ٹراٹسکی کا چھپایا گیا خط: ایلن ووڈز کی جانب سے ایک مختصر تعارف

یہ ایک جانی مانی حقیقت ہے کہ حادثے انسانوں کی زندگی اور تاریخ، دونوں میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ میں نے اپنی زندگی کے دوران بہت سے حادثے اور غیر معمولی اتفاقات دیکھے ہیں، لیکن میں نے کبھی حالات کی اتنی غیر متوقع کڑیاں ملتے ہوئے نہیں دیکھیں جن کا میں یہاں ذکر کرنے جا رہا ہوں۔

[Source]

یہ ایک خط کی غیر معمولی کہانی ہے، جسے لیون ٹراٹسکی نے 1938ء میں برطانیہ کی ’ورکرز انٹرنیشنل لیگ‘(WIL) کے نام لکھا تھا جس کا آج کے عالمی مارکسی رجحان(International Marxist Tendency-IMT) کے ساتھ براہ راست تعلق ہے۔ یہ خط گزشتہ آٹھ دہائیوں سے تاریکی میں تھا۔ ہم سب کا خیال تھا کہ یہ خط گم ہو چکا ہے اور یہ اندازہ کچھ حد تک درست بھی تھا۔

مگر اب حالات کی غیر معمولی کروٹ کے بعد یہ خط اپنے حقیقی ورثاء کے پاس پہنچ چکا ہے۔ ایسا کیسے ہوا، یہ یہاں بیان کیا گیا ہے۔ یہ سب ہمارے ٹیلی ویژن کے پردے پر چلنے والے جاسوسی ڈراموں کی ایک قسط کی طرح ہے اور تمام اچھی جاسوسی کہانیوں کی طرح اس کا اختتام بھی جرم کا ارتکاب کرنے والوں کی نشاندہی پر ہوتا ہے: تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کا جرم۔

یہ سب کیسے شروع ہوا

کہانی کا آغاز سوموار، 21 مئی 2018ء سے ہوتا ہے۔ کامریڈ اینا مینوز کے پاس ہماری ویب سائٹIn Defence of Marxism پر روزمرہ کے پیغامات دیکھنے اور ان کا جواب دینے کی ذمہ داری ہے۔ عام طور پر یہ معمول کا کام ہوا کرتا ہے۔ کبھی کبھار ہمیں کچھ ایسے علاقوں سے کچھ دلچسپ پیغامات موصول ہوتے ہیں جہاں ہمارے زیادہ روابط موجود نہیں ہیں۔ زیادہ تر موصول ہونے والے خطوط اتنے اہم نہیں ہوتے اور کچھ تو مذاق پر مبنی ہوتے ہیں۔

چنانچہ جب اینا کو ایک شخص کا خط موصول ہوا جس میں اس نے ہم سے پوچھا تھا کہ کیا ہم اس کی ماں، جس نے حال ہی میں وفات پائی، کے بالاخانے سے ملنے والے ٹراٹسکی کے کچھ خطوط میں دلچسپی رکھتے ہیں یا نہیں؛ تو وہ حیران بھی ہوئی اور شک میں بھی مبتلا ہوئی۔ خط کا متن کچھ یوں تھا:

’’مجھے ایک بالاخانے سے ٹراٹسکی کے خطوط ملے ہیں۔ کیا آپ کو یہ چاہئیں یا میں انہیں پھینک دوں؟‘‘

یہ پیغام انتہائی مختصر اور عجیب و غریب تھا۔ یہ MT کے نام سے تھا، لیکن یہ علم نہیں تھا کہ یہ کہاں سے آیا ہے اور یہ بھی علم نہیں تھا کہ یہ کسی مرد نے لکھا ہے یا عورت نے۔ یہ پراسرار شخص کون تھا؟ اور یہ کون سے خطوط تھے؟ کیا واقعی یہ وجود رکھتے تھے؟ اس کے ذہن میں ہر طرح کے سوالات نے جنم لیا، لیکن اس نے جواب دینے کا فیصلہ کیا کہ یقیناً ہم ان خطوط میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس نے جواب میں لکھا:

’’محترم MT!

لیون ٹراٹسکی کے کچھ خطوط کی پیشکش کا بہت شکریہ۔ اگر آپ کو یہ نہیں چاہئیں تو ہم ان میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ بہت جلد ہمارا ایک نمائندہ نیویارک میں ہو گا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ وہ آپ سے رابطہ کر کے اس سے متعلق بندوبست کر سکے؟ براہ مہربانی ہمیں بتائیے گا۔

نیک خواہشات، اینا مینوز، IDOM کی جانب سے۔‘‘

اینا نے کچھ تحقیق کی اور اسے پتہ چلا کہ یہ پیغام نیویارک کے ایک IP ایڈریس سے آیا تھا۔ پیغام بیچنے والی ایک عورت تھی جس نے جواب دے کر اس بات کی تصدیق کی اور اس کے بعد ایک اور خفیہ پیغام بھیجا:

’’میں نیویارک سے جا رہی ہوں۔ کیا کوئی پتہ ہے جس پر میں انہیں ارسال کر سکوں؟

MT‘‘

اینا نے جواب میں لکھا کہ اسے امریکی سیکشن کے کامریڈوں سے رابطہ کرنا چاہیے، جن کا نیویارک میں مرکزی دفتر بھی موجود ہے۔ بعد میں ان کا رابطہ ہو گیا تھا۔ اس نے دوبارہ لکھا:

’’محترم MT،

یہ اس بات کی یقین دہانی کے لیے ہے کہ میں نے نیویارک میں موجود ہمارے نمائندوں کو آپ کا ای میل ایڈریس دے دیا ہے۔ وہ اب تک آپ کو پیغام بھیج چکے ہوں گے۔ میں آپ کی مہربانی پر آپ کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہتی ہوں کہ آپ نے ہمیں ان خطوط سے نوازا۔

نیک خواہشات،

اے۔ مینوز‘‘

انٹرنیشنل کی جانب سے کامریڈ انٹونیو بامر نے ہمارے نامہ نگار سے رابطہ کر کے خطوط بھجوانے کا بندوبست کیا۔

خط پہنچتے ہیں

اس کے بعد ہم نے انتظار کیا۔ ایک ہفتہ گزر گیا، ایک اور ہفتہ گزرا، پھر ایک اور۔ ہمیں یہ گمان ہونے لگا کہ ہم وہ خط کبھی نہیں دیکھ پائیں گے۔ کام کے بوجھ کی وجہ سے ہم ان خطوط کو تقریباً بھول ہی گئے تھے۔ پھر ایک روز ہمیں نیویارک سے ایک پرجوش کامریڈ کی کال آئی: خط پہنچ گئے تھے!

ہم یہ خبر سن کر بہت خوش ہوئے، مگر تب بھی ہمیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا یہ واقعہ کتنا اہم ثابت ہو گا۔ ہمیں بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ ان خطوط میں کیا ہے اور ہم سمجھے کہ یہ ضمنی اہمیت کے حامل ہوں گے، جو شاید تنظیمی یا انتظامی نوعیت کے ہو سکتے تھے۔ مگر ہم غلط تھے۔

اصل خطوط ملنے سے پہلے ہمیں ای میل میں ان کی نقلیں بھیج دی گئی تھیں۔ میں شدید آشوب چشم میں مبتلا تھا، اس لیے مجھے پڑھنے میں دقت پیش آ رہی تھی۔ میں نے اینا اسے کہا کہ وہ مجھے پڑھ کر سنائے۔ اس نے بتایا کہ تین خطوط تھے جن میں سے دو طویل تھے اور ایک مختصر۔ میں نے اسے کہا کہ وہ مجھے مختصر والا خط پڑھ کر سنائے۔

اس نے پڑھنا شروع کیا اور میں سنتے ہی فوراً ہکا بکا رہ گیا۔ یہ ناقابلِ یقین تھا، میں نے کہا: ’’کیا تم یہ دوبارہ پڑھ سکتی ہو؟‘‘ اس نے ایسا ہی کیا اور میری حیرت لمحہ بہ لمحہ بڑھتی گئی۔ میں چلایا: ’’اوہ خدایا! یہ تو کمال ہو گیا۔ تمہیں اندازہ نہیں کہ تمہارے ہاتھوں میں اس وقت کیا ہے!‘‘

میں نے خط کا معائنہ کیا اور دیکھا کہ یہ یقیناً اصلی تھا۔ اس پر ٹراٹسکی کے اپنے دستخط بالکل واضح تھے۔ یہ وہی خط تھا جس کے متعلق ہم گزشتہ آٹھ دہائیوں سے یہ سمجھتے رہے تھے کہ یہ گم ہوچکا ہے!

میں ابھی بھی اپنے اندازے پر بھروسہ نہیں کر پا رہا تھا۔ میں نے راب سیول کو فون کیا، جو کچھ سال پہلے ہاورڈ یونیورسٹی میں موجود ٹراٹسکی کی محفوظ شدہ دستاویزات میں سے گمشدہ خط ڈھونڈنے گیا تھا۔ اسے وہ خط تو نہیں ملا مگر وہاں اسے حادثاتی طور پر ٹراٹسکی کی لکھی ہوئی سٹالن کی سوانح عمری کے غیر مطبوعہ مسودے کے بکسے مل گئے، جسے ہم نے بعد میں پہلی مرتبہ شائع کیا۔

میں نے کہا: ’’راب، تمہیں اس بات پر یقین نہیں آئے گا، لیکن ایسا لگتا ہے کہ تم جس خط کی تلاش میں تھے وہ اس وقت میرے ہاتھوں میں ہے۔ جو بھی ہو، یہ بات تو پکی ہے کہ خط وجود رکھتا تھا، لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ واقعی اصل چیز ہے۔‘‘ اس کے بعد میں نے اسے خط پڑھ کر سنایا، اس نے فوراً کہا: ’’یہی وہ خط ہے!‘‘

مگر کون سا خط؟

اپنی ساری زندگی ٹیڈ گرانٹ 1930ء کی دہائی کے دوران برطانیہ کی ٹراٹسکائٹ تحریک کے متعلق گفتگو کیا کرتا تھا، جس کا وہ حصہ رہا تھا۔ وہ اکثر ایک واقعے کے متعلق بات کرتا تھا جس میں ٹراٹسکی کے ایک خط کا ذکر تھا، جس میں اس نے اپنے آرٹیکل ’’سپین کے اسباق: آخری تنبیہ‘‘ کے تعارف کا ذکر کیا تھا جو 1938ء کی بہار کے دوران لکھا گیا تھا۔

وہ ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ ٹراٹسکی کو ایک کاپی بھیجی گئی تھی اور اس نے جواب بھی دیا تھا۔ جس میں اس نے اسے شائع کرنے کی حوصلہ افزائی کی تھی اور تعارف کی تعریف بھی کی تھی۔ وہ کہتا تھا کہ ٹراٹسکی نے کامریڈوں کے اپنا چھاپہ خانہ قائم کرنے کے اقدام کی بھی بھرپور پذیرائی کی تھی۔

مسئلہ یہ تھا کہ اس کے پاس اس خط کی نقل موجود نہیں تھی اور نہ ہی یہ ٹراٹسکی کی تحاریر میں موجود ہے۔ وہ خط کہاں تھا؟ یہ وہ معمہ تھا جو ہمارے خیال میں کبھی حل نہیں ہوسکتا تھا۔ مگر اب یہ حل ہو چکا ہے۔ آئیں اس راز سے پردہ اٹھاتے ہیں۔

تین خط

تینوں مکمل خطوط مندرجہ ذیل ہیں:

Avenida Londres 127

Coyocan, D.F

Mexico

May 21, 1937

عزیزم کامریڈ سمنر!

میں تہہ دل سے آپ کے دوستانہ اور معلومات سے بھرپور خط کا شکر گزار ہوں۔ میں اچھی طرح سمجھتا ہوں کہ آپ کو کن مشکلات کا سامنا ہے، مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ آنے والے ہر مہینے کے ساتھ آپ کے لیے حالات سازگار ہوتے جائیں گے۔ اصل مشکل کام تحقیق کا آغاز کرنا تھا، اب سچ خود بخود قدرتی طریقے سے آپ کے سامنے آتا جائے گا۔ ان تمام خواتین و حضرات، جن میں بریلزفورڈ اور فینر براکوے جیسے دقیانوسی سیاستدان بھی شامل ہیں، کو جلد یہ احساس ہو گا کہ ان کے پیروں تلے زمین گرم ہو رہی ہے اور وہ اپنی سیاسی موت سے بچنے کے لیے سچ کی طرفداری کرنے کی کوشش کریں گے۔ ہم کھلے عام پورے یقین سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ ہم دھوکے بازی کے ماہرین اور ان کے پہلے اور دوسرے درجے کے کارندوں کو شکست دیں گے۔ امریکہ میں بدلتے ہوئے حالات سے بلاشبہ برطانیہ میں آپ کے حالات پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

براہ مہربانی اپنی والدہ تک میرا مودبانہ سلام پہنچائیے گا اور آپ اور انگلستان میں موجود آپ کے دوستوں کے لیے نیک خواہشات۔

برادرانہ سلام،

لیون ٹراٹسکی

LT/BW‘‘


’’15 اپریل، 1938ء

عزیزم کامریڈ سمنر!

میں نے ایک لمبے عرصے سے آپ کو خط نہیں لکھا مگر آپ اس کی وجوہات کو سمجھتے ہیں۔ ہمیں آپ کی تار اور خط موصول ہوئے اور میں اور نتالیا دونوں آپ کے دوستانہ جذبات کی بھرپور قدر کرتے ہیں۔۔۔

مجھے یہ علم نہیں کہ آپ کو کامریڈ کینن کے یورپ اور سب سے پہلے لندن کے دورے کے متعلق آگاہ کیا گیا ہے یا نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کامریڈ شیٹمین بھی کامریڈ کینن کے ساتھ جائیں۔ میں اس دورے کو خاص طور پر انگلستان کے حوالے سے کافی اہم سمجھتا ہوں۔ کینن اور شیٹمین امریکا میں ہمارے بہترین کامریڈ ہیں، جو وسیع النظری اور سنجیدہ تنظیمی تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کا ایک کام انگلستان میں موجود ان تمام گروہوں سے ملنا بھی ہے جو چوتھی انٹرنیشنل کا حصہ ہیں یا حصہ بننا چاہتے ہیں، تا کہ ان کے درمیان سازگار حالات پیدا کیے جا سکیں جو چوتھی انٹرنیشنل کے ایک حقیقی برطانوی سیکشن کے قیام میں مدد گار ثابت ہو گا۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ اور آپ کا گروہ کینن اور شیکٹمین کے ساتھ اس کام میں مکمل تعاون کریں گے۔

مجھے لگتا ہے کہ وہ لندن میں ایک ہفتے یا اس سے بھی کم وقت کے لیے رہ پائیں گے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ اس وقت کا جتنا ہو سکے اتنا اچھا استعمال کیا جائے۔ میری نزدیک سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ دوسرے گروہوں کے ساتھ رابطے میں آتے ہوئے ایک تکنیکی کمیٹی قائم کی جائے جس کا کام امریکی دوستوں کی تمام گروہوں کے ساتھ الگ الگ ملاقات کروا کے پھر ایک ساتھ ان کی ملاقات کا بندوبست کروانا ہو۔ آپ کو یقیناً بروقت امریکی دوستوں کے لندن پہنچنے کا دن بتا دیا جائے گا۔ مجھے بہت خوشی ہوگی اگر آپ مجھے مختصراً C اور S کے ساتھ ہونے والی ملاقات کی تیاریوں کے بارے میں لکھ دیں اور بعد میں ان بحثوں کے نتائج سے متعلق بھی۔

مجھے آپ کی مطبوعات موصول ہوئیں۔ شکریہ۔ مگر میں آج صرف ’’C۔S‘‘ کے دورے سے متعلق لکھ رہا ہوں۔

میرے اور نتالیا کی طرف سے آپ اور آپ کے تمام دوستوں کے لیے نیک خواہشات۔

برادرانہ سلام،

ایل ٹراٹسکی

Coyoacan,D.F.

LT: Joe 61-18

ضمیمہ۔ مجھے فرینک میٹلینڈ کا ریوولوشنری سوشلسٹ پارٹی(RSP) کی طرف سے ایک خط موصول ہوا ہے۔ اس نے میرا سپین والا آرٹیکل ایک پمفلٹ کی صورت میں چھاپنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور وہ یہ ہمارے کسی برطانوی گروہ کے تعاون کے ساتھ کرنا چاہتا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ اس کی پارٹی کا سفر بالکل چوتھی انٹرنیشنل کی جانب ہے۔ کیا آپ ان سے رابطے میں ہیں؟ آج میں میٹلینڈ کو جواب لکھنے والا ہوں۔‘‘

فرینک میٹلینڈ سکاٹ لینڈ کا ایک ٹراٹسکائیٹ تھا جو میرے خیال سے بعد میں کچھ عرصے کے لیے RSL میں شامل ہو گیا تھا۔ لیکن ٹراٹسکی کے سپین پر لکھے گئے جس آرٹیکل کا ذکر ہوا وہ کبھی منظر عام پر نہیں آیا۔ شاید وہ کبھی چھپا ہی نہیں۔ لیکن اس کے برعکس WIL کے کامریڈوں نے ٹراٹسکی کے آرٹیکل ’’سپین کے اسباق‘‘ کا پمفلٹ شائع کیا اور ٹیڈ گرانٹ نے راف لی کے ساتھ مل کر اس کا تعارف لکھا۔ یہی وہ تعارف تھا جس کی تعریف ٹراٹسکی نے مندرجہ ذیل خط میں کی ہے:

’’عزیزم کامریڈ سمنر!

مجھے آپ کے بہترین تعارف کے ساتھ آپ کا اپنا چھاپا ہوا میرا سپین والا پمفلٹ موصول ہوا۔ اپنا چھاپہ خانہ بنانا ایک بہت اچھا انقلابی خیال ہے۔

ہمیں لیون کا آپ کو لکھا ہوا خط موصول ہوا جو کہ اس کا آخری خط ثابت ہوا۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے تب آپ کو اس کا جواب لکھا تھا یا نہیں۔ نتالیا آپ کی توجہ سے بے حد متاثر ہوئی۔

میں نے آپ کو کینن اور شیٹمین کے یورپ اور خاص طور پر انگلستان کے دورے اور اس سے جڑے منصوبوں کے متعلق لکھا تھا۔ کیا آپ کو خط موصول ہوا؟ آپ نے اس سے متعلق مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔

آپ اور آپ کے دوستوں کے لیے نیک خواہشات۔

آپ کا،

لیون ٹراٹسکی

Coyoacan,D.F.

ؒ LT: joe 71.2

چارلس سمنر کون تھا؟

چارلس سمنر (جسے اے بوائڈ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) ہیلری سمنر بوائڈ کا پارٹی میں استعمال ہونے والا نام تھا۔ وہ اصل میں ایک امریکی تھا جو جنوری 1913ء میں بوسٹن، میساچوسٹس میں پیدا ہوا اور اس نے ستمبر 1976ء میں 63 سال کی عمر میں استنبول میں وفات پائی۔ وہ میتھیو فریڈرک بوائڈ اور این پورٹر بوائڈ کا بیٹا تھا، جو یقیناً ایک خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتا تھا کیونکہ اس نے نجی تعلیم حاصل کی تھی۔

بعد میں وہ تعلیم حاصل کرنے کرائسٹ چرچ، آکسفورڈ چلا گیا۔ یوں لگتا ہے کہ اس کا خاندان انقلابی خیالات سے کافی متاثر تھا۔ اس کا باپ جان ریڈ کو جانتا تھا اور ٹراٹسکی کی اس کی والدہ کے ساتھ کچھ حد تک شناسائی تھی۔ وہ ایک ذہین شخص تھا جو یونانی، جرمن، فرانسیسی، ترک اور لاطینی زبانیں بول سکتا تھا۔

ہم جس وقت کی بات کر رہے ہیں اس وقت وہ’’برٹش ریوولوشنری سوشلسٹ لیگ‘‘ کا سیکریٹری تھا اور The Red Flag کا کاروباری مینیجر بھی تھا، اور اس کا 238 ایجویر روڈ والا فلیٹ لیگ کی سرگرمیوں کے مرکز کا کام کرتا تھا۔ اس نے ماسکو ٹرائلز کے بوگس پن کو ثابت کرنے کی مہم میں کافی متحرک کردار ادا کیا۔ وہ انٹرنیشنل سیکرٹریٹ کا ممبر بھی تھا اور اس نے چوتھی انٹرنیشنل کی تاسیسی کانفرنس میں بھی شرکت کی تھی۔

لیکن جیسا کہ WIL کے کامریڈوں نے تنبیہ کی تھی، 1938ء کی نام نہاد ’’یونٹی کانفرنس‘‘ کے مقدر میں شروع سے ہی بربادی لکھی تھی۔ کینن اور شیٹمین کا قائم کیا گیا مصنوعی ’’اتحاد‘‘ فوراً ہی ٹوٹنے لگا (جس کی وجوہات نیچے بیان کی گئی ہیں)۔ نئی تنظیم بہت جلد ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ اس سے اس کی کافی حوصلہ شکنی ہوئی ہوئی ہو گی۔

بہر طور سمنر برطانیہ چھوڑ کر ترکی چلا گیا، جہاں وہ عملی سیاست سے کنارہ کر کے درس و تدریس کی دنیا کا حصہ بن گیا، جس میں اس نے اپنا کافی نام پیدا کیا۔ اس کی سیاحوں کے لیے لکھی گئی کتاب کافی مشہور ہوئی جس کا نام ’’استنبول میں چہل قدمی: شہر کی ایک مختصر گائیڈ‘‘ تھا۔ ہیلری ترکی کے جدید تھیٹر کے ارتقاء میں بھی کافی پر اثر رہا اور اس کے بہت سے شاگرد اداکاروں، ہدایتکاروں اور لکھاریوں کے طور پر کافی مشہور ہوئے۔

لیکن ٹراٹسکائیٹ تحریک سے کنارا کرنے کے باوجود یوں لگتا ہے کہ اس نے اپنے خیالات کو مکمل طور پر ترک نہیں کیا تھا۔ برطانوی فلاسفر اے جے آئیر اس کے ساتھ ایک ملاقات یوں یاد کرتا ہے ’’۔۔۔ ایک امریکی جس کا نام ہیلری سمنر بوائڈ تھا، وہ سیکرٹری تھا، اور جتنا مجھے یاد پڑتا ہے وہ آکسفورڈ ٹراٹسکائیٹ پارٹی (!) کا واحد ممبر تھا۔ اس کے طور اطوار کی شائستگی اس کے نظریات کی درشتی سے میل نہیں کھاتی تھی۔‘‘

یہ اس کی وفات کے بعد اس کے وکیل کی طرف سے لکھے گئے خط سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ اس میں ٹراٹسکی کے ان خطوط کا ذکر ہے جنہیں اس نے اس تمام عرصے میں سنبھال کر رکھا۔ اس کا وکیل لکھتا ہے:

’’Taskonak

Meydan Mahallesi No 18

Rumeli Hisari

Istanbul

19th March, 1977

’’MW کے لیے:

مرحوم پروفیسر ہیلری سمنر بوائڈ کے وصی اور املاک کے امین کی حیثیت سے مجھے، غیر مشروط اور مکمل طور پر، ٹراٹسکی کے ہیلری کو لکھے گئے خطوط آپ کے حوالے کرتے ہوئے مسرت ہو رہی ہے جو 15اپریل اور 29 جون 1938ء اور 21 مئی 1937ء کو لکھے گئے تھے۔

یہ اب آپ کی صوابدید ہے کہ آپ ان خطوط کو استعمال کریں یا ضائع کر دیں۔

مجھے علم ہے کہ ہیلری یہ جان کر بہت خوش ہوتا کہ یہ خطوط آپ کی ملکیت میں ہیں۔ یہ بہت زیادہ تاریخی اہمیت تو نہیں رکھتے لیکن یہ تاریخ کے کسی حصے کو چھوتے ضرور ہیں۔ یہ ہیلری کی خواہش تھی کہ ان خطوط کی ملکیت ان لوگوں کو دی جائے جو انہیں اپنے مقصد کے لیے استعمال کریں نہ کہ اْس کے لیے۔ یہ خطوط اس کی خواہش کے مطابق ہی آپ کو دیے جا رہے ہیں۔

مائیکل جے۔ایل آسٹن‘‘

واضح طور پر وکیل اپنے مؤکل سے کافی حد تک آشنا تھا اور اسے اس کے سیاسی جھکاؤ کے متعلق علم تھا۔ اس نے اس بات پر بھی زور دیا کے خطوط انہیں دیے جائیں ’’جو انہیں اپنے مقصد کے لیے استعمال کریں، نہ کہ اْس کے لیے۔‘‘

اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کامریڈ سمنر نامی آدمی نے بھلے ہی بہت عرصہ پہلے انقلابی ٹراٹسکائیٹ تحریک میں فعال کردار ادا کرنا چھوڑ دیا تھا، مگر اس نے ان خطوط کو ساری زندگی سنبھال کر رکھا اور ان کی حفاظت کی، اور اسے ان کے مستقبل کی اتنی فکر تھی کہ اس نے اپنی آخری خواہش کے طور پر درخواست کی کہ ان خطوط کو ان لوگوں کے حوالے کیا جائے جو ان کی قدر و قیمت کو سمجھتے ہوں اور انہیں درست طریقے سے استعمال کر سکیں۔

یہی وجہ تھی کہ استنبول کے ایک وکیل نے کسی ایسے شخص سے رابطہ کرنے کی تکلیف اٹھائی جو اس وقت امریکہ کی SWP کا فعال رکن تھا۔ ہمیں اس بات کا علم نہیں کہ یہ رابطہ کس طرح قائم ہوا۔ ہمیں یہ علم ہے کہ خطوط وصول کرنے والے MW نے بعد میں وہ خطوط اس شخص کو دیے جس نے اب انہیں ان لوگوں کے حوالے کر دیا ہے جن کے لیے درحقیقت ٹراٹسکی نے وہ خطوط لکھے تھے۔

اس لوث تحفے کے لیے MT کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ہم نے اسے ان خطوط کا کچھ پس منظر بھی بیان کیا اور یہ بھی بتایا کہ یہ ہمارے لیے اتنی اہمیت کیوں رکھتے ہیں۔ ہمارے پیغام کا جواب دیتے ہوئے اس نے کچھ مزید تفصیلات بتائیں کہ کس طرح یہ خط منظرعام پر آئے:

’’ہیلو،

مجھے خوشی ہے کہ یہ خط اپنے صحیح ٹھکانے پر پہنچ گئے ہیں۔

ان کا ماخذ یہ ہے کہ میں بہت سال پہلے MW کے ساتھ سکول میں پڑھا کرتی تھی۔ جب MW گریجویٹ ہوا تو اس نے مجھے The Tufts Student Coalition against Racism کا فولڈر دیا، جس کی میں اگلے سال سربراہ بنی۔ اسی وقت اس نے مجھے یہ خطوط بھی دیے، کیونکہ اسے لگا کہ مجھے ان میں دلچسپی ہو گی۔ مجھے یہ خطوط دوبارہ تب ملے جب میں اپنی مرحوم ماں کے بالاخانے کی صفائی کر رہی تھی۔ یہ ہائی سکول کے ’’قیمتی‘‘ خطوط اور دستاویزات کے ایک پرانے بکسے میں پڑھے تھے۔

مجھے Tft الومنائی آفس سے MW کا موجودہ رابطہ نہیں ملا چنانچہ میں نے آن لائن تحقیق کی اور مجھے آپ کی تنظیم مل گئی۔

میں معذرت خواہ ہوں کہ یہ بہت لمبے عرصے تک منظر عام سے غائب رہے، مگر مجھے خوشی ہے کہ اب یہ آپ کو مل گئے ہیں اور یہ کچھ خالی جگہیں پر کرتے ہیں۔ مجھے ان کی اہمیت بتانے کا شکریہ! پس منظر کا علم نہ ہونے کی وجہ سے مجھے یہ کچھ مبہم سے لگے، مگر اب مجھے ان کی تاریخ اور اہمیت کا علم ہوا ہے۔

نیک خواہشات،

ایم۔ٹی‘‘

تاریخ کیسے پرپیچ راستوں سے ہو کر گزرتی ہے!

ان سوالات پر کامریڈ سٹیو ایورسن نے مزید روشنی ڈالی۔ وہ IMT کے امریکی سیکشن کا رکن ہے اور بوسٹن کا رہائشی ہے، وہ بہت سالوں تک SWP کا سرگرم رکن رہا ہے۔ پچھلی گرمیوں میں اٹلی میں ہونے والی IMT کی عالمی کانگریس میں تقریر کے دوران میں نے اس خط کو ’’ہماری سندِ پیدائش‘‘ قرار دیا تھا۔ سٹیو نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:

’’2018ء میں ہونے والی IMT کی عالمی کانگریس کے مندوبین ہمارے رجحان کی ’’سندِ پیدائش‘‘ ہمارے ہاتھوں میں آنے کی کہانی سن کر حیران رہ گئے، یہ ٹراٹسکی کا وہ خط تھا جس میں اس نے برطانوی کامریڈوں کو سپین کے انقلاب پر پمفلٹ شائع کرنے پر مبارکباد دی تھی۔

’’ کہانی سامنے آنے پر کھلا کہ اس دستاویز کا ماخذ ابھی تک راز میں تھا، کہ یہ کس طرح مختلف لوگوں کی ملکیت سے ہوتا ہوا درست جگہ پر پہنچا۔

’’اینا نے بتایا کہ وہ امریکی خاتون جس نے ہم سے رابطہ کر کے ٹراٹسکی کے تین اصلی خطوط دینے کی پیشکش کی تھی، اس نے بعد میں ہمیں ان حالات کے بارے میں بتایا جن کے نتیجے میں وہ اس کی ملکیت میں آئے۔

’’ اتفاق سے میں اس قابل ہوں کہ اس پہیلی کے کچھ ٹکڑے جوڑ سکوں۔

’’ہماری محسن نے ہمیں بتایا کہ وہ 1970ء کی دہائی کے وسط میں ٹفٹس یونیورسٹی سمروِل، میساچوسٹس کی طالبہ تھی۔ وہاں پڑھنے کے دوران وہ National Students Coalition Against Racism-NSCAR کی اس کیمپس کی شاخ کا حصہ بن گئی۔ میں بھی اس تنظیم کی مختصر سی زندگی میں اس کا حصہ رہا ہوں۔ اب اگرچہ میں اس یونیورسٹی سے محض کچھ ہی فاصلے پر رہتا ہوں، مگر تب میں براعظم کی دوسری جانب کیلیفورنیا میں رہا کرتا تھا۔

’’اس تنظیم (NSCAR) کی بنیاد جنوری 1975ء میں بوسٹن یونیورسٹی میں ایک کانفرنس میں رکھی گئی، یہ تنظیم بنانے کے پیچھے امریکی سوشلسٹ ورکرز پارٹی (SWP) اور اس کی نوجوانوں کی تنظیم ینگ سوشلسٹ الائنس کار فرما تھے۔ اور اس کا مقصد بوسٹن میں نسل پرستوں کا راستہ روکتے ہوئے سیاہ فاموں کی سکولوں کی علیحدگی کے خلاف جدوجہد کو وسیع اور تیز کرنا تھا۔

’’اس خاتون نے وضاحت کی کہ جب SCAR کی ٹفٹس یورسٹی کی شاخ کا سربراہ بوسٹن چھوڑ کر دوسرے شہر جانے کی تیاری کر رہا تھا تو اس نے اسے یہ تینوں خطوط دیے تھے۔ یہ خطوط اسے ایک پروفیسر سے وراثت میں ملے تھے جو 1970ء کی دہائی کے شروع میں وفات پا گیا تھا۔

’’اس پروفیسر اور طالب علم کا تعلق تو ابھی تک ایک راز ہے، مگر وہ طالب علم، MW، ایک ایسا شخص ہے جسے میں ایک زمانے میں جانتا تھا۔

’’جہاں تک مجھے علم ہے وہ اب سیاسی طور پر متحرک نہیں ہے۔ مگر MW بہت سالوں تک سوشلسٹ ورکرز پارٹی کا رکن رہا۔ کئی سال تک اس نے مختلف شہروں میں برانچ آرگنائزر کی حیثیت سے کام کیا اور یہاں تک کہ 1985ء میں وہ پٹس برگ، پنسلوینیا کے میئر کے لیے SWP کے امیدوار کے طور پر بھی سامنے آیا۔

’’اس معاملے سے متعلق ایک اور پرتجسس بات یہ ہے کہ 1977ء میں وہ یہ خطوط اس طرح آگے کیوں دے رہا تھا جبکہ اس وقت تک ہاورڈ یونیورسٹی میں ٹراٹسکی آرکائیو بہت عرصے سے عام لوگوں کے لیے دستیاب تھا، اور بہت سے SWP کے ممبران کے ذمے Pathfinder پریس کے لیے ٹراٹسکی کی آخری جلاوطنی کے دوران لکھی گئی تحاریر اکٹھی کرنے کا کام لگایا گیا تھا۔ تو اس نے یہ خطوط اپنی پارٹی کے حوالے کیوں نہیں کر دیے؟‘‘

ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ان تین میں سے دو خطوط کی نقول آرکائیو میں موجود تھیں اور انہیں چھاپا بھی گیا۔ مگر وہ تیسرا خط، جس میں ہمیں سب سے زیادہ دلچسپی تھی، آج سے پہلے کبھی منظر عام پر نہیں آیا۔۔۔

خط کیوں چھپایا گیا

پہلے دو خطوط SWP نے ٹراٹسکی کی تحاریر میں چھاپے تھے۔ تیسرا کہیں نہیں چھپا۔ وہ یوں غائب ہو گیا جیسے وہ کبھی وجود ہی نہیں رکھتا تھا۔ یہ سوال پوچھا جانا چاہیے: کیوں صرف اور صرف یہی خط دہائیوں تک دبا کر رکھا گیا؟

اگر یہ خط ہمارے رجحان کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل تھا، تو ظاہر ہے کہ اسے جان بوجھ کر دبایا جانا ہمارے سیاسی دشمنوں کے لیے بھی اتنی ہی اہمیت کا حامل تھا، اور اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ خط درحقیقت SWP کے رہنماؤں کی جانب سے جان بوجھ کر دبایا گیا، خاص طور پر جیمز کینن کی جانب سے۔

ہمارے پاس اس دعوے کا کیا ثبوت ہے؟ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ یہ تین خطوط تھے۔ ان میں سے دو ٹراٹسکی کی تحاریر میں چھپے تھے، جو امریکہ کی SWP جانب سے جاری کی گئی تھیں۔ صرف ایک خط نکالا گیا، یہی وہ مشہور گمشدہ خط ہے۔ کیا SWP کے پاس اس خط کی نقل موجود نہیں تھی؟ ایسا ناممکن ہے۔ جوزف ہینسن، جو ٹراٹسکی کا ایک سیکرٹری تھا، کے پاس ٹراٹسکی کی تمام خط و کتابت کی نقول موجود ہوا کرتی تھیں۔ اس کے پاس یقیناً اس خط کی نقل بھی موجود تھی۔ اس بات کا پتہ یوں چلتا ہے کہ خط کے آخر میں اندراج نمبر دیکھا جاسکتا ہے:’’Joe 71.2‘‘ (اس کا مطلب: جو ہینسن کو مہیا کی گئی نقل)

اس کے باوجود ہاورڈ آرکائیوز میں اس خط کی کوئی نقل موجود نہیں ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ 2003ء میں کامریڈ راب سیول ٹراٹسکی آرکائیوز میں سے یہ خط ڈھونڈنے ہاورڈ یونیورسٹی، بوسٹن گئے تھے۔ اسے وہاں اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ مگر اس دوران، جیسا کہ پہلے بتایا جاچکا ہے، اسے ٹراٹسکی کی لکھی ہوئی سٹالن کی سوانح عمری کے بہت سے حذف شدہ مسودے کے بکسے ملے۔ یہاں سے IMT کے ایک اور ضروری کام کا آغاز ہوا، وہ ضروری کام اس اہم کتاب کی تکمیل تھا۔ مگر جہاں تک اس گمشدہ خط کا تعلق تھا، وہ گمشدہ ہی رہا۔

اس معاملے کی وجوہات کی وضاحت کے لیے ہمیں اپنے رجحان کی شروعات کے دور میں جانا ہو گا، یہ وہ دور تھا جب 80 سال پہلے 1938ء میں ٹراٹسکی چوتھی انٹرنیشنل بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہ ان حالات کی تفصیل میں جانے کے لیے درست جگہ نہیں ہے، جن حالات میں یہ سب ہو رہا تھا یا وہ حالات جو بعد میں چوتھی انٹرنیشنل کے انہدام کا باعث بنے۔ ان سوالات سے متعلق دوسری جگہوں پر بات کی گئی ہے، جن میں ٹیڈ گرانٹ کی تحاریر ’’برطانوی ٹراٹسکی ازم کی تاریخ‘‘ اور ’’انٹرنیشنل کا پروگرام‘‘ شامل ہیں۔

اس آرٹیکل کی حدود اس سے کہیں کم ہیں، مگر پھر بھی اس میں اس غلط طریقہ کار اور تنظیمی ٹال مٹول پر روشنی ڈالی گئی ہے جو، غلط سیاسی موقف اور تجزیات کے ساتھ مل کر، دوسری عالمی جنگ کے بعد انٹرنیشنل کی ٹوٹ پھوٹ اور انہدام کا باعث بنے۔

ہم اگرچہ اس موضوع پر تفصیل سے بات نہیں کر سکتے، مگر کچھ واقعات کا خاکہ کھینچنا ضروری ہے، تا کہ قاری یہ بات سمجھ سکے کہ گمشدہ خط کے پیچھے کون سے عوامل کار فرما تھے۔

IMT کا آغاز

ہمارے رجحان کی تاریخ 1920ء کی دہائی میں لیون ٹراٹسکی کے لیفٹ اپوزیشن کے شاندار کام میں تلاش کی جا سکتی ہے۔ بلکہ اس کے تانے بانے اس سے بھی پہلے لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں تیسری انٹرنیشنل کے عظیم دنوں کے ساتھ جا ملتے ہیں۔

شدید فرسودہ حالات میں روس کے انقلاب کی تنہائی کی وجہ سے ایک بڑی افسر شاہی نے جنم لیا جو جیت کے ثمرات سے فائدہ اٹھانا چاہتی تھی۔

ہمارے رجحان کی تاریخ 1920ء کی دہائی میں لیون ٹراٹسکی کے لیفٹ اپوزیشن کے شاندار کام میں تلاش کی جا سکتی ہے۔ بلکہ اس کے تانے بانے اس سے بھی پہلے لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں تیسری انٹرنیشنل کے عظیم دنوں کے ساتھ جا ملتے ہیں۔

افسر شاہی کی عالمی انقلاب کی مخالفت کی مادی وجوہات موجود تھیں۔ قدامت پرست اہلکاروں کی ابھرتی ہوئی پرت ایک پر سکون زندگی چاہتی تھی، جو انقلاب کی ہنگامہ خیزی اور پریشانی سے پاک ہو اور جس پر عوام کا کوئی اختیار بھی نہ ہو۔ محنت کش طبقہ کو ہونے والی ہر شکست کے ساتھ لاکھوں افراد پر مشتمل یہ مراعات یافتہ برادری، جو بہت سے زار کے دور کے سابق افسران پر مشتمل تھی، مضبوط ہوتی جا رہی تھی، اور تھکتے ہوئے محنت کش طبقے کو پرے دھکیل رہی تھی۔

لینن کی آخری بیماری کے بعد ٹراٹسکی نے سٹالن اور افسر شاہی کی بڑھتی ہوئی لعنت کے خلاف جدوجہد کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھائی اور لینن کے پرولتاری بین الاقوامیت اور مزدور جمہوریت کے پروگرام کی خاطر لڑائی جاری رکھی۔ اس نے 1923ء کے آخر میں جرمن انقلاب کی شکست کے بعد لینن کے ان بنیادی نظریات کے دفاع کی کوشش میں لیفٹ اپوزیشن کی بنیاد رکھی، جنہیں منظم طریقے سے نظرثانی کرتے ہوئے کوڑے دان میں پھینکا جا رہا تھا۔

روس کے اندر جاری اپوزیشن اور سٹالن، زینوویف اور کامنیف کی تکون کے درمیان کشمکش شروع میں CPSU کی قیادت تک محدود رہی۔ مگر کشمکش کی اپنی ایک رفتار تھی اور لینن کی وفات کے بعد ٹراٹسکی کو لینن کا جانشین نہ بننے دینے کی مہم کمیونسٹ انٹرنیشنل کی صفوں تک چلی گئی۔

روسی پارٹی میں سٹالن نے اپنی حیثیت کا استعمال کرتے ہوئے ایسے لوگوں کا انتخاب کرنا شروع کیا جو اس کے دھڑے کے وفادار تھے، اور زینوویف نے دوسرے سیکشنز میں ایسے رہنماؤں کا انتخاب کیا جو ماسکو کے زیادہ فرماں بردار ثابت ہوئے تھے۔ اس کے باوجود کمیونسٹ تحریک کے ابتدائی دنوں میں قیادت روس کی پارٹی میں حزب اختلاف کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات پر مصنوعی قسم کی جمہوری بحث کی اجازت دینے پر مجبور ہوتی تھی۔

بعدازاں نومبر 1927ء میں لیفٹ اپوزیشن کی بے دخلی سے کمیونسٹ پارٹیوں میں لینن ازم کی حقیقی قوتوں کو شکست ہو گئی۔ اس سے سٹالن کا رستہ صاف ہو گیا اور بعد میں اس نے بخارن کی رائٹ اپوزیشن کو بھی راستے سے ہٹا دیا۔ اس سے سوویت یونین میں افسر شاہی مزید مضبوط ہوئی اور کمیونسٹ انٹرنیشنل سے تمام اپوزیشن عناصر کو بے دخل کر دیا گیا۔ روس میں لیفٹ اپوزیشن کی بے دخلی کے بعد کومنٹرن کے تمام سیکشنز میں اسی طرح کی تطہیر عمل میں لائی گئی۔

ایک شخص‘ پوری دنیا کے مدمقابل

سٹالن اور اس کی طاقتور حکومت کی حزب اختلاف کو کچلنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود ٹراٹسکی چپ رہنے پر آمادہ نہ ہوا۔ ترکی کے چھوٹے سے جزیرے پرنکیپو سے اس نے سٹالنزم کے خلاف اپنی ثابت قدم جدوجہد جاری رکھی۔ اس نے ان کمیونسٹوں کو اکٹھا کرنے کا سست رو اور مشکل کام شروع کیا جو بالشویک لینن ازم کے حقیقی پروگرام اور روایات کا دفاع کرنا چاہتے تھے۔

لیکن ٹراٹسکی ناقابل یقین حد تک مشکل حالات میں ایک نئی انٹرنیشنل بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔ یورپ کو لپیٹ میں لینے والی رجعت کی لہر کا اظہار اٹلی، جرمنی اور سپین میں محنت کش طبقے کی شکست اور فسطائیت کے ابھار کی صورت میں ہو رہا تھا۔ روس میں بھیانک ماسکو ٹرائل بالشوزم کے خلاف سٹالنسٹ افسر شاہی کی یکطرفہ خانہ جنگی کی نمائندگی کر رہے تھے۔ ٹراٹسکی نے میکسیکو میں جلاوطنی کی زندگی گزارتے ہوئے نامساعد حالات میں پر عزم مگر تنہا جدوجہد جاری رکھی: ایک آدمی پوری دنیا کے مدمقابل۔

اس صورتحال میں نئی انٹرنیشنل کے کارکنان لازمی طور پر شکست اور رجعت کے ماحول کی عکاسی کرتے تھے، زیادہ تر پیٹی بورڑوازی سے تعلق رکھنے والے مایوس عناصر تھے۔ حقیقت یہ تھی کہ ٹراٹسکی کے پاس انحصار کرنے کے لیے انتہائی محدود وسائل تھے۔ بہت سے لوگ جو اپوزیشن کی طرف آئے ان کے آنے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ بالشویک لینن ازم پر قائل تھے، بلکہ وہ سٹالنزم کی زیادتی کے ردِ عمل میں آئے تھے۔ کچھ تھک ہار چکے تھے، اور بہت سے سیاسی طور پر بے سمت تھے۔ ان میں انتہائی بائیں بازو کے افراد، نیم انارکسٹ، انجمن کار، بورڈیگسٹ اور دیگر کج رو شامل تھے۔

ٹراٹسکی اس مسئلے سے بخوبی آگاہ تھا۔ یہ حقیقت ٹراٹسکی کی کتاب ’’فرانسیسی سیکشن کا بحران‘‘ سے واضح ہوتی ہے، جو 36۔1935ء کے دور کا احاطہ کرتی ہے۔ اس موضوع پر سب سے زیادہ واضح ٹراٹسکی کے ایک انٹرویو کا مسودہ ہے جو اس نے تب کے ایک French Left Youn Socialist کے رہنما فریڈ زیلر کو دیا تھا۔ جب فریڈ زیلر نے ٹراٹسکی سے فرانس میں موجود اس کے مقلدین کے غلط طرز عمل کی شکایت کی تو اس نے ان کا دفاع نہیں کیا۔ اس محض اتنا کہا:

’’تمہیں پتا ہے، اس نے کہا، کہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ آپ کے پاس جو ہو آپ کو اسی سے کام سے چلانا پڑتا ہے۔ یہ ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔‘‘ (ٹراٹسکی، تنظیمی مسائل پر، نومبر 1935ء، ’فرانسیسی سیکشن کا بحران‘ میں، صفحہ نمبر 67)

برطانیہ میں ٹراٹسکی ازم

ٹراٹسکی کا فرانسیسی ٹراٹسکائٹس سے متعلق قیاس ان لوگوں پر بھی ہو بہو لاگو کیا جا سکتا تھا جو برطانیہ میں خود کو ٹراٹسکائیٹ کہتے تھے۔ فرانسیسیوں کی طرح وہ بھی زیادہ تر پیٹی بورژوا عناصر پر مشتمل تھے، وہ غیر رسمی سے لوگ تھے جو چھوٹے گروہ کی نفسیات سے باہر نکل کر محنت کش طبقے کی طرف رخ کرنے کے قابل نہیں تھے۔ انہیں فرقہ واریت کی بیماری لاحق تھی، یہ وہ وبا ہے جو تحریک میں شروع سے ہی پھیلی ہوئی تھی اور اس پر ٹراٹسکی نے بھی کئی مرتبہ تنقید کی تھی۔

برطانوی ٹراٹسکائٹس کی تنہائی دور کرنے کی خاطر ٹراٹسکی نے انھیں انڈیپنڈنٹ لیبر پارٹی میں شامل ہونے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی، جو 1930ء کی دہائی کے اوائل میں لیبر پارٹی سے علیحدہ ہوئی تھی اور اسے ایک بڑی تعداد میں بائیں بازو کا رجحان رکھنے والے محنت کشوں کی حمایت حاصل تھی۔ قدرتی طور پر انہوں نے یہ تجویز نہیں مانی اور پھر بالآخر ایک پندرہ سے بیس افراد کا چھوٹا سا گروہ ILP میں شامل ہوا۔ بدقسمتی سے وہ بہت ناتجربہ کار تھے اور وہ بہت تاخیر سے تب ILP کا حصہ بنے تھے جب وہ اپنی بنیادی کھونے لگی تھی۔ وہ مارکسسٹ گروپ کے نام سے جانے جاتے تھے۔

حالات تب تبدیل ہونا شروع ہوئے جب جنوبی افریقہ سے کچھ پْرجوش نوجوان ٹراٹسکائیٹ وہاں پہنچے، ان میں سے ایک ٹیڈ گرانٹ تھا۔ انہوں نے کچھ فائدے تو حاصل کیے مگر تب تک ILP میں کام کرنے کے مواقع کافی کم ہو چکے تھے۔ ٹراٹسکی نے دیکھا کہ لیبر پارٹی میں کام کرنے کے لیے کافی سازگار حالات پیدا ہو رہے تھے۔ خاص طور پر لیبر لیگ آف یوتھ میں۔ اس نے لکھا:

’’کیونکہ ILP یوتھ تعداد میں کم اور بکھری ہوئی ہے، اس کے برعکس لیبر یوتھ نوجوانوں کی ایک بڑی تنظیم ہے، تو میں یہ کہوں گا: محض دھڑے ہی نہ بناؤ، حصہ بننے کی کوشش کرو۔ برطانوی سیکشن کو اپنے ابتدائی سرگرم کارکنان لیبر لیگ آف یوتھ کے تیس ہزار نوجوان محنت کشوں میں سے ملیں گے۔‘‘ ( لیون ٹراٹسکی، تحاریر، 36۔1935ء ، صفحہ نمبر 203)

ٹیڈ گرانٹ نے لیبر پارٹی کے اندر بالشویک لینن اسٹ گروپ تعمیر کرنے میں مدد کی، جو اپنے پرچے کے نام پر میلیٹنٹ گروپ کے نام سے جانا جانے لگا۔ اس وقت تک جنوبی افریقہ والے گروپ کی اکثریت اس کے ساتھ آ چکی تھی، جس میں راف لی بھی شامل تھا۔ لیکن میلیٹنٹ گروپ زیادہ تر پیٹی بورژوازی پر مشتمل تھا اور اس کی اندرونی قیادت میں اس کی جھلک نظر آتی تھی۔ وہاں چغلیوں، سازشوں اور دھوکے بازی کا بازار گرم تھا۔ یہ وہ غیر صحت مند ماحول تھا جس میں پیٹی بورژوا عناصر خوب پھلتے پھولتے ہیں۔

ٹیڈ گرانٹ اور راف لی

پرانے لیڈر پرجوش نوجوان کامریڈوں سے حسد کرتے تھے، ان سے تعصب رکھتے تھے اور انہیں اپنی حیثیت اور اثر و رسوخ کے لیے خطرے کے طور پر دیکھتے تھے۔ سازشوں اور ذاتی حملوں نے سیاسی بحث کی جگہ لے لی تھی، جیسا ہمیشہ اس طرح کے گروہوں میں ہوا کرتا ہے۔ اپنے سیاسی موقف پر دلیل دینے کی اہلیت نہ رکھنے کی وجہ سے لیڈران نے راف لی کے خلاف سازشوں اور الزامات مہم کا آغاز کر دیا، یہ الزامات غلط تھے اور بعد میں ان کی تردید بھی ہو گئی، مگر ماحول میں ایسا زہر گھلا کہ تعلقات میں تلخی آ گئی۔ اس بحران کا اختتام میلیٹنٹ گروپ سے کامریڈوں کی بے دخلی پر ہوا۔

نکالے گئے کامریڈوں نے فیصلہ کیا کہ ایک نیا آغاز ضروری ہے۔ انہوں نے ورکرز انٹرنیشنل لیگ(WIL) کی بنیاد رکھی اور ورکرز انٹرنیشنل نیوز کا پہلا شمارہ جنوری 1938ء میں شائع ہوا۔ وہ مٹھی بھر ہی تھے مگر ان کے پاس تعداد اور وسائل کی کمی تھی جسے انہوں نے تازہ دم جوش اور انقلابی جذبے سے پورا کیا۔ نئے لوگوں کو ILP گلڈ آف یوتھ، لیبر لیگ آف یوتھ اور کمیونسٹ پارٹی سے جیتا گیا۔ ٹیڈ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے لکھتا ہے:

’’ہم آٹھ ممبر تھے۔ ہم سرگرم تھے، ہم ہائیڈ پارک، پیکیڈلی اور ٹاٹن ہیم کورٹ روڈ جا کر پرچہ بیچا کرتے تھے۔ جہاں ہڑتالیں ہوتیں ہم ان میں مداخلت کرتے اور اسی طرح ہم لوگوں کو جیتا کرتے تھے۔ ہم نے محنت کشوں کو جیتا۔ جیسا کہ آپ کو علم ہے کہ ہم واحد محنت کشوں کا گروہ تھے۔ ہمیں محنت کش چاہیے تھے۔ ہم وہ کوڑا کرکٹ نہیں چاہیے تھا جو دوسرے گروہوں میں موجود تھا۔‘‘

جنگ سے کچھ عرصہ پہلے ورکز انٹرنیشنل لیگ نے اپنی پہلی پرنٹنگ مشین حاصل کر لی: یہ پرانی اور خستہ خال مشین تھی جسے لی نے چلنے کے قابل بنا دیا تھا، وہ کافی ماہر تھا۔ وہ ایک نظریاتی رسالہ ورکرز انٹرنیشنل نیوز اور ایک اخبار ’یوتھ فار سوشلزم‘ بھی شائع کیا کرتے تھے۔ انہوں نے ٹراٹسکی کے آرٹیکل ’’سپین کے اسباق‘‘ کا ایک چھوٹا پمفلٹ بھی شائع کیا جس کا تعارف ٹیڈ گرانٹ نے راف لی کے ساتھ مل کر لکھا تھا۔

ورکرز انٹرنیشنل لیگ(WIL)کا اخبار ’’یوتھ فار سوشلزم‘‘ شمارہ مارچ 1939ء

ورکرز انٹرنیشنل لیگ (WIL) کے قیام کے کچھ عرصے بعد راف لی نے 12 فروری 1938ء کو ٹراٹسکی کو ایک خط لکھا (لیون ٹراٹسکی کی جلاوطنی کی دستاویزات، ہارورڈ، bms Russ 13.1، 2625)۔ اس نے ورکرز انٹرنیشنل نیوز کے دو شمارے بھی بھیجے۔ ان میں WIN کا پہلا شمارہ بھی شامل تھا جو جنوری میں چھاپا گیا تھا اور اس میں ٹراٹسکی کا ایک آرٹیکل بھی موجود تھا۔ ٹراٹسکی نے خط پڑھا اور اس پر سرخ اور نیلی پنسل سے نشانات بھی لگائے۔ ٹراٹسکی نے اس جگہ حاشیے پر سوالیہ نشان بنا رکھا تھا جہاں راف نے علیحدہ سے WIN کی کاپیاں اور پمفلٹ بھیجنے کا ذکر کیا تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ شاید اسے وہ موصول نہیں ہوئے یا پھر وہ ان کے متعلق مزید جاننا چاہتا تھا، یا پھر یہ دونوں باتیں ہو سکتی ہیں۔

اس نے وضاحت کی کہ گروپ نے اپنا چھاپہ خانہ بنا لیا ہے جس پر WIN شائع کیا گیا ہے۔ ’’اب تک ہم ورکرز انٹرنیشنل نیوز کے دو شمارے اور لیون ٹراٹسکی پر ماسکو ٹرائلز میں لگائے جانے والے الزامات پر کمیشن کی آخری رپورٹ ایک پمفلٹ کی صورت میں شائع کرچکے ہیں۔ ان کی کاپیاں آپ کو ایک علیحدہ لفافے میں بھیج دی گئی ہیں‘‘ اس جملے پر لال رنگ سے نشان لگایا گیا تھا۔

راف نے اپنے خط کا اختتام ان الفاظ میں کیا، ’’اب تک ہم امریکی کامریڈوں پر انحصار کر رہے تھے، مگر دوسری کئی چیزوں کے ساتھ اس کا نقصان یہ تھا کہ مطبوعات کی قیمت زیادہ ہوتی تھی اس لیے انہیں بڑے پیمانے پر پھیلایا نہیں جاسکتا تھا۔ چوتھی انٹرنیشنل کے ایک دوسرے سیکشن پر انحصار ختم کرنے کے لیے ہم نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آپ کی نیک خواہشات ہمارے ساتھ ہوں گی۔’’آخری آٹھ الفاظ پر دوبارہ ٹراٹسکی نے سرخ پنسل سے نشان لگا رکھا ہے۔ یہ وہ بات تھی جس پر وہ غور کرنا چاہتا تھا یا مزید معلومات حاصل کرنا چاہتا تھا، غالباً چارلس سمنر سے۔

ٹراٹسکی آرکائیو میں 14 دسمبر 1938ء کو راف لی کی طرف سے ٹراٹسکی کو بھیجا جانے والا ایک اور خط موجود ہے جس میں 27 نومبر 1938ء کو ہونے والے WIL کے تمام ممبران کے اجلاس کا اعلامیہ بھی بھیجا گیا ہے۔ (bms Russ 13.1، 1111-1115)

23 جولائی 1938ء کو امریکی SWP کے لیڈروں کے ساتھ ہونے والی ایک گفتگو میں ٹراٹسکی نے انقلابی ایثار کا جذبے کی کمی اور چھاپہ خانہ نہ بنا پانے پر انہیں خوب جھاڑ پلائی۔ صرف یہی نہیں اس نے انہیں WIL کی مثال بھی دی:

’’ہمارے پاس اور کچھ نہیں تو کم از کم ایک چھاپہ خانہ ہونا چاہیے۔

’’مثال کے طور پر ہمارے انگلستان کے کامریڈوں کے پاس اپنا چھاپہ خانہ ہے۔ اگر ہمارے پاس اپنا چھاپہ خانہ اور اس پر کام کرنے والے دو یا تین کامریڈ ہوں تو ہم نہ صرف ہفتے میں دو مرتبہ سوشلسٹ اپیل شائع کرسکتے ہیں بلکہ پمفلٹ اور لیفلٹ وغیرہ بھی نکال سکتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ پارٹی کی بنیاد بہت حد تک پیٹی بورژوا تصورات پر ہے۔

’’ہمیں اپنے نوجوانوں کی تربیت کرنی ہو گی تاکہ ان میں ایثار کا جذبہ پیدا ہو۔ ہمارے پاس پہلے ہی تحریک میں بہت سارے نوجوان ’’افسر‘‘ موجود ہیں۔‘‘ (ٹراٹسکی، تحاریر، 38۔1937ء ، صفحہ نمبر 394)

یہ تنقید کینن کو بہت چبھی ہو گی۔ یہ اس کی انا کے لیے شدید جھٹکا تھا، وہ بھی ٹراٹسکی کی طرف سے جس کے اثر و رسوخ میں وہ پناہ لیا کرتا تھا۔ اس کی شان و شوکت پر حرف آ رہا تھا جو کہ اس کے لیے ناقابل معافی جرم تھا۔ اس سے WIL کے لیے اس کی مسلسل بدگمانی اور دشمنی کی وضاحت ہوتی ہے، جس پر اس نے بے رحم حملے کیے اور ایسا طریقہ کار استعمال کیا جس کی ٹراٹسکی واضح مذمت کرتا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹراٹسکی کی باقی تمام طویل باتیں لفظ بہ لفظ SWP کے اندرونی اخبار میں شائع کی گئیں، لیکن وہ تمام باتیں حذف کر دی گئیں جن میں SWP پر تنقید کی گئی تھی۔

کیسے اکٹھا نہ ہوا جائے

ورکرز انٹرنیشنل لیگ(WIL) کی بڑھوتری کا اظہار 1941ء میں پندرہ روزہ ’سوشلسٹ اپیل‘ کے اجرا سے ہوتا ہے

عالمی جنگ کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر ٹراٹسکی نے انٹرنیشنل بنانے کی کوششیں تیز کر دیں۔ اگست 1938ء میں چوتھی انٹرنیشنل کی تاسیسی کانفرنس سے کچھ وقت پہلے امریکی سوشلسٹ ورکرز پارٹی سے جیمز پی کینن برطانوی ٹراٹسکائیٹس کے مختلف گروپوں کو متحد کرتے ہوئے ایک تنظیم بنانے کا مقصد لے کر لندن آیا۔

ٹراٹسکی کے ساتھ خاص تعلق کی بنا پر SWP کے لیڈر سمجھتے تھے کہ انہیں عالمی ٹراٹسکائیٹ تحریک میں ایک امتیازی مقام حاصل ہے۔ یہ بات خاص طور پر کینن کے لیے بالکل درست تھی، جو یہ سمجھتا تھا کہ برطانوی ٹراٹسکائیٹس کو ہر معاملے میں اس کے حکم کی تعمیل کرنی چاہیے۔

کینن نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے کامریڈوں پر دباؤ ڈالا کہ وہ دوسرے گروپوں کے ساتھ الحاق کر لیں۔ انہوں نے اسے بتایا کہ وہ الحاق کے حق میں ہیں، لیکن صرف لائحہ عمل اور طریقہ کار کے حوالے سے واضح سیاسی ہم آہنگی کی بنیاد پر۔ اگر کینن بے اصولی کے تحت زبردستی الحاق کروائے گا، انہوں نے اسے بتایا، تو وہ تین گروپوں کو ملا کر دس گروپ بنا دے گا۔ بہرحال اس نے پوچھا کہ کیا وہ یونٹی کانفرنس پر آئیں گے جس پر انہوں نے وہاں آکر اپنا موقف رکھنے کی حامی بھری۔

ورکرز انٹرنیشنل لیگ (WIL) کے ممبران خاص طور پر بہت محتاط تھے۔ میلیٹنٹ گروپ کے ساتھ برے تجربے کے بعد انہیں شبہ تھا کہ حقیقی اتحاد کیوں کر قائم ہو سکتا ہے۔ مگر وہ فرض شناسی کے ساتھ کانفرنس میں شامل ہوئے۔ وہ بلاشبہ چوتھی انٹر نیشنل کی مکمل حمایت کرتے تھے اور کینن کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے، مگر جب وہ کانفرنس پر آئے تو وہاں انہوں نے جو کچھ دیکھا اس سے انہیں سراسر رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ پوری کہانی ’’برطانوی ٹراٹسکی ازم کی تاریخ‘‘ میں ڈھونڈی جا سکتی ہے، جہاں یہ سب لکھا ہے:

’’پیرس میں چوتھی انٹر نیشنل کی تاسیسی کانگریس سے پہلے تمہید کے طور پر جیمز کینن، جو امریکی ٹراٹسکائیٹس کا رہنما اور عالمی کانگریس کا مندوب تھا، امریکہ سے ایک متحد ٹراٹسکائٹ تنظیم کی بنیاد رکھنے برطانیہ آیا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ ایک ہی جھٹکے میں تمام اختلافات مٹا کر تحریک کو متحد کر دے گا۔ اس وقت لندن کے علاقے میں تین ایسے گروپ تھے جو ٹراٹسکائیٹ ہونے کا دعوی کرتے تھے اور ایک گروپ سکاٹ لینڈ میں بھی تھا۔ یہ سب میلیٹنٹ گروپ، ریولوشنری سوشلسٹ لیگ (RSL)، ریولوشنری سوشلسٹ پارٹی (RSP) اور ہم، یعنی ورکرز انٹرنیشنل لیگ (WIL) تھے۔ RSP والے سوشلسٹ لیبر پارٹی سے الگ ہوئے تھے، یہ اسکاٹ لینڈ کی ایک فرقہ ورانہ تنظیم تھی جس کے کچھ پارچے گلاسکو اور ایڈن برگ میں بھی موجود تھے اور اس کے علاوہ ان کے کچھ افراد یاکشائر میں بھی تھے۔ یہ ٹراٹسکی ازم کی جانب چل پڑے تھے۔

’’یہ وہ حالات تھے جب کینن اس ملک میں آیا۔ ہم کینن کا احترام کرتے تھے، جس کی اس تحریک میں ایک لمبی انقلابی تاریخ تھی، وہ SWP کا رہنما تھا اور میکسیکو میں ٹراٹسکی کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھا۔ کامریڈ اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ جب ہم کینن سے ملے تو اس نے بتایا کہ اس کا کام ستمبر میں ہونے والی چوتھی انٹرنیشنل کی تاسیسی کانگریس سے پہلے برطانوی گروپوں کو متحد کرنا تھا۔ وقت یہی تھا اور اتحاد سے پہلے سب کے ذہنوں میں سب کچھ درست ہونے کا انتظار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جہاں تک ہمارا تعلق تھا ہم نے اسے بتایا کہ ہم اتحاد کے حق میں تھے، مگر یہ اتحاد درست اصولی بنیادوں پر ہونا چاہیے تھا۔ اس وقت گروپوں کے درمیان بنیادی اختلافات کی بنیاد پر ہمیں فوری طور پر کام کے طریقہ کار سے متعلق مسائل کا سامنا کرنا پڑتا: مداخلت یا عدم مداخلت، آزادانہ کام یا لیبر پارٹی کے اندر کام۔ ہم نے کینن کو بتایا کہ اتحاد سے پہلے ہم سب کو ایک واضح پالیسی پر متفق ہونا پڑے گا۔ کسی بھی متحد تنظیم کے قیام کے لیے آزادانہ کام یا مداخلت کی پالیسی میں سے کسی ایک پر متفق ہونا ضروری تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ لازمی طور پر اقلیت کویہ حق ہونا چاہیے تھا کہ وہ آزادانہ اور مکمل طور پر اپنا موقف رکھے، اور تنظیم کے اندر رہتے ہوئے اکثریت کو قائل کرنے کی کوشش کر سکے۔

’’کینن نے کہا: ’ہاں مگر RSP اور جیمز کے رجحانات کبھی یہ تسلیم نہیں کریں گے۔‘ چنانچہ ہم نے جواب دیا: ’اگر وہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، تو جہاں تک ہمارا تعلق ہے، بلاشبہ کوئی اتحاد نہیں ہو گا۔‘‘

ورکرز انٹرنیشنل لیگ (WIL) کے کامریڈوں کے بدترین خدشات فوراً ہی سچ ثابت ہو گئے۔ یونٹی کانفرنس کی تمام کارروائی ایک دھوکا تھی۔ دروازے کھلتے اور بند ہوتے تھے، لوگ ادھر ادھر کے چکر کاٹ رہے تھے، صلاح مشورے اور گٹھ جوڑ ہو رہے تھے اور لوگ خرید و فروخت اور بند دروازوں کے پیچھے سمجھوتے کرنے میں لگے تھے۔ راف لی نے یہ سب کچھ دیکھ کر اسے ایک بے ہودہ نوٹنکی سے تشبیہ دی۔ وہ افراد جن سے کسی نے صلاح مشورہ یا گٹھ جوڑ نہیں کیا وہ ورکرز انٹرنیشنل لیگ (WIL) کے اراکین تھے۔

بنیادی طور پر مسئلہ یہ تھا کہ بالکل مختلف پالیسی، لائحہ عمل اور رجحانات رکھنے والے گروپوں کو اکٹھا کرنا ناممکن تھا۔ WIL کے کامریڈوں نے کینن کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی، لیکن اس کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ وہ اتحاد چاہتا تھا اور اس کے علاوہ کچھ سننے کو تیار نہیں تھا۔ آخر میں WIL نے حصہ بننے سے انکار کر دیا۔ ان کا موقف تھا کہ اتحاد کا ایک ایسا معاہدہ، جس میں ان ٹراٹسکائیٹس کو آزادانہ کام کرنے کی اجازت دی گئی تھی جو مداخلت کے خلاف تھے، نہیں چل سکتا تھا۔

کینن نے اپنی عادت کے مطابق جواب دیا۔ اس نے کہا، ’’ہم علیحدگی پسندوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح کچل دیتے ہیں‘‘۔ لی نے بھی اسی لہجے میں جواب دیا کہ ان بنیادوں پر اتحاد ممکن نہیں ہے۔ ہینری سارا، جو صدارت کر رہا تھا، لی سے کہنے لگا، ’’تم ایک مہمان سے اس طرح بات نہیں کر سکتے۔‘‘ ٹیڈ نے کھڑے ہو کر احتجاج کرتے ہوئے کہا: ’’اگر کامریڈ ٹراٹسکی بھی یہاں پر موجود ہوتے تو پھر بھی ہمیں اپنی مرضی کے مطابق اپنا موقف رکھنے کا حق حاصل ہوتا، یہی ہماری تحریک کی جمہوریت ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون موجود ہے۔‘‘

لی کی تنبیہ ایک ہفتے میں ہی درست ثابت ہو گئی۔ میٹ لینڈ، جو RSP کی طرف سے وہاں موجود تھا، اسے اس کے اپنے ہی گروپ کی طرف سے رد کر دیا گیا اور انہوں نے اتحاد کو ماننے سے انکار کر دیا۔ جلد ہی دوسرے لوگ بھی علیحدہ ہونے لگے۔ چھ ہفتوں کے اندر اندر سب کچھ درہم برہم ہوچکا تھا۔ کینن خوش نہیں تھا۔ وہ اپنی مرضی چلانے کا عادی تھا۔ اس نے WIL کو اپنے مسائل کا ذمہ دار قرار دیا۔ اس کے نتیجے میں اس کے دل میں لی، جوک ہسٹن اور ٹیڈ گرانٹ کے ’’عجیب دستے‘‘ کے لیے پیدا ہونے والی نفرت سالوں تک قائم رہی۔ اسی بات سے گمشدہ خط کے معمے کی وضاحت ہوتی ہے۔

کینن کی برطانوی ٹراٹسکائیٹس سے نفرت کی وجہ یہ تھی کہ وہ اس کی قیادت کو بغیر تنقید کے غیر مشروط طریقے سے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اس نے ہمیشہ انہیں پریشانی کا باعث قرار دیا۔ یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ ’’باضابطہ‘‘ برطانوی سیکشن (پرانی RSL) کی قیادت پر تنقید کرتے ہوئے اس نے ان پر حد سے زیادہ ’’شریف‘‘ ہونے اور WIL کو لے کر ان کی جانب سے ناکافی ’’بے رحمی‘‘ کا الزام لگایا۔ بالشویزم کو بے رحمی کے ساتھ جوڑنے کے عمل سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کس حد تک لینن اور ٹراٹسکی کے نظریات اور طریقہ کار کے ساتھ کھڑا تھا۔

یہ سچ ہے کہ سختی بالشویک ذہنیت کا ایک اہم عنصر تھی۔ یہ کوئی حادثاتی بات نہیں تھی کہ 1903ء میں بالشویکوں اور منشویکوں کی علیحدگی کے وقت بالشویکوں کو ’’سخت‘‘ اور منشویکوں کو ’’نرم‘‘ کہہ کر پکارا گیا۔ لیکن ٹراٹسکی نے وضاحت کی تھی کہ سختی محض بالشویزم کا ہی خاصہ نہیں تھی۔ منشویکوں کی صفوں میں ایسے بہت سے مرد اور خواتین موجود تھے جو اپنے مقصد کی خاطر لڑنے مرنے کے لیے تیار ہوتے تھے۔ اور بالشویزم کی طرف سمجھوتا کرنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں تھی، جیسا کہ انقلاب کے فیصلہ کن لمحات میں ہمیں نظر آیا۔

آخری تجزیے میں انقلابی رحجانات کے اندر پائی جانے والی سختی یا نرمی کسی سیاسی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ منشویکوں کا تنظیمی بے ڈھنگا پن محض ان کی سیاسی موقع پرستی کی بدولت تھا، جس کی وجہ سے وہ اصولوں پر سمجھوتا کرنے کو تیار ہوتے، بیگانے طبقات کے ساتھ الحاق کی کوششیں کرتے اور آخر میں وہ بورژوازی کے ساتھ جا ملے۔

لینن خود نظریات اور اصولوں کے سوال پر ہمیشہ سخت اور کٹر (جسے ’’بے رحم‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے) ہوتا تھا۔ یہی اس کی مرکزیت کی اصل بنیاد تھی۔ لیکن یہ تصویر کا محض ایک رخ ہے۔ دوسرا رخ تنظیم اور لائحہ عمل کے معاملے میں اس کا بے حد لچک دار رویہ تھا۔ اور اپنے ساتھی کامریڈوں کے ساتھ برتاؤ کے حوالے سے وہ ’’بے رحمی‘‘ دکھانے کی بجائے ہمیشہ لحاظ، غور و فکر اور انسانیت سے کام لیتا تھا۔

لینن، اور ٹراٹسکی کے لیے بھی، اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ وہ سیاسی اختلافات کو سلجھانے کے لیے کبھی بھی انتظامی ہتھکنڈے استعمال کرتے۔ غنڈہ گردی، ڈرانا دھمکانا، تضحیک کرنا اور غلط بیانی کرنا ان کا طرز عمل نہیں تھا۔ وہ ہمیشہ سیاسی مخالفین کے ساتھ عزت سے پیش آتے تھے اور ان کے سوالوں کا اطمینان سے نقطہ بہ نقطہ جواب دیتے تھے۔ کینن کا طرز عمل بالشویزم نہیں تھا بلکہ زینوویف ازم تھا، جس پر بعد میں سٹالنزم کی بنیاد رکھی گئی تھی

تاسیسی کانفرنس

’’یونٹی‘‘ کانفرنس پر کینن نے ٹیڈ اور جوک ہسٹن کو بلایا اور ان سے پوچھا کہ کیا وہ چوتھی انٹرنیشنل کی تاسیسی کانفرنس میں اپنا مندوب بھیجیں گے اور ہمدردانہ الحاق کی درخواست کرنا چاہیں گے۔ انہوں نے جواب دیا کہ وہ ہمدردانہ الحاق کی درخواست کریں گے لیکن وہ کسی کامریڈ کو تاسیسی کانفرنس پر بھیجنے کے لیے فنڈ اکٹھا نہیں کر پائیں گے۔ کینن نے جواب دیا: ’’جو ہو سکتا ہے کریں۔ اگر نہیں تو ایک خط بھیج دیں۔‘‘

انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور ایک خط لکھا جس میں انہوں نے چوتھی انٹرنیشنل کی حمایت کا اعلان کیا اور ہمدردانہ الحاق کی درخواست کی۔ فرانسیسی مندوب نے WIL کو ایک ہمدرد سیکشن کے طور پر قبول کرنے کی قرارداد پیش کی۔ یہ بات تقریباً یقینی تھی کہ اسے منظور کر لیا جاتا، مگر کینن نے مداخلت کی اور انتہائی کم ظرفی اور کینہ پروری سے کام لیتے ہوئے کامریڈوں سے بدلہ لیا۔

WILکا نظریاتی اخبار ’’ورکرز انٹرنیشنل نیوز

ان کا لکھا گیا خط پڑھ کر نہیں سنایا گیا، اس کی بجائے کینن نے WIL پر محض ذاتی رنجشوں کی وجہ سے علیحدگی کا الزام لگایا۔ کینن نے WIL پر ظالمانہ اور جھوٹ پر مبنی تنقید کی اور ان پر ’’فرقہ ورانہ قوم پرستی‘‘ کا الزام لگایا۔ کینن کو اچھی طرح علم تھا کہ ایسا نہیں ہے۔

نتیجتاً کینن نے RSL کو باضابطہ برطانوی سیکشن کے طور پر تسلیم کرنے کی حمایت کی۔ اس تجویز کو منظور کر لیا گیا اور چونکہ مندوبین کو WIL کے خلاف جھوٹ کا ایک پلندہ سنایا گیا تھا، لہٰذا WIL کی ہمدردانہ الحاق کی درخواست مسترد کردی گئی اور ان تمام ہتھکنڈوں کے نتیجے میں غیر منصفانہ طور پر WIL کی مذمت کی گئی۔ ’’قومی بنیادوں پر موجود تمام گروپ بندیاں‘‘، باضابطہ طور پر جاری کردہ بیان میں لکھا تھا، ’’ جو عالمی تنظیم، اختیار اور ضابطے کو مسترد کرتی ہیں، درحقیقت رجعتی ہیں۔‘‘

جب کینن نے ٹراٹسکی کے لیے چوتھی انٹرنیشنل کی تاسیسی کانفرنس کی رپورٹ لکھی تو اس میں اس نے اپنے برطانیہ کے دورے اور یونٹی کانفرنس سے متعلق بددیانتی اور غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے حقائق کو مسخ کر کے بیان کیا، اور WIL کے متعلق اپنی رائے کا اظہار کچھ یوں کیا:

’’پچھلے چھ ماہ میں بدقسمتی سے میلیٹنٹ گروپ کو تقسیم کا سامنا کرنا پڑا، جس کی قیادت لی نے کی اور اس کے نتیجے میں ایک اور گروپ (ورکرز انٹرنیشنل نیوز) وجود میں آیا، اس تقسیم کی کوئی اصولی بنیادیں نہیں تھیں۔ اس سے محض بے یقینی اور مایوسی جنم لے سکتی ہے۔ مزید یہ کہ دونوں گروپ محض لیبر پارٹی میں کام کرتے ہیں۔ اسی دوران لیورپول برانچ بھی میلیٹنٹ گروپ سے موقع پرستی کی بنیاد پر علیحدہ ہو گئی۔ (۔۔۔)

’’ایک ہفتے بعد لندن کانفرنس میں مجھے شروع سے ہی عمومی اتحاد میں ان (ایڈنبرگ گروپ) کی حمایت حاصل تھی۔ اس سے بلاشبہ (CLR) جیمز گروپ پر کافی دباؤ پڑا۔

’’سیاسی قرارداد جو الحاق کی بنیاد کے طور پر منظور کی گئی، اس کے مطابق لیبر پارٹی کے اندر کام کو ترجیح دی جائے گی، لیکن وہ کامریڈ جو ابھی تک لیبر پارٹی کا حصہ نہیں ہیں ان کے لیے لازمی نہیں ہوگا کہ وہ لیبر پارٹی کے رکن بنیں۔ اس سے کم از کم متحدہ گروپ کی سمت کا تعین ہوتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہی ممکن تھا۔ اگر ہم کم از کم درست سمت کا تعین کر لیتے تو میرے خیال میں یہی ضروری تھا کہ ان تمام کامریڈوں کو اکٹھا کر کے انہیں ایک تنظیم کی صورت میں کام کرنے کی عادت ڈالی جائے، جس کا چوتھی انٹرنیشنل کے ساتھ مضبوط الحاق ہو۔ ہم نے غیر ذمہ دارانہ تقسیم کے خلاف سخت لڑائی لڑی اور یہ واضح کیا کہ انٹرنیشنل کانفرنس ایک سے زیادہ گروپوں کو تسلیم نہیں کرے گی اور ہر ملک میں ایک ہی سیکشن کی توثیق کی جائے گی۔ (۔۔۔)

’’لی کا گروپ تقریباً تیس لوگوں پر مشتمل تھا، جو زیادہ تر نوجوان تھے اور ان کے اندر میلیٹنٹ گروپ کی قیادت کے خلاف ذاتی عناد کا زہر بھرا ہوا تھا۔ انہوں نے اتحاد کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی مگر یونٹی کانفرنس میں ان کی خوب دھلائی کی گئی، اور ان کی صفیں تک ہل کر رہ گئیں۔ عالمی کانفرنس نے ان کے رویے کی مذمت کی۔

’’اپنے انگلینڈ کے دورے کے دوران شیٹمین نے بھی اس گروپ کے ساتھ ملاقات کی تھی۔ اس کی بھی وہی رائے ہے جو میری ہے، انہیں انٹرنیشنل کا فیصلہ مان کر متحد برطانوی سیکشن کا حصہ بننا پڑے گا یا پھر وہ علیحدہ ہی رہیں گے۔ یہ برطانوی سیکشن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس گروپ سے متعلق مضبوط موقف اختیار کریں اور کسی بھی حال میں اس کے وجود کو تسلیم نہ کریں۔ بدقسمتی سے یہ کہنا آسان ہے لیکن کرنا مشکل۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ برطانوی کامریڈ شریف لوگ ہیں۔ انہیں تقسیم کے ساتھ کھیلنے والے گروپوں کے ساتھ ہمارے ’بے رحم‘ (یعنی بالشویک) رویے کی عادت نہیں ہے۔‘‘ (جیمز پی کینن، تاسیسی کانگریس کی یادیں، 12 اکتوبر 1938ء، جوزف ہینسن، جیمز پی کینن۔ دی انٹرنیشنلسٹ، جولائی 1980ء)

کینن کا زینوویف جیسا طریقہ کار

لینن نے کہا تھا کہ سیاست میں کینہ سب سے حقارت آمیز کردار ادا کرتا ہے۔ وہ اپنی وصیت میں اسٹالن کا ذکر کر رہا تھا، ایک اور دستاویز جسے فرقہ وارانہ وجوہات کی وجہ سے جان بوجھ کر دبا لیا گیا تھا۔ لیکن کینہ پروری زینوویف کی نفسیات اور طریقہ کار کا بھی ایک خاصہ تھا۔

عام طور پر لوگوں کو اس بات کا علم نہیں کہ لینن کی وفات کے بعد ٹراٹسکی کے خلاف جھوٹ اور بہتان کی زہریلی مہم کا آغاز سٹالن نے نہیں بلکہ زینوویف نے کیا تھا، جو یہ سب محض اپنی ذاتی انا کی خاطر کر رہا تھا۔ اسے لگتا تھا کہ لینن کا اصلی جانشین وہ ہے، اور وہ بالشویک پارٹی اور محنت کش طبقے میں ٹراٹسکی کی نیک نامی سے حسد کرتا تھا جو اسے اکتوبر انقلاب اور اس کے بعد ہونے والی خانہ جنگی میں اس کے فیصلہ کن کردار کی وجہ سے ملی تھی۔

بعد میں زینوویف اور کامینیف سٹالن سے علیحدہ ہو گئے اور ٹراٹسکی کی لیفٹ اپوزیشن کا حصہ بن گئے۔ لیکن زینوویف کبھی بھی اپنے غیر اصولی طریقہ کار سے باز نہیں آیا، وہ سیاسی نظریات کی دیانت دار پر مبنی جدوجہد کی بجائے تنظیمی سازشوں میں لگا رہا۔ اس کی بے اصولی تب بے نقاب ہوئی جب اس نے 1927ء میں لیفٹ اپوزیشن کی بے دخلی کے بعد سٹالن کے آگے ہار تسلیم کر لی۔

جیمز کینن نے 1928ء میں سٹالن سے علیحدگی کے بعد لیفٹ اپوزیشن کی تعمیر میں مدد کے حوالے سے کافی اہم کردار ادا کیا۔ وہ محنت کش طبقے کی تحریک میں ایک لمبی تاریخ کا حامل تھا، اور ایک قابل سرگرم کارکن اور منتظم تھا۔ چوتھی انٹرنیشنل کے شروع کے رہنماؤں میں سے وہ شاید سب سے قابل تھا۔ لیکن زینوویف اور سٹالن کی طرح وہ کبھی ایک نظریہ دان نہیں رہا۔

وہ نہ صرف یہ بات تسلیم کرتا تھا بلکہ اسے اس پر فخر بھی تھا۔ اس نے کہا: ’’میں نے ہمیشہ ان لوگوں کو آڑے ہاتھوں لیا جو مجھے نظریہ دان کہتے تھے۔ میں اپنے آپ کو ایک سرگرم کارکن کہلوانا پسند کرتا تھا۔‘‘ (کینن، تحاریر، 43۔1940ء، صفحہ نمبر 360) کینن نے اس باریکی کو نظرانداز کر دیا تھا کہ بالشویک پارٹی کے لیڈر، لینن اور ٹراٹسکی، سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر نظریہ دان ہی تھے۔

کینن خود ساختہ ’’پرولتاری‘‘ انقلابیوں کی لمبی فہرست میں سے ایک تھا جو اپنی نظریاتی جہالت کو ’’کام پرستی‘‘ کے مکھوٹے کے پیچھے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ نظریے کی جگہ اندھا تحرک بیچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے نظریات اور دانشوروں کو لے کر ظاہری تضحیک آمیز رویے کے پیچھے احساس کمتری اور تنظیمی سازشوں اور ہتھکنڈوں کے ساتھ ساتھ نظریے کا ماہر بننے کی شدید خواہش کار فرما ہوتی ہے، مگر افسوس یہ ہے کہ نظریہ ان کے سر کے اوپر سے گزر جاتا ہے۔ انقلابی تحریک میں ایک ایسے شخص سے زیادہ خطرناک جانور اور کوئی نہیں ہو سکتا جو نظریہ دان نہ ہو اور یہ سمجھے کہ اسے ہونا چاہیے۔

کینن ایک زینوویف اسٹ تھا، اور اپنے تنظیمی طریقہ کار میں وہ ہمیشہ ایک زینوویف اسٹ ہی رہا۔ وہ اپنی سوانح عمری میں اس بات کو اچھی طرح تسلیم کرتا ہے:

’’ٹراٹسکی کی قیادت میں موجود لیفٹ اپوزیشن کی تحاریر کو دبا دیا جاتا تھا۔ ہمیں اکثر یہاں وہاں ان کے آثار مل جایا کرتے تھے، اور مجھے، امریکہ کی پارٹی کے ہر لیڈر کی طرح، ایک زینوویف اسٹ کہا جاسکتا تھا۔ ہم [ٹراٹسکی کے خلاف] ٹرائیکا کی مہم کے زیر اثر آگئے تھے۔‘‘

اور دوبارہ:

’’میرے خیال میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس وقت میں زینوویف اسٹ تھا، کیونکہ اس وقت پارٹی کا ہر لیڈر یہی تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم ماسکو سے آنے والے ہر موقف کو تنقیدی نظر سے دیکھے بنا قبول کر لیتے تھے۔‘‘ (کینن، تحاریر، 47۔1945، صفحہ نمبر 187)

زینوویف ازم بالشویزم کی بگڑی ہوئی بے ہودہ شکل ہے، جس میں لینن کے خیالات کے ایک رخ (ایک مضبوط، باضابطہ اور مرکزیت پر مبنی انقلابی تنظیم) کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور خیالات اور نظریات کی اہمیت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے آج بھی ٹراٹسکی ازم کے پرچم تلے اٹھ کھڑے ہونے والے بہت سے گروپوں میں زینوویف اسٹ رجحانات پائے جاتے ہیں۔ ان رجحانات نے چوتھی انٹر نیشنل کی تباہی اور خاتمے میں انتہائی بھیانک کردار ادا کیا تھا۔

جیمز کینن کا زینوویف اسٹ طریقہ کار آغاز سے ہی واضح تھا۔ ٹراٹسکی اس حقیقت سے اچھی طرح آگاہ تھا اور اس نے ایک سے زیادہ موقعوں پر اس کی مذمت کی۔ برطانوی ٹراٹسکائیٹس کے حوالے سے اس کا طرز عمل اس طریقہ کار کی بہترین مثال تھا۔ اس کا مقصد پوری طرح سے غلبہ حاصل کرنا تھا۔ جو بھی اس کی مخالفت کرنے کی جرأت کرتا اس کے ساتھ ایک دشمن جیسا سلوک کرکے اسے تحریک سے نکال دیا جاتا تھا۔ اس کے الفاظ سے بھی کینے کا زہر ٹپکتا تھا۔ اس کی مثال یہ ہے:

’’اس گلے سڑے ہسٹن کے دھڑے کی تمام غلطیوں اور جرائم کی وجوہات 1938ء میں اس کے ایک غیر اصولی گروہ کے طور پر قیام میں مضمر ہیں۔ جب میں پہلی عالمی کانگریس کے موقع پر اسی سال انگلستان گیا تو میں نے لی اور ہسٹن کے دھڑے کہ غیر اصولی قیام پر ان کی مذمت کی۔ اس کے بعد بھی مجھے ان پر کبھی اعتبار نہیں رہا اس سے قطع نظر کہ وہ اس وقت کیا تجزیات لکھ رہے تھے یا کس کے حق میں ووٹ دے رہے تھے۔‘‘ (کینن، پارٹی سے خطابات، صفحہ نمبر 297۔296، 6 اپریل 1953ء)

برطانیہ میں تقسیم سے متعلق اس نے لکھا:

’’انگلستان کی تحریک میں [1938ء کی] تقسیم کی وضاحت سیاسی بنیادوں پر نہیں کی جاسکتی۔ اس سے تحریک کو خاطر خواہ نقصان پہنچا، جو آج بھی کمزور حالت میں ہے، گو کہ عالمی تحریک کی مداخلت اور دباؤ کی وجہ سے بالآخر اتحاد قائم ہو گیا تھا۔‘‘ (کینن، تحاریر اور تقاریر، 47۔1945ء، صفحہ نمبر 61)

یہ سفید جھوٹ ہے۔ کینن کو ان سیاسی اختلافات کا اچھی طرح پتہ تھا جن کی وجہ سے WIL باقی گروپوں سے علیحدہ ہوئی تھی، اور اس نے انہیں ایک غیر اصولی اور ناپختہ اتحاد کی طرف دھکیل دیا۔ WIL کے کامریڈوں نے، جیسا کہ ہم جانتے ہیں اسے تنبیہ کی تھی کہ اس طرح کا اتحاد پانچ منٹ بھی نہیں رہے گا اور وہ درست ثابت ہوئے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران بالکل ایسا ہی بے اصول ہتھکنڈہ استعمال کرتے ہوئے کینن نے من مانی کرتے ہوئے ’’باضابطہ‘‘ سیکشن (RSL) سے منہ موڑ کر WIL کو باضابطہ سیکشن کے طور پر تسلیم کر لیا، کیونکہ وہ جنگ کے دوران اپنی تعداد بڑھانے میں زیادہ کامیاب رہے تھے۔

ان تمام چیزوں کے باوجود SWP نے سالوں تک یہی مشہور کیے رکھا کہ RSL اور WIL میں کوئی نظریاتی اختلافات نہیں تھے۔ ٹراٹسکی کی تحاریر پر لکھی گئی یادداشتوں میں ہمیں یہ پڑھنے کو ملتا ہے:

’’لی گروپ 1939ء میں خالصتاً ذاتی رنجشوں کی بنا پر وجود میں آیا اور اس کا کوئی قابل فہم سیاسی پروگرام بھی نہیں تھا۔ ملی لی ایک جنوبی افریقن اور CP کی سابق رکن تھی۔ ( ٹراٹسکی کی تحاریر، 39۔1938ء ، صفحہ نمبر 405، نوٹ 238)

اس یادداشت میں یہ فیصلہ کرنا مشکل لگ رہا ہے کہ زیادہ بری چیز کیا ہے، غلط بیانی یا نری لاعلمی۔ اس افسوس ناک نوٹ کے لکھاری کو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ ملی لی WIL کی لیڈر نہیں تھی بلکہ اس کا شوہر راف لی اس کا لیڈر تھا، لیکن ملی لی بھی گروپ میں کافی سرگرم کردار ادا کرتی تھی۔

کینن کی ’’تحاریر اور تقاریر‘‘ میں ایک نوٹ میں یہ لکھا ہے: کینن 1938ء میں چوتھی انٹرنیشنل کی تاسیسی کانگریس سے پہلے انٹرنیشنل سیکریٹریٹ کے نمائندے کے طور پر وہاں موجود چار ٹراٹسکائٹ گروپوں کو اکٹھا کرنے کی غرض سے انگلستان گیا۔ وہ ان میں سے تین کو ملا کر ریولوشنری سوشلسٹ لیگ بنانے میں کامیاب ہو گیا (وہ گروپ ریزولوشنری سوشلسٹ پارٹی،مارکسسٹ گروپ جس کی سربراہی سی ایل آر جیمز کر رہا تھا اور ملیٹینٹ گروپ تھے)۔ RSL نے چوتھی انٹرنیشنل کی تاسیسی کانگریس میں شرکت کی اور اسے برطانوی سیکشن کے طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ ورکرز انٹرنیشنل لیگ، جس کی سربراہی راف لی اور جوک ہسٹن کر رہے تھے، نے متحدہ تحریک کا حصہ بننے سے انکار کیا اور چوتھی انٹرنیشنل کی تاسیسی کانگریس کا بائیکاٹ کر دیا۔ عالمی تحریک کے دباؤ کی وجہ سے RSL اور WIL نے 1944ء میں اکٹھے ہو کر ریولوشنری کمیونسٹ پارٹی بنا لی۔‘‘

یہ ایک اور جھوٹ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ WIL نے چوتھی انٹرنیشنل کی تاسیسی کانگریس کا بائیکاٹ نہیں کیا تھا. چوتھی انٹرنیشنل سے باہر ہونے کے باوجود WIL خود کو عالمی ٹراٹسکائیٹ تحریک کا حصہ سمجھتی تھی۔ وہ ٹراٹسکی کے وضع کردہ چوتھی انٹر نیشنل کے نظریات اور پروگرام کی مکمل حمایت کرتے تھے۔

ٹراٹسکی کا WIL کی بابت رویہ

کینن کی دروغ گوئی پر مبنی منظم مہم کے باوجود یہ واضح ہے کہ ٹراٹسکی کا رویہ بالکل مختلف تھا۔ وہ صبر سے کام لینے اور انتظار کرنے کے لیے تیار تھا کہ کونسا گروپ برطانیہ میں حقیقی طور پر چوتھی انٹرنیشنل کا مستقبل بن سکتا تھا۔ وقتی طور پر اس نے کوئی فیصلہ نہیں سنایا، بلکہ کچھ جگہوں پر اس نے WIL کا جو ذکر کیا، اس میں اس نے جان بوجھ کر تنقید سے پرہیز کیا۔

اگر ٹراٹسکی یہ سمجھتا کہ وہ واقعی ’’فرقہ ورانہ قوم پرست‘‘ ہیں تو وہ بلاشبہ سخت ترین زبان میں ان پر تنقید کرتا۔ 1939ء کے شروع میں سی ایل آر جیمز نے برطانوی ٹراٹسکائیٹ گروپوں کے حوالے سے ٹراٹسکی کو ایک رپورٹ دی۔ الحاق شدہ گروپ کے مسائل بتاتے ہوئے اس نے لیبر پارٹی میں، اس کے مطابق، لی گروپ (WIL) کا بھی ذکر کیا:

’’ایک اور گروپ بھی ہے، لیبر پارٹی میں لی کا گروپ، جس نے اتحاد سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا تھا کہ یہ ناکام ہو گا۔ لی کا گروپ کافی متحرک ہے۔‘‘ ( ٹراٹسکی کی تحاریر، 39۔1938ء، صفحہ نمبر 250)

ٹراٹسکی نے دھیان سے سنا مگر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ اس نے لی گروپ کی مذمت نہیں کی، وہ دیکھ رہا تھا کہ حالات کس کروٹ بیٹھے ہیں۔ آخر کار اس نے پچھلے سال ان کی سپین پر پمفلٹ چھاپنے اور اپنا چھاپہ خانہ لگانے کی کاوشوں کی بھرپور حوصلہ افزائی کی تھی۔ سیم برونسٹین کو انٹرویو دیتے ہوئے ٹیڈ گرانٹ نے نشاندہی کی:

’’یاد رکھنے والی سب سے اہم بات یہ ہے کہ ٹراٹسکی نے اپنی کسی بھی تحریر میں WIL کی مذمت نہیں کی۔ وہ انتظار کر رہا تھا کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ اسے پتہ تھا کہ کینن اور اس کے ساتھیوں کا کیا طرز عمل ہے۔ اسے ان کا تجربہ تھا، اس لیے ٹراٹسکی نے کبھی ہماری مذمت نہیں کی۔ (۔۔۔) اس نے ہماری تعریف کی تھی، اپنا چھاپہ خانہ لینے پر اور سپین کے اسباق والے پمفلٹ کے تعارف پر، جو میں نے اور لی نے لکھا تھا۔‘‘

ٹیڈ وہ خوشی یاد کیا کرتا تھا جب انہوں نے ٹراٹسکی کی طرف سے لکھا ہوا ایک خط پڑھا، وہی خط جواب ہمیں ملا ہے، جس میں اس نے انہیں اس کا پمفلٹ چھاپنے پر مبارکباد دی تھی اور اس بات پر زور دیا تھا کہ ایک انقلابی تنظیم کے لیے سرمایہ دارانہ اداروں سے آزاد اپنا چھاپہ خانہ کتنا ضروری ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ٹراٹسکی WIL کے کام کو دلچسپی سے دیکھ رہا تھا اور اسے باقاعدگی سے ان کا چھاپا گیا مواد بھی موصول ہو رہا تھا۔

ورکرز انٹرنیشنل لیگ(WIL) کی ٹراٹسکی کی یاد میں منعقدہ میٹنگ، اگست 1942

باضابطہ طور پر انٹرنیشنل سے باہر ہونے کے باوجود ٹیڈ اور اس کے ساتھی خود کو اس کا حصہ سمجھتے تھے۔ ’’ہم خود کو انٹرنیشنل کی ناجائز اولاد کی طرح دیکھتے تھے‘‘، اس نے وضاحت کی۔ انہیں اس بات کا یقین تھا کہ وہ، جلد یا بدیر، حقیقی برطانوی سیکشن کے طور پر تسلیم کر لیے جائیں گے۔ تاریخ نے انہیں درست ثابت کیا۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ ’’متحد‘‘ گروپ کانفرنس کے ختم ہوتے ہی بکھرنا شروع ہو گیا۔

اسی دوران WIL نے اپنی مسلسل بڑھوتری جاری رکھی۔ اس نے ILP، کمیونسٹ پارٹی، اور لیبر پارٹی میں سے محنت کشوں کو جیتا، اور یہاں تک کہ RSL میں سے بھی، جو ایک غیر اہم چوں چوں کا مربہ بن چکی تھی۔ بالآخر، جیسا کہ ہم نے دیکھا، کینن نے مرتی ہوئی RSL کو چھوڑ کر بخوشی WIL کو چوتھی انٹرنیشنل کے باضابطہ سیکشن کے طور پر اپنا لیا۔ لیکن اس کے بعد بھی وہ برطانوی سیکشن کی قیادت کے خلاف اپنی تباہ کن سازشوں اور ہتھکنڈوں سے باز نہیں آیا، جو دوسری عالمی جنگ کے بعد ایک نئی تقسیم اور تباہی کا باعث بنے۔

یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ کینن وہ واحد شخص نہیں تھا جس نے چوتھی انٹرنیشنل کا بیڑہ غرق کرنے میں کردار ادا کیا۔ وہ ان نام نہاد لیڈروں میں سب سے برا بھی نہیں تھا جو ٹراٹسکی کی وفات کے بعد سامنے آئے۔ باقی بھی کم نہیں تھے، اور زیادہ تر تو اس سے بھی گئے گزرے تھے۔ پابلو، مینڈل، پیری، فرینک، لیویو میٹن، ان سب میں کینن کی تمام خامیاں تو موجود تھیں، مگر اس کی کوئی خوبی نہیں تھی۔ ان میں سے کوئی بھی تاریخ کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا تھا۔ ان سب نے مل کر انٹرنیشنل کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا۔

تلبیس ایک جرم ہے

خط ڈاک میں گم ہو سکتے ہیں، ضائع ہو سکتے ہیں، غلط پتے پر پہنچ سکتے ہیں یا یہاں تک کہ ایک بکسے میں بند بالاخانے میں بھولے پڑے رہ سکتے ہیں۔ لیکن اس معاملے میں ٹراٹسکی کے خط کی گمشدگی ایک حادثہ نہیں تھا، بلکہ سیاسی تلبیس کا ایک سوچا سمجھا عمل تھا۔ یقیناً یہ ایک بہت سنگین الزام ہے۔ لیون ٹراٹسکی نے تاریخ میں ردوبدل کے خلاف ناقابل مصالحت جدوجہد کی تھی، جو ایک سٹالنسٹ اور زینوویف اسٹ طریقہ کار ہے اور بالشویزم کی روایات کے سراسر منافی ہے۔ ایک لفظ میں کہا جائے تو یہ ایک جرم ہے۔

ہمارے پاس اس دعوے کا کیا ثبوت ہے؟ کسی بھی جرم کی تحقیقات میں محرک اور موقع کا اندازہ لگانا ضروری ہوتا ہے۔ اس معاملے میں کینن کا محرک باآسانی بیان کیا جاسکتا ہے۔ سب سے بڑھ کر اس کا محرک اس کی ذاتی انا تھی۔ وہ اپنے آپ کو عالمی ٹراٹسکائیٹ تحریک کا سب سے بڑا لیڈر سمجھتا تھا، جس سے بڑھ کر محض ٹراٹسکی خود تھا۔ وہ کسی بھی قسم کی تنقید یا اختلاف برداشت نہ کرنے کے حوالے سے جانا جاتا تھا۔ یہ کسی بھی ایسے شخص کی انتہائی سنگین خامیاں ہیں جو ایک انقلابی لیڈر ہونے کا دعویٰ کرتا ہو۔

ورکرز انٹرنیشنل لیگ(WIL) کا ٹراٹسکی کی یاد میں منعقدہ میٹنگ کے لیے چھپوایا گیا دعوت نامہ، اگست 1942

ٹراٹسکی، جہاں کینن کی صلاحیتوں کا معترف تھا، خاص طور پر تنظیم کاری کے حوالے سے، وہیں اس نے کبھی بھی کینن کے تنظیمی طریقہ کار کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ سوویت یونین کے متعلق رائے کو لے کر SWP میں ہونے والی تقسیم کے وقت، جب شیٹمین اور اس کے ساتھی پیٹی بورژوازی کے دباؤ میں آکر ریاستی سرمایہ داری والے غلط نظریے کو درست تسلیم کر بیٹھے تھے، تو کینن ٹراٹسکی کے موقف کی حمایت میں کھڑا ہوا، جو بلاشبہ درست تھا، لیکن ٹراٹسکی نے کینن کو اقلیت کے خلاف انتظامی اقدامات اٹھانے اور شیٹمین کو تنظیم سے باہر دھکیلنے سے منع کیا، لیکن پھر بھی اس نے ایسا ہی کیا۔

موقع کی بات کی جائے تو کینن کے پاس ایک خط چھپانے کا موقع ہی موقع تھا، یا کوئی بھی دستاویز یا آرٹیکل جسے وہ اپنے نقطۂ نظر سے غیر موزوں سمجھتا ہو۔ گمشدہ خط کا ہارورڈ یونیورسٹی میں موجود ٹراٹسکی آرکائیوز میں نہ ملنا اس بات کی دلیل ہے کہ کینن اور ہینسن تاریخ کو کس حد تک مسخ کرنے کے لیے تیار تھے۔ سیم بونسٹین اور ال رچرڈسن کے اس بات پر یقین کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں کہ ٹراٹسکی کی بہت سے دستاویزات اسی وجہ سے گم ہیں۔

بونسٹین اور رچرڈسن یقینی طور پر ٹیڈ گرانٹ اور WIL کی حمایت میں نہیں تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں اس بات کے قابلِ یقین گواہوں کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے کہ کینن اور اس کے ساتھیوں نے جان بوجھ کر فرقہ ورانہ وجوہات کی بنا پر سے ٹراٹسکی کا وہ خط چھپایا جس میں اس نے WIL کے کام کی تعریف کی تھی۔ ان کی کتاب ’’جنگ اور انٹرنیشنل: برطانیہ میں ٹراٹسکائیٹ تحریک کی تاریخ 1949۔1937ء‘‘ میں ہمیں یہ پڑھنے کو ملتا ہے:

’’ایل ڈی ٹراٹسکی کی تحاریر میں ہمیں واضح خلا نظر آتا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی برطانیہ پر لکھی گئی تحاریر کے مجموعے محض چنی گئی چیزوں پر مشتمل ہیں۔کم از کم ایک موقع پر ہم یہ دعویٰ کرنے میں درست ہیں کہ فرقہ ورانہ وجوہات کی بنا پر ایک خط دبایا گیا تھا۔‘‘ (جنگ اور انٹرنیشنل، صفحہ نمبر xi)

وہ کس خط کی بات کر رہے تھے؟ انہوں نے وضاحت کی:

’’ٹراٹسکی کے سمنر کو اس وقت لکھے گئے خطوط میں سے ایک میں اس نے WIL کو ’سپین کے اسباق: آخری تنبیہ‘ کا تعارف لکھنے پر مبارکباد پیش کی تھی۔ وہ خط ابھی تک ٹراٹسکی کی آخری جلاوطنی کی تحاریر میں نہیں چھپا، جس کی واضح فرقہ ورانہ وجوہات ہیں۔ حوالہ:سی۔ ایف۔ جے۔ ہسٹن کا پابلو (ایم ریپٹس) کو لکھا گیا خط، 19 جولائی 1947ء، RCP کا انٹرنیشل بلیٹن، صفحہ نمبر 1۔‘‘ (سیم بونسٹین اور ال رچرڈسن، جنگ اور انٹرنیشنل، برطانیہ میں ٹراٹسکائٹ تحریک کی تاریخ، 1949۔1937ء، صفحہ نمبر 46، نوٹ 5)

تاریخ پھر سے جڑتی ہے

میں سمجھ سکتا ہوں کہ وہ بہت سے لوگ جو ہماری تحریک سے باہر ہیں، انہیں یہ عجیب لگے گا کہ کچھ پیروں پر مشتمل ایک چھوٹے سے خط کے سامنے آنے سے ہمیں اتنی خوشی کیوں ہو رہی ہے۔ لیکن ٹراٹسکی کی کوئی بھی تحریر چھپنا ان لوگوں کے لیے ہمیشہ خوشی کی بات ہوتی ہے جو اس کے ان نظریات اور مقاصد کے ساتھ مضبوطی سے جڑے ہیں جن کی خاطر وہ ساری زندگی لڑتا رہا۔

لیکن انٹرنیشنل مارکسسٹ ٹینڈنسی(IMT) کے اراکین کے لیے یہ خط اس سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ یہ اس چیز کا ثبوت ہے جسے ٹیڈ گرانٹ، ہماری تحریک کا بانی، ایک ان ٹوٹ دھارے کا نام دیتا تھا، جس کے توسط سے ہم عالمی انقلابی مارکسزم کے حقیقی ماخذ کے ساتھ جڑے ہیں۔ جیسا کہ میں نے IMT کی 2018ء کی عالمی کانگریس میں کہا تھا یہ ہماری سندِ پیدائش ہے۔ یہ ہمیں براہ راست لیون ٹراٹسکی سے جوڑتا ہے اور اس بات کا پکا ثبوت ہے کہ کہ ہم جن خیالات اور طریقہ کار کا دفاع کرتے ہیں انہیں اس عظیم شخص کا آشیرباد حاصل تھا۔

میں حال ہی میں نیویارک تھا، جہاں میں نے IMT کے امریکی سیکشن کی شمال مشرقی برانچوں کے ایک کامیاب سکول میں شرکت کی۔ اس خط کی خبر کچھ عرصہ پہلے ہی امریکہ کے کامریڈوں کو سنائی گئی تھی، جن پر اس کا گہرے اثرات مرتب ہوئے تھے۔ سیکشن کے ایک پرانے کامریڈ نے کہا، ’’اگر میں ایک مذہبی شخص ہوتا، تو اس خط کے محفوظ رہنے کو ایک چھوٹا سا معجزہ تصور کرتا۔‘‘

ان الفاظ میں رتی برابر بھی مبالغہ آرائی نہیں ہے۔ بہت سی ایسی وجوہات ہو سکتی تھیں جن کی بدولت یہ خط کبھی منظر عام پر ہی نہ آتا۔ یہ میکسیکو میں کویواکن سے ہوتا ہوا لندن آیا، لندن سے ترکی کے دارلحکومت استنبول، وہاں سے نیویارک، جہاں یہ کئی سالوں تک بکس میں بند ایک بالا خانے میں پڑا رہا اور بالآخر اتنا طویل سفر طے کرنے کے بعد وہ اپنی صحیح منزل پر پہنچا۔ پورے 80 سال کی تاخیر سے۔ دنیا کے پیغام رساں اداروں کی تاریخ میں اسے سب سے زیادہ غیر معمولی ترسیلات کی فہرست میں شامل کیا جانا چاہیے۔

ٹیڈ گرانٹ نے مجھے ایک مرتبہ بتایا تھا کہ دوسری عالمی جنگ سے پہلے ہماری تنظیم میں ایک کامریڈ ہوا کرتا تھا جو پہلی، دوسری، تیسری اور چوتھی انٹرنیشنل کا حصہ رہا تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ میں اس کامریڈ سے نہیں مل سکا، وہ میرے 1960ء میں تنظیم کا حصہ بننے سے بہت پہلے وفات پاچکا تھا۔ لیکن ہمارے لیے یہ بہت فخر کی بات ہے کہ ہم اپنا سیاسی شجرۂ نصب ٹراٹسکی کے توسط سے عبوری پروگرام، عالمی لیفٹ اپوزیشن اور لینن اور بالشویک پارٹی سے ہوتے ہوئے مارکس اور اینگلز کے نظریات، پہلی انٹرنیشنل اور کمیونسٹ مینی فیسٹو کے ساتھ جوڑ سکتے ہیں، جو اْس دور سے زیادہ اِس دور سے مطابقت رکھتا ہے۔

ہم میں سے وہ جنہیں ایک حقیقی ٹراٹسکائیٹ انٹرنیشنل بنانے کی خاطر جدوجہد کرنے کا شرف حاصل ہے، ان کے لیے کھوئے ہوئے خط کا ملنا بہت متاثر کن بات ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کسی بہت بڑی پہیلی کا آخری ٹکڑا مل جائے اور اس سے تصویر مکمل ہو جائے۔ لیکن اس فتح کے لمحے کے ساتھ ایک المناک حقیقت بھی جڑی ہے۔

ٹیڈ گرانٹ نے ہمیشہ، درست طور پر، اس بات پہ زور دیا کہ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم کون ہیں اور کہاں سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ اکثر ہماری تنظیم کی تاریخ پر بات کیا کرتا تھا (لیکن وقت کی کمی کے باعث کبھی 1949ء سے آگے نہیں بڑھ پایا) اور ٹیڈ نے جب بھی اس موضوع پر بات کی کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اس نے اس خط کا ذکر نہ کیا ہو۔ اگر ٹیڈ اپنی زندگی میں یہ خط دیکھتا تو بے حد خوش ہوتا۔ مگر افسوس اس کے جیتے جی ایسا نہیں ہو سکا۔

تاریخ کے پہیے بہت آہستہ گھومتے ہیں اور زندگی کی گھڑی جو مردوں اور عورتوں کی زندگی کا تعین کرتی ہے بہت بے رحم ہوتی ہے۔ ہم پیدا ہوتے ہیں، جیتے ہیں اور مر جاتے ہیں۔ لیکن محنت کش طبقے کا مقصد امر ہے، اور کسی بھی فرد کی زندگی سے بڑا ہے۔ جدوجہد جاری رہتی ہے اور آخری فتح کے لمحے تک جاری رہے گی۔ اور اسی مقصد کے لیے ہم اپنے آپ کو وقف کر دیتے ہیں، اس پورے اور سچے یقین کے ساتھ کہ فتح ہماری ہی ہو گی۔

آج اپنے قیام کے 80 سال بعد چوتھی انٹر نیشنل ایک تنظیم کے طور پر وجود نہیں رکھتی۔ آپس میں لڑتے ہوئے بے شمار فرقے اس کا نام استعمال کرتے ہیں، مگر وہ محنت کشوں اور نوجوانوں کی نظروں میں ٹراٹسکی ازم کا نام بدنام کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرتے۔ ٹراٹسکی نے ہمیں بے داغ پرچم تھمایا تھا۔ پیٹی بورژوا رینوویف اسٹوں نے اسے داغ دار اور بدنام کر دیا۔ ہم نے فیصلہ کن انداز میں ان سے منہ موڑ لیا ہے۔

مگر انٹرنیشنل آج بھی وجود رکھتی ہے۔ آج اس کے شعلے ہمیشہ سے بڑھ کر روشن ہیں اور آج اس کی ضرورت بھی ہمیشہ سے بڑھ کر ہے۔ یہ انہی خیالات، پروگرام اور نظریات کو لے کر آگے چل رہی ہے جو ٹراٹسکی نے وضع کیے تھے، جو اپنی اصل میں وہی نظریات ہیں جو مارکس اور اینگلز نے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں بیان کیے تھے، وہی نظریات جو لینن اور بالشویک پارٹی کے تھے، وہی نظریات جنہوں نے 1917ء میں روس کے محنت کشوں کو جیت سے ہمکنار کیا، وہی نظریات جو کمیونسٹ انٹر نیشنل کی پہلی چار کانگریسوں کی دستاویزات میں موجود تھے۔

آج انٹرنیشنل مارکسسٹ ٹینڈنسی ان نظریات کا دفاع کر رہی ہے، جسے اپنا شجرۂ نسب ٹراٹسکی کے ساتھ جڑے ہونے پر فخر ہے۔ اس لیے ہم ساری دنیا سے یہ کہنے کا حق رکھتے ہیں: یہ ہمارا پرچم ہے، ہماری وراثت اور ہماری روایت۔ اور اسی سے ہمیں آخر تک جدوجہد جاری رکھنے کا اعتماد ملتا ہے۔

لندن، 17 دسمبر