یمن ۔ عرب انقلاب کے بڑھتے قدم

Urdu translation of: After Saleh’s exit: Yemen revolution must do away with the regime (June 10, 2011).

تحریر: فریڈرک آسٹن ترجمہ :انعم پتافی

چنگاری ڈاٹ کام،24.06.2011

یمن میں ڈرامائی واقعات رو نما ہو رہے ہیں۔صالح کی حکمرانی واضح طور پر ختم ہو چکی ہے ا ور سعودی عرب،امریکہ ، یورپین یونین سمیت تمام رجعتی طاقتیں مل کر اس انقلاب کوتباہ کرنے کے لیے سازشیں کر رہی ہیں،جبکہ یہ اتنا آسان نہیں ہے۔اب اس حاکمیت کو ختم کرنے کا وقت آگیا ہے۔صرف ایک طاقت ور قیادت کی کمی ہے جو یہ فریضہ سر انجام دے۔ صالح کی حکمرانی عوامی بغاوت کے بوجھ تلے پڑی کراہ رہی ہے۔

یمن کا ریاستی ڈھانچہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ساتھ ٹوٹتا اور بکھرتا چلا جا رہا ہے،واشنگٹن والے اب اس بات کومحسوس کر رہے ہیں۔ انہیں اب اندازہ ہو رہا ہے کہ گذشتہ دنوں کی طرف واپسی ناممکن ہے کہ جب صالح حکومت نے سامراجی طاقتوں کا یمن پر غلبہ اور گلف ممالک سے ان کے لیے تیل کی ترسیل کو یقینی بنایا ہوا تھا ۔پیر کے دن ہیلری کلنٹن نے کہا ’’کہ ہم یمنی عوام کے حق میں فوری طور پر تبدیلی چاہتے ہیں!‘‘سامراجی جارحیت کے مسکراتے چہرے سے ادا کیے گئے ان الفاظ سے منافقت کی بو آتی ہے۔جمعے کے دن جب صدارتی محل پر حملے کے بعد صالح سعودی عرب بھاگنے پر مجبور ہوا تو سامراجیوں نے صرف طاقت کی تبدیلی کا مطالبہ کیا۔انہوں نے دہائیوں سے غریب یمنی عوام کے خلاف اس خونخوار حکومت کی حمایت کی ہے۔لیکن اب صالح ان کے کسی کام کا نہیں رہا ہے۔وجہ صرف ایک ہے کہ وہ یمن کے انقلاب کو کچلنے میں ناکام رہا۔اس کے طریقہ کار نے حالات کو مزید بگاڑ دیا، اس نے ان طاقتوں کو جگا دیا جو یمن کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہی ہیں جس کے نتائج غیر یقینی ہیں۔18مارچ کوصنعا یونیورسٹی کے قریب واقع چینج سکوائر میں 72 معصوم لوگوں کے قتل عام کے بعد سے یمن انقلابی کیفیت میں ہے۔

انقلاب کو نیچے سے کاٹنے کے لیے سعودی اور امریکی، یمن میں اوپری سطح پر تبدیلیاں کرنے پر مجبور ہیں۔یہاں تک کہ سعودی حکومت نے ایک تقریب کا بھی انعقاد کیاتھا جس میں علی عبداللہ صالح نے اقتدارچھوڑنے کا اعلان کرنا تھالیکن عین موقع پر وہ ان کاغذات پر دستخط کرنے سے انکارکر گیااور نافرمانی کرتے ہوئے دھواں دھار تقریر کر ڈالی،جس میں اس نے حزب اختلاف کو خانہ جنگی کی دھمکی دی۔اور یہ سب یقیناطے کیے گئے منصوبے کا حصہ نہیں تھا۔

صالح بہت ضدی آدمی ہے اتنا کہ اسے کسی بھی دلیل پر نہیں لایا جا سکتا۔1978ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد اس نے اپنے خلاف بہت سی سازشوں کا مقابلہ کیا ہے اور اس نے ثابت کیا کہ کسی سخت لڑائی کے بغیروہ اقتدار نہیں چھوڑے گا۔انقلاب کی ابتداء میں سعودی حکمرانوں نے صالح کا بھرپور ساتھ دیا اور اسے مشورہ دیتے رہے کہ وہ اقتدار نا چھوڑے چاہے اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔لیکن حالات سخت ترین انسان کو بھی مصلحت پر مجبور کر دیتے ہیں۔ریاض میں موجود حکمران حالات سے بے خبر نہیں ہیں۔لیکن اب ان کا طریقہ بدل گیا ہے، اب وہ سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں کہ کسی ’’قانونی ‘‘طریقے سے اقتدار کی تبدیلی کر کے انقلاب کو شکست دی جائے،تاکہ وہ اپنی مداخلت کو برقرار رکھ سکیں اور انقلاب کوخود سعودی عرب میں آنے سے روک سکیں۔

صالح حکومت کا اختتام اپنے کمپاؤنڈ پر ہونے والے دھماکے کی وجہ سے زخمی ہو کر صدر صالح یمن سے بھاگ نکلا۔صالح جس کی عمر 69سال ہے ، بتایا جا رہا ہے کہ اس کے جسم کا 40 فیصدحصہ جل گیا ہے اور اس کے سر پر شدید چوٹیں آئی ہیں ۔متعدداعلیٰ حکومتی اہلکار اور سکیورٹی اہلکار بھی اس حملے میں مارے گئے ہیں۔صالح کو طبی امداد پڑوسی ملک سعودی عرب میں دی جا رہی ہے،یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس کے ساتھ اس کے خاندان کے 30 سے زائد مزید لوگ بھی ملک سے فرار ہوئے ہیں۔صالح ابھی تک صدارت سے مستعفی نہیں ہوا،لیکن اس نے وقتی طور پر اقتدار ایک لمبے عرصے سے چلے آرہے اپنے نائب صدر عبدلالرب منصور الہادی کو سونپا ہے۔جب اس کے فرار ہونے کی خبر آئی تو لاکھوں انقلابی نوجوان چینج سکوائر اور ملک کے مختلف حصوں میں جشن منانے کے لیے سڑکوں پر امڈ آئے اور اس کی حکومت کے مکمل خاتمے کا مطالبہ کیا۔ایک شخص نے صنعاء میں ریلی کے دوران الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ ناممکن ہے کہ ہم اسے (صالح کو)واپس آنے دیں، بلکہ اس کے یہاں کے باقی ساتھیوں کو بھی چاہیے کہ وہ اس کی طرح سعودی عرب بھاگ جائیں‘‘۔مظاہرین کے سمندر میں جنہوں نے سرخ ،سفید اور کالے رنگ کے یمنی جھنڈے اٹھائے ہوئے تھے جن میں سے ایک بینرپر لکھا تھا کہ ’’اب کون آئے گا؟!‘‘ جو کہ عرب میں موجودانقلابی لہر کی عکاسی کرتا ہے۔جن واقعات اور وجوہات کی وجہ سے صالح کو بھاگنا پڑا وہ ابھی تک غیر واضح ہیں،ان کو مختلف رنگ دیا جا رہا ہے،یمن کی حکومت کا کہنا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے قبیلے ’ہاشد ‘ کے سربراہ صادق الاحمر کے کنٹرول میں موجود قبائلی لڑاکا طاقتوں نے جمعہ کے روز نماز کے دوران کمپاؤنڈ پر راکٹوں سے حملہ کرایا،جس میں صالح کے 11محافظ ہلاک ہوئے اور صالح،وزیراعظم علی محمد مجاور،ایک نائب وزیراعظم ،صنعاء کا گورنر،اور ملک کی غلام پارلیمنٹ کے کئی اہلکار بھی زخمی ہوئے۔اتنی اہم اور حساس جگہ پر اتنی باریکی سے حملہ کرنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس میں ایک یا ایک سے زیادہ ملکی یا غیر ملکی انٹیلی جنس یا ملٹری ایجنسیوں کا ہاتھ ضرور ملوث ہے۔سابق صدر کلنٹن نے اپنے تبصرے میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا امریکی اس حملے میں ملوث ہیں؟سی آئی اے اور پنٹاگان کے لیے اس قسم کے حملے کروانا کوئی مشکل کام نہیں،اور اس کے لیے ان کے پاس وسائل بھی موجود ہیں۔یہ بات بھی خارج از امکان نہیں کہ سعودی حکمرانوں نے صالح پر یہ حملہ کروایا ہو۔ سعودی حکمران اس کے خلاف ہو چکے تھے کیونکہ اس نے واضح طور پر سعودیوں کی زیر اثرگلف کارپوریشن کونسل کے معاہدوں کی خلاف ورزی کی اور اقتدار چھوڑنے سے انکار کر دیا۔جمعہ کو صدارتی کمپاؤنڈ پر ہونے والے حملے سے جو بھی ہوا ہو لیکن اس سے یمن میں تشدد کا خاتمہ نہیں ہوا۔ہفتے کے دن سعودی مداخلت سے کرائی گئی صالح کے حمایتیوں اور الاحمر کے مابین جنگ بندی صرف چند گھنٹے ہی برقرار رہی،اس کے بعددارالحکومت کے شمالی حصے میں دوبارہ گولیوں کی بوچھاڑ اور بمباری شروع ہوگئی۔یمن میں موجود اکانومسٹ کے تجزیہ نگار روبرٹ پاؤل کا کہنا ہے کہ ’’ہو سکتا ہے کہ صالح کا یمن سے انخلاء حتمی ہو۔سعودی ،امریکی اور یورپی یونین والے بھرپور کوششیں کر رہے ہیں کہ صالح سعودی عرب میں ہی رہے،اور وہ صالح کی واپسی کو ایک تباہی کی صورت میں دیکھتے ہیں‘‘۔ سعودی حکمرانوں کا خوف صالح کے جانے سے بھی ملکی حالات قابو میں نہیں آسکے۔اب بھی ایک بھرپور خانہ جنگی کا خطرہ موجود ہے۔صالح حکومت کی باقیات ،خاص طور پر اس کے خاندان کے لوگ اب بھی کئی حکومتی عمارتوں کو کنٹرول کر رہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ انہیں ریپبلکن گارڈز ،خفیہ پولیس اورریاستی سیکیورٹی کے اہم حصوں کی اب بھی حمایت حاصل ہے۔

منگل کے دن 30لوگ جنوبی شہر زنجبیر میں ہونے والی شدید لڑائی میں مارے گئے۔صنعاء میں حکومت نے اس کا ذمہ دار القاعدہ کو ٹھہرایا ہے،لیکن زنجبیر شہراور اس کے قریب واقع ایڈن شہر لمبے عرصے سے اس اپوزیشن کے مرکز چلے آرہے ہیں جو کہ صالح حاکمیت کے خلاف تھے اور ملک کے جنوبی حصے میں ایک پاپولسٹ علیحدگی کی تحریک بھی موجود تھی۔یمن کے دوسرے بڑے شہر تیاز میں بھی حکومتی حامیوں اور مخالفوں کے مابین لڑائی دیکھنے میں آئی ہےAFPنیوز ایجنسی نے منگل کے روز رپورٹ کی کہ حکومت کے مخالف گروہ نے تیاز شہر کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔

ایک قبائلی سردار حمودسعیدالا مخلفی نےAFP کو بتایا کہ شہر کی اہم عمارتیں بھی ان کے کنٹرول میں ہیں۔ یمن کی حکومت کا کنٹرول ختم ہو جانا امریکی سامراج کے کانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجا رہا ہے۔کیونکہ اس طرح ان کا اثر و رسوخ خطے میں کم ہو جائے گا۔بے روزگاری ا ور اپنے حقوق کے لیے اور صالح کی حاکمیت کے خلاف کیے جانے والے عوامی احتجاج جس میں لاکھوں نوجوان طلباء اور محنت کش سڑکوں پر نکل آئے ،اس عمل نے سعودی عرب پر بہت اثر ڈالا۔اسی وجہ سے سعودی حکمران بہت ڈر گئے ہیں،بحرین کے برعکس جہاں وہ بغیر کسی مشکل کے انقلابیوں پر گولیاں چلا رہے ہیں،یمن میں سعودی اور امریکیوں کی مداخلت بہت خطرناک اقدام ہے اور اس سے سعودی عرب میں بھی تحریک پھوٹ سکتی ہے،اسی وجہ سے سعودیوں کو بڑی مشکل اور متضاد کیفیت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔سعودی بادشاہت ،سماجی بارود پر حکمرانی کر رہی ہے،جہاں ایک طرف تو ملک کی وسیع تیل کی دولت پر قبضہ جمانے میں لگی ہوئی ہے تو دوسری طرف لاکھوں نوجوان نوکریوں، گھروں اور بنیادی جمہوری حقوق سے بھی محروم ہیں ۔ سعودی بادشاہت انتہائی کمزور دھاگے پر کھڑی ہے جو کہ کسی بھی چھوٹے سے واقعے کی وجہ سے ٹوٹ سکتا ہے۔وہ یہ جانتے ہیں کہ یمن کا انقلاب وہ تنکا ثابت ہوسکتا ہے جو اونٹ کی کمر توڑ دے اور سعودی عرب وہی اونٹ ہے۔اگر ایسا ہوا تو نہ صرف پورے مشرق وسطی بلکہ پوری دنیا پر بہت زیادہ اثرات مرتب کرے گا۔

بقیہ حکومتی ٹولے کی بھی رخصتی! جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا کہ سعودی اور امریکی حکمران ساری دنیا کو یہ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ’’یمن ویسا ہی ہے جیسا پہلے تھا‘‘جبکہ ہمیں بہت بڑی عوامی تحریک دیکھنے کو مل رہی ہے۔یہ تحریک نوجوانوں اور غریب عوام سے اپنی طاقت حاصل کر رہی ہے۔اس تحریک نے حکومت میں ایک بحران پیدا کر دیا ہے اور یہ بڑے تکلیف دہ انداز میں ٹوٹ رہی ہے۔ دوسری طرف تحریک میں شدت سے ایک حقیقی انقلابی قیادت کی کمی محسوس کی جا رہی ہے۔نام نہاد اپوزیشن میں لبرل،رجعتی ،مذہبی ملااور سابق سٹالنسٹوں سمیت سب شامل ہیں، اور جو کسی انقلاب کی قیادت کرنے کے حوالے سے بالکل متروک ہو چکے ہیں۔

جوائنٹ میٹنگ پارٹیز اتحاد(جو کہ اسلامی ملاؤں،نام نہاد سوشلسٹوں،ناصر اسٹوں اور دوسری چھوٹی پارٹیوں کی مشترکہ آماجگاہ ہے)کا گلف کارپوریشن کونسل GCCکی پشت پناہی میں بنائے گئے معاہدے پر اتفاق کرنے کی وجہ سے یہ اپنی تمام قدرو قیمت کھو چکے ہیں جس پر صالح نے دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا۔میدان عمل میں موجود انقلابیوں نے واضح طور پر محسوس کیا کہ یہ معاہدہ سراسر انقلابی اصولوں سے غداری کے مترادف ہے۔انقلابی نوجوانوں کی نمائندہ قیادت Youth Revolution for Changeنے اپنا مطالبہ برقرار رکھا ہے کہ پورے حکومتی ڈھانچے کو ہی ختم کیا جائے۔یہ بالکل درست مطالبہ ہے۔اس حکومتی ڈھانچے کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے!اسے انقلابی عوام کے ذریعے ہی ختم ہونا چاہیے! بد قسمتی سے اس نمائندہ قیادت نے کچھ شدید کمزوریاں ظاہر کی ہیں۔جس میں سے ایک نعرہ’’کوئی تشدد نہیں(no (violenceہے،کہ احتجاجیوں کے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہونے چاہیں جبکہ ہتھیار یمن میں ہر جگہ آسانی سے دستیاب ہیں۔حکومت کے وحشیانہ تشدد کی وجہ سے جنوری سے اب تک 450سے زائد لوگ مارے جا چکے ہیں، ایسی حالت میں انقلابیوں کو اپنا دفاع کرنے کا پورا حق ہے بلکہ انہیں اس سے روکنا سراسر نا انصافی بھی ہے۔ردانقلابی ابھار،تباہیوں اور فرقہ وارانہ وحشت کے خلاف پر امن عوامی انقلاب کے دفاع کا سب سے اہم طریقہ بس یہی ہے کہ انقلابی عوام کو مسلح کیا جائے۔

دوسری کمزوری یہ کہ عوامی ایکشن کمیٹیاں بنانے کے لیے کوئی مہم نہیں چلائی جا رہی،جو کہ زیادہ تشویش ناک ہے انقلاب صرف محنت کشوں، نوجوانوں اور غریب عوام کے ذریعے ہی آگے بڑھ اور چل سکتا ہے۔انہیں ہی ابتداء کرنی چاہیے،انقلاب کے دفاع کے لیے انہیں آس پاس،سکولوں میں،کام کی جگہوں پراور ہر جگہ کمیٹیاں بنانی چاہئیں۔اور انہیں عام سپاہیوں اور چھوٹے درجے کے فوجیوں سے بھی رابطے کرنے چاہئیں۔فوجی بیرکوں کے اندر انقلابی کمیٹیاں تشکیل دینی ہوں گی تاکہ رد انقلابی فوجی جرنیلوں کو عوام کے خلاف فوج کو استعمال کرنے سے روکا جا سکے۔مصر اور تیونس کے تجربات بتاتے ہیں کہ کوئی بھی کامیابی اس طرح کے تنظیمی ڈھانچوں کے بغیر نا ممکن ہے۔اسی لیے فوری طور پر کمیٹیوں کی تشکیل کے لیے مہم کا آغاز کرنا ہوگا۔انقلابی ایکشن کمیٹیاں ہی وہ واحد طریقہ ہیں جن سے قبائلی درندگی اورقبائلی سرداروں کی عوام کی قیمت پر اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کی کوششوں کو روکا جا سکتا ہے۔فر قہ وارانہ خانہ جنگی کے خطرے سے بھی صرف انقلابی طریقے سے ہی بچا جا سکتا ہے،یعنی پورے ملک کے محنت کشوں ،طالبعلموں اور غریب عوام کا اتحادو ملاپ، سلطانوں جاگیرداروں،رجعتی جرنیلوں،کرپٹ ریاستی بیورو کریسی اور غیر ملکی سامراج پر مشتمل ملکی اور غیر ملکی غنڈوں کے خلاف! انقلابی تحریک کو انقلابی کمیٹیاں بنانے کے ساتھ ساتھ ایک واضح انقلابی پروگرام دینے کی بھی ضرورت ہے۔حکومت کے تمام اثاثے ضبط کیے جا ئیں گے اور انہیں عوام کے کنٹرول میں دیا جائے گا!سلطانوں اور جاگیرداروں کی تمام زمینیں ضبط کر کے کسانوں میں تقسیم کی جائیں گی!تمام ریاستی ڈھانچے کو ختم کیا جائے اور سابقہ حکومت کی تمام باقیات کو جانا ہی ہوگا!انقلابی عوام کی طرف سے تمام نمائندوں کو باقاعدہ منتخب کیا جائے گا اوروہ بھی واپس بلانے کے حق سمیت!انقلاب کو محنت کشوں ،نوجوانوں اور سپاہیوں کی ملیشیاؤں کے ذریعے مسلح کیا جائے! سب سے اہم بات یہ ہے کہ انقلاب کا مقدر تمام عرب کے انقلاب کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔آخری تجزیے میں یمن کا انقلاب تب ہی کامیاب ہو سکے گا جب سعودی عرب ، اومان، مصر اور باقی عرب دنیا میں انقلاب کامیاب ہو گا۔ لاتعداد انسانی جانوں کی قربانیوں کا انتقام تمام عرب خطے سے جاگیرداری اور سرمایہ داری کے مکمل خاتمے کی اور لوگوں کی جستجو پر مبنی ایک منصوبہ بند ،سوشلسٹ سماج کے قیام کی صورت میں ہی لیا جا سکتا ہے