پیپلز پارٹی کا احیا: نظریات یا شخصیات؟

مشہور ترقی پسند امریکی مصنف ویڈال گور نے امریکہ کی سیاست پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’امریکہ میں سرمایہ داروں کی ایک پارٹی ہے جس کے دو دائیں بازو ہیں۔‘‘ ویڈال گور کی مراد ریپبلکن اور ڈیموکریٹ پارٹیوں سے تھی۔ امریکی حکمران طبقے کی نمائندہ یہ دونوں پارٹیاں ’’اختلافات‘‘ کا جتنا بھی ناٹک رچاتی رہیں، استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کو قائم رکھنے اور دنیا بھر میں امریکی سامراج کے تسلط کو برقرار رکھنے کے معاملے میں ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اگر آج کے عہد میں پاکستان کے سیاسی منظر نامے کا جائزہ لیا جائے تو لوٹ مار کے گرد جنم لینے والے ثانوی نوعیت کے ’’اختلافات‘‘ کے باوجود ہمیں پاکستان میں سرمایہ داروں کی ایک ہی سیاسی جماعت ملتی ہے جس کے کئی دائیں بازو ہیں۔ پاکستانی معیشت، ریاست اور سیاست کا بحران اگرچہ حدوں کو چھو رہا ہے جس کا اظہار ہمیں سیاسی انتشار اور بیہودہ تکرار کی شکل میں نظر آتا ہے لیکن مذہبی دائیں بازو سے لے کر پیپلز پارٹی تک ، اس ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں اس مفلوج سرمایہ دارانہ نظام کے معاشی جبر کو قائم رکھنے پر متفق ہیں۔

ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد، 1968-69ء میں اس ملک کے محنت کش عوام نے ایک انقلابی تحریک برپا کر کے استحصالی نظام کے سیاسی، معاشی اور ریاستی ڈھانچوں کو چیلنج کیا تھا۔ میڈیا اور حکمران طبقے کی دانش کی جانب سے پیدا کئے گئے مصنوعی تاثر کے برعکس، عوام کی سیاسی روایت کے طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کا ابھار 1970ء کی انتخابی فتح کی بجائے 1968-69ء کی عوامی تحریک کی ثانوی پیداوار تھا۔ عوام نے اس انقلابی سوشلزم کی بنیاد پر پیپلز پارٹی کو اپنی امنگوں کا ترجمان بنایا تھا جسے 1967ء کی تاسیسی دستاویز میں پارٹی کی تخلیق کا مقصد و منشا قرار دیا گیا تھا۔ پارٹی کا انتخابی منشور تو تبدیل کیا جاسکتا ہے لیکن تاسیسی دستاویزات اٹل تاریخی حقیقت بن جایا کرتی ہیں۔ تاہم ریڈیکل سوشلسٹ منشور اپنانے کے باوجود پیپلز پارٹی اپنے ڈھانچوں، طریقہ کار اور لائحہ عمل کے لحاظ سے کوئی لینن اسٹ پارٹی نہ تھی جو محنت کش طبقے کی جدوجہد کو منطقی انجام تک پہنچا سکتی۔ یہ ایک پاپولسٹ پارٹی تھی جو انقلابی لینن اسٹ پارٹی کی عدم موجودگی میں ناگزیر طور پر پیدا ہونے والا سیاسی خلا پُر کر کے محنت کشوں کی سیاسی روایت بن گئی۔ پیپلز پارٹی نے اپنی پوری تاریخ میں صرف 1970ء کی دہائی کے ابتدائی چند سالوں میں ہی (وہ بھی شدید عوامی دباؤ کے تحت) محنت کش عوام اور پسے ہوئے طبقات کے حق میں ریڈیکل اصلاحات کیں۔ اس ملک کی نحیف سرمایہ داری کی قیود میں رہ کر کی جانے والی یہ ادھوری اصلاحات نامراد ثابت ہوئیں اور دائیں بازو کی تقویت کا باعث بنیں جس کے بعد ازاں ضیا الحق کے خونی مارشل لا کی راہ ہموار ہوئی۔

حکمران طبقے کے مفادات پر وار کرنے کی پاداش میں ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا اور اس ملک کے کروڑوں عوام کو انقلابی سرکشی کی سزا ضیا الحق کی درندہ صفت آمریت کے ذریعے دی گئی۔ اس کے بعد سے سامراج، ریاستی اسٹیبلشمنٹ اور حکمران طبقے کو ’’خوش‘‘ کرنے کے لئے پیپلز پارٹی کی ہر قیادت نظریاتی انحراف اور موقع پرستی کا شکار ہوتی چلی گئی۔ کسی انقلابی متبادل کی عدم موجودگی میں بار بار کے دھوکوں اور غداریوں کے باوجود عوام اپنی سیاسی روایت سے وابستہ رہے۔ لیکن 2008-13ء کی پچھلی پیپلز پارٹی حکومت نے ماضی کی تمام حدود عبور کر کے محروم طبقات کو نیو لبرل معاشی جبر سے برباد کر کے رکھ دیا۔ نتیجہ مئی 2013ء میں پارٹی کی بد ترین انتخابی شکست کی صورت میں نمودار ہوا۔ سندھ میں صوبائی حکومت بنا لینے کے باوجود پیپلز پارٹی کی عوامی حمایت محدود اور اس کے رہنماؤں کی ساکھ کم و بیش ختم ہو چکی ہے۔

اب پیپلز پارٹی پر براجمان زرداری ٹولہ حکمران طبقے، ریاست اور میڈیا کے کچھ دھڑوں کی مدد سے پارٹی کی ختم ہوتی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کے لئے بلاول زرداری کو ’’بھٹو کا نیا جنم‘‘ بنا کر پیش کر رہا ہے۔ وراثت پرستی کی بنیاد پر اسے عوامی لیڈر کے طور پر ابھارنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بلاول کو اپنے دادا کی طرح تقریر کرنے اور باڈی لینگویج اپنانے کی خصوصی تربیت دی گئی ہے تاہم اس کی ’’پرفارمنس‘‘ زیادہ تسلی بخش نہیں ہے۔ ظاہری وضع قطع پر تو پورا زور لگا دیا گیا ہے لیکن اس نظریاتی مواد پر کوئی توجہ نہیں ہے جس نے ذوالفقار علی بھٹو کو کرشماتی وجاہت اور شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا تھا۔ زیادہ تر ناقدین بھی محض شخصیت کی بنیاد پر ہی بلاول کا تجزیہ کر رہے ہیں۔ ایک اور اہم عنصر جسے یکسر انداز کیا جارہا ہے وہ معروضی صورتحال اور محروم طبقات کی شعور کیفیت ہے۔ اپنے روایتی رہنماؤں سے مایوس اور بددل ہوجانے کے بعدعوام کی اکثریت فی الوقت سیاست سے بے بہرہ اور لاتعلق ہے۔ 

ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی اور بااعتماد ترین ساتھیوں میں سے ایک، عبدالحفیظ پیرزادہ نے کچھ سال قبل ان کی 30ویں برسی کے موقع پر ایک ٹیلوژن انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’بھٹو کے زوال اور بعد ازاں قتل کی سب سے بنیادی اور حتمی وجہ ان کی جانب سے دو بالکل متضاد نظریات کو جوڑنے کی کوشش تھی: سوشلزم اور نیشنل ازم۔‘‘ لیکن بلاول اس سے بھی دو ہاتھ آگے کا کام کررہا ہے۔ ایک طرف وہ مسئلہ کشمیر جیسے ایشوز پر قومی شاونزم کا موقف اختیار کر رہا ہے تو دوسری طرف ’’سوشلزم‘‘ کا نام لینے سے بھی گریزاں ہے، پارٹی قیادت ہر وہ نظریاتی فرق مٹا چکی ہے جو کسی زمانے میں سیاسی افق پر پیپلز پارٹی کو دوسری پارٹیوں سے ممتاز کیا کرتا تھا۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کی طبقاتی سیاست تھی جس نے پیپلز پارٹی کو چند سو لوگوں کی تنظیم سے ملکی تاریخ کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بنا ڈالا تھا۔ انقلابی تبدیلی کا خواب تھا جس نے کروڑوں محکوموں کو حوصلہ اور ہمت دے کر سیاسی میدان میں اتارا اور پیپلز پارٹی کو وہ سماجی بنیادیں میسر آئیں جو تین نسلوں تک قائم رہیں۔ بلاول قوم پرستی کی جو لفاظی کرنا چاہ رہا ہے وہ عمران خان اور قادری سمیت دائیں بازو کا ہر سیاست دان کرتا ہے۔ سوائے مڈل کلاس کی کچھ پرتوں کے ، ’’قوم‘‘ اور مذہب کے ان کھوکھلے نعروں کو غربت اور محرومی سے شکار عوام میں کبھی مقبولیت نہیں ملی ہے۔

ایوو مورالس نے کچھ عرصہ پہلے بجلی کی سامراجی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو نیشنلائز کر لیا تھا جس کے بعد سے بولیویا میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو گیا ہے اور بجلی کی قیمتیں ساٹھ فیصد کم ہوئی ہیں

پیپلز پارٹی پر براجمان ٹولہ، کارپوریٹ میڈیا اور ’’رائے عامہ‘‘ کے تخلیق کاروں کی اس پراپیگنڈا یلغار میں غرق ہو گیا ہے کہ ’’سوشلزم تو ختم ہو گیا۔‘‘ اس پارٹی میں انقلابی سوشلزم کی بات کرنا ہی گناہ بنا دیا گیا ہے جس کی بنیاد، اساس اور شروعات سوشلزم کے نعرے پر مبنی تھی۔ مفلوج دماغ کے یہ ’’دانشور‘‘ شاید دیکھنے سے قاصر ہیں کہ اسی ہفتے ایوو مورالس سوشلزم کے نعرے پر مسلسل تیسری بار صدر منتخب ہو چکا ہے۔ برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق ’’بولیویا کے نو منتخب صدر نے سوشلزم پر وار کرنے والے امریکی سامراج، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے منہ بند کروا دئیے ہیں۔‘‘ ونزویلا، ایکوا ڈور، ونزویلا اور دوسرے کئی ممالک میں ریڈیکل بائیں بازو کی انتخابی کامیابیاں سامراج کے اس پراپیگنڈا کو سراسر بے بنیاد ثابت کرتی ہے کہ سوشلزم انتخابی سیاست پر بوجھ بن چکا ہے۔ بہر حال، پارٹی اشرافیہ کو سرمایہ داروں اور رئیل اسٹیٹ کے بدعنوان آقاؤں سے ملنے والے ’’فنانس‘‘ اور ’’احکامات‘‘ کے پیش نظر ، بلاول میں سوشلزم جیسے ’’ممنوعہ‘‘ الفاظ ادا کرنے کی جرات نہیں ہے۔

اس بات کو ممکنات میں سے خارج نہیں کیا جاسکتا کہ پارٹی کی مسلسل ٹوٹ پھوٹ اور ختم ہوتی ہوئی سماجی بنیادوں کی اس کیفیت میں بلاول سے زیادہ ریڈیکل لفاظی کروائی جائے۔ پارٹی کی لمپن سرمایہ دارانہ قیادت پر ’’ترقی پسندی‘‘ کا غلاف چڑھانے والے ’’بائیں بازو‘‘ کو اس قسم کے مشوروں اور خدمات کا ہی ’’معاوضہ‘‘ دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر ایسا ہوتا بھی ہے تو ’’بہت تھوڑا اور بہت دیر‘‘ سے ہوگا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے بار بار عوام کی امیدیں اور سپنے سر بازار نیلام کئے ہے۔ لوگ ایک بار پھر پیپلز پارٹی قیادت کی ’’معافی‘‘ پر یقین کر کے اس مرتی ہوئی سیاسی روایت میں جان ڈالنے سے پہلے سو بار سوچیں گے۔ تاہم ایک بڑی عوامی تحریک کے اچانک پھٹ پڑنے سے یہ سارا عمل یکسر تبدیل ہو سکتا ہے۔ ایسی کیفیت میں سوشلسٹ بنیادوں پر پیپلز پارٹی کا ابھار 1967ء سے کہیں زیادہ بلند معیاری پیمانے پر ہوسکتا ہے لیکن پھر پارٹی کو برباد کر کے موجودہ نہج تک پہچانے والوں کے لئے کوئی جگہ نہیں بچے گی۔ اگر پارٹی کو ہائی جیک کرنے والوں نے اس راستے پر بند باندھنے کی کوشش کی تو ناگزیر طور پر انقلابی مارکسزم کی قوت، محنت کشوں اور نوجوانوں کی سیاسی روایت کے طور پر ابھرے گی۔ حالات جس کروٹ بھی بیٹھیں، عوام کی نجات رائج الوقت معاشی، سماجی اور سیاسی ڈھانچوں کو انقلابی بنیادوں پر یکسر تبدیل کر دینے میں ہی مضمر ہے۔ پیپلز پارٹی کی تاسیسی دستاویز اس بارے میں بالکل غیر مبہم ہے: ’’صرف سوشلزم ہی سماج کے تمام افراد کے لئے یکساں مواقع فراہم کر کے اور استحصال کا خاتمہ کر کے معاشی اور سماجی انصاف فراہم کر سکتا ہے۔ سوشلزم ہی جمہوریت کا بلند ترین اظہار ہے۔‘‘

Source