سوڈان: انقلاب ایک نئے مرحلے میں داخل۔۔۔محنت کش طبقے کی جارحانہ مداخلت کا وقت!

سوڈان میں عبوری فوجی کونسل (TMC)اور انقلابی تحریک کے نمائندوں کے مابین مذاکرات کا عمل معطل ہو چکا ہے۔ اول تو یہ ہونے ہی نہیں چاہئیں تھے۔ لیکن اب وقت ہے کہ سوڈانی محنت کش طبقہ جارحانہ طرز عمل اپنائے۔

[Source]

عبوری فوجی کونسل کیا ہے؟

یہ سابقہ صدر عمر بشیر کی فوج کے ہی جرنیل ہیں جنہوں نے انقلابی تحریک کے تھپیڑوں کے سبب مجبوراً اقتدار سے ہٹایا اورخود حکومتی کنٹرول سنبھال لیا۔ انہوں نے عبوری فوجی کونسل تشکیل دی اور چند سالوں میں انتخابات کروانے کا وعدہ کیا۔ یہ لوگ بشیر کے ہی ساتھی تھے اور اسی کی حکومت کا تسلسل ہیں۔ انہوں نے بشیر کو اقتدار سے بھی اسی لیے الگ کیا تاکہ حکومت کے مکمل خاتمے کو روکا جا سکے۔ اپنی حاکمیت کا تحفظ ہی ان کی بنیادی قوتِ محرکہ ہے اور یہ سوڈان کی انقلابی عوام کے مطالبات کی تکمیل کرنے کوئی نیت نہیں رکھتے۔ ان کے وعدے کھوکھلے ہیں۔

ایسے میں تحریک نے اپنا سب سے منظم اظہار’اعلامیہ برائے آزادی و تبدیلی (DFC)‘ کی صورت میں کیا ہے، جس کا سب سے غالب حصہ سوڈانی پروفیشنلز ایسوسی ایشن(SPA) ہے، انہوں نے TMC کے ساتھ مستقبل کی حکومت کے خدوخال پر مذاکرات کے عمل کا آغاز کیا۔ DFC نے TMC سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کیاہے، اگرچہ TMCکو مستقبل میں بننے والی حکومت میں حصے داری کی یقین دہائی کروائی گئی ہے۔

لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا تھا کہ TMC پر اعتماد کرنا ایک مہلک غلطی ہے۔ یہ فوجی قائدین مجرم اور قاتل ہیں، جنہوں نے دہائیوں تک سوڈانی عوام پر بد ترین تشدد کیے ہیں۔ ماسوائے اپنے وہ کسی کی نمائندگی نہیں کرتے اور اسی لیے ان سے سوڈان کی حکومت میں عہدوں پر کوئی مذاکرات نہیں ہونے چاہئیں۔ ان میں ہر ایک بندے کو باہر نکال پھینکنا چاہیے جیسے کہ بشیر کو نکالا گیا تھا۔

ایک گلا سڑا معاہدہ

اس کے باوجود SPA قائدین اور دیگر نے مذاکرات کو آگے بڑھایا ہے۔ ان کے مابین ایک معاہدہ طے پایا ہے جس میں تین سال کے عبوری عرصے کے بعد تین سو ممبران پر مشتمل قانون ساز اسمبلی منتخب کی جائے گی جس میں 67فیصد ’اعلامیہ برائے آزادی و تبدیلی‘ کے نمائندگان پر مشتمل ہوگا، بقیہ نہیں۔ معاہدے میں حکومتی کونسل کی بنتر کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔

یہ ایک متعفن معاہدہ ہے۔ سوڈان کی عوام نے بشیر کا تختہ الٹایا ہے اور یہ TMC پر مشتمل اس کے ہمنواؤں کو بھی نکال باہر کرسکتے ہیں۔ یہ تین سال تک انتخابات کا انتظار کیوں کریں جبکہ یہ ابھی منعقد کروائے جا سکتے ہیں؟ یہ تاخیر صرف ان فوجی آمروں کے لیے ہی مددگار ثابت ہو گی تاکہ یہ اپنے ماضی کے جرائم سے دوری اختیار کر سکیں۔

اور ردِ انقلابی قوتوں کے لیے ایک تہائی نشستیں کیوں چھوڑی جا رہی ہیں؟ یہ انقلابی عوام ہیں جو کہ سوڈان کو آگے کی جانب لے جا رہے ہیں۔ معاشرے کی وہ پرتیں جو اس عمل میں خلل پیدا کر رہی ہیں انہیں کوڑے دان میں ڈالنا چاہیے نہ کہ انتخابات میں نشستوں کی ضمانت دینی چاہیے جو کسی اور طریقے سے جیت ہی نہیں سکتے۔

اور سب سے بڑھ کر حکومتی کونسل کا سوال فیصلہ کن اہمیت کا حامل ہے۔ فوجی قائدین انتخابات کے بعد بھی سوڈان کا مکمل کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں بشیر کی حکومت کا تسلسل ہی جارہے گا لیکن ایک نئی”جمہوری“چمک دمک کی چھتری تلے۔ اس کے افراد اور احکامات تقریباً اسی رجعتی، خونی آمریت کے ذریعے ہی چلائے جائیں گے جنہوں نے آج تک حکمرانی کی ہے۔ سوڈان کے عوام یہ قبول نہیں کریں گے۔

اشتعال انگیزی اور سازشیں

جب اس گلے سڑے معاہدے پر مذاکرات ہو رہے تھے اور TMC ان مذاکرات سے SPA اور دیگر احتجاجی قائدین کو اپنی جانب کھینچ رہی تھی، اسی دوران یہ سڑکوں پر موجود عوام پر شدیدکریک ڈاؤن کرنے کی تیاریاں بھی کر رہے تھے۔

چند دن پہلے مذاکرات کے دوران، خرطوم میں نامعلوم حملہ آوروں نے احتجاجی دھرنے پر حملہ کردیا اور چار لوگ مارے گئے۔ فوجی قائدین نے کوئی مداخلت نہیں کی اور کہا کہ یہ(تحریک کے خلاف) مسلح عوامی ردعمل پر مبنی محض ایک واقعہ ہے۔ اس کے بعد کئی لوگوں نے اشتعال میں آ کر مختلف شہروں میں احتجاج کئے، عسکری قیادت نے اس کی مذمت کرتے کہا کہ یہ مذاکرات کرنے کا درست طریقہ نہیں ہے۔

اس کے بعد سے احتجاجیوں کے خلاف تشدد کے واقعات تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ ایسے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں کہ جہاں عسکری جتھوں نے احتجاجی دھرنوں اور روڈبلاک کو ختم کرانے کی کوشش میں گولیاں چلادیں۔ اسی سبب احتجاجوں کے حجم میں کئی گنااضافہ ہوگیا ہے کیونکہ لوگ فوجی قیادت کی جانب سے عیاری اور خونی سازشوں کو واضح طور پر دیکھ رہے ہیں۔

عوام لڑنے کے لیے تیار ہیں، ان میں کئی اس کھوکھلے معاہدے کی حقیقت جان چکے ہیں، جومذاکرات کے ذریعے طے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عوام واضح طور پر دیکھ رہے ہیں کہ ان دردندہ صفت فوجی قائدین کی موجودگی میں ایک پر امن تبدیلی ممکن ہی نہیں ہے۔

TMC کا لیڈر برہان، تشدداور احتجاج میں اضافے کو استعمال کرتے ہوئے تحریک کو پسپاء اور تقسیم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس نے مذاکرات کے عمل کے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے کیونکہ ”انقلاب اپنا پُرامن عنصر کھو چکا ہے“ اور یہ عمل آگے صرف اسی صورت میں بڑھے گا جب لوگ شاہراہوں کی بندشیں ہٹائیں گے، ریلوے ٹریک کھولیں گے، میڈیا کی بڑھوتری میں رکاوٹیں ختم کریں گے اور ”عسکری قوتوں سے مخالفت“ کا خاتمہ کریں گے۔ یہ اس دن کے بعد ہوا جب نامعلوم مسلح جتھوں نے خرطوم کے گرد موجود سڑک کی بندشوں پر حملے کرتے ہوئے کئی لوگوں کو مار دیا، جب فوج ایک طرف کھڑی خاموش تماشائی بنی رہی۔

محنت کش طبقے کی جارحانہ مداخلت کا وقت

تحریک کے قائدین نے جواباً احتجاجوں میں اضافے، سول نافرمانی اور سیاسی عام ہڑتال کی کال دے دی ہے (کسی مخصوص تاریخ اور اقدامات کا اعلان ابھی تک نہیں کیا گیا)۔ اس کے جواب میں عوام سیلاب کی صورت میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ مزدوروں کی درجنوں تنظیموں نے ہڑتال کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے جن میں میڈیکل کے شعبے سے لے کر حکومتی ملازمین، ڈرائی پورٹ اور ائیر پورٹ کے مزدور شامل ہیں۔

TMC کے ڈپٹی چیئرمین اور خون آشام قبائلی جنگجو جتھوں، جنہیں ’ریپڈ سپورٹ فورس‘(جو کہ بشیر کی سابق ذاتی ملیشیاء تھی)کہا جاتا ہے، کے سربراہ لیفٹنٹ جنرل محمد ہمدان ہمیتی نے یہ اعلان کیا ہے کہ جو سرکاری ملازم ہڑتال پر جائے گا اسے کام پر واپس آنے کی ضرورت نہیں ہے اور اس سے قبل یہ جنگجو عوام کی جانب ہونے کا ڈھونگ کر رہے تھے۔ اس کے جواب میں کئی مزدوروں نے احتجاج کئے جن میں آویزاں کئے گئے بینرز پر براہ راست ہمیتی کو چیلنج کیا گیا کہ وہ خود آکر انہیں ملازمت سے برخاست کرے۔ تحریک کا عمومی مزاج نڈر بغاوت والا بن چکا ہے۔

یہ مذاکرات نہیں بلکہ عوامی تحریک اور اس کا جارحانہ مزاج تھا جس کے سبب گزشتہ ماہ بشیر کے اقتدار کا خاتمہ ہواتھا۔ایسی ہی ایک تحریک TMC کو بھی دفن کر سکتی ہے بشرطیکہ اسے پہلے زیادہ بڑے پیمانے پر منظم کیا جائے۔

تمام طاقت محنت کش طبقے کے لیے

تحریک کو اس وقت ایک واضح تنظیم اور سمت کی ضرورت ہے۔ ملک بھر میں کام کی جگہوں، گلی محلوں، شہروں اور دیہاتوں میں پہلے ہی احتجاجی کمیٹیاں تشکیل دی جارہی ہیں۔ ان سب کو ملکی سطح کے ایک نیٹ ورک میں عام ہڑتال کے لیے جوڑنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تحریک کو ایک سیاسی کمپئین کے ذریعے عام سپاہیوں کو اپنے ساتھ جوڑنے کے لیے ٹارگٹ کرنا ہوگا جن کی اکثریت کا جھکاؤ پہلے ہی انقلاب کی جانب ہے۔

اس طرز کی ایک تحریک جرنیلوں اور امیروں کے طفیلی کردار کو عیاں کر دے گی جو کہ دہائیوں سے مزدوروں اور غریبوں کا خون چوس کر ان پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ تحریک کے قائدین کو ان آمروں سے مذاکرات میں کوئی وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ بشیر حکومت کے ہر آخری ذرے کا صفایا کرنے کی ضرورت ہے۔ پرانے ریاستی ڈھانچے کی کوئی بھی باقیات سلامت نہیں رہنی چاہیے۔

سوڈان کا محنت کش طبقہ ایک نئی ریاست تعمیر کر سکتاہے۔ ملک بھر میں موجود احتجاجی کیمپوں اور کمیٹیوں کی صورت میں ہم پہلے ہی اس کے بیج پنپتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ محنت کشوں کی جانب سے اور انہی کی خاطر چلائی جانے والی ایک ریا ست بناناممکن ہے اور ایک سیاسی عام ہڑتال کی خاطر منظم کی گئی سنجیدہ تحریک محنت کشوں کی تنظیمی صلاحیتوں اور ان کے اعتماد کو مضبوط کرے گی۔

سوڈانی انقلاب کا فریضہ ہے کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرے، جس کے بحران کی آگ کے شعلوں نے براہ راست موجودہ انقلابی تحریک کو جنم دیا ہے۔صرف سوڈانی محنت کش طبقہ ہی اس نئے مستقبل کو ڈھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔انہیں ماضی کی حکومتوں کی باقیات کا صفایا کرتے ہوئے اپنے مقدر اپنے ہاتھوں میں لینے ہوں گے۔