امریکہ چین تجارتی جنگ‘ کیا کچھ داؤ پر ہے؟

دو ہفتے پہلے ٹرمپ نے 200 بلین ڈالر کی مزید چینی درآمدات پر ٹیرف لگانے کا اعلان کیا۔ اس اعلان پر چین کے علاوہ بڑے امریکی کاروباریوں کی طرف سے بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ جواب میں چین نے بھی امریکہ سے ہونے والی مزید 60 بلین ڈالر کی درآمدات پر محصول بڑھانے کا اعلان کر دیا۔ یہ تجارتی جنگ دونوں سامراجی ممالک کے درمیاں پچھلے عرصے سے چلے آرہے تناؤ کی غمازی کرتی ہے اور اس تجارتی جنگ نے ایک نئے عالمی معاشی بحران کے خطرے کو مزید گہرا کر دیا ہے۔

[Source]

گلوبل آئزیش کو درپیش خطرہ

ایک لمبے عرصے بعد امریکہ کو ٹرمپ جیسا تنگ ذہن اور علیحدگی پسند صدر نصیب ہوا ہے۔ اس کی بین الاقوامی تجارت اور عالمی معیشت کے بابت سمجھ بوجھ ایک بدمعاش قسم کے کاروباری سے زیادہ نہیں ہے۔ جو صرف زور زبردستی سے مشکل سودے کرنے کا ماہر ہوتا ہے۔ وہ اور اس کے حواری یہ سمجھتے ہیں کے امریکہ نے ٹرمپ کے ’’حل‘‘ ( دھمکی لگاؤ اور مقصد پانے کیلئے دھوکہ دو) سے فائدہ حاصل کیا ہے، بالکل اس کاروباری کی طرح جو اپنے مقابل کے ساتھ بہتر ڈیل کیلئے اوچھے ہتھکنڈے اپنانے سے دریغ نہیں کرتا۔

اس ’’حل‘‘ نے بین الاقوامی سفارتکاری کے آداب کو مکمل طور پر ملیا میٹ کرکے رکھ دیا ہے۔ اس نے عالمی محاذ پر امریکی طاقت کو بھی ٹھیس پہنچائی ہے، ایک ایسا ورلڈ آرڈر جس میں امریکہ ایک نعرہ لگاتا تھا اور دوسری سامراجی طاقتیں بھی اس میں اپنا فائدہ تلاش کرتے ہوئے پیروی کرتی تھیں، دراصل امریکی غلبہ کو مضبوط ہی کرتا تھا۔ لیکن اب اگر امریکہ اپنی عسکری اور معاشی طاقت کے بلبوتے پر دوسری طاقتوں کو ڈانٹنے اور اور کم فائدے والے تجارتی معاہدوں پر دستخط کرنے پر مجبور کرے گا تو یہ آخری تجزیہ میں خود امریکہ اور دوسری جنگ عظیم کے بعد کے ورلڈ آرڈر اور عالمی تجارت (گلوبل آئزیشن) کو کمزور کرے گا۔ یہی وجہ ہے شمالی امریکہ، جاپان اور یورپی اشرافیہ ٹرمپ کے ان طور طریقوں کی مخالفت کرتی آئی ہے۔ ٹرمپ کے ان طور طریقوں کے عالمی سطح پر تجارت پر دور رس منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

ایک لمحے کیلئے ایسا بھی لگتا ہے کہ یہ تنازعہ ختم کیا جا چکا۔ امریکہ، یورپی یونین اور کینیڈا کے درمیان ایک عارضی معاہدہ ہو چکا جبکہ میکسیکو اور امریکہ نے نیفٹا (NAFTA) کے طرز کے ایک معاہدہ USMCA پر مذاکرات کا آغاز کر دیا ہے۔ ٹرمپ جاپانیوں کے ساتھ بھی مذاکرات کے عمل میں ہے۔ اب اگر یہ نئے معاہدے پایۂ تکمیل تک پہنچ بھی جاتے ہیں تو بھی جو نقصان ہونا تھا وہ ہو چکا ہے۔ فری ٹریڈ کے پاسبان کے طور پر امریکہ کو جو کردار تھا اس کردار کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہو چکے۔ پچھلے کچھ مہینوں میں فری ٹریڈ پر اٹھنے والے تنازعات نے آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹائین لیگارڈ کو بھی یہ تنبیہ کرنے پر مجبور کردیا کے’’تجارت کے اندر رکاوٹیں کھڑی کرنے کا عمل نہ صرف تجارت کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ سرمایہ کاری اور پیداواری عمل کو بھی نقصان پہنچا رہا ہے کیونکہ اس سے بے یقینی کی کیفیت جنم لے رہی ہے۔‘‘

تمام تر توجہ چین پر مرکوز

کینیڈا کے ساتھ ہونے والے معاہدہ کے بعد امریکی حکمران طبقہ میں ایک بار پھر یہ امید جاگی ہے کے شاید ٹرمپ دوبارہ TPP معاہدہ کی طرف رجوع کرے جس سے ٹرمپ ہاتھ کھینچ چکا، USMCA معاہدہ کی بہت سی شقیں TPP سے مماثلت بھی رکھتی ہیں۔ وال سٹریٹ جرنل کے کالم نویس ایرن بیک کا کہنا ہے کے:

’’امریکہ کو اس طرز کے معاہدے کا خاکہ اپنے ایشیا پیسیفک تجارتی ساتھیوں کے لئے بھی استعمال میں لانا چاہیے تاکہ چین کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک نئے تجارتی بلاک کی تعمیر کے خواب کی جانب جست لگائی جا سکے۔‘‘

بلاشبہ عالمی تجارت اور بین الاقوامی تعلقات کا مرکز امریکہ اور چین کی تجارتی جنگ کے گرد گھوم رہا ہے۔ وہی امریکی اشرافیہ جو ٹرمپ کے امریکی اتحادیوں کے ساتھ تنازعات پر ناراض نظر آتی ہے، چین کے ساتھ تنازعہ پر پھولے نہیں سما رہی۔

حقیقتاً ایک ہی وقت پر دو علیحدہ علیحدہ لڑائیاں لڑی جارہی ہیں۔ ٹرمپ چین کے ساتھ امریکی تجارتی خسارہ کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ تنازعہ حل کرنا مشکل ہے، خاص کر مستقبل قریب میں لیکن اس سمت میں ٹرمپ کے سفر کی چین بھی مکمل طور پر مخالفت نہیں کرے گا، اس رستے پر چین بھی کسی حد تک چلنا چاہتا ہے، کیونکہ چین بھی اپنی صنعت کا برآمدات پر انحصار کم کرنا چاہتا ہے۔

چین کی تگ و دو

ہائی ٹیک صنعت کے شعبوں کو ترقی دینے کی چین کی کوششیں ایسا مسئلہ ہے جس کا حل مشکل نظر آتا ہے۔ ناصرف امریکہ بلکہ یورپ اور جاپان نے بھی چین پر ٹیکنالوجی کی چوری اور ٹیکنالوجی چینی کمپنیوں کو منتقل کرنے پر مجبور کرنے کے الزامات عائد کیے ہیں۔ یہ کوئی نیاانکشاف نہیں ہے۔ ہر ملک جس نے تکنیک کے لحاظ سے ترقی کی، اس نے یہ ترقی دوسرے ممالک کی ٹیکنالوجی پر انحصار کرتے ہوئے ہی حاصل کی۔ پہیے کو دوبارہ ایجادکیوں کرنا؟ ہوسکتا ہے کہ چین ایسے ہتھکنڈے استعمال کررہا ہو جس پر دوسرے تیوریاں چڑھا رہے ہیں مگر وہ سب کسی نہ کسی وقت پر بذات خود ایساکرتے رہے ہیں۔

سوال یہ نہیں کہ چین ایسا کیسے کر رہا ہے بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ چین یہ سب کچھ کر رہا ہے۔ الیکٹرونکس کی پیداوار میں چین نیم ہنر مند مزدور اور دیگر ممالک سے در آمد شدہ پارٹس استعمال کرتا ہے۔ بیشتر پرزے اور مشینری تائیوان، جنوبی کوریا، جاپان، امریکہ اور یہاں تک کہ یورپ سے حاصل کیے جاتے ہیں۔ اس سب کا نتیجہ یہ نکلتا کہ ہے کہ کہنے کو تو آئی فونز چین میں تیار ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں پیداواری عمل کا ایک انتہائی چھوٹا حصہ چین میں موجود ہے۔

ورلڈ انٹلیکچول آرگنائزیشن کی ایک تحقیق کے مطابق،آئی فون 7S کے صرف 0.3 فیصد پرزے(بلحاظ قدر) چین میں تیار کیے جاتے ہیں جبکہ 29 فیصد امریکہ میں اور 29 فیصد ہی تائیوان میں تیار ہوتے ہیں۔ اسی طرح سام سنگ گلیکسی S7 کے لیے یہ اعدادوشمار بلحاظ قدر 45 فیصد حصے امریکہ میں اور 29 فیصد حصے جنوبی کوریا میں تیار ہوتے ہیں۔ جبکہ اس کے مقابلے میں چینی موبائل فون Huawei P9 کے 32 فیصد حصے چین میں ہی تیار ہوتے ہیں۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اسمبلی پلانٹ (جو کہ چین میں واقع ہے) پراڈکٹ میں موجود کل قدر کے صرف 1 فیصد اور دیگر حصے 10 فیصد کو ظاہرکرتے ہیں، آئی فون کی کل قیمت میں 3 فیصد حصہ امریکی اور 3 فیصد ہی تائیوان کے پیداواری شعبے کا بن جاتا ہے لیکن بلاشبہ P9 کے معاملے میں چین کا حصہ کسی قدر زیادہ ہے۔

چین سپلائی چین (Supply Chain) کے بالا مراحل میں داخل ہو کر الیکٹرانکس میں استعمال ہونے والے ہائی ٹیک پرزوں کی منڈی میں قبضہ جمانا چاہتا ہے۔ تاحال چینی کمپنیاں اور پیداواری صنعتیں وہ معیار دینے سے قاصر ہیں جو کہ دوسرے ممالک دے سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیمی کنڈکٹرز ’’Made in China 2025‘‘ کے منصوبے کے کلیدی حصوں میں سے ایک ہیں اور جو چین کو براہ راست امریکی اور امریکی کمپنیوں کے مقابل لا کھڑا کرتا ہے۔ یہی وہ عمل ہے جس کو روکنے کے لیے امریکہ، یورپی یونین اور جاپان عزم کیے ہوئے ہیں یا کم ازکم اس کو سست رو کرنا چاہتے ہیں۔

امریکہ کے ساتھ مقابلہ

وال سٹریٹ جرنل نے اپنے اداریے میں لکھا کہ:

’’ چین کی چھلانگ لگا کر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں داخل ہونے کی کوشش، جس کے لیے وہ کمپنیوں کو اپنے گراں قدر پیداواری عوامل چین منتقل کرنے اور تقابلی فائدے کے قانون سے انحراف کررہا ہے،بالآخر ناکام ہوگی۔‘‘

’’لیکن جب دنیا کی دوسری بڑی طاقت بدمعاشی پر اتر آئے تو اس کے نتائج تباہ کن ہیں اور اس کی وجہ سے امریکہ اور مغرب میں آزاد تجارت کے لیے سیاسی حمایت کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ اس سے بھی بڑی بدشگونی یہ ہے کہ چین کا یہ مرکنٹائل ازم شی جن پنگ کی وسیع تر سٹرٹیجی کا ایک حصہ ہے جس کا مقصد ایشیا میں عسکری اور تجارتی لحاظ سے ایک نیا غلبہ قائم کرنا ہے۔‘‘

بنیادی طور پر، وال سٹریٹ جرنل چین کے ایک نئی طاقت کے طور پر ابھر کر موجودہ طاقتوں کے ساتھ مقابلے بازی پر معترض ہے۔ وہ یہی چاہتے ہیں کہ چین تکنیکی طور پر کمتر درجے کی اشیا کی اسمبلنگ اور مینوفیکچرنگ کا اپنا پرانا کردار ادا کرتا رہے۔

فنانشل ٹائمز بھی اسی قسم کے جذبات کا اظہار کرتا نظرآتا ہے:

’’ٹرمپ کی دیگر معیشتوں بشمول یورپی یونین، NAFTA فریقین میکسیکو اور کینیڈا سے شکایات کے برعکس، چین کے خلاف اس کی بیشتر تنقید جائز ہے۔ چین اس رستے سے کافی حد تک بھٹک چکا ہے جو کہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے دیگر ممبران خیال کرتے تھے کہ چین ایک مارکیٹ اکانومی بننے کے لیے اپنائے گا جب 2001ء میں چین اس تنظیم کا رکن بنا۔‘‘

’’Made in China 2025 کا منصوبہ، جس کا مقصد ہائی ٹیک شعبوں میں برتری حاصل کرنا ہے، مرکزی و مقامی حکومتوں اور ریاستی کمپنیوں کو پہلے سے کہیں بڑھ کر مداخلت کا موقع فراہم کرتا ہے۔ وہ تحفظاتی قوانین سے مارکیٹ میں بگاڑ پیدا کررہے ہیں اور ملک میں کام کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں سے ٹیکنالوجی چوری کر رہے ہیں۔‘‘

فنانشل ٹائمز اور وال سٹریٹ جرنل کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ جانبدارانہ مقابلہ ہے لیکن تمام ممالک (ماسوائے انگلینڈ اور ہالینڈ) نے مختلف وقتوں میں ریاستی سرمایہ کاری کو اپنی مقامی صنعتوں کو ترقی دینے کے لیے کافی حد تک استعمال کیا۔ انہوں نے مسلمہ اور بہتر مسابقت رکھنے والی طاقتوں سے محفوظ رہنے کے لیے محصولات کو بھی استعمال کیا۔

چین بھی اسی رستے کی تقلید کرنے کی کوشش میں ہے مگر کامیابی کی بابت شکوک و شبہات کا شکار ہے۔ بحران کی شروعات کے وقت بھی امریکی اور یورپی معیشت دان اسی جانب توجہ دلا رہے تھے۔ وہ یہ مطالبہ کررہے تھے کہ چین اپنی اجرتوں میں اضافہ کرے، داخلی منڈی کو ترقی دے، برآمدات پر انحصار کم کرے، وغیرہ۔ یہ چینی حکومت کے منصوبوں کے عین مطابق ہے لیکن اس کے نتائج کا بھی سامنا کرنا ہوگا۔

بارودی مواد

اکیسویں صدی کے پہلے عشرے سے چینی ریاست اپنے نظام پر بے حد اعتمادکے ساتھ ابھری مگر مزدور وں میں پائی جانے والی بے چینی کے باعث شدید پریشانی کا شکار ہے۔ حالیہ عشروں میں ہونے والی معاشی ترقی نے ایک دیوہیکل پرولتاریہ کو جنم دیا ہے جو کہ بکثرت صنعتی مراکز میں مجتمع ہے۔ ان میں سے کچھ شہری علاقوں میں تو فی کس جی ڈی پی سپین کے برابر ہے ( مثال کے طور پر گوانگزو اور شین ین)لیکن اجرتوں کی سطح خاصی نیچی ہے (18 ہزار ڈالر کے مقابلے میں 13 ہزار ڈالر)۔ اجرتوں کو بڑھانے کے لیے ریاست پہلے ہی مداخلت کرچکی ہے لیکن یہ عمل معاشی ترقی کو بڑھاوادینے والے بڑے عوامل میں سے ایک کو ختم کرنے کا باعث بن سکتا ہے یعنی سستی مگر نسبتاً تعلیم یافتہ افرادی قوت۔

اجرتوں کو بڑھانے کے لیے لازم ہے کہ چین ایسی مصنوعات پیدا کرے جو کہ زیادہ قدر رکھتی ہوں تاکہ مسابقت قائم رہ سکے۔ انہیں زیادہ سے زیادہ ہائی ٹیک مصنوعات پیدا کرنی ہوں گی جس کے لیے زیادہ ہنرمند محنت کش درکار ہیں۔ بس یہی وہ ذرائع ہیں جن کی مدد سے وہ اس قابل ہوں گے کہ کم اجرتوں اور محنت کی کم پیداواریت سے بلند اجرتوں اور بلند پیداواریت کی طرف بڑھ سکیں۔

چین کے رستے کی بنیادی رکاوٹ معاشی بحران ہے۔ چینی معیشت سست روی کا شکار ہے اور معاشی نمو کی شرح 2007ء میں 14 فیصد سے کم ہو کر 2017ء میں 6.9 فیصد تک آگئی ہے۔ سستے قرضوں (Credit) کے حد سے زیادہ استعمال، جن کو خود حکومت تقویت دیتی آئی ہے، کے باعث انہیں دس سالوں میں کل قرضے جی ڈی پی کے 145 فیصد سے بڑھ کر جی ڈی پی کے 256 فیصد تک جاپہنچے یعنی دگنے ہوچکے ہیں۔ ڈیوٹیوں کے عائد ہونے کے بعدتجزیہ کار کریڈٹ کے مزید پھیلاؤ کا عندیہ دے رہے ہیں۔ یہ زیادہ عرصہ نہیں چل سکتا۔ ٹرمپ اور امریکی بورژوازی یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ چین جن معاشی دشواریوں کا شکار ہے، وہ ان پر دباؤ میں اضافے کا باعث بنیں گی۔ ایسا دیکھنا ابھی باقی ہے۔

اگر چین نئی ٹیکنالوجی کی ترقی کو محدود کرنے پر راضی ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں اسے بڑے پیمانے پر معاشی، سماجی اور سیاسی بحران کا خدشہ ہے جس کے سامنے تیانامن بھی ماند پڑ جائے گا (1989ء تیانامن اسکوائر میں جب احتجاجی طلبہ پر ٹینکوں اور آتشیں اسلحے سے اندھا دھند فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد جاں بحق ہوئے)۔ جس آہنی طریقے سے اس حکومت نے یوغر مظاہروں کے خلاف ردعمل کا اظہار کیا اور جس طریقے سے مزدور کارکنان کے خلاف شکنجہ کسا جا رہا ہے، یہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ یہ حکومت مظاہروں کے عام ہوجانے کے خدشے سے کس قدر خوف کا شکار ہے۔

امریکی بورژوازی کو ایسی ہی خطرناک صورتحال کا سامنا ہے۔ برنی سینڈرز کو ملنے والی حمایت اور ٹرمپ کا صدر منتخب ہونا اس بات کی غمازی ہے کہ امریکی محنت کشوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کو ہے۔ اسی لیے امریکی حکمران طبقہ ان منڈیوں سے چمٹے رہنے کی کوششیں کررہا ہے جہاں وہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ ابھی تک غالب ہے۔ ان حالات میں وہ چین جیسے بڑے مخالف کو پنپنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مسئلے پر نا صرف ڈیمو کریٹس اور ریپبلکن بلکہ یورپی بورژوازی بھی ٹرمپ کے پیچھے متحد ہورہی ہے۔

قومی سلامتی کو درپیش ایک خطرہ

یہ خالصتاًمعیشت کا سوال بھی نہیں ہے۔ کئی موقعوں پر امریکہ نے چینی سیکیورٹی سروسز کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے جو کہ امریکہ کی جاسوسی کے لیے چین میں بننے والی الیکٹرانکس استعمال کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ Huawei اور ZTE دونوں پر امریکہ کو مخصوص اقسام کے ٹیلی کام آلات بیچنے پر پابندی عائد کی چاچکی ہے۔ ظاہری سی بات ہے کہ امریکہ یہ سب کچھ جانتا ہے کیونکہ وہ خود بیس تیس سالوں سے انہی طریقوں سے ہر ایک کی جاسوسی کرتا آیا ہے۔اسی لیے امریکہ متفکر ہے ( اور غالباً ان کے خدشے درست ہیں) کہ کوئی دوسرا ملک جاسوسی میں وہ قابلیت نہ حاصل کر لے جو ابھی صرف امریکہ رکھتا ہے۔

اسی طرح، چین کی عسکری توسیع پسندی سمندروں پر امریکی غلبے کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے۔ یہ ہرگز کوئی حادثہ نہیں ہے کہ حالیہ تجارتی تناؤ ساؤتھ چائنا سمندر میں نئے ٹکراؤ کا باعث بنا ہے جب امریکی بحری جہاز اشتعال انگیزی کرتے ہوئے نئی چینی بحری تنصیبات کے قریب گشت کرتے رہے۔ امریکہ ان کو ’’جہاز رانی کی آزادی‘‘ کا مشن گردانتاہے، جس کا مطلب امریکی بحریہ کی آزادی ہے کہ وہ جس بھی سمندر میں چاہیں گشت کرتے رہیں۔

چین کی جانب سے اتارا گیا جدید بحری بیڑا اور ساتھ ہی ساتھ نئے میزائل، انتہائی اہمیت کے حامل اس تجارتی روٹ پر امریکی غلبے پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں۔ یہ چین کے اس سمندر پر غلبہ حاصل کرنے کے امکان کو بڑھاوا دیتا ہے، جس کا کل بحری تجارت میں ایک تہائی حصہ ہے۔ جدید صارف ٹیکنالوجی کی ترقی چین کو زیادہ جدید آلات پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوگی جو کہ جدید بحری جہازوں اور میزائلوں کے لیے درکار ہے۔

کوئی حال نہیں

امریکہ اور چین کے تعلقات کچھ عرصے سے بگڑتے چلے جارہے ہیں۔ اوباما نے مشرق وسطیٰ سے جان چھڑانے کی کوشش کی تاکہ ’’مشرقی ایشیامیں محور‘‘ قائم کرسکے۔ چین کو تنہا کرنے اور خطے کے ممالک کے ساتھ تجارت کو مضبوط کرنے کی غرض سے اس نے بحرالکاہل میں موجود اتحادیوں کے ساتھ کئی تجارتی مذاکرات کا آغاز کیا۔ ٹرانس پیسیفک پارٹنر شپ اس کا انتہائی اہم حصہ تھا۔

ٹرمپ نے صدر بنتے ہی بے قابو بھینسے کی طرح اوباما حکومت کے کئی سفارتی منصوبوں کے پرخچے اڑا دئیے۔ وہ TPP سے علیحدہ ہوگیا اور خطے کے کئی اہم اتحادیوں پر محصولات عائد کردئیے۔ پہلے یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ بس تجارتی خسارے کے مسئلے میں دلچسپی رکھتا ہے جو کہ امریکی حکمران طبقے کے لیے ایک ثانوی نوعیت کا معاملہ ہے۔ لیکن پچھلے تین چار مہینوں سے وہ واضح طور پر امریکی اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کے ساتھ کھڑا ہوتا نظر آرہا ہے۔ NAFTA 2.0 معاہدہ اس امر کا واضح اظہار ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکی حکمران طبقے کو عارضی ہی سہی مگر اپنے مفادات کی خاطر متحد ہونے کا موقع مل ہی گیا۔

یہ ٹرمپ کے لیے مددگار ہے۔ اب وہ کم و بیش ساری کانگریس کی حمایت کے ساتھ چین کا سامنا کرسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اندرونی معاملات میں اس کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا جاسکے گا۔ساتھ ہی ساتھ ، امریکی پیشکش کو قبول کرنا چین کے لیے ناممکن ہے۔ نہ ہی وہ نئی ٹیکنالوجی کی طرف پیش قدمی روکیں گے اور نہ ہی وہ بڑے ریاستی اداروں کی نجکاری پر آمادہ ہوں گے۔

جانگ شانگ چن، WTO میں چین کا نمائندہ، نے جولائی میں ایک بیان میں کہا کہ چین ایک ’’سوشلسٹ مارکیٹ اکانومی‘‘ ہے اور یہ قیاس آرائی کہ چین اپنا رستہ تبدیل کرلے گا تو یہ بس ’’خوش کن خیال‘‘ ہی تھا۔ جب وہ ’سوشلسٹ‘ کہتا ہے تو اس کی مراد ریاستی اثرورسوخ اور ہدایات ہیں، جو کہ چین کی معاشی ترقی کے لیے شرطِ اول ہے۔ جانگ نے یہ باور کروا دیا کہ چین معیشت میں ریاستی مداخلت کی پالیسی ترک نہیں کرے گا۔

تنازع اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ امریکہ ’سپلائی چین‘ سے چین کو نکال باہر کرنے کی کوشش کرے گا اور ایسی کمپنیوں کی تخلیق کا امکان ابھر رہا ہے جو کہ کئی سپلائی چینز پر کام کریں یعنی ایک مخصوص امریکہ اور ایک بقیہ دنیا کے لیے۔

ایک نیا معمول

کسی قسم کے وقتی معاہدے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بظاہر صدر ٹرمپ نومبر میں ہونے والی G20سربراہ کانفرنس کے موقع پر صدر شی جن پنگ کے ساتھ اس بابت گفت و شنید کے لیے پر امید ہے۔ یہ معاہدہ وقتی نوعیت کا ہوگا۔ آنے والے عرصے میں چین اور امریکہ کے درمیان تنازع شدت اختیار کرے گا، خاص طور پر اس وقت جب اگلے بحران کا آغاز ہوگا۔

جہاں تک تجارتی جنگوں کا تعلق ہے تو جن بوتل سے باہر آچکا ہے۔ ایک لمبے عرصے تک تجارتی جنگیں عالمی تنازعات میں ایک ہتھیار کے طور پر باہر ہو چکی تھیں۔ ٹرمپ ان کو دوبارہ میدان میں لے آیا ہے۔ سعودی عرب نے کینیڈا کے وزیر خارجہ کی ایک ٹویٹ کو بنیاد بناتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ تجارت منقطع کردی۔ اردگان کوایک امریکی پادری کی رہائی کے لیے مجبور کرنے کی کوششوں میں ٹرمپ نے ترکی کی معیشت ہی ڈبو ڈالی۔

بحران کے پہلے عشرے کے اختتام پر، تحفظیت پسندی واضح طور پر اپنا سر اٹھا چکی ہے۔ پہلے دس سالوں میں بورژوازی نے اس کی واپسی روکنے کے لیے سرتوڑ کوششیں کیں۔ 1930ء کے بحران کی کساد بازاری میں بدلنے کی ایک وجہ تحفظیت پسندی تھی۔ کوئی نہیں جانتا کہ تجارت پر انتہائی معمولی محصولات کے استرداد کے عالمی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ کئی سالوں تک بورژوازی اس بات پر زور دیتی رہی کہ یہ ایک آفت سے کم نہ ہوگا۔ مگر اب وہ یہ امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ یہ اتنا بھی برا نہیں ہوگا جتنا وہ سمجھتے تھے۔

جبکہ ایک نئی کساد بازاری کے امکانات سر پر منڈلا رہے ہیں، ان کی فکر مندی جائز ہے۔ جیسے ہی اگلے بحران کا آغاز ہوا،اس قسم کے طویل نوعیت کے تناؤ کانتیجہ لازماً ایک بڑے تنازعے کی صورت میں اپنا اظہار کرے گا۔عالمی تعلقات میں یہ نیامعمول ہے اور مستقبل کے معاشی بحرانوں کو مزید شدید کرنے کا باعث بنے گا۔