مزدوروں کا صنعتوں اور اداروں پر جمہوری کنٹرول کیسے قائم ہو گا؟

برطانیہ میں اداروں کو دوبارہ قومیائے جانے کی بحث کے ساتھ (ایک پالیسی جس کا جیرمی کاربن کی لیبر پارٹی نے وعدہ کیا ہے)، محنت کشوں کے کنٹرول اور مینجمنٹ کا خیال بھی دوبارہ سامنے آگیا ہے۔ یہاں تک کہ حزب اختلاف کے چانسلر (Shadow Chancellor) جان میکڈونل نے کہا ہے کہ دوبارہ قومیائی جانے والی کمپنیاں ماضی کی طرح نہیں چلائی جانی چاہیں بلکہ انہیں محنت کشوں کے زیر انتظام چلنا چاہیے۔

[Source]

یہ بہت آگے کا قدم ہوگا۔ 1945ء کے بعد قومیائے جانے والے ادارے اوپر سے نیچے افسر شاہانہ انداز میں چلائے جاتے تھے۔ انہیں قومی بورڈز کے ذریعے چلایا جاتا تھا جن میں سابق مینیجرز، سابق مالکان، سابق ٹریڈ یونین لیڈران، رجعتی بزرگ افراد، سابق جج اور دیگر ایسے لوگ شامل ہوتے تھے جو کھلم کھلا محنت کشوں کے دشمن ہیں۔

قومیائے جانے والے اداروں کو ہزار ریشوں سے بڑے کاروبار کے ساتھ جوڑا گیا تھا، جس سے یہ یقینی بنایا جاتا تھا کہ وہ دودھ دینے والی گائے کی طرح اجارہ داریوں کے مفاد میں کام کریں۔

اس طرح کی افسر شاہانہ پالیسیاں کافی بد نام ہوئیں۔ ان صنعتوں کے انتظام میں محنت کشوں کا کوئی کردار نہیں تھا۔ کچھ عرصہ بعد انہیں احساس ہوا کہ قومیائے جانے والی صنعتوں کی انتظامیہ بھی باقیوں کی ہی طرح ہے۔اسی لیے قومیانے کی پالیسی کی حمایت کے ساتھ محنت کش یہ سوال بھی اٹھائیں گے کہ ان صنعتوں کو کس طرح چلایا جائے گا، جو محنت کشوں کے کنٹرول کی بحث ہو گی۔

لیکن محنت کشوں کے کنٹرول کا مطلب کیا ہے؟

نیچے سے کنٹرول

بہت سالوں سے مزدور تحریک اور یہاں تک کہ بائیں بازو میں بھی محنت کشوں کے کنٹرول کو لے کر کافی ابہام پایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ’’محنت کشوں کے کنٹرول کی تعلیم دینے والا ادارہ‘‘ بھی قائم کیا گیا، جیسے اسے سمجھنے کے لئے کسی ڈگری یا ڈپلومہ کی ضرورت ہو۔

ماضی کی جدوجہد سے نظر آتا ہے کہ محنت کشوں کا کنٹرول نیچے سے آتا ہے، کام کرنے کی جگہ پر موجود محنت کشوں سے۔ یہ عمومی طور پر تب ہوتا ہے جب محنت کش طبقہ اچھے سے منظم ہو اور آگے بڑھ کر بااختیاروں کے اختیار کو للکارنے کے لیے تیار ہو۔ یہی وجہ ہے 1970ء کی دہائی میں اسے کافی فروغ ملا، جب طبقاتی جدوجہد اپنے عروج پر تھی۔

بلاشبہ اس دور میں ٹریڈ یونینز کے اندر صنعت پر محنت کشوں کے کنٹرول اور انتظام کو لے کر کافی بحث ہوا کرتی تھی۔ اس سے بڑے پیمانے پر قبضوں اور خودکاری کی لہر نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بہت سے محنت کشوں کو اپنی طاقت کا اندازہ ہوا جس سے سماج کو بدلنے اور سرمایہ داری سے ہی نجات حاصل کرنے کے سوال نے جنم لیا۔

حقیقی محنت کشوں کا کنٹرول، جیسا کہ نام سے ہی واضح ہے، کام کی جگہ پر موجود محنت کشوں کا پیداوار کے عمل پر کنٹرول کا نام ہے۔

محنت کشوں کے کنٹرول کی نوعیت کا تعین کام کی جگہ پر موجود محنت کشوں کی تنظیم کی مضبوطی اور لڑاکا پن سے ہوتا ہے۔ یہ جامد نہیں ہوتا بلکہ محنت کشوں اور انتظامیہ کے درمیان مسلسل جاری جدوجہد کا نتیجہ ہوتا ہے۔

محنت کشوں کا کنٹرول تب عمل میں آتا ہے جب محنت کشوں کے نمائندوں کے پاس کمپنی کے حساب کتاب کا معائنہ کرنے، ملازمت پر رکھنے، نکالنے اور دوسرے انتظامی معاملات کا اختیار ہو۔

کام کی جگہوں پر کمزوری

ماضی میں مزدوروں کے منتخب نمائندوں کی کمیٹیوں اور مشترکہ کمیٹیوں میں یہ صلاحیت ہوا کرتی تھی، اور بعض اوقات ایسا کرتے بھی تھے، کہ وہ اپنی لڑاکا قوت کے بل بوتے پر انتظامیہ کی طاقت کو ایک حد میں رکھ سکیں۔ وہ دھیرے دھیرے انتظامیہ کی ذمہ داریوں کو کم کرتے ہوئے پیداوار کے عمل پر اپنا حق جتا لیا کرتے تھے۔
یہ ایک بنیادی وجہ تھی کے مالکان اور ان کے سیاسی نمائندوں نے مزدوروں کی اس طاقت کو نشانہ بنایا اور ساتھ ہی کلوزڈ شاپ (ایک معاہدہ جس میں تمام ملازمین کے لیے یونین کا حصہ ہونا لازمی ہوتا ہے) جیسی حاصلات کو بھی غیر قانونی قرار دے دیا۔

آج صنعتی محاذ بالکل مختلف ہے۔ تحریک 1970ء کی دہائی کے بعد پیچھے دھکیلی جا چکی ہے اور ہڑتالوں کے نتیجے میں بنا کام کے گزرنے والے دنوں کی تعداد تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے۔

جہاں ماضی میں شکایات کو مالکان کے خلاف مشترکہ عمل، ہڑتالیں قبضے وغیرہ، کرتے ہوئے سلجھا لیا جاتا تھا، آج انہیں انفرادی طور پر عدالتوں وغیرہ میں لے جایا جاتا ہے۔ محض استثنائی حالات میں ہی یونینز کسی معاملے کو ہڑتال کے ذریعے سلجھانے کی کوشش کرتی ہیں (یا انہیں دباؤ کے ذریعے مجبور کیا جاتا ہے)۔

اس پر مزید یہ کہ ٹریڈ یونین لیڈران عمل کرنے کی بجائے ٹوری پارٹی کی طرف سے نافذ کردہ ٹریڈ یونین مخالف قوانین کے پیچھے چھپنے لگے ہیں۔

نجی شعبے میں فیکٹریاں بند ہونے اور ارسرِ نو تشکیل اور سرکاری شعبے میں نوکریوں پر کٹوتیوں کی وجہ سے اور ساتھ ہی ساتھ ٹریڈ یونین لیڈر شپ کے پیچھے ہٹنے کی وجہ سے پچھلے تیس سالوں میں ٹریڈ یونینز کی ممبر شپ میں کمی آئی ہے اور محنت کشوں کے کنٹرول سے متعلق خیالات یونین کے ایجنڈے سے غائب کر دیئے گئے ہیں۔

درحقیقت TUC نے صنعت کی سرمایہ دارانہ ملکیت کو تسلیم کرلیا ہے جہاں محنت کشوں کا سوائے قدر زائد پیدا کرنے کے اور کوئی کردار نہیں ہے۔ سیاسی محاذ پر دوبارہ سے محنت کشوں کے کنٹرول کا سوال اٹھایا جا رہا ہے، جو لیبر پارٹی کی قیادت کے بیانات کا نتیجہ ہے۔

اب مزید راز نہیں

محنت کشوں کے کنٹرول کی کیا اہمیت ہے؟ فیکٹریوں کے بند ہونے اور ملازمتوں سے نکالے جانے کے پس منظر کے برعکس محنت کشوں کے کنٹرول کی کامیاب جدوجہد، نام نہاد کاروباری رازوں کے خاتمے، محنت کشوں کے نمائندوں کا کمپنی کے کھاتوں کا معائنہ کرنے کے حق وغیرہ سے کروڑوں محنت کشوں کی آنکھیں کھل جائیں گی اور وہ پس منظر میں ہونے والی دھوکے بازی دیکھ پائیں گے۔ اس سے سرمایہ داری کا حقیقی طرز عمل سامنے آئے گا اور محنت کشوں کے استحصال کی پوری تصویر واضح ہوگی۔ یہ اس نظام کے خاتمے کے لیے ناقابل تردید دلیل ثابت ہوگی۔

’عبوری پروگرام‘ میں ٹراٹسکی بیان کرتا ہے:

’’صنعت کا کنٹرول حاصل کرنے کی جانب پہلا قدم ’کاروباری راز‘ فاش کرنا ہوا کرتا ہے۔ سرمایہ داروں کی طرح محنت کشوں کو بھی فیکٹری، ملکیت، ایک صنعت اور پوری قومی معیشت کے راز جاننے کا حق حاصل ہے۔ سب سے پہلے اور ترجیحی بنیادوں پر بینکوں، بڑی صنعتوں اور ذرائع آمد ورفت کے مرکزی نظام کو زیر نگرانی لانا چاہیے۔‘‘

’’محنت کشوں کے کنٹرول کا فوری کام معاشرے کے حساب کتاب کو واضح کرنا ہونا چاہیے، انفرادی کاروبار کے اعداد و شمار سے آغاز کرتے ہوئے، تا کہ قومی آمدنی کہ اس حصے کا درست اندازہ لگایا جا سکے جس پر انفرادی سرمایہ اور مجموعی طور پر استحصالی طبقہ قبضہ جما لیتا ہے، بینکوں اور مالیاتی اداروں کے پس پردہ معاہدوں اور دھوکے بازیوں کو بے نقاب کرنا اور بالآخر انسانی محنت کے بے تحاشا ضیاع کو معاشرے کے تمام افراد کے سامنے لے کر آنا جو سرمایہ دارانہ افراتفری اور منافعوں کی ننگی ہوس کا نتیجہ ہے۔‘‘

اس دوران محنت کش اپنے حقوق کی جدوجہد کر سکتے ہیں، بے شک فیکٹری نجی ہاتھوں میں اور سرمایہ دارانہ انتظامیہ کے زیر اثر رہے۔

’’محنت کشوں کو کنٹرول محض آرائشی مقاصد کے لیے نہیں بلکہ پیداوار اور ملازمین کی کاروباری سرگرمیوں پر اپنا عملی اثر و رسوخ قائم کرنے کے لیے چاہیے، ‘‘ ٹراٹسکی نے وضاحت کی جب اس سے محنت کشوں کے کنٹرول کے بارے میں پوچھا گیا۔’’اپنی ترقی یافتہ شکل میں محنت کشوں کا کنٹرول فیکٹری، بینک، کاروباری ادارے وغیرہ میں دوہری طاقت کی غمازی کرتا ہے۔‘‘ (محنت کشوں کا پیداوار پر کنٹرول، اگست 1931ء)

دوسرے لفظوں میں محنت کشوں کے کنٹرول کی جدوجہد سرمایہ دارانہ انتظامیہ سے لڑتے ہوئے بہت سے محنت کشوں کی زندگی بہتر بنانے کی جدوجہد کا حصہ ہے۔ اس کا روزمرہ کے کام کرنے کے حالات پر براہ راست اثر ہوتا ہے۔

مالکان کی آمریت

بلاشبہ مالکان طاقت اور حتمی ’’انتظامی حقوق‘‘ سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ نہیں چاہتے کہ محنت کش ان کے ’’حقوق‘‘ میں مداخلت کریں۔ وہ فیکٹری اور کام کی جگہوں پر اپنی آمریت قائم رکھنے کے لیے پر عزم ہیں، جہاں انتظامیہ کی کہی گئی بات قانون کا درجہ رکھتی ہے۔

تمام مینیجرز کو بورڈ آف ڈائریکٹرز اور شیئر ہولڈرز کی ضرورتوں میں دلچسپی ہوتی ہے۔ قوت محرکہ منافعوں کو بڑھانا ہے، اس لیے وہ مسلسل مزدوروں کی شرائط کو دبانے اور ان کی تنخواہوں پر آنے والے ’’خرچ‘‘ کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ اگر یہ ان کے لیے منافع بخش ہو تو وہ کام کی جگہ کو بھی بند کرنے سے نہیں کتراتے، بھلے انسانی زندگیوں کو اس کی قیمت چکانا پڑے۔

محنت کشوں کو مالکان اس انداز میں دیکھتے ہیں کہ یہ بہت سارے ہاتھ ہیں جن سے ان کی آخری حد تک کام لینے کے لیے انہیں رکھا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محنت کشوں کے لیے بہت سی کام کی جگہیں ایک بھیانک خواب کے جیسی بن گئی ہیں۔ایمیزون یا سپورٹس ڈائریکٹ میں موجود ناگفتہ بہ حالات منفرد نہیں بلکہ ہر جگہ ایسی ہی صورتحال ہے۔ برطانیہ میں کام کی جگہوں پر ابلتا ہوا غصہ اور تلخی پائی جاتی ہے، جہاں افرادی قوت کو روز بروز بڑھتے دباؤ کا سامنا ہے۔

ظاہر ہے کہ قومیائی گئی صنعتوں میں ایسے حالات کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ محنت کشوں کو متبادل کا مطالبہ کرنا ہوگا۔ ایسی صورتحال میں منظم مزدور تحریک اور عمومی طور پر محنت کشوں میں ان کے کنٹرول کا خیال حمایت حاصل کر سکتا ہے۔

دوہری طاقت

جب کام کی جگہوں پر حقیقی محنت کشوں کے کنٹرول کے عناصر کام کرنے لگیں، لیکن ذرائع پیداوار ابھی بھی سرمایہ داروں کی ملکیت میں ہوں، تو ایک تضاد جنم لے گا۔ جہاں سرمایہ دار مضبوطی سے کاٹھی پر سوار ہوں، وہاں وہ اپنی سرگرمیوں پر کسی قسم کا کنٹرول یا نگرانی برداشت نہیں کریں گے۔ انہیں اس بات کا ادراک ہوگا کہ ’’دوہری طاقت‘‘ موجود ہے اور محنت کش اور مالکان دونوں کام کی جگہ اپنے مطابق چلانے کی کوشش میں ہیں۔صرف تب ہی انتظامیہ کی گرفت کمزور کر کے محنت کشوں کے کنٹرول کو بڑھایا جا سکتا ہے جب محنت کش مسلسل جارحانہ رویہ اختیار کیے رکھیں۔ صورتحال جتنی زیادہ انقلابی ہو گی محنت کشوں کا کنٹرول بھی اتنا ہی مضبوط ہوگا۔

یہ عبوری سے لے کر ’دوہری طاقت‘ ہو سکتی ہے، صرف فیکٹری میں ہی نہیں بلکہ انقلابی حالات میں پورا معاشرہ ’’دوہری طاقت‘‘ کے زیر اثر ہوتا ہے۔ 1968ء کے فرانس میں بھی یہی صورت حال تھی۔

ہم دیکھتے ہیں کہ اپنی پختہ شکل میں محنت کشوں کا کنٹرول سوشلسٹ انقلاب کے لیے ایک پل یا پیش رو کا کردار ادا کر سکتا ہے۔یقیناًیہ ناگزیر نہیں ہے۔ 1970ء کی دہائی میں برطانیہ میں محنت کشوں کا کنٹرول کافی آگے چلا گیا تھا، جو معاشرے میں ایک انقلاب سے پہلی کے مزاج کی غمازی کر رہا تھا۔ مگر یہ ایک انقلابی صورتحال میں تبدیل نہ ہو پایا۔

ٹراٹسکی نے وضاحت کی کہ

’’اگر بورژوا طبقہ پہلے ہی مالک نہیں رہتا، یعنی اپنی فیکٹری میں پوری طرح مالک نہیں رہتا، تو اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ وہ اپنی ریاست کا بھی پوری طرح مالک نہیں رہتا،اس کا مطلب یہ ہے کی فیکٹریوں میں دوہری طاقت کی حکومت ریاست میں بھی دوہری طاقت کی کہ حکومت کے مترادف ہے۔‘‘

پنچایتیں اور عملی کونسلیں

یہ محنت کشوں کے کنٹرول کا پیغام ہے جو فیکٹری کی زندگی میں سرایت کرتا ہوا صنعت کی مختلف شاخوں تک جا پہنچتا ہے، مختلف علاقوں تک اور بالآخر قومی سطح پر آ ملتا ہے۔امریکہ میں 1930ء کی دہائی میں دھرنوں پر مشتمل ہڑتالوں کی ایک بہت بڑی تحریک چل رہی تھی، جس سے CIO کی تشکیل ہوئی۔1979ء کی دہائی میں برطانیہ میں فیکٹریوں پر قبضے اور خودکاری کی ایک لہر موجود تھی جس نے محنت کشوں کے کنٹرول کو اس کے عروج پر پہنچا دیا تھا۔البتہ یہ محنت کشوں کی کمیٹیوں کی شکل بھی اختیار کر سکتا تھا، یہاں تک کہ روس میں 1905ء اور 1917ء کی طرح سوویتوں(روسی زبان میں کونسل/پنچایت کو سوویت کہا جاتا ہے)، یا پھر 1918ء میں آسٹریا اور جرمنی کی طرح ’ورکرز کونسلز‘ کی بھی شکل بن سکتی تھی۔

برطانیہ میں 1920ء اور 1926ء میں ’’عملی کونسلیں‘‘ (Councils of Action) تھیں۔ درحقیقت یہ ہڑتال کمیٹیوں کی توسیع شدہ شکل تھی۔لیکن یہ خودکار عمل نہیں ہے، جیسا کہ ٹراٹسکی نے وضاحت کی ہے:

’’بحران، بیروزگاری اور سرمایہ داروں کے ظالمانہ حملوں کے زیر اثر محنت کشوں کی اکثریت کاروباری رازوں کے خاتمے اور بینکوں، تجارت اور پیداوار پر کنٹرول کے خاطر لڑنے کے لیے تیار ہوتی ہے، اس سے قبل کہ وہ طاقت پر انقلابی قبضے کی لازمیت کو سمجھے۔‘‘

اگر محنت کشوں کے کنٹرول کی جدوجہد فیکٹری یا صنعت کے قومیائے جانے تک نہیں پہنچتی پاتی تو وہ پیچھے جا سکتی ہے۔ وہ یہ سوال کھڑا کرتی ہے کے فیکٹری کا کنٹرول کس کے پاس ہے؟ اگر اس کا جواب محنت کشوں کے حق میں نہیں ہوتا تو حالات سرمایہ داروں کے حق میں کروٹ بدلنے لگتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں محنت کشوں کے کنٹرول کی جدوجہد تحریک کے لیے لازمی ہو جاتی ہے۔

شرکت

محنت کشوں کی شرکت بالکل مختلف ہوتی ہے۔ اسے وہ تقویت دیتے ہیں جو محنت کشوں کو سرمایہ دارانہ انتظامیہ سے جوڑنے کی کوشش میں نام نہاد فیصلہ سازی کے عمل میں شامل کرتے ہیں۔ ’’ہمیں 20 محنت کشوں کو نکالنا ہے۔ آپ ان کا انتخاب کر سکتے ہیں۔‘‘

اس طرح کی ’شرکت‘ ٹریڈ یونین عہدیداران میں کافی مقبول ہے، جو انہیں ایک بڑا کردار دیتی ہے، طبقاتی جدوجہد میں نہیں بلکہ طبقاتی مصالحت میں۔ جرمنی میں1920ء کی دہائی میں جنگ کے بعد کے دور میں ’’مانڈازم (Mondism)‘‘ کا بھی یہی معاملہ تھا۔ اسے ’’مل کر فیصلے کرنا (codetermination)‘‘ یا ’’Mitbestimmung‘‘ کہا جاتا ہے، جس میں محنت کشوں کو ان کمپنیوں کے انتظام میں حصہ ڈالنے کا اختیار دیا جاتا ہے جن کے لیے وہ کام کرتے ہیں۔ یہ قانون محنت کشوں کو حق دیتا ہے کہ وہ ڈائریکٹرز کے نگران بورڈ میں تقریباً آدھی تعداد میں اپنے منتخب شدہ نمائندے (عموماً ٹریڈ یونین کے نمائندے) شامل کر سکتے ہیں۔ جرمنی میں یہ قانون بھی موجود ہے کہ مقامی کام کی جگہوں کی سطح پر محنت کشوں کو ورکس کونسلز (Works Councils) بنانے کا اختیار حاصل ہے۔

یہ واضح طور پر محنت کشوں، اور خاص طور پر ان کے ٹریڈ یونین نمائندوں کو، کمپنی کے ’فائدے‘ میں کیے گئے فیصلوں میں الجھانے کا ایک انتظام ہے۔ سرمایہ دارانہ ملکیت میں ہونے کی وجہ سے مزدوروں کے نمائندوں کو کمپنی کے منافعوں میں اضافہ کرنے اور ’عمومی فائدوں‘ کے لیے ’ساتھ ملا لیا‘ جاتا ہے۔ انکا بہرحال دوسری ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں سے مقابلہ ہوتا ہے اور اس مقصد کے لیے انہیں لاگت کم سے کم رکھنا پڑتی ہے۔

یہ بنیادی طور پر ایک ٹرانسمیشن بیلٹ کا کام کرتی ہے، جس کا رخ محنت کشوں سے انتظامیہ کی جانب نہیں بلکہ اس سے الٹ ہوتا ہے، انتظامیہ سے محنت کشوں کی جانب۔ یہ محض ایک طبقاتی اشتراک سے زیادہ کچھ نہیں، سرمائے اور محنت کے درمیان ایک مفاہمتی پالیسی، جس کا مقصد محنت کشوں کو نظام سے جوڑے رکھنا اور جھگڑے سے بچنا ہے۔یونین عہدے داروں کے لیے مل کر کام چلانا معیشت کی ’جمہوریت‘ کا عمل ہے، جو درحقیقت اصل معاملات کو چھپانے کے لیے ہے۔

طبقاتی اشتراک

ہمیں یہ مثال بینک آف انگلینڈ کے معاملے میں ملتی ہے کہ کس طرح ٹریڈ یونین قائدین کو سرمایہ دارانہ مینجمنٹ کی ذہنیت کے اندر کھینچ لیا جاتا ہے۔ بہت سے ٹریڈ یونین لیڈران اس کے گورننگ بورڈ کا حصہ بنے۔ 2010ء میں بینک کے گورنر میں مروین کنگ نے ٹریڈ یونین کانگرس سے خطاب کرتے ہوئے اظہار تشکر کیا:’’ آپ کی جنرل کونسل کے ارکان نے ہمارے بورڈ، بینک کورٹ، میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے بینک آف انگلینڈ کی بہت خدمت کی ہے۔ برینڈن باربر آج سے روایت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ہماری گفت و شنید میں اہم اور منفرد زاویوں کا اضافہ کرکے انہوں نے کئی مشکل ادوار سے گزرنے میں ہماری مدد کی ہے۔ میں ان کا شکر گزار ہوں۔‘‘

اس سے واضح ہوتا ہے کہ کس طرح مزدور تحریک کے رہنماؤں کو سرمایہ داری کے گرداب میں کھینچ لیا جاتا ہے اور وہ ان خواتین و حضرات کے ساتھ محنت کشوں کے نمائندوں کے طور پر نہیں بلکہ سرمایہ درانہ نظام کے دوستانہ مشیروں کی حیثیت سے موجود ہوتے ہیں۔

بلاشبہ لیبر پارٹی کے سابق ممبر پارلیمان اور ٹریڈ یونین لیڈران پچھلے کئی سالوں سے نان ایگزیکٹو ڈائریکٹرز (non executive directors) اور بورڈز اور کوانگوز (quangos) کے سربراہان کے لیے پہلی پسند رہے ہیں۔ انہوں نے محنت کشوں کی نمائندگی کا دکھاوا بھی بند کردیا ہے اور اس کی جگہ کھلے عام طبقاتی اشتراک کی پالیسی اپنا لی ہے۔

ٹراٹسکی نے بہت پہلے یہ وضاحت کر دی تھی کس طرح کے عوامل کس چیز کی غمازی کرتے ہیں،

’’(۔۔۔) محنت کشوں کا سرمائے پر کنٹرول نہیں بلکہ مزدور اشرافیہ کی سرمائے کی بیعت۔تجربات سے پتا چلتا ہے کہ یہ بیعت کافی لمبا عرصہ چل سکتی ہے، اس کا انحصار پرولتاریہ کے صبر و تحمل پر ہے۔ فیکٹری کونسلز کے ذریعے محنت کشوں کا کنٹرول صرف طبقاتی جدوجہد سے حاصل کیا جا سکتا ہے اشتراک سے نہیں۔‘‘

محنت کش انتظامیہ

محنت کشوں کا کنٹرول نیچے سے آتا ہے، بنیادی طور پر منتخب نمائندوں اور فیکٹری کمیٹیوں سے، جبکہ محنت کش انتظامیہ اوپر سے آتی ہے، محنت کشوں کی کونسلز کے مرکزی نظام کے ذریعے۔ مقامی فیکٹریوں کی کمیٹیاں اپنے اصل میں ہی نیشنل کونسل کے تابع ہوتی ہیں۔اس سے محنت کشوں کی ریاست کا جواز پیدا ہوتا ہے، جہاں انتظام نیشنل کونسلز کے ہاتھوں میں ہو گا جو پیداوار کے قومی منصوبے پر عمل درآمد و نگرانی کریں گی، جس سے معیشت تال میل کے ساتھ چلے گی۔ اس سے پورے محنت کش طبقے کی نمائندگی ہوگی، نہ کہ علیحدہ علیحدہ فیکٹریوں کے مفادات کی۔

یہی وجہ ہے کہ مارکسسٹ انجمن کاروں(syndicalists) کے خیالات کی مخالفت کرتے ہیں کہ ہر صنعت کے محنت کشوں کو اپنی اپنی صنعت چلانی چاہیے۔ یعنی ریلوے کے محنت کش ریلوے کا انتظام چلائیں، سٹیل ورکرز سٹیل کی صنعت کا انتظام چلائیں وغیرہ وغیرہ۔اگر علیحدہ علیحدہ فیکٹریاں سب کچھ طے کرنے لگیں تو جلد ہی قومی منصوبہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا۔ سب کچھ بے ترتیب ہوجائے گا اور منصوبہ بندی کے قابل نہیں رہے گا۔

ٹراٹسکی وضاحت کرتا ہے،

’’سادہ سے سادہ معاشی منصوبہ بھی، استحصال کرنے والوں کے نہیں بلکہ استحصال زدہ طبقے کے نقطہ نظر سے، محنت کشوں کے کنٹرول کے بغیر ناممکن ہے یعنی سرمایہ دارانہ معیشت کے ڈھکے چھپے یا ظاہر پہلوؤں پر محنت کشوں کی گہری نظر کے بغیر۔‘‘

’’انفرادی کاروباری اداروں کی نمائندگی کرنے والی کمیٹیوں کی کانفرنس بلا کر اس میں ٹرسٹس کی کمیٹیوں کا انتخاب کرنا چاہیے، پھر صنعت کی ایک شاخ، پھر ایک معاشی علاقے اور بالآخر مشترکہ طور پر پورے ملک کی صنعت کی کمیٹی کا انتخاب ہونا چاہیے۔ اس طرح محنت کشوں کا کنٹرول منصوبہ بند معیشت کا ایک سکول بن جاتا ہے۔ کنٹرول کے تجربے کی بنیاد پر پرولتاریہ خود کو وقت آنے پر قومیائی گئی صنعت کا انتظام سنبھالنے کے لیے تیار کرتا ہے۔‘‘ (عبوری پروگرام)

دوسرے لفظوں میں محنت کشوں کا کنٹرول محنت کشوں کے انتظام اور سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کی جانب پہلا قدم ہے۔

ایک سوشلسٹ منصوبہ

لیبر پارٹی کی حکومت میں جو صنعتیں عوامی ملکیت میں لی جائیں انہیں محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول اور انتظام میں دیا جانا چاہیے۔

قومیائی گئی صنعتوں کے بننے والے بورڈز میں نمائندگی کچھ یوں ہونی چاہیے: ایک تہائی اس صنعت میں کام کرنے والے محنت کش، ایک تہائی محنت کش تحریک سے تا کہ مجموعی طور پر محنت کشوں کی نمائندگی ہوسکے اور ایک تہائی حکومت سے تا کہ ’’وسیع تر عوامی مفاد کا خیال رکھا جا سکے‘‘۔

یہ سب ساتھ ساتھ چلنا چاہیے، موٹی موٹی تنخواہوں والے ’محنت کش ڈائریکٹر‘ لگا کر نہیں بلکہ ایسا ایک اوسط ہنر مند محنت کش کے برابر اجرت پر ایک طبقاتی جنگجو کے انتخاب کے ذریعے ہونا چاہیے۔

جو ان نمائندوں کو منتخب کریں ان کے پاس کسی بھی وقت ان کو واپس بلانے کا اختیار بھی موجود ہونا چاہیے۔ ان نمائندوں کا کام محنت کش طبقے کی نمائندگی کرتے ہوئے سرمایہ داروں کے گروہوں اور کھلی یا ڈھکی چھپی سازشوں کو بے نقاب کرنا اور اپنے عہدے کا استعمال کرتے ہوئے معیشت کے ’بنیادی ستونوں‘ کو ایک سوشلسٹ پیداواری منصوبے کے تحت قومیانے کی آواز اٹھانا ہونا چاہیے۔

ہم لیبر پارٹی کی حکومت سے کہتے ہیں: محض ان سہولیات کو قومیانے تک محدود نہ رہو جن کی نجکاری کی گئی تھی، بلکہ ان تمام شعبوں کو تحویل میں لو جن کا معیشت پر غلبہ ہے؛ اجارہ داریاں، بینک اور مالیاتی ادارے؛ ان موٹی بلیوں کو کسی قسم کا معاوضہ ادا کئے بغیر۔

یہی پروگرام مزدور تحریک کی بحالی کا باعث بنے گا اور کروڑوں محنت کرنے والے افراد کو حقیقی رستہ دکھائے گا جو شدت سے کسی متبادل کی تلاش میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ٹریڈ یونین تحریک کو محنت کشوں کے کنٹرول اور انتظام کا مطالبہ لے کر آگے بڑھنا چاہیے۔