیکھنے میں آیا۔مبارک کے جانے کے بعد پرانی حکومت نے فوج کے ذریعے اس انقلاب کے دوران قائم ہونے والی یکجہتی کو توڑنے کے لیے اشتعال انگیزی پھیلانے کی کوشش کی اور عیسائیوں اور مسلمانوں کے خلاف اس انداز میں حملے کیے گئے کہ یہ ایک دوسرے کے خلاف جوابی کاروائی دکھائی دیں۔خالد عبداللہ کا ٹی وی شو مصری محنت کشوں اور نوجوانوں کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی انہی کوششوں کا حصہ ہے۔ اس کی زیادہ تر گفتگو مصری قطبی عیسائیوں کے خلاف ہوتی ہیں۔

اس کے شو میں فلم کے نفرت انگیز حصے کو بڑے پیمانے پرلوگوں نے دیکھا، خاص طور پرسلفیوں نے جو ایک بنیاد پرست اسلامی تحریک ہے اور مصری پارلیمان میں دوسرا بڑا گروپ ہیں۔ اس وقت تک سلفیوں کاایک چھوٹا منظم گروہ قاہرہ میں امریکی سفارت خانے کے باہر متواتر مظاہرے کر کے احتجاج کی تحریک شروع کرنے کی مسلسل لیکن بے سود کوشش کر رہا تھا۔لیکن پھر خالد عبداللہ ان کی مدد کو آیا اور نفرت انگیز فلم چلا کر امریکہ مخالف جذبات کو ہوا دی گئی۔

قاہرہ کے مظاہروں کے بعد لیبیا میں بن غازی کے واقعات رونما ہوئے جن میں چار امریکی سفارت کار قتل کر دیے گئے۔ اس کے بعد مظاہروں کا سلسلہ بنگلہ دیش، پاکستان، افغانستان،عراق، مراکش، انڈونیشیا اور دیگر ممالک تک پھیل گیا۔ مغربی میڈیا نے اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور ایک ایسی ’’اسلامی دنیا‘‘ کی تصویر پیش کی جس میں رجعتی عناصر، انتہا پسند اور بنیاد پرست غالب ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ مظاہروں میں شرکت کرنے والوں کی اصل تعداد بہت کم تھی۔ مثلاً تہران میں ’’مرگ بر امریکہ‘‘ کے نعرہ لگانے والے مظاہرین کی تعداد 500سے زیادہ نہیں تھی۔ لبنان میں 200اور یروشلم میں300 مظاہرین تھے۔ مراکش میں رپورٹوں کے مطابق ’’سینکڑوں سلفیوں نے امریکی پرچم نذر آتش کیے‘‘۔ سب سے ’’بڑا ‘‘مظاہرہ اردن میں تھا جہاں مظاہرین کی تعداد2000بتائی جا رہی ہے۔الجزیرہ کے مطابق سارے مشرقِ وسطیٰ اور دیگر خطوں میں نماز جمعہ کے بعد مظاہرے کرنے والوں کی مجموعی تعداد 5000کے قریب تھی۔ اسے کسی طرح بھی رد انقلاب کی ’’عوامی تحریک‘‘ نہیں کہا جا سکتا۔ در حقیت یہ چھوٹے پیمانے کی شورش ہے جسے عالمی میڈیا کہیں زیادہ بڑھا چڑھا کر دکھا رہا ہے۔

اس تعداد کا موازنہ تیونس، مصر اور دیگر ممالک میں عرب انقلاب میں شامل عوام کی تعداد سے کرکے طاقتوں کے حقیقی توازن کا اندازہ باآسانی لگایا جا سکتا ہے۔ میڈیا زیادہ تر انتہا پسندوں کی کال پر ہونے والے مظاہروں کو دکھا رہا ہے اور لیبیا میں عام عوام کے انتہا پسندوں کے خلاف مظاہرے اور اس جیسے دیگر واقعات کے متعلق مکمل خاموشی ہے۔

اس سب کے باوجود اس حقیقت کا ادراک بھی ضروری ہے کہ مشرق وسطیٰ اور دوسرے خطوں کے عوام میں حقیقی سامراج مخالف جذبات پائے جاتے ہیں۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ امریکی سامراج نے ان ممالک میں کئی دہائیوں تک عام محنت کشوں پر جبر کرنے والی بوسیدہ حکومتوں کو مالیاتی اور عسکری امداد فراہم کی ہے۔ آج بھی وہ ایسی حکومتوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال سعودی عرب ہے۔ سعودی فوج کی جانب سے بحرین میں گھس کر وہاں انقلاب کو کچلنے کو کس قدر آسانی سے نظر انداز کر دیا گیا! ان تمام واقعات کے پسِ پردہ سامراجی طاقتیں عوام کو گمراہ کرنے اور رجعتی قوتوں کو مسلط کرنے کی سازشیں کر رہی ہیں جس کی مثال مصر میں اخوان المسلمین کا اقتدار ہے۔ امریکی حکمران طبقے کو مشرق وسطیٰ کے محنت کش عوام سے کوئی ہمدردی تو نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ خالد عبداللہ جیسے افراد اتنی آسانی سے امریکہ مخالف جذبات کو ابھار لیتے ہیں۔ بد قسمتی سے صحت مند سامراج مخالف جذبات رد انقلابی سمت میں بہہ جاتے ہیں کیونکہ مصر میں محنت کشوں کی کو ئی عوامی پارٹی موجود نہیں جو محنت کش عوام کو طبقاتی بنیادوں پر یکجا کر سکے اور رجعتی عناصر کو اس سیاسی خلا سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل جاتا ہے۔

سامراج مخالف جھوٹی نعرہ بازی کے شور میں انتہا پسند اپنے رجعتی ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ مت بھولیں کہ اپنے مفادات کے لیے امریکی سامراج نے کئی مرتبہ اسلامی بنیاد پرستی کی پشت پناہی کرتے ہوئے اسکی مالی امداد کی ہے اور اپنے سامراجی مقاصد کے لئے اسے استعمال کیاہے۔ 1978ء کے ثور انقلاب کے بعد افغانستان میں سویت یونین کی جانب جھکاؤ رکھنے والی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے امریکہ کو اس ملک کے انتہائی رجعتی اور پسماندہ عناصر کی مدد کرنے میں کوئی مضائقہ محسوس نہیں ہوا جو بعد میں طالبان کے نام سے جانے گئے۔

در حقیقت اسلامی بنیاد پرست، عوام کے حقیقی سامراج مخالف جذبات کو استعمال کررہے ہیں لیکن ان کا مقصد اسے مکمل طور پر رجعتی مفادات کے لیے استعمال کرنا ہے۔ بہت عرصہ قبل ہی لینن اس خطرے کو دیکھ رہا تھا۔ کمیونسٹ انٹر نیشنل کی دوسری کانگریس کے لیے قومی اور نوآبادیاتی سوال پر ڈرافٹ تھیسس میں وہ لکھتا ہے کہ ’’زیادہ پسماندہ ریاستوں اور قوموں میں، جہاں جاگیر دارانہ یا قبائلی اور قبائلی کسان رشتے پہلے سے غالب ہیں، وہاں یہ ذہن نشین رکھنا بہت ضروری ہے کہ:

اول، تمام کمیونسٹ پارٹیوں کے لیے ضروری ہے کہ ان ممالک میں بورژوا جمہوری آزادی کی تحریکوں کی حمایت کریں، اور سب سے زیادہ سرگرم حمایت کی ذمہ داری سب سے پہلے اس ملک کے محنت کشوں پر عائد ہوتی ہے جس پر وہ پسماندہ قوم نوآبادیاتی یا مالیاتی طور پر منحصر ہے۔

دوم، پسماندہ ممالک میں مذہبی اشرافیہ اور دیگر رجعتی اور قرونِ وسطیٰ کے عناصر کے خلاف جدوجہد کی ضرورت۔

سوم، عالمگیر اسلام (Pan-Islamism)اور اس جیسے دوسرے رجحانات کے خلاف لڑائی لڑنے کی ضرورت، جو یورپی اور امریکی سامراج کے خلاف آزادی کی تحریک کو خانوں، جاگیر داروں اور ملاؤں وغیرہ کی حیثیت کو مستحکم کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘

بد قسمتی سے آج بائیں بازومیں ایسے لوگ موجود ہیں جو رجعتی اسلامی مذہبی اشرافیہ کے متعلق مارکسزم کے بنیادی مؤقف کو بھلا چکے ہیں، یا پھروہ کبھی اسے سمجھ ہی نہیں سکے۔ یہ واضح ہے کہ مذہبی رجعتی عناصر نے ایک جنونی رد عمل کو ابھارنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، جس کے لیے انہوں نے امریکہ کے انتہائی دائیں بازو کے رجعتی عیسائی بنیاد پرستوں کی جانب سے کی گئی اشتعال انگیزی کو استعمال کیا ہے۔ملا اشرافیہ حقیقت میں سامراج مخالف نہیں، لیکن عوام کے غصے کو اپنے مقصد کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں جو مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں شروع ہونے والے انقلابات کی جڑیں کاٹنا ہے۔

مصر سے موصول ہونے والی رپورٹوں کے مطابق ان مظاہروں کو کروانے والے زیادہ تر رجعتی سلفی گروپ ہیں۔ تاہم سلفیوں کے بازی لے جانے کے خوف میں اخوان المسلمین نے بھی مظاہروں کی کال دی ہے۔ سلفی اور اخوان المسلمین دونوں ہی انقلابِ مصر کو نقصان پہنچانے کے لیے کام کررہے ہیں اور اس کے لیے مصر کے محنت کشوں کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے سے بہتر کیا طریقہ ہو سکتا ہے۔ حسنی مبارک کے اقتدار کے خاتمے کے بعد عام محنت کشوں کی زندگیوں میں قابل ذکر تبدیلی نہ ہونے کی وجہ سے انقلابی تحریک میں شامل عوام میں کسی حد تک تھکاوٹ اور مایوسی پیدا ہوئی ہے۔ ایسے حالات میں چند سو یا چند ہزار افراد کے مظاہرے، جیسے گزشتہ چندروز سے ہو رہے ہیں، اپنی حقیقی اہمیت سے کہیں بڑے دکھائی دینے لگتے ہیں۔

ان کی کوشش ہے کہ ملک میں طبقاتی جدوجہد کو چیردیا جائے، محنت کشوں کو شکست دے کر ملک کو دائیں بازو کی جانب دھکیل دیا جائے۔مارکسسٹوں کا فرض ہے کہ اس سب کی مخالفت کرتے ہوئے محنت کشوں کے اتحاد کی ضرورت پر زور دیا جائے۔

سمجھنے اور سمجھانے کی بات یہ ہے کہ امریکہ میں عیسائی بنیاد پرست اورمسلمان اکثریت کے ممالک میں اسلامی بنیاد پرست در حقیقت ایک دوسرے پر منحصر ہیں اور ایک دوسرے کو استعمال کرتے ہیں۔ امریکہ میں موجود رجعتی عناصر کی جانب سے حالیہ اشتعال انگیز کاروائیاں مصر جیسے ممالک میں موجود بنیاد پرستوں کو وہ آتش گیر مواد فراہم کرتی ہیں جس سے امریکہ مخالف جذبات کو ابھارا جا سکے۔ اس کے جواب میں آنے والے رد عمل کو امریکہ کے عیسائی بنیاد پرست امریکہ سے نفرت کرنے والی ’’اسلامی دنیا‘‘ کی تصویر کشی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ دونو ں کا مقصد محنت کشوں کو تقسیم کرنا ہے، دونوں عرب انقلاب کے خلاف کام رہے ہیں اور یہ دونوں ہر ملک کے محنت کش طبقے کے دشمن ہیں۔

ایسے حالات میں میڈیا کے شور شرابے کا شکار ہو جانا بہت آسان ہوتا ہے۔اس کا مقصد حقیقت سے توجہ ہٹانا ہے۔عالمی سرمایہ داری کے بحران کا اظہار عرب میں تیونس اور مصر کے انقلابات کی صورت میں ہوا۔ جس نے ساری دنیا کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو متاثر کیا۔ امریکہ میں بڑے مظاہروں کے دوران ہم نے دیکھا کہ امریکی محنت کش کس طرح سے مصری محنت کشوں کے مظاہروں سے ساتھ خود کو جوڑ رہے تھے، مثلاً 2011ء کے اوائل میں وسکانسن کی تحریک۔حتیٰ کہ امریکہ میں یہ نعرہ بھی لگتا رہا کہ ’’ایک مصری کی طرح لڑو‘‘۔ بعد ازاں امریکہ میں قبضے کی تحریکوں (Occupy Movement)نے ساری دنیا کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو متاثر کیا جس میں عرب بھی شامل ہیں۔

اپنی بیہودہ کوششوں کے باوجود، امریکہ میں رجعتی دایاں بازو اور عرب میں ان کے ہم پلہ عناصران سازشوں میں کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔ سرمایہ داری کے بحران کو روکا نہیں جا سکتا۔ تمام ممالک میں محنت کشوں کی زندگیاں پہلے سے کہیں زیادہ ناقابل برداشت ہوتی چلی جا رہی ہیں اور ہر جگہ طبقاتی جدوجہد سر اٹھا رہی ہے۔قاہرہ، وسکانسن، نیو یارک اور ایتھنز میں ہم نے اسے دیکھا ہے۔ اس وقت ہم اسے پر زور انداز میں سپین اور پرتگال میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ چار سو پھیل رہی ہے۔

اس لیے ہمیں مذہبی جذبات اورقومی شاونزم کو ابھارنے کی مزید بیہودہ کوششیں دیکھنے کو ملیں گی۔وہ جو چاہے کر لیں لیکن اس حقیقت کو نہیں چھپا سکتے کہ عالمی طور پر سرمایہ دارانہ نظام ناکام ہو چکا ہے۔ ہر جگہ محنت کشوں سے وہ سب چھینا جا رہا ہے جو انہوں نے ماضی میں سخت لڑائیوں کے بعد حاصل کیا تھا۔ اس نظام کا مستقبل تاریک ہو چکا ہے۔ عالمی سطح پر طبقاتی جدوجہد پک کر تیار ہو رہی ہے اور تمام ممالک کے حکمران طبقات اس سے خوفزد ہ ہیں۔ کیمونسٹ مینی فیسٹو کے ان آخری الفاظ کی سچائی آج سے زیادہ پہلے کبھی اتنی واضح نہ تھی:

’’مزدوروں کے پاس اپنی زنجیروں کے علاوہ کھونے کو کچھ نہیں، جیتنے کو ایک جہاں پڑا ہے۔ دنیا بھر کے محنت کشو، ایک ہو جاؤ!‘‘

Translation: The Struggle (Pakistan)