فرانس: دہائیوں بعد دیو ہیکل ہڑتال۔۔طبقاتی جدوجہد کے ایک نئے باب کا آغاز

فرانس کے صدرمیکرون کی پینشن ردِ اصلاحات کے خلاف کل (5 دسمبر) کی عام ہڑتال میں پورے فرانسیسی سماج کی ”جدوجہدیں یکجا“ ہو گئیں۔ CGT (ہڑتال کی قائد ٹریڈ یونین) کے مطابق 10 لاکھ 50 ہزار افراد نے مظاہروں میں شرکت کی یعنی 1995ء میں الین جوپے کے ردِ اصلاحات پروگرام کے خلاف ہونے والی مزاحمت کے بعد تاحال یہ فرانس کی سب سے بڑی تحریک ہے۔ پیلی واسکٹ تحریک کی روح سڑکوں پر محسوس کی جا سکتی ہے جہاں (قائدین کی محدودیت کے باوجود) محنت کش طبقہ نہ صرف پینشن ردِ اصلاحات بلکہ پوری حکومت کے خلاف اپنے غم و غصے کا براہِ راست اظہار کر رہا ہے۔

[Source]

پولیس اور یونینز نے ملک کے بیشتر حصوں میں شرکت کے حوالے سے اعدادوشمار دیے ہیں جن کی روشنی میں ایک مربوط اندازہ لگانا مشکل ہو رہا ہے۔ مثلاً CGT کا دعویٰ ہے کہ مارسئی میں 1 لاکھ 50 ہزار مظاہرین تھے جو پولیس اندازوں سے چھ گنا زیادہ ہے۔ انتظامیہ کی کوشش ہوتی ہے کہ مظاہرین کی تعداد کم سے کم بتائی جائے اور سوشل میڈیا پر تصاویر دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یونین کے اعدادوشمار زیادہ درست ہیں۔ بہرحال یہ حقیقت کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ مظاہرین کی تعداد حالیہ سالوں کے موازنے میں سب سے زیادہ تھی۔ پولیس کے مطابق ٹولوز میں 33 ہزار، بورڈیو میں 20 ہزار، نانتیز میں 19 ہزار، کلیر مونٹ۔فرانڈ میں

15 ہزار، لِل، روین اور گرینوبل میں 13 ہزار اور ٹورز، رینیز، بریسٹ، سینٹ۔ایٹین، بایون، پاؤ، سٹراسبرگ، پرپینان، لیمجیز، سینٹ ناجائر اور کائن میں کئی ہزار مظاہرین نے شرکت کی۔ اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ ان اعدادوشمار کے حوالے سے اسی طرح جھوٹ بلوا گیا ہے جیسا کہ مارسئی کے حوالے سے تو پھر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مظاہرین کی کیا دیو ہیکل تعداد احتجاجوں میں موجود تھی۔ ورسائی میں بھی دیو ہیکل تحرک موجود تھا جہاں ہڑتالوں کی وجہ سے نہ صرف ٹرین سٹیشن بند ہو گئے بلکہ شاہی محل بھی بند ہو گیا!

ٹرانسپورٹ مزدور ہڑتال کی ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوئے۔ تقریباً پوری پبلک ٹرانسپورٹ بند تھی جس میں سرکاری ریل گروپ (SNCF) کے اندازوں کے مطابق کل 10 میں سے 1 تیز رفتار اور بین الشہر ٹرینیں کام کر رہی تھیں۔ پیرس میں میٹرو سٹیشن مکمل بند تھے۔ یوروسٹار جیسی بین الاقوامی سروسز بھی شدید مسائل کا شکار تھیں اور ائر فرانس کو 30 فیصد اندرونی اور قریبی ممالک کے لییبین لاقوامی پروازیں منسوخ کرنی پڑیں کیونکہ تقریباً سارے ائر ٹریفک کنٹرولر ہڑتال پر تھے۔

پبلک سیکٹر کی دیگر پرتیں بھی ہڑتال میں موجود تھیں جن میں خاص طور پر اساتذہ قابلِ ذکر ہیں۔ سینکڑوں سکول بند ہو گئے کیونکہ پرائمری سکول کے تقریباً 70 فیصد اور سیکنڈری سکول کے تقریباً 60 فیصد اساتذہ ہڑتال پر تھے اور کئی مقامات پر ان کے طلبہ نے بھی ہڑتال میں ساتھ دیا۔ محکمہ صحت کے ملازمین بھی واضح طور پر دیکھے جا سکتے تھے۔ اگرچہ انہوں نے لازمی طور پر کم از کم سروسز بحال رکھیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے پورے ملک میں نمایاں شرکت کی اور سوشل میڈیا پر کئی ویڈیوز گردش کر رہی ہیں جن میں ایمبولینسوں کی بڑی تعداد پیرس کی مرکزی شاہراہوں کو بلاک کر رہی ہیں۔

فرانسیسی ریاست کا خوفناک جبر (جو پہلے ہی پیلی واسکٹ تحریک پر تشدد کی وجہ سے خون میں رنگی ہوئی ہے)پوری طرح موجود تھا۔ پیرس میں مرکزی احتجاج کے راستے میں 6 ہزار ڈنڈا بردار پولیس تعینات تھی جو شہر کے مشرق میں گارے دو نورڈ سے مارچ کر رہا تھا اور شام تک 70 سے زائد گرفتاریاں کی جا چکی تھیں۔ دن گزرنے کے ساتھ ساتھ پورے ملک کی پولیس زیادہ پرتشدد ہوتی گئی اور مظاہرین پر آنسو گیس شیل اور خطرناک ”سٹنگ بال“ کنستر برسانے شروع کر دئے، ایک خوفناک فساد کش ہتھیار جس کی وجہ سے کئی مظاہرین گزشتہ سال کے دوران جاری پیلی جیکٹ تحریک کے دوران اپنی آنکھوں اور انگلیوں سے محروم ہو چکے ہیں۔ اس تمام جبر کے باوجود مظاہرین زیادہ تر پر امن رہے اور تصادم اور لوٹ کھسوٹ کے اکادکا واقعات ہی رپورٹ ہوئے۔

فائر فائٹرز نے خاص طور پر انتہائی شاندار اور جرات مند کردار ادا کیا۔ دو ماہ پہلے انہوں نے تنخواہوں اور حالاتِ ملازمت کے حوالے سے احتجاج کئے تھے جنہیں پولیس نے انتہائی جبر سے کچل دیا۔ اس وجہ سے فائر فائٹرز کے شعور پر دوررس اثرات مرتب ہوئے۔ لِل میں پولیس اور فائر فائٹرز کے درمیان تصادم کے باوجود وہ زیادہ تر پرامن اور منظم رہے۔ اوینون، ٹولون، رینیز اور رین میں وہ منظم انداز میں احتجاجوں میں شریک ہوئے اور انہوں نے اپنے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے تاکہ وہ یہ دکھا سکیں کہ وہ غیر مسلح ہیں اور لڑائی جھگڑا نہیں چاہتے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ غیر فعال تھے۔

پیرس میں فائر فائٹرز نے آگے بڑھ کر CRS (ہنگامی پولیس) کو پرے دھکیل دیا جب انہوں نے ماجینٹا بولیوارڈ میں مرکزی احتجاجی مارچ کو روک دیا تھا اور یہی عمل پلیس دی لا ریپبلیک میں بھی دہرایا گیا۔ مظاہرین پر آنسو گیس کے تابڑ توڑ حملے کئے گئے جس کی وجہ سے سانس لینا مشکل ہو گیا جس کے بعد فائر فائٹرز نے اپنے چہرے گیس ماسک سے ڈھانپ لئے اور مظاہرین کی اگلی صفوں میں پہنچ کر مارچ کرتے ہوئے پولیس کو پرے دھکیل دیا جس کے بعد ناکہ ٹوٹ گیا اور مظاہرین کو آگے بڑھنے کا موقع مل گیا۔ اس دوران مظاہرین ”میکرون استعفیٰ دو“ کے نعرے لگاتے رہے جو پیلی واسکٹ تحریک کا نعرہ تھا۔

اگرچہ پبلک سیکٹر مزدور وسیع پیمانے پر احتجاجوں میں موجود تھے لیکن نجی شعبہ کی صورتحال بالکل مختلف تھی۔ معلومات محدود ہیں لیکن لگ رہا ہے کہ نجی شعبہ کے مظاہرین کی تعداد بہت کم تھی۔ مثلاً ایک رپورٹ کے مطابق فلینس کی رینالٹ فیکٹری سے صرف 5 فیصد مزدوروں نے ہڑتال میں شرکت کی حالانکہ یونینز نے انہیں بھی شمولیت کی دعوت دی ہوئی تھی۔

لیکن چند ایک کلیدی نجی شعبہ جات کافی حد تک متاثر ہوئے۔ مثلاً پچھلے چند سالوں میں آئل ریفائنریوں میں پٹرولیم ورکرز پچھلے چند سالوں میں محنت کش طبقہ کے سب سے زیادہ ریڈیکل پرت کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ کل فرانس کی 8 کلیدی ریفائنریوں میں سے 7 میں مکمل ہڑتال تھی جن میں ٹوٹل کے زیرِ انتظام ڈونگیز (سین۔ایت۔مارن)، گونفریویل۔ایل اورچر (سین۔ماری ٹائم)، گرینڈ پویٹس (سین۔ ایت۔ مارن)، فیزن (لیون) اور لا میڈے (بوچس۔دو۔رہون) شامل ہیں۔

پھر سپلائی چین کے کئی دیگر سیکشن بھی متاثر رہے۔ جیسے ٹوٹل کے 200 گوداموں میں سے 12 گودام ہڑتالیوں نے بند کر دیئے۔ بندرگاہ مزدور بھی ہڑتال میں حصہ لے رہے ہیں اور انہوں نے فوس اور لی ہاورے کی پٹرولیم بندرگاہوں میں ہڑتالیں کیں جبکہ پورٹیز۔لیس۔والینس (ڈروم)، پوجیٹ۔سور۔آرگینس (وار) اور سینٹ۔جین۔دی۔برائے (لوئریٹ) بھی متاثر رہے۔

اگرچہ پیلی واسکٹ تحریک کا زور بہت حد تک ٹوٹ چکا ہے لیکن تمام مظاہروں میں اس تحریک کے سرگرم افرادکی شمولیت موجود تھی اور وہ یونینز کے شانہ بشانہ موجود تھے۔ویڈیوز موجود ہیں جن میں وہ سینٹ آرنولٹ میں ٹال پلازوں کی رکاوٹیں ہٹا رہے ہیں تاکہ شہری بغیر ٹیکس دئے گزر سکیں اور 200-300 کے درمیان مظاہرین پیلی واسکٹ والوں کی گول چکروں کو بلاک کرنے کی حکمت عملی کو بھی دوبارہ زندہ کر رہے ہیں۔ کالی جیکٹ تحریک (غیر دستاویز شدہ تارکینِ وطن جو پیلی جیکٹ تحریک کے طریقہ کار سے متاثر ہیں) بھی مظاہروں میں شامل تھے اور انہوں نے ہڑتال کے ساتھ یکجہتی ہوئے اپنے مطالبات بھی پیش کئے کہ انہیں ملک میں قانونی طور پر کام کرنے کے لئے دستاویز فراہم کئے جائیں۔

اگرچہ نوجوانوں کی شمولیت کثیر تھی لیکن طلبہ ایک منظم قوت کے طور پر ہڑتال میں شامل نہیں ہوئے۔ آئی ایم ٹی کے کامریڈوں نے ٹولوز اور پیرس کی طلبہ اسمبلیوں میں طلبہ۔مزدور یکجہتی کا نعرہ بلند کرتے ہوئے حکومت گرانے کا مطالبہ پیش کیا جس کو بہت زیادہ پذیرائی ملی۔ لیکن طلبہ اپنے قائدین سے مایوس ہیں جنہوں نے طلبہ اسمبلیوں کو بانجھ بحث و مباحثے کا سرکس بنا دیا ہے۔ پھر پچھلے کچھ عرصہ میں طلبہ تحریک کی لگاتار شکستوں نے بھی کنفیوژن اور مایوسی پھیلائی ہے۔ اس وجہ سے اگرچہ کچھ کیمپسوں میں 400-500 طلبہ کی اسمبلیاں منعقد ہوئی ہیں لیکن یہ تعداد پیلی جیکٹ تحریک کی انتہا کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ طلبہ اس تحریک کی حمایت نہیں کرتے۔ طلبہ میں احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ حقیقی جدوجہد اس وقت سڑکوں پر محنت کش طبقہ کر رہا ہے اور وہ اپنے آپ کو ایک علیحدہ عنصر کے طور پر نہیں دیکھ رہے۔ اس لئے اپنے ساتھیوں کے ساتھ لاحاصل بحث مباحثہ کرنے کے بجائے ہزاروں طلبہ نے مزدوروں کے ساتھ مظاہروں میں شمولیت کا فیصلہ کیا ہے۔

ہڑتال آج بھی جاری رہی ہے جس کی وجہ سے پیرس اور گردو نواح میں 350 کلومیٹر علاقہ میں ٹریفک جام رہا اور ہفتہ وار چھٹیوں میں زیادہ تر پبلک ٹرانسپورٹ بند رہے گی۔ اگرچہ سرکاری طور پر سکول دوبارہ کھل گئے ہیں لیکن کئی کلاسیں ابھی بھی متاثر ہیں۔ انتشار اور ماکرون حکومت کی عام عوام اور سرکاری اداروں کے مزدور وں (ماکرون اور میڈیا نے غیر معمولی ”استحقاق“ سے لطف اندوز ہونے کا الزام لگایا ہے) کے درمیان تضادات ابھارنے کی سر توڑ کوشش کے باوجود عوام ہڑتال کی بھرپور حمایت کر رہی ہے۔ ایک رائے شماری کے مطابق 69 فیصد فرانسیسی تحریک کی حمایت کرتے ہیں۔

عوام نے درست طور پر نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ماکرون کا پبلک سیکٹر اور پینشنوں پر حملہ مزدوروں پر عمومی معاشی حملے کا حصہ ہے۔ اگر اس حملے کا مقابلہ نہ کیا گیا تو ماکرون مزدوروں کے معیارِ زندگی اور پبلک سیکٹر سہولیات کو اپنے سرمایہ دار مالکان کے لئے مستقل تباہ و برباد کرتا چلا جائے گا۔ ایک 30 سالہ سیلز منیجر آرناڈ کا کہنا تھا کہ ”اگر عوام کو حقیقی طور پر یہ ادراک ہو جائے کہ اس (ردِ)اصلاح کا ان پر کیا اثر پڑے گا تو وہ سب سڑکوں پر نکل آئیں“۔

قیادت کے مسائل

آج CGT نے ایک عام سربراہ کانفرنس منعقد کی جس میں FO، Solidaire، FSU اور چار نوجوان تنظیموں نے بحث مباحثہ کیا کہ مزید آگے کیسے بڑھا جائے۔ بعد میں اعلان کیا گیا کہ اگلے منگل کو میکرون حکومت کی جانب سے ردِ عمل کے بعد ایک بار پھر عام ہڑتال کی جائے گی۔ اس دوران SNCF اور RATP کی جنرل اسمبلیوں نے پہلے ہی اکثریتی ووٹ دے دیا تھا کہ تحریک کو کم از کم پیر کے دن تک جاری رکھا جائے۔

”ہڑتالوں کو تمام کام کی جگہوں پر عام کرنے“ کی ضرورت اور افادیت پر زور دینے کے باوجود ایک تاثر موجود ہے کہ CGT قیادت واقعات کے پیچھے لڑکھڑاتی چل رہی ہے۔ یونین قیادت اور عام ممبران کے درمیان لائحہ عمل اور سمجھ بوجھ کے حوالے سے ایک واضح تضاد ابھر رہا ہے۔ قیادت اپنی تمام تر توجہ پینشن ردِ اصلاحات پر مرکوز کئے ہوئے ہے۔ عام ممبران ماکرون حکومت کی عمومی پالیسی پر حملہ کر رہے ہیں اور حکومت کے خاتمہ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ یونین قیادت پیلی جیکٹ تحریک کے تجربات سے خوفزدہ ہے جس پر اس کا کوئی کنٹرول موجود نہیں تھا اور تحریک ایک بغاوت میں تبدیل ہو گئی تھی۔

گزشتہ ایک دہائی میں فرانسیسی سرمایہ داری کے بحران نے حکومت کی طرف سے حقیقی مراعات ناممکن بنا دی ہیں لیکن یونین قیادت کا لائحہ عمل ایک مخصوص روش اختیار کر چکا ہے۔ حکومت محنت کش طبقے پر معاشی حملہ کرتی ہے۔ نتیجہ میں قیادت پر ردِ عمل کے لئے دباؤ شدید ہو جاتا ہے۔ یونینز پھر کئی ”تحرک کا ایک دن“ (شاذونادر عام ہڑتال) کی کال دیتی ہیں جن میں دیو ہیکل شمولیت ہوتی ہے اور ماحول بھی ریڈیکل ہوتا ہے لیکن ان کا نتیجہ غم و غصہ زائل کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں نکلتا۔ ایک مرتبہ تحریک جب مایوس ہو جاتی ہے تو لوگ واپس کام پر آ جاتے ہیں۔۔ خالی ہاتھ اور مایوس۔۔ اور حکومت آگے بڑھ کر ردِ اصلاحات لاگو کر دیتی ہے۔

سرمایہ دار نظام کے بحران نے پرانا سماجی پارٹنرشپ کا نظام درہم برہم کر دیا ہے جس میں یونین افسر شاہی حکومت اور محنت کش طبقہ کے درمیان سرکاری ”ثالث“ کا کردار ادا کرتی تھی۔ اپنی مراعات یافتہ پوزیشن کو مستحکم رکھنے کے لئے افسر شاہی نے اپنے آپ کو تبدیل کر لیا ہے اور اب اس کا کردار محض محنت کش طبقے کے تحرک کو روکنا اور اس کے غم و غصے کو محفوظ ذرائع میں زائل کرنا رہ گیا ہے۔

پیلی جیکٹ تحریک نے اس لائحہ عمل کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں۔ تحریک کی قیادت فرانسیسی سماج کے سب سے زیادہ معاشی طور پر پسماندہ اور استحصال زدہ افراد نے کی اور وہ محنت کش طبقے کی تحریک کے لئے نکتہ آغاز بن گئے جو اپنی روایتی تنظیموں سے تنگ آ چکا ہے۔ پیلی واسکٹ تحریک کا سرکاری یونینز کی تنظیموں سے باہر منظم ہونا (یونینز قیادت ہمیشہ پیلی واسکٹ تحریک کو نفرت آمیز شک سے دیکھتی رہی ہے) حیران کن نہیں کیونکہ انہیں روایتی عوامی تنظیموں پر اعتماد نہیں تھا۔ یونین کے عام ممبران کی پیلی واسکٹ تحریک کے ساتھ یکجہتی پیدا کرنے کی تمام کوششوں کے باوجود دونوں جانب سے شکوک و شبہات کبھی ختم نہیں ہوئے۔

آج تحریک کے مدہم ہونے کے باوجود (ریاست کے شدید جبر اور انقلابی قیادت کی عدم موجودگی کی وجہ سے) پیلی واسکٹ کے فرانسیسی سماج پر گہرے اور دوررس اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ دو اثرات کلیدی ہیں۔ پہلا تو یہ کہ عوام نے پیلی واسکٹ سے سیکھا ہے کہ مراعات جیتنے کا واحد راستہ براہِ راست عمل ہے۔ میکرون کو پٹرولیم ٹیکسوں پر یو ٹرن لینے پر مجبور کر کے پیلی واسکٹ تحریک نے چند ہفتوں میں وہ حاصل کر لیا جو عوامی تنظیموں نے 10 سالوں میں حاصل کیا تھا۔ جیسا کہ پیرس ٹاؤن ہال ایڈمنسٹریٹر 52 سالہ ازابیل جاریویٹ نے تبصرہ کیا کہ

”پیلی واسکٹ مظاہروں نے عوام کو سیاست پر سوچنے اور بات کرنے پر مجبور کر دیا اور عوام پرعزم ہو گئی کہ اب ایسے ہی نہیں چلتا رہے گا۔ آپ کو باغیانہ موڈ محسوس ہوتا ہے“۔

اس حوالے سے اگرچہ پیلی جیکٹتحریک مدہم ہو چکی ہے لیکن وہ پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔ آج سڑکوں پر موجود کئی مظاہرین کے جذبات ”ہم سب پیلی واسکٹ والے!“ ہیں۔

دوسرا اثر یہ پڑا ہے کہ فرانسیسی سماج میں مختلف ردِ اصلاحات کے خلاف جدوجہد کرتی تمام بکھری ہوئی تحریکیں اب میکرون حکومت کی عمومی امرا نواز پالیسی کے خلاف متحد ہو چکی ہیں۔ اس حقیقت نے یونین قائدین کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ عوامی غم و غصہ کو لاحاصل ”تحرک کا دن“ میں زائل کرنے کی اہلیت کھونے کے بعد (جن سے حکومت ویسے ہی کبھی خوفزدہ نہیں ہوئی) اب وہ نیچے سے پڑنے والے شدید دباؤ کے تحت ایک درست ہڑتال منظم کرنے پر مجبور ہیں جس سے پورا ملک مفلوج ہو چکا ہے اور ماکرون حکومت پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہے۔

افسر شاہی کے نکتہ نظر سے (سڑکوں پر موجود غم و غصہ اورپیلی جیکٹ تحریک کے تجربات کی روشنی میں) یہ ہڑتال تیزی سے بے قابو ہو سکتی ہے۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یونین قائدین جان بوجھ کر ملک کے مختلف حصوں اور صنعتی شعبوں سے ہڑتال کے شرکا کی تعداد کے حوالے سے خاموش ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ جو مرضی کہتے رہیں، وہ ”جدوجہدوں کے اکٹھ“ کے شدید مخالف ہیں جس میں فرانسیسی سماج کی وسیع پرتیں شامل ہیں۔ انہوں نے قومی جدوجہد منظم کرنے کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی اور نہ ہی کوئی سیاسی قیادت، پروگرام، مقاصد اور تناظر فراہم کیا ہے۔

سڑکوں پر نعروں اور موڈ سے واضح ہے کہ عوام محض پینشن ردِ اصلاحات کا خاتمہ ہی نہیں چاہتی بلکہ وہ میکرون سے آزادی چاہتے ہیں۔ ایک اور سماجی بغاوت۔ خاص طور پر واضح محنت کش کردار کے ساتھ۔ یونین اشرافیہ کی حکمرانی خطرے میں ڈال دے گی۔ اشرافیہ ہڑتال کو محض حکومت کے ساتھ مذاکرات میں ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے (CGT جنرل سیکرٹری فیلیپ مارٹینیز کے بیانات سے واضح ہے)۔ اس لئے وہ اپنا پورا زور لگا رہے ہیں کہ عوام کی توجہ پینشن مسئلہ پر ہی مرکوز رہے، حکومت کے خلاف کوئی نعرہ بازی نہ ہو اور میکرون کے خلاف کوئی قیادت فراہم نہ کرنی پڑے۔

پینشن ردِ اصلاحات در حقیقت بحران زدہ فرانسیسی سرمایہ داری کی گہری ضرورت کا احساس ہیں جن کے تحت محنت کش طبقہ پر سرمایہ داروں کو مزید اور شدید معاشی حملے کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ میکرون کی پوری پالیسی اس حقیقت کی عکاسی ہے۔ اس لئے پینشن ردِ اصلاحات کے خلاف جدوجہد میکرون حکومت کے خلاف جدوجہد بن جاتی ہے۔ CGT قیادت کی خصی پالیسی کا مقصد ہی یہ ہے کہ ہمیشہ کی طرح عوامی باغیانہ قوت کو کنٹرول کرتے ہوئے اسے محفوظ راستوں پر زائل کر دیا جائے۔

بدقسمتی سے بائیں بازو کے اپوزیشن لیڈر میلاشون اور اس کی پارٹی فرانس انسومی نے ایک ہی مؤقف اپنایا ہوا ہے یعنی ردِ اصلاحات کے خلاف ساری جدوجہد حقیقی سماجی تانوں بانوں سے کٹی ہوئی ہے۔ یہ پوزیشن پیلی واسکٹ تحریک کے پرجوش دنوں میں میلاشون کی ریڈیکل پوزیشن سے کوسوں دور ہے جب اس نے میکرون حکومت کا خاتمہ اور قومی اسمبلی کی تحلیل کے مطالبات کی حمایت کی تھی۔ یہ فرانس انسومی کے بحران کی واضح عکاسی ہے جو درست پارٹی تنظیمیں بنانے کی مخالف اور ایک ڈھیلی بے قاعدہ ”سماجی تحریک“ کی حامی ہے جس کی وجہ سے تنظیم مشکلات کا شکار ہے۔ حالیہ یورپی انتخابات کے شرمناک نتائج نے زخم خوردہ اعتماد کو دائیں جانب موڑ دیا جس کے بعد میلاشون نے گرینز (جو سوشل ڈیموکریسی سے خاص مختلف نہیں) کو مستقبل میں مخلوط حکومت بنانے کی پیشکش کر دی۔

اس وقت یہ صریحاً غلط لائحہ عمل ہے۔ اگر میلاشون اپنی دو تین سال پرانی ریڈیکل سوچ کو دوبارہ زندہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، فرانس انسومی کو درست طور پر منظم کرتے ہوئے میکرون حکومت کے خاتمہ کا نعرہ دے دیتا ہے تو پھر وہ عوامی تنظیموں کا متبادل بنتے ہوئے باغی موڈ کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکتا ہے۔ بہرحال فرانس انسومی کی پتلی حالت کا اندازہ پیرس مارچ کے دوران ہوا جہاں 2 لاکھ افراد میں وہ محض 200 موجود تھے۔

پیلی واسکٹ والے زندہ ہیں!

اشرافیہ کی تحریک میں عدم دلچسپی اور ”مذاکرات“ سے لگاوٹ کے برعکس عام ممبران جرات مند اور متحرک ہیں۔ مزدور اپنے ہی زورِ بازو پر جنرل اسمبلیاں منظم کر رہے ہیں اور پوری کوشش کر رہے ہیں کہ ہڑتال کو مضبوط کرتے ہوئے مزید پھیلایا جائے۔ یہی آگے بڑھنے کا حقیقی راستہ ہے۔

اس موقع پر کلیدی خطرہ یہ ہے کہ تحریک کا ہراول دستہ ٹرانسپورٹ مزدور کہیں تنہا نہ رہ جائیں۔ حکومت شائد ٹرانسپورٹ مزدوروں کی لامتناہی ہڑتال برداشت کر جائے بشرطیکہ باقی صنعتی سیکٹر ساتھ شامل نہ ہوں یا حوصلہ ہار کر بیٹھ جائیں۔ اگر حالات بالکل ہی بے قابو ہونے لگیں تو ہو سکتا ہے حکومت ٹرانسپورٹ یونینز کے ساتھ علیحدہ مذاکرات شروع کر دے کہ پینشن ردِ اصلاحات میں اس شعبہ کے مزدوروں کو تحفظ فراہم کر دیا جائے گا تاکہ کسی طرح سے ان میں اور وسیع تر مزدور تحریک میں دراڑیں پڑ جائیں۔

جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے، یونین قیادت سوائے تحرک کی ”کال“ دینے کے ہڑتال کو منظم اور کامیاب کرنے کے لئے کوئی خاص سنجیدہ کوشش نہیں کر رہی اور نہ ہی نجی سیکٹر کے مزدوروں کو متحرک کر رہی ہے۔ جدوجہد میں شامل مزدوروں کو ہر صورت جنرل اسمبلیوں کو نئی انقلابی قیادت جنم دینے کی بنیاد بنانا چاہیے جنہیں اپنے درمیان سے منتخب کیا جائے۔ محنت کش طبقہ کی وسیع پرتوں کو صرف ہڑتال میں شمولیت کی دعوت دینے کے بجائے اس قیادت کو سیاسی بنیادوں پر محنت کشوں کو بتانا چاہیے کہ ان کے تمام تر آلام و مسائل کی جڑ گلی سڑی میکرون حکومت ہے جس کی اپنی بنیاد یہ گلا سڑا سرمایہ دارنہ نظام ہے۔ اس لئے اس وقت متحرک پروگرام کی اشد ضرورت ہے یعنی ایک مستقل ہڑتال جس کا مقصدپیلی جیکٹ کی شروع کردہ جدوجہد کو منطقی انجام تک پہنچانا اور میکرون حکومت کا خاتمہ ہو۔

یہ واضح ہے کہ پیلی واسکٹ تحریک فرانس میں طبقاتی جدوجہد کے نئے دور کا پہلا باب تھی جس کے ذریعے کروڑوں مزدوروں کو اپنی بے پناہ طاقت کا احساس ہوا ہے۔ پیلی واسکٹ تحریک اپنے متفاوت طبقاتی کردار اور واضح طبقاتی جدوجہد کے لائحہ عمل کی عدم موجودگی کی وجہ سے محدودیت کا شکار تھی۔ اس وقت محنت کش طبقہ کی مجموعی طور پر ایک بلند معیار تحریک کے دیو ہیکل امکانات موجود ہیں۔ اگر محنت کش طبقے کا روایتی جدوجہد طریقہ کار پیلی واسکٹ والوں کی بہادری اور براہِ راست عمل کے ساتھ پیوستہ کر دیاجائے تو یونین اشرافیہ یا میکرون کی کوئی ایک بھی چال اس تحریک کو شکست نہیں دے سکتی۔ ہم اس وقت نومولود انقلابِ فرانس کے گواہ و امین ہیں۔